18-05-2020, 04:16 AM
عمارہ جس گھر میں پلی پڑھی تھی یہ نہ تو کوئی خاص مذہبی گھرانہ تھا جہاں بہت زیادہ سختی برتی جا رہی ہو اور نہ ہی آزاد خیال کہ جو مرضی کرو اور کوئی پوچھ تاچھ نہیں
والد کام پر جاتے شام کو گھر لوٹ آتے اماں گھریلو کاموں میں مصروف رہتیں یونہی زندگی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی عمارہ کی بھی بہت زیادہ سہیلیاں نہیں تھیں سکول کا سب کچھ سکول میں رہ جاتا اور گھر آ کر والدہ کے ساتھ گھربکے کاموں میں ہاتھ بٹا دیتی البتہ ابا جی کے لیے رات کی چائے عمارہ نے ہی بنانی ہوتی تھی
سکول ختم ہوا تو نہ عمارہ نے کسی کالج میں جانے کے لیے تگ و دو کی اور نہ ہی گھر میں کسی نے پوچھا کہ آگے کی پڑھائی کا کیا کرنا ہے یوں وہ کالج بھی نہ جاسکی
ماں نے عمارہ کو گھر کے کاموں میں مشغول کر لیا اور جیسے ہی پہلا رشتہ آیا مناسب دیکھ بھال کے بعد عمارہ کے لیے فوراً ہاں کردی
شادی کے بعد بھی عمارہ کی زندگی کچھ خاص نہیں بدلی خاوند اچھا تھا خیال رکھتا تھا بہت زیادہ نکتہ چینی بھی نہیں کرتا تھا معمول کی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن اچانک ایک بھونچال سا آ گیا
ہوا یوں کہ ایک قریبی عزیز کی مہندی کھ موقع پر عمارہ پیچھے سٹور روم میں کپڑے بدلنے گئی سٹور روم کا دروازہ نہیں تھا اس لیے عمارہ نے بلب آن نہیں کیا قمیض اتار کر ایک طرف رکھی ہی تھی کہ اچانک اسکا نندوئی کمرے میں داخل ہوا وہ ہڑبڑا کر رہ گئی اس اچانک آمد نے جیسے اسکے اوسان ہی خطا کردیئے
دوسری طرف عمارہ کے نندوئی کا بھی یہی حال تھا وہ چند ثانیے مبہوت کھڑا رہا اس سے پہلے کہ عمارہ سنبھلتی اس نے آگے بڑھ کر عمارہ کی گردن کے پیچھے ہاتھ ڈال کر بالوں سے پکڑا گردن پر بوسہ دیا ساتھ ہی اسکی گال ہر اپنے ہونٹ رکھ دیئے
عمارہ نے جھٹکے سے اس سے اپنا آپ چھڑایا اور قمیض اٹھا کر پہننے لگی اتنی دیر میں اسکا نندوئی بھی تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا جب عمارہ دوبارہ حال میں آئی تو اس کے اوسان خطا تھے وہ قطعی اجنبیت سے سب پر نظریں دوڑا رہی رھی جیسے اسے اپنے چور کی تلاش ہو کہیں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ دیکھ کر وہ طمانیت سے ایک طرف صوفے ہر بیٹھ گئی اسکی آنکھیں بند تھیں اور وہی منظر اس کی نظروں میں بار بار گھوم رہا تھا جو چند لمحے پہلے اسکے ساتھ پیش آیا تھا
اسکے خاوند تو کلین شیو تھے البتہ کچھ دیر پہلے اپنے گالوں پر کسی اجنبی کی مونچھوں کی چبھن اب اسے بھلی محسوس ہو رہی تھی عمارہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ اپنی گردن اور گال پر پھیرا
وقت گزرتا رہا اور وہ کسی اجنبی کے لمس کی پیاسی ہوتی چلی گئی اسے رہ رہ کر وہ منظر یاد آتا مونچھ کی وہ چبھن اسے کہیں تسکین نہ لینے دیتی
جہاں وہ لوگ پہلے رہائش پزیر تھے چھت پر جانے کا موقع بہت کم ملتا البتہ اب وہ نئے مکان میں شفٹ ہو گئے جہاں وہ اکثر چھت ہر ٹہلنے کی غرض سے چلی جاتی یہیں سے اسکی زندگی کا نیا رخ شروع ہوا
ہر مرد کے اندر ایک بھیڑیا چپھا ہوتا ہے اور ہر عورت کے اندر ایک طوائف بات صرف اس طوائف کو تلاشنے کی ہے
آصف عمارہ کا پڑوسی تھا جو ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا تھا چھت پر ٹہلتے ٹہلتے کبھی کبھار عمارہ کی نظر آصف پر پڑتی اسکی مونچھیں دیکھ کر غیر ارادی اپنی گردن پر ہاتھ پھیر دیتی
آصف شاید گھر میں کسی کے سامنے سگریٹ نہیں پیتا تھا کیونکہ وہ اکثر و بیشتر تھوڑی دیر کے لیے چھت پر آتا سگریٹ ختم کرکے واپس نیچے چلا جاتا
اکثر ایسا بھی ہوتا دونوں کی نظریں چار ہوتیں اور دونوں ہی ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد ادھر ادھر مشغول ہو جاتے آصف اور عمارہ کے گھروں کی چھت ساتھ ملتی تھیں جن کے درمیان صرف ایک چار انچ کی دیوار حائل تھی ایک دن جب عمارہ نے آصف کی طرف دیکھا تو آصف نے بھی دیکھنے کے بعد اپنی نظریں عمارہ پر گاڑھ دیں وہ کافی وقت ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر دونوں ہی مسکرا دیے عمارہ تو اچانک نیچے بیٹھ گئی البتہ آصف اسکے بلکل قریب دیوار کی دوسری طرف آ گیا پڑوسی ہونے کے ناطے نام تو وہ پہلے ہی ایک دوسرے کے جانتے تھے آصف نے عمارہ کو کافی آوازیں دیں لیکن عمارہ اپنی جگہ سے نہ اٹھ سکی
اس سے اگلے دن آصف اسکے قریب آ گیا اور پوچھنے لگا کل میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں تھیں مجھے جواب کیوں نہیں دیا
عمارہ شرما کر رہ گئی
کچھ نہیں
ایسی تو کوئی بات نہیں
وہ شرماتے شرماتے بولی
یہاں سے انکی یہ دوریاں نزدیکیوں میں بدلتی گئیں
یہ ایک چاند رات تھی جب آصف نے اسے گلی میں آنے کا اشارہ کیا اور کہا میں تمہیں پیار کرنا چاہتا ہوں اسکے بدلے میں تمہیں دس ہزار روپے بھی دوں گا عمارہ کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی پھر غصہ بھی آیا لیکن کچھ سوچ کر اس نے حامی بھر لی اور کہا ٹھیک ہے گلی میں آو
دراصل وہ اپنے لیے ایک سوٹ خریدنا چاہتی تھی عید کی شاپنگ تو وہ پہلے ہی کرچکے تھے لیکن بعد میں اسے ایک سوٹ بہت پسند آیا تھا اور وہ اس خوف سے اسے ہر حال میں خریدنا چاہتی تھی یہ نہ ہو کوئی اور لے جائے اور بعد میں وہ ہاتھ ملتی رہ جائے
آصف جب گلی میں آیا تو عمارہ پہلے سے وہاں موجود تھی جیب سے کچھ پیسے نکالتے ہوئے اس نے عمارہ کی طرف بڑھائے عمارہ ایک ہاتھ سے پیسے پکڑ رہی تھی آصف نے اسکا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور انتہائی پھرتی سے اسکی گردن پر بوسہ دے ڈالا اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھرے اور گردن پر بوسہ دیتے دیتے پہلے دونوں گالوں پر بوسہ دیا پھر اسکے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈالتے ہوئے اسکے ہونٹ کاٹنے لگا
اسکے ہونٹوں کی گرمی عمارہ کی روح میں اترتی چلی گئی
یہ دوسرا موقع تھا جب عمارہ نے اپنی گردن پر مونچھوں کی چبھن محسوس کی وہ جلدی سے پلٹی اور گھر میں گھس گئی عید کا پورا دن اس نے جیسے پاگلوں کی طرح گزارا وہ جب بھی ان مونچھوں کی چبھن کو محسوس کرتی اس کا لوں لوں کھڑا ہو جاتا اور عید کے چوتھے دن ہی اسکی برداشت جواب دے گئی
وہ چھت پر چڑھ کر آصف کا انتظار کرنے لگی جیسے ہی آصف اسے چھت پر آتا دکھائی دیا وہ دیوار کے ساتھ لگ کر اسکی طرف دیکھنے لگی
آپ یہاں آہیں ہماری چھت پر اس نے آصف کو ہلکے سے آواز دی اور خود نیچے چلی گئی جب واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں پیک شدہ ایک نیا سوٹ تھا جبکہ آصف انکی چھت پر بنے چھوٹے سے کمرے کی دہلیز پر کھڑا تھا
یہ سوٹ میں لائی تھی آپکی طرف سے اپنے لیے اس نے آصف کو سوٹ دکھاتے ہوئے مسکرا کر کہا
ہاں بہت پیارا ہے لیکن پہنا تو تم نے ہے نہیں ابھی تک
ابھی پہن کر دکھاوں۔ وہ یہ کہہ کر اسکے جسم کو چھوتی ہوئی چھوٹے کمرے میں گھسی اور آصف بھی ساتھ ہی اندر چلا گیا
وہ ہنسی نہیں ناں آپ تو باہر جائیں پہلے
نہیں نہیں میں آنکھیں بند کرتا ہوں تم یہیں پہن لو
وہ پھر ہنسی پکا آنکھیں کھولو گے تو نہیں
پکا ۔۔ آصف نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا
عمارہ نے جلدی سے قمیض اتاری اور اس نئے سوٹ کی پیکنگ کھولنے لگی۔
آصف میں نے قمیض اتاری ہوئی ہے آنکھیں نہیں کھولنا۔۔ اس سے پہلے کہ عمارہ قیمض کو اپنی آستینوں پر چڑھاتی آصف نے آنکھیں کھول دیں عمارہ جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی آپ نے کیوں دیکھ لیا مجھے
میں تمہیں دیکھے بنا نہیں رہ سکتا
میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں
میں تمہارے اندر سمونا چاہتا ہوں آصف نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا اسے اپنے سینے کے ساتھ لگایا اور اپنا منہ عمارہ کی گردن پر ٹکا دیا
آصف کا ایک ہاتھ عمارہ کی کمر پر تھا دوسرا ہاتھ اسکے بالوں میں ڈالا گردن پر پیار کرتے کرتے اسکی چھاتی پر اپنی زبان پھیرنے لگا آصف کی مونچھ عمارہ کے تن بدن میں لگی آگ کو بھڑکا رہی تھی اسی چبھن کی تو وہ پیاسی تھی آصف کی قمیض کا اوپری بٹن کھلا ہوا تھے جس سے اسکی چھاتی کے کچھ بال نظر آرہے تھے عمارہ نے اس کھلے بٹن سے آصف کی چھاتی پر ہاتھ پھیرا
آصف نے جلدی سے باقی بٹن کھول کر قمیض اتار پھینکی آصف نے عمارہ کو بھرپور کلاواہ مارا پیچھے سے بریزیر کی ہک کھولی اور اسے اپنے ساتھ بھنچ لیا
اب وہ اسے پاگلوں کی طرح چوم چاٹ رہا تھا کبھی اسکے پستان چوستا کبھی نیچے ہو کر پیٹ پر زبان پھیرتا جبکہ عمارہ نشے میں چور اسکی ہر ہر حرکت کو اپنی روح کے اندر سمو رہی تھی
اب کی بار آصف اسکے پیٹ پر زبان پھیرتے ہوئے بیٹھتا چلا گیا ناف تک پہنچتے پہنچتے اس نے عمارہ کی شلوار نیچے کی طرف سرکائی جس پر عمارہ نے ہلکا سا بھی احتجاج نہ کیا آصف نے جیسے ہی اسکی گیلی ہوتی شبابی پر زبان رکھی وہ جھر جھری لے کر رہ گئی
یہ پہلا موقع تھا جب کسی اجنبی نے وہاں اپنی زبان رکھی تھی جہاں تک ممکن ہو سکتا آصف اسکے اندر زبان ڈال کر اپنی زبان کو داہیں باہیں اور نیچے تیز تیز حرکت دے رہا تھا
عمارہ کو اپنا آپ نچڑتا محسوس ہوا وہ نیچے جھکی آصف کو بہت کمزور ہاتھوں سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی آصف اوپر اٹھا عمارہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی شلوار تک لے گیا عمارہ نے آصف کا ہاتھ میں پکڑ کر محسوس کیا
یہ اسکے خاوند کی نسبت بڑا بھی تھا اور موٹا بھی زیادہ تھا اب کی بار آصف نے اپنا ازاربند کھول کر شلوار نیچے گرا دی اور عمارہ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے اسکے ہونٹوں کو کاٹنا شروع کردیا
عمارہ ہولے ہولے سے سسک رہی تھی آصف کا نکلتا ہوا لیس دار مادہ جب اسکے ہاتھ پر لگا تو اس نے اسی پر مل کر پھیلا دیا آصف نے عمارہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسکے ہونٹ چھوڑے اسے نیچے کی طرف دبایا عمارہ تھوڑا سا نیچے ہوئی اور آصف کی چھاتی پر پیار دینے لگی اب کی بار آصف نے اسے مزید سختی سے دبایا تاکہ وہ نیچے بیٹھ کر اسکا چاٹ سکے عمارہ نیچے کو جھک تو گئی لیکن آصف کی ناف تک پہنچتے پہنچتے ایک دم گھوم گئی
عمارہ کی دوسری طرف چارپائی پڑی تھی جس کے اوپر بستر اور دوسرا سامان ایک چادر میں ڈھکا پڑا تھا جوکہ کافی اونچائی تک چلا گیا تھا عمارہ کے بھاری چوتڑ آصف کے سامنے تھے آصف نے اپنا لیس دار مادہ چھوڑتا اکڑو عمارہ کی گل گل گلاب ہوتی گلابو کے اوپر ٹکایا اور عمارہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انتہائی آہستگی سے اسے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا وہ جیسے جیسے عمارہ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا عمارہ کی پنکھڑیاں چرتی ہوئی آصف کے شباب کو اپنے اندر جگہ دیے جا رہی تھیں حتی کے آصف کا پورے کے پورا اندر تک چلا گیا دونوں کے بدن فضا میں گرمی اور ہوس سے بھرپور مشک بکھیر رہے تھے وہیں ان کے جوبن اپنی اپنی گرمی ایک دوسرے کے اوپر انڈیل رہے تھے
آصف نے پورا اندر ڈال لینے کے بعد اسے کچھ دیر وہیں چھوڑا پھر اسی آہستگی کے ساتھ واپس باہر نکالا جس آہستگی سے اندر ڈالا تھا
عمارہ نے اپنا جسم سر سے اونچی ہوتی سامان سے لدی چارپائی پر بلکل ڈھیلا چھوڑ رکھا تھا اب کی بار آصف نے اپنا ہاتھ میں پکڑ اسکی پنکھڑیوں کے اوپر مہکتے دانے پر گھمایا اور بجلی کی سی تیزی سے پورے کا پورا اندر گھسیڑ دیا عمارہ اس کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھی جس آہستگی کے ساتھ آصف نے ایک بار اندر باہر کیا تھا عمارہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی اگلی بار یہ شدید جھٹکے میں اندر آئے گا بے ساختہ اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئی
آصف نے عمارہ کو بلکل بھی موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے جسم کو سکیڑ کر سخت کر سکے تاکہ اسے جھٹکوں کی شدت سہنے میں آسانی ہو اسی اثنا میں آصف نے عمارہ کے بالوں کو زور سے پکڑا اور اسی شدت سے اسے آگے پیچھے کھینچنے لگا جتنی شدت سے اس نے جھٹکا مارا تھا
عمارہ لقکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے وجود پر کنٹرول نہیں حاصل کر پارہی تھی کیونکہ ہر جھٹکا پہلے کی نسبت شدید تر ہوتا عمارہ سے صرف اتنا ہو پایا کہ اس نے سامان کے اوپر چادر میں اپنی مٹھیاں بھنچ لیں اسے خوف بھی تھا اور کوشش کر رہی تھی اسکی آواز اتنی بلند نہ ہو کہ اڑوس پڑوس میں کسی اور کے کانوں سے جا ٹکرائے
پھر ایک آخری شدید تر جھٹکے کے بعد اسکے جسم کے اوپر مزید جھٹکے اچانک بند ہو گئے آصف نے اسے اپنے پورے زور کے ساتھ دبا لیا تھا اور اب کی بار اسکے اندر جھٹکے لگ رہے تھے آصف کا نکلتا ہوا سارا ابال اسکی اوری کی دیوار پر لگتا جس سے اسے اپنے اندر جھٹکے محسوس ہو رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی بلکل نچڑ کر رہ گئی
عمارہ نے اپنا جسم بلکل ڈھیلا چھوڑ دیا اپنے بازو نیچے کی طرف لڑھکا دیے اور ایک لمبی آہ بھر کر زور زور سے سانس لینے لگی۔
اب عمارہ کے اپنے خاوند سے تین بیٹے ہیں اور آصف کی اس محبت کی نشانی ایک بیٹی ہے
والد کام پر جاتے شام کو گھر لوٹ آتے اماں گھریلو کاموں میں مصروف رہتیں یونہی زندگی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی عمارہ کی بھی بہت زیادہ سہیلیاں نہیں تھیں سکول کا سب کچھ سکول میں رہ جاتا اور گھر آ کر والدہ کے ساتھ گھربکے کاموں میں ہاتھ بٹا دیتی البتہ ابا جی کے لیے رات کی چائے عمارہ نے ہی بنانی ہوتی تھی
سکول ختم ہوا تو نہ عمارہ نے کسی کالج میں جانے کے لیے تگ و دو کی اور نہ ہی گھر میں کسی نے پوچھا کہ آگے کی پڑھائی کا کیا کرنا ہے یوں وہ کالج بھی نہ جاسکی
ماں نے عمارہ کو گھر کے کاموں میں مشغول کر لیا اور جیسے ہی پہلا رشتہ آیا مناسب دیکھ بھال کے بعد عمارہ کے لیے فوراً ہاں کردی
شادی کے بعد بھی عمارہ کی زندگی کچھ خاص نہیں بدلی خاوند اچھا تھا خیال رکھتا تھا بہت زیادہ نکتہ چینی بھی نہیں کرتا تھا معمول کی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن اچانک ایک بھونچال سا آ گیا
ہوا یوں کہ ایک قریبی عزیز کی مہندی کھ موقع پر عمارہ پیچھے سٹور روم میں کپڑے بدلنے گئی سٹور روم کا دروازہ نہیں تھا اس لیے عمارہ نے بلب آن نہیں کیا قمیض اتار کر ایک طرف رکھی ہی تھی کہ اچانک اسکا نندوئی کمرے میں داخل ہوا وہ ہڑبڑا کر رہ گئی اس اچانک آمد نے جیسے اسکے اوسان ہی خطا کردیئے
دوسری طرف عمارہ کے نندوئی کا بھی یہی حال تھا وہ چند ثانیے مبہوت کھڑا رہا اس سے پہلے کہ عمارہ سنبھلتی اس نے آگے بڑھ کر عمارہ کی گردن کے پیچھے ہاتھ ڈال کر بالوں سے پکڑا گردن پر بوسہ دیا ساتھ ہی اسکی گال ہر اپنے ہونٹ رکھ دیئے
عمارہ نے جھٹکے سے اس سے اپنا آپ چھڑایا اور قمیض اٹھا کر پہننے لگی اتنی دیر میں اسکا نندوئی بھی تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا جب عمارہ دوبارہ حال میں آئی تو اس کے اوسان خطا تھے وہ قطعی اجنبیت سے سب پر نظریں دوڑا رہی رھی جیسے اسے اپنے چور کی تلاش ہو کہیں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ دیکھ کر وہ طمانیت سے ایک طرف صوفے ہر بیٹھ گئی اسکی آنکھیں بند تھیں اور وہی منظر اس کی نظروں میں بار بار گھوم رہا تھا جو چند لمحے پہلے اسکے ساتھ پیش آیا تھا
اسکے خاوند تو کلین شیو تھے البتہ کچھ دیر پہلے اپنے گالوں پر کسی اجنبی کی مونچھوں کی چبھن اب اسے بھلی محسوس ہو رہی تھی عمارہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ اپنی گردن اور گال پر پھیرا
وقت گزرتا رہا اور وہ کسی اجنبی کے لمس کی پیاسی ہوتی چلی گئی اسے رہ رہ کر وہ منظر یاد آتا مونچھ کی وہ چبھن اسے کہیں تسکین نہ لینے دیتی
جہاں وہ لوگ پہلے رہائش پزیر تھے چھت پر جانے کا موقع بہت کم ملتا البتہ اب وہ نئے مکان میں شفٹ ہو گئے جہاں وہ اکثر چھت ہر ٹہلنے کی غرض سے چلی جاتی یہیں سے اسکی زندگی کا نیا رخ شروع ہوا
ہر مرد کے اندر ایک بھیڑیا چپھا ہوتا ہے اور ہر عورت کے اندر ایک طوائف بات صرف اس طوائف کو تلاشنے کی ہے
آصف عمارہ کا پڑوسی تھا جو ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا تھا چھت پر ٹہلتے ٹہلتے کبھی کبھار عمارہ کی نظر آصف پر پڑتی اسکی مونچھیں دیکھ کر غیر ارادی اپنی گردن پر ہاتھ پھیر دیتی
آصف شاید گھر میں کسی کے سامنے سگریٹ نہیں پیتا تھا کیونکہ وہ اکثر و بیشتر تھوڑی دیر کے لیے چھت پر آتا سگریٹ ختم کرکے واپس نیچے چلا جاتا
اکثر ایسا بھی ہوتا دونوں کی نظریں چار ہوتیں اور دونوں ہی ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد ادھر ادھر مشغول ہو جاتے آصف اور عمارہ کے گھروں کی چھت ساتھ ملتی تھیں جن کے درمیان صرف ایک چار انچ کی دیوار حائل تھی ایک دن جب عمارہ نے آصف کی طرف دیکھا تو آصف نے بھی دیکھنے کے بعد اپنی نظریں عمارہ پر گاڑھ دیں وہ کافی وقت ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر دونوں ہی مسکرا دیے عمارہ تو اچانک نیچے بیٹھ گئی البتہ آصف اسکے بلکل قریب دیوار کی دوسری طرف آ گیا پڑوسی ہونے کے ناطے نام تو وہ پہلے ہی ایک دوسرے کے جانتے تھے آصف نے عمارہ کو کافی آوازیں دیں لیکن عمارہ اپنی جگہ سے نہ اٹھ سکی
اس سے اگلے دن آصف اسکے قریب آ گیا اور پوچھنے لگا کل میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں تھیں مجھے جواب کیوں نہیں دیا
عمارہ شرما کر رہ گئی
کچھ نہیں
ایسی تو کوئی بات نہیں
وہ شرماتے شرماتے بولی
یہاں سے انکی یہ دوریاں نزدیکیوں میں بدلتی گئیں
یہ ایک چاند رات تھی جب آصف نے اسے گلی میں آنے کا اشارہ کیا اور کہا میں تمہیں پیار کرنا چاہتا ہوں اسکے بدلے میں تمہیں دس ہزار روپے بھی دوں گا عمارہ کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی پھر غصہ بھی آیا لیکن کچھ سوچ کر اس نے حامی بھر لی اور کہا ٹھیک ہے گلی میں آو
دراصل وہ اپنے لیے ایک سوٹ خریدنا چاہتی تھی عید کی شاپنگ تو وہ پہلے ہی کرچکے تھے لیکن بعد میں اسے ایک سوٹ بہت پسند آیا تھا اور وہ اس خوف سے اسے ہر حال میں خریدنا چاہتی تھی یہ نہ ہو کوئی اور لے جائے اور بعد میں وہ ہاتھ ملتی رہ جائے
آصف جب گلی میں آیا تو عمارہ پہلے سے وہاں موجود تھی جیب سے کچھ پیسے نکالتے ہوئے اس نے عمارہ کی طرف بڑھائے عمارہ ایک ہاتھ سے پیسے پکڑ رہی تھی آصف نے اسکا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور انتہائی پھرتی سے اسکی گردن پر بوسہ دے ڈالا اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھرے اور گردن پر بوسہ دیتے دیتے پہلے دونوں گالوں پر بوسہ دیا پھر اسکے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈالتے ہوئے اسکے ہونٹ کاٹنے لگا
اسکے ہونٹوں کی گرمی عمارہ کی روح میں اترتی چلی گئی
یہ دوسرا موقع تھا جب عمارہ نے اپنی گردن پر مونچھوں کی چبھن محسوس کی وہ جلدی سے پلٹی اور گھر میں گھس گئی عید کا پورا دن اس نے جیسے پاگلوں کی طرح گزارا وہ جب بھی ان مونچھوں کی چبھن کو محسوس کرتی اس کا لوں لوں کھڑا ہو جاتا اور عید کے چوتھے دن ہی اسکی برداشت جواب دے گئی
وہ چھت پر چڑھ کر آصف کا انتظار کرنے لگی جیسے ہی آصف اسے چھت پر آتا دکھائی دیا وہ دیوار کے ساتھ لگ کر اسکی طرف دیکھنے لگی
آپ یہاں آہیں ہماری چھت پر اس نے آصف کو ہلکے سے آواز دی اور خود نیچے چلی گئی جب واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں پیک شدہ ایک نیا سوٹ تھا جبکہ آصف انکی چھت پر بنے چھوٹے سے کمرے کی دہلیز پر کھڑا تھا
یہ سوٹ میں لائی تھی آپکی طرف سے اپنے لیے اس نے آصف کو سوٹ دکھاتے ہوئے مسکرا کر کہا
ہاں بہت پیارا ہے لیکن پہنا تو تم نے ہے نہیں ابھی تک
ابھی پہن کر دکھاوں۔ وہ یہ کہہ کر اسکے جسم کو چھوتی ہوئی چھوٹے کمرے میں گھسی اور آصف بھی ساتھ ہی اندر چلا گیا
وہ ہنسی نہیں ناں آپ تو باہر جائیں پہلے
نہیں نہیں میں آنکھیں بند کرتا ہوں تم یہیں پہن لو
وہ پھر ہنسی پکا آنکھیں کھولو گے تو نہیں
پکا ۔۔ آصف نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا
عمارہ نے جلدی سے قمیض اتاری اور اس نئے سوٹ کی پیکنگ کھولنے لگی۔
آصف میں نے قمیض اتاری ہوئی ہے آنکھیں نہیں کھولنا۔۔ اس سے پہلے کہ عمارہ قیمض کو اپنی آستینوں پر چڑھاتی آصف نے آنکھیں کھول دیں عمارہ جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی آپ نے کیوں دیکھ لیا مجھے
میں تمہیں دیکھے بنا نہیں رہ سکتا
میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں
میں تمہارے اندر سمونا چاہتا ہوں آصف نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا اسے اپنے سینے کے ساتھ لگایا اور اپنا منہ عمارہ کی گردن پر ٹکا دیا
آصف کا ایک ہاتھ عمارہ کی کمر پر تھا دوسرا ہاتھ اسکے بالوں میں ڈالا گردن پر پیار کرتے کرتے اسکی چھاتی پر اپنی زبان پھیرنے لگا آصف کی مونچھ عمارہ کے تن بدن میں لگی آگ کو بھڑکا رہی تھی اسی چبھن کی تو وہ پیاسی تھی آصف کی قمیض کا اوپری بٹن کھلا ہوا تھے جس سے اسکی چھاتی کے کچھ بال نظر آرہے تھے عمارہ نے اس کھلے بٹن سے آصف کی چھاتی پر ہاتھ پھیرا
آصف نے جلدی سے باقی بٹن کھول کر قمیض اتار پھینکی آصف نے عمارہ کو بھرپور کلاواہ مارا پیچھے سے بریزیر کی ہک کھولی اور اسے اپنے ساتھ بھنچ لیا
اب وہ اسے پاگلوں کی طرح چوم چاٹ رہا تھا کبھی اسکے پستان چوستا کبھی نیچے ہو کر پیٹ پر زبان پھیرتا جبکہ عمارہ نشے میں چور اسکی ہر ہر حرکت کو اپنی روح کے اندر سمو رہی تھی
اب کی بار آصف اسکے پیٹ پر زبان پھیرتے ہوئے بیٹھتا چلا گیا ناف تک پہنچتے پہنچتے اس نے عمارہ کی شلوار نیچے کی طرف سرکائی جس پر عمارہ نے ہلکا سا بھی احتجاج نہ کیا آصف نے جیسے ہی اسکی گیلی ہوتی شبابی پر زبان رکھی وہ جھر جھری لے کر رہ گئی
یہ پہلا موقع تھا جب کسی اجنبی نے وہاں اپنی زبان رکھی تھی جہاں تک ممکن ہو سکتا آصف اسکے اندر زبان ڈال کر اپنی زبان کو داہیں باہیں اور نیچے تیز تیز حرکت دے رہا تھا
عمارہ کو اپنا آپ نچڑتا محسوس ہوا وہ نیچے جھکی آصف کو بہت کمزور ہاتھوں سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی آصف اوپر اٹھا عمارہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی شلوار تک لے گیا عمارہ نے آصف کا ہاتھ میں پکڑ کر محسوس کیا
یہ اسکے خاوند کی نسبت بڑا بھی تھا اور موٹا بھی زیادہ تھا اب کی بار آصف نے اپنا ازاربند کھول کر شلوار نیچے گرا دی اور عمارہ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے اسکے ہونٹوں کو کاٹنا شروع کردیا
عمارہ ہولے ہولے سے سسک رہی تھی آصف کا نکلتا ہوا لیس دار مادہ جب اسکے ہاتھ پر لگا تو اس نے اسی پر مل کر پھیلا دیا آصف نے عمارہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسکے ہونٹ چھوڑے اسے نیچے کی طرف دبایا عمارہ تھوڑا سا نیچے ہوئی اور آصف کی چھاتی پر پیار دینے لگی اب کی بار آصف نے اسے مزید سختی سے دبایا تاکہ وہ نیچے بیٹھ کر اسکا چاٹ سکے عمارہ نیچے کو جھک تو گئی لیکن آصف کی ناف تک پہنچتے پہنچتے ایک دم گھوم گئی
عمارہ کی دوسری طرف چارپائی پڑی تھی جس کے اوپر بستر اور دوسرا سامان ایک چادر میں ڈھکا پڑا تھا جوکہ کافی اونچائی تک چلا گیا تھا عمارہ کے بھاری چوتڑ آصف کے سامنے تھے آصف نے اپنا لیس دار مادہ چھوڑتا اکڑو عمارہ کی گل گل گلاب ہوتی گلابو کے اوپر ٹکایا اور عمارہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انتہائی آہستگی سے اسے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا وہ جیسے جیسے عمارہ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا عمارہ کی پنکھڑیاں چرتی ہوئی آصف کے شباب کو اپنے اندر جگہ دیے جا رہی تھیں حتی کے آصف کا پورے کے پورا اندر تک چلا گیا دونوں کے بدن فضا میں گرمی اور ہوس سے بھرپور مشک بکھیر رہے تھے وہیں ان کے جوبن اپنی اپنی گرمی ایک دوسرے کے اوپر انڈیل رہے تھے
آصف نے پورا اندر ڈال لینے کے بعد اسے کچھ دیر وہیں چھوڑا پھر اسی آہستگی کے ساتھ واپس باہر نکالا جس آہستگی سے اندر ڈالا تھا
عمارہ نے اپنا جسم سر سے اونچی ہوتی سامان سے لدی چارپائی پر بلکل ڈھیلا چھوڑ رکھا تھا اب کی بار آصف نے اپنا ہاتھ میں پکڑ اسکی پنکھڑیوں کے اوپر مہکتے دانے پر گھمایا اور بجلی کی سی تیزی سے پورے کا پورا اندر گھسیڑ دیا عمارہ اس کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھی جس آہستگی کے ساتھ آصف نے ایک بار اندر باہر کیا تھا عمارہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی اگلی بار یہ شدید جھٹکے میں اندر آئے گا بے ساختہ اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئی
آصف نے عمارہ کو بلکل بھی موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے جسم کو سکیڑ کر سخت کر سکے تاکہ اسے جھٹکوں کی شدت سہنے میں آسانی ہو اسی اثنا میں آصف نے عمارہ کے بالوں کو زور سے پکڑا اور اسی شدت سے اسے آگے پیچھے کھینچنے لگا جتنی شدت سے اس نے جھٹکا مارا تھا
عمارہ لقکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے وجود پر کنٹرول نہیں حاصل کر پارہی تھی کیونکہ ہر جھٹکا پہلے کی نسبت شدید تر ہوتا عمارہ سے صرف اتنا ہو پایا کہ اس نے سامان کے اوپر چادر میں اپنی مٹھیاں بھنچ لیں اسے خوف بھی تھا اور کوشش کر رہی تھی اسکی آواز اتنی بلند نہ ہو کہ اڑوس پڑوس میں کسی اور کے کانوں سے جا ٹکرائے
پھر ایک آخری شدید تر جھٹکے کے بعد اسکے جسم کے اوپر مزید جھٹکے اچانک بند ہو گئے آصف نے اسے اپنے پورے زور کے ساتھ دبا لیا تھا اور اب کی بار اسکے اندر جھٹکے لگ رہے تھے آصف کا نکلتا ہوا سارا ابال اسکی اوری کی دیوار پر لگتا جس سے اسے اپنے اندر جھٹکے محسوس ہو رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی بلکل نچڑ کر رہ گئی
عمارہ نے اپنا جسم بلکل ڈھیلا چھوڑ دیا اپنے بازو نیچے کی طرف لڑھکا دیے اور ایک لمبی آہ بھر کر زور زور سے سانس لینے لگی۔
اب عمارہ کے اپنے خاوند سے تین بیٹے ہیں اور آصف کی اس محبت کی نشانی ایک بیٹی ہے