Thread Rating:
  • 0 Vote(s) - 0 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
Saima or Afroz ki kahani(Cuckold) - Urdu Font
#1
صائمہ کی شادی ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے لیکن اس کے ہاں ابھی تک اولاد نہیں ہوئی تھی افروز صائمہ کا کلاس فیلو ہی تھا جس سے اسکی شادی ہوئی تھی اگرچہ افروز کی امی نے اس کے لیے ایک معقول رشتہ بھی دیکھ رکھا تھا لیکن صائمہ چونکہ پوری یونیورسٹی میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی اور دوسرے یہ کہ وہ اسے پسند بھی بہت کرتا تھا لہذا افروز کی ضد تھی کہ وہ صائمہ سے ہی شادی کرے گا

یہ الگ بات ہے کہ صائمہ  نے کبھی کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی تھی اسکا حسن اسکا غرور تھا اور اسی غرور کے بل بوتے پر اس نے نہ صرف لڑکوں کے بلکہ کئی لڑکیوں کے غرور بھی خاک میں ملائے تھے افروز نے جب بھی صائمہ سے بات کرنی چاہی صائمہ نے اسے کمال بے اعتنائی سے رد کردیا تھا چونکہ افروز کے والد اچھے کاروباری آدمی تھے شہر میں انکی ساکھ بھی اچھی خاصی تھی جس وجہ سے افروز کا صائمہ سے رشتہ ہو گیا شادی کے بعد جب افروز نے ابو کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کیا تو صائمہ نے بھی اپنے سسر کی کمپنی جوائن کر لی 
ویسے تو انکی زندگی خوشحال تھی لیکن اولاد کی کمی انہیں ہمیشہ ایک کسک میں مبتلاء کر دیتی افروز کی امی بھی کافی مرتبہ یہ بات جتا چکی تھیں کہ ہم نے تو تمہارے لیے اور رشتہ دیکھ رکھا تھا تمہیں ہی عشق کا بھوت سوار تھا وہ کئی بار صائمہ کو اشارتاً طعنہ بھی دے چکی تھیں کہ بی بی چیک اپ کرواو نہیں تو چھٹی کرو صائمہ نے جب بھی افروز سے اس دھمکی کا زکر کیا اس نے ہنس کر ٹال دیا۔
کیا بات کرتی ہو
پیار کرتا ہوں تم سے
میں تمہیں کیوں چھوڑوں گا۔
اور صائمہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی البتہ ایک خوف اسکے دل میں پلتا رہتا تھا کہ یہ لاوہ کبھی بھی پھٹ سکتا ہے
یوں ہی وقت پر لگائے اڑتا چلا جا رہا تھا کہ ایک دن صائمہ کی زندگی میں بھونچال آ گیا وہ افروز کے ساتھ مارکیٹ میں شاپنگ کر رہی تھی جب اسکی نظر دانش پر پڑی
وہ اسے کیسے بھول سکتی تھی اس نے یونیورسٹی دور میں صائمہ کا جینا حرام کیے رکھا تھا 
نت نئے حربوں سے صائمہ کو دوستی کی آفر کرتا عموماً ہوتا  یوں تھا کہ کوئی بھی لڑکا جب صائمہ پر فریفتہ ہوتا تو کچھ دن تک بہت تگ و دو کرتا کہ کسی طرح صائمہ سے بات چیت ہو جائے لیکن جب صائمہ کی طرف سے کوئی جواب نہ ملتا تو وہ مزید وقت برباد نہ کرتا اور اسے چھوڑ کر کہیں اور کوشش میں لگ جاتا لیکن دانش پہلے دن سے لیکر آخری دن تک صائمہ کے پیچھے پڑا رہا تھا اور اسکی خاص عادت یہ تھی کہ اس نے صائمہ کے علاوہ کبھی کسی لڑکی کو نہیں چھیڑا تھا  
وہ مارکیٹ میں دانش کو دیکھ کر بہت گھبرا گئی تھی اس نے طبعیت کی خرابی کا بہانہ کیا اور خود گاڑی میں آکر بیٹھ گئی اگرچہ اب وہ ازدواجی زندگی گزار رہی تھی لیکن ایک انجانا خوف اسے مضطرب کر گیا پھر بھی وہ اپنے آپ کو یہی سوچ کر تسلی دے رہی تھی کہ چلو خیر گزری اس نے مجھے دیکھا نہیں 
ورنہ اگر وہ افروز کی موجودگی میں دیکھ لیتا اور کوئی حرکت کر بیٹھتا تو اس پر کیا گزرتی  کافی دیر گزر چکی تھی اور افروز  ابھی تک مارکیٹ سے باہر نہیں آیا تھا اس نے افروز کا نمبر ملایا وہ ڈیش بورڈ میں بج اٹھا اس نے جھنجھلاہٹ میں اپنا فون بھی ڈیش بورڈ پر پٹخ دیا کچھ دیر یوں ہی ادھر ادھر دیکھ کر وہ دوبارہ گاڑی سے نکلی  اور اندر مارکیٹ کی طرف چل دی زینے طے کر کے حال میں پہنچی تو سامنے سے افروز آتا دکھائی دیا اور عین اسکے عقب میں دانش دوسری طرف کو چل رہا تھا 
کیا یہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں ایک دم اسکے زہن میں چھپاکا ہوا۔ 
نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے پھر خود ہی اس نے خود کو تسلی دینے کی کوشش بھی کی اتنے میں افروز بھی اسکے قریب پہنچ چکا تھا وہ دونوں وہاں سے نکلے اور گھر کی طرف رواں ہوگئے افروز  صائمہ سے بات چیت جاری رکھے ہوئے تھا لیکن وہ کسی اور ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی
اس نے اپنے ایک ہاتھ کی چار انگلیاں بند کر رکھی تھیں اور ایک چھوٹی انگلی کھول کر اسے گھورے جا رہی تھی پھر اچانک اس نے افروز کو ٹوک کر اپنی مٹھی دکھاتے ہوئے پوچھا اسکا کیا مطلب ہوتا ہے
افروز ہنسا
یہ کون سا بے تکا سوال ہے
نہیں آپ بتاہیں تو

بچپن میں ہم سوسو کرنے کے لیے استانی جی سے ایسے ہی اجازت طلب کرتے تھے بڑے ہو کر اس کے معنے بدل گئے اس سے ہم کسی کو مخاطب کرتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے مجھے سنیں افروز نے اسے تفصیل بتائی تو وہ پھر خاموش ہو گئی دراصل اسے ہر وہ موقع یاد آ رہا تھا جب جب دانش نے اس سے ایک لمحہ مانگا تھا لیکن اس نے کبھی اسے موقع نہیں دیا تھا ۔ شاید افروز نے اسکا اضطراب بھانپ لیا تھا اور پوچھ بھی لیا کہ اسے کیا ہوا ہے لیکن وہ کوئی معقول جواب نہ دے پائی 
پھر خود ہی افروز نے موضوع بدل دیا 
صائمہ ہماری گارمنٹس فیکٹری کے لیے آج ایک نیا کلائنٹ ملا ہے میرے ساتھ یونیورسٹی پڑھتا تھا اور ابھی یہاں اس اسکا گارمنٹس کا بہت بڑا ڈسپلے سنٹر ہے
یہاں کہاں صائمہ نے بے چینی سے سوال کیا
یہیں جس مارکیٹ سے ابھی ہم آ رہے ہیں شاید تم نے بھی اسے کبھی دیکھا ہو کافی سلجھا ہوا لڑکا تھا دانش۔۔ کبھی کسی لفڑے میں نہیں پڑا میری بھی اس سے اتنی علیک سلیک تو نہیں تھی لیکن آج آمنا سامنا ہوا تو اسی نے بتایا ہم ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیں
دانش کا نام سن کر اس نے ایک جھرجھری لی تھی اسکے بعد دانش کا افروز سے معاہدہ ہو گیا اور اس سے افروز کی فیکٹری کی سیل بھی بہت زیادہ بڑھ گئی تین چار ماہ کے اندر اندر ہی دانش کی بدولت افروز کا کاروبار بہت تیزی سے ترقی کرنے لگا
اسے جتنا مال چاہیے ہوتا وہ افروز کو فون کر دیتا اور افروز یہ مال اسکے گودام بجھوا دیتا ایک دن افروز نے ہی دانش سے فون پر کہہ دیا دوست اب ہماری کافی زیادہ کاروباری تعلق داری ہو چکی ہے کسی دن ہمیں کاروبار سے ہٹ کر بھی میل جول بڑھانا چاہیے کیوں نہ کسی دن وقت نکال کر کھانے کی دعوت کا اہتمام کر لیا جائے ہماری بھابھی کو بھی ساتھ لے آنا میری بیوی سے مل لے گی چلو انکی بجی آپس میں علیک سلیک ہو جائے گی
وہ ہنسا 
میں نے ابھی تک شادی نہیں کی
کیوں۔۔؟ افروز نے حیرانگی سے پوچھا
بس وقت ہی نہیں ملا اس نے ٹالتے ہوئے کہا
یہ بھی کوئی بات ہوئی ۔
البتہ آج شام کا کھانا آپ میرے ساتھ کھاہیں گے 
لیکن۔
لیکن ویکن کچھ نہیں دانش نے افروز کی بات کاٹ دی
اچھا ٹھیک ہے افروز نے حامی بھر لی
اس نے انٹرکام پر صائمہ سے کہا آج شام ایک دوست کے ہاں دعوت ہے کچھ تیاری کرنی ہے تو گھر چلی جاؤ میں چھ بجے آ جاوں گا پھر چلتے ہیں وہ اکثر اپنے کاروباری شراکت داروں کے لیے دعوت کا اہتمام کرتے ہی رہتے تھے اس لیے صائمہ نے بھی زیادہ سوال جواب نہیں کیے اور آفس سے اٹھ کر گھر چلی گئی ان تین چار ماہ میں وہ یہ بات بھول چکی تھی کہ اسکا کبھی دانش سے آمنا سامنا بھی ہوا تھا
شام کو افروز جب گھر آیا تو صائمہ تیار تھی افروز نے بھی فریش ہو کر ہلکی پھلکی تیاری کی اور نکل پڑے  راستے میں وہ کاروبار کے مزید پھیلاؤ پر بات کر رہے تھے جب افروز نے اسے بتایا کہ آج جس کلائنٹ کی دعوت پر ہم جا رہے ہیں اس ہی کی بدولت آج ہمارا کاروبار بہت تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے لیکن میری جب اس سے بات ہوئی تو اس نے بتایا تھا کہ مصروفیات کی بدولت وہ ابھی تک شادی نہیں کر سکا 
انسان کو اتنا بھی مصروف نہیں ہونا چاہیے کہ وہ شادی کے لیے بھی وقت نہ نکال سکے
یہ تو زندگی کا ایک خوبصورت تجربہ ہوتا ہے 
یہ بھی کیا زندگی ہوئی کہ جنم لیا کھایا پیا اور مر گئے صائمہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھی
انسان شادی کرے خوشیاں منائے اپنی نسل بنائے اور اس کے لیے تگ و دو کرے اس میں ایک سکون ہے
اور نسل کا سوچ کر وہ دونوں ہی خاموش ہو گئے 
وہ دونوں ہی افسرده سے ہو گئے تھے 
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد افروز نے سکوت توڑا اور افسرده سے لہجے میں بولا
اولاد تو اللہ کی دین ہے جسے چاہے نواز دے
پتہ ہے میں نے سنا ہے دولت عورت کی قسمت سے ہوتی ہے اور اولاد مرد کی قسمت سے ہو سکتا ہے کبھی مجھ پر بھی نوازش ہو جائے افروز نے ایک ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے کہا
انہی باتوں میں مشغول وہ مجوزہ ہوٹل پہنچ گئے وہاں دانش انکے استقبال کے لیے پہلے سے موجود تھا ان دونوں کی نظریں چار ہوہیں تو یک لخت دونوں پر ایک قیامت گزر گئی 
افروز نے گرمجوشی سے دانش کو گلے لگایا مصاحفہ کیا اور اسکا ہاتھ صائمہ کی طرف بڑھایا یہ میری بیوی بھی ہے اور میری کولیگ بھی ہم دونوں مل کر ہی کام کرتے ہیں 
صائمہ ان سے ملو یہ میرے دوست ہیں دانش جن کے بارے میں نے ایک دن تمہیں بتایا بھی تھا صائمہ بت بنے کھڑی تھی اور مصاحفے کے لیے ہاتھ بھی آگے نہ کر سکی
ان دونوں کی ایک جیسی حالت ہو رہی تھی دونوں پر ایک سکتہ طاری تھا کھانے کے دوران بھی اجنبیت کا سماں طاری رہا اور افروز نے یہ بات بہت نوٹ کی تھی
واپسی پر افروز نے صائمہ سے اس رویے کی وجہ پوچھی
تم نے پہلے ایسا کبھی نہیں کیا پھر آج ایسا کیوں 
اور میں دیکھ سکتا تھا دانش بھی بہت مضطرب تھا
شاید پہلے یوں ہوتا تھا کہ میں اپنے میزبان کی فیملی میں گھل مل جاتی تھی لیکن انہوں نے شادی ہی نہیں کر رکھی میں کس سے بات چیت کرتی صائمہ نے ایک معقول بہانہ گھڑا
افروز بھی کہاں بس کرنے والا تھا
لیکن تم نے محسوس کیا وہ بھی بہت مضطرب تھا
ہاں شاید اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی صائمہ نے ایک کھوکھلا سا قہقہ بلند کیا
اس دعوت کے بعد ایک تبدیلی رونما ہوئی دانش اکثر آرڈر دینے کے لیے خود آنے لگا افروز نے محسوس کیا وہ اکثر صائمہ کو کن اکھیوں سے دیکھتا رہتا اور پریشان سا بھی ہو جاتا اس کے آنے سے خود صائمہ کا بھی یہی حال ہو جاتا
اب اسے ایک اور خیال ستانے لگا
ممکن ہے صائمہ اور دانش ایک دوسرے کو پسند کرتے رہے ہوں اور پھر ایک دن اس نے صائمہ سے واشگاف الفاظ میں پوچھ لیا
صائمہ میں اس بات پر بہت زیادہ سوچنے لگا ہوں میری مدد کرو ہم ایک ساتھ پڑھے ہیں کہیں تم اور دانش۔۔ اس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا
کیسی باتیں کرتے ہیں آپ صائمہ نے جھنجھلا کر کہا
میں ایک غریب گھرانے سے تھی 
میرے والدین کے بہت خواب تھے 
انہیں بہت اعتبار تھا مجھ پر
انہوں نے دن رات کا سکون برباد کر کے مجھے یونیورسٹی بھیجا تھا
میں ایسے کسی معاشقے کی ہر گز متحمل نہیں ہو سکتی تھی آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں صائمہ افروز کو سمجھا رہی تھی
لیکن میں خود کو کیوں سمجھا نہیں پارہا افروز نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا۔
دراصل آپ کو یاد ہے ایک دن میں نے آپ سے اس کا مطلب پوچھا تھا؟  اس نے اپنی مٹھی بند کی اور چھوٹی انگلی کھڑی کر کے اسے دکھاتے ہوئے یاد کروایا
ہاں ہاں بلکل یاد ہے۔
میں اور دانش ایک ہی دن یونیورسٹی آئے تھے پہلے دن اس نے مجھے یہ اشارہ کیا تھا اور جب تک میں یونیورسٹی رہی اس نے جب بھی موقع ملا یہ اشارہ ضرور کیا 
جس نے بھی میرے قریب آنے کی کوشش کی میرا کوئی ردعمل نہ پا کر پیچھے ہٹ گیا لیکن یہ دانش تھا جس نے اس سارے عرصے میں مجھ سے ایک لمحہ مانگا
اس نے یونیورسٹی میں بھی کبھی کسی اور کی طرف نہیں دیکھا اور میں اسکے اس رویے سے بے حد تنگ تھی اور میں سمجھ سکتی ہوں شاید اسی وجہ سے اس نے ابھی تک شادی نہیں کی
جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں  وہ عملی زندگی میں ہے اب بھی اگر مجھے نہیں بھول پایا تو میں اسکی کیا مدد کر سکتی ہوں
افروز یہ ساری باتیں سن کر خاموش تو ہو گیا لیکن اسکے دل میں ایک وسوسہ گھر کر گیا دانش اسے بہت زیادہ آرڈر دیتا تھا
شہر میں دانش اور افروز دونوں کی ساکھ بھی یکساں تھی جب سے اسکی ملاقات صائمہ سے ہوئی تھی وہ فیکٹری میں بھی کافی آنے جانے لگ گیا تھا وہ نہ تو اس سے کاروبار ختم کر سکتا تھا نہ اسے منع کر سکتا تھا اکثر ایسا ہوتا تھا وہ کاریگروں کو اپنے مال کے لیے ہدایات بھی خود دیتا
ایک دن افروز کو ملائشیا سے اسکے ایک کلائنٹ نے میٹنگ کا ٹائم دیا یہ وہ وقت تھا جب افروز تزبزب کا شکار ہو گیا کیونکہ وہ فیکٹری کو بہت اچھے سے چلا رہا تھا لہٰذا اسکے والد صاحب تو پہلے ہی کافی حد تک کاروبار سے الگ ہوچکے تھے پہلے تو اسے بیرون ملک سفر میں کبھی مسئلہ نہیں ہوا تھا کیونکہ ساعا کام صائمہ خود سنبھال لیتی تھی لیکن اب کی بار صورتحال بلکل مختلف تھی چار و ناچار اسے جانا ہی پڑا لیکن ایک اندیشہ اسے پریشان کیے رکھتا 
اسکی غیر موجودگی میں دانش آئے گا تو اسکا رویہ کیسا ہو گا پندرہ دن بعد جب وہ واپس آیا تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا جب اسے یہ پتہ چلا کہ ان پندرہ دنوں میں دانش نے ایک مرتبہ بھی فیکٹری کا رخ نہیں کیا تھا 
اسے دانش پر بہت بھروسہ ہونے لگا اور اسی اعزاز میں اسنے صائمہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود دانش کے لیے دعوت کا انتظام کر دیا اب کی بار اس نے دانش کو خوب ٹٹولا تھا 
دانش تم شادی کیوں نہیں کرلیتے
کب تک جیو گے تنہائی کی یہ زندگی 
اس بار صائمہ نے بھی محتاط انداز میں گفتگو میں حصہ لیا
آپ حامی بھریں کافی عرصہ ہو گیا میں نے شادی کا کوئی فنکشن اٹینڈ نہیں کیا 
وہ زیر لب مسکرا دیا 
میری ایک دو تمنائیں تھیں وہ ہوری ہو جاتیں تو شاید میں شادی کر ہی لیتا افروز سمجھ سکتا تھا کہ ایک خواہش تو اسکی صائمہ ہی تھی وہ صائمہ کے ساتھ بات کرنا چاہتا تھا
اب افروز دلگیر رہنے لگا
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ اس صورتحال سے کیسے نمٹے
یہ بھی نہیں تھا کہ اسے صائمہ پر کسی قسم کا شک تھا لیکن جسطرح سے اسکا دانش پر اعتماد بڑھا تھا وہ چاہتا تھا دانش شادی کر لے
تنہا نہ رہے
صائمہ کے ساس اور سسر کچھ دن کے لیے انگلینڈ چلے گئے اسی دوران افروز نے دانش کو گھر پر مدعو کر لیا صائمہ نے لاکھ منع کیا لیکن اس نے سنی ان سنی کردی چار و ناچار صائمہ کو افروز کی بات ماننا ہی پڑی دعوت تیار ہو گئی وقت مقررہ پر دانش بھی آ گیا
چونکہ ابھی تک دانش نے صائمہ کے ساتھ ایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی اسلیے صائمہ بھی اب اس سے کافی حد تک فرینک ہو چکی تھی اس سے بات چیت کر لیتی
کھانے کے دوران باتوں ہی باتوں میں کہیں وہ یونیورسٹی کے زمانے کے قصے چھیڑ بیٹھے 
افروز نے اپنے کافی سارے معاشرے بھی اعتراف کیے لیکن اس معاملے میں صائمہ اور دانش دونوں ہی کورے تھے
افروز نے دانش کے مونڈھے پر ہاتھ پر اور قہقہ لگاتے ہوئے کہا یار دانش صائمہ کی تو سمجھ آتی ہے وہ اپنے خاوند کے سامنے کیسے کسی معاشقے کا اعتراف کر سکتی ہے لیکن تم کونسا کسی تائے چاچے کی محفل میں بیٹھے ہو جو تمہیں کسی کا خوف ہو
آج بتاو کس کس کے ساتھ اور کیسے اپنے کچھ پل گزارے۔

افروز۔۔۔ جس دن میں یونیورسٹی میں پہلے دن آیا انجانے میں کسی سے میری نظریں چار ہو گئیں ان چار سالوں میں اس نے مجھے لفٹ نہیں دی اور میں کسی اور کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکا
صائمہ نے ایک بھرپور نظر سے دانش کی طرف دیکھا آج پہلی بار اس نے دانش کو ایسے دیکھا تھا وہ اندر ہی اندر کلملا اٹھی
کون تھی وہ ۔۔ افروز نے پوچھا
بس تھی ایک دانش نے مایوسی کے سے انداز میں جواب دیا
اب کی بار دانش اور صائمہ نے یکمشت ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھا وہ دونوں ہی اندر ہی اندر شرمسار ہو گئے 
دونوں نے اپنے سر نیچے جھکا لیے تھے
دانش۔۔ افروز نے دانش کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنی طرف کھینچا
دانش کو پسینہ آنے لگا ادھر صائمہ کی بھی یہی حالت تھی اس نے جلدی سے پانی کا گلاس بھرا اور غٹا غٹ پی گئی
اب کی بار افروز نے صائمہ کو اشارہ کیا کہ وہ بھی اپنا ہاتھ دے صائمہ نے سہمے سہمے ہاتھ آگے بڑھا دیا
افروز ان دونوں کا ہاتھ اپنے ایک ایک ہاتھ میں پکڑے صائمہ کی انگلیوں کی الٹی طرف دانش کی انگلیوں کی الٹی طرف سے ٹکرا رہا تھا
صائمہ اور دانش کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے اور کبھی افروز کو دیکھتے 
یار مجھے چلنا چاہیے رات کافی ہو گئی ہے تمہارا وقت بھی برباد کر رہا ہوں دانش نےہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
نہیں آج رات یہیں رکو گھر میں کوئی انتظار کر رہا ہے کیا افروز نے دونوں کے ہاتھوں پر مضبوطی بڑھاتے ہوئے کہا
میں انے کے لیے بستر لگا آؤں اب کی بار صائمہ نے گلو خلاصی کی کوشش کی۔
نہیں یہیں بیٹھیں گے جب سونا ہوا تب کی تب دیکھی جائے گی
ویسے تو صائمہ نے مختلف لوگوں سے بے شمار مرتبہ ہاتھ ملایا ہو گا لیکن دانش کا ہاتھ جیسے ہی اسکے ہاتھ سے ٹکراتا اس کے پورے جسم میں ایک لہر دوڑ جاتی 
دناش۔۔ زندگی بھی کتنی بے رحم ہوتی ہے ناں کبھی کبھی ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے کہ انسان بے بس ہو کر رہ جاتا ہے
تم نے سالہاسال جس کو چاہا
یک طرفہ محبت کی بے پناہ سوچا کبھی وہ تمہارے سامنے تو ہوتا ہے لیکن تمہارا نہیں ہوتا اس سے زیادہ بھی زندگی کی کوئی بے رحمی ہو سکتی ہے بھلا
یار افروز ۔۔ یہ کیا بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو دانش نے اسے پلٹنے کی کوشش کی
افروز کھڑا ہوتے ہوئے بولا بہکی نہیں آو میرے ساتھ
اس نے دونوں کو کھڑا کر لیا اور ویسے ہی ہاتھ پکڑے بیڈ روم میں لے آیا 
بیڈ روم میں پہنچتے ہی اس نے ایک نیا دھماکہ کر دیا میں جانتا ہوں دانش نے صرف تمہارے خواب دیکھے ہیں صائمہ 
اور میں چاہتا ہوں آج میں تم دونوں کو ایک موقع دوں 
شاید میری موجودگی تم دونوں کو ایک حد سے پھلانگنے ہی نہ دے اس لیے آج میں اپنے سونے کے لیے کوئی اور جگہ ڈھونڈتا ہوں
وہ دروازے کی طرف پلٹا 
صائمہ پھرتی سے اسکی طرف بڑھی اور اسے پیچھے سے اسے اپنے دونوں بازوؤں میں بھرتے ہوئے کہنے لگی
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ
یہ کیا کر رہے ہیں آپ
میرا سب کچھ صرف آپ ہیں 
آپ ہی میری زندگی کے پہلے اور آخری مالک ہیں 
میں آپکے سوا کچھ بھی نہیں 
افروز نے اس سے اپنا آپ چھڑا کر رخ اسکی طرف موڑا اسے گلے لگایا ایک بوسہ گردن پر دیا پھر گال پر اسکے بعد کان کے قریب انتہائی سرگوشی میں کہا
میری خاطر ۔۔۔۔
صائمہ یہ سن کر نڈھال ہو گئی اس نے کھڑے کھڑے خود کو افروز پر گرا لیا 
اس نےخود کو نڈھال کر لیا جیسے وہ زبان حال سے کہہ رہی ہو آپ ہی میرے مالک ہو جیسے چاہو یا جس کے ہاتھوں چاہو مجھے استعمال کرو اسکا سر افروز کے کندھے پر لڑھک رہا تھا بال بکھرے  ہوئے تھے اور جسم بکل ڈھیلا افروز نے اسے اپنے بازو میں تھام رکھا تھا اور وہ اپنا چہرہ افروز کی شرٹ کے کالر میں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی افروز نے اسکی کمر پر ہاتھ پھیرا اور نیچے لاتے ہوئے اسکی شلوار معمولی سی نیچے کو سرکا دی
دانش جو انہیں بغور دیکھ رہا تھا اسکی نظر صائمہ کے شفاف دودھیا ہپس پر پڑی اسکے ماتھے سے پسینے کی ایک لہر نمودار ہو کر نیچے ناک کی طرف آگئی دانش نے پسینہ صاف کیا اور وہی ہاتھ اپنے بالوں میں پھیر دیا
اس نے یونیورسٹی کے پہلے دن سے لیکر آج تک صرف صائمہ کو سوچا تھا
وہ جب بھی کسی لڑکی کی طرف دیکھتا تھا اس میں صائمہ کو تلاش کرتا تھا
اور آج
آج صائمہ اس کے سامنے تھی لیکن کسی اور کے ہاتھوں میں تھی
صائمہ نے اپنا ایک ہاتھ نیچے گرایا چوڑی چوڑی سے ٹکرائی تو ایک کھنک پیدا ہوئی سونے کی ان چوڑیوں کی کھنک نے ایک مسحور کن آواز کمرے کے انگ انگ میں پھیلا دی صائمہ نے اپنی شلوار کھینچ کر اوپر کر لی اسی لمحے افروز نے پہلے کی نسبت زیادہ نیچے کھسکا دی اس نے اگلی بار پھر شلوار اوپر کرنے کی کوشش کی تو افروز نے مزید نیچے کر کے ٹخنوں تک لے گیا اور اسکی شلوار پر اپنا پاوں رکھ دیا 
اب جب افروز نے اس کی ہپس اور کمر پر ہاتھ پھیرا تو صائمہ کوشش کرنے لگی کہ وہ قمیض کے پلو سے اپنے ننگے ہوتے بدن کو ڈھانپ سکے
افروز نے اس گھما کر کمر دانش کی طرف کر دی اور پیچھے سے پلو اٹھا دیا صائمہ افروز کے سینے میں اپنا منہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ افروز اسکے گالوں پر اور گردن پر پیار دیے چلا جا رہا تھا اب صائمہ نے افروز کی شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھولے تاکہ وہ اسکی شرٹ کے اندر اپنا منہ چھپا سکے
اس وقت اسکی حالت اس کبوتر جیسی تھی جس پر جب عقاب جھپٹتا ہے تو وہ اس کے شکار سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کر لیتا ہے یا اپنا منہ اپنے پروں میں چھپا لیتا ہے
اور اسکے پر یا پناہ گاہ تو افروز ہی تھا لیکن افروز نے اپنے باقی ماندہ بٹن کھول کر شرٹ خود سے علیحدہ کر لی
دانش قطعی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس موقع پر اسے کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے وہ پسینے میں شرابور بس حسرت بھری نگاہوں سے صائمہ پر نظریں گاڑھے چپ چاپ بیٹھا تھا۔
صائمہ بار بار اپنی قمیض کا پلو نیچے جھاڑ کر اپنی ہپس کو چھپانے کی کوشش کرتی اب کی افروز نے اس کی کمر پر لٹکتی تنی کھول دی جس سے قمیض کا گلا بہت کھلا ہو گیا
افروز نے دانش کو قریب آنے کا اشارہ کیا اب وہ ان دونوں کے بہت قریب تھا لیکن اس نے فلحال کوئی حرکت نہیں کی تھی افروز نے اسکا ہاتھ پکڑ کر صائمہ کی ہپس پر پھیرا 
صائمہ نے ایک جھر جھری لی اور افروز کو مزید مظبوطی سے پکر لیا افروز نے کوشش کی کہ صائمہ کی قمیض اتار سکے لیکن ناکامی پر آخر اسنے قمیض کمر کی طرف سے پھاڑ دی ابتک وہ کافی جگہوں سے صائمہ کی قمیض پھاڑ چکا تھا
افروز نے دانش کا ہاتھ چھوڑا تو دانش نے بھی اپنا ہاتھ پیچھے ہٹانے کی بجائے اپنا دوسرا ہاتھ بھی صائمہ کی ہپس پر پھیرا 
صائمہ نے اتنی شدید جھرجھری لی جیسے اسے کرنٹ لگا ہو اس جھٹکے کے لیے افروز تیار نہیں تھا لہذا وہ صائمہ کو ساتھ لیتا ہوا نیچے بیڈ پر گر گیا
اب دانش کو پیمانہ صبر بھی لبریز ہو گیا تھا وہ نیچے جھکا اپنے دونوں ہاتھ افروز پر گری ہوئی صائمہ کی کمر پر رکھے اور آہستہ سے نیچے ہو کر صائمہ کی ہپس کے اوپر ایک بھرپور بوسہ دے ڈالا صائمہ نے اپنے دانت افروز کے سینے پر گاڑھ دیے
افروز کو دانتوں کی چبھن ہوئی تو اس نے اپنی انگلیاں صائمہ کی کمر پر کھبو دیں دوسری جانب دانش اپنے خوابوں کی شہزادی کے انگ انگ پر بوسے دیے چلا جا رہا تھا 
افروز نے ہاتھ ڈال کر اپنی بیلٹ کھولی اور اپنی پینٹ نیچے کھسکا کر ٹانگوں کے مدد سے اتارنے لگا
صائمہ نے اس سارے کھیل میں پہلی بار ہاتھ ملایا اور افروز کو پینٹ اتارنے میں مدد کی پینٹ اترنے کے بعد صائمہ نے ہی افروز کا انڈرویر بھی اتار دیا اب جیسے ہی صائمہ نے افروز کا نرم و گداز اپنے پیٹ پر محسوس کیا اسے یہ گونہ سکون کا احساس ہوا 
وہ اس سے بہت کھیلتی تھی اس سے پیار کرتی اور لاڈ لڈاتی تھی افروز نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کے نیچے کی طرف دھکیلا چونکہ وہ بیڈ کے کنارے پر تھے اس لیے صائمہ اپنی ہپس اوپر اٹھا کر سکڑتی ہوئی افروز کے پیٹ تک پہنچی 
صائمہ نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور زبان پھیرنے لگی
دانش صائمہ کی بریزیر کی ہک پہلے ہی کھول چکا تھا اب وہ اسکے جسم پر جھول رہی تھی اب اسکی اٹھی ہوئی ہپس سے فاہدہ اٹھا اور اپنی زبان صائمہ  کی ٹانگوں کے عین درمیان پھیرنا شروع کی صائمہ کو اب بہت مزہ بھی آ رہا تھا وہ اس وقت دو ہاتھوں میں کھیل رہی تھی 
جب صائمہ مزے میں ڈوب کر انتہاؤں کو چھونے لگی تو فورا سیدھے ہو کر افروز کے اوپر لیٹ گئی 
یہ پہلی بار تھا جب اس نے دانش کی طرف بھرپور نظروں سے دیکھا تھا
جو کہ پینٹ نیچے گرائے اس کے سامنے کھڑا تھا صائمہ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے دانش نے آگے بڑھ کر اسکی ٹانگیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیں  اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بہت آہستگی سے اندر ڈالا کچھ سیکنڈ تک اندر ہی روکے رکھا پھر باہر نکال کر ایک زوردار جھٹکا مارا
صائمہ کی چیخ کمرے میں بلند ہوئی 
اب کمرے میں وہ تینوں تھے اور صائمہ کی چیخیں تھیں۔۔
[+] 1 user Likes hirarandi's post
Like Reply
Do not mention / post any under age /rape content. If found Please use REPORT button.




Users browsing this thread: 1 Guest(s)