Thread Rating:
  • 2 Vote(s) - 2 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
Biwi se ziada wafadar - Urdu Font - Copied
#1
میرا نام وسیم ہے میرا تعلق ملتان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے میرے گھر کےکل 5 افراد ہیں .میں میری امی میرے ابّا جی میری دو بہن ہیں. سب سے پہلے میری بڑی بہن ہے جس کا نام فضیلہ ہے وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کی ماں ہے . پِھر دوسرے نمبر میرا ہے میری بھی شادی ہو چکی ہے اور آخر میں میری چھوٹی بہن نبیلہ ہے جو کے ابھی غیر شادی شدہ ہے. اب میں اصل کہانی کی طرف آتا ہوں یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں میٹرک کر کے فارغ ہوا تھا اور آگے پڑھنے کے لیے ملتان شہر کے ایک کالج میں جاتا تھا . میرے ابّا جی ایک زمیندار تھے ہمارے پاس اپنی10 ایکڑ

زمین تھی .ابّا جی کے ایک چھوٹا بھائی تھا آدھی زمین اس کی تھی آدھی میرے ابّا جی کی تھی میرے ابّا جی اور چا چا اپنے اپنے حصے کی زمین پے کاشتکاری کیا کرتے تھے جس سے ہمارے گھر کا نظام چلتا تھا. جب میرا کالج کا آخری سال چل رہا تھا تو میرے چھوٹا چا چا اس نے میرے ابّا جی کو کہا کے وہ زمین بیچ کر اپنی فیملی کے ساتھ لاہور شہر میں جا کر سیٹ ہونا چاہتا ہے اور اپنے بیٹیوں کو شہر میں ہی اچھا پڑھانا چاہتا ہے میرے چا چےکی صرف 2 بیٹیاں ہی تھیں ، اِس لیے وہ اپنے حصے کی زمین بیچا چاہتا ہے. میرے ابّا جی نے بہت سمجھایا کے یہاں ہی رہو یہاں رہ کر اپنی بیٹیوں کو پڑھا لو لیکن اپنی زمین . نہیں بیچو لیکن میرا چا چا نہیں مانا اور آخر کار میرے ابّا جی نے اپنی بھی اور چا چے کی بھی زمین بیچ دی اور آدھی رقم چھوٹے چا چے کو دے دی اور آدھی رقم کو بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلوا کر جمع کروا دی. اور پِھر ایک دن میرا چا چا اپنی فیملی کے ساتھ لاہور شہر چلا گیا . اور میرے ابّا جی بھی گھر کے ہو کر رہ گئے . میری بڑی باجی کی عمر اس وقعت 27 سال ہو چکی تھی میرے ابّا جی نے زمین کے کچھ پیسوں سے باجی کی شادی کر دی میری باجی کی شادی بھی اپنے رشتہ داروں میں ہو ہوئی تھی میری باجی کا میاں میری خالہ کا ہی بیٹا تھا. میں نے جب کالج میں بارہویں جماعت پاس کر لی تو میرے گھر کے حالات اب آگے پڑھنے کی اِجازَت نہیں دیتے تھے. اور میں نے بھی اپنے گھر کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ابّا جی پے بوجھ بنا گوارہ نہ کیا اور گھر کو سنبھالنے کا سوچ لیا. میں نے یہاں وہاں پے روزگار کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا . پِھر میں نے باہر کے ملک جانے کا سوچا پہلے تو میرے ابّا جی نے منع کر دیا لیکن پِھر میں نے ان کو گھر کے حالات سمجھا کر قائل کر لیا اور ابّا جی کے پاس جو باقی پیسے تھے ان پیسوں سے مجھے باہر سعودیہ بھیج دیا اور میں22 سال کی عمر میں ہی روزگار کے لیے سعودیہ چلا گیا. سعودیہ آ کر پہلے تو مجھے بہت مشکل وقعت برداشت کرنا پڑا لیکن پِھر کوئی 1 سال بعد میں یہاں سیٹ ہو گیا میں نے یہاں آ کر ڈرائیونگ سیکھ لی اور پِھر یہاں پے ہی ٹیکسی چلانے لگا . شروع شروع میں مجھے ٹیکسی کے کام کا اتنا نہیں پتہ تھا لیکن پِھر آہستہ آہستہ مجھے سب پتہ چلتا گیا اور میں ایک دن میں 14گھنٹے لگاتار ٹیکسی چلا کر پیسے کماتا تھا . آہستہ آہستہ میری محنت سے پاکستان میں میرے گھر کے حالات ٹھیک ہونے لگے اور تقریباً 5 سال میں میں 2 دفعہ ہی پاکستان گیا لیکن اِس محنت کی وجہ سے میرے گھر کے حالات کافی زیادہ ٹھیک ہو چکے تھے میں نے اپنے گھر کو کافی زیادہ اچھا اور مضبوط بنا لیا تھا ہمارا گھر 10مرلہ کا تھا پہلے وہ ایک حویلی نما گھر ہی تھا اس میں 3 کمرے اور کچن اور باتھ روم ہی تھا . پِھر میں نے سعودیہ میں رہ کر سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کیا آب وہ حویلی نما گھر مکمل گھر بن چکا تھا اس کو ٹھیک کر کروا کر 2 سٹوری والا گھر بنا لیا پہلی سٹوری پے 3 ہی کمرے تھے اور دوسری اسٹوری پے 2 اور کمرے باتھ روم اور کچن بنا لیے تھے . مجھے سعودیہ میں کام کرتے ہوئے کوئی 6سال ہو چکے تھے اس وقعت میری عمر 28سال تھی تو میرے ابّا جی نے میری شادی کا سوچا اور مجھے پاکستان بلا کر اپنے چھوٹے بھائی یعنی میری چا چے کی بڑی بیٹی سائمہ سے میری شادی کر دی. سائمہ کی عمر 25 سال تھی وہ میری چھوٹی بہن کی ہم عمر تھی . شہر میں رہ کر شہر کے ماحول زیادہ پسند کرتی تھی . اِس لیے میں جب سعودیہ چلا جاتا تھا تو وہ زیادہ تر اپنے ماں باپ کے گھر لاہور میں ہی رہتی تھی . جب میں پاکستان شادی کے لیے آیا تو ابّا جی نے میری شادی بڑی دھوم دھام سے کی اور میں بھی خوش تھا مجھے سائمہ شروع سے ہی پسند تھی وہ خوبصورت بھی تھی اور سڈول اور سیکسی جسم کی مالک تھی . اس کا قد بھی ٹھیک تھا اور گورا چاا اور بھرا ہوا جسم رکھتی تھی. سہاگ رات کو میں بہت خوش تھا کیونکہ آج سے مجھے ساری زندگی سائمہ کے جسم سے مزہ لینا تھا برات والے دن سب کام ختم ہو کر میں جب رات کو اپنے کمرے میں گیا تو سائمہ دلہن بنی بیٹھی تھی . میں نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور پِھر دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی اس سے کافی باتیں کی اور قسمیں وعدے لیے اور دیئے اور پِھر میں نے اپنی سہاگ رات کو سائمہ کو صبح 4 بجے تک جم کر 3 دفعہ چودا . میں ویسے بھی زمیندار کا بیٹا تھا گاؤں کے ماحول میں ہی زیادہ تر رہا تھا خالص چیزیں کھانے کا شوقین تھا میرا جسم بھی ٹھیک ٹھا ک تھا اور میرا ہتھیار بھی کافی مضبوط اور لمبا تھا تقریباً 7 انچ لمبا میرا لوں تھا . جس کی وجہ سے میں نے سائمہ کو پہلی ہی رات میں جام کر چودا تھا جس کا اس کو بھی ٹھیک ٹھا ک پتہ لگا تھا . کیونکہ صبح کو اس کی کمر میں درد ہو رہی تھی. جس کو میری چھوٹی بہن نبیلہ نے محسوس کر لیا تھا کیونکہ وہ سائمہ کی سہیلی بھی تھی . لیکن جب میں صبح سو کر اٹھا تو سائمہ میرے سے پہلے اٹھ چکی تھی اور وہ اندر باتھ روم میں نہا رہی تھی . میں نے جب بیڈ کی شیٹ پے نظر ماری تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ بیڈ کی سفید چادر بالکل صاف تھی اس پے سائمہ کی پھدی کے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا اور جہاں تک مجھے پتہ تھا یہ سائمہ کی زندگی کی پہلی چدائی تھی اور اِس میں تو اس کا میرے کافی اچھے اور مضبوط لن سے اس کی پھدی کی سیل ٹوٹنی چاہیے تھی اور خون بھی نکلنا چاہیے تھا . بس اِس ہی سوال نے میرا دماغ خراب کر دیا تھا.
Like Reply
Do not mention / post any under age /rape content. If found Please use REPORT button.
#2
اگلے دن ولیمہ تھا اور میں سارا دن بس یہ سوچ میں تھا کے کیا سائمہ کی پھدی سیل نہیں تھی . کیا وہ پہلے بھی کسی سے کروا چکی ہے . یا لاہور میں اس کا کوئی یار ہے جس سے وہ اپنی پھدی مروا چکی ہے . بس یہ ہی میرے دماغ میں چل رہے تھے . یوں ہی ولیمہ والا دن بھی گزر گیا اور رات ہو گئی اور اس رات بھی میں نے 2 دفعہ جم کر سائمہ کی پھدی ماری لیکن سیل پھدی والی بات میرے دماغ سے نکل ہی نہیں رہی تھی . میں حیران تھا کے سائمہ دو دن سے دِل وجان سے مجھ سے چودوا رہی ہے اور کھل کر میرا ساتھ دے رہی ہے اور ہنسی خوشی میرے ساتھ بات بھی کر رہی لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دماغ بس سائمہ کی سیل پھدی والی بات پے ہی اٹک گیا تھا اور میں نے اپنے دِل و دماغ میں ہی وہم پال لیا تھا. ہر بندے کی خواہش ہوتی ہے اس کی ہونے والی بِیوِی صاف اور پاکباز ہو اور سیل پیک ہو لیکن میرے ساتھ تو شاید دھوکہ ہی ہو گیا تھا . ولیمہ والی رات بھی گزر گئی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں کروں تو کیا کروں اور کس سے اپنے دِل کی بات کروں . اور پِھر اگلی صبح سائمہ کے گھر والے آ گئے اور سائمہ اس دن دو پہر کو اپنے ماں باپ کے ساتھ لاہور اپنے گھر چلی گئی . سائمہ کے چلے جانے کے بعد میں بس اپنے کمرے میں ہی پڑا رہا بس اپنے وہم کے بارے میں ہی سوچتا رہا میری بڑی باجی فضیلہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ گھر پے ہی آئی ہوئی تھی شادی کے بعد وہ اپنے گھر سسرال نہیں گئی تھی. میں شام تک اپنے کمرے میں ہی تھا تو 6 بجے کے وقعت ہو گا جب فضیلہ باجی میرے کمرے میں آئی اور لائٹ آن کر کے میرے بیڈ کے پاس آ گئی میں اس وقعت جاگ رہا تھا . باجی میرے پاس آ کر بولی وسیم کیا ہوا ہے یوں کمرے میں اکیلا کیوں بیٹھا ہے باہر سب ا می ابّا جی تمھارا پوچھ رہے ہیں . میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا باجی بس ویسے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور لیٹا ہوا تھا . باجی میرے بیڈ پے بیٹھ گئی اور میرے ماتھے پے ہاتھ رکھا تو مجھے بخار وغیرہ تو نہیں تھا اِس لیے باجی بولی تمہیں بخار بھی نہیں ہے پِھر طبیعت کیوں خراب ہے. میں نے کہا ویسے ہی باجی تھکن سی ہو گئی تھی تو جسم میں دردتھی . باجی نے کہا چل میرا بھائی لیٹ جا میں تیرا جسم دبا دیتی ہوں . میں نے کہا نہیں باجی میں بالکل ٹھیک ہوں بس تھوڑی سی تھکن کی وجہ سے ہے آپ پریشان نہ ہوں . میں بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور باجی سے بولا چلو باجی باہر ہی چلتے ہیں تو باجی اور میں باہر آ گئے باہر صحن میں سب بیٹھے چائے پی رہے تھے . میں بھی وہاں بیٹھ گیا اور چائے پینے لگا اور یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگا . گھر میں شاید نبیلہ ہی تھی جو میری ہر پریشانی اور بات کو سمجھ جایا کرتی تھی وہ باجی کے چلے جانے کے بَعْد بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی گھر کی سا ری ذمہ داری اس پے تھی ابّا جی اور ا می کا خیال گھر کے کام سب وہ اکیلا کرتی تھی میں وہاں کافی دیر تک بیٹھ رہا باجی اور نبیلہ اٹھ کر کچن میں رات کا كھانا بنانے چلی گئی . اور میں وہاں سے اٹھ کر سیدھا چھت پے چلا گیا اور وہاں چار پای رکھی تھی اس پے لیٹ گیا اور دوباہ پِھر سائمہ کے بارے میں سوچنے لگا. . تقریبا 1 گھنٹے بعد نبیلہ چھت پے آئی اور آ کر بولی وسیم بھائی كھانا تیار ہو گیا ہے نیچے آ جاؤ سب انتظار کر رہے ہیں . میں نے کہا ٹھیک ہے تم چلو میں آتا ہوں وہ یہ کہہ کر نیچے چلی گئی اور میں بھی وہاں سے اٹھ کر نیچے آ گیا اور سب کے ساتھ مل بیٹھ کر كھانا کھانے لگا کھانے کے دوران بھی میں بس خاموش ہی تھا. كھانا کھا کر میں تھوڑی دیر تک امی اور ابّا جی سے باتیں کرتا رہا اور پِھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا اور آ کر بیڈ پے لیٹ گیا میں سوچنے لگا مجھے سائمہ سے بات کرنی چاہیے اور اپنا شق کو ختم کرنا چاہیے . پِھر میں یہ ہی سوچتا سوچتا سو گیا اگلے دن دو پہر کا وقعت تھا جب میں اپنے کمرے میں بیٹھ ٹی وی دیکھ رہا تھا تو فضیلہ باجی میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پے بیٹھ گئی. کچھ دیر تک وہ بھی خاموشی سے ٹی وی دیکھتی رہی پِھر کچھ ہی دیر بعد بولی وسیم مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے . میں نے ٹی وی کی آواز آہستہ کر دی اور باجی کی طرف دیکھ کر بولا کہو باجی آپ کو کیا پوچھنا ہے. باجی بولی وسیم میں 3 دن سے دیکھ رہی ہوں تم بہت چُپ چُپ رہتے ہو شادی تک تم اتنا خوش تھے اور شادی کی رات تک اتنا خوش نظر آ رہے تھے اور ویسے بھی سائمہ تمہیں پسند بھی تھی پِھر آخر ایسی کیا بات ہے تم شادی کی رات سے لے کر اب تک خاموش ہو کیا مسئلہ ہے مجھے بتاؤ میں تمھاری بڑی باجی ہوں کیا کوئی سائمہ کے ساتھ مسئلہ ہوا ہے . مجھے بتاؤ شاید میں تمھاری کوئی مدد کر سکوں. میں باجی کی بات سن کر تھوڑا بوكھلا سا گیا اور پِھر یکدم اپنے آپ کو سنبھالا اور باجی کو کہا باجی کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے اور نہ ہی سائمہ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے . آپ بلا وجہ پریشان نا ہوں . باجی نے کہا پِھر اپنے کمرے میں ہی کیوں بیٹھے رہتے ہو باہر کیوں نہیں نکلتے پِھر باجی تھوڑا ہنس کر بولی لگتا میرے چھوٹے بھائی کو سائمہ کی یاد بہت آتی ہو گی. میں باجی کی بات سن کر شرما گیا اور بولا نہیں باجی ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے . باجی نے کہا اگر میرا بھائی اداس ہے تو میں سائمہ کو فون کرتی ہوں کے وہ جلدی واپس آ جائے اور آ کر میرے بھائی کا خیال رکھے . میں فوراً بولا نہیں باجی ایسا نہیں کرو میں بالکل ٹھیک ہوں کوئی اداس نہیں ہوں آپ اس کو نہ بلاؤ وہ اپنے ماں باپ کے گھر گئی ہوئی ہے اس کو رہنے دو . باجی نے کہا اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتی لیکن تم پِھر اپنی حالت ٹھیک کرو کوئی باہر نکلو کسی سے ملو بات کرو . میں نے کہا جی باجی آپ فکر نہ کریں میں جیسا آپ کہہ رہی ہیں ویسا ہی کروں گا. پِھر باجی کچھ دیر وہاں بیٹھی یہاں وہاں کی باتیں کرتی رہی اور پِھر اٹھ کر چلی گئی . میں نے سوچا مجھے گھر میں کسی کو شق میں نہیں ڈالنا چاہیے جب سائمہ آئے گی تو اس سے بات کر کے ہی کچھ آگے کا سوچوں گا2 دن کے بَعْد باجی اپنے گھر چلی گئی اور دن یوں ہی گزر رہے تھے پِھر کوئی ایک ہفتے بَعْد سائمہ واپس آ گئی اس کے ماں باپ ہی اس کو چھوڑ نے آئے تھے وہ ایک دن رہ کر واپس چلے گئے . میں ہر روز ہی سائمہ کے ساتھ بات کرنے کا سوچتا لیکن وقعت آنے پے میری ہمت جواب دے جاتی تھی . میں تقریباً ہر دوسرے دن ہی سائمہ کو چودلیتا تھا اس اس کا میرے ساتھ کھل کر ساتھ دینا اور ہنسی خوشی میرے ساتھ رہنا اور باتیں کرنا میرے شق کو ختم کر دیتا تھا لیکن اکیلے میں میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا . اور یوں ہی دن گزرتے جا رہے تھے اور آخر کام میری چھٹی ختم ہو گئی مجھے پاکستان آئے ہوئے 3 مہینے ہو گئے تھے

l
Like Reply
#3
اور میں ان 3 مہینوں میں سائمہ سے بات تک نہ کر سکا اور یوں ہی واپس سعودیہ چلا گیا . میں جب سعودیہ سے گھر پے فون کرتا تو سائمہ میرے ساتھ ہنستی خوشی بات کرتی رہتی تھی . مجھے سعودیہ واپس آ کر 1 سال ہو چکا تھا اِس دوران میں نے نوٹ کیا میری چھوٹی بہن نبیلہ مجھے سے زیادہ بات کرنے لگی تھی اور مجھے گھر کی ایک ایک بات بتاتی تھی اور میرے بارے میں ہوچھتی رہتی تھی . مجھے ایک وقعت پے شق ہوا شاید نبیلہ مجھے کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن وہ کہہ نہیں پاتی اور ہر دفعہ بس یہاں وہاں کی باتیں کر کے فون بند کر دیتی تھی . میرے سعودیہ آ جانے سے سائمہ زیادہ تر اپنے ماں باپ کے گھر ہی رہتی تھی . کبھی 1 مہینہ اپنے ماں باپ کے پاس کبھی اپنے سسرال میں بس یوں ہی اس کا نظام بھی چل رہا تھا. یوں ہی 2 سال پورے ہوئے اور میں پِھر پاکستان چھٹی پے گھر آ گیا . مجھے آئے ہوئے 1 ہفتہ ہو گیا تھا . ایک دن میں نے اپنے ابا جی اور امی سے کہا کے آپ نبیلہ کے لیے کوئی رشتہ دیکھیں اب اس کی عمر بہت ہو گئی ہے . میری یہ بات کرنے کی دیر تھی وہاں پے بیٹھی نبیلہ غصے سے اٹھی اور منہ بناتی وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی . پِھر ابا جی بولے کے وسیم پتر دیکھ لیا ہے اِس کا غصہ ہم تو اِس کے پیچھے 2 سال سے لگے ہوئے ہیں، لیکن یہ ہے کے بات ہی نہیں مانتی . رشتہ تو بہت ہی اچھا ہے اِس کے لیے لیکن یہ مانتی ہی نہیں ہے . میں نے کہا ابا جی لڑکا کون ہے مجھے بتائیں تو ابا جی نے کہا لڑکا کوئی اور نہیں تیری پھوپھی کا بیٹا ہے ظھور پڑھا لکھا ہے شکل صورت والا ہے سرکاری ملازم ہے . میں نے جب ظھور کا سنا تو سوچنے لگا کے گھر والوں نے رشتہ تو اچھا دیکھا ہوا ہے لیکن آخر یہ نبیلہ مانتی کیوں نہیں ہے. پِھر میں نے کہا ابّا جی آپ فکر نہ کریں میں نبیلہ سے خود بار کروں گا . اور اگلے دن شام کو میں چھت پے چار پای پے لیٹا ہوا تھا تو کچھ دیر بعد ہی نبیلہ اوپر آ گئی اس نے دھو نے والے کپڑے اٹھا ے ہوئے تھے شاید وہ دھو کے اوپر چھت پے ڈالنے آئی تھی. جب وہ کپڑے ڈال کر فارغ ہو گئی تو بالٹی وہاں رکھ کر میرے پاس آ کر چار پائی پے بیٹھ گئی اور بولی وسیم بھائی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے . میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا نبیلہ مجھے بھی تم سے ایک بات کرنی ہے . تو نبیلہ بولی بھائی اگر آپ نے مجھے سے میری شادی کی بات کرنی ہے تو میں آپ کو صاف صاف بتا دیتی ہوں مجھے شادی نہیں کرنی ہے . میں نبیلہ کی بات سن کر حیران ہو گیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا پِھر میں نے کہا نبیلہ میری بہن آخر مسئلہ کیا ہے تمہیں شادی کیوں نہیں کرنی ہے . کیا تمہیں ظہور پسند نہیں ہے یا کوئی اور ہے جس کو تم پسند کرتی ہو . مجھے بتاؤ یقین کرو میں برا نہیں گا اور غصہ نہیں کروں گا تم جیسا چاہو گی ویسا ہی ہو گا . نبیلہ فوراً بولی ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے مجھے کوئی اور لڑکا پسند نہیں ہے اور نہ ہی میں ظہور کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں میں بس اپنے گھر میں ہی رہنا چاہتی ہوں اپنے ماں باپ کے ساتھ مجھے شادی کی کوئی ضرورت نہیں ہے . تو میں نے کہا نبیلہ میری بہن تم پاگل تو نہیں ہو دیکھو اپنی عمر دیکھو 27 سال ہو گئی ہو کیوں اپنے اوپر ظلم کر رہی ہو . اچھی بھلی جوان ہو خوبصورت ہو کیوں اپنی زندگی تباہ کرنے لگی ہوئی ہو . تو وہ بولی بھائی مجھے یہ زندگی منظور ہے لیکن کم سے کم آپ کی طرح تو نہیں ہو گا نہ کے بِیوِی بھی ہو اور آپ کی نہ ہو اور بندہ اندر ہی اندر زخم کھاتا رہے . وہ یہ بات بول کر لال سرخ ہو چکی تھی اور وہاں سے بھاگتی ہوئی نیچے چلی گئی. نبیلہ کے اِس آخری بات نے مجھے حیرت کا شدید جھٹکا دیا اور میں حیران وپریشان بیٹھا سوچ رہا تھا کے نبیلہ کیا کہہ کر گئی ہے . وہ کیا کہنا چاہتی تھی . کیا میرے اندر جو اتنے سال سے شق ہے کیا وہ اس کو جانتی ہے . کیا وہ سائمہ كے بارے میں بھی جانتی ہے . ایک دفعہ پِھر میرے دِل ودماغ میں سائمہ والی بات گونجنے لگی . میں یہ ہی سوچتا سوچتا نیچے اپنے کمرے میں آ گیا اور تو دیکھا سائمہ کسی کے ساتھ فون پے بات کر رہی تھی . مجھے دیکھتے ہی فون پے بولی اچھا امی پِھر بات کروں گی . اور فون بند کر دیا . اور مجھ سے بولی آپ کے لیے چائے لے آؤں . میں نے کہا ہاں لے آؤ اور وہ کچن میں چلی گئی . پِھر اس رات میں نے سائمہ کے ساتھ کچھ نہیں کیا اور جلدی ہی سو گیا . میں اب موقع کی تلاش میں تھا کے مجھے اکیلے میں موقع ملے تو میں نبیلہ سے کھل کر بات کروں گا . لیکن شاید مجھے موقع نہیں مل سکا اور ایک دن لاہور سے خبر آئی کے سائمہ کے ابو یعنی میرے چا چا جی زیادہ بیمار ہیں . میں سائمہ کو لے کر لاہور آ گیا چا چا کی طبیعت زیادہ خراب تھی وہ اسپتال میں ایڈمٹ تھے میں سیدھا چا چے کے پاس اسپتال چلا گیا ان کوگرد ےفیل ہو چکے تھے وہ بس اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے . میں نے جب چا چے کی یہ حالت دیکھی تو مجھے رونا آ گیا کیونکہ میری چا چے کے ساتھ بہت محبت تھی بچپن میں بھی چا چے نے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی . جب چا چے نے مجھے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے . میں وہاں بیٹھ کر چا چے کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا . کچھ دیر کے لیے میں باہر گیا اور نبیلہ کے نمبر پے کال کی اور اس کو بتایا کے ابّا جی کو لے کر تم سب لاہور آ جاؤ چا چے کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے . پِھر دوبارہ آ کر چا چے کے پاس بیٹھ گیا جب میں اندر آیا تو اس وقعت کوئی بھی اندر نہیں تھا میں اکیلا ہی چا چے کے ساتھ بیٹھا تھا . میں نے چا چے ہاتھ پکڑ کر ان کے ماتھے پے پیار کیا تو چا چے نے مجھے اشارہ کیا کے اپنا کان میرے منہ کے پاس لے کر آؤ میں جب چا چے کے نزدیک ہوا تو چا چے نے کہا وسیم پتر مجھے معاف کر دینا میں نے تیرے ساتھ ظلم کیا ہے . تیری چا چی اور تیری بِیوِی سائمہ ٹھیک نہیں ہیں اور تو خدا کے لیے میری چھوٹی بیٹی کو ان سے بچا لینا . میں نے کہا چچا جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں . بس پِھر چا چے کے منہ سے اتنا ہی لفط نکلا نبیلہ اور شاید چا چے کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹ چکی تھی . چا چے کا سانس اُکھڑ نے لگ گئی تھی میں بھاگتا ہوا باہر گیا ڈاکٹر کو بلا نے کے لیے لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا جب میں واپس ڈاکٹر کو لے کر کمرے میں داخل ہوا تو چا چا جی اِس دُنیا کو چھوڑ کر جا چکے تھے. پِھر ہم میت لے کر گھر آ گئے میرے ابّا جی اور میرے گھر والے بھی شام تک آ گئے تھے . میرے ابّا جی بہت روے کیونکہ ان کا ایک ہی بھائی تھا . میں بھی بہت رویا اور سوچتا رہا کے چا چے کو پتہ نہیں کیا کیا دُکھ سائمہ اور چا چی نے دیئے ہوں گے جو وہ مجھے ٹھیک طرح سے بتا بھی نا سکے. جب جنازہ وغیرہ ہو گیا تو چا چے کے گھر پر میں نے ایک اجنبی سا بندہ دیکھا اس کی عمر شاید 29یا30 سال کے لگ بھاگ لگ رہی تھی. وہ بندہ اجنبی تھا میں تو اپنے سارے رشتے دارو ںکو جانتا تھا . وہ بار بار چاچی کے ساتھ ہی بات کرتا تھا اور ان کے آگے پیچھے ہی پِھر رہا تھا . ایک بات اور میں نے نوٹ کی میری بہن نبیلہ اس کو بہت غصے سے دیکھ رہی تھی اور اس کی ہر حرکت پے نظر رکھے ہوئے تھی . یہاں پے چا چی کا بتا دوں میرے چا چے نے خاندان سے باہر شادی کی تھی وہ تھی بھی شکل صورت والی اور ناز نخرے والی تھی . اس کی عمر بھی لگ بھاگ 37یا 38 سال تھی . اس نے چا چے کو زمین بیچ کر لاہور میں رہنے کے لیے اکسایا تھا . اور میرا بے چارہ چا چا شاید اس کی باتوں میں آ گیا تھا. خیر وہ وقعت وہاں گزر گیا ہم چا چے کے گھر مزید ایک ہفتہ رہے اور پِھر اپنے گھر واپس آ گئے جب ہم واپس آنے لگے تو سائمہ نے تو ابھی مزید کچھ دن اور رکنا تھا لیکن سائمہ کی چھوٹی بہن ثناء جس کی عمر 16 سال کے قریب تھی وہ میرے ابّا جی سے کہنے لگی تایا ابو میں نے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے
Like Reply
#4
میرے ابّا جی فوراً راضی ہو گئے اور اس کو بھی ہم ساتھ لے آئے لیکن میں ایک بات پے حیران تھا کے سائمہ یا اس کی ماں نے ایک دفعہ بھی ثناء کو ساتھ جانے سے منع نہیں کیا جو کہ مجھے بہت عجیب لگا . خیر ہم واپس اپنے گھر آ گئے. جب ہم گھر واپس آ گئے تو ایک دن دو پہر کو میں اپنے کمرے میں بیٹھ ٹی وی دیکھ رہا تھا تو نبیلہ میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے بیڈ کے دوسرے کونےپے آ کر بیٹھ گئی اور بولی بھائی مجھے آپ سے بہت سی ضروری باتیں کرنی ہیں . لیکن فلحال ایک بات کرنے یہاں آئی ہوں . میں نے ٹی وی بند کر دیا اور بولا ہاں بولو نبیلہ کیا بات کرنی ہے میں سن رہا ہوں . نبیلہ نے کہا بھائی ثناء نے میٹرک کر لیا ہے اور وہ اب بڑی ہو چکی ہے آپ اس کو اگلی پڑھائی کے لیے لاہور سے دور کسی اچھے سے کالج میں داخلہ کروا دو میں نہیں چاہتی وہ اپنے گھر میں اور زیادہ رہے وہ جتنا اپنے گھر سے دور رہے گی تو محفوظ رہے گی. میں نے کہا نبیلہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ اپنے گھر سے باہر کیسے زیادہ محفوظ رہے گی مجھے تمہاری یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے . چا چے نے بھی مرتے ہوئے مجھے چا چی اور سائمہ کے بارے میں کہا تھا کے یہ دونوں ٹھیک نہیں ہے اور تمہارا نام لے رہے تھے اور پِھر وہ آگے کچھ نہ بول سکے اور دنیا سے ہی چلے گئے . نبیلہ یہ سب کیا ہے کیا تم کچھ جانتی ہو . اس دن تم نے چھت پے جو بات کہی تھی وہ بھی تم نے بول کر مجھے عجیب سے وہم میں ڈال دیا ہے. نبیلہ نے کہا بھائی آپ فل حال پہلے ثناء کا کچھ کریں اور تھوڑا سا انتظار کریں میں آپ کو سب کچھ بتا بھی اور سمجھا دوں گی. میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن کیا ثناء راضی ہے . تو نبیلہ نے کہا وہ تو راضی ہی راضی ہے وہ خود اب اس گھر میں نہیں جانا چاہتی ہے . میں نے کھا اچھا ٹھیک ہے میں کل ہی اسلام آباد میں کسی سے بات کرتا ہوں اِس کو وہاں اچھے سے کالج میں داخلہ بھی کروا دیتا ہوں اور ہاسٹل بھی لگوا دیتا ہوں . نبیلہ پِھر شکریہ بول کر باہر چلی گئی جب وہ باہر جا رہی تھی میری یکدم نظر اپنی بہن کی گانڈ پے گئی تو دیکھا اس کی قمیض شلوار کے اندر پھنسی ہوئی تھی اور اس کی گانڈ بھی کافی بڑی اور مو ٹی تازی تھی . مجھے اپنے ضمیر نے فوراً ملامت کیا اور میں پِھر خود ہی اپنی سوچ پے بہت شرمندہ ہوا. پِھر میں اپنے بیڈ پے لیٹ گیا اور سوچنے لگا کے نبیلہ سائمہ اور چا چی کے بارے میں کیا جانتی ہے . کیا اِس بات کا چا چے کو بھی پتہ تھا جو اس نے مجھے آخری ٹائم پے بولا تھا. اگلے دن میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا وہ میرے کالج وقعت کا دوست تھا وہ اب اسلام آباد شہر میں کسی سرکاری مہکمہ میں آفیسر لگا ہوا تھا. اس نے مجھے 2 دن کے اندر ساری معلومات اکٹھی کر کے دی. میں ثناء کو لے کر لاہور آ گیا اور اس کا سارا ساما ن اکھٹا کیا اور اس کو لے کر اسلام آباد چلا گیا میں دوبارہ پِھر حیران ہوا کے اِس دفعہ بھی چا چی یا سائمہ نے ثناء کے لیے منع نہیں کیا خیر میں ثناء کو اسلام آباد میں آ کر اس کے کالج اور ہاسٹل کا سارا بندوبست کر کے پِھر میں واپس لاہور آ گیا اور لاہور سے سائمہ کو لیا اور اپنے گھر واپس آ گیا جب میں سائمہ کو لاہور سے لینے گیا تو چا چی کی بھی کہا آپ بھی چلو آپ بھی وہاں کچھ دن جا کر رہ لینا لیکن چا چی کا جواب بہت ہی عجیب اور معنی خیز تھا انہوں نے کہا میرا کیا وہاں گاؤں میں رکھا ہے اور ویسے بھی دنیا کا مزہ تو شہر میں ہی ہے . مجھے اب کچھ کچھ اپنے چا چے کی بات سمجھ لگنے لگی تھی. میں گھر آ کر موقع کی تلاش میں تھا کے میں نبیلہ سے کھل کر بات کر سکوں اور سب باتیں سمجھ سکوں . لیکن کوئی اکیلے میں موقع نہیں مل رہا تھا . میری چھٹی بھی 1 مہینہ ہی رہ گئی تھی اور مجھے واپس سعودیہ بھی جانا تھا . میرا اور سائمہ کا جسمانی تعلق تو تقریباً چل رہا تھا لیکن آب شاید وہ بات نہیں رہ گئی تھی کیونکہ میرا شق یقین میں بدلتا جا رہا تھا . پِھر ایک دن میں صحن میں بیٹھ اِخْبار پڑھ رہا تھا تو نبیلہ شاید فرش دھو رہی تھی اس نے اپنی قمیض اپنی شلوار میں پھنسائی ہوئی تھی اور فرش دھو رہی تھی . میری یکدم نظر اس پے گئی تو حیران رہ گیا اور دیکھا اس کی شلوار پوری گیلی ہوئی تھی اس نے سفید رنگ کی کاٹن کی شلوار پہنی ہوئی تھی جو کے گیلا ہونے کی وجہ سے اس کی نیچے پوری گانڈ صاف نظر آ رہی تھی . نبیلہ کا جسم ایک دم کڑک تھا سفید رنگت بھرا ہوا سڈول جسم تھا . نبیلہ کی گانڈ کو دیکھ کر میری شلوار میں برا حال ہو چکا تھا . اور اپنے لن کو اپنی ٹانگوں کے درمیان میں دبا رہا تھا . میں نے اپنی نظر اِخْبار پر لگا لی لیکن شیطان بہکا رہا تھا اور میں چور آنکھوں سے بار بار نبیلہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا . مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے کب میں نے اپنا لن اپنی شلوار کے اوپر سے ہی ہاتھ میں پکڑ لیا تھا اور اس کو زور زور سے مسل رہا تھا . اور نبیلہ کی گانڈ کو ہی دیکھ رہا تھا . میرا ضمیر مجھے بار بار ملامت کر رہا تھا ہے یہ بہن ہے . لیکن شیطان مجھے بہکا رہا تھا . مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے میری بہن نے مجھے ایک ہاتھ سے اِخْبار اور دوسرے ہاتھ سے اپنا لن مسلتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور میری آنکھوں کو بھی دیکھ لیا تھا کے وہ نبیلہ کی گانڈ کو ہی دیکھ رہی ہیں . مجھے اس وقعت احساس ہوا جب پانی کا بھرا ہوا مگ نبیلہ کے ہاتھ سے گرا اور مجھے ہوش آیا میں نے نبیلہ کی طرف دیکھا تو وہ مجھے پتہ نہیں کتنی دیر سے دیکھ رہی تھی مجھے بس اس کا چہرہ لال سرخ نظر آیا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر اندر اپنے کمرے میں بھاگ گئی . مجھے ایک شدید جھٹکا لگا اور میں شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا میری بِیوِی باتھ روم میں نہا رہی تھی . میں بیڈ پیٹ لیٹ گیا اور شرم اور ملامت سے سوچنے لگا یہ مجھے سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے. میں شام تک اپنے کمرے میں ہی لیٹا رہا اور اپنے کمرے سے باہر نہیں گیا اور رات کو بھی طبیعت کا بہانہ بنا کر سائمہ کو بولا میرا كھانا بیڈروم میں ہی لے آؤ . میں بس یہ ہی سوچ رہا تھا کے آب میں کس منہ سے اپنی بہن کا سامنا کروں گا . وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہو گی . بس یہ ہی سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا . پِھر رات کو میں كھانا کھا کر سو گیا اور اس رات بھی میں نے سائمہ کے ساتھ کچھ نہیں کیا . شاید سائمہ مسلسل 3 دن سے میرے سے مزہ لیے بغیر سو رہی تھی اور سوچ بھی رہی ہو گی کے آج کل کیا مسئلہ ہے . صبح میں جب 9 بجے اٹھا تو دیکھا سائمہ بیڈ پے نہیں تھی پِھر میں اٹھ کر باتھ روم میں گیا نہا دھو کرباہر آیا الماری سے اپنے کپڑےنکالنےلگا اتنی دیر میں سائمہ آ گئی وہ آتے ہی میرے ساتھ چپک گئی مجھے ہونٹوں پے کس کی اور نیچے سے میرا لن شلوار کے اوپر سے ہی ہاتھ میں پکڑ لیا اور بولی وسیم جانو کیا بات ہے 3 دن ہو گئے آپ بھی ناراض ہو اور آپ کا شیر بھی ناراض ہے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے کیا. ابھی اتنی ہی بات سائمہ نے کی تھی کے نبیلہ اندر کمرے میں آ گئی اور بولتے بولتے رک گئی شاید وہ ناشتے کا بولنے آئی تھی . لیکن اندر آ کر جو منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ میرے اور نبیلہ کے لیے بہت شرمناک تھا کیونکہ سائمہ تو میری بِیوِی ہے لیکن نبیلہ تو بہن ہے . نبیلہ نے سائمہ کو میرے لن کو پکڑا ہوا صاف دیکھ لیا تھا اور سائمہ نے بھی نبیلہ کو دیکھ لیا تھا . ایک بار پِھر نبیلہ کا چہرہ لال سرخ ہو گیا اور وہ باہر بھاگ کر چلی گئی . میں نے سائمہ کو کہا کچھ تو خیال کیا کرو ایک جوان لڑکی گھر میں ہے اور وہ بھی میری ساگی بہن ہے اور تم دن میں ہی یہ حرکت کر رہی ہو .
Like Reply
#5
سائمہ تو شاید ڈھیٹ تھی آگے سے بولی وہ کون سا بچی ہے اس کو بھی سب پتہ ہے آخر اس نے بھی کسی نہ کسی دن لن لینا ہی ہے پِھر اِس میں اتنا پریشان ہونے کی کیابات ہے میں تو کہتی ہوں تم نبیلہ کی شادی کروا دو وہ بیچاری بھی کسی لن کے لیےترس رہی ہو گی میں نے غصے سے سائمہ کو دیکھا اور بولا تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے اور کپڑے لے کر باتھ روم میں گھس گیا اور کپڑے بَدَلنے لگا. کپڑے بَدَل کر گھر سے باہر نکل گیا اور اپنے کچھ دوستو سے جا کر گپ شپ لگانے لگا تقریباً 2 بجے کے قریب میں گھر واپس آیا تو دروازہ نبیلہ نے ہی کھولا اور دروازہ کھول کر اندر چلی گئی . جب میں اندر گیا تو دیکھا سب بیٹھے كھانا شروع کرنے لگے تھے میں بھی مجبورا وہاں ہی بیٹھ گیا اور كھانا کھانے لگا . میں نے کن اکھیوں سے نبیلہ کو دیکھا لیکن وہ كھانا کھانے میں مصروف تھی . پِھر جب سب نے كھانا کھا لیا تو نبیلہ اور سائمہ نے برتن اٹھانا شروع کر دیئے اور میں آ کر اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پے لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں آنکھ لگ گئی. شام کو سو کر اٹھا تو سائمہ چائے بنا کر لے آئی اور . یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگی اور مجھے کہنے لگی آپ اور میں کچھ دن لاہور ا می کی طرف نہ رہ آئیں . میں نے کہا سائمہ ابھی تھوڑے دن پہلے تم آئی ہو اور اب پِھر لاہور جانے کا کہہ رہی ہو . میری چھٹی تھوڑی رہ گئی ہے میرے واپس چلے جانے کے بعد خود چلی جانا اور جتنے دن مرضی رہ لینا . وہ میری بات سن کر خاموش ہو گئی . پِھر ایسے ہی کچھ دن مزید گزر گئے نبیلہ مجھے سے اور میں نبیلہ سے کترا رہے تھے پِھر جب میرا 1 ہفتہ باقی رہ گیا تو ایک دن میری ا می اور سائمہ میری خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے خالہ کا گھر زیادہ دور نہیں تھا پاس میں ہی تھا . اور ابّا جی باہر کسی کام سے گئے ہوئے تھے اور گھر پے شاید میں اور نبیلہ اکیلے ہی تھے . لیکن مجھے بَعْد میں پتہ چلا کے ہم دونوں گھر میں اکیلے ہیں کیونکہ میں صبح سے اپنے کمرے میں ہی تھا . پِھر تقریباً 11بجے کا وقعت تھا میں نہانے کے لیے اپنے اٹیچ باتھ روم میں گھس گیا مجھے پتہ تھا میرے کمرے کے باتھ روم میں میرے یا میری بِیوِی کے علاوہ کوئی نہیں آتا تھا . اِس لیے میں نے دروازہ لاک نہیں کیا اور باتھ روم میں جا کر نہانے لگا . جب میں نے نے باتھ روم میں داخل ہو کر اپنے کپڑے اُتار لیے اور شاور چلا دیا پِھر اپنے جسم پے صابن لگانے لگا جب میں اپنے لن پے صابن لگا رہا تھا تو میرا لن کھڑا ہونے لگا اور کچھ دیر کے صابن سے میرا لن تن کے کھڑا ہو گیا اور میں آہستہ آہستہ مٹھ والے اسٹائل میں صابن لن پے لگانے لگا مجھے پتہ ہی نہیں چلا یکدم نبیلہ میرے باتھ روم میں آ گئی اور اس کی سیدھی نظر میرے لن پے گئی تو وہ ایک بار پِھر شرم سے لال ہو گئی اور دروازے کو بند کر کے باہر سے بس اتنا ہی بولا کے سوری بھائی میرا شیمپو ختم ہو گیا تھا اِس لیے بھابی کا لینے کے لیے آئی تھی اور یہ بول کر وہ چلی گئی . میں بھی جلدی سے نہایا اور اور نہا کر کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکل گیا یہ 3 دفعہ میرے اور نبیلہ کے درمیان ہو چکا تھا . اور مجھے تو اب اپنے آپ پر بھی بہت شرم آنے لگی تھی کے ہر دفعہ میری بہن کے ساتھ ہی کیوں یہ ہو جاتا ہے وہ بیچاری کیا سوچتی ہو گی. میں سارا دن باہر گھوم پِھر کر شام کو گھر واپس آیا اور آ کر سیدھا اپنے کمرے میں لیٹ گیا . اب تو میری بالکل ہمت جواب دے چکی تھی کے اگر میرا سامنہ نبیلہ سے ہوتا ہے یا وہ مجھے سے یہ 3 دفعہ کے حادثے کے بارے میں کوئی سوال پوچھے گی تو میں کس منہ سے اور کیا جواب دوں گا. اگلے 2 سے 3 دن تک میں نبیلہ کا زیادہ سامنا نہیں کیا اور یوں ہی دن گزر گئے . واپسی سے دو دن پہلے میں شام کے وقعت چھت پے بیٹھا ہوا تھا اور سعودیہ میں کسی سے فون پے بات کر رہا تھا . تو نبیلہ میری چائے لے کر اوپر آ گئی نبیلہ کو دیکھ کر میں تھوڑا گھبرا سا گیا کیونکہ مجھے اس کا سامنا کرتے ہوئے شرم آ رہی تھی . نبیلہ آ کر چار پائی پے بیٹھ گئی اور چائے میری آگے رکھدی میں نے بھی کوئی 2 منٹ مزید بات کر کے کال کو کٹ کر دیا . پِھر نبیلہ بولی بھائی آپ ا ب کب واپس آئیں گے . تو میں نے کہا نبیلہ تمہیں تو پتہ ہے چھٹی 2 سال بَعْد ہی ملتی ہے اب 2 سال بَعْد ہی آؤں گا . تو نبیلہ بولی بھائی اب تو ہمارے پاس قدرت کا دیا سب کچھ ہے پِھر آپ پکے پکے واپس پاکستان کیوں نہیں آ جاتے اور یہاں آ کر اپنا کوئی کاروبار شروع کر دیں . ہم سب کو آپ کی یہاں زیادہ ضرورت ہے اور آپ کا گھر بھی بچ جائے گا . میں نے کہا ہاں نبیلہ کہتی تو تم ٹھیک ہو لیکن اب میں وہاں جا کر سارے پیسے جوڑ کر پاکستان ہی آنے کی کوشش کروں گا . میں نے نبیلہ کو کہا کے میرا گھر کیسے بچ جائے گا یہ بات تم کیوں کہہ رہی ہو . تو نبیلہ نے کہا کچھ نہیں پِھر آپ کو بتاؤں گی . میں نے نبیلہ کو کہا تم نے مجھے کہا تھا کے ثناء کا کچھ بندوبست کر کے تم مجھے سائمہ اور چا چی کے بارے میں کچھ بتاؤ گی . تم مجھے اب بتاؤ بھی دو کے آخر مسئلہ کیا ہے . میری بات سن کر وہ ایک دم لال سرخ ہو گئی اور بولی بھائی میں آپ کو آپ کے سامنے نہیں بتا سکتی میرے اندر اتنی ہمت نہیں ہے . جب آپ واپس سعودیہ جاؤ گے تو آپ یہاں میرے سامنے نہیں ہو گے تو میں آپ کو سب کچھ فون پے بتا دوں گی . میں نے کہا نبیلہ تم مجھ سے وعدہ کرو کے تم مجھے ایک ایک بات تفصیل سے اور سچ سچ بتاؤ گی . تو نبیلہ بولی بھائی آپ کیسی بات کر رہے ہو آپ کے اندر تو ہماری جان ہے . میں آپ کے ساتھ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتی . میں آپ کو سب کچھ سچ سچ بتاؤں گی . پِھر میں نے کہا نبیلہ مجھے تم سے معافی مانگنی ہے . تو نبیلہ فوراً بولی بھائی کس چیز کی معافی . تو میں نے کہا وہ مجھے سے اس دن بہت غلطی ہو گئی تھی جب تم فرش دھو رہی تھی اور سائمہ والی حرکت اور باتھ روم والی حرکت پے میں تم سے معافی مانگتا ہوں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا . نبیلہ میری بات سن کر شرما کے لال سرخ ہو گئی اور چُپ کر کے نیچے چلی گئی . پِھر وہ دو دن بھی گزر گئے اور میں واپسی کے لیے جب ایئرپورٹ آیا تو مجھے سائمہ اور نبیلہ اور ابّا جی چھوڑ نے کے لیے آئے جب میں اندر جانے لگا تو میرے ابّا جی مجھے گلے لگا کر ملے اور اور پِھر سائمہ بھی مجھے ملی ، لیکن جو مجھے عجیب اور حیران کن بات لگی جب نبیلہ آگے ہو کر مجھے گلے ملی تو اس کا قد میرے سے تھوڑا چھوٹا تھا تو اس نے اپنی دونوں بازو کو میری کمر میں ڈال کر مجھے زور کی جپھی ڈالی مجھے اس کے موٹے موٹے اور نرم نرم ممے مجھے اپنے سینے پے محسوس ہوئے . اور آہستہ سا میرے کان میں بولا بھائی میری واپسی والی بات پے غور کرنا. اور پِھر میں نبیلہ کے بارے میں ہی سوچتے سوچتے ائرپورٹ کے اندر چلا گیا اور واپس سعودیہ آ گیا . مجھے واپس آئے ہوئے کوئی 3 مہینے سے زیادہ ٹائم گزر چکا تھا اور زندگی اپنے معمول پے چل رہی تھی میری گھر پے بھی بات ہوتی رہتی تھی . لیکن میری نبیلہ سے ابھی تک سائمہ اور چا چی کی موضوع پے بات ہی نہیں ہو رہی تھی . زیادہ تر ابّا جی اور سائمہ سے بات ہو کر کال کٹ ہو جاتی تھی . پِھر ایک دن رات کو تقریباً 10بجے کا ٹائم تھا اور پاکستان میں 12 کا ٹائم تھا مجھے نبیلہ کے نمبر سے کال آئی . میں پہلے تھوڑا حیران ہوا کے آج اتنی دیر کو نبیلہ کال کیوں کر رہی ہے . میں نے اس کی کال کٹ کر کے خود کال ملائی اور تو نبیلہ سے سلام دعا ہوئی پِھر وہ میرا حال پوچھنے لگی . وہ شاید میرے سے کوئی بات کرنا چاہتی تھی لیکن اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی بات کیسے شروع کرے . پِھر میں نے ہی تھوڑی دیر یہاں وہاں کی بات کر کے پوچھا کے سائمہ کیسی ہے تو وہ بولی کے وہ آج لاہور چلی گئی ہے . میں نے کہا نبیلہ آج ٹائم مل گیا ہے تو مجھے آج سائمہ اور چا چی کے بارے میں بتا دو . تا کہ میرے دِل کو بھی سکون ہو . پِھر نبیلہ بولی بھائی آپ سے چا چے نے آخری دفعہ کیا کہا تھا . میں نے اس کو چا چے سے ہوئی بات بتا دی . تو نبیلہ بولی بھائی چھا چے نے بہت مشکل وقعت دیکھا ہے سائمہ اور چھا چی نے چھا چے کی کے آخریسالوںبہت اذیت دی اور بچارے دنیا میں اپنے بِیوِی اور بیٹی کے کرتوت کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر دنیا سے چلے گئے. میں نے نبیلہ کو پوچھا نبیلہ صاف بتاؤ تم کہنا کیا چاہتی ہو کیوں گھوما گھوما کر بات کر رہی ہو . تو نبیلہ بولی بھائی چا چی اور سائمہ دونوں ٹھیک عورتیں نہیں ہیں . سائمہ کا شادی سے پہلے ہی کسی ساتھ چکر تھا اور وہ اس کے ساتھ شادی سے پہلے ہی سو چکی ہے . اور چا چی کا بھی اس بندے کے ساتھ چکر ہے اور وہ بھی اس بندے کے ساتھ سب کچھ کرتی ہے جس سے سائمہ کرتی ہے اور دونوں ماں بیٹی کو ایک دوسرے کا پتہ ہے . اور چچی کے 2 یار ہیں جن کے ساتھ اس کا چکر ہے. اِس لیے میں نے ثناء کو اس گھر سے نکالا ہے تا کہ اس کی زندگی برباد نہ ہو. نبیلہ کی بات سن کر میرے سر چکر ا گیا تھا اور مجھے شدید جھٹکا لگا تھا . مجھے اپنی سہاگ رات والی رات کا واقعہ یاد آ رہا تھا اور میرا اس دن والا شق آج نبیلہ کی باتیں سن کر یقین میں بَدَل چکا تھا . کچھ دیر میری طرف سے خاموشی دیکھ کر نبیلہ بولی بھائی آپ میری بات سن رہے ہیں نہ . تو میں اس کی آواز سن کر پِھر چونک گیا اور بولا ہاں ہاں نبیلہ سن رہا ہوں. نبیلہ بولی آپ کیا سوچ رہے ہیں . میں نے کہا نبیلہ مجھے اپنی شادی کی پہلی رات یاد آ رہی ہے مجھے اس رات گزر نے کے بعد صبح ہی میرے دِل میں شق آ گیا تھا جو مجھے آج تمہاری باتوں سے یقین میں بَدَل گیا ہے . تو نبیلہ بولی بھائی مجھے پتہ ہے آپ کو اس رات کیوں اور کیسے شق ہوا تھا .
Like Reply
#6
اس رات میں نے سفید چادر جان بوجھ کر ڈالی تھی تا کہ ہم سب کو سائمہ کی حقیقت پتہ چل سکے . میں نے کہا نبیلہ تمہیں پتہ تھا کے اس کاخون نہیں نکلا جو اِس بات کا ثبوت ہے کے سائمہ ٹھیک لڑکی نہیں تھی . تو نبیلہ نے کہا بھائی مجھے بھی بس شق تھا . آپ نے تو صرف سفید چادر کا راز دیکھا ہے لیکن چا چی کا تو مجھے آپ کی شادی سے پہلے ہی پتہ تھا کہ چا چی کا چا چے کے علاوہ بھی ایک اور یار ہے . مجھے فضیلہ باجی نے بتایا تھا کیونکہ فضیلہ باجی کو بھی چا چی کی اپنی بھابی نے ہی چا چی کا اور اس کے یار کا بتایا تھا .اور چا چی کی بھابی فضیلہ باجی کی کلاس فیلو بھی ہے اور باجی کےسسرا لی محلے میں چا چی کی بھابی کی ا می کا گھر بھی ہے. لیکن بعد میں میں نے سائمہ اور چا چی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے . میں نے کہا تم نے چا چی اور سائمہ کو کہاں دیکھا تھا اور کس کے ساتھ دیکھا تھا . تو نبیلہ نے کہا بھائی جب آپ شادی کر کے واپس سعودیہ چلے گئے تھے تو ایک دفعہ سائمہ ابّا جی کو بول کر مجھے بھی اپنے ساتھ لاہور اپنی ماں کے گھر لے گئی تھی اور میں وہاں 15 دن ان کے گھر میں رہی تھی . ایک دن دو پہر کو جب سب سوئے ہوئے تھے تو میں ثناء کے ساتھ اس کے کمرے میں سوئی ہوئی تھی تو میں پیشاب کے لیے اٹھی اور باتھ روم میں گئی ان کا باتھ روم اوپر والی اسٹوری کی جو سیڑھیاں ہیں اس کے نیچے ہی بنا ہوا تھا میں جب اس کے پاس پہنچی تو مجھے اوپر والے کمرے سے چا چی کی سسکنے کی آواز سنائی دی . میں پِھر بھی باتھ روم میں میں چلی گئی جب باتھ روم سے فارغ ہو کر باہر نکلی تو مجھے چا چی کی سسکنے کی آواز بدستور آ رہی تھی میں حیران بھی تھی اور ڈر بھی رہی تھی .چا چی کو کیا ہوا ہے وہ عجیب عجیب آوازیں کیوں نکا ل رہی ہے . میں آہستہ آہستہ سے چلتی ہوئی اوپر چلی گئی اوپر ایک ہی کمرہ بنا ہوا تھا اسٹور ٹائپ کمرہ تھا اور اس کا ایک دروازہ بند ہوا تھا اور اور ایک سائڈ کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا میں اس کمرے کے پاس گئی اور جا کر اندر دیکھا تو اندر کا منظر دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کیونکہ اندر ایک جوان 29 یا30 سال کا لڑکا پورا ننگا اور چا چی بھی پوری ننگی تھی اور انہوں نے زمین پر ہی گدا ڈالا ہوا تھا اور وہ لڑکا چا چی کو اُلٹا لیٹا کر چا چی کو چودرہا تھا اور چا چی وہاں سسک رہی تھی . میں نے بس 2 یا 3 منٹ ہی ان کو اِس حالت میں دیکھا تو میرا سر چر ا گیا تھا میں تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی نیچے آ گئی اور آ کر کمرے میں ثناء کے ساتھ لیٹ گئی . میرا دماغ گھوم رہا تھا . چا چا تو اپنی دکان پے ہی ہوتا تھا اور سائمہ اپنی ماں کے کمرے میں سوتی تھی . وہ دن رات تک میں سوچتی رہی کے میں چا چی کے بارے میں کس سے بات کروں . پِھر میں نے سائمہ سے ہی بات کرنا کا سوچا کے اس کو بتا دوں گی کے اس کی ماں کیا گل کھلا رہی ہے . میں 2 سے 3 دن تک موقع تلاش کرتی رہی کہ اکیلے میں سائمہ سے بات کر لوں . لیکن کوئی موقع نہیں ملا پِھر ایک دن چا چا چا چی کو کو لے کر اسپتال گیا ہوا تھا . میں اور سائمہ اور ثناء گھر پے اکیلی ہی تھی . تو میں نے سوچا جب ثناء دو پہر کو سو جائے گی تو میں سائمہ کے کمرے میں جا کر اس سے بات کروں گی . اور پِھر دو پہر کو جب ثناء سو گئی تو میں آہستہ سے اٹھی اور کمرے سے نکل کر سائمہ کی ماں کے کمرے میں گئی کیونکہ سائمہ وہاں ہی سوتی تھی میں نے دروازے پے آہستہ سے دستک دی لیکن کوئی اندر سے کوئی جواب نہیں آیا اور پِھر میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا تو وہ کھل گیا اندر جھانک کر دیکھا تو کمرہ خالی تھا میں حیران تھی یہ سائمہ کاہان گئی ہے میں پِھر وہاں سے باتھ روم کے دروازے پے گئی تو وہ بھی کھلا ہوا تھا اور خالی تھا . میں سوچنے لگی وہ اتنی دو پہر کو کہاں چلی گئی ہے . پِھر میں نے سوچا کے شاید وہ اوپر چھت پے کسی کام سے نہ گئی ہو . میں آہستہ آہستہ سے اوپر گئی اور جب میں کمرے کے پاس پہنچی تو اندر کا منظر دیکھا تو مجھے ایک شدید قسِم کا جھٹکا لگا کیونکہ وہ ہی گدےپے سائمہ اور وہ ہی لڑکا جو چا چی کو چود رہا تھا وہ اب سائمہ کے ساتھ تھا اور وہ ٹانگیں کھول کر بیٹھا ہوا تھا اور سائمہ آگے کو جھک کر اس کا لن منہ میں لے کر چوس رہی تھی . اور میں تو یہ دیکھ کر ہی سر گھوم گیا اور گرنے لگی اور یکدم اپنے آپ کو سنبھال لیا پِھر اس لڑکے نے کہا سائمہ چل جلدی سے گھوڑی بن جا آج پہلے تیری گانڈ مارنےکا دِل پہلے کر رہا ہے . اور سائمہ نے اپنےمنہ سے اس کے لن کو نکالا اور بولی کیوں نہیں میری جان یہ گانڈ تو میں نے صرف رکھی تمھارے لیے ہے . میرا میاں تو مجھے بہت دفعہ گانڈ کا کہہ چکا ہے لیکن میں اس کو ہر دفعہ منع کر دیتی ہوں کے میں نہیں کروا سکتی مجھے درد ہوتا ہے . اس پاگل کو کیا پتہ پھدی کی سیل بھی کسی اور نے توڑی ہے اور گانڈ تو صرف میرے جانو عمران کے لیے ہے . اور دونوں کھلکھلا کر ہنسانے لگے . اور میں باہر ان کی باتیں سن کر پاگل ہو گئی تھی اور میرا بس نہیں چل رہا تھا میں اندر جا کر سائمہ کا منہ توڑدوں کے اس نے میرے گھر والوں اور میرے بھائی کے ساتھ کتنا دھوکہ کیا ہے . اور پِھر یکدم مجھے میرے کاندھے پے کسی کا ہاتھ محسوس ہوا میں ڈر گئی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ثناء کھڑی تھی اور مجھے انگلی سے چُپ رہنے کا کہا اور مجھے لے کر نیچے اپنے کمرے میں آ گئی . اور بھائی اس نے مجھے اپنی ماں اور بہن کے بارے میں سب بتایا کے وہ دونوں یہ کام کتنے سال سے کر رہی ہیں . وہ لڑکا سائمہ باجی کا یونیورسٹی کا کلاس فیلو ہے اور باجی اور ا می کے ساتھ بہت دفعہ مل کر بھی یہ کام کر چکا ہے . اور باجی وسیم بھائی کے باہر سعودیہ چلے جانے کے بَعْد یہاں آتی ہی صرف اس لڑکے کے لیے ہے اور یہ کھیل تقریباً ہر دوسرے دن اِس گھر میں کھیلا جاتا ہے. اور بھائی یہ وہ ہی لڑکا ہے جو چا چے کی فوتگی پے بھی گھر میں نظر آ رہا تھا اور چا چی کے آگے پیچھے ہی گھوم رہا تھا . بھائی اِس لیے میں نے ثناء کو اس گھر سے دور رکھنے کے لیے آپ کو کہا تھا . کیونکہ اس بیچاری کی بھی زندگی ان ماں بیٹی نے خراب کر دینی تھی . میں نبیلہ کی بات سن کر شاک کی حالت میں تھا اور میرا اپنے دماغ ساری باتیں سن کر گھوم چکا تھا . میں کافی دیر خاموش رہا اور نبیلہ کی کہی ہوئی باتوں پے غور کر رہا تھا . اِس دوران نبیلہ مجھے 2 دفعہ کہہ چکی تھی بھائی آپ سن رہے ہیں نہ . اور پِھر میں نے آہستہ اور دُکھی دِل سے جواب دیا ہاں نبیلہ میں سن رہا ہوں . نبیلہ شاید میری حالت سمجھ چکی تھی . اس نے کہا بھائی مجھے پتہ ہے آپ اِس وقعت بہت دُکھی ہو میں آپ کو اِس لیے یہ باتیں نہیں بتا رہی تھی میں نے یہ باتیں بہت عرصہ تک اپنے دِل میں رکھی ہوئی تھیں ان باتوں کو میں نے صرف فضیلہ باجی کو ہی بتایا تھا اور آج آپ کو بتا رہی ہوں . پِھر میں نے کچھ دیر بَعْد ہمت کر کے نبیلہ سے پوچھا کے نبیلہ ایک بات بتاؤ یہ لڑکا تو سائمہ اور چا چی کا یار تھا. لیکن چا چی کا پہلا یار کون تھا جس کی بات تم نے مجھے پہلے بتائی تھی . نبیلہ میری بات سن کر خاموش ہو گئی . میں نے کچھ دیر انتظار کیا لیکن کوئی جواب نہیں آیا پِھر میں نے دوبارہ نبیلہ سے پوچھا بتاؤ نہ وہ کون ہے . تو نبیلہ آہستہ سے بولی بھائی میں اس کا نہیں بتا سکتی میرے اندر بتانے کے لیے ہمت نہیں ہے مجھے شرم آ رہی ہے . میں نے کہا نبیلہ تم نے اتنا کچھ مجھے بتا دیا ہے اور اب مجھ سے کیا شرم باقی رہ گئی ہے . اور تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کے تم مجھے ساری بات سچ بتاؤ گی
Like Reply
#7
نبیلہ بولی ہاں بھائی مجھے پتہ ہے لیکن اگر میں آپ کو اس کا بتا دوں گی تو آپ کو یقین نہیں آئے گا . میں نے کہا نبیلہ نہ تم مجھے دیکھ رہی ہو اور نہ میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں تم مجھے بتاؤ کون ہے اتنا کچھ سچ سچ بتا دیا ہے تو اس دوسرے بندے کا بھی بتا دو . تو نبیلہ کچھ دیر خاموش رہی اور پِھر بولی بھائی وہ چا چی کا اپنے چھوٹا سگا بھائی نواز ہے اور وہ چا چی کی بھابی کا میاں بھی ہے . میرے منہ سے بے اختیارنکل گیا کیا کہہ رہی ہو نبیلہ تم ہوش میں تو ہو. نبیلہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی اور پِھر بولی کے بھائی یہ سچ ہے اور میں اپنے ہوش میں ہی ہوں اور بالکل سچ سچ بتا رہی ہوں . کیونکہ میں نے تو چا چی اور اس کے بھائی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن نواز کی بِیوِی نے خود کئی دفعہ اپنے گھر میں ہی اس کو دیکھا تھا . اور پِھر اس نے باجی فضیلہ کو بتایا تھا . . بھائی مجھے ثناء نے یہ بھی بتایا تھا کے وہ سائمہ کا دوست پہلے صرف سائمہ کے ساتھ ہی کرتا تھا لیکن پِھر اس نے سائمہ کو بلیک میل کر کے چا چی کو بھی شامل کر لیا اور اب دونوں ماں بیٹی مل کر یہ کام کرتی ہیں . اور بھائی جب میں اور سائمہ لاہور سے واپس آ گئے تھے تو اس کے بَعْد سائمہ اور میرا ٹھیک ٹھاک جھگڑا ہوا تھا میں نے اس کو بہت برا بھلا کہا اور اس کو سب کچھ بتا دیا جو میں اس کی ماں کے گھر دیکھ کر آئی تھی . میرے اندر غصے کی آگ ہی ٹھنڈی نہیں ہو رہی تھی . میں نے اس کو کہا کے تمہیں شرم نہیں آئی کے شادی سے پہلے ہی منہ کالا کروا لیا اور پِھر شادی کے بَعْد بھی اب تک اس سے منہ کالا کروا رہی ہو اور ساتھ میں اپنے ماں کو بھی شامل کر لیا ہے . کچھ تو اپنے باپ کی یا خاندان کی عزت کا خیال تو رکھا ہوتا . اگر دونوں ماں بیٹی میں اتنی ہی آگ بھری ہوئی تھی تو تمہاری ماں تو شادی سے پہلے بھی اپنے سگے بھائی سے اپنی آگ ٹھنڈی کروا لیتی تھی . تم نے بھی اپنے ماں کو کہہ کر اپنے مامے کے نیچے لیٹ جانا تھا. اور اپنی آگ ٹھنڈی کروا لینی تھی کم سے کم گھر کی بات گھر میں ہی رہتی اور گھر کے لوگوں تک ہی رہتی . لیکن تم تو ماں سے بھی آگے نکلی تم نے پڑھائی کے بہانے یار بنا لیے پہلے خود اس کے نیچے لیٹ گئی پِھر ماں کو بھی شامل کر لیا اور ماں کو دیکھو اپنے سگے بھائی کے لن سے دِل نہیں بھرا تو اپنی بیٹی کے یار کو اپنا یار بنا لیا . اور اب پتہ نہیں جیسے وہ تمہیں بلیک میل کر کے تمہاری ماں کو چودچکا ہے ویسے ہی تیری ماں کو بلیک میل کر کے پتہ نہیں کن کن سے چودوا چکا ہو گا . کیونکہ تم تو یہاں آ گئی ہو اب پتہ نہیں پیچھے ماں کس کس کو گھر بلا کر اپنی آگ ٹھنڈی کرتی ہو گی . اس نے تو سگے بھائی کو نہیں چھوڑا تو اور کسی کی کیا امید باقی رہ جاتی ہے . بھائی میں نے اپنے دِل کا سارا غبار نکال دیا اور آج تک وہ میری دشمن ہے اور اب تو وہ شیرنی ہو چکی ہے کیونکہ اس نے دیکھ لیا تھا کے میں نے یہ ساری باتیں آپ کو نہیں بتائی ہیں لیکن اس کو یہ نہیں پتہ تھا کے میرا ایک بیمار اور عزت دار باپ اور ماں ہے اگر ان کے کان تک کوئی بات بھی پہنچی تو وہ تو جیتے جی مر جائیں گے . اِس لیے اس کو کھلی چھٹی مل گئی تھی وہ سب کچھ تو کرتی ہی تھی . لیکن اس کے بَعْد وہ مجھے بھی آتے جاتے گھر میں اکیلے میں جہاں دیکھ لیتی مجھے کبھی کسی کا اور کبھی آپ کا نام لے تنگ کرتی رہتی ٹوک بولی مارتی رہتی تھی . اور بیہودہ بیہودہ باتیں کرتی تھی. میں نبیلہ کی باتیں سن کر پِھر خاموش ہو گیا اور سائمہ اور چا چی کے بارے میں سوچنے لگا . یہ کیا سے کیا ہو گیا . پِھر نبیلہ بولی بھائی اِس لیے میں نے آپ کو اس دن پے یہ ہی کہا تھا کے آپ پکے پکے پاکستان آ جاؤ اور اِس مسئلے کو حَل کرو . . مجھے خاموش سمجھ کر نبیلہ نے پوچھا بھائی آپ کیا سوچ رہے ہیں . تو میں چونک گیا اور نبیلہ سے پوچھا کے تمہیں سائمہ کس بات کے لیے تنگ کرتی ہے مجھے بتاؤ میں اس کنجری کی کھال اُتار کے رکھ دوں گا . تو نبیلہ پِھر خاموش ہو گئی اور کچھ نا جواب دیا میں نے پِھر کہا بتاؤ نہ وہ تمہیں کیا کہتی ہے . تو نبیلہ نے کہا بھائی میں وہ باتیں نہیں بتا سکتی آپ کی بہن ہوں مجھے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے. میں نے کہا نبیلہ جس طرح تم نے بے باکی سے پہلے مجھے سب کچھ بتایا ہے اور سائمہ کے ساتھ جھگڑا کر کے اس کوسنائی ہیں اس ہی ہمت سے مجھے بتاؤ تمہیں وہ کیا کہتی ہے نہیں تو میں یہاں بیچین رہوں گا کے میری بہن کیا کچھ برداشت کر رہی ہے. پِھر نبیلہ نے کہا بھائی وہ بہت گندی گندی باتیں کہتی ہے مجھے آپ کو بتاتے ہوئے شرم آ رہی ہے میں کیسے آپ کو بتاؤں . میں نے کہا چلو ٹھیک ہے جیسے تمھارے مرضی اگر اپنے بھائی پے یقین نہیں ہے یا پرایا سمجھتی ہو تو بے شک نہ بتاؤ. نبیلہ فوراً بولی کے بھائی میں اس کنجری کے لیے اپنے اتنے پیارے بھائی کو کیسے پرایا سمجھ سکتی ہوں . یہ آپ سوچنا بھی نہیں . آپ ہمارے لیے سب کچھ ہیں . میں آپ کو بتاتی ہوں کہ وہ کیا کیا کہتی ہے تھوڑا انتظار کریں میں چھت پے جاتی ہوں اور وہاں جا کے آسانی سے آپ سے بات کرتی ہوں . میں نے کہا ٹھیک ہے میں انتظار کر رہا ہوں. پِھر کوئی 2 منٹ کے بعد ہی نبیلہ کی آواز آئی ہاں بھائی میں چھت پے آ گئی ہوں . میں نے کہا اچھا اب بتاؤ سائمہ تمہیں کیا کہتی ہے اور کیوں تنگ کرتی ہے. پِھر نبیلہ کچھ دیر خاموش رہی پِھر وہ بولی کہ بھائی جب بھی میں اس کو تعنے مارتی ہوں یا اس کو اس کی اصلیت بتاتی ہوں تو وہ میں مجھے گندی گندی باتیں کہتی ہے . کہتی ہے نبیلہ تو بھی کوئی دودھ کی دُھلی ہوئی نہیں ہے مجھے پتہ ہے تیری اِس عمر میں کیا حالت ہے تم بھی کسی اچھے اور مضبوط لن کے لیے ترستی ہو تمھارے اندر بھی آگ بھری ہوئی ہے تمہارا جسم بتاتا ہے کے تمہیں کسی مضبوط مرد کی ضرورت ہے جس سے روز اپنے اندر لن کروا سکو. اور کہتی ہے نبیلہ اگر تو میرا ساتھ دے تو میں تیرا ساتھ دے سکتی ہوں تیری مدد کر سکتی ہوں تمہیں بھی اچھے اور تگڑے لن تیرے اندر کروا سکتی ہوں . بس تو میرا ساتھ دے اور میں تیرا ساتھ دوں گی اور خاموشی سے دونوں مزے کرتی ہیں . اور بھائی آپ اور باجی کی بارے میں بہت گندی گندی ب باتیں کرتی ہے . میں نے کہا میرے اور باجی کے بارے میں کیا کہتی ہے . تو پِھر نبیلہ کچھ دیر خاموش ہو کر بولی کے بھائی وہ کہتی ہے نبیلہ تو اگر میرا ساتھ دے تو میں تیرے بھائی کا لن بھی تیرے اندر کروا سکتی ہوں تیرے بھائی کا لن موٹا اور لمبا ہے میرے یار عمران سے بھی بڑا ہے . وہ تو تیرا بھائی 2 سال اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو میں اپنے یار عمران سے مزہ لینے لاہور چلی جاتی ہوں نہیں تو اگر تیرا بھائی یہاں ہو تو میں کبھی بھی لاہور نا جاؤں کہتی ہے تیرا بھائی جم کر چودتا ہے . قسم لے لو اس کا لن لے کر مزہ آجاتا ہے . تیرے اندر جائے گا تو ساری زندگی مجھے دعا دے گی اور گھر میں ہی روز جب دِل کیا صبح شام لن لیتی رہنا . بھائی اس نے ایک تصویر مجھے دکھائی تھی اور پِھر نبیلہ خاموش ہو گئی . میں نے فوراً پوچھا کون سی تصویر اور کس قسِم کی تصویر دکھائی ہے . تو نبیلہ بولی بھائی وہ.. میں نے کہا نبیلہ اب بھی کوئی بات رہ گئی ہے جس سے تم شرما رہی ہو . تو نبیلہ نے کہا بھائی سائمہ نے آپ کے لن کی اپنے موبائل میں تصویر بنائی ہوئی تھی آپ شاید صبح کے وقعت سوئے ہوئے تھے تو اس نے آپ کی شلوار اُتار کر آپ کے لن کی تصویر بنائی ہوئی تھی اور مجھے دیکھا کر کہتی ہے یہ دیکھ اپنے بھائی کا لن کتنا لمبا اور موٹا لن ہے
Like Reply
#8
دیکھو کیسے لوہے کے را ڈ کی طرح کھڑا ہے موٹا تازہ خود سوچ تیرے اندر جائے گا تو دنیا کا اصلی مزہ مل جائے گا . اور کہتی ہے ایک تم ہو جس کو اتنا موٹا لن پسند نہیں آ رہا اور اور نخرے کر رہی ہے دوسری طرف میری ماں ہے جب سے اس کو میں نے تصویر دکھائی ہے وہ پاگل ہو گئی ہے مجھے بار بار کہتی ہے کے وسیم کو میرے لیے تیار کر مجھے اس کا لن اپنے اندر لینا ہے تیرے بھائی کے لن کے لیے وہ مر رہی ہے . بھائی میں نے اس کو غصے میں کہا کے ہاں تیری ماں نے تو اپنے سگے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا اور اولاد ہونے کے بعد بھی اپنے بھائی کے نیچے آرام سے لیٹ جاتی ہے اس کو تو اپنے داماد میرے بھائی کا لن تو اچھا لگے گا ہی اِس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے. تو بھائی پِھر اس نے مجھے باجی کے بارے میں گندی گندی باتیں بولنے لگی . میں نے کہا باجی کے بارے میں کیا کہتی ہے . تو نبیلہ نے کہا بھائی کہتی ہے ہاں تو تیری بڑی بہن بھی کون سا پاکباز ہے . شادی سے پہلے ہی اپنے میاں کو چھپ چھپ کر ملتی تھی کبھی اس کے گھر چلی جاتی تھی کبھی اپنے گھر میں بلا لیتی تھی اس نے بھی تو شادی سے پہلے ہی اپنے میاں کا لن کتنی دفعہ اندر کروا لیا تھا . 1 دفعہ تو میں نے خود اس کو رنگے ہاتھ پکڑا تھا . جب وہ مزے سے لن گانڈ میں لے کر اچھل رہی تھی . اور مجھے دیکھ کر شرمندہ ہونے کے بجا ے مجھے کہتی ہے میں کون سا کسی غیر سے کروا رہی ہوں میرا ہونے والا میاں ہی ہے نا . بھائی میں نے اس کو کہا کے اِس میں کون سی اتنی بڑی بات ہے وہ کوئی غیر تو نہیں تھا خا لہ کا بیٹا تھا اور بَعْد میں اس کی شادی بھی تو اس کے ساتھ ہی ہو گئی تھی . تمھارے طرح تو نہیں کہ شادی سے پہلے اپنے کسی غیر پرا ے باہر کے یار کے ساتھ منہ کالا کیا پِھر میرے بھائی کی زندگی میں آ گئی اور اس کو بھی دھوکہ دیا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے ماں کو بھی اپنے غیر اور پرا ے یار کے نیچے لیٹا دیا . اتنا ہی اپنی عزت اور خاندان کا خیال ہوتا تو تم ماں بیٹی باہر کسی غیر کے آگے منہ مارنے اور پِھر ان کے ھاتھوں بلیک میل ہونے سے بہتر تھا جیسے تیری ماں نے اپنے سگے بھائی کو ہی اپنا یار بنا لیا تھا تمہیں بھی اس کے نیچے لیٹا دیتی کم سے کم گھر کا بندہ اور سگا ہونے کے ناتے تم لوگوں کو بلیک میل تو نہ کرتا جیسے آج وہ حرامی تم ماں بیٹی کا یار عمران تم دونوں کو بلیک میل کر کے خود بھی مزہ لوٹ رہا ہے اور دوسروں کو بھی لوٹا رہا ہو گا . اب تو تم دونوں ماں بیٹی پے یقین ہی نہیں رہا پتہ نہیں کتنے لوگوں سے کروا چکی ہوں گی. بھائی مجھے آگے سے کہتی ہے بس کر بس کر میں تمہیں بھی اور تیری بہن کو اچھی طرح جانتی ہوں . بھائی میری گانڈ میں ہاتھ مار کے کہتی ہے یہ جو اتنی بڑی گانڈ بنا لی ہے یہ ایسے ہی نہیں بن جاتی اِس کو ایسا بنانے کے لیے کتنا عرصہ لن اندر لینا پڑتا ہے پِھر جا کر ایسی گانڈ بنتی ہے . مجھے تو شق ہے تو بھی یہاں گاؤں میں کسی کے ساتھ خاموشی سے چکر چلا کر بیٹھی ہے اور چُپ چاپ کر کے لن اندر باہر کروا رہی ہے اِس لیے تو تیرا جسم اتنا بھر گیا اور گانڈ بھی مست بن گئی ہے . کہتی ہے آنے دے اِس دفعہ تیرے بھائی کو کیسے اس کو اکساتی ہوں کے تیری بہن کا کسی کے ساتھ چکر ہے اور وہ چھپ چھپ کر کسی سے مل کر مزہ لوٹ رہی ہے ذرا اِس کا جسم تو دیکھ اِس کا پِھر دیکھنا تیری کیسی شامت آتی ہے. بھائی میں نے آگے سے کہا تم جو مرضی کر لو میرے ماں باپ اور میرا بھائی مجھے اچھی طرح جانتے ہیں تم خود ہی مشکل میں آ جاؤ گی کیونکہ اب تو مجھے پتہ ہے پِھر بھائی اور ابّا جی ا می اور سارے خاندان کو تیرے اور تیری ماں کے کرتوت پتہ چلیں گے . بھائی کہتی ہے دیکھا جائے گا اور مجھے کہتی ہے تیری بڑی بہن ایک نمبر کنجری ہے جب میں ولیمہ سے اگلے دن اپنے ماں باپ کے گھر گئی تھی تو مجھے فون کر کے کہتی ہے سائمہ سناؤ کیا حال ہے اور سناؤ سھاگ رات کیسی گزری تھی . میرے بھائی نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا تھا . اور میں نے تیری بہن کو بتایا تھا کہ باجی آپ کا بھائی بہت ظالم ہے اس نے پہلی رات کو 3 دفعہ چود کر رکھ دیا تھا صبح میری کمر میں اتنا دردتھا. مجھ سے چلا نہیں جا رہا تھا . تو آگے سے تیری پاکباز بہن کہتی ہے کے سائمہ ایسا نہیں ہو سکتا میرا بھائی بہت اچھا بندہ ہے وہ کسی پے ظلم کر ہی نہیں سکتا . تم پے ایسا کون سا ظلم کر دیا کے تمہاری کمر میں درد شروع ہو گیا تھا اور تم چل بھی نہیں سکتی تھی. پِھر میں نے تیری بہن کو بتایا کے باجی یہ تم کہہ سکتی ہو مجھ سے پوچھو جس نے اس رات کو 3 دفعہ اس کو برداشت کیا ہے تم نے تو اپنے بھائی کا لن دیکھا بھی نہیں ہو گا میں نے پورا اندر لیا تھا وہ بھی ایک رات میں 3 دفعہ میری جان نکل گئی تھی . تقریباً 7 انچ لمبا اور موٹا لن تھا. تیرے بھائی کا میں نے تو لیا ہے اِس لیے بتا رہی ہوں . تم نے تو لیا نہیں ہے نہ اِس لیے اس کا ظلم تمہیں کیسے محسوس ہو گا . اور پتہ ہے آگے سے تیری کنجری بہن کیا کہتی ہے سائمہ پہلی دفعہ ایسا ہی ہوتا ہے اور مزہ بھی تو مضبوط اور موٹے لن سے ہی آتا ہے جب پورا اندر جڑ تک جاتا ہے . تو مزہ آ جاتا ہے اور مزے میں دنیا بھول جاتی ہے . اور تم خوشنصیب ہو میرے بھائی کا اور مضبوط لن زندگی میں ملا ہے . ساری زندگی مزہ کرو گی . اگر وہ میرا میاں ہوتا تو میں صبح شام اس کا لن اندر لیتی اور کبھی اپنے کمرے سے بھی نکلنے نہ دیتی . پِھر میں نے تیری باجی کو کہا تھا کے باجی اگر اتنا ہی تمہیں تجربہ ہے تو تم کیوں نہیں ایک دفعہ اپنے بھائی سے کروا کر دیکھ لیتی جب وہ پورا اندر ڈالے گا تو ایک دفعہ میں ہی تمہیں پتہ چل جائے گا کے تمہارا بھائی کتنا ظلم کرتا ہے . اگر یقین نہیں آتا ایک دفعہ اپنے بھائی سے کر کے دیکھ لو خود ہی پتہ چل جائے گا . تو پتہ ہے تیری بہن آگے سے کہتی ہے . سائمہ میں تو تقریباً روز ہی اپنے میاں کا اندر لیتی ہوں میں تو گانڈ میں بھی روز لیتی ہوں مجھے تو اصلی مزہ آتا ہے ہاں یہ الگ بات ہے جتنا تم میرے بھائی کا موٹا اور مضبوط لن کا بتا رہی ہو اتنا تو میرے میاں کا نہیں ہے اس سے چھوٹا ہے لیکن پِھر بھی میں تو پھدی میں بھی اور گانڈ میں آسانی سے اپنے بھائی کا لن لے لوں گی پہلی دفعہ تھوڑا مشکل ہو گی لیکن اس کے بعد تو مزہ ہی مزہ ہو گا . لیکن میری قسمت میں شاید ایسا لن نہیں لکھا ہوا ہے . وہ ابھی تیرے نصیب میں ہے . میں تو کہتی ہوں تم تھوڑا بہت برداشت کر لیا کرو پِھر کچھ دن بعد تمہیں عادت ہو جائے گی تو خود ہی میرے بھائی کو روز لن ڈالنے کا کہا کرو گی ابھی تو شاید وہ تمہاری گانڈ نہیں مارتا ہو گا اگر وہ مارتا تو شاید تم پِھر مر ہی گئی ہوتی . تو میں نے کہا تمھارے بھائی نے مجھے سے فرمائش کی تھی لیکن میں نے خود منع کر دیا تھا پھدی کو ہی رگڑ کر رکھ دیتا ہے تو گانڈ میں تو مار ہی ڈالے گا . پِھر تیری باجی نے آگے سے کہا سائمہ دیکھ لو بھلے میرے میاں کا لن میرے بھائی جیسا لمبا نہیں لیکن پِھر بھی میں پھدی میں بھی اور گانڈ میں ہر روز پورا اندر لیتی ہوں میں بھی تو ہمت کرتی ہوں تم بھی کر لیا کرو . اور میرے بھائی کو خوش کر دیا کرو اور خود بھی ہوا کرو آگے تمہاری اپنی مرضی ہے. بھائی میں نے اس کو کہا تم یہ سب بکواس کر رہی ہو میری بہن اتنا کچھ تم کو نہیں بول سکتی . تو سائمہ آگے سے کہتی ہے ٹھیک ہے آنے دو تمھارے بہن کو پِھر تمہیں خود ہی اس کے سامنے کروا دوں گی پِھر پوچھ لینا اور میں بکواس کر رہی ہوں یا سچ بول رہی ہوں . میں نے پوچھا نبیلہ تم نے پِھر سائمہ کو آگے سے کیا جواب دیا . تو نبیلہ نے کہا بھائی میں خود تو شاید باجی سے اکیلے میں یہ باتیں پوچھ سکتی تھی لیکن سائمہ کے آگے نہیں پوچھ سکتی تھی ہم دونوں بہن کی ایک دوسرے کے سامنے عزت نہیں رہنی تھی . لیکن بھائی پِھر سائمہ نے یکدم اس دن میرے ساتھ اتنی گندی حرکت کی کے میں آپ کو بتا نہیں سکتی . میں نے کہا نبیلہ جتنا کچھ تم سنا اور بول چکی ہو اب تمہیں کچھ اب چھپا نا نہیں چاہیے . بتا دو اس نے کیا کیا تمھارے ساتھ . . نبیلہ آگے سے بولی وہ میں بھائی وہ میں بھائی . . میں نے کہا کیا وہ میں وہ میں لگائی ہوئی ہے سیدھی طرح بتاؤ کیا ہوا تھا. تو نبیلہ نے کہا بھائی سائمہ نے یکدم اپنا ہاتھ نیچے لے جا کر شلوار کے اوپر ہی میری پھدی والی جگہ پے رکھ دیا اور اس کو تھوڑا مسلا تو اس کا ہاتھ گیلا ہو گیا اور اپنے گیلے ہاتھ کو اپنی ناک کے پاس لے جا کر سونگھا اور بولی واہ میری نبیلہ رانی مجھے تو پاک بازی کے لیکچر ایسے دے رہی تھی اور اپنا آپ دیکھا ہے اپنے بھائی کے لن اور اپنی بہن کی پھدی اور گانڈ کی گرم گرم باتیں سن کر تم نیچے سے فارغ ہو چکی ہو اِس کا مطلب ہے تمہیں بھی اپنے بھائی کا لن بہت پسند ہے اور میں سائمہ کی بات سن کر ہی اپنے کمرے میں بھاگ گئی اور نبیلہ نے یہ بات کہہ کر کال کاٹ دی تھی. اور نبیلہ کی ساری باتیں سن کر میرا دماغ تو گھوم ہی چکا تھا
Like Reply
#9
لیکن جب میری نظر نیچے اپنی شلوار پے گئی تو میرا لن تن کے فل کھڑا تھا اور میری شلوار بھی گیلی ہوئی تھی شاید میری اپنی بھی کچھ منی نکل چکی تھی. میں نے ٹائم دیکھا تو 12 بج چکے تھے اور پاکستان میں 2 ہو گئے تھے . اب اپنی بہن اور سائمہ کی طرف سے سب کچھ جان چکا تھا اور میری بے چینی ختم ہو چکی تھی لیکن ان سب باتوں کی وجہ سے میرا ری ایکشن یعنی میرے لن کا کھڑا ہونا اور منی چھوڑ نا یہ مجھے عجیب بھی اور مزے کا بھی لگا . پِھر میں اٹھ کر نہایا کپڑے تبدیل کیے اور پِھر اپنے بیڈ پے لیٹ گیا اور سوچتے سوچتے پتہ نہیں کب نیند آ گئی اور سو گیا. اس دن کے بعد مجھے اور نبیلہ کو دوبارہ اس موضوع پے بات کرنے کا موقع نہ ملا جب بھی پاکستان گھر میں بات ہوتی تو نبیلہ سے بھی بس تھوڑی بہت حال حوال پوچھ کر بات ختم ہو جاتی تھی . مجھے اب نبیلہ سے اس موضوع پے بات کیے ہوئے کوئی 4 مہینے گزر چکے تھے . اور مجھے پاکستان سے واپس سعودیہ آئے ہوئے بھی تقریباً 8 مہینے گزر چکے تھے ٹائم تیزی سے گزر رہا تھا مجھے سعودیہ میں رہتے ہوئے تقریباً 8 سال ہو چکے تھے میں نے بہت زیادہ پیسہ بھی کمایا تھا اور اس کو اپنی اور گھر کی ضروریات پے خرچ بھی کیا تھا اور کافی سارا پیسہ جمع بھی کیا ہوا تھا کچھ پاکستان میں بینک میں رکھا دیا تھا ابا جی کے اکاؤنٹ میں جو کے بعد میں مشترکہ اکاؤنٹ بن گیا تھا . اور کچھ پیسہ سعودیہ میں ہی بینک میں جمع کیا ہوا تھا جب سے میری نبیلہ سے وہ موضوع پے باتیں ہوئی تھی میں نے پکا پکا پاکستان جانے کا پلان بنا نا شروع کر دیا تھا اور یہ بھی پلان کرنے لگا تھا پاکستان جا کر اپنا کاروبار شروع کروں گا . اور سائمہ اور نبیلہ اور باجی فضیلہ کا مسئلہ بھی گھر میں رہ کر حَل کر سکتا تھا . اور پِھر میں نے کافی سوچ و چار کے بعد فیصلہ کر لیا کے مجھے باقی 1 سال اور کچھ مہینے اور محنت کرنا ہو گی اور پِھر اپنا سارا پیسہ لے کر اِس دفعہ 2 سال پورے ہونے پے پکا پکا سعودیہ سے واپس اپنے ملک پاکستان چلا جاؤں گا. اِس لیے میں نے اپنا باقی ٹائم زیادہ محنت شروع کر دی اور ایک دفعہ پِھر 14گھنٹے ٹیکسی چلانے کی ڈیوٹی دینے لگا اب میں آدھا وقعت دن کو اور آدھا وقعت رات کو ٹیکسی چلاتا تھا . اور اِس طرح ہی مجھے 1 سال مکمل ہو گیا . اور میرا 1 سال مزید باقی سعودیہ میں رہ گیا تھا . ایک دن میں رات کو اپنی ٹیکسی میں ہی باہر کھڑا کسی سواری کا انتظار کر رہا تھا تقریباً 10:40کا ٹائم ہو گا مجھے نبیلہ کے نمبرسے مس کال آئی . میں تھوڑا پریشان ہو گیا کے اتنی رات کو خیر ہی ہو کچھ مسئلہ تو بن گیا میں نے فوراً کال ملائی تو نبیلہ نے مجھے سلام دعا کی اور بولی بھائی معافی چاہتی ہوں اتنی رات کو آپ کو تنگ کیا ہے . دراصل وہ آج سائمہ پِھر اچانک لاہور چلی گئی ہے دو پہر کے 2 بجے اس کی امی کا فون آیا تھا تو میں اچانک سائمہ کے کمرے کے آگے سے گزر رہی تھی تو مجھے ہلکی ہلکی سائمہ کی فون پے باتیں کرنے کی آواز آ رہی تھی میں نے بس یہ سنا تھا کےامی آپ فکر نہ کریں میں کوئی بھی بہانہ بنا کر آ جاؤں گی . آپ اس کو کہو میرا اسٹیشن پے انتظار کرے اور جب تک میں گھر سے نکل نہیں آتی تو میرے نمبر پے کال نا کرے . اور پِھر فون بند ہو گیا میں باہر کھڑی سوچنے لگی کے یہ کنجری پِھر کسی چکر میں ہی اپنی ماں کے پاس جا رہی ہے . میں نے کمرے میں دیکھا کے سائمہ اپنے کپڑے بیگ میں رکھ رہی تھی پِھر کوئی 15 منٹ بَعْد دوبارہ سائمہ کے نمبر پے کال آئی شاید اِس دفعہ کسی اور کی کال تھی بَعْد میں پتہ چلا وہ اس کے یار عمران کی کال تھی وہ اس کا ملتان اسٹیشن پے انتظار کر رہا تھا اور اِس کو لاہور سے لینے آیا ہوا . سائمہ نے تھوڑا غصہ کرتے ہوئے اپنے یار کو فون پے کہا عمران تم سے صبر نہیں ہوتا میں نے امی کو فون کیا تھا نہ کے مجھے تم کال نہ کرنا جب تک میں گھر سے نکل نہیں آتی اور تم باز نہیں آئے بھائی اس کا یار پتہ نہیں آگے سے کیا بات کر رہا تھا . لیکن سائمہ نے اس کو کہا اچھا اچھا زیادہ بکواس نہیں کرو ٹرین میں کر لینا . اور انتظار کرو میں بس 6 بجے تک میں وہاں آ جاؤں گی اور سائمہ نے اپنا فون بند کر دیا . وہ گھر سے5 بجے نکلی تھی اور 7 بجے ٹرین کا ٹائم تھا میرے خیال میں اب بھی وہ شاید ٹرین میں ہی ہو گی آپ اس کو کال کرو اور اس کی کلاس لو اور پوچھو کے وہ رات کے ٹائم میں لاہور کے لیے اکیلی کیوں نکلی ہے . میں نے کہا نبیلہ میری بات سنو میری یہاں سے کلاس لینے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑ ے گا . اُلٹا شاید وہ کوئی اور بکواس کرے اور میں غصے میں آ جاؤں اور مسئلہ زیادہ بن جائے گا . تو اس کنجری کو کوئی فرق نہیں پڑ ے گا کیونکہ اس کی ماں گاؤں سے سب کچھ چھوڑ کر لاہور میں رہتی ہے یہ بھی اس کے پاس چلی جائے گی اور اس کو کوئی فرق نہیں پڑ ے گا لیکن ہمارے گھر پے بہت فرق پڑ ے گا . کیونکہ جب آبا جی امی کو باجی کو اس کے سسرال والوں کو اور خاندان کے لوگوں کو ساری حقیقت پتہ چلے گی تو ہمارے گھر کی بدنامی زیادہ ہو گی سب یہ ہی کہیں گے کے اتنے سال سے سائمہ اور اس کی ماں یہ سب کچھ کر رہی ہیں اور کیوں ہم نے پہلے دن ہی خاندان میں سب کو ان کی اصلیت نہیں بتائی. اِس لیے میری بہن جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہے . اور وہ میری بِیوِی بھی ہے اور سب سے بڑی بات چا چے کے بیٹی ہے . مجھے اس کو اور اس کی ماں کو ان کی ہی زُبان میں جواب دینا ہو گا اور دونوں ماں بیٹی کو خاندان کے قابل اور ٹھیک کرنا ہو گا . اور یہ مت بھولو کے ثناء بیچاری بھی اِس خاندان کا حصہ ہے . اس کا بھی سوچنا ہے . سائمہ نے تو اپنی جوانی میں غلط کام کیا ہے لیکن چا چی اس کے بھائی تک تو میں کسی حد تک شایدمان ہی لیتا لیکن وہ اپنی بیٹی کی ہم عمر غیر لڑکے سے عزت لوٹا رہی ہے اور اس کو پہلے ٹھیک کرنا ہے . میری بات سن کر نبیلہ بولی بھائی لیکن سائمہ کو کسی نہ کسی دن تو اس لڑکے سے ملنے سے روکنا ہے اور چا چی کو بھی روکنا ہے . لیکن یہ کیسے ہو گا اور کب ہو گا . آپ تو وہاں بیٹھے ہیں خود ہی یہ مسئلہ ٹھیک کیسے ہو گا . اور میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکی کے آپ کہہ رہے تھے چا چی اور سائمہ کو ان کی زُبان میں ہی سمجھا نا پڑے گا . میں آپ کی بات کو سمجھی نہیں ہوں . میں نے کہا دیکھو نبیلہ یہ مسئلہ کب اور کیسے حَل ہو گا میں خود اِس کو حَل کروں گا اور ٹھیک بھی کروں گا . اور دوسری بات میں تمہیں صرف بتا رہا ہوں کے میرا یہ آخری سال ہے سعودیہ میں اور میں نے اب پکا پکا پاکستان آنے کا پروگرام بنا لیا ہے میں اِس دفعہ پکا پکا آؤں گا . اور پِھر خود گھر آ کر یہ سب مسئلے حَل کروں گا . نبیلہ میری بات سن کر خوش ہو گئی اور فوراً بولی بھائی آپ سچ کہہ رہے ہیں کے آپ اپنے گھر واپس آ رہے ہیں . میں نے کہا ہاں میری بہن میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں
Like Reply
#10
لیکن ابّا جی اور امی کو یا باجی کو کسی کو بھی یہ بات ابھی پتہ نہ چلے میں وقعت آنے پے خود سب کو بتا دوں گا . تو نبیلہ بولی بھائی آپ بے فکر ہو جائیں میں کسی سے بھی بات نہیں کروں گی . لیکن آپ نے مجھے بہت اچھی خوشخبری سنائی ہے میرا سائمہ کی وجہ سے بہت موڈ خراب تھا لیکن آپ نے خوشبربی سنا کر مجھے خوش کر دیا ہے . پِھر میں نے کہا نبیلہ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے اگر تم ناراض نہ ہو گی تو نبیلہ نے کہا بھائی آپ کیسی بات کرتے ہیں آپ سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتی آپ میری جان ہیں . میں نے کہا اچھا یہ بتاؤ سائمہ نے جو باجی فضیلہ کے بارے میں باتیں بتائی تھیں کیا باجی سے اس کے متعلق کوئی بات ہوئی تھی . اگر ہوئی تھی تو باجی نے آگے سے کیا کہا تھا . نبیلہ نے کہا بھائی میں نے بہت دفعہ کوشش کی کے کسی دن اکیلے میں بیٹھ کر باجی سے سائمہ کی ساری بات کروں لیکن یقین کریں باجی کئی دفعہ گھر میں آ کر رہتی ہیں لیکن میری ہمت ہی نہیں بنتی ان سے بات کرنے کی لیکن بھائی آپ کیوں پوچھ رہے ہیں . میں نے کہا اگر سائمہ کی کہی ہوئی باتیں سچ ہیں تو پِھر سائمہ باجی کو بھی بلیک میل کر سکتی ہے اور تمہاری دشمنی میں ان کو بھی تنگ کر سکتی ہے . اور شاید سائمہ کو کچھ اور بھی باجی کے متعلق پتہ ہو اِس لیے میں چاہتا تھا تم باجی سے کھل کر بات کرو اور ان کو سائمہ والی ساری باتیں بتا دو . لیکن ایک چیز کا مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا تم نے باجی کو ذرا سا بھی شق نہیں ہونے دینا کے یہ سب باتیں مجھے بھی پتہ ہیں . بس یہ ہی شو کروانا ہے کے یہ باتیں صرف تمہیں یا باجی کو ہی پتہ ہیں . باجی نے کہا بھائی میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں باجی کو آپ کا پتہ ہی نہیں لگنے دوں گی اور دوسرا باجی نے اگلے ہفتے آنا ہے میں اس سے تفصیل سے بات کروں گی اور سائمہ کی ساری بات ان کو بتاؤں گی اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ باجی نے سائمہ سے وہ باتیں کی تھیں یا وہ جھوٹ بول رہی تھی . میں نے کہا ٹھیک ہے . میں انتظار کروں گا . نبیلہ نے کہا جب باجی سے بات ہو جائے گی تو میں آپ کو رات کے وقعت ہی مس کال کروں گی اور پوری تفصیل بتا دوں گی . میں نے کہا ٹھیک ہے . پِھر جب میں کال کٹ کرنے لگا تو مجھے یکدم نبیلہ نے کہا بھائی آپ کو ایک بات بتانی تھی . اور یہ بول کر خاموش ہو گئی میں کچھ دیر اس کی بات کے لیے انتظار کیا لیکن وہ چُپ تھی میں نے کہا نبیلہ بتاؤ نا کیا بات بتانی تھی . تو نبیلہ بولی بھائی آپ کو وہ اس دن والی بات یاد ہے جب صبح میں آپ کو ناشتے کے لیے بلانے آئی تو سائمہ اور آپ کھڑے تھے . تو مجھے یاد آیا تو میں نے کہا نبیلہ میں نے اس واقعہ کی تم سے معافی مانگی تھی پِھر کیوں دوبارہ پوچھ رہی ہو . تو نبیلہ بولی بھائی وہ بات نہیں کر رہی اصل میں ایک مہینہ پہلے مجھے ایک دن سائمہ نے پِھر اکیلے میں تنگ کیا ا می اور ا با جی پھوپھی کے گھر گئے ہوئے تھے میں اکیلی تھی . تو مجھے تنگ کرنے لگی . کے نبیلہ یاد ہے اس دن جب میں نے تمھارے بھائی کا لن کمرے میں پکڑا ہوا تھا اور تم ناشتے کا کہنے کے لیے آئی تھی . اس دن تو تم نے اپنے بھائی کا شلوار میں فل کھڑا لن حقیقت میں دیکھا تھا بتاؤ نا تمہیں اپنے بھائی کا لن کیسا لگا اور مجھے تنگ کرنے لگی . اور بار بار آپ کا نام لے کر اور آپ کے اپنے بھائی کا لن کی تعریف کر کے میری گانڈ ہاتھ سے مسل رہی تھی . بھائی میں اس کی ان حرکتوں سے بہت تنگ ہوں . میں بھی جیتی جاگتی انسان ہوں میرے بھی جذبات ہیں مجھے آپ باھیں میں اس کو کیا جواب دوں . یا آپ خود ہی اس کو سمجھا دیں وہ مجھے تنگ نہ کیا کرے . میں نے کہا نبیلہ ایک بات سچ سچ بتاؤ گی . تو نبیلہ نے کہا جی بھائی پوچھو کیا پوچھنا ہے . میں نے کہا جب تمہیں سائمہ میرا نام لے کر یا میری کسی چیز کا نام لے کر تنگ کرتی ہے تو تمھارے دِل میں کیا خیال آتا ہے . میری بات سن کر نبیلہ خاموش ہو گئی میں 2 دفعہ اس کو کہا کچھ تو بولو پِھر میں نے کہا اچھا میری بات بری لگی ہے تو معافی چاہتا ہوں اور فون بند کر دیتا ہوں . وہ بولی نہیں بھائی معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں . بھائی خیال کیا آنا ہے عورت ہوں جوان ہوں جذبات رکھتی ہوں لیکن میں اس کو اپنے ہی بھائی کے بارے میں کیا جواب دوں . میں نے کہا دیکھو اگر تم اس سے اپنی جان چھوڑ وانہ چاہتی ہو تو جب بھی وہ تمہیں تنگ کرے تم آگے سے ہنس دیا کرو اور اس کو تنگ کرنے کے لیے کبھی کبھی بول دیا کرو کے تم اپنی ماں کو میرے بھائی کے نیچےلیٹا دو نا وہ تو ویسے بھی مر رہی ہے . اور خود بھی اپنی گانڈ میں میرے بھائی کا موٹا لن لے لیا کرو اپنے یار سے تو بڑے مزے سے اندر کرواتی ہو . نبیلہ نے کہا بھائی میں یہ کیسے بول سکتی ہوں . میں نے کہا مجھے تھوڑی بولنا ہے تمہیں تو سائمہ کو بولنا ہے جب تمہیں تنگ کرے تم اس کو یہ باتیں سنا دیا کرو پِھر دیکھو وہ خود ہی تمھاری جان چھوڑ دے گی . نبیلہ نے کہا بھائی میں کوشش کروں گی . پِھر میں نے کہا باجی سے بات کر مجھے بتا دینا میں اب فون بند کرنے لگا ہوں. پِھر میں دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا مجھے 2 ہفتے ہو گئے تھے نبیلہ سے بات کیے ہوئے جب میں گھر فون کرتا تھا تو اس سے بات ہوئى لیکن باجی کے موضوع پے کوئی بات نہیں ہوئى پِھر ایک دن میں رات کو اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا رات کے11 بج رہے تھے کے اچانک میرے موبائل پے مس کال آئی میں نے دیکھا یہ نبیلہ کا ہی نمبر تھا . میں نے سوچا پاکستان میں تو 1 بجے ہوں گے آج اتنی لیٹ کیوں مس کال کی ہے . میں نے کال ملائی تو نبیلہ نے آہستہ سی آواز میں کہا بھائی کیا حال ہے . میں نے کہا میں ٹھیک ہوں . تم کیسی ہو اتنی لیٹ کال اور اتنا آہستہ کیوں بول رہی ہو . تو وہ بولی وہ آپ کی بِیوِی کنجری آ گئی ہے اور ساتھ اپنے کمرے میں ہے ابھی اس کے کمرے کی لائٹ آف ہوئى ہے تو میں نے آپ کو کال ملائی ہے . لیکن اگر آپ کو میری آواز نہیں آرہی تو تھوڑا انتظار کریں میں اوپر چھت پے جا کر بات کرتی ہوں . میں نے کہا اگر کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی بات نہیں ایسے ہی بات کر لو . تو وہ بولی نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے میں چھت پے ہی جا کر بات کرتی ہوں آپ ہولڈ کریں . میں نے کہا ٹھیک ہے میں انتظار کرتا ہوں. پِھر کچھ ہی دیر بعد نبیلہ بولی بھائی اب آواز آ رہی ہے میں نے کہا ہاں آ رہی ہے اب بولو کس لیے فون کیا تھا . تو نبیلہ نے کہا بھائی باجی گھر آئی ہوئی تھی اور 3 دن رہ کر کل ہی گھر گئی ہیں میری ان سے 2 دن پہلے رات کو تقریباً 3 گھنٹے تک سائمہ کے موضوع پے بات ہوئی تھی . میں نے آپ کے کہنے پے بالکل کھل کر بات کی شروع میں میرے اتنا کھل کر بات کرنے پے باجی بھی تھوڑا حیران ہوئی لیکن پِھر وہ کچھ دیر بعد نارمل ہو گئی اور پِھر وہ بھی کھل گئی اور ان کے ساتھ کھلی گھپ شپ لگی تھی اور بہت سے نئی باتیں پتہ چلیں تھیں . میں نے نبیلہ سے کہا واہ کیا بات ہے میری بہن اب تیز ہو گئی ہے .آگے سے بولی بھائی آپ نے اور سائمہ نے کر دیا ہے . اور میں اس کی بات سن کر ہنسنے لگا . پِھر میں نے کہا بتاؤ کیا بات ہوئی ہے . تو وہ بولی بھائی پہلے تو باجی کو جب چا چی اور سائمہ کا پتہ لگا تو پِھر وہ ہکا بقا رہ گئی . اور دونوں ماں بیٹی کو گالیاں دینے لگی . پِھر میں نے باجی کو جب سائمہ کی وہ باتیں بتائی جو اس نے باجی کے متعلق بولی تھیں تو باجی پہلے تو ساری باتیں سن کر خاموش ہو گئی . اور پِھر بولی نبیلہ یہ سچ ہے کے میں نے سائمہ کو یہ ساری باتیں کی تھیں لیکن میں نے تو اس کو ایک عورت بن کر اپنے بھائی کی خاطر اس کو سمجھایا تھا سائمہ بھی کوئی بچی تو نہیں تھی شادی شدہ تھی اِس لیے میں نے شادی شدہ زُبان میں ہی اور ایک عورت بن کر سمجھایا تھا . لیکن مجھے کیا پتہ تھا وہ تو اپنی ماں سے بڑی کنجری نکلے گی . ماں تو بھائی سے بھی کرواتی تھی لیکن بیٹی نے تو یار بھی بنایا اور پِھر اپنی ہی ماں کو بھی اپنے یار کے نیچے لیٹا دیا بہت بڑی کنجری ہے سائمہ اور مجھے کہتی ہے باجی تیرے بھائی کا لن بہت لمبا اور موٹا ہے وہ مجھ پے ظلم کرتا ہے میں اس سے گانڈ مروا کے تو مر ہی جاؤں گی . لیکن مجھے کیا پتہ تھا وہ تو میرے بھائی کو ترسا کر اپنے یار سے گانڈ کے اندر بھی لیتی ہے میں نے کہا اچھا تو یہ بات ہے . بھائی ایک بات اور تھی وہ میں نے اپنے طور پے باجی سے پوچھی تھی لیکن مجھے باجی پے حیرانگی بھی ہوئی اور ترس بھی آیا کہ میری باجی اوپر سے خوش دیکھا کر اندر سے کتنی ذیادتی برداشت کر رہی ہے. میں نے پوچھا کیسی ذیادتی نبیلہ مجھے کھل کر بتاؤ . تو نبیلہ نے کہا بھائی میں نے ویسے ہی باجی سے کہا کہ باجی آپ نے جو بھائی کے بارے میں اپنے جذبات سائمہ کو بتا ے تھے کیا وہ آپ کے دِل کی بات تھی یا ویسے ہی سائمہ کو سمجھا نے کے لیے بولے تھے . تو باجی کی آنکھ سے آنسو آ گئے اور باجی پِھر کچھ دیر بَعْد بولی کہ نبیلہ سچ کہوں تو وہ میرے دِل کے جذبات تھے . کیونکہ میں بھی عورت ہوں جذبات رکھتی ہوں اِس لیے جب سائمہ نے وسیم کے بارے میں مجھے بتایا اور اس کے لن کے بارے میں بتایا تو میرا دِل بھر آیا تھا کیونکہ میرا میاں تو شروع شروع میں بہت اچھا تھا اور مجھے خوب پیار کرتا تھا . سچ بتاؤں تو شروع کے مہینوں میں تو وہ پوری پوری رات مجھے کپڑے بھی نہیں پہننے دیتا تھا پوری رات ننگا رکھتا تھا اور ہر رات 3 دفعہ میری جم کر مارتا تھا . لیکن پِھر پہلا بچہ ہوا تو وہ ہفتے میں 2 یا 3 دفعہ ہی بس کرتا تھا پِھر دوسرا بچہ ہوا تو ہفتے میں 1 دفعہ کرنے لگا اور ا ب یہ حال ہے مہینے میں ایک دفعہ کرتا ہے لیکن میرے آگے اور پیچھے میں خود 2 بار جلدی جلدی فارغ ہو جاتا ہے اور مجھے رستے میں چھوڑ دیتا ہے . اور میں بس 3 سال سے بس ایسے ہی برداشت کر رہی ہوں اِس لیے جب سائمہ نے مجھے وسیم کی روٹین اور اس کے لن کے بارے میں بتایا تو مجھے اپنے نصیب پے دکھ ہوا اور میں نے اپنے دِل کے جذبات اس کو کہہ دیئے . لیکن نبیلہ خود بتا وسیم میرا چھوٹا بھائی ہے تم یا میں کچھ کر تو نہیں سکتی نہ. بھائی پِھر میں نے باجی کو آپ کی وہ باتھ روم والی بات بتا دی تھی میں نے کہا باجی میں نے وسیم بھائی کا لن دیکھا ہوا ہے سائمہ ٹھیک کہتی ہے بھائی کا لن کافی موٹا بھی ہے لمبا بھی ہے اور میں نے باتھ روم والا واقعہ بتا دیا . باجی نے میری بات سن کر لمبی سی آہ بھری اور بولی لیکن نبیلہ کچھ بھی ہو وسیم ہمارا بھائی ہے . ہم سن کر یا دیکھ کر بھی اپنا نصیب تو نہیں بَدَل سکتے. بھائی مجھے جو نئی بات باجی سے پتہ چلی اس کو سن کر تو میں خود بھی حیران اور ہکا بقا رہ گئی تھی . میں نے کہا وہ کون سی بات ہے . تو باجی نے بتایا کے میری نند یعنی ہماری خالہ کی بیٹی شازیہ وہ بہت بڑی چنال عورت نکلی ہے . کیونکہ باجی نے بتایا کے وہ اکثر اپنے سسرال میں لڑائی کر کے اپنے یعنی ہماری خالہ کے گھر آ جاتی ہے . اور کتنے کتنے دن یہاں ہی رہتی ہے . میں نے کہا نبیلہ اِس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے . تو نبیلہ نے کہا بھائی آپ پہلے پوری بات سن لیں پِھر بتائے گا . باجی نے کہا مجھے پہلے پہلے تو کچھ بھی نہیں پتہ تھا . لیکن میں اندر خانہ سوچتی رہتی تھی میرا میاں اچھا بھلا صحت مند بندہ ہے وہ یکدم ہی ہفتے والی روٹین سے مہینے والی پے کیسے چلا گیا . مجھے اپنے سوال کا کوئی بھی جواب نہیں ملا . لیکن پِھر ایک دن مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا . میں اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی گرمی بھی زیادہ تھی رات کے وقعت لائٹ چلی گئی تو گرمی کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی . اور میں اٹھ کر بیٹھ گئی ساتھ بیڈ پے دیکھا میرے میاں نہیں ہے . میں تھوڑا حیران ہوئی یہ آدھی رات کو کہاں گئے ہیں پِھر سوچا ہو سکتا پانی پینے یا باتھ روم میں گئے ہوں گے . میں کوئی 15 منٹ تک انتظار کرتی رہی اور لیکن میرا میاں واپس نہیں آیا . میں سوچ رہی تھی پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے ان کی کوئی طبیعت تو خراب نہیں ہے اِس لیے میں بیڈ سے شور کیے بنا اٹھی اور کمرے سے باہر آ گئی . میں صحن میں گئی وہاں بھی کوئی نہیں تھا پِھر باتھ روم میں گئی وہاں بھی کوئی نہیں تھا ایک اور بیڈروم تھا وہ کسی زمانے میں میری نند کا تھا لیکن شادی کے بعد تو خالی ہی تھا میں نے اس کو کھول کر دیکھا تو وہ بھی خالی تھا . میں خالہ کے کمرے میں دیکھنے گئی وہاں بھی کوئی نہیں تھا میں اور زیادہ حیران ہوئی میری نند جب بھی آتی تھی تو اپنی ماں کے ساتھ ہی اس کمرے میں سوتی تھی لیکن اس کی چارپائی بھی خالی تھی مجھے شدیدحیرت ہوئی کے گھر کے 2 لوگ میرا میاں اور اس کی بہن پورے گھر میں نہیں ہیں . اب آخری گھر میں بیڈروم کی بیک پے کوئی10 فٹ کی گلی بنائی ہوئی ہے اور دیوار بھی بنی ہوئی ہے اس میں اپنے کپڑے وغیرہ وہاں ہی دھوتے تھے . اور ایک کونے پے اسٹور کمرہ بھی بنایا ہوا تھا جس میں گندم وغیرہ اور گھر کی پیٹی اس میں رکھی تھی . میاں چلتی ہوئی خالی والے بیڈروم کے دروازے سے کو کھول کر پیچھے جو خالی جگہ بنائی ہوئی تھی وہاں آ گئی وہاں باہر تو کوئی بھی نہیں تھا اسٹور کا دروازہ ویسے بند تھا لیکن اس کی کنڈی باہر سے کھلی ہوئی تھی میں نے سوچا شاید خالہ کنڈی لگانا بھول گئی ہوں گی . میں چلتی ہوئی جب اسٹور کے پاس آئی تو مجھے اسٹور کی دوسر ی دیوار والی سائڈ پے لوہے کی کھڑکی لگی ہوئی تھی اس میں صرف جالی ہی لگی تھی اس اس کھڑکی سے مجھے جو آہستہ آہستہ آواز سنائی دی وہ میرے لیےحیران کن تھی کیونکہ یہ آواز تو اس وقعت ہی کسی عورت کے منہ سے نکلتی ہے
Like Reply
#11
جب کوئی مرد اس کو جم کا چو د رہا ہو . میں حیران تھی یہ آواز تو میری نند کی تھی لیکن وہ اندر کس مرد کے ساتھ ہے میرا دِل دھڑکنےلگا مجھے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی . میں تھوڑا کھڑکی کے پاس ہو کر ایک سائڈ پے کھڑی ہو گئی اب مجھے آوازیں بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں . پِھر وہاں جو میں نے سنا تو میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی کیونکہ اندر اندھیرا تھا میں دیکھ تو سکتی نہیں تھی لیکن آواز صاف سن سکتی تھی . میری نند نے جب یہ کہا .) ظفر ہور دھکے زور نال مار مینو تیرا لن پورا اندر تک چای ڈا اے( . پِھر میرے میاں کی آواز میرے کان میں آئی کے )شازیہ توں ذرا صبر کر ہون لن پورا اندر سم پو سی (میرا میاں اندر اپنی سگی بہن کو چھو د رہا تھا اور اس کی بہن اس کو خود منہ سے بول کر کہہ رہی تھی اور زور لگا کر چودو میں وہاں تقریباً 10منٹ تک کھڑی رہی لیکن اندر سے بدستور مجھے اپنے میاں اور اس کی بہن کے آپس میں جسم ٹکرا نے کی آوازیں اور چدائی کی آوازیں آتی رہیں اور پِھر میں اپنا دُکھی دِل لے کر واپس اپنے کمرے میںآگئی اور میرے آنے کے کوئی آدھے گھنٹے بَعْد میرا میاں بھی آ کر میرے ساتھ لیٹ گیا میں پتہ نہیں کس دنیا میں تھی اور پتہ نہیں چلا سو گئی صبح اٹھی تو میاں نہیں تھا وہ اپنے کام پے چلا گیا تھا جب نند کو دیکھا تو وہ عام دنوں کی طرح بہت خوش تھی اور مجھے سے بھی ویسے ہی باتیں کر رہی تھی جو عام دنوں میں کرتی تھی . لیکن میں اندر سے مر چکی تھی . پِھر جب میں نے اپنے میاں سے بات کی تو مجھے اس نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اب وہ میری نند کے پُرانے کمرے میں روز رات کو چلا جاتا اور 2 یا 3 گھنٹے اپنی بہن کے ساتھ مزہ کر کے واپس آجاتا جب کبھی میرے جسم کی طلب ہوتی تو مہینے میں ایک دفعہ مجھے سے کر لیا کرتا تھا بس یوں ہی 3 سال سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو برداشت کر رہی ہوں . بھائی یہ آج نئی بات مجھے باجی نے بتائی تھی اور میں نے جب سے سنا ہے دِل رَو رہا ہے کے اصل ظلم تو میری باجی کے ساتھ ہو رہا ہے ، سائمہ بھی اپنی زندگی میں خوش ہے اور شازیہ بھی خوش ہے . باجی کی کہانی نبیلہ کے منہ سے سن کر میں بہت زیادہ پریشان اور دُکھی ہو گیا تھا . اور میں نے کہا نبیلہ میرا دِل اب بات کرنے کو نہیں کر رہا ہے . میں پِھر بات کروں گا اور کال کو کٹ کر دیا اور گہری سوچوں میں گم ہو کر سو گیا. نبیلہ سے بات ہو کر کتنے دن ہو گئے تھے لیکن میرا دِل خوش نہیں تھا کیونکہ میں باہر رہ کر بھی اتنا پیسہ کما کر بھی اپنی کسی بھی بہن کے لیے خوشی نا خرید سکا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا میری باجی کتنے سالوں سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو چھپا کر بیٹھی تھی اور ہر وقعت خوش رہتی تھی لیکن کس کو کیا پتہ تھا باہر دکھنے والی خوشی اندر سے کتنا بڑا ظلم برداشت کر رہی ہے. پِھر یوں ہی دن گزرتے رہے میں گھر فون کر لیتا تھا اور نبیلہ سے بھی بات ہو جاتی تھی لیکن پِھر دوبارہ کبھی اِس موضوع پے بات نہ ہوئی . مجھے اب 1 سال اور 5 مہینے ہو چکے تھے . میں بس مشین کی طرح ہی پیسہ کما رہا تھا . لیکن شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا . جب میرے پاکستان جانے میں کوئی 4 مہینے باقی تھے تو مجھے ایک دن گھر سے کال آئی وہ میرے لیے بمب پھوٹنے سے زیادہ خطر ناک تھی.
Like Reply
#12
میری بہن نبیلہ کا فون آیا اور وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی بھائی ابّا جی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے . میرے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا زخم تھی . میرے ابّا جی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہو گئے . مجھے جس دناطلاع ملی میں نے اپنا سارا ساما ن جمع کیا اپنے بینک سے سارے پیسے نکالے میری کمپنی کا مالک بہت اچھا عربی تھا میں نے تقریباً اس کے ساتھ 9 سال گزارے تھے اس نے مجھے ایک دن میں پاکستان بھیج دیا میرا سارا 9 سال کا حساب بھی مجھے دیا اور میں پاکستان واپس آ گیا . میں جنازہ سے کوئی 1 گھنٹہ پہلے ہی اپنے گھر پہنچا اور پِھر اپنے ابّا جی کو دفن کر کے گھر آ گیا گھر میں میری ماں دونوں بہن نے میرے گلے لگ کر بہت روئے اور مجھے بھی بہت رلایا. ابّا جی کو فوت ہوئے 1 ہفتہ ہو گیا تھا لیکن گھر میں سب خاموش اور دُکھی تھے . میں بھی بس اپنے کمرے میں ہی پڑا رہا بس كھانا کھانے کے لیے کمرے سے نکلتا . پِھر کوئی10 دن بعد ایک دن میری باجی میرے کمرے میں آئی اور مجھے سے ابّا جی اور سب کی بہت باتیں کی اور مجھے سمجھایا کے اب گھر کی ذمہ داری ساری تم پے ہے . میں باجی کی ساری باتیں خاموشی سے سنتا رہا اور ہاں میں بولتا رہا . پِھر باجی مزید کوئی 1 ہفتہ رہی اور پِھر اپنے سسرال چلی گئی . میں نے اپنی زندگی کو آہستہ آہستہ اپنے پُرانے موڑ پے لے کر آنے کی کوشش کرنے لگا. پِھر ابّا جی کا 40 دن بعد ختم آ گیا وہ کروا کے کچھ دن بعد میں گھر سے باہر نکلا میرا اب اگلا کام کوئی کاروبار شروع کرنا تھا . میں کوئی 15 دن تک یہاں وہاں کاروبار کے لیے معلومات لیتا رہا . پِھر میں نے ملتان شہر میں اچھےعلاقےمیں ہی 3 دکان کو خرید لیا اور ان کو رینٹ پے لگا دیا ان کا ماہانہ رینٹ مجھے تقریباً 45000مل جاتا تھا میرے پاس پہلے ایک گھر کے لیےگاڑی تھی چھوٹی تھی میں نے اس کو بیچ کر اور پیسے ڈال کر بڑی گاڑی لے لی اور پِھر اپنے اسلام آباد والے دوست کو بول کر کسی سرکاری مہکمہ میں اپنی گاڑی رینٹ پے لگا دی وہ مجھے مہینے کا 60000 تک نکال کر دے دیتی تھی . خود گھر کے لیے ایک موٹر بائیک لے لی . اور جب میرا دو جگہ پے جگاڑ فٹ ہو گیا تو میں نے اب گھر کی طرف توجہ دینے لگا مجھے اب باجی اور سائمہ اور نبیلہ اور چا چی سب کو ٹھیک کرنا تھا سب کے مسئلے حَل کرنے تھے. مجھے پاکستان آئے ہوئے تقریباً 3 مہینے سے زیادہ وقعت ہو گیا تھا . میں سعودیہ میں پورا پلان بنا کر آیا تھا کہ کس کس کا مسئلہ کب اور کس وقعت حَل کرنا ہے . سب سے پہلے میری توجہ اپنی باجی فضیلہ تھی ان کا مسئلہ حَل کرنا تھا. ایک دن صبح ناشتہ وغیرہ کر کے میں سیدھا باجی فضیلہ کے گھر چلا گیا وہاں میں خالہ سے بھی ملا وہ مجھے دیکھا کر کافی خوش ہوئی اور وہاں میں نے شازیہ باجی کو بھی دیکھا تھا . وہ بھی مجھے ملی وہ میری باجی فضیلہ کا ہی ہم عمر تھی . میری خالہ بیمار رہتی تھی . اِس لیے ان کو زیادہ نظر بھی نہیں آتا تھا . سو دن کو باہر صحن میں اور رات کو اپنے کمرے میں ہی پڑی رہتی تھی وہاں پے ان کو كھانا پینا مل جاتا تھا . پِھر باجی نے کہا وسیم اندر چل میرے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں . میں اٹھ کر باجی کے ساتھ کمرے میں آ گیا جب باجی کے ساتھ کمرے میں آ رہا تھا تو شازیہ باجی بولی وسیم تو اپنی باجی کے پاس بیٹھ میں وہاں ہی تیرے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں. میں باجی کے کمرے میں آ گیا اور باجی کے ساتھ باتیں کرنے لگا اور باجی مجھ سے کام کا پوچھا میں نے ان کو سب بتا دیا جس کا سن کر وہ خوش ہو گئی اور پِھر یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگے . تھوڑی دیر بَعْد شازی باجی چائے لے آئی اور جب وہ مجھے کپ چائے کا دے رہی تھی تو میں نے دیکھا انہوں نے دوپٹہ نہیں لیا ہوا تھا اور ان کی قمیض کا گلا کافی زیادہ کھلا تھا اور ان کو موٹے موٹے ممے صاف نظر آ رہے تھے . باجی شازیہ نے میری نظر اپنے مموں پے دیکھ لی تھی اور ایک بہت ہی کمینی سی سمائل دی اور پِھر باہر چلی گئی لیکن جب وہ باجی کے دروازے کے پاس پہنچی میں دیکھ رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے اپنی گانڈ کی لکیر میں ڈال کر زور سے خارش کی اور پِھر باہر کو چلی گئی شاید انہوں نے یہ حرکت جان بوجھ کر کی تھی . اور یہ باجی فضیلہ نے بھی دیکھ لی تھی اور اس کے باہر جاتے ہی بولی چنال پوری کنجری عورت ہے . میں باجی کی بات سن کا چونک گیا اور باجی کا منہ دیکھنے لگا تو باجی نے کہا اِس کنجری سے بچ کر رہنا اِس کا ایک مرد سے گزارا نہیں ہوتا باجی کا چہرہ بتا رہا تھا ان کو شازیہ باجی پے کافی غصہ تھا . میں نے آہستہ سے کہا باجی آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں کیا ہوا ہے . تو باجی کا اپنا چہرہ میری بات پے لال ہو گیا اور بولی وسیم تو جوان ہے شادی شدہ ہے اچھے برے کی تمیز جانتا ہے اِس لیے میں بھی شادی شدہ ہونے اور تیری بڑی بہن ہونے کے ناتے بتا رہی ہوں اِس شازیہ کنجری سے بچ کر رہنا . اِس کا ایک مرد سے گزارا نہیں ہوتا پتہ نہیں کتنے اور لوگوں کے مرد کھا ئے گی کنجری. میں نے کہا باجی آپ کہنا کیا چاہتی ہیں کھل کر صاف صاف بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو . تو باجی نے کہا وسیم میرے بھائی میرے بیٹے میں تمہیں سب بتاؤں گی اور مجھے تم سے اور بھی ضروری باتیں کرنی ہیں میں 2 دن تک گھر آؤں گی پِھر بیٹھ کر تیرے کمرے میں بات کریں گے یہاں وہ باتیں ہو نہیں سکتی . میں نے کہا ٹھیک ہے باجی جیسے آپ کی مرضی . اور میں کچھ دیر وہاں بیٹھا اور پِھر گھر واپس آ گیا . گھر میں مجھے نبیلہ ملی اور بولی بھائی کہاں گئے تھے میں نے کہا کہیں نہیں بس خالہ کی طرف گیا تھا اور باجی سے مل کر ابھی گھر واپس آ گیا ہوں . میں نے نبیلہ سے پوچھا یہ سائمہ کب تک لاہور سے واپس آئے گی کچھ تمہیں پتہ ہے . تو وہ غصے سے بولی بھائی آپ کو بھی پتہ ہے وہ لاہور کس لیے جاتی ہے جب اس کا دِل بھر جائے گا اور آگ ٹھنڈی ہو جائے گی تو پِھر واپس آ جائے گی . ویسے ابھی تو اس کو گیا ہوئے ایک ہفتہ ہوا ہے شاید اگلے ہفتے آ جائے ویسے 15 دن بَعْد اپنی آگ ٹھنڈی کروا کر آ جاتی ہے . آپ کو نہیں بتا کر گئی . میں نے کہا مجھے تو ایک ہفتے کا بول کر گئی تھی . پِھر نبیلہ نے کہا چھوڑو بھائی اس کنجری سے جان چھوٹی ہوئی ہے . ویسے آپ کیوں اتنے پریشان ہیں کہیں آپ کو بھی تو اپنی بِیوِی کی طلب تو نہیں ہو رہی . میں نبیلہ کی بے باکی پے حیران رہ گیا کہ پہلے تو وہ بات سنتے ہوئے بھی شرما جاتی تھی اور اب کھلا بول دیتی ہے . پِھر میں نے بھی نبیلہ کو چیک کرنے کی کوشش کی اور اس کو کہا ہاں بہن ہر مرد کواپنی بِیوِی کی طلب ہوتی ہے اب ہر ایک کی قسمت سائمہ جیسی یا چا چی جیسی یا شازیہ باجی جیسی تو نہیں ہوتی نہ ایک نا ملا تو کوئی دوسرا ہی سہی . اب شاید نبیلہ میری بات سن کر لال سرخ ہو گئی اور شرم کے مارے منہ نیچے کر لیا . میں نے کہا نبیلہ تم کیوں شرمندہ ہو رہی ہو جو کھلا کر رہے ہیں وہ بے شرم بنے ہوئے ہیں اور تم کچھ نا کر کے بھی شرمندہ ہو رہی ہو . اور اس کو پکڑ کر اپنے گلے سے لگا لیا اور سر پے پیار سے ہاتھ پھیر نے لگا . لیکن جب مجھے نبیلہ کے تنے ہوئے ممے میرے سینے پے لگے تو میرے جسم میں کر نٹ دوڑ گیا اور یہ دوسری دفعہ تھا کے میں نبیلہ کے ممے اپنے سینے پے محسوس کر رہا تھا اور نبیلہ بھی مجھ سی چپکی ہوئی تھی اس کے ممے بہت ہی نرم اور موٹے تھے . پِھر اس نے کہا بھائی کاش ایسا سکون میرے نصیب میں بھی ہوتا میں اس کی بات سن کر چونک گیا اور اس کو کہا نبیلہ کیا کہا تم نے لیکن وہ یہ بول کر بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور اپنا دروازہ بند کر لیا میں بھی یہ بات سوچتے سوچتے اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پے لیٹ گیا. خیر اس دن کے گزر جانے کے بعد میری باجی فضیلہ 3 دن بعد گھر آئی ہوئی تھی اس کے ساتھ پہلے دن تو کوئی خاص بات نہ ہوئی لیکن دوسرے دن دو پہر کا كھانا کھا کر میں اپنے بیڈروم میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا گھر کے سارے لوگ دو پہر کو سو جایا کرتے تھے میں بھی کبھی سو جاتا تھا کبھی ٹی وی دیکھتا رہتا تھا . آج بھی میں ٹی وی دیکھ رہا تھا جب فضیلہ باجی کوئی 3 بجے کے وقعت میرے کمرے میں آ گئی اور میرے کمرے کا دروازہ بند کر دیا کنڈی نہیں لگائی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پے ایک سائڈ پے بیٹھ گئی . میں نے ٹی وی کی آواز کو آہستہ کیا اور بولا باجی اور سنائیں کیسی ہیں خالہ وغیرہ ظفر بھائی سب ٹھیک ہیں . تو باجی نے کہا ہاں وسیم سب ٹھیک ہیں خالہ کا تمہیں پتہ ہی ہے وہ بیمار رہتی ہیں . اور ظفر کو کیا ہونا ہے ٹھیک ہی ہے ہٹا کٹا ہے . میں نے دیکھا ظفر کی بات باجی بڑی ناگواری سے کر رہی تھی. پِھر باجی نے کہا وسیم تم سناؤ کیا نئی تازی ہے . سائمہ کی سناؤ اس نے کب واپس آ نا ہے . میں نے کہا باجی میں ٹھیک ہوں اور سائمہ مجھے تو ایک ہفتے کا بتا کر گئی تھی آج ایک ہفتے سے زیادہ دن ہو گئے ہیں لیکن واپس نہیں آئی . باجی سمجھ نہیں آتی میں جب سے پاکستان واپس آیا ہوں وہ 2 دفعہ لاہور جا کر رہتی رہی ہے . اور جب پاکستان میں نہیں ہوتا تھا تو زیادہ تر وہ اپنی ماں کے گھر میں ہوتی تھی . پِھر فضیلہ باجی میرے نزدیک ہو کر بیٹھ گئی اور میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی بھائی مجھے سب پتہ ہے . لیکن تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہی ہو گا . میں نے کہا جی باجی دعا ہے ایسا ہی ہو . پِھر باجی نے کہا میں نے کچھ باتیں تم سے ضروری کرنی تھی . لیکن سمجھ نہیں آتی کہاں سے شروع کروں اور کہاں سے نہ کروں . میں نے کہا باجی کیا بات ہے خیر تو ہ ہے نہ . تو فضیلہ باجی نے کہا ہاں وسیم خیر ہے . اصل میں بات یہ ہے کہ تم میرے چھوٹے بھائی بھی ہو بیٹے کی طرح بھی ہو . ابّا جی کے بعد تو ا می یا میں ہی ہوں جو تمہارا خیال کریں گے اور تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہونے دیں گے . میں نے کہا باجی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں کھل کر بات کریں مجھے پتہ ہے آپ میرا کبھی بھی نقصان یا برا نہیں سوچیں گی. وسیم دراصل مجھے تم سے سائمہ کے متعلق بات کرنی تھی . میں نے کہا کہو باجی کیا بات ہے . تو باجی نے کہا وسیم میرے بھائی سائمہ اور اس کی ماں ٹھیک عورت نہیں ہیں . اور تیری بِیوِی نے تو جان بوجھ کر ہم سب کو اور تمہیں دھوکہ دیا ہے . پِھر میں نے پوچھا باجی کس چیز کا دھوکہ . تو باجی نے وہ ہی نبیلہ والی ساری اسٹوری جو سائمہ اور اس کی ماں کی تھی مجھے سناتی رہی اور میں اپنے چہرے کے تاثرات سے ان کو یہ شق نہیں ہونے دیا کہ مجھے کچھ پتہ ہے. میں نے باجی کی پوری بات سن کر تھوڑا پریشانی والا چہرہ بنا لیا اور میں نے کہا باجی اِس لیے میں کہوں وہ اتنا زیادہ اپنی ماں کے پاس کیوں جاتی ہے . آج پتہ چلا کہ وہ تو مجھے ہم سب کو دھوکہ دے رہی ہے . پِھر میں نے کہا باجی مجھے اپنی سھاگ رات پے ہی شق ہو گیا تھا لیکن آج آپ کی باتیں سن کر شق یقین میں بَدَل گیا ہے . تو باجی نے کہا وسیم سھاگ رات کو تمہیں اس پے کیسے شق ہوا تھا
Like Reply
#13
میں نے کہا باجی وہ کنواری نہیں تھی صبح بیڈ کی شیٹ دیکھی تو وہ صاف تھی کوئی خون کا نشان نہیں تھا . اس دن میرے دماغ میں شق بیٹھ گیا تھا لیکن آج تو یقین میں بَدَل چکا ہے. اور پِھر باجی نے کہا سائمہ بہت بڑی کنجری نکلی ہے لیکن اس کی ماں تو اس سے بڑی کنجری نکلی ہے اپنے سگے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا . لیکن وسیم میں تم سے اِس لیے یہ بات کر رہی ہوں کہ اب کیا پتہ ان دونوں ماں بیٹی کے اور کتنے یار ہیں اور اگر گاؤں میں یا خاندان میں کسی کو ان کا پتہ چل گیا تو بدنامی سب سے زیادہ تو ہماری ہو گی . وہ دونوں ماں بیٹی تو لاہور بیٹھی ہیں ان کو کون جا کر کوئی پوچھے گا . میں نے کہا ہاں باجی یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں . تو باجی نے کہا اِس لیے وسیم تم کچھ کرو اور اِس مسئلے کا حَل نکالو نہیں تو لوگ تو چا چے کو برا بھلا کہیں گے اور ہمارا چا چا تو عزت دار بندہ تھا . میں نے کہا باجی آپ مجھے کچھ سوچنے کا ٹائم دو میں سوچ لوں پِھر دیکھتا ہوں آگے کیا کرنا ہے . باجی نے کہا جو بھی ہو سوچ سمجھ کر کرنا . میں نے کہا ٹھیک ہے باجی آپ بے فکر ہو جائیں . پِھر باجی خاموش ہو گئی . میں نے کہا باجی اس دن آپ کے گھر پے آپ شازیہ باجی کے بارے میں کچھ بول رہی تھی آپ نے کہا تھا میں تمہیں اپنے گھر آ کر اکیلے میں بتاؤں گی . باجی کی آنکھ سے آنسو نکل آ گئے اور میں نے باجی کا چہرہ اپنے ھاتھوں میں لے کر ان کا ماتھا چُوما اور اپنے ساتھ گلے لگا لیا اور بولا باجی رَو کیوں رہی ہیں کیا ہوا ہے. پِھر باجی نے کہا وسیم شازیہ بھی بہت بڑی کنجری عورت ہے اس نے تو میرا میاں ہی مجھے سے چھین لیا ہے . اور میں اپنے میاں كے ھوتے ہوئے بھی بس اکیلی اور تنہا ہوں . اور پِھر باجی نے مجھے ظفر بھائی اور شازیہ باجی کا وہ والا واقعہ بتا دیا جو مجھے نبیلہ نے بھی بتایا تھا . میں حیران ھوتے ہوئے باجی کو کہا باجی یہ کیسے ممکن ہے . ظفر بھائی شازیہ باجی میرا مطلب ہے اپنی سگی بہن کے ساتھ ہی کرتے ہیں . تو باجی نے کہا ہاں وسیم یہ سچ ہے اور وہ اب کھل کھلاکر کرتے ہیں شازیہ اور ظفر کو پتہ ہے کے مجھے یہ سب پتہ ہے اور دونوں بہن بھائی ہر روز شازیہ کے کمرے میں یہ کھیل کھیلتے ہیں . اِس لیے تو اپنے شوہر کے گھر نہیں رہتی اور اپنے سسرال میں لڑائی کر کے کئی کئی دن یہاں اپنے ماں کے گھر آ جاتی ہے اور دن رات اپنے بھائی سے مزہ لیتی ہے. میں نے کہا باجی یہ تو آپ پے بہت ظلم ہے اور مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے میری باجی کتنے سال سے یہ اذیت برداشت کر رہی ہے . باجی نے کہ ہاں وسیم بس کیا بتاؤں کس طرح یہ زندگی گزار رہی ہوں اپنا دکھ کسی کو بتا بھی نہیں سکتی اتنی بدنامی ہو جائے گی اور میرے دکھ کا کوئی مداوا بھی نہیں کر سکتامیں نے کہا باجی اِس بارے میں بھی آپ مجھے کچھ وقعت دو میں اپنی باجی کے دکھ اور ظلم کا مداوا ضرور کروں گا . باجی نے کہا وسیم میرے بھائی کیا کرو گے تم اپنی بہن کو کیا دے سکتے ہو سوائے تسلی کے کیا کرسکتے ہو.میں نے کہا باجی آپ فکر نہ کریں مجھے بس کچھ وقعت دیں میں شازیہ باجی کا بھی علاج کر لوں گا اور آپ کے لیے بھی کچھ نا کچھ ضرور سوچوں گا آپ میری باجی ہیں چاہے مجھے کچھ بھی آپ کے لیے کرنا پڑے میں کروں گا . بس آپ اب زیادہ دکھی نہ ہوں اور مجھے کچھ دن وقعت دیں پِھر دیکھیں آپ کا بھائی کیا کیا کرتا ہے. باجی نے کہا وسیم میرے بھائی مجھے تم پے پورا بھروسہ ہے تم میرا کبھی برا نہیں سوچو گے اور میری خوشی کے لیے کچھ بھی کرو گے . مجھے اب کوئی پریشانی نہیں ہے میرا بھائی میرے ساتھ ہے . تم جتنا مرضی وقعت لے لو جو بھی کرو میں تمہارا پورا پورا ساتھ دوں گی . 

پِھر باجی نے کہا وسیم نبیلہ کے بارے میں کیا سوچا ہے اس کی شادی کے لیے کیا سوچا ہے . میرے بھائی اس کی عمر بہت ہو گئی ہے . میں عورت ہوں دوسری عورت کا دکھ سمجھ سکتی ہوں اس کی عمر میں اس کو کسی کی ضرورت ہے پیار کی خیال کی مرد کی اِس لیے میرے بھائی اس کی شادی کا سوچو . میں نے کہا باجی میں کتنی دفعہ کوشش کر چکا ہوں لیکن نبیلہ شادی کی بات سنے کو تیار نہیں جب اس سے بات کرو کہتی ہے شادی کے علاوہ بات کرنی ہے تو کرو نہیں تو میں کوئی بات نہیں سنوں گی اور کہتی ہے نہ ہی مجھے کوئی پسند ہے . اور نہ ہی ظہور کے لیے مانتی ہے . میں کروں تو کیا کروں . باجی نے کہا ہاں میں جانتی ہوں ابّا جی بھی سمجھا سمجھا کر دنیا سے چلے گئے میں نے کتنی دفعہ کوشش کی لیکن وہ بات ہی نہیں سنتی . لیکن میرے بھائی میری بات کو تم سمجھو شادی کے بغیر وہ گھٹ گھٹ کر مر جائے گی . تم خود شادی شدہ ہو چاھے سائمہ سے کوئی بھی مسئلہ ہو لیکن مرد کو عورت اور عورت کو مرد کا ساتھ تو چاہیے ہوتا ہے . جسم کی ضروریات ہوتی ہیں . بھائی میں تمہیں اب بات کیسے سمجھاؤ ں. میں نے کہا باجی آپ کھل کر بولیں تو باجی نے کہا مجھے دیکھو میں تم سے بھی 5 سال بڑی ہوں اِس عمر میں بھی مجھے سے تنہائی اکیلا پن برداشت نہیں ہوتا میرے جسم کی طلب ہے . اور نبیلہ تو مجھے سے 9 سال چھوٹی ہے اس کی عمر میں تو عورت کے جذبات اور مرد کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے . پتہ نہیں کیوں وہ اپنے اوپر ہی ظلم کیوں کر رہی ہے . میں نے کہا باجی میں آپ کی بات سمجھ سکتا ہوں . لیکن ہوں تو اس کا بھائی اس کے ساتھ اتنا کھل کر بات نہیں کر سکتا لیکن پِھر بھی میں اس کے ساتھ پِھر بات کروں گا. باجی کو اور مجھے باتیں کرتے کرتے کافی ٹائم ہو گیا تھا پِھر باجی کچھ دیر اور بیٹھ کر چلی گئی . اور بیڈ پے لیٹ گیا اور سوچوں میں گم ہو گیا . پِھر باجی کچھ دن اور رہ کر چلی گئی . باجی کے جانے کے کچھ دن بَعْد میں نے سائمہ کو کال کی اور پوچھا کب واپس آنا ہے تو کہنے لگی آپ آ کر لے جائیں . میں نے کہا ٹھیک ہے میں کچھ دن تک آؤں گا . اور پِھر ایک اور دن میں اپنی ا می کے پاس بیٹھا تھا تو امی نے پوچھا بیٹا سائمہ کیوں نہیں آئی . میں نے کہا ا می میں نے اس کو کال کی تھی وہ کہتی ہے آ کر لے جاؤ میں سوچ رہا ایک دن جا کر لے آؤں . نبیلہ بھی وہاں ہی بیٹھی باتیں سن رہی تھی میری یہ بات سن کر غصے میں اٹھ کر کچن میں چلی گئی . میں بھی چند منٹوں کے بَعْد اٹھ کر کچن میں اس کے پیچھے چلا گیا اور کچن میں جا کر اس کو پوچھا نبیلہ کیوں اتنے غصے میں ہو . تو وہ بولی بھائی مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے . وہ دوسری طرف منہ کر کے برتن دھو رہی تھی اس نے سفید رنگ کا تنگ پجامہ اور کالی قمیض پہنی ہوئی تھی اس کے تنگ پجامے سے اس کی گانڈ کا اُبھارایک سائڈ سے کافی عیاں ہو رہا تھا یہ دیکھ کر میرے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا مجھے سائمہ کے ساتھ بھی مزہ کیے ہوئے کوئی 20 دن ہونے والے تھے میں نے اپنے دھیان بدلنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں میرا لن نیم حالت میں کھڑا ہوا تھا میں نے آگے براہ کر پیچھے سے نبیلہ کو پکڑ لیا اور اپنے بازو اس کے پیٹ پے رکھ کر پیار سے اس کے کان میں بولا میری پیاری سی بہن مجھ سے ناراض ہے . تو وہ بولی مجھے آپ سے بات نہیں کرنی ہے . لیکن وہ اس پوزیشن میں ہی کھڑی رہی مجھے بھی منع نہیں کیا میں نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ تمھارے بھائی کی غلطی کیا ہے پِھر غلطی بتا کر سزا بھی دے دینا . تو وہ تھوڑا سے پیچھے کو ہو گئی اس کی گانڈ میرے نیم کھڑے لن پے لگی اور بولی آپ اس کو کنجری کو کیوں لینے جا رہے ہیں آپ کو گھر کا سکون اچھا نہیں لگتا اور میں نے نوٹ کیا وہ اپنی گانڈ کو ہلکا ہلکا ہل کر میرے لن پر دبا رہی تھی اور اس کی اِس حرکت سے میرے لن کے اندر اور جان آ گئی اور وہ کافی حد تک کھڑا ہو چکا تھا جو شاید نبیلہ نے بھی صاف محسوس کر لیے تھا لیکن وہ مسلسل اپنی گانڈ اس پے دبا رہی تھی . میں نے کان کو ہاتھ لگا کر معافی مانگی اور بولا معافی دے دو میری بہن غلطی ہو گئی میں اس کو لینے نہیں جاؤں گا اس کا فون آئے گا تو کہہ دوں گا مصروف ہوں خود ہی آ جانا میری بات سن کر نبیلہ خوش ہو گئی اور میرا منہ تو ویسے ہی اس کے کان کے پاس تھے اس نے تھوڑا سا منہ کو گھوما کر آہستہ سے اپنے ہونٹ میرے ہونٹ پے لگا کر چھوٹی سی کس کی اور آخری دفعہ اپنی گانڈ کی لکیر کو میرے لن پے زور سے رگڑ تی ہوئی بولی شکریہ بھائی اور سے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی. میں اپنی اور نبیلہ کی اِس حرکت پے كافی حیران ہوا کیونکہ یہ زندگی میں پہلی دفعہ ہم دونوں بہن بھائی میں ایسا کچھ عجیب سا ہوا تھا . . زیادہ حیران تھا نبیلہ کا ریسپونس میرے سے بھی زیادہ اور گرم تھا . . پِھر اگلے کچھ دن خاص نہ ہوا میں بس اپنی باجی فضیلہ کے کے بارے میں حَل سوچتا رہا .
Like Reply
#14
اور کچھ نا کچھ پلان بنا چکا تھا . ایسے ہی ایک دن موسم اچھا تھا میں چھت پے چار پائی پے لیٹا ہوا تھا اور آج نبیلہ نے کپڑے دھو نےکے لیے مشین لگائی ہوئی تھی وہ بار بار کپڑے دھو کر اوپر چھت پے ڈال رہی تھی . پِھر کوئی چوتھی دفعہ نبیلہ اوپر کپڑے ڈالنے آئی تو اس نے اپنی قمیض کو پیچھے سے پجامے کے اندر پھنسایا ہوا تھا یہ وہ والا ہی سفید تنگ پجامہ تھا جو نبیلہ نے اس دن کچن میں پہنا ہوا تھا اور کپڑے دھو دھو کر اس کا پجامہ پورا گیلا ہوا تھا اور اس کی گول مٹول چٹی گانڈ اس کے پجامہ سے كافی حد تک نظر آ رہی تھی اس نے نیچے کوئی انڈرویئر بھی نہیں پہنا ہوا تھا . یہ منظر دیکھ کر میرا لن نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور اپنا سر اٹھانے لگا نبیلہ اپنے دھیان میں ہی کپڑے ڈال رہی تھی لیکن میں یہاں شلوار کے اوپر سے ہی اپنا لن پکڑ کر اس کو اوپر نیچے مسل رہا تھا اور نبیلہ کی گانڈ کا مزہ لے رہا تھا . میں اتنا غور سے دیکھ رہا تھا كے یکدم نبیلہ خالی بالٹی اٹھا کر واپس مڑ کر نیچے جانے لگی تو اس کی نظر میرے پے پڑی میں گھبرا گیا اور اپنے لن کو ہاتھ سے چھوڑ دیا لیکن میری قمیض اوپر سے ہٹی ہوئی تھی اور شلوار میں ہی میرا لن تن کر کھڑا تمبو بنا ہوا تھا جو نبیلہ کی آنکھوں نے صاف صاف دیکھ لیا تھا اور اس کا چہرہ دیکھ کر لال سرخ ہو گیا تھا وہ شرما کر اس نے ہلکی سی مجھے سمائل دی اور بھاگتی ہوئی نیچے چلی گئی . میں اس کے جانے کے بَعْد كافی دیر تک اپنے کھڑے لن کو بیٹھا نے کی کوشش کرتا رہا لیکن لن تھا كے بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا آج اِس نے کنواری گانڈ دیکھ لی تھی . میں سمجھا شاید اب نبیلہ نہیں آئے گی میں نے سوچا بہتر یہ ہی ہے کے شلوار میں مٹھ لگا کر پانی نکال لیتا ہوں اور پِھر بَعْد میں کپڑے بَدَل لوں گا . میں نے پِھر لن کو پکڑ لیا اور اس کو اوپر نیچے آہستہ آہستہ سہلانے لگا اور مٹھ لگانے لگا . مجھے اپنے لن کو مٹھ لگا تے ہوئے10 منٹ ہو گئے تھے . یکدم نبیلہ دوبارہ بالٹی ہاتھ میں پکڑے ہوئے اوپر آ گئی اس نے مجھے پِھر دیکھ لیا تھا میں نے فوراً لن کو اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان دبا لیا تھا . نبیلہ نے گیلے کپڑے ڈال کر میری طرف دیکھا اور پِھر میری طرف آ گئی اور آ کر چار پائی کے ایک کونے میں بیٹھ گئی . اور کچھ دیرچُپ رہی پِھر بولی بھائی اب سائمہ اپنی گانڈ نہیں دیتی تو اپنی بہن کی گانڈ پے ہی نظر رکھ لی ہے اور تھوڑی سمائل دے کر منہ نیچے کر لیا . میں نے کہا نہیں نبیلہ ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو بس ویسے ہی تھوڑا . نبیلہ بولی بھائی مجھے پتہ ہے سائمہ کو گئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں اور یہ بھی پتہ ہے آپ کو وہ گانڈ نہیں مارنے نہیں دیتی . اِس لیے آپ آج پِھر ایک دفعہ میری گانڈ دیکھ کر اپنے لن کے ساتھ کھیل رہے تھے . میں نے کہا نبیلہ غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دو . نبیلہ نے کہا بھائی میں آپ کی بہن ہوں اگر نہ ہوتی تو شاید کچھ آپ کا سوچ لیتی . میں نے کہا مجھے پتہ ہے . لیکن اگر سائمہ گانڈ میں نہیں لیتی تو کیا ہوا ، میں کوئی مر تو نہیں گیا ہوں . میں نے کہا نبیلہ ایک بات پوچھو ں برا تو نہیں مانو گی . تو اس نے کہا نہیں بھائی یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ پوچھو کیا پوچھنا ہے تو میں نے کہا جب تمہیں باجی نے شازیہ باجی اور ظفر بھائی کی بات بتائی تھی تو کیا کچھ اور بھی بتایا تھا . نبیلہ میری طرف دیکھ کر بولی بھائی میں آپ کی بات نہیں سمجھی آپ کیا کہنا چاھتے ہیں. میں نے کہا کہ کیا باجی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ظفر بھائی شازیہ باجی کی گانڈ بھی مارتے ہیں . نبیلہ میری بات سن کر تھوڑا شرما گئی اور بولی باجی نہیں تو اِس کا نہیں بتایا تھا لیکن آپ خود سوچو اگر ظفر بھائی باجی کی گانڈ روز مارتے تھے . تو لازمی بات ہے ان کو گانڈ مارنے کا شوق ہو گا اِس لیے انہوں نے شازیہ باجی کی بھی گانڈ ضرور ماری ہو گی . اور بات کر کے اور پِھر شرم سے لال سرخ ہو گئی اور منہ نیچے کر لیا. میں نے کہا ہاں یہ بات بھی تم ٹھیک کر رہی ہو . پِھر نبیلہ نے کہا بھائی آپ سے ایک بات پوچھنی ہے لیکن شرم بہت آ رہی ہے . میں نے کہا جتنا ہم بہن بھائی آپس میں کھل چکے ہیں اب تو شرمانا فضول ہے . ویسے بھی باتیں ہی کر رہے ہیں کون سا عمل کر رہے ہیں . پِھر شاید اس کو میری بات سن کر کافی حوصلہ ہوا میں نے کہا جو پوچھنا ہے کھل کر پوچھو. تو نبیلہ نے کہا بھائی کیا واقعہ ہی آپ کو گانڈ مارنے کا بہت شوق ہے اور سائمہ آپ کو مارنے نہیں دیتی . میں نے کہا ہاں یہ دونوں باتیں سچ ہیں . نبیلہ نے کہا بھائی آپ کو میری یا باجی کی گانڈ میں سے کون سی اچھی لگتی ہے اور اتنا بول کر اور شرم سے لال ہو گئی . میں نے کہا سچ بتاؤں یا جھوٹ . تو وہ آہستہ سے بولی آپ کی مرضی ہے . میں نے کہا مجھے تم دونوں بہن سر سے پاؤں تک بہت اچھی لگتی ہو اور گانڈ بھی تم دونوں بہن کی بہت زبردست ہے . باجی کی تو مروا مروا کر کافی بڑی ہو گئی ہے . لیکن سچ پوچھو تو تمہاری مجھے زیادہ پسند ہے . نبیلہ میری بات سن کر بہت زیادہ شرم گئی اور اپنا منہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا. پِھر کچھ دیر بَعْد وہ نارمل ہوئی اور بولی بھائی ایک آخری بات آپ سے پوچھنی تھی . میں نے کہا ہاں پوچھ لو تو بولی کیا آپ بھی ظفر بھائی کی طرح آپ کا بھی اپنی بہن کے لیے دِل کرتا ہے . اور بس اتنا بول کر نیچے بھاگ گئی . مجھے اس کے سوال نے خود ہی جھٹکا دیا تھا . اور سوچ رہا تھا کہ نبیلہ نے یہ کیا پوچھ لیا ہے . پِھر میں یہ ہی سوچتا رہا . پِھر اگلے 3 سے 4 دن میری نبیلہ سے کوئی بات نہ ہوئی جب بھی گھر میں آگے آ جاتی تو شرما کر نکل جاتی . ایک دن میں دو پہر کا ٹائم تھا اپنے کمرے میں بیٹھ ٹی وی دیکھ رہا تھا تو مجھے سائمہ کے نمبر سے مس کال آئی میں نے کال ملائی تو آگے سے بولی آپ مجھے لینے نہیں آئے . میں نے بہانہ کیا سائمہ میں بیمار ہو گیا تھا اِس لیے نہیں آ سکا ابھی بھی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے . اس نے کہا میں اور ا می مری جانا چاھتے ہیں کچھ دوں کے لیے گھومنے کے لیے آپ سے اِجازَت لینی تھی . میں نے کہا سائمہ آگے تم مجھ سے کون سا کام اِجازَت لے کر کرتی ہو جو آج پوچھ رہی ہو . تو بولی میں نے سوچا آپ مجھے لینے آ جائیں گے میں اگر یہاں نہ ہوئی تو آپ ناراض ہو جاؤ گے اِس لیے بتایا تھا . میں نے کہا ٹھیک ہے جہاں جانا ہے جاؤ تمہاری مرضی ہے . تم ماں بیٹی کے ساتھ اور کون جا رہا ہے تو وہ شاید تھوڑا پریشان ہو گئی تھی . اور فوراً بولی کس نے جانا ہے میں اورامی نے ہی جانا ہے . میں نے دِل میں سوچ ماں بیٹی پوری رنڈی ہیں کسی یار کےپیسوں پے مزہ لینے جا رہی ہوں گی اور مجھے فلم لگا رہی ہیں . میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے جب دِل کرے واپس آ جانا اسکو تو شاید میرا یہ ہی جواب پسند تھا. میں جب فون پے باتیں کر رہا تھا تو نبیلہ میرے کمرے کے دروازے پے کھڑی ساری باتیں سن رہی تھی اور پِھر یکدم اندر آ گئی اور آ کر دوسری طرف سے بیڈ پے آ کر بیٹھ گئی . میں نے فون پے کہا اچھا ٹھیک ہے پِھر تم خود ہی یہاں بھی آ جانا میں فون رکھنے لگا ہوں . میں نے فون بند کر دیا تو نبیلہ فوراً بولی بھائی سائمہ کنجری کا فون تھا . میں نے کہا ہاں اس کا تھا . نبیلہ نے کہا کیا وہ آپ کو وہاں لے کر جانے کے لیے بلا رہی تھی . میں نے کہا نہیں صرف یہ بتانے کے لیے فون کر رہی تھی کہ میں اپنی ماں کے ساتھ مری گھومنے کے لیے جا رہی ہوں مجھے کچھ دنوں بعد آ کر لے جانا میں نے کہا میں بیمار ہوں تم خود ہی گھوم پِھر کر یہاں گھر واپس آ جانا . تو نبیلہ بولی تو اس نے کیا آگے سے کہا . میں نے کہا کیا کہنا تھا اس کو میرے اِس جواب کا ہی شاید انتظار تھا تا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ اور آگ ٹھنڈی کروا سکے . تو نبیلہ بولی ضرور اس اپنے یار عمران کے ساتھ دونوں ماں بیٹی مری جا رہی ہوں گی . میں نے کہا ہو بھی سکتا ہے . میں نے نبیلہ کو کہا اب تو تم خوش ہو وہ کچھ دن اور نہیں آئے گی . نبیلہ نے کہا لیکن بھائی آپ کو بھی تو برداشت کرنا پڑ رہا ہے . میں نے کہا میری خیر ہے . جب نصیب میں لکھا ہے تو پِھر کیا کر سکتا ہوں . میں نے کہا کیا فضیلہ باجی سے زیادہ میں برداشت کر رہا ہوں. میری بات سن کر نبیلہ بولی ہاں بھائی باجی بیچاری تو کافی برداشت کر رہی ہے . پِھر میں نے نبیلہ کو کہا نبیلہ تمہیں ایک بات بتانی تھی . تو وہ بولی جی بھائی بولو کیا بولنا ہے . میں نے کہا اگر بہن خود دِل سے راضی ہو تو بھائی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اور اِس کے ساتھ ہی آگے ہو کر نبیلہ کے ہونٹ پے ایک فرینچ کس کر دی . نبیلہ شاید میرے اِس حملے کا سوچا نہیں تھا اس کا ایک دم چہرہ لال سرخ ہو گیا اور وہ آنکھیں پھاڑکر مجھے دیکھتی رہی اور پِھر منہ نیچے کر کے میرے کمرے سے چلی گئی. میں اس دن دوبارہ اپنے کمرے سے نہیں نکلا اور رات کو بھی سو گیا اگلے دن میں اٹھ کر باہر گیا نبیلہ فرش دھو رہی تھی مجھ پے نظر پڑی اور پِھر ایک دفعہ دیکھ کر اپنا کام کرنے لگی . میں دوبارہ پِھر اپنے کمرے میں آ گیا . تھوڑی دیر بَعْد نبیلہ ناشتہ لے کر میرے کمرے میں آئی ناشتہ رکھ کر چلی گئی وہ کوئی بھی بات نہیں کر رہی تھی . لیکن ایک بات تھی اس کے چہرے پے کسی بھی قسِم کا غصہ نہیں تھا . خیر وہ پورا دن میری اس سے کوئی بات نہیں ہوئی . رات کے کھانے پے بھی وہ بالکل خاموش تھی . میں بھی كھانا کھا کر تھوڑی دیر چھت پے گیا تھوڑا ٹہل کر واپس اپنے کمرے میں آ گیا اور آ کر ٹی وی دیکھنے لگا . ٹی وی دیکھتے دیکھتے رات کے11 بج گئے تھے میں ٹی وی پے چینل آگے پیچھے کر رہا تھا . ایک لوکل کیبل چینل پے انگلش مووی لگی تھی اس میں کافی گرم اور سیکس بھی سین تھا میں گرم ہو گیا اور اٹھ کر دروازہ بند کر دیا کنڈی نہیں لگائی کیونکہ رات کو کوئی بھی میرے کمرے میں نہیں آتا تھا میں نے دروازہ بند کر کے پِھر لائٹ بھی آف کر ڈی اور پِھر ٹی وی دیکھنے لگا اس مووی میں دوسرا سیکس سین چل رہا تھا
Like Reply
#15
میں وہ ہی دیکھ رہا تو اور گرمی چڑھ گئی اور میں نے اپنی قمیض اور شلوار بھی اُتار دی اور لیٹ کر سیکس سین بھی دیکھنے لگا اور لن کو بھی سہلا رہا تھا . لیکن پِھر رات 12 بجے لائٹ چلی گئی کمرے میں اے سی لگا ہوا تھا اِس لیے اے سی بند بھی ہو گیا لیکن کمرہ ٹھنڈا تھا میں نے اٹھ کر ٹی وی کا سوئچ آف کیا اور آ کر چادر اوپر لے کر لیٹ گیا لیکن میں ابھی بھی تقریباً ننگا ہی تھا جسم پے صرف ایک بنیان ہی تھی سیکس سین کی وجہ سے میرے لن گرم اور ٹائیٹ ہو گیا تھا میں پِھر اپنا لن سہلا تا ہی پتہ نہیں کب سو گیا . میں گہری نیند میں ہی سویا ہوا تھا تو مجھے رات کے کسی وقعت اپنے جسم کے ساتھ کوئی چیز محسوس ہوئی . ذرا سا دماغ لگایا تو سمجھ آیا یہ نرم نرم کسی کا جسم میرے جسم کے ساتھ پیچھے سے چپکا ہوا ہے اور آہستہ آہستہ ہل رہا ہے . میں نے آنکھیں کھولی لیکن لائٹ بند ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا تھا مجھے کچھ نظر نہ آیا میں نے تھوڑا سا اپنے جسم کو پیچھے کی طرف موڑ کر اپنے ہاتھ سے مار کر چیک کرنے لگا لیکن میرا ہاتھ سیدھا نرم نرم اور موٹے سے گول جسم پے جا لگے مجھے فوراً دماغ میں آیا یہ تو کوئی عورت میرے ساتھ پوری ننگی لییک ہوئی ہے میں نے کچھ پوچھ نے کے لیے منہ ہی کھولا تھا تو میرے منہ پے اس نے اپنا منہ رکھ کر میرے ہونٹوں کو چُوسنے لگی . کچھ دیر بَعْد اپنے منہ کو پیچھے ہٹا کر میرے کان میں آہستہ سا کہا بھائی میں ہوں آپ کی جان نبیلہ . مجھے یہ سن کر شدید حیرت کا جھٹکا لگا اور میں نے بھی آہستہ سے کہا نبیلہ تم اور اِس حالت میں میرے ساتھ تو وہ بولی بھائی بہن بھی دِل سے رازی ہے اور دوبارہ پِھر میرے ہونٹوں پے اپنے اپنے ہونٹ رکھ دیا میں تو پہلے ہی مووی کے سین دیکھ کر گرم تھا اور پِھر نبیلہ کی باتوں اور حرکت نے مجھے اور زیادہ گرم کر دیا میں چادر ایک سائڈ پے پھینکی اور نیچے ہاتھ ڈال کر نبیلہ کو اپنے اوپر کھینچ لیا اور اس کو ہونٹوں کو چوسنے لگا نبیلہ پوری ننگی تھی اس کے پیٹ نے میرے لن کو دبایا ہوا تھا . اور ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو شدت کے ساتھ کسسنگ اور ایک دوسرے کی زُبان چوس رہے تھے نبیلہ نے مجھے زور سے پکڑا ہوا تھا اور میرے اوپر چپکی ہوئی تھی. پِھر میں اور نبیلہ کافی دیر تک ایسے ہی ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈال کر چوستے رہے . پِھر نبیلہ اوپر سے ہٹ کر میرا ساتھ ایک سائڈ پے لیٹ گئی اور اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر ہی رکھی ہوئی تھی . اور پِھر نبیلہ نے اپنا ہاتھ آگے کر کے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس کو اوپر سے لے کر نیچے تک دبا دبا کر ہاتھ پھیر نے لگی شاید وہ لن کی لمبائی اور موٹائی کو محسوس اور ناپ رہی تھی. اور پِھر میرے کان میں بولی بھائی یہ سارا میرا ہے نہ . میں نے کہا ہاں نبیلہ میری جان یہ پورے کا پورا تیرا ہے . پِھر بولی بھائی میں آپ کے لیے بہت تڑ پی ہوں بھائی آپ مجھے پوچھتے تھے نہ کیوں نبیلہ شادی کیوں نہیں کرتی ہو . تو بس یہ وجہ تھی کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میری جان آپ میں تھی اور میری طلب آپ سے تھی . لیکن بس اپنی عزت اور رشتے کے لحاظ کی وجہ سے بہت خاموش رہی اور آپ کی طرف دیکھتی رہی . لیکن آج مجھے اپنی بنا لو میں بس اب آپ کی ہی رہنا چاہتی ہوں . اِس لیے میں نے اپنے پورے جسم کو آج تک سنبھال کر رکھا ہے میرے جسم کا ایک ایک حصہ کنوارہ ہے اور آپ کے لیے ہے . میں نے کہا نبیلہ تم مجھ سے اتنا پیار کرتی ہو اور آج تک بتایا ہی نہیں . کاش میں تمھارا بھائی نہ ہوتا تو تم ہی میری بِیوِی ہوتی میری شہزادی ہوتی . لیکن کوئی بات نہیں بِیوِی نہ سہی میری شہزادی تو تم ہی ہو . میں تمہیں بہت پیار دوں گا . میرے لیے تم ہر وقعت میری جان اور شہزادی ہو گی اور باہر والوں کی نظر میں میری بہن ہی رہو گی . بولو تمہیں منظور ہے . تو نبیلہ بولی بھائی مجھے آپ کی ایک ایک بات بات منظور ہے بس اب مجھے اپنا بنا لو . آج مجھے اتنا پیار دو میں سب کچھ بھول جاؤں . میں نے کہا ہاں نبیلہ میری جان تم فکر نہیں کرو ایسا ہی ہو گاپِھر نبیلہ نے کہا بھائی اس کنجری سائمہ نے آپ کو دھوکہ دیا اور وہ کنواری نہیں تھی لیکن آج آپ خود میرا کنوارہ پن کھولو گے اور اس کا ثبوت بھی آپ کو نظر آ جائے گا . اور میری گانڈ بھی کنواری ہے وہ بھی آپ کے لیے ہے . میں دوں گی اپنے بھائی کو اپنی گانڈ اور ہر روز دوں گی . میں نے نبیلہ کو چوم لیا اور پِھر میں نے کہا نبیلہ پِھر اپنی سھاگ رات کے لیے تیار ہو . تو وہ بولی بھائی میں دِل وجان سے تیار ہوں . پِھر میں نے کہا جان میرے لن کو منہ میں لے کر اِس کو تھوڑا نرم اور گیلا تو کرو تا کہ وہ تمہیں زیادہ تنگ نا کر سکے. نبیلہ اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے اپنے آپ کو گھوری اسٹائل میں کر لیا اور اپنا منہ میرے لن کے قریب کر کے اس پہلے اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا . اس کو اپنے ہاتھ سے ناپ کر اور اس کو اپنے ہاتھ کی مدد سے اس کی لمبائی اور موٹائی کا معلوم کرنے لگی . پِھر کچھ دیر بَعْد بولی بھائی آپ کا لن تو واقعہ ہی لمبا اور موٹا ہے اور کافی سخت اور مضبوط لن ہے . پتہ نہیں کیوں وہ سائمہ کنجری اتنے مضبوط لن کے ہوتے ہوئے باہر منہ مارتی پِھر رہی ہے . میں نے کہا نبیلہ وہ اِس لیے منہ باہر مارتی ہے کیونکہ پہلے میرے نیچے تو صرف 2 یا 3 مہینے ہی آتی تھی . اور میں جب باہر چلا جاتا تھا تو پِھر وہ اپنی آگ ٹھنڈی کروانے کے لیے باہر منہ مارتی تھی . لیکن تم اب بے فکر ہو جاؤ اب اس کا اور اس کی ماں کو ایسا بندوبست کروں گا کے یاد کریں گی . میری بات سن کر نبیلہ خوش ہو گئی . پِھر اس نے میرے لن پے اپنا منہ لے جا کر پہلے اس کی ٹوپی پے کس کی پِھر ٹوپی سے لے کر لن کے آخری حصے تک کس کرتی رہی . کچھ لمحے وہ یہ ہی کرتی رہی پِھر اس نے اپنی زُبان نکال کر میرے لن کی ٹوپی پے پھیری پِھر اس نے ایک ایسی حرکت کی کے مجھے مزہ آ گیا اس نے اپنے زُبان کی نوک سے میری لن کی جو ٹوپی تھی اس کی موری پے اپنی زُبان کو گول گول پھیر نے لگی . میں تو ایک الگ ہی مزے کی دنیا میں تھا . وہ کچھ دیر تک یہ کرتی رہی . پِھر اس نے میری پوری ٹوپی کو منہ میں لے لیا اور اس کے اپر اپنے منہ کے اندر تھوک جمع کر کے پِھر اس پے گول گول زُبان پھیر کر چوسنے لگی . یقین سے میں تو جنت کی سیر کر رہا تھا . نبیلہ تقریباً 5 منٹ تک میری لن کی ٹوپی کو ایسے ہی چوپا لگاتی رہی . پِھر اس نے آہستہ آہستہ میرے پورے لن کو منہ میں لینا شروع کر دیا میرے لن لمبا اور موٹا بھی تھا جو نبیلہ کے پورا منہ میں لینا ناممکن تھا لیکن پِھر بھی جتنا ہو سکا وہ منہ میں میں لے کر چوپا لگا نے لگی . اس کا منہ اتنا گرم اور چھوٹا تھا کے میرے لن پھنس پھنس کر اندر جارہا تھا اور نبیلہ مسلسل لن کو منہ میں لے کر چوپے لگا رہی . درمیان میں کبھی کبھی اس کے دانت بھی مجھے اپنے لن پے محسوس ہوئے کیونکہ اس کی پہلے دفعہ تھی اِس لیے اس کو تجربہ نہیں تھا لیکن پِھر بھی نبیلہ نے مزید 5 منٹ تک بڑے ہی جان دار میرے لن کے چوپے لگائے . جب میر ا لن فل تن کر کھڑا ہو گیا . تو میں نے نبیلہ کو روک دیا پِھر میں نے نبیلہ کو بیڈ پے سیدھا لیٹنے کا کہا تو وہ لیٹ گئی میں نے ایک تکیہ اس کی کمر کے نیچے رکھ دیا تا کہ اس کو زیادہ تکلیف نہ ہو سکے کیونکہ اس کی پہلی دفعہ تھی . پِھر میں اٹھ کر اس کی ٹانگوں کو کھول کر اس میں بیٹھ گیا اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر نبیلہ کی پھدی پے رکھا نبیلہ کی پھدی ایک دم مست تھی بالکل کنواری پھدی تھی ایک بال بھی اس پے نہیں تھا اور نرم ملائم پھدی تھی اس کی پھدی کے ہونٹ آپس میں ایک دم ٹائیٹ ہو کر ہوئے جڑے تھے . پِھر میں نے اپنے لن کی ٹوپی کو نبیلہ کی پھدی کی موری پے سیٹ کیا اور آہستہ سے اس کو پُش کیا لیکن ٹائیٹ پھدی کی وجہ سے میرے لن پھسل کر نیچے ہو گیا پِھر میں نے اپنے لن کی ٹوپی کو پھدی کی موری پے سیٹ کیا اور نبیلہ کو بولا نبیلہ میری جان تھوڑا مشکل ہے اور تمہیں درد بھی ہو گا لیکن میں کوشش کروں گا آرام سے کر سکوں لیکن کچھ تو برداشت کرنا پرے گا. تو نبیلہ بولی بھائی اِس درد کے لیے تو میں کب سے ترس رہی ہوں . مجھے پتہ ہے بہت درد اور تکلیف ہو گی لیکن تم اپنا کام جاری رکھنا . اِس پہلی دفعہ کے درد کے بَعْد پِھر ساری زندگی کا مزہ بھی تو ہے . میں نے پِھر لن کی ٹوپی کو پھدی کی موری پے رکھا اور پِھر تھوڑا سا زور لگا کر جھٹکا دیا تو میرے لن کی ٹوپی نبیلہ کی پھدی کا منہ کھولتے ہوئے اندر جا گھسی . اور نبیلہ بھی نیچے سے ہل کر رہ گئی . اس کے منہ سے ایک زور کی آواز نکلی ہا اے نی میری ماں میں مر گئی آں . مجھے یقین تھا اس کی آواز کمرے سے باہر ضرور گئی ہو گی . میں تھوڑا ڈر بھی گیا تھا کے اگر بھی کسی نے نبیلہ کی آواز سن لی ہوئی تو لیکن شاید بچت ہو گئی تھی . نبیلہ نے اپنے ہاتھوں کو میرے پیٹ پے رکھ مجھے شاید مزید آگے کچھ کرنے سے روک دیا تھا . میں بھی اپنا لن وہاں ہی پھنسا کر بیٹھ گیا کوئی 5 منٹ بعد شاید نبیلہ کی تکلیف کم ہوئی تو اس کی آواز نکلی بھائی یہ لن تو بہت تکلیف دیتا ہے . میں نے کہا نبیلہ میری جان اگر تم کہتی ہو تو میں آگے نہیں کرتا اور ہم یہاں ہی بس کر دیتے ہیں . تو نبیلہ بولی بھائی یہ درد ایک نہ ایک دن تو برداشت کرنا ہی پرے گا تو پِھر کیوں نہ اپنے بھائی سے ہی یہ درد لے لوں . اِس لیے تم میری فکر نہ کرو . تم اپنا کام پورا کرو . پِھر بولی بھائی کتنا باقی رہ گیا ہے . میں نے کہا میری بہن ابھی تو صرف ٹوپی اندر گئی ہے . لن تو ابھی پورا باقی ہے . تو نبیلہ بولی بھائی آپ کچھ ایسا کرو یہ پورا اندر بھی چلا جائے اور مجھے جو بھی درد ھونا ہے وہ ایک دفعہ ہی ہو . بار بار کا درد بہت تکلیف دے گا جو درد ہو ایک دفعہ ہی ہو . میں نے کہا نبیلہ میری جان اِس سے درد بہت زیادہ ہو گا تو وہ بولی ہو گا تو ایک دفعہ ہی مجھے منظور ہے . میں نے کہا اچھا پِھر تیار ہو جاؤ میں آگے کو جھک کر نبیلہ کے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا اور اس کی زُبان کو سک کرنے لگا پِھر میں نے کچھ دیر بَعْد نبیلہ کے ہونٹوں کو زور سے اپنے ہونٹوں میں بند کر لیا اور اپنی پوری طاقت لگا کر ایک جھٹکا مارا اور پورا لن نبیلہ کی پھدی میں اُتار دیا نبیلہ شاید میرا جھٹکا اور تکلیف برداشت نا کر سکی اور نیچے سے درد کی وجہ سے اچھل پڑی اور اس کی ایک زور دار تکلیف بھری آواز میرے منہ میں دب کر رہ گئی . اگر میں نے اپنا منہ نہ اس کے منہ سے جوڑا ہوتا تو شاید آج امی کی کانوں تک بہت آسانی سے نبیلہ کی آواز پہنچ جانی تھی اور انہوں نے اٹھ کر آ جانا تھا . میں کچھ دیر ایسے ہی نبیلہ کے اندر پورا لن کر کے اوپر لیٹ گیا اور اپنے منہ اس کے منہ سے نہیں ہٹایا اور کچھ دیر تک انتظار کیا . مجھے کچھ دیر بَعْد اپنے گالوں پے گیلا گیلا محسوس کیا میں نے اپنے ہاتھ سے نبیلہ کی منہ پے ہاتھ لگا کر چیک کیا تو اس کی تکلیف اور درد کی وجہ سے آنسو نکل آئے . مجھے ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ میں نے کیا کر دیا . میں نے کہا نبیلہ میری جان کیا ہوا ہے تمہیں کہا تھا تکلیف بہت ہو گی میری بہن مجھے معاف کرو دو . میں تھوڑا سا اٹھ کر اپنے لن باہر نکالنے لگا تو نبیلہ نے فوراً اپنے ہاتھ اٹھا کر میری کمر پے باندھ کر مجھے اپنے اوپر دبا لیا شاید اس نے مجھے ہلنے سے منع کر دیا تھا میں پِھر وہاں ہی لیٹ گیا میرے لن ابھی بھی پورا کا پورا نبیلہ کی پھدی کے اندر تھا . کچھ دیر بَعْد شاید نبیلہ کو تھوڑا سکون ملا تو وہ بولی بھائی آج تو آپ نے مجھے مار دیا تھا میری جان نکل گئی تھی . میں نے کہا میری بہن تمہیں پہلے کہا تھا تکلیف بہت ہو گی . تو نبیلہ بولی اب جو تکلیف ھونا تھی وہ تو ہو گئی . اب تو آگے سکون ہی سکون ہے . پِھر کچھ دیر مزید ایسے ہی لیٹا رہا پِھر نبیلہ بولی بھائی اب آہستہ آہستہ آپ لن کو اندر باہر کرو . لیکن آرام سے کرنا جب میں کہوں گی پِھر آپ تیز کر دینا . میں نے کہا ٹھیک ہے . پِھر میں نے اپنے جسم کو حرکت دی اور اپنے لن کو آہستہ آہستہ پھدی کے اندر باہر کرنے لگا میں بالکل آرام آرام سے لن کو اندر باہر کر رہا تھا نبیلہ کو تکلیف ہو رہی تھی وہ بار بار آہ آہ آہ آہ آہ کی آوازیں نکال رہی تھی . پِھر کوئی 5 منٹ آہستہ آہستہ کرنے کے بَعْد شاید اب لن نے پھدی کے اندر اپنی جگہ بنا لی تھی پِھر نبیلہ نے کہا بھائی اب تھوڑا تیز تیز کرو میں نے اپنے سپیڈ تازی کر دی اور لن پھدی کے اندر باہر کرنے لگا . میرا اور نبیلہ کا جسم آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں گونج رہی تھیں اور نبیلہ آہ آہ اوہ اوہ آہ اوہ کی آوازیں نکال رہی تھی اس کی سسکیاں کمرے میں گونج رہیں تھیں . میں نبیلہ کو کوئی اِس طرح 5 سے 7 منٹ تک چودتا رہا اِس دوران نبیلہ ایک دفعہ اپنا پانی چھوڑ چکی تھی . اور میں اپنی رفتار سے لن پھدی کے اندر باہر کر رہا تھا . نبیلہ کا پانی نکلنے وجہ سے اب لن پھسل کر اندر جا رہا تھا پوچ پوچ کی آواز آ رہی تھی میرے لن میں بھی اب ہلچل شروع چکی تھی میں نے اب اپنی پوری طاقت سے جھٹکے مارنے لگا اور نبیلہ بھی شاید اب پورے مزے میں تھی اور دوسری دفعہ پانی نکالنے کے لیے پِھر تیار ہو گئی تھی اس نے گانڈ کو نیچے سے اٹھا اٹھا کر میرے ساتھ دینا شروع کر دیا اور منہ سے بولنے لگا ہا اے بھائی زور نال کر زور نال کر اج اپنے بہن دی پھدی نوں اپنی منی نال بھر دےمجھے اپنے بچے کی ماں بنا لو وہ اِس طرح ہی بولتی جا رہی تھی . مجھے اس کی باتوں سے اور جوش آ گیا میں نے اپنی پوری طاقت سے مزید 2 منٹ اور پھدی کے اندر جھٹکے مارے اور اپنی منی کا فوارہ نبیلہ کی پھدی کے اندر چھوڑ دیا اور دوسری طرف نبیلہ نے بھی ایک دفعہ اور پانی چھوڑ دیا تھا اور میں نڈھال ہو کر نبیلہ کے اوپر گر گیا اور ہانپنے لگا نبیلہ بھی میرے نیچے ہانپ رہی تھی اور لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی
Like Reply
#16
پِھر میں اور نبیلہ اِس طرح ہی کوئی 10منٹ تک لیٹ کر اپنی سانسیں بَحال کرتے رہے جب میرے لن نے منی کا آخری قطرہ بھی نکال دیا پِھر میں نبیلہ کے اوپر سے ہٹ کر بیڈ پے اس کے ساتھ لیٹ گیا . پِھر نبیلہ کچھ دیر بَعْد اٹھ کر اٹیچ باتھ روم میں جانے لگی تو وہ شاید چل نہ سکی اس سے چلنے نہیں ہو رہا تھا . میں نے پوچھا نبیلہ کہا جانا ہے تو وہ بولی پیشاب کرنا ہے لیکن چلا ہی نہیں جارہا تکلیف ہو رہی ہے میں اٹھا اور نبیلہ کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر باتھ روم لے گیا اور اس کو میں نے باتھ روم میں لے جا کر اپنی ٹانگوں پے بیٹھا لیا اور کہا میری جان اب پیشاب کرو تو وہ بولی بھائی اِس طرح تو سارا پیشاب آپ کے اوپر آئے گا میں نے کہا میری جان تمہارا گرم گرم پیشاب اپنے لن پے محسوس کرنا چاہتا ہوں تم میرے لن پے کرو تو نبیلہ نے اپنی پھدی کو میرے لن کے نزدیک کر کے پیشاب کرنے لگی نبیلہ کے گرم گرم پیشاب نے مجھے مدھوش کر دیا تھا میرے لن پے پیشاب گرنے کی وجہ سے لن جھٹکے کھا رہا تھا . عجیب مست مزہ آ رہا تھا . پِھر پیشاب کرنے کے بَعْد میں نے اور نبیلہ کی پھدی کو پانی سے دھویا اور نبیلہ نے میرے لن کو اچھی طرح دھویا اور پِھر میں اس کو اٹھا کر بیڈروم میں لا کے بیڈ پے لیٹ دیا اور خود بھی بیڈ پے لیٹ گیا . میں نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کی اور نبیلہ کو دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر شرما گئی اور منہ اپنے ھاتھوں میں چھپا لیا . نبیلہ کا ننگا جسم کمال کا تھا . پِھر میں نے کہا نبیلہ میری جان شرما کیوں رہی ہو بِیوِی اپنے میاں سے شرماتی تو نہیں ہے . پِھر نبیلہ نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دی . پِھر میری نظر بیڈ کی چادر پے گئی تو اس پے کافی خون لگا تھا میں نے کہا نبیلہ یہ کیا تو نبیلہ نے کہا بھائی دیکھ لیا ہے نا اپنی بہن کا کنوارہ پن آپ کی بہن کا یہ ثبوت ہے اور دوسری آپ کی بِیوِی ہے جو شادی سے پہلے ہی اپنا منہ کالا کروا چکی ہے . میں نے نبیلہ سے کہا ہاں تم سچ کہہ رہی ہو . لیکن اب تم فکر نہ کرو ان ماں بیٹی کو میں سیدھا کر دوں گا . پِھر میں نے الماری سے ایک درد کی کریم لی اور لائٹ بند کر کے دوبارہ بیڈ پے آ گیا اور نبیلہ سے کہا میری جان تھوڑا اپنی ٹانگوں کو کھولو میں کریم لگا دیتا ہوں یہ درد کے لیے ہے تمہیں کچھ دیر بَعْد کافی آرام مل جائے گا نبیلہ نے اپنی ٹانگیں کھول دی میں نے پھدی کے اوپر اور تھوڑا سا اندر والی سائڈ پے کریم کو اچھی طرح لگا دیا پِھر کر نبیلہ کے ساتھ لیٹ گیا . تھوڑی دیر بَعْد نبیلہ بولی بھائی آپ نے سائمہ اور اس کی ماں کے لیے کیا سوچا ہے . تو میں نے کہا نبیلہ میری جان میرا ایک لمبا اور مزے دار پلان جس میں مجھے تمہاری مدد کی بھی ضرورت ہو گی . تو نبیلہ بولی بھائی میں تو ہر وقعت آپ کے ساتھ ہوں آپ بتاؤ کرنا کیا ہے . میں نے کہا نبیلہ مجھے اب سب سے پہلے چا چی کو اپنے نیچے لے کر انا اور اس کی ایک دفعہ جم کر ٹھکائی کرنی ہے . نبیلہ بولی بھائی آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ اس گشتی کے ساتھ بھی کرنا چاھتے ہیں . میں نے کہا نبیلہ چا چی ہمارے خاندان کی نہیں ہے لیکن سائمہ اور ثناء تو ہمارے چا چے کی بیٹیاں ہیں اس کی اولاد اور عزت ہیں . کل کو اگر کوئی ان کی عزت خراب کرتا ہے تو ان کے ساتھ ہمارے چا چے کی عزت بھی خراب ہو گی سب لوگ یہ ہی کہیں گے کے جیسا باپ وییک بیٹی اور تم تو جانتی ہو ہمارا چا چا ایسا نہیں تھا . تو نبیلہ بولی ہاں بھائی یہ تو سچ ہے . لیکن چا چی کی ساتھ کرنے سے آپ کو کیا فائدہ حاصل ہو گا . تو میں نے کہا نبیلہ اگر سائمہ ہماری بات نہیں مانتی تو اپنی ماں کی سنے گی اِس لیے سائمہ کو ٹھیک کرنے اور رستے پے لے کر آنے کے لیے اس کی ماں کو پہلے مجھے اپنے ساتھ سیٹ کرنا ہو گا جب سائمہ کی ماں کو میں کچھ دن لگا کر جم کر چدائی کروں گا تو وہ میری بھی ہو جائے گی اور میرے لن کی دیوانی بھی ہو جائے گی پِھر میں اس کی مدد سے سائمہ کنٹرول کروں گا . اور ان کو راضی کر کے لاہور سے واپس گاؤں لے آؤں گا . اور جب وہ یہاں آ جائیں گے تو پِھر سائمہ کا خود ہی اس لڑکے تعلق ختم ہو جائے گا اور میں خود بھی سائمہ اور اس کی ماں کو چود کر ٹھنڈا کر دیا کروں گا . جب دونوں ماں بیٹی کو با قاعدگی سے لن ملتا رہے گا تو خود ہی اس لڑکے کو بھول جائیں گے . اور سائمہ بھی پِھر گھر میں ہی رہا کرے گی . اور اِس طرح یہ معاملا ٹھیک ہو جائے گا . تو نبیلہ بولی بھائی آپ چا چی کے ساتھ کب اور کیسے کرو گے . تو میں نے کہا سائمہ کو واپس آنے دو پِھر میں کچھ دن کے لیے اسلام آباد کا بول کر لاہور چلا جاؤں گا . وہاں 3 سے 4 دن سائمہ کی ماں کے پاس رہوں گا اور وہاں ہی چا چی کو قابو کر لوں گا . ایک دفعہ چا چی کی پھدی کو اپنے لن کی سیر کروا دی پِھر دیکھنا کیسے ہر بات اس سے منوا لوں گا . نبیلہ بولی لیکن بھائی اگر یہ سب ٹھیک ہو گیا تو کیا آپ مجھے پِھر بھول جائیں گے اور میرے ساتھ نہیں کیا کریں گے . تو میں نے نبیلہ کو لمبی سی فرینچ کس کی اور کہا نبیلہ تم میری جان ہو . سائمہ اور چا چی کو ٹھیک کرنا اپنی عزت اور خاندان کو بچا نے کے لیے ہے . سائمہ رہے گی تو میری بِیوِی لیکن میرے دِل کی شہزادی صرف تم ہی رہو گی . جب میری جان کا دِل کرے گا میں اپنی جان کی دِل جان سے خدمت اور پیار کروں گا . نبیلہ میری بات سن کر بولی بھائی آپ کو نہیں پتہ آپ نےیہ بات کہہ کر مجھے کتنی بڑی خوش دے دِی ہے اور مجھے کس کرنے لگی . پِھر نبیلہ بولی بھائی لیکن اِس کام میں میری آپ کو کیا مدد کی ضرورت ہو گی . تو میں نے کہا نبیلہ میری جان سائمہ اور چا چی کے لیے تمہاری مدد ضرورت نہیں ہو گی . مجھے تو تمھار ی کسی اور کے لیے ضرورت ہو گی . تو نبیلہ بولی بھائی کس کے لیے آپ کھل کر بات کریں میں نے کہا تم نے مجھے فضیلہ باجی والی بات بتائی تھی نہ . تو نبیلہ بولی ہاں بتائی تھی لیکن فضیلہ باجی کی بات کا کیا مطلب ہے . میں نے کہا تم نے کہا ظفر بھائی شازیہ باجی کے ساتھ کرتے ہیں اِس لیے اب فضیلہ باجی کے ساتھ کچھ نہیں کرتے اور فضیلہ باجی بیچاری کتنے عرصے سے ذیادتی برداشت کر رہی ہے . نبیلہ نے کہا ہاں یہ سچ ہے پِھر . میں نے کہا تم نہیں چاہتی ہو کے ظفر بھائی شازیہ باجی کی چھوڑ کر فضیلہ باجی کی خوش کرے اور ان کے ساتھ پہلے جیسا ہی پیار کرے اور خیال رکھے . نبیلہ نے کہا ہاں بھائی کیوں نہیں میں تو خود یہ ہی چاہتی ہوں لیکن یہ ہو گا کیسے . تو میں نے کہا دیکھو اس کے لیے پہلے شازیہ باجی کا بندوبست کرنا ہو گا . بات یہ ہے
Like Reply
#17
شازیہ باجی ایک گرم عورت ہے اس کو ایک اور مضبوط لن کی ہوتی ہے وہ چاہتی ہے کے جب اس کا دِل کرے کوئی اس کو جم کر اور اس کی اندر کی گرمی کو دور کرے اس کے لیے حَل یہ ہے تم ویسے تو شازیہ باجی سے بات کرتی رہتی ہو . لیکن تم اس سے تھوڑی کھلی گپ شپ لگاؤ اس کو تھوڑا اعتماد میں لو اور پِھر ان کے منہ سے ہی شازیہ باجی اور ظفر بھائی والے تعلق کے بارے میں بات اگلوا لو جب وہ مکمل تمھارے کنٹرول میں آ جائے اور تم سے اپنی ساری باتیں شیئر کرے تو پِھر تم آہستہ آہستہ اس کو میرے بارے میں اعتماد دو میرے ساتھ تعلق بنانا کے لیے اس کو راضی کرو اس کو باتھ روم والا قصہ جس میں تم نے میرا لن دیکھا تھا اور سائمہ اور میرے درمیان اس دن والا قصہ جس میں اس نے میرے لن کو پکڑا ہوا تھو و بتاؤ اس کو میرے بارے میں گرم کرو اور میرے لن کے بارے میں بتاؤ جب وہ مکمل تیار ہو جائے کے وہ میرے لن لینے کے لیے تیار ہے تو مجھے بتا دو پِھر میں اس کو تھوڑا سا ہاتھ وغیرہ لگا کر تھوڑا گرم گرم مذاق کر کے اس کی پھدی مار لوں گا اور جب شازیہ باجی ایک دفعہ میرے لن اپنی پھدی میں اندر کروا لے گی پِھر وہ میری ہی ہو جائے گی اور ظفر بھائی کو بھول جائے گی اور ویسے بھی تم نے کہا تھا نہ کہ فضیلہ باجی نے سائمہ کو کہا تھا کے میرے میاں کا لن وسیم سے چھوٹا ہے . اِس لیے جب شازیہ میرا لن لے گی تو وہ ظفر بھائی کو بھول جائے گی . پِھر میں شازیہ کی پھدی کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا کروں گا اور شازیہ باجی پِھر کم ہی ظفر بھائی کے پاس جائے گی تو ظفر بھائی خود ہی باجی سے دوبارہ پیار کرنے لگے گا . نبیلہ میری بات سن کے بولی بھائی آپ کا پلان ہے تو بہت زبردست لیکن اِس میں آپ کو تو میری سائمہ اور اس کی ماں اور شازیہ باجی سب کی پھدی ملا کرے گی آپ کی عید ہو جائے گی . لیکن بھائی فضیلہ باجی کے لیے میں شازیہ والا کام ضرور کروں گی چاھے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے . بھائی آپ بے فکر ہو جائیں میں سارا پلان سمجھ گئی ہوں میں کل سے ہی اِس پلان پرعمل کرنا شروع کر دوں گی تا کہ جلد سے جلد شازیہ باجی ظفر بھائی کی جان چھوڑ دے اور ظفر بھائی پِھر سے باجی فضیلہ کا خیال رکھے اورپیار کرے جس کے لیے وہ کب سے ظلم برداشت کر رہی ہیں . نبیلہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی تھی . پِھر خود ہی کچھ دیر بَعْد بولی بھائی آپ سے ایک بات پوچھوں آپ سچ سچ جواب دیں گے تو میں نے کہا جان تم سے کیوں جھوٹ بولوں گات تو نبیلہ بولی بھائی آپ کو فضیلہ باجی کیسی لگتی ہیں . میں نے کہا اچھی لگتی ہیں وہ ہماری سب سے اچھی باجی ہیں . لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو . تو نبیلہ بولی بھائی میں کسی اور لحاظ سے پوچھ رہی ہوں . میں نے کہا کیا مطلب ہے کسی اور لحاظ سے تو وہ بولی بھائی آپ کو تو پتہ ہے فضیلہ باجی نے سائمہ کو آپ کے بارے میں جو کہا تھا آپ کو یاد نہیں ہے کیا . میں نے کہا ہاں مجھے یاد ہے لیکن تمھارے مطلب کیا ہے کھل کر بات کرو . تو نبیلہ نے کہا بھائی جب سائمہ نے فضیلہ باجی کو آپ کے لن کے بارے میں بتایا تھا تو فضیلہ باجی نے آگے سے کہا تھا کہ میرے نصیب میں ایسا لن کہاں ہے کاش وسیم میرے میاں ہوتا تو میں اس کا لن روز اپنی پھدی اور گانڈ میں لیتی . تو بھائی آپ خود سوچو آپ کے لن کا سن کر باجی کے جذبات تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے . اور اگر آپ خود باجی کو اپنے اِس لن کا مزہ دے دو تو وہ آپ کی دیوانی ہو جائے گی اور ان کو آپ کی طرف سے سکھ مل جائے گا اگر ظفر بھائی کبھی کبھی ان کو پیار نہیں بھی کرتے تو وہ آپ تو پورا کر سکتے ہیں . میں نبیلہ کی بات سن کر ہکا بقا رہ گیا . میں نے کہا نبیلہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو فضیلہ باجی کے ساتھ یہ سب کیسے کر سکتا ہوں وہ ہماری بڑی باجی ہیں . تو نبیلہ بولی بھائی میں بھی تو آپ کی سگی بہن ہوں میرے ساتھ بھی تو آپ نے کیا ہے پِھر آپ چا چی کے ساتھ بھی کرو گے اور شازیہ باجی کو کرو گے سب کو خوش کر سکتے ہو تو فضیلہ باجی کو کیوں نہیں کر سکتے وہ بیچاری بھی پیار کی بھوکی ہیں وہ تو مجھ سے بھی زیادہ اِس چیز کی طلب رکھتی ہیں کتنے عرصے سے وہ اپنے ساتھ ظلم برداشت کر رہی ہیں آپ ان کو یہ مزہ دے کر ان کی کتنا خوش کر سکتے ہیں شاید آپ کو نہیں پتہ ہے . ان کو آپ کے لن کا سائمہ سے ویسے ہی پتہ چل چکا ہے جب ان کو اصل میں وہ ہی لوں مل جائے گا وہ خوشی سے پاگل ہو جائیں گی . میں نے کہا نبیلہ تمہاری سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن باجی میرے لیے کیسے راضی ہوں گی . تو نبیلہ بولی بھائی وہ آپ مجھ پے چھوڑ دیں میں باجی فضیلہ اور آپ کا کام میں کروا کے دوں گی ان کو میں راضی کر لوں گی بس آپ راضی ہو جائیں . میں نے کہا نبیلہ میں اگر اپنی جان نبیلہ کو خوش کر سکتا تو فضیلہ باجی بھی میری بہن اور جان ہیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے میں راضی ہوں . تو نبیلہ خوش ہو گئی اور بولی بھائی آج آپ نے میرا دِل جیت لیا ہے آج میں بہت خوش ہوں . میں نے کہا نبیلہ تمھارے اور باجی فضیلہ کے لیے جان بھی حاضر ہے . تو وہ خوشی سے مجھے چوم نے لگی . پِھر آہستہ سے بولی بھائی میری گانڈ میں آپ کے لن کے لیے کب سے خارش ہو رہی ہے . آپ اپنی بہن کی اِس گانڈ کا کچھ کرو . میں نے کہا جان میں تو تیار ہی تیار ہوں لیکن جان گانڈ میں پھدی سے بھی زیادہ تکلیف ہو گی . تو وہ بولی بھائی آپ کے لیے ہر درد منظور ہے . آپ تھوڑا سا لوشن لگا لینا میری گانڈ مار لینا بَعْد میں یہ والی کریم لگا لوں گی میں ٹھیک ہو جاؤں گی . بس آپ ابھی میری گانڈ میں اپنا لن ڈالو . میں نے کہا ٹھیک ہے تو میرے لن کا ایک اچھا سا چوپا لگاؤ اور تھوڑا گیلا اور ٹائیٹ کر دو پِھر گھوڑی بن جاؤ میں تمہاری گانڈ ماروں گا . نبیلہ نے اٹھ کر میر ا لن پِھر منہ میں لے لیا اور چو پے لگا نے لگی اور 5 منٹ میں میرے لن تن کر کھڑا ہو گیا . پِھر میں نے کہا جان گھوڑی بن جاؤ . وہ گھوڑی بن گئی میں نے الماری میں رکھا ہوا سائمہ کا لوشن لیا اور اس کو اپنے لن پے اچھی طرح لگا کر گیلا کر لیا اور پِھر بَعْد میں نبیلہ کی گانڈ پے لوشن لگا کر نرم کیا انگلی سے گانڈ کے اندر بھی لوشن لگا کر نرم کیا پِھر میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنے لن کو نبیلہ کی گانڈ کی موری پر رکھا اور ہلکا سا جھٹکا دیا لیکن لن لوشن کی وجہ سے پھسل گیا پِھر میں نے دوبارہ اپنا لن گانڈ کی موری پے سیٹ کیا اور اپنے دونوں ھاتھوں سے نبیلہ کی بُنڈ کو تھوڑا کھولا اور اِس دفعہ پہلے سے زیادہ زور کا جھٹکا لگایا تو میرے لن کی ٹوپی پوری نبیلہ کی گانڈ میں چلی گئی . نبیلہ کے منہ سے چیخ نکالی ہا اے بھائی میں مر گئی . بھائی اور نہیں ڈالنا رک جاؤ . میں وہاں ہی رک گیا . پِھر میں کچھ دیر کوئی حرکت نہ کی پِھر کچھ دیر بَعْد میں نے کہا جان اگر برداشت نہیں ہو رہا تو میں باہر نکال لیتا ہوں . تو نبیلہ بولی بھائی نہیں باہر نہیں نکالو میں برداشت کر لوں گی ایک نہ ایک دن تو اندر لینا ہی ہے . بھائی آپ آہستہ آہستہ اندر کرو جھٹکا نہیں لگاؤ . میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے . پِھر میں نے آہستہ آہستہ آگے کو لن دبانا شروع کیا میں آرام آرام سے اندر کرنے لگا تقریباً 2 منٹ کی محنت سے تقریباً آدھے سے زیادہ لن اندر گھس چکا تھا . نبیلہ نے اپنے ہاتھ پیچھے کر کے میرے پیٹ پے رکھ کر بولی بھائی رک جاؤ بہت درد ہو رہی ہے . ایسے لگ رہا ہے جیسے کسی چُھری سے میری گانڈ کو چیر ا جا ر ہا ہو . میں نے کہا جان آدھے سے زیادہ اندر جا چکا ہے بس تھوڑی ہمت کرو تو باقی ایک ایک ہی جھٹکے میں اندر کروا لو جو درد ہو گا اب ایک دفعہ ہی ہو گا
Like Reply
#18
نبیلہ نے کہا ٹھیک ہے بھائی آپ باقی ایک جھٹکے میں اندر کر دو . میں نے کہا جان جھٹکا مارنے سے تمہیں درد ہو گی شاید تمہاری چیخ نکل جائے گی اِس لیے ایک کام کرو اپنا منہ تکیے میں دبا لو میں پِھر ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دوں گا . نبیلہ نے آگے رکھے ہوئے تکیے میں اپنے منہ رکھ کر دبا لیا میں نے نبیلہ کی گانڈ کو اپنے ہاتھوں سے کھولا اور پِھر یکدم ایک زوردار جھٹکا مارا اور پورا لن نبیلہ کی گانڈ میں گھسادیا . نبیلہ کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی تھی لیکن تکیے میں منہ ہونے کی وجہ سے دب گئی لیکن مجھے گوں ں ں کی آواز سنائی دی . میں سہم سا گیا تھا کیونکہ نبیلہ اِس وقعت شدید تکلیف میں تھی میں وہاں ہی رک گیا اور کوئی حرکت نہ کی تقریباً 5 سے 7 منٹ تک میں نے انتظار کیا پِھر نبیلہ نے تکیے سے منہ اٹھایا اور بولی بھائی تکلیف بہت ہے لیکن آپ آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دو . میں بڑی احتیاط سے لن کو اندر باہر کرنے لگا میں کوئی 5 منٹ تک لن کو بڑے پیار سے آہستہ آہستہ اندر باہر کرتا رہا تا کہ نبیلہ کو زیادہ درد نا ہو . جب لن گانڈ میں کافی حد تک رواں ہو گیا تو نبیلہ نے کہا بھائی اب تھوڑا تیز کرو اب کچھ بہتر ہے . میں نے پِھر اپنے جھٹکے تیز کر دیئے نبیلہ کی گانڈ بہت زیادہ ٹائیٹ تھی اس کی گانڈ نئے میرے لن کو کافی مضبوطی سے اندر جڑ کر رکھا ہوا تھا . لن پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا . نبیلہ کے منہ سے اب لذّت بھری سسکیاں نکل رہی تھیں . آہ اوہ آہ اوہ آہ اوہ اوہ آہ آہ . اور میں ڈھکے پے دھکے لگا رہا تھا . کچھ دیر بَعْد میں کھڑا ہو کر گانڈ مارنے لگا اِس پوزیشن میں لن اندر زیادہ زور سے جڑ تک اُتَر جاتا تھا نبیلہ کے منہ سے آہ آہ آہ کی آوازیں نکل رہی تھیں . مجھے نبیلہ کی گانڈ مارتے ہوئے10 منٹ سے زیادہ ٹائم ہو گیا تھا میر ی ٹانگوں میں اب ہمت جواب دینے لگی تھی میں نے اپنی پوری طاقت سے لن گانڈ کے اندر باہر کرنے لگا نبیلہ کی آوازیں بھی تیز ہو گئی تھیں کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں اور نبیلہ کی سسکیاں آہ آہ آہ اوہ اوہ آہ اوہ پورے کمرے میں گونج رہیں تھیں پِھر مزید میں نے 2 سے 3 منٹ نبیلہ کی گانڈ ماری جب میری منی نکلنے لگی میں نے نبیلہ سے پوچھا جان منی کہاں نکالوں تو وہ بولی اندر ہی نکالو . میں نے آخری 2 سے 3 جھٹکے اور مارے اور نبیلہ کی گانڈ میں اپنی منی چھوڑ دی مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے نبیلہ کی گانڈ میں میری منی کا سیلاب نکل آیا تھا . میں اور نبیلہ ایسے ہی ایک دوسرے کے اوپر منہ کے بل لیٹ گئے میں لن ابھی تک نبیلہ کی گانڈ کے اندر ہی تھا . کافی دیر بَعْد میں نے اپنے لن کو باہر نکالا اور نبیلہ کے اوپر سے ہٹ کر ساتھ میں لیٹ گیا . پِھر میں اور نبیلہ بغیر بات کیے ہوئے 15 منٹ تک ایسے ہی سے ہی لیےن رہے . پِھر بَعْد میں نبیلہ نے ہی بات شروع کی بولی بھائی آج تو مزہ آ گیا میں آج کا مزہ اور دردساری زندگی نہیں بھول سکتی . آج جو آپ نے سکون دیا ہے اس کے لیے میں کتنے سال سے انتظار میں تھی . اور مجھے خوشی ہے یہ سکون مجھے اپنے بھائی سے ملا ہے . پِھر ہم یوں ہی لیٹ کر باتیں کرتے رہے . نبیلہ نے کہا بھائی کریم لگا دوکافی دردہو رہی ہے . میں نے کریم سے نبیلہ کی گانڈ اور اس کی موری میں اچھی طرح لگا دی پِھر میں نے کہا جان رات کے 3 بج گئے ہیں ابھی تم تھوڑا آرام کرو میں تمہیں ا می کے جاگنے سے پہلے تمھارے کمرے میں چھوڑ آؤں گا . صبح تمہیں گولیاں لا دوں گا وہ کھا لینا اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا بچےہونے کا

ڈر نہیں ہو گا . نبیلہ نے کہا ٹھیک ہے بھائی لیکن مجھے ابھی آپ کی بانہوں میں صبح تک سونا ہے آپ ا می کی فکر نہ کرو وہ10 بجے سے پہلے نہیں اُٹھیں گی کیونکہ میں نے رات کو ان کو دودھ میں 1 نیند کی گولی دے دی تھی . میں نے کہا نبیلہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو . تو نبیلہ بولی بھی اگر ایسا نہیں کرتی تو رات کو میری آوازیں اور چیخ سن کر انہوں نے آپ کے کمرے میں آ جانا تھا پِھر جو ھونا تھاو و آپ بھی پتہ ہے . میں نے کہا یہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو . 
پِھر میں نے کہا نبیلہ ایک بات کہوں تو نبیلہ نے کہا ہاں بھائی کہو کیا کہنا ہے . میں نے کہا نبیلہ مجھے سب سے اچھی گانڈ فضیلہ باجی کی لگتی ہے . تو نبیلہ ہنسنے لگی اور بولی بھائی مجھے پتہ ہے . میری گانڈ ابھی فضیلہ باجی جتنی نہیں ہے ان کی گانڈ ظفر بھائی سے مروا مروا کر اتنی مست اور بڑی ہو گئی ہے . اب آپ میری بھی روز مار مار کے فضیلہ باجی جیسی بنا دینا . میں اس کی بات سن کر ہنسنے لگا . اور پِھر میں نے صبح 8 بجے کا موبائل پے الارم لگا دیا اور دونوں بہن بھائی ننگے ہی ایک دوسرے کی بانہوں میں سو گئے . . .
Like Reply
#19
الارم بجا میں نے اَٹھ کر دیکھا تو نبیلہ ابھی تک سوئی ہوئی تھی صبح کی روشنی میں اس کا دودھ جیسا جسم چمک رہا تھا اس کی نرم ملائم اور روئی جیسی گانڈ کو دیکھ کر میرا لن ایک دفعہ پِھر سر اٹھانے لگا لیکن میں نے اپنے جذبات پے قابو پایا کیونکہ صبح کا وقعت تھا گلی محلے میں سب لوگ آ جا رہے ہوتے تھے اور صبح کے وقعت کوئی بھی گھر آ سکتا تھا یا امی بھی اَٹھ سکتی تھی . اِس لیے میں نے اپنا اِرادَہ ترک کر دیا اور اَٹھ کر باتھ روم کے اندر چلا گیا اور باتھ روم استعمال کر کے پِھر میں نہانے لگا اور اچھی طرح نہا دھو کر فریش ہوا اور پِھر کپڑے پہن کر باہر آ گیا بیڈ پے دیکھتا تو نبیلہ بدستور سوئی ہوئی تھی مجھے اپنی بہن پے بہت پیار آیا . میں بیڈ پے جا کر اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور آہستہ سے اس کے بالن میں انگلیاں پھیر کر اس کے ہونٹوں پے ایک کس دی تو نبیلہ بھی جاگ اٹھی اور میری گردن میں بازو ڈال کر مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اور میری ہونٹوں کو منہ میں لے کر فرینچ کس کرنے لگی تقریباً 2 منٹ تک وہ کس کرتی رہی پِھر میں ہی اس سے الگ ہوا اور بولا نبیلہ میری جان صبح ہو گئی ہے . اور امی بھی کسی وقعت اَٹھ سکتی ہیں ابھی دوبارہ یہ کام ناممکن ہے تم بھی اٹھو اور نہا دھو کر فریش ہو جاؤ اور بیڈ کی چادر بھی تبدیل کر دو کسی نے دیکھ لی تو بہت مسئلہ بن جائے گا . نبیلہ نے کہا بھائی میرے اندر ابھی تک نشہ ختم نہیں ہوا ہے دِل کرتا ہے آپ کو اپنے سے کبھی الگ نہ کروں . لیکن ابھی تو مجبوری ہے لیکن میں بَعْد میں آپ کو دیکھ لن گی . مجھے اس کی بات سن کر ہنسی آ گئی اور میں نے کہا اچھا میری جان بَعْد کی بَعْد میں دیکھی جائے گی فلحال ابھی تو اٹھو اور جا کر فریش ہو جاؤ لیکن یہ چادر پہلے تبدیل کرو . نبیلہ پِھر بیڈ سے اٹھی اور پہلے اپنے کپڑے پہنے اور پِھر سائمہ کی الماری سے نئی بیڈ شیٹ نکالی اور پرانی خون والی شیٹ کو ایک سائڈ پے کر کے نئی والی شیٹ کو اوپر ڈال دیا اور پِھر خون والی شیٹ لے کر کمرے سے بھی چلی گئی .میں وہاں ہی بیڈ پے بیٹھ گیا اور ٹی وی لگا لیا اور خبریں سنے لگا تقریباً 10بجے کے قریب نبیلہ میرے لیے ناشتہ لے کر میرے کمرے میں آ گئی . اس وقعت وہ بہت پیاری لگ رہی تھی اس نے کالے رنگ کی کاٹن کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اس کا پجامہ کافی زیادہ ٹائیٹ تھا اور وہ ناشتہ میرے سامنے رکھ کر میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی . اور پِھر اپنا منہ میرے منہ کے قریب لا کر میرے ہونٹ پے ایک کس کی اور بولی گڈ مارننگ بھائی اور بولی آج ہم میاں بِیوِی ایک ساتھ ناشتہ کریں گے . میں اس کی بات سن کر مسکرا پڑا اور میں نے کہا کیوں نہیں بھائی کی جان . اور پِھر ہم دونوں ناشتہ کرنے لگے ناشتہ کر کے نبیلہ نے برتن اٹھا لیے اور جانے لگی تو میں نے پوچھا نبیلہ ا می اٹھ گئی ہیں تو نبیلہ نے کہا بھائی جب میں ناشتہ لے کر آ رہی تھی تو اس وقعت وہ اٹھ کر باتھ روم میں جا رہیں تھیں اب میں جا کر ان کو بھی ناشتہ دیتی ہوں پِھر آج مجھے سب کے کپڑے دھو نے ہیں . اور وہ یہ بول کر باہر چلی گئی اور میں ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہو گیا . تقریباً 12 بجے کا ٹائم میں نے سائمہ کو کال کی تو اس کی ماں نے فون اٹھا لیا اور سلام دعا کے بَعْد میں نے پوچھا چاچی سائمہ نے کب واپس آ نا ہے تو انہوں نے کہا وہ کل واپس آ جائے گی اس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور ہم لوگ مری بھی نہیں جا سکے وہ ابھی بھی سوئی ہوئی ہے . میں نے کہا ٹھیک ہے چچی اس کو کہنا کے جب کل گھر سے نکلے گی مجھے بتا دے میں اسٹیشن پے جا کر لے آؤں گا . چچی نے کہا ہاں بیٹا میں بول دوں گی . چچی نے کہا بیٹا تم بھی کبھی لاہور ہمارے پاس آ جایا کرو میں بھی تمہاری چاچی ہوں کبھی ہمارے لیے ٹائم نکال لیا کرو . میرے دماغ میں فوراً ایک خیال آیا اور میں نے کہا چاچی میں ضرور آؤں گا ویسے بھی مجھے لاہور ایک ضروری کام ہے میں کچھ دن تک آؤ ں گا تو آپ کی طرف بھی چکر لگاؤں گا . چچی نے کہا ہاں بیٹا ضرور آنا مجھے تم سے اور بھی کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں .میں نے کہا جی ضرور اور پِھر کچھ یہاں وہاں کی باتیں کر کے فون بند کر دیا . پِھر میں نے ٹی وی بند کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا باہر صحن میں آیا تو ا می سبزی کاٹ رہی تھیں اور نبیلہ ایک سائڈ پے واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھو رہی تھی . جب اس کی میرے ساتھ نظر ملی تو ا می سے نظر بچا کر مجھے منہ کے اشارے سے کس کر دی میں یہ دیکھا کر مسکرا پڑا اور ا می کو بولا میں ذرا باہر تک جا رہا ہوں مجھے کچھ ضروری کام ہے کھانے تک آ جاؤں گا . اور میں پِھر گھر سے باہر نکل آیا . اور اپنے دوستوں کی طرف آ گیا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگا. میں تقریباً 2 بجے تک دوستو ںمیں بیٹھ کر گپ شپ لگاتا رہا اور پِھر اٹھ کر گھر آ گیا دروازے پے دی تو نبیلہ نے ہی کھولا اور میں گھر میں داخل ہوا تو نبیلہ نے کہا بھائی كھانا تیار ہے ہاتھ منہ دھو کر آ جاؤ كھانا کھاتے ہیں . اور میں نبیلہ کی بات سن کر اپنے روم میں آ گیا اور پِھر اپنے واشروم سے منہ ہاتھ دھو کر باہر جہاں امی اور نبیلہ كھانا کھا رہے تھے میں بھی وہاں ہی بیٹھ گیا اور كھانا کھانے لگا . کھانے کے دوران امی نے پوچھا بیٹا سائمہ نے کب واپس آ نا ہے تو میں نے کہا امی میں نے آج اس کو کال کی تھی تو چا چی نے فون اٹھا لیا تھا ان سے پوچھا ہے وہ کہتی ہیں کے سائمہ کل واپس آ جائے گی وہ بیمار ہو گئی تھی . ا می نے کہا بیٹا تم خود جا کر لے آتے تو میں نے کہا ا می مجھے کچھ دن تک اپنے کام سے لاہور جانا ہے اِس لیے 2 دفعہ چکر نہیں لگ سکتا تھا اِس لیے میں نہیں گیا وہ کل آ جائے گی میں اس کو اسٹیشن سے لے آؤں گا . پِھر کچھ دیر یہاں وہاں کی باتیں ہوتی راہیں اور پِھر میں كھانا کھا کر اپنے بیڈروم میں آ گیا . اور اپنے بیڈ پے آ کر لیٹ گیا اور ٹی وی لگا لیا تقریباً 3 بجے کے قریب نبیلہ میرے کمرے میں آئی اور اندر آ کر دروازہ بند کیا اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پے آ کر چپک کر لیٹ گئی . اور بولی بھائی آپ سچ کہہ رہے ہو کے کل وہ کنجری سائمہ واپس آ رہی ہے . تو میں نے کہا ہاں نبیلہ یہ سچ ہے لیکن تم کیوں غصہ ہو رہی ہو . میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا اب سے تم میری جان ہو اس کے ساتھ تو بس ایک میاں بِیوِی والا رشتہ ہے . نبیلہ نے کہا تو بھائی جب سائمہ آ جائے گی پِھر آپ مجھے کب پیار کرو گے . اس کے آنے کے بَعْد تو ویسے بھی مشکل ہو جائے گا . میں نے کہا جان تم فکر کیوں کرتی ہو . میری جان کو پیار ضرور ملے گا جب میری بہن کو پیار کی ضرورت ہو گی تم سائمہ کے دودھ یا پانی میں بھی نیند کی گولی ملا دیا کرنا اور پِھر نبیلہ کو آنکھ مار دی . نبیلہ میری بات سن کر چہک اٹھی اور میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیے اور چوسنے لگی . پِھر نبیلہ نے شلوار کے اوپر سے میرا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور میرا لن سہلانے لگی . اس کے کچھ دیر لن سہلانے کی وجہ سے میرا لن ایک دم ٹائیٹ ہو گیا نبیلہ نے کہا بھائی کیا موڈ ہے ایک رائونڈ لگا لیں . تو میں نے کہا نبیلہ امی باہر ہی ہوں گی جاگ رہی ہوں گی . تو نبیلہ بولی بھائی امی اپنے کمرے میں سو گئی ہیں وہ 5 سے پہلے نہیں اٹھے گی ابھی ابھی کچھ دیر پہلے وہ سوئی ہیں . آپ بس مجھے ابھی آگے پھدی سے کر لو گانڈ میں رات کو کر لینا . میں نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے اور پِھر میں اٹھ کر اپنی شلوار اُتار نے لگا اوپر صرف میں نے بنیان پہنی ہوئی تھی نبیلہ نے بھی جلدی سے اپنی قمیض اُتاری تو نیچے اس نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا اس کے قمیض اُتار نے سے اس کے موٹے موٹے ممے اُچھل کر باہر آ گئے اور پِھر اس نے ایک ہی جھٹکے میں اپنی شلوار بھی اُتار دی اب نبیلہ پوری ننگی میرےسامنے بیٹھی تھی . میں نے اس کی پھدی کی طرف دیکھا تو اس کی پھدی سے اس کی جوانی کا رس نکل رہا تھا میں نے اپنی انگلی اس کی پھدی کے لبوں پے پھیری تو نبیلہ کے منہ سے ایک لذّت بھری سسکی نکل گئی اور میری انگلی بھی نبیلہ کی جوانی کے گرم رس سے گیلی ہو گئی میں نے اپنی انگلی کواپنی ناک کے قریب لا کر سونگھا تو مجھے ایک بھینی سی خوشبو آ رہی تھی میں بہک سا گیا میں نے اپنی زبان لگا کر اس کا ٹیسٹ چیک کیا مجھے نشہ سا چڑھ گیا میں نے اپنی انگلی کو منہ میں لے کر سارا رس چاٹ لیا پِھر نبیلہ نے میرے منہ سے میری انگلی نکال کر ایک دفعہ پِھر اپنے پھدی کے اندر پھیری اور اِس دفعہ میری انگلی کو پکڑ کر اپنے منہ میں لے کر چاٹ گئی . اور پِھر بولی بھائی کیسا لگا اپنی بہن کی جوانی کا رس تو میں نے کہا نبیلہ تمھارے رس میں بھی اور تمھارے جسم میں ایک نشہ ہے جو جتنا مرضی کر لو دِل نہیں بھرتا. پِھر نبیلہ میرے سامنے آ کر گھوڑی بن گئی میں اپنی ٹانگیں کھول کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا نبیلہ نے میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کو کچھ دیر ہاتھ سے سہلایا اور پِھر اس کی ٹوپی کو منہ میں لے لیا اور اس کی ٹوپی کے ارد گرد زُبان گول گول گھما نے لگی اور درمیان میں کبھی کبھی میری ٹوپی کی موری پے جب اپنی زُبان کی نوک کو رگڑ تی تو میرے جسم میں کر نٹ دوڑ جاتا تھا . کافی دیر تک ٹوپی کی اپنے منہ سے مالش کرنے کے بعد نبیلہ نے آہستہ آہستہ لن کو منہ میں لینا شروع کر دیا وہ بیچاری اِس کام میں اناڑی تھی اِس لیے درمیان میں کبھی کبھی اپنے دانٹ بھی مار دیتی تھی . جس سے مجھے ہلکی سی لن پے ٹِیس سی اٹھ جاتی تھی .لیکن وہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کے مجھے اس کے دانٹ محسوس نہ ہوں . پِھر میں نے دیکھا نبیلہ نے تقریباً آدھا لن منہ میں لیا تھا پِھر اس سے جہاں تک ممکن ہو سکا لن کو منہ میں اندر باہر کرنے لگی . وہ اپنی زُبان کی گرفت سے میرے لن کو منہ میں کس لیتی تھی جس سے میرے منہ سے لذّت بھری سسکی نکل جاتی تھی . تقریباً 5 سے 7 منٹ کے اندر ہی نبیلہ نے جاندار چوپا لگا کے میرے لن کو لوہے جیسا سخت بنا دیا تھا . پِھر میں نے خود اس کو روک دیا اور اس کے منہ سے اپنا لن باہر نکال کر اس کو کہا کے میں سیدھا ہو کر لیٹ جاتا ہوں تم اوپر سے آ کر لن کے اوپر بیٹھو جیسے تمہارا دِل کرے اور جتنا دِل کرے لن کو خود ہی اپنے اندر لو . نبیلہ نے اپنی ٹانگیں دونوں طرف کر کے میری رانوں کے اوپر بیٹھ گئی پِھر میرے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور تھوڑا سا اوپر اٹھ کر اپنی پھدی کی موری کو میرے لن کی ٹوپی پے سیٹ کیا اور پِھر اپنی پھدی کو لن کے اوپر دبانے لگی لیکن اِس پوزیشن میں اس کو تھوڑی تکلیف بھی ہو رہی تھی پِھر اس نے لن کو باہر نکالا اور میرے لن کو منہ میں لے کر اچھی طرح اپنی تھوک سے گیلا کیا پِھر کچھ تھوک نکال کر اپنی پھدی پے مل دی اور پِھر دوبارہ لن کو اپنی پھدی کی موری پے سیٹ کیا اور ایک جھٹکا دیا تو میرا آدھا لن ٹوپی سمیت اس کی پھدی میں چلا گیا اس کا جسم بیلنس میں نہیں رہا تھا جس سے جھٹکا زیادہ لگا اور لن ایک ہی جھٹکے میں آدھا اندر ہو گیا . نبیلہ کے منہ سے آواز آئی ہااے بھائی میں مر گئی . میں نے اس کے جسم کو پکڑ لیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور اور بولا نبیلہ میری جان تم اب یہاں ہی رک جاؤ کوئی حرکت نہیں کرو . تقریباً نبیلہ 2 منٹ تک ایسے ہی رکی رہی میں نے بھی اس کے جسم کو پکڑا ہوا تھا پِھر میں نے کہا نبیلہ میں نے بھی تمہیں پکڑا ہوا ہے تم آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتی جاؤ نبیلہ نے ایسا ہی کیا وہ ہلکا ہلکا اپنے جسم کو نیچے میرے لن کے اوپر دبا رہی تھی . تقریباً مزید 2 منٹ کی مشقت سے نبیلہ میرا پورا لن اپنی پھدی میں لے چکی تھی . اور اس نے اپنا سر میرے کندھوں پے رکھ لیا تھا اور لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی. جب نبیلہ کو کافی حد تک سکون ہو گیا تو بولی بھائی آپ کا لن بہت لمبا ہے میرے پیٹ تک محسوس ہو رہا ہے . میں اس کی بات سن کر مسکرا پڑا اور بولا میری جان اِس لن سے ہی تو تمہیں سکون بھی ملتا ہے . پِھر میں نے کہا جان اگر اب کچھ سکون ہوا ہے تو اپنے جسم کو اوپر نیچے حرکت دو اور لن کو اندر باہر لو . نبیلہ میری بات سن کر آہستہ آہستہ میرے لن کے اوپر ہی حرکت کرنے لگی شروع میں آہستہ آہستہ وہ آدھا جسم اٹھا کر اوپر نیچے ہوتی رہی لیکن جب لن نے اپنے رستہ بنا لیا تو پِھر وہ پورا جسم اٹھا کر لن کو اندر باہر لینے لگی لن کی ٹوپی تک اپنے جسم کو اٹھا تی اور پِھر نیچے ہو کر پورا لن جڑ تک اندر لے لیتی اس کو یہ پوزیشن میں لن لیتے ہوئے 5 منٹ سے زیادہ کا ٹائم ہو چکا تھا اس رفتار نہ اتنی تیز تھی نہ اتنی سست تھی پِھر یکدم ہی نبیلہ نے اپنی سپیڈ تیز کر دی تھی اس کے منہ سے لذّت بھری سسکیاں نکل راہیں تھیں . آہ آہ اوہ اوہ آہ اوہ آہ اوہ آہ بھائی میں گئی آہ بھائی میں گئی . اور اس کے مزید تیز تیز جھٹکے سے لن اندر لینے سے اس کی پھدی نے کافی زیادہ پانی چھوڑ دیا تھا اس کا گرم گرم پانی اس کی پھدی سے نکل کر باہر میرے لن کے اوپر بھی رس رہا تھا . مجھے ایک عجیب سا نشہ چڑھ گیا تھا . میں نے نبیلہ کو آگے کی طرف لیٹا کر خود گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اب نبیلہ کی ٹانگیں میرے کندھےپے تھیں میں نے تھوڑا اور آگے جھک گیا آب اس کی ٹانگیں نبیلہ کے مموں سے ٹچ ہو رہیں تھیں. میرا پورا لن نبیلہ کی پھدی کے اندر تھا میں نے بھی جوش میں آ کر دھکے لگانے کر دیئے .
Like Reply
#20
نبیلہ بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر ساتھ دے رہی تھی کمرے میں جسم آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے دھپ دھپ کی آوازیں گونج تھیں . اور نبیلہ کی سسکیاں بھی پورے کمرے میں گونج رہیں تھیں آہ آہ اوہ آہ اوہ اوہ آہ آہ . میں نے آگے ہو کر نبیلہ کے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا تا کہ اس کی آواز زیادہ کمرے سے باہر نہ جا سکے اور میں اس کو دھکے پے دھکے لگا رہا تھا میرا لن نبیلہ کی پھدی کی جڑ تک جا کر ٹکرا رہا تھا . مجھے نبیلہ کو اِس پوزیشن میں چود تے ہوئے تقریباً 5 منٹ ہو گئے تھے . ا ب مجھے بھی اپنے لن کی رگیں پھولتی ہوئی محسوس ہو رہیں تھیں . میں نے اب طوفانی جھٹکے لگانے شروع کر دیئے نبیلہ کا جسم میرے جاندار جھٹکوں کی وجہ سے بلبلا اٹھا تھا اس کی منہ سے بھی جوش اور لذّت بھری آوازیں نکل رہیں تھیں لیکن اس کا منہ میرے منہ میں ہونے کی وجہ سے آواز باہر نہیں نکل پا رہی تھی 3سے 4 منٹ کے جاندار جھٹکوں سے میں نے اپنی منی کا لاوا نبیلہ کی پھدی کے اندر چھوڑ دیا نیچے نبیلہ کا جسم بھی بری طرح کانپ رہا تھا وہ بھی دوسری دفعہ اپنا پانی چھوڑ چکی تھی. اب میں اس کے اوپر ہی لیٹ کر ہانپ رہا تھا اور نبیلہ بھی نیچے سے لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی . پِھر جب نبیلہ کی پھدی نے میرے لن کے مال کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا تو میں نے اپنا لن باہر نکال کر نبیلہ کے ساتھ ہی لیٹ گیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں . مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب میں سو گیا اور کب نبیلہ میرے جسم پے چادر ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئی تھی. شام کو تقریباً 6 بجے کے قریب میری آنکھ کھلی میں بیڈ سے اٹھا اور باتھ روم میں گھس گیا نہا دھو کر فریش ہوا اور اپنے کمرے سے باہر نکل آیا باہر صحن میں ا می اور نبیلہ بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں . نبیلہ نے مجھے دیکھا تو اٹھ کر کچن میں جانے لگی اور بولی بھائی میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں اور جاتے ہوئے امی سے نظر بچا کر مجھے سمائل دی اور منہ سے کس کر کے کچن میں چلی گئی . میں اس کی اِس حرکت پے مسکرا پڑا . پِھر ا می نے کہا بیٹا کل کتنے بجے سائمہ نے آنا ہے . میں نے کہا میں ابھی تھوڑی دیر تک اس کو کال کر کے پوچھ لیتا ہوں پِھر کل جا کر اسٹیشن سے لے آؤں گا . اتنی دیر میں نبیلہ چائے لے آئی . اور مجھے چائے دے کر امی کے ساتھ ہی چار پائی پے بیٹھ گئی . نبیلہ ا می سے تھوڑا ہٹ کر پیچھے بیٹھی تھی اور مجھے بڑی ہی نشیلی نظروں سے دیکھ کر مسکرا رہی تھی . اس کی ایک ایک مسکان میری جان سے بڑھ کر تھی . پِھر میں وہاں بیٹھ کر کافی دیر ا می کے ساتھ یہاں وہاں کی باتیں کرتا رہا پتہ ہی نہیں چلا 8 بج گئے . میں نے امی سے کہا میں سائمہ کو کال کر کے پوچھ لیتا ہوں وہ کل کتنے بجےپہنچے گی . اور پِھر میں اپنے روم میں آ گیا . میں نے سائمہ کو کال کر کے پوچھ لیا تھا کہ وہ کب آئے گی . میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا تو نبیلہ میرے کمرے میں آئی اور بولی بھائی كھانا تیار ہے باہر آؤ كھانا کھا لو اور وہ پِھر باہر چلی گئی . میں بیڈ سے اٹھا منہ ہاتھ دھو کر باہر كھانا کھانے بیٹھ گیا . كھانا کھا کر میں چھت پے تھوڑی دیر ٹہلنے کے لیے چلا گیا اور چھت پے ہی تقریباً 1 گھنٹے تک ٹہلتا رہا گھڑی پے ٹائم دیکھا 10 بجنے والے تھے . میں چھت سے اُتَر کر اپنے روم میں آ گیا اور ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا . آج ہفتے والا دن تھا میں دیکھا کیبل والے نے اپنے کسی چینل پے ایک سیکسی انگلش فلم لگا دی تھی . میں نے لائٹ آ ف کی اور دروازہ بند کر کے دیکھنے لگا دروازے کو لاک نہ کیا مجھے پتہ تھا نبیلہ ضرور آئے گی تقریباً 11بجے کے قریب نبیلہ نے چپکے سے میرے بیڈروم کا دروازہ کھولا اور اندر آ کر دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی . اور چلتی ہوئی میرے ساتھ آ کر میرے بیڈ پے میرے ساتھ چپک کر لیٹ گئی . کچھ دیر ٹی وی دیکھتی رہی اور میرے سینے پے اپنا ہاتھ پھیر تی رہی . میں نے شلوار اور بنیان پہنی ہوئی تھی اس نے بنیان میں ہاتھ ڈال کر میرے سینے پے اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی . پِھر میں نے اس کو تھوڑا سا اپنے ساتھ اور لگا کر اس کو ہونٹ پے کس کی اور پوچھا نبیلہ کبھی اِس طرح کی سیکسی انگلش فلم دیکھی ہیں . تو وہ بولی بھائی ایک دو دفعہ ہی آپ کے کمرے میں ٹی وی پے دیکھی ہیں جب آپ باہر ہوتے تھے اور سائمہ لاہور گئی ہوتی تھی لیکن زیادہ دیر نہیں دیکھ سکتی تھی فلم دیکھ کر مجھے کچھ کچھ ہونے لگتا تھا اور میرے پاس کوئی ہوتا نہیں تھا جس سے میں مزہ کر سکوں . لیکن آپ کی وہ کنجری بِیوِی تقریباً روز رات کو دیکھتی تھی . یہ کیبل والا ہفتے اور اتوار کو روز گندی گندی انگلش فلم لگاتا ہے . اور سائمہ بڑے شوق سے دیکھتی ہے اور کئی دفعہ جب دیکھ رہی ہوتی تھی تو پوری ننگی ہو کر اپنے پھدی میں انگلی ڈال کر مزہ بھی لیتی تھی پِھر میں نے دیکھا فلم میں ایک بڑا ہی گرم گرم سین آیا لڑکا لڑکی کو کھڑا کر کے خود اس کی پھدی کے آگے بیٹھ کر پھدی چاٹ رہا تھا . میں نے کہا جان کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے . تو نبیلہ نے کہا ہاں بھائی بہت اچھا لگتا ہے کیا آپ بھی میرے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں . میں نے کہا میری جان کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں . میں نے کہا تم اُلٹا لیٹ کر اپنا منہ ٹی وی کی طرف کر لو اور اپنی ٹانگوں کو تھوڑا کھول دو میں پیچھے سے تمہیں مزہ دیتا ہوں تم فلم دیکھ کر بھی مزہ لو اور نیچے سے مجھ سے بھی مزہ لو . نبیلہ خوش ہو گئی اٹھ کر مجھے ہونٹوں پے کس کی اور پِھر جھٹ پٹ میں اپنے کپڑے اُتار کر ننگی ہو گئی اور جس پوزیشن میں میں نے کہا تھا اس میں ہو کر لیٹ گئی . میں نے بھی پیچھے سے ہو کر تھوڑا سا اس کی ٹانگوں کو کھولا اور اپنا منہ آگے کر کے پہلے اپنی زُبان نبیلہ کی گانڈ کی دراڑ میں پھیری نبیلہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور پیچھے منہ کر بولی یہ کیسا مزہ تھا . میں نے کہا جان ابھی آگے آگے دیکھو کیسا کیسا مزہ آتا ہے . نبیلہ کی اِس پوزیشن میں نبیلہ کی گانڈ کی موری اوپر تھی اور پھدی کی موری نیچے تھی . پِھر میں نے دوبارہ پِھر زُبان پے تھوڑا تھوک جمع کر کے نبیلہ کی گانڈ کے پٹ کو کھول کر اپنی زُبان پھیری تو نبیلہ کے منہ سے لمبی سی سسکی نکل گئی میں کچھ دیر تک یوں ہی نبیلہ کی گانڈ کی دراڑ میں زُبان پھیر کر اس کی گانڈ کی موری کی مالش کرتا رہا نبیلہ کے منہ سے لذّت بھری سسکیاں نکل رہیں تھیں . پِھر میں نبیلہ کی پھدی کے لبوں پے زُبان پھیری تو نبیلہ کے جسم میں کر نٹ دوڑ گیا میں اس کی پھدی کے لبوں کو اِس طرح ہی اپنی زُبان سے چاٹتا رہا . پِھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ کی انگلیوں سے اس کی پھدی کی لبوں کو کھولا اور اپنی زُبان کو اندر کر کے پھیر نے لگا نبیلہ کا جسم جھٹکے کھانے لگا . پِھر تو میں نے اپنی زُبان سے نبیلہ کی پھدی کی چدائی کرنی شروع کر دی . شروع میں آہستہ آہستہ اپنی زُبان کو پھدی کے اندر باہر کرتا رہا لیکن پِھر نبیلہ کی اونچی اونچی سسکیاں سن کر مجھے اور جوش آ گیا تھا میں نے اپنی زُبان کو فل تیز تیز اس کی پھدی کے اندر باہر کرنے لگا . تقریباً 2 منٹ کے اندر ہی نبیلہ کا جسم کانپنے لگا اور جھٹکے کھانے لگا اور اس نے ڈھیر سارا اپنی پھدی کا مال میری زُبان کے اوپر ہی چھوڑ دیا . پِھر میں نے بھی کچھ دیر بعد اپنا منہ ہٹا لیا اور اٹھ کر واشروم میں چلا گیا اور منہ ہاتھ دھو کر کے دوبارہ آ کر نبیلہ کے ساتھ بیڈ پے لیٹ گیا. نبیلہ اٹھ کر باتھ روم میں چلی گئی اور جا کر اپنی صاف صفائی کر کے واپس آ کر ننگی ہی میرے ساتھ دوبارہ چپک کر لیٹ گئی اور بولی بھائی آپ کی زُبان میں جادو ہے . مجھے بڑا مزہ آیا ہے میری پھدی کو آج پہلی دفعہ کسی نرم نرم چیز نے رگڑا ہے اور میرا ڈھیر سارا پانی نکلا ہے . میں نے کہا ہاں نبیلہ میری جان مجھے پتہ ہے کسی بھی عورت کو مرد کی زُبان سے اپنی پھدی کی مالش کروانا بہت زیادہ اچھا لگتا ہےنبیلہ نے آگے ہو کر میری شلوار کا ناڑ ہ کھولا اور اور میری شلوار کو میری ٹانگوں سے نکال کر کھینچ کر اُتار دیا اور بیڈ کی دوسری طرف رکھ دیا اور پِھر میرے سینے پے اپنا سر رکھ کر اور اپنی ایک ٹانگ میری ٹانگ کے اوپر رکھ کر چپک گئی اور اپنے ایک ہاتھ سے میرا لن پکڑ لیا . اور بولی بھائی آپ نے لاہور کب جانا ہے . اور کیا آپ لاہور چا چی والے کام کے لیے ہی جا رہے ہو . میں نے کہا نبیلہ میں سائمہ کے واپس آ جانے کے 4 یا 5 دن کے بعد اسلام آباد کا بہانہ بنا کر لاہور چلا جاؤں گا میں سائمہ کو اسلام آباد کا ہی بتاؤں گا . اور ہاں میں لاہور چا چی کے لیے ہی جا رہا ہوں . مجھے اب جلدی سے جلدی چا چی والے مسئلے کو حَل کر کے ان کو واپس یہاں لے کر آنا ہے . تا کہ خاندان اور باہر والن کو چا چی کی کسی بھی بات کا پتہ لگنے سے پہلے میں ان کو یہاں گاؤں میں سیٹ کر دوں . نہ وہ لڑکا چا چی سے ملے گا اور نہ ہی کوئی مسئلہ بنے گا اور ویسے بھی چا چی کی آگ کو جب میں خود ٹھنڈا کرتا رہوں گا تو اس کو کسی کی ضرورت نہیں پڑے گی
Like Reply




Users browsing this thread: 2 Guest(s)