Thread Rating:
  • 0 Vote(s) - 0 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
Aik k sath do Free - Urdu Font
#1

میرا تعلق چکوال سے ھے لیکن جب میں پانچ سال کا تھا تو میرے والد صاحب انتقال کر گئے اور گھر کی زمہ داریاں بڑے بھائی پر آگئیں ۔ گھر کے حالات بھت اچھے تو تھے نھی لہذا جلد ھی بھائی کام کے سلسلے میں لاھور شفٹ ھو گئے۔ دو سال بعد بھائی نے ھم سب گھر والوں کو بھی لاھور شفٹ کر لیا یوں ھم لوگ لاھور کے ھو کر رہ گئے۔ اور کبھی کبھار اپنے عزیزو اقارب سے ملنے چکوال کا رخ بھی کرتے اور اپنے5 مرلے کے آبائی گھر کا چکر بھی لگاتے تاکہ اس کی دیکھ بھال ھوتی رھے۔ میٹرک کرگے۔ کے بعد میں بلکل فری تھا تو سوچا کچھ دن چکوال اپنی بڑی سسٹر کے پاس رہ لوں۔ چناچہ میں چکوال آ گیا ۔ لاھور میں رھنے اور کو ایجوکیشن کی وجہ سے میرے اندر کافی اعتماد آگیا تھا جس کی وجہ سے لڑکے ھوں یا لڑکیاں کسی سے بات سے جھجکتا نھی تھا۔ چکوال پہنچ کر میری روٹین یہ تھی کہ رات ساری کزنز کے ساتھ موویز دیکھتا رھتا تاش کھیلتا اور دن کو باجی کے گھر سوتا رھتا۔ ایک دن باجی نے مجھے دن بارہ بجے آٹھایا اور بولیں نواب صاحب اُٹھیں اور جا کر علی کو، سکول سے لے آئیں۔ علی میرے 7 سال کے بھانجے کا نام ھے جو کہ باجی کے گھر سے تھوڑی دور ایک پرائیویٹ سکول میں ٹو کلاس میں پڑھتا تھا۔میں نے کہا کیوں باجی آج کیا رکشے والے نے نھی آنا جو میری نیند خراب کر رھی ھیں۔  تو وہ بولی نھی رکشے والے کی بیٹی کی شادی ھے اور وہ ایک ھفتہ چھٹی کرے گا اور تب تک آپ نواب صاحب  علی کو سکول سے لائیں گے جبکہ صبح اس کے پاپا اسے سکول چھوڑ دیا کریں گے۔ میں بادل نخواستہ اٹھا اور پیدل ھی سکول کی طرف چل پڑا۔ سکول زیادہ دور نھی تھی بمشکل سات آٹھ منٹ میں سکول پہنچ گیا۔  چھٹی ھونے میں ابھی دس منٹ تھے۔ میں سکول کے پاس ھی ایک شاپ پر بیٹھ گیا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ تبھی میری نظر دوکان سے تھوڑی دور ایک گلی کی نکڑ پر پڑی۔ جہاں پر ایک لڑکی کھڑی میری طرف دیکھ رھی تھی۔  میں نے ادھر اُدھر دیکھا اور کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نا پا کر اسی لڑکی کو دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ بھی نکڑ پر کھڑی ادھر اُدھر دیکھتی اور پھر میری طرف دیکھنے لگ جاتی۔ چند منٹ بعد میں نے ھاتھ ھلکا سا ھلا کر اسے اشارہ کیا تو وہ مسکرا کر گلی کے اندر چلی گئی۔ میرا، ارادہ بنا کہ اٹھ کر اس گلی کا، ایک چکر لگانا لیکن اسی وقت سکول کی گھنٹی نے میرا ارادہ ملتوی کروا دیا۔ میں سکول کے گیٹ پر چلا گیا اورچند منٹ بعد ھی علی سکول سے باھر آگیا۔ علی کو لے یر میں گھر کی طرف چلا تو وہ گلی راستے میں ھی آنی تھی۔ میں نے گلی کے سامنے رک کر گلی میں دیکھا تو وہ گلی آگے سے ٹی بن کر لیفٹ اور رائیٹ مڑ رھی تھی جبکہٹی کو سیدھا کراس کر کے دو گھر تھے آگے گلی بند تھ اس کا گھر بلکل سیدھا ٹکر والا تھا اور وہ اس ٹکر والے گھر کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ اس نے جیسے ھی مجھے دیکھا مجھے ھاتھ کے اشارے سے بائی بائی کیا اور گھر کے اندر چلی گئی۔ میں بھی علی کو لے کر گھر آگیا ۔ علی کو باجی کے حوالے کر کے میں دوبارہ بستر ہر لیٹ گیا لیکن اب نیند کا کوئی ارادہ نھی تھا۔ میں اس لڑکی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے چونکہ دور سے دیکھا تھا لہذا اس کا چہرہ اچھی طرح نا دیکھ سکا لیکن اس کا جسم بھرا بھرا تھا۔ قد تقریباً پانچ فٹ تھا۔ اب میرا، دل کیا کہ ایک چکر اور باھر کا لگاوں چناچہ ایک بار پھر باھر نکل کر اس کی گلی کی طرف جا رھا تھا۔ اس کی گلی کے سامنے رک کر دیکھا لیکن وہ وھاں نھی تھی اور گیٹ بھی بند تھا۔ میں وھاں سے واپس آگیا اور پی ٹی سی ایل سے کزن کو کال کر کہ کہا کہ میں جاگ گیا ھوں لہذا وہ اپنی بائیک لے کر آجائے تاکہ ھم آوارہ گردی پر نکل سکیں۔ یہ واقعہ2001 کا ھے اس وقت موبائل سو میں سے کسی ایک بندے کے پاس ھوتا تھا اور اس کے بھی کال ریٹ بھت مھنگے ھوتے تھے۔ ایک شھر سے دوسرے شھر  کال کرنے پر رومنگ چارجز پڑتے تھے۔  خیر کزن  ولید جو میری پھپھوکا بیٹا تھا مجھے پک کرنے آ گیا۔ ھم تین کزن ھم عمر تھے جن کی بھت اچھی دوستی تھی باقی کزن چھوٹے تھے۔ ھم تینوں روزانہ رات کو VCR کرائے پر لاتے اور ھر قسم کی  وہ فلمیں بھی دیکھتے۔ جن میں وہ فلمیں بھی ھوتی تھیں جن میں آواز نھی ھوتی تھیی۔
Like Reply
Do not mention / post any under age /rape content. If found Please use REPORT button.
#2

گلے دن میں خود ھی علی کی چھٹی سے زرا پھلے گھر سے نکلا اور آج میں رستہ تبدیل کر کے اس ٹی والی گلی سے جا رھا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ آج پھر وھاں کھڑی ھوگی اور ھوا بھی ایسے ھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو میری طرف آگئی اور مسکرا کر سلام کہا۔ میں نے بھی ادھر، ادھر دیکھ کر سلام کیا، اور اس کا نام پوچھا تو بولی میرا نام یاسمین ھے مین نے کہا میرا، نام ساحر ھے ۔ اتنی بات کر کے میں وھاں سے آگے نکل گیا کیونکہ ڈر تھا کوئی دیکھ نا لے۔ یاسمین ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ جسم بھرا بھرا اور ممے 34 سے 36 ھوں گے۔ تب مجھے سائیزوں کا اتنا پتہ نھی تھا،صرف اندازہ ھی تھا۔ میں گلی میں تھوڑا، آگے گیا تو مجھے ایک چھوٹی سی دکان نظر آئی جو، کسی بابے نے صرف بچوں والی گولیاں ٹافیاں رکھی ھوئی تھیں۔ مین جان بوجھ کر، دکان ہر کھڑا ھو گیا تو وہ بھی میرے پیچھے چلتے چلتے دکان پر، آئی اور دکان کے اندر گھس کر بابے سے بولی۔ ابا توں گھر جا، تے روٹی کھا کے آ۔ میں دکان تے بھنی آں۔ تب مجھے سمجھ لگی کہ بابا جی اس کا باپ ھے اور بابا مجھے ذھنی طور پر بھی فٹ نھی لگا تھا۔ میں جان بوجھ کر کچھ بچوں کی چیزیں خریدنے لگ گیا۔  بابا اٹھ کر گھر کی طرف چلا گیا اب وہ دکان میں اکیلی تھی۔ دکان کے اندر جانے کا میں رسک لے نھی سکتا تھا کیونکہ بھری دوپہر تھی ۔ باھر کھڑے کھڑے اس سے بات کرنے لگا۔ میں نے کہا کیا تم ھر ایک سے ایسے ھی بات کرتی ھو جیسے مجھ سے کی تو وہ بولی نھی۔ میں نے آپ کو دو تین دفعہ دیکھا اور مجھے اچھے لگے ھو اس لیے آپ سے بات کی۔ مجھے وہ زیادہ پڑھی لکھی نھی لگی شائید سکول کا منہ بھی نھی دیکھا تھا۔ لیکن میں نے اس سے پوچھا نھی کیونکہ میرے لیے اتناھی کافی تھا کہ وہ ایک جوان لڑکی ھے ۔ خیر اس سے باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ تین بھنیں ھیں اور دو بھائی۔ باپ دماغی طور پر ٹھیک نھی تھا۔ دونوں بھائی مزدوری کرتے ھیں۔ ماں باپ کے ساتھ دکان پر بیٹتھی ھے۔ ایک بھین اس سے بڑی 26 سال کی ھے اور دوسری اس سے چھوٹی 17 سال کی۔ اور اسکی عمر 23 سال ھے۔ اتنی دیر میں اسکی ماں آ گئی تو میں دکان سے ھٹ کر سکول کی طرف نکل گیا۔ علی کو واپس لے کر جاتے ھوئے بھی وہ اسی نکڑ پر کھڑی تھی۔  اس نے مجھے ھاتھ سے بائی بائی کیا اور گلی میں چلی گئی۔ اب میں سوچ رھا تھا کہ کسی طرح یاسمین کو ملوں کہیں اکیلے میں لیکن کوئی حل نھی مل رھا تھا۔ اور اس کے ممے مجھے چین نھی لینے دے رھے تھے۔ اگلے چار دن بھی اسی طرح ھلکی پھلکی بات ھو جاتی لیکن کوئی چانس نھی بن رھا تھا۔ پانچویں دن مجھے بھائی نھے لاھور بلوا لیا اور میرے خواب ادھورے رہ گئے۔  لاھور  آکر یاسمین سے رابطہ بلکل ختم ھو گیا کیونکہ نا تو، اس کے گھر میں فون تھا، اور نہ وہ اتنے امیر تھے کہ موبائل فون رکھتے ۔ تبھی ایک دن بڑے بھائی نے مجھے اطلاع دی کہ انھوں نے چکوال میں پرانا گھر بیچ کر سسٹر کے گھر کے پاس ایک کنال کا پلاٹ لیا ھے اور اب اس پر کنسڑکشن کروانی ھے۔ جس کے لیے گھر والے کچھ عرصہ چکوال شفٹ ھونے کا سوچ رھے ھیں۔ پھر ایک دن امی اور بھابی کو  لے کر بھائی چکوال  چلے گئے۔ بھائی کا، ارادہ تھا کہ وہ سسٹر کے گھر کے نزدیک کوئی گھر کرائے پر لے لیں گے اور وھاں رہ کر ھم اپنا گھر بنوا لیں گے۔ میں فلحال لاھور ھی رہ گیا کیونکہ یہاں بھی گھر کو خالی نھی چھوڑا جاسکتا تھا۔ پندرہ دن بعد بھائی نے مجھے سسٹر کے گھر سے کال کی اور کہا کہ ھم نے سسٹر کے گھر کے پاس ایک گھر کرائے پر لے لیا ھے اب تم چکوال آ کر مستریوں سے کام۔کرواو اور میں لاھور واپس آکر اپنی ڈیوٹی کروں گا۔ میں نے بھائی کو کہا کہ میں رات کو، لاھور سے نکلوں گا تو صبح صبح چکوال ھوں گا۔ آپ مجھے گھر کا، ایدڑیس سمجھا دیں تاکہ میں سسٹر کی بجائے سیدھا اپنے گھر پہنچوں۔ بھائی نے مجھے ایڈریس سمجھایا تو ایسا لگا جیسے تقدیر مجھ پر مہربان ھو رھی ھے کیونکہ جو ایڈریس بھائی نے بتایا تھا وہ یاسمین کے گھر کے ساتھ والا گھر تھا۔ ایک دم سے یاسمین پھر میرے خوابوں میں آگئی تھی میں شام کو نھانے کے لیے واش روم میں گیا اور یاسمین کے میں کا سوچ کر مٹھ ماری۔ پھر نھانے کے بعد تیار ھو کر لاری اڈے کے لیے نکل پڑا۔ صبح پانچ بجے میں چکوال یاسمین کے گھر کے ساتھ والے گیٹ پر کھڑا تھا
Like Reply
#3

میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بھائی نے دروازہ کھولا۔ میں گھر کا جائزہ لے رھا تھا۔ یہ گھر نا صرف یاسمین کے گھر سے جڑا ھوا تھا بلکہ گھر کے اندر دونوں گھروں کے درمیان ایک پانچ فٹ اونچی دیوار تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ یا تو دونوں گھروں کا ایک ھی مالک ھے یا رشتہ دار ھیں۔ دروازے سے اندر داخل ھوتے ھے  دائیں طرف ایک بیٹھک اور بائیں طرف باتھ روم بنا ھوا تھا اس کے بعد کافی کھلا صحن تھا پھر دائیں طرف کچن اور سامنے ٹکر پر دو کمرے بنے ھوئے تھے۔ میرے آنے سے امی اور بھابی بھی اٹھ گئی تھیں۔ انھوں نے مجھے ناشتہ بنا کر دیا جس کے بعد میں بیٹھک میں جا کر سو گیا کیونکہ ساری رات جاگا ھوا تھا۔ دوپہر کو آنکھ کھلی تو اٹھ کر باتھ روم میں نہانے چلا گیا۔ نھا کر باھر نکلا ۔تو ایک نیا چہرہ نظر آیا جو کہ سامنے کمرے میں بیٹھ کر مشین پر کوئی کپڑا سی رھی تھی ۔ لڑکی خوبصورت تھی اور جسم بھی یاسمین کی طرح ھرا بھرا تھا۔ میں کمرے میں آیا تو اس نے مجھے سلام کیا میں جواب دے کر امی کے پاس چارپائی پر بیٹھ گیا۔ امی نے بتایا کہ بھائی لاھور چلا گیا ھے۔ کل سے مستری مزدور آ جائیں گے اور تم وھیں پر کام کی نگرانی کرو گے۔ بھابی کچن میں کھانا بنا رھی تھی۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ لڑکی کون ھے۔ اس لیے بھابی کے پاس چلا گیا اور پوچھا بھابی یہ کون ھے۔ بھابی نے میری طرف شک بھری نظروں سے دیکھا اور کہا خیر ھے ۔ میں نے کہا بھابی ویسے ھی پوچھ رھا ھوں ۔ بھابی نے یاسمین کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ساتھ والا گھر مالک مکان کے بھائی کا ھے اُن کی بڑی بیٹی ھے نام کلثوم ھے اور میرے کپڑے سی رھی ھے۔ میں کچن سے نکلا اور دوبارہ امی کے پاس بیٹھ گیا اور کلثوم کو دیکھنے لگا۔ وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ میں اسے دیکھ رھا، ھوں اس لیے بار بار مجھے دیکھتی اور پھر کپڑے سینے لگ جاتی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اسے اشارہ کیا، تو وہ مسکرانے لگی۔ لائین کلیئر دیکھ کر میں نے اسے آنکھ ماری تو اس نے بھی مجھے آنکھ مار دی۔ میرے دل میں تو شادیانے بج رھے تھے کیونکہ یاسمین پھلے ھی سیٹ تھی اور اب اسکی بڑی بھین بھی پورا، ریسپونس دے رھی تھی۔ بھابی نے مجھے کھانے کے لیے آواز دی تو میں دوسرے کمرے چلا گیا۔ دل میں سوچ رھا تھا کہ یہ دونوں بھنیں اتنی جلدی سیٹ ھو رھی ھیں خیر ھی ھو۔ کھانے کے درمیان ھی یاسمین اپنی بہن کو بلانے آ گئی اور مجھے دیکھ کر حیران ھوئی میں نے بھی موقع دیکھ کر اسے آنکھ ماری وہ مسکرا کر دوسرے کمرے میں کلثوم کے پاس بیٹھ گئی۔ میں بھی اسی کمرے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا لیکن دھیان میرا دونوں بہنوں کی طرف ھی تھا۔ کلثوم نے یاسمین کو ڈانٹ کر گھر بھیجا تو، وہ گیٹ سے جانے کی بجائے اندرونی دیوار کے پاس بجری پڑی تھی وھیں سے دیوار پھلانگ کر چلی گئی۔  تھوڑی دیر بعد امی کسی کام سے سسٹر کے گھر چلی گئی اور بھابی اپنے کمرے میں کپڑے پریس کر، رھی تھیں۔ میں نے موقع دیکھ کر کلثوم سے باتیں شروع کر، دیں۔ وہ بھی پڑھی لکھی نھی تھی لیکن دونوں بہنیں بھت فاسٹ تھیں۔ شائید دونوں کو چدوانے کا شوق تھا ورنہ لڑکیاں اتنی جلدی فرینک نھی ھوتیں۔ خیر جو بھی تھا مجھے پکی پکائی دو دو چپڑی ھوئی مل رھی تھیں۔ چند منٹوں میں ھی کلثوم بلکل فرینک ھو گئی تھی بلکہ یہ کہنا پڑے گا کہ یاسمین سے بھی زیادہ کلثوم تیز تھی۔ تبھی بھابی کمرے میں آگئی شائد کپڑے پریس ھو گئے تھے ۔ بھابی میری بھت اچھی دوست بھی تھیں اور میں اپنے رومانس اکثر ان سے شئر کرتا رھتا تھا۔لیکن وہ مجھے ڈانٹتی اور سمجھاتی رھتی تھیں لیکن انھوں نے کھبی بھی بھائی سے میری کوئی شکائت نھی کی۔ بلکہ اکثر میرے لیے بھائی سے لڑ پڑتی تھیں۔ مجھے کلثوم سے باتیں کرتا دیکھ کر انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا لیکن میں بھی ڈھیٹ بن کر بیٹھا رھا۔ تھوڑی دیر میں کلثوم نے کپڑے سی لیے اور بھابی کو دیئےاور کہنے لگی بھابی آپ ایک دفعہ پہن کر چیک کر لیں۔ بھابی نے کپڑے پکڑے اور اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔ موقعہ مناسب تھا میں نے آگے بڑھ کر کلثوم کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ جیسے پہلے ھی تیار تھی اس نے آگے بڑھ کر مجھے جھپی ڈال لی۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کو، اوپر اٹھایا اور اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں پر رکھ دئیے۔ اس نے بلکل مزاحمت نھی کی بلکہ میرا ساتھ دے رھی۔ اب میں اس کو کس بھی کر رھا تھا اور میرے ھاتھ اس کے مموں کو دبا رھے تھے۔ چند منٹ بعد میں نے اسے پیچھے ہٹا دیا کیونکہ بھابی کسی بھی وقت آسکتی تھیں۔ کلثوم بولی رات کو بیٹھک  میں سونا اور دروازہ کھلا رہنے دینا۔ میں پورے بارہ بجے آوں گی۔ میں انتظار کروں گا۔  یہ کہ کر میں جان بوجھ کر کمرے سے باھر آگیا کیونکہ میرے دل میں چور تھا، اور میں نھی چاہ رھا تھا کہ بھابی کو شک ھو جائے۔ میں بیٹھک میں آکر بیٹھ گیا اور ڈیک پر گانا لگا لیے۔
Like Reply
#4

دوبارہ جب میں بیٹھک سے نکلا تو کلثوم اپنے گھر چلی گئی تھی اور بھابی کہیں جانے کی تیاری میں تھی۔ بھابی نے مجھے دیکھا، اور بولی چلو مجھے اماں کے گھر چھوڑ آو اور شام کو لے آنا۔ میں گلی میں جا کر رکشہ لے آیا اور بھابی کو اُن کے میکے چھوڑنے کی بعد بازار کی طرف چلا گیا۔ میرا دل تھا کہ مارکیٹ سے کنڈوم خرید لوں ۔ یہ سوچ کر ایک دوست کی دکان پر جا کر کنڈوم خریدے۔ اب میں نے موقع غنیمت جانا اور دوبارہ گھر کا، رخ کیا کیونکہ گھر خالی تھا تو شائد ایک بار پھر موقعہ مل جاتا۔ گھر پہنچ کر میں نے جان بوجھ کر، دروازہ زور سے کھولا تاکہ ھمسائیوں تک آواز جا سکے۔ اور یہ ہی ھوا تھوڑی دیر بعد یاسمین نے دیوار سے جھانکا تو میں صحن میں چارپائی پر لیٹا تھا۔ میں نے اسے اشارہ کیا تو وہ دیوارسے ھمارے صحن میں آ گئی۔ میں اٹھ کر اندر کمرے میں آگیا کیونکہ ڈر تھا کہ ھمسائیوں میں سے کوئی دیکھ نہ لے۔  اندر داخلھو کر پہلے میں نے کلثوم کے بارے میں پوچھا کیونکہ اگر وہ آ گئی تو یاسمین چلی جائے گی بلکہ دونوں چلی جائیں گی ۔ یاسمین نے بتایا کہ ککثوم اور امی کسی رشتےدار کے گھر فوتگی ہر گئی ھوئی ھیں اور شام کو آئیں گی۔ گھر پر صرف ابا اور چھوٹی بہن رجو ھے۔میں نے اسے کھینچ کر گلے سے لگا لیا۔ اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں پر رکھ دئیےاور اس کی کمر پر ھاتھ پھیرنے لگا۔ وہ بھی پوری طرح ساتھ دے رھی تھی۔ یاسمین کاجسم کلثوم کے مقابلے میں زیادہ بھرا ھوا تھا اور اس کے ممے بھی کافی بڑے تھے شائد 36 سائز تھا۔  کمر ہر ھاتھ پھیرتے ھوئے میرا ھاتھ اس کے ھپس پر لگا تو وہ بھی کافی بڑے تھے۔ یاسمین کی کسنگ بتا، رھی تھی کہ وہ اس کام میں ایکسپرٹ ھے۔ میں نے ھاتھوں سی اس کے بُنڈ دبا کر اسکی چوت کو اپنے لن کے ساتھ جوڑا میرا شیر تو پہلے ھی تیار کھڑا تھا یاسمین نے بھی بلاتکلف اپنی چوت کو میرے لن پر رگڑنا شروع کر دیا۔ میں نے اسکی قمیض کو اوپر کیا اور اسکے ممے کھینچ کر برا، سے باھر نکالے۔ اس کے ممے تو جیسے پہلے ھی آزاد ھونے کے لیے بےچین تھے۔ اس کےپنک کلر کےنپل بھی بھت بڑے تھے۔ میں نے انھیں منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ میری کوشش تھی کہ پورے منہ میں لے لوں لیکن ان کا سائز میرے منہ سے کہیں بڑا تھا۔ میں باری باری دونں مموں کو چوستا کبھی ان پر ھلکے ھلکے دانتوں سے کاٹتا تو وہ تڑپ جاتی۔ اب اس نے خود ھے میرے لن کو شلوار کے اور سے پکڑ کر اپنے پھدی پر رگڑنا شروع کر دیا اور میرے لن کا بھی بس نھی چل رھا تھا کہ اسکی شلوار پھاڑ کر اندر گھس جائے۔ میں نے اس کے مموں کو چھوڑ کر اسکی قمیض اور پھر برا بھی اتار دی۔ لیکن وہ ابھی تک میرے لن کو ھاتھ میں پکڑے شلوار کے اوپر سے مسل دھی تھی۔ میں نے اسکی بے چینی محسوس کرتے ھوئے شلوار کا ناڑا کھول  کر شلوار نیچے کی اور اپنا لن اسکے ھاتھ میں پکڑا دیا۔ وہ اب اور مستی اور زور سے مسل رھی تھی۔ میں نے اسے پکڑ کربھابی کے بیڈ پر بیٹھا دیا اور لن اس کے پاس ھاتھ میں پھر سے پکڑا دیا۔ اس نے میرے لن کو غور سے دیکھا اور بڑے پیار سے مسلنے لگی۔ میں نے کیا یار اس کو تھوڑا پیار کرو بیچارا کتنے مہینوں سے تمھارے لیے تڑپتا ھے اور لیک ھوتا ھے۔ وہ میری بات سن کر مسکرائی اور بولی چل فیر اج ایدا، انتظار ختم کروائیے۔ اتنا کہ کر اس نے میر لن کی ٹوپی ہر پیار کیا اور بولی یار ھے بڑا وڈا تے ملائم۔ میں نے کہا تے فیر انھوں پیار کر کے ھو ملائم کر تا کہ اے تیری تلے لگی اگ نوں بجھا سکے۔ میری باتھ سن کر اس نے میرے لن کی ٹوپی کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے شراب پی لی ھو ایسا نشہ کہ بیان نھی کر سکتا۔ میں نے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر دبایا تو میرا لن آدھے سے زیادہ اس کے منہ میں تھا۔ پھر وہ خود ھی پورا، منہ میں لے کر چوستی کبھی آگے پیچھے کرتی اور کھبی منہ کے اندر روک کر اس پر گولمول زبان پھیرتی۔ میرا لن پھٹنے والا ھو رھا تھا جب اچانک کمرے کا، دروازہ ھلجا سا کھٹکھا۔ دروازے کی آواز، سن کر جیسے میری جان نکل گئی ھو اس نے بھی ایک دم سے منہ پیچھے ھٹایا اور پریشان ھوگئی۔ اتنا مجھے یاد تھا کہ میں نے گیٹ کو لاک کیا تھا اس لیے یہ جو کوئی بھی ھے یاسمین کے گھر سےدیوار پھلانگ کر آیا ھے۔میرا، دماغ گھوم رھا تھا ۔
Like Reply
#5

خوف اور بےعزتی کے ڈر سے میرا لن بھی ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ میں نے اپنی آواز کو ایسے بنایا جیسے میں سو رھا تھا جو، دروازہ کھٹکنے کی وجی سے اٹھا ھوں اور آرام سے پوچھا کون۔ تب باھر سے ایک ھلکی سی نسوانی آواز آئی اور میرے بجائے یاسمین کو مخاطب کر کے بولی باجی ابا بلاندا پیا ای۔ گھر آ۔ یہ آواز سن کر یاسمین کی جیسے جان میں جان آگئی ھو اس نے زور سے سانس لی اور مجھے ریلکس ھونے کا اشارہ کیا اور بولی رجو توں گھر جا میں 5 منٹ وچ آندی آں۔ مطلب رجو تم گھر جاو میں پامچ منٹ میں آتی ھوں۔ھالا جلدی آ ابا رولا پایا ھویا ای۔ مطلب۔ اچھا جلدی آ ابے نے شور مچایا ھوا ھے پھر مجھے کسی کے دروازے سے دور جانے کی آواز آئی ۔ یاسمین نے جلدی سے کپڑے پہننے شروع کر دئیے تو میں نے اسے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا یار اسے ایسے تو نا چھوڑ کر جاو۔ وہ بولی نھی یار پھر سہی ابھی اسے ھاتھ سے گزارہ کر لو۔ وہ کپڑے پہن چکی تو میں نے بھی شلوار اوپر کر لی اور اس سے پوچھا رجو گھر جا کر ابے کو کچھ بتاتو نا دے گی۔ وہ ھنس کر بولی ابے کو، اتنا ھوش نھی ھوتا اور رجو کو میں بتا کر آئی تھی تاکہ وہ ابے کا خیال رکھے۔ ابھی جا کر رجو کو 100 روپیہ دینا ھے وہ میری رازدار ھے بس تم کہیں کلثوم کو نا بتا دینا ورنہ وہ ھم دونوں کی جان لے لے گی۔ میں نے کہا میرا کلثوم سے کیا تعلق اورمیں کیوں اسے بتاوں گا۔ تو وہ بولی میں نے دن کو تم دونوں کو اشارے کرتے دیکھ لیا تھا اور ویسے بھی وہ تم سے ضرور چدوائے گی کیونکہ اس کی پھدی میں تندور لگا ھوا ھے جس کی آگ بجھتی ھی نھی۔ میں ھنس کر بولا تو تم کیا چاھتی ھو میں اس کی آگ بجھاوں یا رھنے دوں۔ وہ بولی مجھے کیا تم بجھاو یا نا بجھاو بس میرے بارے میں اسے پتہ نہ چلے۔ اتنا کہ کر اس نے دروازہ تھوڑا سا کھولا اور باھر جھانکا۔ پھر بڑی تیزی سے باھر نکل گئی اور میں اپنا لن ھاتھ میں پکڑے کھڑا رہ گیا۔ مجھے رجو پر غصہ آ رھا تھا جس نے آخری لمحات میں ٹانگ اڑا کر میرا سارا مزا خراب کر دیا تھا۔ کلثوم نے بتایا تھا تھا کہ رجو سترہ سال کی انکی سب سے چھوٹی بہن ھے۔ اور اب آواز سے بھی وہ اتنے کی ھی لگ رھی تھی لیکن میں نے اسے دیکھا نھی تھا اور اس وقت میرا، دل کر رھا تھا کہ کلثوم اور یاسمین سے پہلے رجو کو چودوں لیکن فلحال ایسا ھو نھی سکتا تھا۔ میں کمرے سے نکل کر باتھ روم میں آگیا، اور ھاتھوں سے لن کو ٹھنڈا کرنے لگا۔ دو دوستوں کو یہ بتاتا چلوں کہ یاسمین اور کلثوم سے میری بات پنجابی میں ھی ھوتی تھی آپ لوگوں کی آسانی کے لیے اسے اُردو میں لکھ رھا ھوں۔ باتھروم سے فری ھو کر میں بیٹھک میں آ کر گھڑی پر ٹائم دیکھا تو شام کے پانچ بج رھے تھے مجھے بھابی کو بھی لینے جانا تھا اور امی کو بھی سسٹر کے گھر سے لانا تھا۔  اس لیے میں گھر کو لاک کر کے بھابی کو لینے چلا گیا۔ شام کا کھانا بھابی کے میکے سے کھایا اور واپس گھر پہنچتے ھوئے سات بج گئے۔ پھر  آدھے گھنٹے میں جا کر امی کو بھی لے آیا۔ پہاڑی علاقوں میں عموماً لوگ جلدی سو جاتے ھیں  اسی لیے امی اور بھابی بھی جلد ھی اپنے کمروں میں سوگئے۔ میں بیٹھک میں لیٹا ڈیک ہر ھلکی آواز میں جگجیت سنگھ کو سن رھا تھا۔ ساڑھے گیاہ بجے مجھے ایسا لگا جیسے کوئی دیوار پھلانگ کر آیا ھو۔ میں نے باھر صحن میں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نھی آیا امی اور بھابی کا دروازہ بھی بند تھا۔ واپس مڑ کر بیٹھک میں جانے لگا تو باتھروم میں چھپی کلثوم نظر آگئی وہ جلدی سے میرے ساتھ ھی بیٹھک میں آ گئی اور دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔ اور اپنے سینے پر ھاتھ رکھ کر زور زور سے سانس لینے لگی۔ میں اسے دیکھ کر مسکرا رھا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ وہ بھی میرے سینے سے لگ کر مجھے زور زور سے بھینچنے لگی۔ میں نے اس کے منی کو پکڑ کر اوپر، آٹھایا اور اس کے ھونٹوں کو چوسنے لگا۔ وہ برابر میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میرے ھاتھ اس کے مموں کو دبا رھے تھے۔ میں نے قمیض کے نیچے سے ھاتھ اندر لے جا کر اس کے مموں پر رکھ دئیے تو مجھے پتہ چلا کہ اس نے برا نھی پہنھی ھوئی۔ میں زور زور سے اس کے ممے مسل رھا تھا اور وہ مست ھوتی جا رھی تھی۔ اب میں نے ھاتھ اس کے پیٹ پر پھیرتء ھوئے اس کی شلوار میں گھسا دیا اور سیدھا اس کی پھدی ہر جا کر رگڑا اس نے نیچے انڈر وئیر بھی نھی پہنا ھوا تھا اور پھدی کے اردگرد جتنی ملائم جگہ تھی وہ بتا رھی تھی کہ ککثوم پوری تیاری کر کے اور نیچے سے صفائی کر کے آئی تھی
Like Reply
#6

[شلوار کے اندر ھی اسکی پھدی کو مسل رھا تھا اور آپ یقین مانیں کہ اسکی پھدی بھت زیادہ گرم ھو کر پانی چھوڑ رھی تھی۔ اس نے خود ھی میرا ناڑا کھول کر میری شلوار کو نیچے گرا دیا۔ میرا لن جو پہلے ھی تیار ھو چکا تھا جھٹکا کھا کر شلوار سے باھر نکلا۔ کلثوم نے میے لن کو ھاتھ میں پکڑ کر اسے ھلکا سا دبا یا اور اسکی لمبائی موٹائی کا، اندازہ لگایا اور بولی کیا بات ھے یار آج تو مزا آئے گا کافی بڑا، اور جاندار لن ھے۔ کیا کھلاتے ھو، اسے ؟ میں ھنسا اور کہا یہ جتنا بھی جاندار ھو تمہاری چوت نے اس دبا کر مار ھی دینا ھے۔ وہ بولی ھاں یہ تو ھی۔ آج میں اسے ایسا نچوڑوں گی کہ تم یہ مزہ زندگی بھر نھی بھولو گے۔ میں نے کہا پھر سوچ کیا رھی ھو نچوڑ دو اسے۔ وہ بولی ایسے نھی تم ادھر میٹریس پر لیٹ جاو پھر میرا کمال دیکھو۔ بیٹھک میں بھابی نے ایک صوفہ رکھا ھوا تھا، اور ایک میٹریس کارپٹ پر بچھایا ھوا تھا۔ ۔ میں اسے پکڑ کر میٹریس ہر لیٹ گیا تو، اس نے خود ھی اپنی شلوار اور قمیض اتار دی۔ اور میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میرے لن کو بڑے پیار سے مسل رھی تھی۔ پھر اس نے جھک کر میرے لن کو اپنے مموں کے درمیان پھنسا کر رگڑنا شروع کر دیا۔ میری بھت سی لڑکیوں سے دوستی رھی جے لیکن یقین مانیں کلثوم بھت زیادہ ٹرینڈ تھی اور چدوانے کی شوقین بھی۔ وہ ایسی لڑکی تھی کہ اگر اس کا بس چلے تو نان سٹاپ چدواتی رھے اور تھکے نا۔ اہسا لگتا تھا جیسے سالی نے انگلش فلموں کو رٹا لگا کر یاد کیا ھو تھا۔ وہ اپنے مموں میں بڑے طریقے سے پھنسا کر اوپر نیچے کر رھی تھی اور مجھے ھلنے سے منع کر، رھی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ سانس لینے کے لیے رکی اور بولی بتاو مزہ آ رھا ھے یا اور مزہ دوں ۔ میں نے کہا یار آج اپنا سارہ ٹیلنٹ دیکھا دو۔ وہ ھنسی اور بولی اچھا جی تو پھر دیکھو میرا ٹیلنٹ۔ اتنا کہنا تھا کہ اس، نے میرا لن اپنے منہ میں لے لیا۔ وہ بڑے طریقے سے میرے لن کو چاٹ رھی تھی کبھی فل منہ میں حلق تک لے جاتی اور کبھی منہ سے نکال کر زبان سے ٹوپی چاٹنا، شروع کرتی اور نیچے تک جاتی پھر میری ٹوپی کے منہ کو کھول کر اپنی زبان اس کے اندر گھسانے کی  ناممکن کوشش کرتی اور اسکی یہ کوشش میری جان نکال رھی تھی۔ میں جو یہ سمجھتا تھا کہ میں جلدی ڈسچارج نھی ھوتا اب میرا لن پھٹنے پر آیا ھو تھا۔ میں نے زبردستی اپنے ن کو پکڑ کر اسے روکا، اور کہا یار مجھ سے برداشت نھی ھو، رھا میں ڈسچارج ھو جاوں گا۔ وہ ایک بار پھر مسکرائی اور بولی میں بھی تو وہی کوشش کر رھی ھوں۔  یار میں تمہارے منہ یں ڈسچارج ھو جاوں گا وہ کنے لگی تو ھو جاو نا روکا کس نے ھے۔ یہ سننا تھا کہ میں نے اپنا ھاتھ لن سے ھٹا لیا۔ ایک بار پھر اس نے پورا لن حکق تک نہ میں لے کر مزید زور سے چوسنا شروع کر دیا۔ اب وہ ھلکا، سا دانت بھی میرے لن ہر مارتی تو میری جان نکل جاتی۔ لیکن اب وہ میرے لن کو منہ سے نکال نھی رھی تھی بلکہ اندر ھو اس کو جھٹکے دے رھی تھی اور پھر میرا ضبط جواب دے گیا اور پہلی دفعہ میں ایک لڑکی کے منہ میں ڈسچارج ھو، رھا تھا۔ جیسے ھی میرے لن کو جھٹکا لگا اس نے اپنے ایک ھاتھ سے میرے لن کو زور سے پکڑ کر منہ کے اندر ایسے دبا لیا جیسے ڈر ھو کہ میں لن منہ سے نکلتے ھی بھاگ جاوں گا۔ میں مسلسل ڈسچارج ھو، رھا تھا اور مجال ھے ک اس، نے میرے لن کو منہ سے نکالا ھو بلکہ میرے لن کے ھر جھٹکے کے ساتھ اس کے منہ اور ھاتھ کی سہیڈ بڑھ جاتی۔ میں شائد ھی کبھی اتنا ڈسچارج ھو ھوں جتنا کلثوم کے منہ نے کروا، دیا تھا۔ اب مجھے لن پر گد گدی محسوس ھوتی تھی چناچی میں نے زبردستی اسے روکا تو اس نے میرے لن کو چھوڑ کر مسکراتے ھوئے مجھے دیکھا ۔ اس کا منہ میری منی سے برا ھوا تھا۔ اس نے منہ صاف کرنے کے لیے ادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ نظر نھی آیا۔ تب میں نے میٹریس کے نیچے سے اس کہڑا، نکال کر دیا جو میں نے شام کو، احتیاطاً چھپایا تھا، اور کپڑے کے ساتھ ھی کنڈوم کا پیکٹ بھی نکل آ
Like Reply
#7
کلثوم  نے کنڈوم کا پیکٹ اٹھایا اور بولی چلو ایک کنڈوم کی تو بچت ھو 

گئی۔  اس، نے پیکٹ کو کھولا تو اندر سے کنڈوم کے ساتھ اسی برینڈ کی کریم تھی ۔اس، نے پوچھا یہ کس لیے ھے تو میں نے کہا یہ ٹائم بڑھاتی ھے اور جلدی ڈسچارج نھی ھونے دیتی۔ واہ یار یی تو بڑے کمال کی چیز ھے پھر۔ میں نے کیا ھے ھے تو کمال کی لیکن اس کے لگانے کے بعد تم اس کو سک نھی کر سکو گی اور جو مزہ تمہاری سکنگ نے دیا ھے وہ تو کنواری چوت بھی نھی دے سکتی۔ وہ مسکرا کر میرے نذدیک ھو گئی اور ایک بار پھر میرے لن کو پکڑنے لگی لیکن اس بار میں نے اسے کھینچ کر لٹا دیا اور اس کے مموں کو چوسنا شروع کر دیا۔ اس کے ممے بھی بڑے تھے لیکن یاسمین سے چھوٹے ۔  میں اس کے مموں کو کاٹتا، تو وہ تڑپتی۔ میں کبھی اسکی گردن پر تو کبھی چہرے اور مموں کو چوستا۔ چونکہ دوسری باری تھی تو میرا شیر بھی آرام سے اٹھ رھا تھا اور یہ مین جانتا تھا کہ دوسری باری میں میرا سٹیمنا غیر معمولی طور پر زیادہ ھو جاتا تھا۔ اور جو کریم میرے پاس تھی وہ بھی آزمودہ تھی۔ اب میں کلثوم کو ٹف ٹائم دینا چاھتا تھا۔ اس لیے میرا، زور کسنگ پر تھا مموں کو چوستے چوستے میں نے زبان سے لکیر بناتا اس کے بیلی بٹن تک جاتا اور پھر اوپر مموں پر جا کر انھیں چوسنا شروع کر دیتا۔ ایک بار زبان پھیرتے پھیرتے میں بیلی بٹن سے نیچے گیا لیکن اسکی پھدی سے زرا اوپر رک گیا۔ وہ میرا سر دبا کر مزید نیچے کرنے کی کوشش کر رھی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ چاھتی ھے کہ میں اسکی پھدی چاٹوں لیکن میں جان بوجھ کر پھر مموں کو چوسنے لگا اور اپنا ایک ھاتھ اس کے چوت ہر رکھ دیا۔ وھاں تو جیسے سیلاب آیا ھوا تھا۔  اس کی چوت فل گیلی ھو چکی تھی۔اور چوت کا پانی اس کی گانڈ تک جا، رھا تھا۔ میں نے اسی کپڑے جس سے کلثوم نے منہ صاف کیا تھا اس کی چوت صاف کی اور ھاتھ سے مسلنے لگا۔ چوت کا سائز بتا رھا تھا کہ بھت سوں نے اس کو سیراب کیا ھے۔  میں مسلسل اس کے مموں کو کاٹ رھا تھا، اور میرا دائیاں پورا ھاتھ اس کی چوت میں گھوم رھا تھا۔ پھر میں نےھاتھ اس کی گانڈ پر پھیرا اور ایک انگل اس میں داخل کرنے کی کوشش کی لیکن کلثوم نے گانڈ کو زور سے بھینچ لیا۔  میں نے بھی زور سے اس کے ممے پر کٹا تو اس نے گانڈ ڈھیلی چھوڑ دی اور مجھے تھپڑ مار کر بول آرام سے کرو ناں۔ میں نے کہا اگر اب تم نے گانڈ ٹائیٹ کی تو پھر اور زور سے کاٹوں گا۔ میری بات سن کر اس نے دوبارہ گانڈ ٹائیٹ نھی کی۔ اب میری پانچوں انگلیاں اکھٹی اس کی گانڈ کے اندر باھر حرکت کر رھی تھیں اور مستی میں میرے جسم کو چومتی اور کبھی دانتوں سے کاٹتی۔ اب میرا لن پھر ہوری طرح تیار تھا۔ میں نے اپنا لن ایک بر پھر اس کے منہ کے ہاس کر کے کہا اسے اچھی طرح گیلا کرو مجھے تمہاری گانڈ مارنی ھے۔وہ بولی یار میری چوت کو تو بھی تھوڑا پیار کر لو ۔ اب میں 69 کی پوزیشن میں آیا تو اس نے ایک بار پھر میرے لن کو چوسنا شروع کر دیا اور میری زبان اس کی چوت میں حرکت کر رھی تھی ۔ چند منٹ بعد میں نے لن اس کے منہ سے نکالا اور سیدھا ھو کر کریم کھول کر اس پر لگانے لگا تو، اس نے کریم میرے ھاتھ سے پکڑ کر خود ھی میرے لن پر لگائی اور اسے ھلکا ھلکا مساج کرنے لگی۔ چند سکینڈ بعد ھی کریم نے اثر دکھایا اور اب مجھے یقین تھا کہ میں لمبی اننگ کھیلنے کے لیے تیار ھوں ۔ میں سیدھا لیٹا ھوا تھا۔ اس نے اپنی چوت کو میرے لن پر ایڈجسٹ کیا اور آہستہ آہستہ نیچے ھو رھی تھی تب اچانک میں نے نیچے سے جھٹکا مارا اور میرا پورا لن اند جا کر اس کی چوت کی دیواروں سے ٹکرایا۔ وہ اچانک جھٹکے سے آگے کی طرف میرے اوپر گری تو میں نے اس کے ممے منہ میں ڈال کر چوسنے شروع کر دئیے اور نیچے سے جھٹکے مارنے لگا۔ اب وہ بھی خود ھی اور نیچے ھو رھی تھی اور نیچے سے میں جھٹکا مارتا تو میرا لن اس کی چوت کی جڑوں تک جا کر لگتا
Like Reply
#8

تقریباً 5 منٹ تک وہ میرے لن پر بیٹھ کر سواری کرتی رہی پھر بول یار اب تم اوپر آو میں تھک گئیں ھوں۔ میں نے اٹھ کر اسے  صوفے پر گھوڑی بنایا اور اپنا لن اسکی گانڈ پر ایڈجسٹ کرنے لگا۔ اس کی چوت سے نکلے ہانی سے اس کی گانڈ گیلی کی اور اپنے لن کی ٹوپی اوپر رکھ کر دبانا شروع کی ۔جب ٹوپی اندر چلی گئی تو میں سیدھا ھوا اور ایک ھاتھ اسکی کمر پر رکھ اس دبایا تو، اس نے کمر اور نیچے کر لی اور اس کی گانڈ بالکل میرے برابر آ گئی۔ میں نے دو تین بار اپنے لن کی ٹوپی اندر باھر کی اور چوتھی بار پورے زور سے جھٹکا مارا تو پورا لن اس کی گانڈ میں جا چکا تھا۔ اس نے نیچے سے چییخ ماری لیکن شکر ھے وہ اتنی اونچی نھی تھی کہ کمرے سے باھر جاتی۔ میں رک گیا تو وہ بولی یار آرام سے کرو یہ اب روز تمہارے لن کو کھائے گی۔ ساری آج پھاڑ دو گے تو کل کیا کرو گے۔ میں نے ھنس کر کہا جناب پہلےھی محلے والوں نے اسے ادھیڑا ھوا ھے ۔ میں تو پھٹی ھوئ کو پھاڑ رھا ھوں۔ وہ بولی مفت میں تو کیا کروں مجھ سے گرمی برداشت ھوتی نھی اور اماں ابا کو میرا رشتہ نھی مل رھا۔ تم بھی تو چود رھے ھو نا لیکن شادی تونھی کرو گے۔ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر کے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ وہ بھی اپنی گانڈ کو جھٹکے مارنا، شروع کر، دیے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے جسم نے اکڑنا شروع کر دیا۔ مجھے سمجھ لگ گئی کہ وہ ڈسچارج ھو رھی ھے۔ میرے جھٹکوں میں مزید تیزی آگئی۔ پھر اس نے ایک دم سے اپنی گانڈ کو فل ٹائیٹ کیا اور اس کی چوت کا پانی صوفے پر گر رھا تھا۔ میرا لن اس کی گانڈ میں پھنسا ھوا تھا وہ ایسے ھی صوفے ہر لیٹ گئی اور میں اس کے اوپر تھا۔ لیکن میرا ابھی ڈسچارج ھونے کے چانسز نھی تھے۔ اس نے میرے لن کو پیچھے ھاتھ کر کے باھر نکالا اور مجھے اوپر سے ھٹا کر سیدھی ھو گئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ ڈسچارج ھونے کے بعد وہ چند منٹ لے گی ریلکس ھونے کے لیے۔ میں بھی اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس نے پاس پڑے میز سے پانی کی بوتل اُٹھائی اور منہ سے لگا لی۔ پانی پینے کے بعد ایک بار پھر میں نے اپنا لن اس کے ھاتھ میں پکڑا دیا۔ وہ میرے لن کو زور زور سے جھٹکے دے رھی تھی۔ میں نے اس بات پکڑ کر کھڑا کیا اور خود صوفے پر بیٹھا رھا۔ وہ میری گود میں آ کر بیٹھ گئی اور اپنے مجھے کسنگ کرنے لگی میں نےاپنی زبان اس کے منہ کے اندر کی تو وہ اسے چوسنے لگی۔ مجھے ایسا لگ رھا تھا کہ وی میری زبان کھا جائے گی۔ آپ لوگ یقین کریں کہ میں نے اس کے بعد بہت سی لڑکیوں سے سیکس کیا ھے لیکن اس کے اند ایک جنونیت تھی سیکس کی۔ اس نے میری گود میں بیٹھے بیٹھے اپنی چوت کو میرے لن پی ایڈجسٹ کیا اور اوپر نیچے ھو رھی تھی۔ چند منٹ بعد میں نے اسے کہا کہ وہ اپنی گانڈ میں لے اس نے ایسے بیٹھے بیٹھے گانڈ میں لینے کی کوشش کی لیکن سہی سیٹنگ نھی ھو رھی تھی ۔ پھر اس نے خود ھی اپنا، زاویہ بدلہ اور اب اس نے میری گود میں میری طرف کمر  کر لی اور منی دودری طرف کر لیا تو اس کی گانڈ بالکل پرفیکٹ میرے لن پر آگئی۔  اس نے گانڈ کو خود ھی سیٹ کیا اور میرے لن کو پکڑ کر اندر لے لیا۔ اب وہ تھوڑا سا آگے جھکی اور جھکے جھکے اور نیچے ھو رھی تھی۔ میں نے بھی اس کے بازووں کے نیچے سے ھاتھ آگے کر کے اس کے مموں کو پکڑا، اور ان کو دباتا اور نیچے سے اس کی گانڈ میں جھٹکے دیتا۔ دس منٹ بعد جب میں ایک ھاتھ سے اس کے ممے کو اور دوسرا ھاتھ آگے سے اس کی چوت کو مسل رھا تھا تب وہ ایک بار پھر سےمیری گود میں ھی ڈسچارج ھو چکی تھی اس کا گرم گرم پانی میرے ھاتھ پر گرا۔ وہ رک گئی اور بولی یار میں تھک گئی ھوں۔ میں نے کیا یار مجھے تو، ڈسچارج کرواو۔ وہ بولی تم بوتل کے پانی سے اس کو دھو کر کریم کو صاف کرو میں سکنگ کر کے ڈسچارج کروا دیتی ھوں۔ میں نے بوتل اٹھائ اور دروازے کے پاس جا کر لن کو اچھی طرح دھویا۔ جو دوست کریم استعمال کرتے ھیں ان کو پتہ ھو گا کہ کریم سے ن کے پٹھے سن ھو جاتے ھیں جس کے بعد  ن کے اوپر کچھ فیل نھی ھوتا اسی لیے بندہ ڈسچارج بھی نھی ھوتا ۔ میں نے لن کو دھونے کے بعد کلثوم کی قمیض سے اسے ڈرائی کیا اور ایک بار پھر کلثوم کے منہ میں گھسا دیا۔ ایک بار پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں سکنگ کر رھی تھی۔ تقریباً 6 منٹ کی سکنگ کے بعد ایک بار پھر میرا لن ٹائیٹ ھو رھا تھا۔ کلثوم نے بھی یہ نوٹ کیا تو اس کی سپیڈ اور تیز ھو گئی۔ اور ایکبار پھر میں کلثوم کے منہ میں ڈسچارج ھو، رھا تھا۔ اس نے بھی ایک بار پھر میرے لن کو پکڑ کر زور سے اپنے منہ میں دبا، رکھا تھا۔ اہسا لگتا تھا جیسے وہ آخری قطرہ تک نچھوڑنا چاھتی ھو۔ میں نے اسے پیچھے ھٹایا اور گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بج رھا تھا۔  وہ کپڑے پہننے لگی اور بولی کل کتنے بجے آوں میں نے ھنس کر کہا ادھر ھی رک جاو کیا کرنا ھے جا کر۔ وہ بولی نھی ابا کسی بھی وقت اُ ٹھ کر شور مچا دیتا ھے۔ کل پھر آوں گی۔
Like Reply
#9
کل پھر آوں گی۔ یہ کہ کر وہ آرام سے دروازہ کھول کر نکل گئی۔ مین بھی تھک چکا تھا، اس لیے دروازے کو، اندر سے لاک کیا اور ننگا ھے لیٹ گیا۔ 

اگلے دن میں صبح تیار ھو کر  پلاٹ ہر چلا گیا جہاں مستری مزدوروں نے آنا تھا۔ پورا دن سامان ارینج کرنے اور مزدورں کے پیچھے بھاگنے میں نکل گیا۔ شام کو چھے بجے فری ھو کر گھر پہنچا اور کپڑے بھت گندے ھو چکے تھے اور تھکاوٹ بھی ۔ اس لیے فوراً نہانے کے لیے باتھروم میں گھس گیا۔ فریش ھو کر باتھ روم سے نکل رھا تھا جب میری نظر سامنے والی چھت پر پڑی جہاں ایک لڑکی چھت سے دھلے کپڑے اتار رھی تھی۔ دیکھنے میں اس کا قد تقریباً پانچ فٹ ھو گا لیکن اس کی باڈی فزیک بتا رھی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ 17 یا 18 سال کی ھو گی۔  یہ یقیناً رجو تھی کلثوم کی چھوٹی بہن جو اپنے چھت سے کپڑے اتار رھی تھی۔یہ کہنا بے جا نہ ھو گا کہ رجو اُن دونوں سے زیادہ خوبصورت تھی۔میں باتھ روم کے دروازے پر کھڑا ھو کر اسے دیکھنے لگا۔ ایک بار اسکی نظر مجھ سے ملی تو وہ بڑی معصوم سی لگی لیکن مجھے کلثوم اور یاسمین کو دیکھ کر اندازہ ھو چکا تھا کہ جلد یا بدیر یہ بھی اس راہ کی مسافر ھو گی۔اور اُن دونوں سے زیادہ قیامت ڈھائے گی ۔ رجو کو دیکھ کر مجھے ایک دن پہلے والا وقعہ بھی یاد آگیا۔ اگر تب رجو نہ آتی تو میں یاسمین کو چود چکا ھوتا۔ اور یاسمین کا سوچتے ھوئے میرا لن کھڑا ھو رھا تھا۔ میں نے باتھ روم سے باھر دیکھا تو، صحن میں کوئی نھی تھا۔  میں نے رجو کو اشارہ کیا تو وہ  ھنسنے لگی۔ میرا لن تو پہلے ھی کھڑا ھو، رھا تھا میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے لن کو ھاتھ سے اوپر نیچے کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر رجو اور ھنسی اور کپڑے اُٹھائے نیچے چلی گئی۔ میں کمرے کی طرف گیا تو بھابی اور امی کچن میں نظر آئیں۔میں کپڑے بدل کر کچن میں آگیا اور امی اور بھابی سے سارے دن کے کاموں کے بارے میں بات کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد گیٹ کھڑکا تو، میں اُٹھ کر گیٹ کھونے چلا گیا۔ باھر دیکھا تو رجو ھاتھ میں پلیٹ پکڑے کھڑی تھی اور اس کے پیچھے کلثوم کھڑی تھی۔ میں ایک سائیڈ پر ھو گیا اور وہ دونوں اندر آگئیں ۔ کلثوم نے میرے ہاس سے گزرتے ھوئے مجھے ھاتھ مارا میں نے کچن کی طرف دیکھا وھاں کوئی باھر نھی رجو پلیٹئں پکڑے کچن کی طرف جا رھی میں نے کلثوم کا ھاتھ پکڑ کر ھلکا سا موڑا اور پھر چھوڑ دیا۔ میرے دل میں رات والا وقعہ کی وجہ سے چوع تھا، اس لیے میں کلثوم کے پیچھے کچن میں جانے کی بجائے بیٹھک میں آگیا۔ لیکن چند منٹ بعد ھی رجو بیٹھک میں آگئی اور بولی بھائی  باجی کلثوم پوچھ رھی ھے آپ کے پاس سونونگم کے نئے گانے ھیں ۔ میں نے نے کہا ھاں کافی کیسٹس پڑی ھیں تم دیکھ لو کون سے چاھئں ۔ میری بات سن کر وہ ڈیک کے پاس چلی گئی میں بھی اس کے پاس گیا اور موقع دیکھتے ھوئے اسے پکڑ کر سینے سے لگا لیا وہ زور زور سے اپنا آپ چھڑا رھی تھی۔  لیکن میں نے زبردستی اسےگالوں پر کس کر دی وہ بولی بھائی نہ کریں آپی آ جائے گی۔ میں نے اسے چھوڑ دیا وہ پھر سے کیسٹ ڈھونڈنے لگی۔ میں نے اپنی جیب میں ھاتھ مارا اور سو روپیہ نکال کر رجو کو پکڑا دیا۔ اور کہا یہ رکھ لو کچھ کھا لینا۔ اس نے سو روپیہ مٹھی میں دبایا اور ایک کیسٹ پکڑ کر جلدی سے باھر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں بہنیں گھر چلی گئیں۔ میں نے بھی کھانا کھایا اور بازار چلا گیا۔ مجھے ٹائمنگ کی گولیا لینی تھی کیونکہ پچھلی رات جس طرح کلثوم نے سکنگ کی تھی میں چاھتا، تھا کہ وہ آج بھی ویسے ھی کرے اور لن پر کریم لگا کر ایسا نھی ھو، سکتا تھا اس لیے گولیاں ضروری تھیں۔  رات بارہ بجے کلثوم ایک بار پھر میرے ساتھ بیٹھک یں موجود تھی لیکن آج میں پہلے سے تیار تھا۔ کلثوم سے مل کر ایک بات سمجھ آگئی تھی کہ وہ بھت فاسٹ اور بے باک لڑکی ھے۔ اس کی عمر کی لڑکیوں کی شادی ھو کر بچے بھی ھو چکے ھوتے ھیں۔ لیکن وہ کنواری تھی اور جس عمر میں تھی اس میں سیکسول ڈیزائر بھت زیادہ ھوتی ھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ روزانہ رات کو مقررہ ٹائم پر پہنچ جاتی تھی۔  اس کی فیملی بھی کافی غریب تھی اور شائد یہ بھی ایک وجہ تھی اس کے کنوارے رھنے اور سیکس ایڈکشن کی۔ وہ جیسے ھی کمرے میں داخل ھوئ مجھ سے ایسے لپٹی جیسے سالوں بعد ملی ھو۔ میں نے اسے گلے لگایا اور اس کی کمر پر ھاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور ساتھ ھی اسے فرنچ کس کرنا، شروع کر دی۔ اس نے بھی اپنی روایتی تیزی دیکھاتے ھوئے مجھے زور سے بھینچا اور اپنا، ایک ھاتھ سے میرا لن پکڑ کر لیا۔ وہ بیچارہ تو پہلے ھی قید سے آزاد ھونا چاھتا تھا۔ کلثوم کا ھاتھ لگتے ھی بے قابو ھونے لگا۔  اس کی بے چینی محسوس کر کے کلثوم۔نے خود ھی میرے ٹراوزر نیچے کر دیا اور ھاتھ میں پکڑ کر اس کو مسلنے لگی۔ اس کس کرتے کرتے میں صوفے پر بیٹھ گیا، اور وہ میری خود ھی شلوار اتار کر میری جھولی میں بیٹھ چکی تھی۔

میں نے اس کی قمیض اتاری اور اس کے ممے منہ میں لے کر چوسنا شروع کیے۔ وہ اپنے مموں کو دھکا دے کر پورے میرے منی میں ڈالنے کی کوشش کرتی اور تھوڑی دیر بعد وہ میری گود سے نکل کر بولی اج تو تم کافی کام کر کے آے ھو تھکے نھی۔ میں نے کیا تھک تو گیا ھوں لیکن تمھاری سکنگ ٹکنے نھی دے رھی وہ بولی اچھا یہ بات ھے تو پھر آپ  آرام سے لیٹو اور مزے لو یہ کہ کر اس نے مجھے صوفے ہر ھی لیٹا دیا اور خود صوفے پر بیٹھ کر میرے لن کو مساج کرنے لگی۔  پھر اس نے ٹوپی کو منہ میں لیا اور لولی پوپ کی طرح چوپا لگاتی اس کا چُوپا اتنا زبردست تھا کہ مجھے لگتا کہ شائد گولیوں کا، اثر بھی بےکار جائے۔ کبھی وہ لن کے سوراخ پر زبان پھیرت اور زبان کو سوراخ کے اندر لے جانے کی کوشش کرتی تو کبھی زابان پھیرتے پھیرتے ٹٹوں تک جاتی اور انھیں اپنے منہ میں لییتی پھر ایسے ھی زبان پھیرتے پھیرتے ٹوپی تکی آتی ۔ تقریباً دس منٹ تک سکنگ کے بعد اس نے ایک تکیہ میری کمر کے نیچے ایسے رکھا کہ میرا لن خود بخود اوپر ھو گیا۔  وہ میرے اوپر آ گئی میں سمجھا کہ وہ اپنی پھدی سیٹ کر کے اوہر بیٹھے گی لیکن وہ بولی مجھے پتہ ھے کہ تمیں میری پھدی سے زیادہ گانڈ مارنے کا شوق ھے کیونکہ سارے لڑکے تنگ سوراخ مانگتے ھیں ۔ میں ھنسا اور کہا نھی یار ایسی بات نھی تو، وہ بولی مجھے پتہ ھے کہ میری پھدی اب پھدا بن چکی ھی پر میں کیا کروں اماں ابا کو سمجھ آتی نھی اور میرا گزارا نھی۔  میں ایک بار پھر ھنسا کہا یار اگر تیری شادی ھو گئی تو تیرا شوھر اس پھدے کو دیکھ کر کیا سوچے گا۔ وہ بولی میرے نصیب میں بھی کوئی ایسا ھی ھوگا جس کو کوئی دیتا نھی ھو گا۔ تو میرا پھدا نھی اس کے لیے بھت ھو گا ویسے بھی مجھے پتہ ھے کہ مردوں کو کیسے چوسنا ھے میں خود ھی قابو کر لوں گی تم میری فکر کرنے کی بجایے فلحال میری گانڈ مارو۔ اس نے اپنی چوت کے پانی کو اپنے ھاتھ سے اپنی گانڈ ہر ملا اور تھوک لگا کر اسے ملنے لگی پھر جب اسے لگا کہ اب میرا شیر اس کے سوراخ میں چلا جائے گا تو اپنی گانڈ کو میرے لن پر ایڈجسٹ کر کے اس ھاتھ سے سیدھا رکھ کر اندر لینے لگی۔ جب ٹوپی اندر پھنس گئی تو بولی یار تھوڑی ہمت کرو اور ایک جھٹکا تم بھی مارو یہ سننا تھا کہ میں اس کی گانڈ کو دونوں ھاتھوں سے دبایا اور زور سے جھٹکا مارا میرا لن زور سے پورا اندر گیا اور اسکی گانڈ کی دیواروں سے ٹکرایا۔ اس کے منہ سے ھلکی سی چیخ نکلی۔ پھر وہ سنبھل کر خود ھی اوپر نیچے ھونے لگی۔ اوپر، سیدھا بیٹھنے کی وجہ سے لن بار بار باھر نکل جاتا اور کبھی اس کی گانڈ سے باھر ھی ٹکرا جاتا۔ میں نے اسے روکا اور صوفے سے اٹھ کر کھڑا ھو گیا وہ سمجھ گئی کی میں اسے گھوڑی بناوں گا تو، وہ خود ھی گھوڑی بن گئی۔ میں نے لن کو اس کی گانڈ پر سیٹ کیا، اور ایک جھٹکے سے اندر ڈالا پھر جھٹکے سے نکال کر پھر ڈالا۔ میں زور زور سے جھٹکے مار رھا تھا اچانک اس کے جسم نے سخت ھونا شروع کر وہ ڈسچارج ھو، رھی تھی میری جھٹکوں میں بھی تیزی آرھی تھی پھر ایک دم سے اس کی چوت نے پانی چھوڑا، اور صوفے ہر گرنے لگا۔ وہ نیچے الٹی ھی لیٹ گئی اور اپنی چوت کو زور زور سے مسلنے لگی۔ یہ دیکھا تو میں نے اسے سیدھا لٹایا اور اس کی دونوں ٹانگیں سیدھی اوپر کو اُٹھائں اس کی چوت میرے سامنے جھٹکے کھا رھی تھی۔ میں نے اس کے دوپٹے سے چوت کو صاف کیا اور ٹانگیں سیدھی اوپر اٹھا کر صوفے سے نیچے کھڑے کھڑے اپنے لن کو چوت میں گھسا دیا اب میرے گھسوں میں بھت سپیڈ تھی میری سپیڈ دیکھ کر بولی یار ابدر ڈسچارج نہ ھونا جب ھونے لگو تو مجھے بتانا سکنگ کروں گی۔ میں اس کی بات سمجھ گیا اور جب مجھے لگا کہ اب میں ڈسچارج ھونے والا ھوں تو میں نے لن باھر نکالا وہ صوفے ہر بیٹھ گئی اور مجھے کھڑا رھنے دیا اس نے ایک بار پھر میرے شیر کو اپنے منہ میں لیا اور پاگلوں کی طرح چوسنے لگی میرا جسم اکڑنے لگا تو اسکی سکنگ تیز ھونے لگی۔ پھر ایک بار اس نے پورا لن حلقتک لیا یہ وہ موقعہ تھا جب میرے لن نے ایک زورداع جھٹکا مارا اور پچھلے 30 منٹ سے رکا ھوا پریشر اس کے حلق کے اندر جا کر ڈسچارج ھوا۔  اس ایک دم سے کھانسی آگئی تو میرا لن منہ سے باھر نکالا لیکن میں ابھی ڈسچارج ھو رھا تھا تو کچھ دھاریں اس کے منہ پر بھی گر گئیں ۔ سانس لینے لے بعد اس نے پھر سے چوسنا شروع کیا اور ایسےچوستی رھی کہ اخری قطرہ نکلنے کے بعد میرا شیر اس کے منہ میں ھی ڈھیلا ھو گیا۔ اس نے دوپٹ سے اپنا منہ صاف کیا اور بولی آج کے لیے اتنا کافی ھے صبح تم نے کام پر بھی جانا ھے اور مجھے اماں کے ساتھ اپنی ماسی کے گھر ۔میں نے پوچھا ماسی کا گھر کدھر ھے تو بولی فیصل آباد میں اور مجھے پانچ دنوں کے لیے اماں کے ساتھ۔ میں نے پوچھا تو گھر میں کون ھوگا وہ بولی یاسمین رجو اور ابا گھر ہر ھوں گے۔  یہ سن کر میری آنکھوں میں چمک آگئی اس نے شائد نوٹ کر لیا تھا کہنے لگی ایک بات کہوں  مانو گے ۔ میں نے کیا ھاں بولو وہ کہنے لگی پلیز میری بہنوں کو کچھ نہ کرنا۔ تمیں جو کرنا ھے جیسے کرنا ھے میرے ساتھ کر لینا لیکن وہ بچیاں ھیں ۔ میں نے وقتی طور ہر، اسے ٹالنے کے لیے وعدہ کر لیا لیکن یہ دل کہاں ماننے والا تھا
Like Reply
#10
کل پھر آوں گی۔ یہ کہ کر وہ آرام سے دروازہ کھول کر نکل گئی۔ مین بھی تھک چکا تھا، اس لیے دروازے کو، اندر سے لاک کیا اور ننگا ھے لیٹ گیا۔ 

اگلے دن میں صبح تیار ھو کر  پلاٹ ہر چلا گیا جہاں مستری مزدوروں نے آنا تھا۔ پورا دن سامان ارینج کرنے اور مزدورں کے پیچھے بھاگنے میں نکل گیا۔ شام کو چھے بجے فری ھو کر گھر پہنچا اور کپڑے بھت گندے ھو چکے تھے اور تھکاوٹ بھی ۔ اس لیے فوراً نہانے کے لیے باتھروم میں گھس گیا۔ فریش ھو کر باتھ روم سے نکل رھا تھا جب میری نظر سامنے والی چھت پر پڑی جہاں ایک لڑکی چھت سے دھلے کپڑے اتار رھی تھی۔ دیکھنے میں اس کا قد تقریباً پانچ فٹ ھو گا لیکن اس کی باڈی فزیک بتا رھی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ 17 یا 18 سال کی ھو گی۔  یہ یقیناً رجو تھی کلثوم کی چھوٹی بہن جو اپنے چھت سے کپڑے اتار رھی تھی۔یہ کہنا بے جا نہ ھو گا کہ رجو اُن دونوں سے زیادہ خوبصورت تھی۔میں باتھ روم کے دروازے پر کھڑا ھو کر اسے دیکھنے لگا۔ ایک بار اسکی نظر مجھ سے ملی تو وہ بڑی معصوم سی لگی لیکن مجھے کلثوم اور یاسمین کو دیکھ کر اندازہ ھو چکا تھا کہ جلد یا بدیر یہ بھی اس راہ کی مسافر ھو گی۔اور اُن دونوں سے زیادہ قیامت ڈھائے گی ۔ رجو کو دیکھ کر مجھے ایک دن پہلے والا وقعہ بھی یاد آگیا۔ اگر تب رجو نہ آتی تو میں یاسمین کو چود چکا ھوتا۔ اور یاسمین کا سوچتے ھوئے میرا لن کھڑا ھو رھا تھا۔ میں نے باتھ روم سے باھر دیکھا تو، صحن میں کوئی نھی تھا۔  میں نے رجو کو اشارہ کیا تو وہ  ھنسنے لگی۔ میرا لن تو پہلے ھی کھڑا ھو، رھا تھا میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے لن کو ھاتھ سے اوپر نیچے کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر رجو اور ھنسی اور کپڑے اُٹھائے نیچے چلی گئی۔ میں کمرے کی طرف گیا تو بھابی اور امی کچن میں نظر آئیں۔میں کپڑے بدل کر کچن میں آگیا اور امی اور بھابی سے سارے دن کے کاموں کے بارے میں بات کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد گیٹ کھڑکا تو، میں اُٹھ کر گیٹ کھونے چلا گیا۔ باھر دیکھا تو رجو ھاتھ میں پلیٹ پکڑے کھڑی تھی اور اس کے پیچھے کلثوم کھڑی تھی۔ میں ایک سائیڈ پر ھو گیا اور وہ دونوں اندر آگئیں ۔ کلثوم نے میرے ہاس سے گزرتے ھوئے مجھے ھاتھ مارا میں نے کچن کی طرف دیکھا وھاں کوئی باھر نھی رجو پلیٹئں پکڑے کچن کی طرف جا رھی میں نے کلثوم کا ھاتھ پکڑ کر ھلکا سا موڑا اور پھر چھوڑ دیا۔ میرے دل میں رات والا وقعہ کی وجہ سے چوع تھا، اس لیے میں کلثوم کے پیچھے کچن میں جانے کی بجائے بیٹھک میں آگیا۔ لیکن چند منٹ بعد ھی رجو بیٹھک میں آگئی اور بولی بھائی  باجی کلثوم پوچھ رھی ھے آپ کے پاس سونونگم کے نئے گانے ھیں ۔ میں نے نے کہا ھاں کافی کیسٹس پڑی ھیں تم دیکھ لو کون سے چاھئں ۔ میری بات سن کر وہ ڈیک کے پاس چلی گئی میں بھی اس کے پاس گیا اور موقع دیکھتے ھوئے اسے پکڑ کر سینے سے لگا لیا وہ زور زور سے اپنا آپ چھڑا رھی تھی۔  لیکن میں نے زبردستی اسےگالوں پر کس کر دی وہ بولی بھائی نہ کریں آپی آ جائے گی۔ میں نے اسے چھوڑ دیا وہ پھر سے کیسٹ ڈھونڈنے لگی۔ میں نے اپنی جیب میں ھاتھ مارا اور سو روپیہ نکال کر رجو کو پکڑا دیا۔ اور کہا یہ رکھ لو کچھ کھا لینا۔ اس نے سو روپیہ مٹھی میں دبایا اور ایک کیسٹ پکڑ کر جلدی سے باھر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں بہنیں گھر چلی گئیں۔ میں نے بھی کھانا کھایا اور بازار چلا گیا۔ مجھے ٹائمنگ کی گولیا لینی تھی کیونکہ پچھلی رات جس طرح کلثوم نے سکنگ کی تھی میں چاھتا، تھا کہ وہ آج بھی ویسے ھی کرے اور لن پر کریم لگا کر ایسا نھی ھو، سکتا تھا اس لیے گولیاں ضروری تھیں۔  رات بارہ بجے کلثوم ایک بار پھر میرے ساتھ بیٹھک یں موجود تھی لیکن آج میں پہلے سے تیار تھا۔ کلثوم سے مل کر ایک بات سمجھ آگئی تھی کہ وہ بھت فاسٹ اور بے باک لڑکی ھے۔ اس کی عمر کی لڑکیوں کی شادی ھو کر بچے بھی ھو چکے ھوتے ھیں۔ لیکن وہ کنواری تھی اور جس عمر میں تھی اس میں سیکسول ڈیزائر بھت زیادہ ھوتی ھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ روزانہ رات کو مقررہ ٹائم پر پہنچ جاتی تھی۔  اس کی فیملی بھی کافی غریب تھی اور شائد یہ بھی ایک وجہ تھی اس کے کنوارے رھنے اور سیکس ایڈکشن کی۔ وہ جیسے ھی کمرے میں داخل ھوئ مجھ سے ایسے لپٹی جیسے سالوں بعد ملی ھو۔ میں نے اسے گلے لگایا اور اس کی کمر پر ھاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور ساتھ ھی اسے فرنچ کس کرنا، شروع کر دی۔ اس نے بھی اپنی روایتی تیزی دیکھاتے ھوئے مجھے زور سے بھینچا اور اپنا، ایک ھاتھ سے میرا لن پکڑ کر لیا۔ وہ بیچارہ تو پہلے ھی قید سے آزاد ھونا چاھتا تھا۔ کلثوم کا ھاتھ لگتے ھی بے قابو ھونے لگا۔  اس کی بے چینی محسوس کر کے کلثوم۔نے خود ھی میرے ٹراوزر نیچے کر دیا اور ھاتھ میں پکڑ کر اس کو مسلنے لگی۔ اس کس کرتے کرتے میں صوفے پر بیٹھ گیا، اور وہ میری خود ھی شلوار اتار کر میری جھولی میں بیٹھ چکی تھی۔

میں نے اس کی قمیض اتاری اور اس کے ممے منہ میں لے کر چوسنا شروع کیے۔ وہ اپنے مموں کو دھکا دے کر پورے میرے منی میں ڈالنے کی کوشش کرتی اور تھوڑی دیر بعد وہ میری گود سے نکل کر بولی اج تو تم کافی کام کر کے آے ھو تھکے نھی۔ میں نے کیا تھک تو گیا ھوں لیکن تمھاری سکنگ ٹکنے نھی دے رھی وہ بولی اچھا یہ بات ھے تو پھر آپ  آرام سے لیٹو اور مزے لو یہ کہ کر اس نے مجھے صوفے ہر ھی لیٹا دیا اور خود صوفے پر بیٹھ کر میرے لن کو مساج کرنے لگی۔  پھر اس نے ٹوپی کو منہ میں لیا اور لولی پوپ کی طرح چوپا لگاتی اس کا چُوپا اتنا زبردست تھا کہ مجھے لگتا کہ شائد گولیوں کا، اثر بھی بےکار جائے۔ کبھی وہ لن کے سوراخ پر زبان پھیرت اور زبان کو سوراخ کے اندر لے جانے کی کوشش کرتی تو کبھی زابان پھیرتے پھیرتے ٹٹوں تک جاتی اور انھیں اپنے منہ میں لییتی پھر ایسے ھی زبان پھیرتے پھیرتے ٹوپی تکی آتی ۔ تقریباً دس منٹ تک سکنگ کے بعد اس نے ایک تکیہ میری کمر کے نیچے ایسے رکھا کہ میرا لن خود بخود اوپر ھو گیا۔  وہ میرے اوپر آ گئی میں سمجھا کہ وہ اپنی پھدی سیٹ کر کے اوہر بیٹھے گی لیکن وہ بولی مجھے پتہ ھے کہ تمیں میری پھدی سے زیادہ گانڈ مارنے کا شوق ھے کیونکہ سارے لڑکے تنگ سوراخ مانگتے ھیں ۔ میں ھنسا اور کہا نھی یار ایسی بات نھی تو، وہ بولی مجھے پتہ ھے کہ میری پھدی اب پھدا بن چکی ھی پر میں کیا کروں اماں ابا کو سمجھ آتی نھی اور میرا گزارا نھی۔  میں ایک بار پھر ھنسا کہا یار اگر تیری شادی ھو گئی تو تیرا شوھر اس پھدے کو دیکھ کر کیا سوچے گا۔ وہ بولی میرے نصیب میں بھی کوئی ایسا ھی ھوگا جس کو کوئی دیتا نھی ھو گا۔ تو میرا پھدا نھی اس کے لیے بھت ھو گا ویسے بھی مجھے پتہ ھے کہ مردوں کو کیسے چوسنا ھے میں خود ھی قابو کر لوں گی تم میری فکر کرنے کی بجایے فلحال میری گانڈ مارو۔ اس نے اپنی چوت کے پانی کو اپنے ھاتھ سے اپنی گانڈ ہر ملا اور تھوک لگا کر اسے ملنے لگی پھر جب اسے لگا کہ اب میرا شیر اس کے سوراخ میں چلا جائے گا تو اپنی گانڈ کو میرے لن پر ایڈجسٹ کر کے اس ھاتھ سے سیدھا رکھ کر اندر لینے لگی۔ جب ٹوپی اندر پھنس گئی تو بولی یار تھوڑی ہمت کرو اور ایک جھٹکا تم بھی مارو یہ سننا تھا کہ میں اس کی گانڈ کو دونوں ھاتھوں سے دبایا اور زور سے جھٹکا مارا میرا لن زور سے پورا اندر گیا اور اسکی گانڈ کی دیواروں سے ٹکرایا۔ اس کے منہ سے ھلکی سی چیخ نکلی۔ پھر وہ سنبھل کر خود ھی اوپر نیچے ھونے لگی۔ اوپر، سیدھا بیٹھنے کی وجہ سے لن بار بار باھر نکل جاتا اور کبھی اس کی گانڈ سے باھر ھی ٹکرا جاتا۔ میں نے اسے روکا اور صوفے سے اٹھ کر کھڑا ھو گیا وہ سمجھ گئی کی میں اسے گھوڑی بناوں گا تو، وہ خود ھی گھوڑی بن گئی۔ میں نے لن کو اس کی گانڈ پر سیٹ کیا، اور ایک جھٹکے سے اندر ڈالا پھر جھٹکے سے نکال کر پھر ڈالا۔ میں زور زور سے جھٹکے مار رھا تھا اچانک اس کے جسم نے سخت ھونا شروع کر وہ ڈسچارج ھو، رھی تھی میری جھٹکوں میں بھی تیزی آرھی تھی پھر ایک دم سے اس کی چوت نے پانی چھوڑا، اور صوفے ہر گرنے لگا۔ وہ نیچے الٹی ھی لیٹ گئی اور اپنی چوت کو زور زور سے مسلنے لگی۔ یہ دیکھا تو میں نے اسے سیدھا لٹایا اور اس کی دونوں ٹانگیں سیدھی اوپر کو اُٹھائں اس کی چوت میرے سامنے جھٹکے کھا رھی تھی۔ میں نے اس کے دوپٹے سے چوت کو صاف کیا اور ٹانگیں سیدھی اوپر اٹھا کر صوفے سے نیچے کھڑے کھڑے اپنے لن کو چوت میں گھسا دیا اب میرے گھسوں میں بھت سپیڈ تھی میری سپیڈ دیکھ کر بولی یار ابدر ڈسچارج نہ ھونا جب ھونے لگو تو مجھے بتانا سکنگ کروں گی۔ میں اس کی بات سمجھ گیا اور جب مجھے لگا کہ اب میں ڈسچارج ھونے والا ھوں تو میں نے لن باھر نکالا وہ صوفے ہر بیٹھ گئی اور مجھے کھڑا رھنے دیا اس نے ایک بار پھر میرے شیر کو اپنے منہ میں لیا اور پاگلوں کی طرح چوسنے لگی میرا جسم اکڑنے لگا تو اسکی سکنگ تیز ھونے لگی۔ پھر ایک بار اس نے پورا لن حلقتک لیا یہ وہ موقعہ تھا جب میرے لن نے ایک زورداع جھٹکا مارا اور پچھلے 30 منٹ سے رکا ھوا پریشر اس کے حلق کے اندر جا کر ڈسچارج ھوا۔  اس ایک دم سے کھانسی آگئی تو میرا لن منہ سے باھر نکالا لیکن میں ابھی ڈسچارج ھو رھا تھا تو کچھ دھاریں اس کے منہ پر بھی گر گئیں ۔ سانس لینے لے بعد اس نے پھر سے چوسنا شروع کیا اور ایسےچوستی رھی کہ اخری قطرہ نکلنے کے بعد میرا شیر اس کے منہ میں ھی ڈھیلا ھو گیا۔ اس نے دوپٹ سے اپنا منہ صاف کیا اور بولی آج کے لیے اتنا کافی ھے صبح تم نے کام پر بھی جانا ھے اور مجھے اماں کے ساتھ اپنی ماسی کے گھر ۔میں نے پوچھا ماسی کا گھر کدھر ھے تو بولی فیصل آباد میں اور مجھے پانچ دنوں کے لیے اماں کے ساتھ۔ میں نے پوچھا تو گھر میں کون ھوگا وہ بولی یاسمین رجو اور ابا گھر ہر ھوں گے۔  یہ سن کر میری آنکھوں میں چمک آگئی اس نے شائد نوٹ کر لیا تھا کہنے لگی ایک بات کہوں  مانو گے ۔ میں نے کیا ھاں بولو وہ کہنے لگی پلیز میری بہنوں کو کچھ نہ کرنا۔ تمیں جو کرنا ھے جیسے کرنا ھے میرے ساتھ کر لینا لیکن وہ بچیاں ھیں ۔ میں نے وقتی طور ہر، اسے ٹالنے کے لیے وعدہ کر لیا لیکن یہ دل کہاں ماننے والا تھا
Like Reply
#11
کل پھر آوں گی۔ یہ کہ کر وہ آرام سے دروازہ کھول کر نکل گئی۔ مین بھی تھک چکا تھا، اس لیے دروازے کو، اندر سے لاک کیا اور ننگا ھے لیٹ گیا۔ 

اگلے دن میں صبح تیار ھو کر  پلاٹ ہر چلا گیا جہاں مستری مزدوروں نے آنا تھا۔ پورا دن سامان ارینج کرنے اور مزدورں کے پیچھے بھاگنے میں نکل گیا۔ شام کو چھے بجے فری ھو کر گھر پہنچا اور کپڑے بھت گندے ھو چکے تھے اور تھکاوٹ بھی ۔ اس لیے فوراً نہانے کے لیے باتھروم میں گھس گیا۔ فریش ھو کر باتھ روم سے نکل رھا تھا جب میری نظر سامنے والی چھت پر پڑی جہاں ایک لڑکی چھت سے دھلے کپڑے اتار رھی تھی۔ دیکھنے میں اس کا قد تقریباً پانچ فٹ ھو گا لیکن اس کی باڈی فزیک بتا رھی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ 17 یا 18 سال کی ھو گی۔  یہ یقیناً رجو تھی کلثوم کی چھوٹی بہن جو اپنے چھت سے کپڑے اتار رھی تھی۔یہ کہنا بے جا نہ ھو گا کہ رجو اُن دونوں سے زیادہ خوبصورت تھی۔میں باتھ روم کے دروازے پر کھڑا ھو کر اسے دیکھنے لگا۔ ایک بار اسکی نظر مجھ سے ملی تو وہ بڑی معصوم سی لگی لیکن مجھے کلثوم اور یاسمین کو دیکھ کر اندازہ ھو چکا تھا کہ جلد یا بدیر یہ بھی اس راہ کی مسافر ھو گی۔اور اُن دونوں سے زیادہ قیامت ڈھائے گی ۔ رجو کو دیکھ کر مجھے ایک دن پہلے والا وقعہ بھی یاد آگیا۔ اگر تب رجو نہ آتی تو میں یاسمین کو چود چکا ھوتا۔ اور یاسمین کا سوچتے ھوئے میرا لن کھڑا ھو رھا تھا۔ میں نے باتھ روم سے باھر دیکھا تو، صحن میں کوئی نھی تھا۔  میں نے رجو کو اشارہ کیا تو وہ  ھنسنے لگی۔ میرا لن تو پہلے ھی کھڑا ھو، رھا تھا میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے لن کو ھاتھ سے اوپر نیچے کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر رجو اور ھنسی اور کپڑے اُٹھائے نیچے چلی گئی۔ میں کمرے کی طرف گیا تو بھابی اور امی کچن میں نظر آئیں۔میں کپڑے بدل کر کچن میں آگیا اور امی اور بھابی سے سارے دن کے کاموں کے بارے میں بات کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد گیٹ کھڑکا تو، میں اُٹھ کر گیٹ کھونے چلا گیا۔ باھر دیکھا تو رجو ھاتھ میں پلیٹ پکڑے کھڑی تھی اور اس کے پیچھے کلثوم کھڑی تھی۔ میں ایک سائیڈ پر ھو گیا اور وہ دونوں اندر آگئیں ۔ کلثوم نے میرے ہاس سے گزرتے ھوئے مجھے ھاتھ مارا میں نے کچن کی طرف دیکھا وھاں کوئی باھر نھی رجو پلیٹئں پکڑے کچن کی طرف جا رھی میں نے کلثوم کا ھاتھ پکڑ کر ھلکا سا موڑا اور پھر چھوڑ دیا۔ میرے دل میں رات والا وقعہ کی وجہ سے چوع تھا، اس لیے میں کلثوم کے پیچھے کچن میں جانے کی بجائے بیٹھک میں آگیا۔ لیکن چند منٹ بعد ھی رجو بیٹھک میں آگئی اور بولی بھائی  باجی کلثوم پوچھ رھی ھے آپ کے پاس سونونگم کے نئے گانے ھیں ۔ میں نے نے کہا ھاں کافی کیسٹس پڑی ھیں تم دیکھ لو کون سے چاھئں ۔ میری بات سن کر وہ ڈیک کے پاس چلی گئی میں بھی اس کے پاس گیا اور موقع دیکھتے ھوئے اسے پکڑ کر سینے سے لگا لیا وہ زور زور سے اپنا آپ چھڑا رھی تھی۔  لیکن میں نے زبردستی اسےگالوں پر کس کر دی وہ بولی بھائی نہ کریں آپی آ جائے گی۔ میں نے اسے چھوڑ دیا وہ پھر سے کیسٹ ڈھونڈنے لگی۔ میں نے اپنی جیب میں ھاتھ مارا اور سو روپیہ نکال کر رجو کو پکڑا دیا۔ اور کہا یہ رکھ لو کچھ کھا لینا۔ اس نے سو روپیہ مٹھی میں دبایا اور ایک کیسٹ پکڑ کر جلدی سے باھر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں بہنیں گھر چلی گئیں۔ میں نے بھی کھانا کھایا اور بازار چلا گیا۔ مجھے ٹائمنگ کی گولیا لینی تھی کیونکہ پچھلی رات جس طرح کلثوم نے سکنگ کی تھی میں چاھتا، تھا کہ وہ آج بھی ویسے ھی کرے اور لن پر کریم لگا کر ایسا نھی ھو، سکتا تھا اس لیے گولیاں ضروری تھیں۔  رات بارہ بجے کلثوم ایک بار پھر میرے ساتھ بیٹھک یں موجود تھی لیکن آج میں پہلے سے تیار تھا۔ کلثوم سے مل کر ایک بات سمجھ آگئی تھی کہ وہ بھت فاسٹ اور بے باک لڑکی ھے۔ اس کی عمر کی لڑکیوں کی شادی ھو کر بچے بھی ھو چکے ھوتے ھیں۔ لیکن وہ کنواری تھی اور جس عمر میں تھی اس میں سیکسول ڈیزائر بھت زیادہ ھوتی ھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ روزانہ رات کو مقررہ ٹائم پر پہنچ جاتی تھی۔  اس کی فیملی بھی کافی غریب تھی اور شائد یہ بھی ایک وجہ تھی اس کے کنوارے رھنے اور سیکس ایڈکشن کی۔ وہ جیسے ھی کمرے میں داخل ھوئ مجھ سے ایسے لپٹی جیسے سالوں بعد ملی ھو۔ میں نے اسے گلے لگایا اور اس کی کمر پر ھاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور ساتھ ھی اسے فرنچ کس کرنا، شروع کر دی۔ اس نے بھی اپنی روایتی تیزی دیکھاتے ھوئے مجھے زور سے بھینچا اور اپنا، ایک ھاتھ سے میرا لن پکڑ کر لیا۔ وہ بیچارہ تو پہلے ھی قید سے آزاد ھونا چاھتا تھا۔ کلثوم کا ھاتھ لگتے ھی بے قابو ھونے لگا۔  اس کی بے چینی محسوس کر کے کلثوم۔نے خود ھی میرے ٹراوزر نیچے کر دیا اور ھاتھ میں پکڑ کر اس کو مسلنے لگی۔ اس کس کرتے کرتے میں صوفے پر بیٹھ گیا، اور وہ میری خود ھی شلوار اتار کر میری جھولی میں بیٹھ چکی تھی۔

میں نے اس کی قمیض اتاری اور اس کے ممے منہ میں لے کر چوسنا شروع کیے۔ وہ اپنے مموں کو دھکا دے کر پورے میرے منی میں ڈالنے کی کوشش کرتی اور تھوڑی دیر بعد وہ میری گود سے نکل کر بولی اج تو تم کافی کام کر کے آے ھو تھکے نھی۔ میں نے کیا تھک تو گیا ھوں لیکن تمھاری سکنگ ٹکنے نھی دے رھی وہ بولی اچھا یہ بات ھے تو پھر آپ  آرام سے لیٹو اور مزے لو یہ کہ کر اس نے مجھے صوفے ہر ھی لیٹا دیا اور خود صوفے پر بیٹھ کر میرے لن کو مساج کرنے لگی۔  پھر اس نے ٹوپی کو منہ میں لیا اور لولی پوپ کی طرح چوپا لگاتی اس کا چُوپا اتنا زبردست تھا کہ مجھے لگتا کہ شائد گولیوں کا، اثر بھی بےکار جائے۔ کبھی وہ لن کے سوراخ پر زبان پھیرت اور زبان کو سوراخ کے اندر لے جانے کی کوشش کرتی تو کبھی زابان پھیرتے پھیرتے ٹٹوں تک جاتی اور انھیں اپنے منہ میں لییتی پھر ایسے ھی زبان پھیرتے پھیرتے ٹوپی تکی آتی ۔ تقریباً دس منٹ تک سکنگ کے بعد اس نے ایک تکیہ میری کمر کے نیچے ایسے رکھا کہ میرا لن خود بخود اوپر ھو گیا۔  وہ میرے اوپر آ گئی میں سمجھا کہ وہ اپنی پھدی سیٹ کر کے اوہر بیٹھے گی لیکن وہ بولی مجھے پتہ ھے کہ تمیں میری پھدی سے زیادہ گانڈ مارنے کا شوق ھے کیونکہ سارے لڑکے تنگ سوراخ مانگتے ھیں ۔ میں ھنسا اور کہا نھی یار ایسی بات نھی تو، وہ بولی مجھے پتہ ھے کہ میری پھدی اب پھدا بن چکی ھی پر میں کیا کروں اماں ابا کو سمجھ آتی نھی اور میرا گزارا نھی۔  میں ایک بار پھر ھنسا کہا یار اگر تیری شادی ھو گئی تو تیرا شوھر اس پھدے کو دیکھ کر کیا سوچے گا۔ وہ بولی میرے نصیب میں بھی کوئی ایسا ھی ھوگا جس کو کوئی دیتا نھی ھو گا۔ تو میرا پھدا نھی اس کے لیے بھت ھو گا ویسے بھی مجھے پتہ ھے کہ مردوں کو کیسے چوسنا ھے میں خود ھی قابو کر لوں گی تم میری فکر کرنے کی بجایے فلحال میری گانڈ مارو۔ اس نے اپنی چوت کے پانی کو اپنے ھاتھ سے اپنی گانڈ ہر ملا اور تھوک لگا کر اسے ملنے لگی پھر جب اسے لگا کہ اب میرا شیر اس کے سوراخ میں چلا جائے گا تو اپنی گانڈ کو میرے لن پر ایڈجسٹ کر کے اس ھاتھ سے سیدھا رکھ کر اندر لینے لگی۔ جب ٹوپی اندر پھنس گئی تو بولی یار تھوڑی ہمت کرو اور ایک جھٹکا تم بھی مارو یہ سننا تھا کہ میں اس کی گانڈ کو دونوں ھاتھوں سے دبایا اور زور سے جھٹکا مارا میرا لن زور سے پورا اندر گیا اور اسکی گانڈ کی دیواروں سے ٹکرایا۔ اس کے منہ سے ھلکی سی چیخ نکلی۔ پھر وہ سنبھل کر خود ھی اوپر نیچے ھونے لگی۔ اوپر، سیدھا بیٹھنے کی وجہ سے لن بار بار باھر نکل جاتا اور کبھی اس کی گانڈ سے باھر ھی ٹکرا جاتا۔ میں نے اسے روکا اور صوفے سے اٹھ کر کھڑا ھو گیا وہ سمجھ گئی کی میں اسے گھوڑی بناوں گا تو، وہ خود ھی گھوڑی بن گئی۔ میں نے لن کو اس کی گانڈ پر سیٹ کیا، اور ایک جھٹکے سے اندر ڈالا پھر جھٹکے سے نکال کر پھر ڈالا۔ میں زور زور سے جھٹکے مار رھا تھا اچانک اس کے جسم نے سخت ھونا شروع کر وہ ڈسچارج ھو، رھی تھی میری جھٹکوں میں بھی تیزی آرھی تھی پھر ایک دم سے اس کی چوت نے پانی چھوڑا، اور صوفے ہر گرنے لگا۔ وہ نیچے الٹی ھی لیٹ گئی اور اپنی چوت کو زور زور سے مسلنے لگی۔ یہ دیکھا تو میں نے اسے سیدھا لٹایا اور اس کی دونوں ٹانگیں سیدھی اوپر کو اُٹھائں اس کی چوت میرے سامنے جھٹکے کھا رھی تھی۔ میں نے اس کے دوپٹے سے چوت کو صاف کیا اور ٹانگیں سیدھی اوپر اٹھا کر صوفے سے نیچے کھڑے کھڑے اپنے لن کو چوت میں گھسا دیا اب میرے گھسوں میں بھت سپیڈ تھی میری سپیڈ دیکھ کر بولی یار ابدر ڈسچارج نہ ھونا جب ھونے لگو تو مجھے بتانا سکنگ کروں گی۔ میں اس کی بات سمجھ گیا اور جب مجھے لگا کہ اب میں ڈسچارج ھونے والا ھوں تو میں نے لن باھر نکالا وہ صوفے ہر بیٹھ گئی اور مجھے کھڑا رھنے دیا اس نے ایک بار پھر میرے شیر کو اپنے منہ میں لیا اور پاگلوں کی طرح چوسنے لگی میرا جسم اکڑنے لگا تو اسکی سکنگ تیز ھونے لگی۔ پھر ایک بار اس نے پورا لن حلقتک لیا یہ وہ موقعہ تھا جب میرے لن نے ایک زورداع جھٹکا مارا اور پچھلے 30 منٹ سے رکا ھوا پریشر اس کے حلق کے اندر جا کر ڈسچارج ھوا۔  اس ایک دم سے کھانسی آگئی تو میرا لن منہ سے باھر نکالا لیکن میں ابھی ڈسچارج ھو رھا تھا تو کچھ دھاریں اس کے منہ پر بھی گر گئیں ۔ سانس لینے لے بعد اس نے پھر سے چوسنا شروع کیا اور ایسےچوستی رھی کہ اخری قطرہ نکلنے کے بعد میرا شیر اس کے منہ میں ھی ڈھیلا ھو گیا۔ اس نے دوپٹ سے اپنا منہ صاف کیا اور بولی آج کے لیے اتنا کافی ھے صبح تم نے کام پر بھی جانا ھے اور مجھے اماں کے ساتھ اپنی ماسی کے گھر ۔میں نے پوچھا ماسی کا گھر کدھر ھے تو بولی فیصل آباد میں اور مجھے پانچ دنوں کے لیے اماں کے ساتھ۔ میں نے پوچھا تو گھر میں کون ھوگا وہ بولی یاسمین رجو اور ابا گھر ہر ھوں گے۔  یہ سن کر میری آنکھوں میں چمک آگئی اس نے شائد نوٹ کر لیا تھا کہنے لگی ایک بات کہوں  مانو گے ۔ میں نے کیا ھاں بولو وہ کہنے لگی پلیز میری بہنوں کو کچھ نہ کرنا۔ تمیں جو کرنا ھے جیسے کرنا ھے میرے ساتھ کر لینا لیکن وہ بچیاں ھیں ۔ میں نے وقتی طور ہر، اسے ٹالنے کے لیے وعدہ کر لیا لیکن یہ دل کہاں ماننے والا تھا
Like Reply
#12
اگلے دن میں دوبارہ مستریوں کے سر پر کھڑا تھا۔ آج کھانا سسٹر کے گھر سے آنا تھا اس لیے امی اور بھابی بھی اُن کے گھر مدعو تھیں۔  کلثوم اور اس کی ماں تو صبح صبح فیصل آباد جا چکی تھیں اس لیے آج دوپہر کو میرا دل تھا کہ ایک چکر گھر کا لگاؤں شائد یاسمین ھاتھ آ جائے کیونکہ میرے پاس ہانچ دن تھے اس کے بعد تو کلثوم نے جان نھی چھوڑنی تھی۔ لیکن دوپہر کو میں گھر نہ جا سکا شام کو مستریوں سے فری ھونے کے بعد سسٹر کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ بھابی ایک دن کے لیے اپنے میکے چلی گئی ھے۔ اب امی گھر جانے کے لیے تیار ھو رھی تھیں ۔  میں نے جلدی سے بہانا بنایا کہ میں پھوپھو کے گھر جا، رھا ھوں ادھر سے واپسی پر آ کر، امی کو ساتھ لے جاوں گا۔ امی میری بات مان گئیں اور بولی پھر جلدی آجانا۔ میں نے امی کے پرس سے گھر کی چابیاں نکال لیں اور وھاں سے نکل آیا۔ سیدھا اپنے گھر پہنچا ۔  شام کے سات بج رھے تھے اور گھر اندھیرے یں ڈوبا ھوا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر ساری لائیٹں آن کر دیں کہ شائد کوئی آجائے۔ لیکن جب پندرہ منٹ تک کوئی نہ آیا تو میں خود ھی  درمیان والی دیوار کے ہاس جا کر یاسمین کے ابے کو، آواز دی۔ مجھے پتہ تھا کہ اس کا، ابا تو نیم پاگل ھے آئے گی رجو یا یاسمین۔ وہی ھوا یاسمین اپنے صحن میں نکلی تو، ساتھ اس کا، ابا بھی تھا۔ میں پہلے ھو، سوچ جکا تھا کہ کیا کہنا ھے۔ میں نے یاسمین کو ھلکا، سا اشارہ کیا اور اس کے ابے کو، سنانے کے لیے بولا کہ میری امی کی طبعت ٹھیک نھی اور بھابی بھی گھر ہر نھی تو امی کہ رھی ھیں آ کر ایک روٹی پکا دو۔ وہ بولی اچھا یں ابے کو بتا کر آتی ھوں۔  حالانکہ مجھے پتہ کہ اس کے ابے کو اتنی ھوش نھی ھوتی لیکن میں کوئی رسک نھی لینا چاھتا تھا کیونکہ کبھی کبھی وہ بلکل صحیح باتیں کرتا تھا۔ میں واپس، آ کر کمرے میں بیٹھ گیا۔ ہانچ منٹ بعد یاسمین اور رجو دونوں دیوار پھلانگ کر آ گئی۔ رجو نے جب دیکھا کہ گھر میں اور کوئی بھی نھی تو بولی باجی ایدھی امی تے کوئی نھی گھر۔ یاین نے اسے اشارے سے چپ رھنے کا اشارہ کیا اور مجھے بولی ھان جی فرماؤ۔ میں نے کہا یار تم سے باتیں کرنے کو دل کر رھا تھا اس لیے بلایا تو یاسمین مسکرا ہڑی جب کہ رجو ایک دم سے بولی ھاں جی پتہ ھے آج باجی کلثوم۔جو گھر ہر نھی تھی اس لیے یاسمین کا، خیال آگیا ورنہ پچجلے دو دن میں ساری رات جاگ کر پہرہ دیتی رہی ھوں کہ ابا نہ جاگ جائے اور اماں نہ جاگ جائے۔ رجو بظاھر بچی لگتی تھی لیک. وی بچی تھی نھی اور اسے سارا پتہ تھا کہ کلثوم کب آئی اور، کب گئی۔ میں نے اس کی بات سنی تو ھنس کر پوچھا تو تم ان دونوں لی باڈی گارڈ ھو۔ وہ شرما گئی۔ میں نے کہا یار اگر مہربانی کرو تو ھمیں تھوڑا وقت دے دو۔ یاسمین بولی نھی ساحر ابھی نھی ابا جاگ رھا ھے اور اتنی دیر میں ادھر نھی رک سکتی۔ رات کو آوں گی یا پھر تم خود ادھر آجانا ھم تینوں کے علاوہ گھر ہر کوئی نھی ھوگا۔  میں نے کیا یار تم ادھر آجانا میں بھی اکیلا ھی ھوں گا۔ رجو کو ابے کے ہاس چھوڑ آنا۔ وہ تنک کر بولی جی نھی آج میں پہرہ نھی دوں گی اور ویسے بھی کلثوم مجھے 200 روپے دیتی ھے یہ کنگلی کیا دے گی۔ میں نے یہ بات ھے تو، 200 روپے مجھ سے لے لو جناب اور ھماری مدد کر دو۔ پھر میں نے جیب سے 200 روپے نکال کر رجو کے ھاتھ ہر رکھے۔ یاسمین بولی ساحر یہ بھت کمینی ھے ۔ رجو اور یاسمین کی باتیں سن کر مجھے اندازہ ھو چکا تھا کہ رجو ان دونوں کی پہرےداری کرتی ھے اور لالچ میں آ کر ان سے پیسے لیتی ھے۔ میرا کام آسان تھا۔ میں نے رجو سے کہا اچھا ابھی ھمیں پامچ منٹ دو ھم تھوڑی گپ شپ کر لیں پھر دونوں چلی جانا۔ رجو میری بات سن کر اُٹھ گئی اور جاتے ھوئے بولی صرف ہانچ منٹ۔ میری ھنسی نکل گئی اس کا اشارہ دیکھ کر۔  وہ اپنے گھر جانے کی بجائے ھنارے کچن میں جا کر بیٹھ گئی۔ میں نے یاسمین کو گلے لگایا، اور اس کے ھونٹوں پر ھونٹ رکھ دئیے۔ دو منٹ کسنگ کے بعد میں نے یاسمین کو کیا یار تمہاتی بہن تو بھت لالچی ھی ۔ کتنے دن اسے پیسے دو گی۔ وہ بولی تو کیا کروں یار یہ اماں کو بتا دیتی ھے اگر پیسے نہ دوں تو۔ میں نے کہا اس کا ایک حل ھے میرے پاس اگر تم کہو تو۔ وہ بولی کیا حل ھے۔ میں نے کہا، اسے آج رات میرے پاس رہنے دو۔ وہ بولی نھی یار وہ بچی ھے اس نے کبھی یہ کام نھی کیا۔ میں بولا یار تم بے بےفکر رھو میں اسے کچھ نھہی کیوں گا صرف پیار کروں گا اور 200 روپیہ اور دے دوں گا پھر جب وہ گھر آئے گی تم اسے ڈرانا اس طرح روز روز کے پیسوں سے جان چھڑاو۔ وہ بولی یار دیکھ لینا وہ ابھی 17 سال کی بچی ھی۔ کوئی اور مصیبت نہ بنا دینا۔ اور پھر پتہ نھی وہ مانتی بھی ھے کہ نھی۔ میں مے کیا تم ابھی گھر جاو اور رجو کے ھاتھ چائے بنا کر بھیجو۔ جب رجو چائے دے کر، واپس جائے گی تو وہ تمیں یہ کہے گی کہ میں باجی کے گھر چلا گیا ھوں آج تم نہ آنا تو تم اس کی بات مان لینا اور  تم اس کی بات مان لینا اور سمجھ جانا کہ وہ راضی ھو گئی ھے تم 11 بجے سے پہلے سونے کی ایکٹینگ کرنا۔ تاکہ وہ بے دھڑک ھو کر آ جائے۔ اس کے آدھے پونے گھنٹے بعد تم آجانا آس طرح اس کی چوری پکڑی جائے گی اور تو وہ کسی کو کچھ نھی بتائے گی۔ اگر وہ نہ مانی تو تم خود، آجانا اور اگر تمہیں کچھ پیسے چاھیئے تو بتاو۔ وہ بولی مجھے 500 روہے دے دو کل دے دوں گی۔ میں نے اسے 500 روپے دئیے اور کیا تم واپس،نہ کرنا۔ ۔ میری بات سمجھ کر یاسمین  رجو کو لے کر چلی گئی۔ 20منٹ بعد رجو چائے لے کر آ گئی۔ میں بھابی کے کمرے میں تھا رجو سے چائے لے کر ایک سائیڈ پر رکھی اور اس کا ھاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا وہ کھسمسا رھی تھی۔ میں نے اسے ایک پیار کیا، اور چھوڑ دیا وہ اپنے گال پر جہاں میں نے پیار کیا تھا ھاتھ پھیرتے ھوئے جامے لگی تو میں نے اسے روکا، اور کہا، رجو ایک بات کہوں ۔ وہ رک گئی اور بولی جی بولیں۔ میں نے کہا، رجو میں تجھے پیار کرنا چاھتا ھوں ۔ وہ بولی جی نھی آپ باجیوں کو پیار کریں میں یہ کام نھی کرتی۔ میں نے کیا یار رجو مجھے تو تم اچھی لگتی ھو باجیوں کو تو مجبوراً پیار کرتا ھوں۔ وہ بولی جی نھی مجھے نھی پیار کرنا، اور مجھے ویسے بھی بہت ڈر لگتا ھے۔ میں اس کی بات سے سمجھ گیا کہ وہ راضی بس نخرے کر رھی ھے۔ میں نے آخری داو کھیلا اور کہا یار رجو اگر آج رات تم آ جاو تو تمہیں پانچ سو روپیہ بھی دوں گا۔ اس نے میرے منہ کی طرف دیکھا اور پھر بولی نھی مجھے ڈر لگتا ھے اور باجی نے دیکھ لیا تو جان سے مار دے گی۔ میں نے کہا یار کوئی نھی دیکھے گا ۔ اور باجیوں کو میں سمجھا، دوں گا۔ تم ایسا کرو 200 پہلے والا بھی رکھو اور رات کو پامچ سو اور دوں گا ساڑھے گیارہ بجے آجانا۔ وہ بولی پر رات کو یاسمین نے آنا ھے۔ میں مے کیا تم جا کر یاسمین کو منع کر دو اور کہنا کہ میں گھر نھی ھوں گا ۔ جب یاسمین سو جائے تو تم آ جانا ادھر اسی بھابی والے کمرے میں۔ وہ بولی ٹھیک ھے اگر یاسمین سو گئی تو آوں گی ورنہ ناراض نہ ھونا۔ میں نے کہا تم کوشش کرنا بس۔ وہ چلی گئی یں نے ٹائم دیکھا تو 9 بجنے والے تھے ۔ میں گھر، سے مکلا، اور پی سی آو سے باجی کا نمبر ملایا۔ اور باجی کو بتایا کہ میں لیٹ ھو جاوں گا۔ امی کو، اُدھر ھی سلا لو صبح آ کر لے جاوں گا۔ اس کے بعد مجھے بھوک لگی تھی ایک ھوٹل سے کھانا کھایا اور تقریباً ساڑھے دس بجے گھر پہنچ گیا۔ اب مجھے انتظار کرنا تھا سو عمران سیریز پڑھنے لگا جو کہ میرا فیورٹ ناول تھا۔ پونے بارہ بجے مجھے ایسا لگا جیسے کوئی دیوار پھلانگ کر آ رھا ھو۔ چند سیکنڈ میں ھی دروازے پر رجو کھڑی تھی۔ اس نے دروازے کو اندر سے بند کیا تو میں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ وہ بلکل چھوٹی تھی بھت لیکن آج اسے جوان ھونا تھا۔ میں نے اس کے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھے تو، وہ پیچھے ھٹنے لگی۔ میں نے اسے ایک ھاتھ پیچھے سے اس کے سر پر رکھا اور ایک ھاتھ سے اسے اس کی گانڈ سے قابو کیا اور اسے پیار کرنے لگا۔ جب اس نے دیکھا لہ ایسے جان نھی چھوٹے گی تو خود ساتھ دینے لگی۔ تھوڑی دیر پیار کرنے کے بعد میں رکا، وہ اپنے ھونٹوں کو اپنی ھتیلیوں سے صاف کر رھی تھی۔ وہ بولی آپ بڑے گندے ھو ۔یں ھنس کر کہا یار پیار ایسے ھی ھوتا ھے ۔ پھرءں نے اسے جیب سے 100 والے پامچ نوٹ پکڑائے تو، اس نے خوش ھو کر پکڑ لیے۔  میں نے اسے اُٹھا کر بیڈ ہر لٹایا اور اور کہا اگر تم آرام سے یرا ساتھ دیتی رھو تو تمیں 200 روپیہ اور بھی دوں گا لیکن۔ تم مجھے روکو گی نھی اور جیسے میں کہوں گا ویسے کرو گی۔ اس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور بولی واقعی ۔ میں نے کہا ھا واقعی۔ پھر وہ بولی لیکن آپ میرے ساتھ وہ والا کام تو نھی کرو گے جو باجی کے ساتھ کرتے ھو۔ کیونکہ اس میں درد بہت ھوتا ھے۔ میں نے کیا تم نے مجھے کب باجی کے ساتھ وہ کرتے دیکھا ھے تو، وہ بولی آپ کو مھی دیکھا لیکن ایک اور لڑکے کو دیکھا تھا ھمارے گھر ۔ بڑا درد ھوتا ھے اس میں۔ میں ھنسا اور کہ یار میں تمیں پیار کروں گا اور کوئی بھی ایسا کام نھی کروں گا جس میں تمیں درد ھو۔ لیکن تم بھی مجھے جیسا کروں کرنے دو۔ روکنا نھی۔ صرف درد تو روکنا۔ وہ بولی ٹھیک لیکن پلیز درد نہ کرنا۔ اوکے کہ کر می اس کے اوپر لیٹ گیا اور ایک بار پھر کسنگ شروع کر دی۔ وہ بھی مجھے پیار کر رھی تھی اور گرم ھو رھی تھی۔ میں نے ایک ھاتھ اس کی چھاتھی ہر رکھا تو اس کے ممے بیت ھی چھوٹے تھے شائد 32 یا اس سے بھی چھوٹے ۔ میں نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر اس ک مموں کو مسلنا، شروع کر، دیا وہ بھت گرما ھو، رھی تھی کیونکہ شائد فرسٹ ٹائم تھا۔ اس سے پہلے تو بیچاری نے اپنی باجیوں کو کرتے دیکھا تھا۔ آج خود کروانے جا رھی تھی۔
Like Reply
#13
اس کے چھوٹے چھوٹے نپلز کو میں انگلیوں میں پھنسا کر مسلتا تو وہ تڑپ جاتی۔ میں اسے کبھی گالوں ہر تو کبھی گردن پر پیار کرتا اور جب میں میں گردن پر کس کرتا تو وہ ایسے تڑپتی جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ھو۔ پھر میں نے اسے کے ھونٹوں پر ھونٹ رکھ دئیے اور ادے کہا کہ اپنی زبان باھر نکالے۔ اس نے زبان نکالی تو میں نے چوسنا شروع کر دی پہلے تو، اسے تھوڑا عجیب لگا لیکن چند منٹ بعد ھی وہ انجوائے کر رھی تھی۔ پھر میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالی وہ مزے سے اس چوسنے لگی۔ اس دوران میرا ایک ھاتھ مسلسل اس کے مموں کو مسل رھا تھا۔ پھر ایک دم سے وہ بولی مجھے کچھ ھو رھا ھے مجھے پہلے تو سمجھ نہ لگی لیکن جب اس کا جسم ٹائیٹ ھوا تو پتہ چلا وہ ڈسچارج ھو گئی ھے۔ اور بے اختیار اس نے اپنا ھاتھ اپنی شلوار کے اندر ڈال کر اپنی چوت کو چیک کیا ۔ میں نے پوچھا کیا ھوا پانی نکل گیا ھے تو اس نے ھلکے سے شرما کر گردن ھلائی۔ میں نے کہا کوئی بات نھی ابھی صاف کر دیتے ھیں تو اس اپنے ھاتھ مضبوطی سے اپنی شلوار پر رکھ لیے۔ میں نے کہا بیوقوف صاف کرنے دو اگر ایسے سوکھ گیا گھر والوں کو بو آئے گی۔ وہ بولی نھی مجھے شرم آتی ھے اور میں نے ھنس کر اسے دلاسہ دیا کہ کچھ نھی ھوتا۔ اور پکا، وعدہ میں کچھ نھی کروں گا لیکن اسے سوکھنے سے پہلے صاف کرنا ھو گا۔ مجھے اس کی شلوار بھی گیلی نظر آرھی تھی جس کا، مطلب تھا کہ اس نے نیچے انڈروئیر بھی نھی پہنا ھوا۔ وہ بولی پلیز کچھ نہ کرنا مجھے ڈر لگتا ھے۔ میں نے پھر اسے دکاسہ دیا، اور ایک ھاتھ سے اس کی ھاتھ پکڑے اور دوسرے سے اس کی شلوار نیچے کر دے۔ اس کی پنک کلر کی چوت میرے سامنے تھی بالکل بند اور چھوٹی سے۔ سائیڈوں ہر چھوٹے چھوٹے براون کلر کے بال تھے۔ اس نے شائید ابی تک صاف کرنا شروع نھی کیے تھے یا قدرتی ایسے تھے۔ اس مے شرم سے آنکھیں بند کی ھوئی تھیں ۔ میں نے پاس پڑا ھوا اسی دوپٹہ اٹھایا اور اس کی چوت کو صاف کرنا شروع کر دیا اس نے ایک دم آنکھیں کھولیں اور میرا ھاتھ پکڑ لیا اور بولی ساحر میں خود کرتی ھوں پلیز آپ چھوڑ دو۔ میں نے اس کے ھاتھ پیچھے کیے اور کہا کچھ نھی ھوتا مجھے کرنے دو اس نے پھر ھاتھ آگے کرنے کی کوشش کی تو میں نے مضبوطی سے اس کے ھاتھ پکڑے۔ وہ ابھی اتنی طاقتور نھی تھی کے میرے ھاتھوں سے ھاتھ چھڑاتی۔ میں نے کہا ضد نہ کرو، اور مجھے اسے صاف کر کے تمہیں پیار کرنے دو تاکہ تم جلدی سے گھر جا سکو۔ یہ نہ ھو کوئی جاگ جائے تو پھر مصیبت آ جائے گی۔ میری باتھ سن کر اس نے ھاتھ پیچھے کر لیا۔ میں نے اس کی پھدی کو اچھی طرح صاف کیا پھر اس کی ٹانگییں تھوڑی سی ھٹا کر اس گانڈ کو بھی صاف کیا جہاں اسکی  چوت کا پانی گیا تھا۔ رجو کی ھپس بھی اتینی بڑی نھی تھی اور اس کی گانڈ کا سوراخ تو بلکل بند تھا۔ لیکن میں اتنی جلدی کر کے اسے بھگا نھی سکتا تھا۔ میں نے اس کی ٹانگیں سیدھی کیں تو چوت ایک بار پھر اپبا جلوہ دیکھا رھی۔ اس کا گلابی رنگ دیکھ کر مجھے پتہ ھی نھی چلا کب میرے ھونٹ اس کی کی چوت پر چلے گئے۔ اس نے میرے ھونٹوں کا لمس محسوس کیا تو ایک دم سے ٹانگیں کھینچیں لیکن اب میں کہاں  رک سکتا تھا۔ میں نے اس کی ٹانگیں کھینچیں اور اپنی داہنے ھاتھ سے اس کے ھاتھ پکڑے اور دوبارہ اپنے ھونٹ اس کی چوت پر رکھ دیے۔ وہ نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی لیکن اب ممکن نھی تھا۔ دو منٹ بعد میں نے اسے چھوڑ دیا اب وہ ویسے ھی بےبس ھو کر رکی ھوئی تھی۔ جب میں نے چھوڑا تو اس نے ایکدم اپنی چوت پر دونوں ھاتھ رکھے اور میرے طرف دیکھ کر بولی اف توبہ آپ کتنے گندے ھو۔ پیشاب والی جگہ کو چاٹ رھے تھے۔  میں مسکرا کر بولا رجو میری جان اصل پیار یہی ھوتا ھے۔ سچ بتاو تمیں مزہ نھی آیا کیا۔ وہ بولی ھاں مزہ تو، آیا ھے لیکن ایسی گندی جگہ پر پیار کون کرتا ھے۔ سارے کرتے ھیں میری جان تم پریشان نہ ھو۔ بس تم مزہ لو مجھے یہ گندہ کام کرنے دو۔ وہ بولی چلو ٹھیک ھے آپ کی مرضی۔ میں نے ایک بار پھر اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اور اب میری زبان اسکی چوت پر گردش کر رھی تھی ۔ اسکی چھوٹی سی چوت کا رس بھی کمال کا تھا اور پوری چوت میرے منہ میں آ، رھی تھی۔ اب میرا لن بھت سخت ھو چکا تھا میں نے اھستہ سے اپنی شلوار اتاری لیکن اسے محسوس نھی ھونے دیا۔ ادھر میری زبان اسی کی چوت کی گہرایوں کی سیر کر رھی تھی اور رجو لزت کی انتہا پر تھی اسے پتہ ھی نھی چلا کہ کب میں نے شلوار اتار دی۔ میں نے اسکی چوت کو چھوڑا اور اس کے برابر لیٹ کر اس کے ھونٹوں کو کس کرنے لگا اسکی آنکھیں مکمل بند تھیں میں نے اس کے ایک ھاتھ کو اپنے لن پر رکھا تو اسنے ایک دم سے آنکھیں کھولی اور اور حیرانگی سے میرے لن کو دیکھنے کی بعد بولی ھائے ساحر جی آپ نے بھی شلوار اتار دی اور توبہ آپ کا یہ کتنا بڑا ھے۔ پلیز مجھے ڈر لگ رھا ھے۔ میں نے اسے سینے کے ساتھ لگایا اور بولا رجو ایک بات بتاو ابھی جب میں بولا رجو ایک بات بتاو ابھی جب میں تمھاری پھدی کو پیار کر رھا تھا تھا تو تمھیں کتنا مزہ  آ رھا تھا۔ اسنے شرما کر میری طرف دیکھا، اور ھلکے سے اپنا سر ھلا دیا۔ اس سے تمھین زیادہ مزہ آئے گا۔ اس نے ایک دم سے نا کیا، اور بولی مجھے پتہ ھے اس سے بڑا، درد ھوتا ھے میں نے خود باجی کو چیختے دیکھا ھے جب اس لڑکے نے یہ باجی کی گانڈ میں دیا تھا۔ میں ھنسا اور کہا نھی رجو یہ گانڈ میں نھی پھدی میں ڈالتے ھیں وہ تو خود تمھاری باجی گانڈ میں لیتی ھے کیونکہ اسے گانڈ مروانے کا شوق ھے اور دوسری تمھاری باجی کی پھدی مروا مروا کر بھت کھلی ھو گئی ھے اس لیے لڑکے اسکی گانڈ مارتے ھیں لیکن مجھے تمھاری گانڈ نھی مارنی۔ بلکہ جیسے میں کہوں تم ویسے کرنا تمھیں بھت مزہ آئے گا۔ وہ بولی آپ وعدہ کرو میری گانڈ نھی مارو گے اور درد بھی نھی کرو گے تو پھر آپ جیسا کہوگے میں ویسا ھی کروں گی۔ میں نے اس کے ھونٹوں پر کس کی اور کہا پکا وعدہ وہ بولی تو ٹھیک ھے بتاو مجھے کیا کرنا ھے۔ میں نے کہا ابھی میں تمھارے اوپر لیٹ کر تمھری پھدی کو پیار کروں گا تاکہ وہ گیلی ھو کر نرم ھو جائے تو تم میرے اس لن کو پیار کر کے اچھی طرح گیلا کرنا، تاکہ یہ بھی نرم ھو جائے اور تمھیں درد بھی نہ ھو اس نے می میری بات پر سر ھلایا تو میں ایک بار پھر 69 زاوئیے پر اس کی چوت کو کھا رھا تھا جبکہ وہ میر لن کو کسی لولی پوپ کی طرح چاٹ رھی تھی۔ ایک دو بار اس نے اپنے دانت  بھی مار دئیے لیکن میں برداشت کر گیا۔ اب میں سیدھا ھو کر اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ بیڈ کی چادر کے نیچے سے میں نے کنڈوم نکال کر چڑھایا۔ اب میرے زہن میں تھا کہ اب تک یاسمین کو آجانا چاھئیے تھا لیکن پتہ نھی وہ کیوں نھی آئی اور میں دل میں دعا مانگ رھا رھا تھا کہ وہ اب آئے بھی نا کیونکہ یہ کلائمکس میں خراب نھی کرنا چاھتا تھا۔ میری دو انگلیاں اسکی چوت میں آگے پیچھے ھو رھی تھی اور وہ مزے سے انکھیں بند کیے اپنی چوت کو مسل رھی تھی۔ میں نے ھاتھ روک کر اپنے لن کو، اسکی چوت پر رگڑنا شروع کر دیا کیونکہ اب مجھے سے بھی برداشت نھی ھو رھا تھا۔ میں اس کے اور لیٹ کر لن کو، اسکی چوت ہر فٹ کیا اور ایک ھات اسکے سر کے نیچے سےڈال کر اپنے ھونٹوں کو اس کے ھونٹوں پر رکھ دیا۔ جبکہ ایک تکیہ اسکی ھپ کے نیچے رکھ کر اسکی ٹانگوں کو کھول اب ایک طرف میں اس کے ھونٹوں کو چوس رھا تھا جب کہ دوسری طرف دوسرے ھاتھ سے لن اس کی چوت پر فٹ کر رھا تھا پھر میں نے اسکے ھونٹوں کو مضبوطی سے اپنے ھونٹوں میں دبایا تاکہ اسکی چیخ باھر نا نکل سکے اور ایک ایک زوردار جھٹکے سے میرا لن اسکی کی چوت کو پھاڑتا آدھے سے زیادہ اندر جا چکا تھا اسکی  زور دار چیخ نکلی ضرور لیکن وہ منہ میں ھی رہ گئی۔ اور وہ نیچے ایسے تڑپ رھی تھی جیسے زبح کی ھوئی بکری کی طرح تڑپ رھی تھی میں پھلے جھٹکے کے بعد رک چکا تھا۔ چند سیکنڈ بعد جب اس کی ھلچل کچھ کم ھوئی تو میں نے اس کے ھونٹوں سے ھونت ھٹائے وہ نیچے رو، رھی تھی اور کہنے لگی ساحر خدا کے لیے نکالو میں مر جاوں گی میری پھدی پھٹ گئی ھے ۔ میں نے اسے حوصلہ دیا، اور کہایار کچھ نھی ھوتا یہ بس پھلی دفعہ تھا ابھی سب ٹھیک ھو جاتا ھے۔ مجھے خود اپنے لن پر چپچپاھٹ محسوس ھو رھی تھی لیکن میں لن باھر نھی نکال کیونکہ دوبرہ وہ کبھی نہ ڈالنے دیتی میں نے تھوڑا سا لن باھر نکال کر دیکھا تو اس ہر کافی خون نظر آیا لیکن میں یہ موقع ضائع نھی کرنا چاھتا میں نے اسے سینے کساتھ لگایا اور ایک بار پھر لن کو اندر کر دیا. اسکی سیل پھٹ چکی تھی۔ اس لیے وہ درد سے تڑپ رھی تھی جبکہ میں اب مزید رحم کے موڈ میں نھی تھا اس کے سسکنے کی آواز مجھ مسرور کر رھی تھی اور اپنے سینے پر اس کے آنسوں کا گیلا پن محسوس ھو رھا تھا۔ اس نے  ایک دو بار مجھے زور سے کاٹا بھی لیکن میں برداشت کر گیا لیکن اسکی ھلچل کی وجہ سے ںتھوڑی دیر بعد  میں ھی ڈسچارج ھو گیا۔ میں نے اپنا لن باھر نکالا تو دیکھا بیڈ شیٹ پوری لال ھو چکی تھی اور رجو میں اتنی سکت بھی نھی تھی کی کہ اپنی جگہ سے ھل سکے۔ بلیڈنگ بھت زیادہ ھوئی تھی اور مجھے یقین تھا کہ چادر کے ساتھ نیچے میٹریس بھی خون سے لال ھوا ھے ۔ مجھے اپنی فکر لگ گئ تھی کہ صبح بھابی نے دیکھ لیا تو کیا ھو گا
Like Reply
#14
اور ساتھ ھی اس بات پر حیرانگی تھی کہ ابھی تک یاسمین بھی نھی آئی تھی جبکہ اگر وہ پروگرام کے مطابق آ جاتی تو، شائد رجو کا یہ حال نا ھوتا۔ خیر اس وقت مجھے رجو کا سوچنا تھا جو شائد چل کر گھر بھی نا جا سکتی ایسے میں اگر یاسمین آجاتی تو کوئی مدد ھو سکتی تھی۔ میں نے جلدی سے اپنے انڈر وئیر سے اپنا لن صاف کیا اور شلوار پہنی۔ اپنی بنیان سے میں نے رجو کی چوت صاف کی لیکن بلیڈنگ پھر بھی ھو رھی تھی اور جب میرا ھاتھ اسکی چوت کو لگا تو مجھے محسوس ھوا جیسے وہ سوج گئی ھو۔ میرا ھاتھ لگنے سے وہ بھی تڑپی۔ میں نے ایک بار پھر اسی بنیان سے اسکی چوت کو صاف کیا اور بنیان کو لپیٹ کر اسکی چوت پر رکھ دی تاکہ مزید بلیڈنگ نہ ھو. وہ مسلسل رو رھی تھی۔ میں جلدی سے دوسرے کمرے میں گیا اور اپنا ایک انڈر وئیر نکالا اور دو پرانی شرٹس اُٹھا کر لے آیا۔ میں نے اپنا انڈرؤئیر رجو کو پہنایا تاکہ میری بنیان جو اسکی چوت پر رکھی وہ نا گرے اور پھر اس کی شلوار پہنائی۔ رجو کو، اُٹھا کر پاس ہڑے صوفے پر لٹایا اور بیڈ کی چادر جلدی سے لپیٹی تو نیچے میٹرس پر بھی خون کے داغ نظر آئے۔ میں نے اپنی پرانی شرٹ سے میٹرس کو صاف کیا لیکن خون کے داغ اتنی آسانی سے کہاں جاتے ھیں۔ سوچا پہلے رجو کو اس کے گھر پہنچاوں پھر خون کا بھی بندوبست کروں گا۔ ویسے بھی رجو اب کچھ بہتر لگ رھی تھی۔ میں نے اس حوصلہ دیا اور کہا رجو یہ پہلی دفعہ تھا اس لیے اتنی تکلیف ھوئی۔ اور میں نے کان پکڑ کر اس سے سوری بولا تو، وہ ھنس کر بولی ھاں جی درد تو واقع بھت ھوئی لیکن سچی درد میں مزہ بھی بھت تھا۔ اسکی بات سن کر میں بولا تو کیا خیال ھے ھو جائے ایک بار اور تو اس نے کانوں کو، ھاتھ لگایا اور بولی توبہ میری آج نھی لیکن پھر کبھی جب یہ درد ٹھیک ھو گئی تو۔ میں نے کہا چلو اب ھمت کرو اور گھر جاو کہیں یاسمین نہ اٹھ جائے۔ وہ میری بات سن کر مسکرائی اور بولی وہ اُٹھی ضرور ھو گی لیکن ادھر نھی آئی گی کیونکہ یہ ھمارا پلان تھا۔ ھاں اگر آپ میں ھمت ھے تو میں جا کر اسے بھیج دیتی ھوں۔ اسکی بات سن کر میں حیرانگی سے اسے دیکھ رھا تھا۔ میں سمجھ رھا تھا کہ میں اور یاسمین رجو کو بےوقوف بنارہے ھیں جبکہ وہ دونوں مل کر میرے ساتھ مزے کر رھی تھیں۔ خیر اپنی تو پانچوں گھی میں تھی اور سر کڑاھی میں۔ میں نے رجو سے کیا تم جاو تاکہ میں آرام سے یہ داغ غائب کر، دوں ورنہ صبح بھابی نے مجھے مار دینا ھے۔ وہ ھنس کر بولی اچھی بات ھے نہ آپ نے میری جان نکالی ھے تو آپ کی بھی نکلے۔ میں نے مصنوعی غصے سے اسے دیکھا اور کہا اب جاو ورنہ میرا شیر پھر جاگ رھا اور ساتھ میں نے اپنے لن کو ھاتھ سے اٹھایا۔ وہ سوری بول کر فوراً گھر جانے کے لیے کمرے سے نکل گئی۔ اسکے جانے کی بعد میں نے اپنی شرٹس گیلی کر کے میٹرس کو حتی المقدور خون کو صاف کیا اسکے بعد میٹرس کو الٹا کر نئی چادر ڈالی اور پرانی چادر کو ایک شاپر میں ڈال کر چھپا دیا کہ بعد میں غائب کر، دوں گا۔ اس سارے کام میں مجھے دو بج گئے اور میں بھابھی کے بیڈ پر ھی تھک کر لیٹ گیا۔  نجانے کب آنکھ لگی پتہ ھی نھی چلا۔ سوتے میں مجھے ایسے لگا جیسے کوئی مجھے پیار کر رھا ھو۔ ایک دم سے آنکھ کھلی تو یاسمین میرے ساتھ لپٹی ھوئی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ میں کمرےکی لائیٹ اور دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا اور ایسے ھی سو گیا۔ اب آنکھ کھلی تو یاسمین میرے ساتھ لپٹی ھوئی تھی۔ کمرے میں گھڑی پر نظر پڑی توصبح کے4:25 ھو رھے تھے مطلب میں تقریباً دو گھنٹے سویا تھا۔ میں نے یاسمین سے پوچھا تم۔کب آئی تو بولی 10 منٹ ھو گئے۔ پھر بولی یار آپ تو بڑے ظالم ھو رجو کی پھدی پھاڑ پھدا بنا دیا ھے اور خود آرام سے سو رھے ھو اور وہ بیچاری فل بخار میں تڑپ رھی ھے۔ ابھی دو پیناڈول دے کر آئی ھوں۔ میں ھنس کر بولا یار کسی نے تو پھاڑنی تھی میں نے پھاڑ دی تو کیا ھوا۔ وہ بولی آپ کو بچی پر زرا بھی رحم نھی آیا۔ میں نے کہا اسکی تم ذمہ دار ھو۔ اگر تم رات کو آجاتی تو اسکا یہ حشر نہ ھوتا لیکن تم  نےخود اسکی پھاڑوانے کا پلان بنایا ھے۔ اور اب اپنی پھاڑوانے آگئی ھو۔ اس نے مصنوعی غصے سے مجھے دیکھا تو میں نے بھی اسے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ اور بغیر دیر کیے اپنے ھونٹ اسکے ھونٹوں پر رکھ دیا۔ یاسمین کا جسم بھرا بھرا سا تھا اور ممے بھی کافی بڑے تھے میں نے قمیض کے اندر سے ھی اس کے مموں کو پکڑا اور دبانا شروع کر دیا۔ اس نے بھی بلا تکلف میرے لن کا شلوار کے اوپر سے پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا۔ پھر وہ ایک دم سے بولی یار زرا جلدی کرنا پانچ بجے دودھ والے نے آجانا ھے تو، ابے نے جاگ جانا ھے۔ میں نے کہا اچھا یہ بات ھے تو لو پھر ۔ یہ کہ کر میں نے اسکی قمیض اتار دی تو اس نے خود ھی شلوار اتار دی۔ اور پھر میری شلوار کو بھی اتارنے لگی۔ اسکی ھپس بھی کافی موٹی تازی تھیں اور میں نے اس کے مموں کو چوسنا شروع کیا اور میرا ھاتھ اس کی  اور میرا ھاتھ اس کی ھپ پر گھومتا ھوا اس کی چوت کی طرف جاتا اور کبھی میری انگلی اسکی گانڈ پر گھومتی۔ اور جیسے ھی گانڈ کے اندر جاتی یاسمین تڑپتی۔ اسکی گانڈ بھت تنگ تھی جس سے لگتا تھا کہ اسنے یا تو گانڈ مروئی نھی یا بھت کم مروائی ھے اور رجو کو چودنے کے بعد اب مجھے یاسمین کے پھدے سے زیادہ اسکی گانڈ میں دلچسپی تھی۔ اس لیے اب میری انگلیاں اس کی گنڈ کے سورخ میں بار بار جا رھی تھیں ۔ میں نے اسے ایک سائیڈ پر کیا، اور بھابی کا لوشن اٹھایا اب میں نے اشارہ کیا کہ وہ میرے لن کو پیار کرے اور وہ شائد پہلے سے تیار تھی۔  اس نے فوراً ثواب کا کام سمجھ کر بڑے ھی سٹائلش انداز میں چوسنا شروع کر دیا۔ وہ 69 کے پوز میں آگئی اور مجھ سمجھ لگ گئی تھی کہ وہ چاھتی ھے کی میں اسکی چوت کو ہیار کروں لیکن میں نے لوشن نکالا اور اسکی گانڈ پر ڈال کر ایک انگلی سے اندر باھر کرنے لگا۔ اسکی زبان میرے لن پر چاروں طرف گھوم رھی تھی۔ اور اسکا انداز میری برداشت سے باھر ھو رھا تھا۔ وہ میرے لن کے منہ کو کھلتی اور اپنی زبان اندر گھسانے کی کوشش کرتی۔ جس سے میری جان نکلنے لگ جاتی۔ میں مست میں اب تین امگلیاں اسکی گانڈ میں اندر باھر کر رھا تھا تو کبھی چار اس کی گانڈ میں گولمول گھماتا تاکہ وہ میرا لن اسانی سے اندر لے لے۔ چند منٹ بعد جب وہ میرا پورا لن جڑوں تک منہ میں ڈالے چوس رھی تھی تو میری ھمت جواب دے گئی اور میں ایک دم سے اسکے منہ میں ھی ڈسچارج ھو گیا میرے دھار شائد ایک دم سے اسکے گلے میں پڑی تو اس نے فوراً منہ پیچھے کیا جس اس کا دانت میرے لن ہر بڑے زور سے لگا لیکن میں برداشت کر گیا پھر اس نے خود ھی دوبارہ میرے لن کو منہ میں ڈالا اور اور ساری منی کو چاٹنے لگی۔ چند سیکنڈ میں اس نے لن کو ایسے صاف کیا جیسے کوئی بھوکا کھیر کی پلیٹ صاف کرتا ھے۔  اسکاچاٹنے کاانداز اتنا ظالم تھا کہ میرا لن دوبارہ سر اٹھا رھا تھا۔ وہ بھوکوں کی طرح میرے لن کو چوس رھی تھی شائد اسکے بس میں ھوتا تو کھا ھی جاتی۔ اب میں نے اس کی چوت کو سامنے کیا  اور پاس پڑ رات والی شرٹس سے ڈرائی کیا اور اپنے ھونٹ اسکے اوپر رکھ دیا۔میں خود کو ٹائم دے رھا تھا کہ یرا شیر ایک دفعہ پھر تیار ھو جائے۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو 4:45 ھو رھے تھے۔ یعنی میرے پاس پندرہ منٹ تھے جو کہ میرے لیے بھت تھے۔ میں نے اسے سائیڈ پر کیا اور بیڈ سے نیچے اتر آیا۔ وہ سیدھی ھوئی تو میں نے اسے گھوڑی بننے کا کہا وہ بیڈ پر گھوڑی بن گئی میں نے اسے کنارے پر کھینچا اور خود بیڈ سے نیچے کھڑا اپنے لن کو اسکی چوت کے برابر کیا اور ایک جھٹکے سے اندر گھسا دیا ۔ مجھے پتہ تھا کہ میں ایک پھدی نھی بلکہ پھدے میں جھٹکا مار رھا ھوں جو اس کچھ نھی کہے گا۔ میرے دو تین جھٹکوں کے بعد اسکے جسم نے اکڑنا شروع کر دیا مجھے اندازہ ھو گیا کہ وہ ڈسچارج ھو رھی ھے لیکن مجھے تو ٹائم لگنا تھا۔ میں نے جھٹکوں کی سپیڈ بڑھا دی اور اس چوت کو دبانا شروع کر دیا۔ پھر اس نے ھاتھ پیچھے کر کے میرے لن کو پکڑ کر روکا اور مجھے اندر سے ایسا لگا جیسے کسی نے گرم ہانی اوپر ڈال دیا ھو وہ جب ڈسچارج ھوتی تھی تو چوت کو پورے زور سے بھینچ لیتی تھی۔ چند سیکنڈ بعد جب اسکی چوت کی گرفت میرے لن پر ڈھیلی پڑی تو میں نے کہا یاسمین اب تمہارے گانڈ کی باری اس نے ایک دم سے گانڈ پر ھاتھ رکھ کر سیدھی ھو گئی اور بولی نھی ساحر بھت درد ھوتا ھے۔ میں نے کہا یار کچھ نھی ھوتا میں کوشش کرتا ھوں کہ درد نہ ھو اگر نہ گیا تو زبردستی نھی کروں گا۔ میری بات مان کر وہ ایک بار پھر گھوڑی بن گئی۔ اب میں نے ایک بار پھر لوشن گنڈ کے سوراخ پر ڈالا اور اپنی ٹوپی کو اس ہر ایڈجسٹ کر کے ھلکے ھلکے دبانے لگا جب ٹوپی تھوڑی سی اندر گئی تو میں نے باھر نکال لی ایک بار پھر یں نے ایسا ھی کیا دو تین بار ایسا کرنے کی بعد میں نے چوتھی بار ٹوپی باھر نھی نکالی اور یاسمین سے کہا کہ وہ تکیہ کو منہیں لے لے ھو سکتا ھے تھوڑی تکلیف ھو لیکن زیادہ نھی ھوگی۔ وہ میری بات سمجھ کر تکیہ پر منہ دبا لیا۔ اسی ٹائم ایک زوردار جھٹکے سے میرا آدھا لن اس کی گانڈ میں جا چکا تھا اسکی چیخ نکلی لیکن تکیے میں چھپ گئی۔ اس نے گانڈ کو نیچے کرنے کی کوشش کی لیکن دونوں بازووں کی کلائی اسکے پیٹ کے نیچے سے پھنسا کر اسے نیچے نھی ھونے دیا۔ لیکن میں رک گیا۔ اسکی نیچے سے آواز آئی ساحر پلیز بس کرو لیکن میں نے کہا یار جو درد ھونا تھا وہ ھو گیا اب تو بس مزہ ھے۔ میری بات سن کر وہ خاموش ھو گئی میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو 4:53 ھو رھے تھے مطلب میرے پاس پانچ سات منٹ ھی تھے۔ اب میں نے لن کو پیچھے کھینچا اور ایک جھٹکے سے پھر آگے کر دیا۔ پھر تو جیسے مشین چلتی ھے ویسے میرے جھٹکے لگ رھے تھے ایک تو ٹائم کی ٹنشن اور سے اسکی تنگ گانڈ میں 2 منٹ میں ھی اسکی گانڈ میں ڈسچارج ھو گیا۔ 
اس نے جلدی سے شلوار قمیض پہنی اور اور جب تک میں کپڑے پہنتا وہ مجھے ایک کس کر کے بڑی تیزی سے اپنے گھر کی طرف بھاگی۔

تو دوستو یہ تھی میری کہانی۔ اس کے بعد بھی کاف دفعہ یاسمین اور کلثوم کو چودا لیکن رجو پھر ھاتھ نھی آئی لیکن اتنا یاد ھے کہ اسے تین چار دن بخار اور درد رھا۔ 
آپ لوگوں کو کہانی کیسی لگی ضرور بتائے گا۔
ختم شدہ
Like Reply




Users browsing this thread: 1 Guest(s)