18-05-2025, 08:56 PM
صائمہ اپنی سہیلی کے گھر میں سہیلی کے نوکر اور آس پاس کے گھروں کے نوکروں اور ڈرائیورز کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں تھی۔ شام کے دھندلکے چھا چکے تھے اور سارا دن نوکروں کے ساتھ بالکل ننگی ہوکر ننگا پیار کرنے کے باوجود صائمہ کی سیکس کی پیاس برقرار تھی اور صائمہ ان نوکروں کے ساتھ پوری رات بالکل ننگی ہو کر بھرپور ننگا سیکس کرنے کا سوچ کر ایک نئی خوشی محسوس کررہی تھی۔
کچھ ہی دیر پہلے صائمہ کے شوہر نے فون پر صائمہ سے بات کرکے خیریت معلوم کی تھی کیونکہ شام تک گھر سے باہر رہنا صائمہ کا معمول نہیں تھا۔ اسی دوران صائمہ کے شوہر نے صائمہ کو اپنی سہیلی کے پاس خوش محسوس کرتے ہوئے اسے رات اپنی سہیلی کے گھر گزارنے کی اجازت دی تھی جبکہ وہ اس بات سے بالکل بےخبر تھا کہ جب وہ اپنی خوبصورت بیوی سے فون پر بات کررہا تھا تو اسکی پیاری بیوی اپنی سہیلی کی بجائے آٹھ دس انجان نوکروں کے درمیان بالکل ننگی حالت میں موجود تھی اور وہ اس گھر میں اپنی سہیلی اور اسکے گھروالوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکے نوکر اور آس پاس کے نوکروں کے ساتھ دن بھر بالکل ننگی ہوکر ننگا سیکس کرتی رہی تھی۔
جونہی صائمہ کے شوہر نے اسے رات اپنی سہیلی کے گھر گزارنے کی اجازت دی تو صائمہ پوری رات نوکروں کے ساتھ ننگی رہنے کا سوچ کر کھل اٹھی اور نوکر بھی صائمہ کو بالکل ننگی حالت میں اٹھا کر مل کر زور زور سے اوپر اچھالنے لگے۔ اسی دوران ایک ڈرائیور بولا یارو ! آج یہ عورت پوری رات کیلئے ہماری ننگی رانی ہے، تو کیوں نہ اسے کہیں باہر لے جاکر اسکے ساتھ ننگا پیار کریں ؟
یہ آئیڈیا صائمہ سمیت سب کو بہت پسند آیا اور سب لوگ صائمہ کو باہر لے جانے کو تیار ہوگئے۔ کیونکہ ابھی رات شروع ہوئی تھی اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ ابھی رات کا کھانا کھایا جائے اور رات گہری ہونے پر دو عدد ڈرائیورز خاموشی سے اپنی گاڑیاں لے آئیں تاکہ سب لوگ صائمہ کے ساتھ باہر جاسکیں۔ یہ فیصلہ سن کر صائمہ مسکراتی ہوئی اٹھی اور اسی طرح بالکل ننگی حالت میں کچن میں کھانا بنانے چلی گئی۔
صائمہ کی مدد کیلئے دو نوکر بھی کچن میں چلے گئے تاکہ کھانا جلدی تیار ہوجائے۔ کھانا بنانے کے دوران دونوں نوکر صائمہ کے ننگے مموں اور ننگے ہپس سے کھیلتے رہے۔ ویسے بھی ان کے لئے یہ سب ایک خوبصورت خواب سے کم نہیں تھا کہ صائمہ جیسی پڑھی لکھی ، کھاتے پیتے خاندان کی خوبصورت شادی شدہ عورت انکے ساتھ بالکل ننگی ہو کر کچن میں کھانا پکا رہی تھی۔ اس دوران کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب دونوں نوکروں میں سے کسی ایک نے صائمہ کے پیچھے کھڑے ہو کر صائمہ کے ننگے ممے نہ پکڑے ہوں۔ بلکہ دونوں نوکروں نے صائمہ کے ننگے ممے دبا دبا کر لال کر دئیے اور صائمہ بھی مسکرا کر کھانا پکاتے ہوئے درمیان میں اپنے ننگے نپلز نوکروں کے منہ سے لگا لگا کر انہیں ترساتی رہی۔
آخر ان دونوں نوکروں میں سے ایک صائمہ کے ہپس کھول کر چاٹنے لگا اور دوسرا صائمہ کی ننگی پھدی کھول کر اپنی زبان اندر ڈال کر زور زور سے چاٹنے لگا تو صائمہ کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ اپنی آنکھیں بند کر کے آہیں بھرنے لگی۔ ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ صائمہ کا موبائل بجنے لگا۔ صائمہ نے دیکھا تو اس کے شوہر کی کال تھی، مجبوراً صائمہ نے کال ریسیو کرلی البتہ دونوں نوکر صائمہ کی پھدی اور ہپس چاٹتے رہے۔ ہیلو سوئٹ ہارٹ ! مجھے میری نیند کی میڈیسن نہیں مل رہی ، صائمہ کا شوہر اپنی بیوی کی حالت سے بےخبر، چہک کر بولا۔ صائمہ اپنے کلائمکس کے قریب تھی اس لئے بڑی مشکل سے اپنی آواز ضبط کرکے بولی الماری کی چھوٹی والی دراز میں رکھی ہے ڈارلنگ !
اسی دوران ایک نوکر نے اپنی زبان صائمہ کے ہپس میں گھسانے کی کوشش کی تو صائمہ کے منہ سے بےساختہ نکلا “آہ ! جانو آرام سے پلیز ! “۔ یہ سن کر صائمہ کا شوہر حیران ہوکر بولا “کیا ہوا سوئٹ ہارٹ ؟”۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی “ کچھ نہیں ڈارلنگ ! میں تو تمہیں کہہ رہی تھی کہ ذرا آرام سے دیکھو گے تو میڈیسن مل جائے گی”۔ تو اس کا شوہر بولا “وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ابھی تم نے مجھے *جانو* کہا حالانکہ تم مجھے کبھی بھی جانو نہیں کہتی؟ کیا ایک رات اپنی سہیلی کے پاس رہ کر اتنی بدل گئی ہو؟” تو صائمہ سنبھل کر بولی “نہیں نہیں ڈارلنگ ! ایسی کوئی بات نہیں ! تم اب بھی میرے ڈارلنگ ہو”۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے دل میں اپنے شوہر کے بارے میں سوچنے لگی “ انہیں کیا پتہ ! ڈارلنگ اور جانو میں کتنا فرق ہے ! جو پیار جانو میں ہے وہ ڈارلنگ میں کہاں؟ اور جو مزہ ان نوکروں کے ساتھ ننگی ہونے میں ہے، وہ شوہر کے ساتھ معمول کے سیکس میں کہاں؟”۔
دوسری طرف سے صائمہ کے شوہر کی آواز سنائی دی “ اوکے سوئٹ ہارٹ ! میڈیسن مل گئی ہے تھینک یو ! “۔ صائمہ نے اطمینان کا سانس لیا اور اوکے بائے کہتے ہوئے کال بند کردی۔ دونوں نوکر جو صائمہ کو گبھراتے دیکھ کر رک گئے تھے، پریشان ہو کر بولے کیا ہوا رانی ؟ تیرے شوہر کو شک تو نہیں ہوگیا؟ تو صائمہ مسکرا کر بولی “تم لوگوں کی شرارتوں نے تو مروا ہی دیا تھا، وہ تو میرے شوہر کو مجھ پر بہت بھروسہ ہے اس لئے بچت ہو گئی ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی”۔
یہ سنکر دونوں نوکروں نے سکون کا سانس لیا اور مزید وقت ضائع کیے بغیر صائمہ کو کچن کے ریک کے سہارے جھکا دیا۔ ایک نوکر نے صائمہ کے ننگے ہپس میں ہلکا سا تیل لگا کر اپنا تنا ہوا لن صائمہ کے ہپس میں ڈال دیا جبکہ دوسرے نوکر نے اپنا لن صائمہ کے منہ میں ڈال دیا۔ صائمہ بھی مسکرا کر کچن میں ان دونوں نوکروں کے ساتھ بیک وقت Anal sex اور Oral sex کے مزے لینے لگی۔
کچن سے صائمہ کی آہوں کی آوازیں سنکر باقی نوکر بھی وہاں آگئے اور صائمہ کو دونوں نوکروں کے ساتھ سیکس کرتے دیکھ کر ظاہری ناراضگی دکھانے لگے۔ صائمہ کی سہیلی کا نوکر بولا “رانی ! ہم نے تجھے کھانا بنانے بھیجا تھا اور تو ان دونوں کمینوں کو مزے دے رہی ہے؟ “۔ یہ سنکر باقی نوکر بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور بولے “بس رانی ! بہت ہو گیا ! اب تو ہمارے لئے ڈرائنگ روم میں ننگا ڈانس کرے گی اور یہ دونوں کمینے یہاں کھانا بنائیں گے”۔
صائمہ مسکرا کر بالکل ننگی حالت میں نوکروں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئی اور کمرے کے درمیان میں ننگا ڈانس کرنے لگی۔ نوکر صائمہ کے ننگے ٹھمکے دیکھ دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔ صائمہ بھی مسکرا مسکرا کر اپنے ننگے ہپس نوکروں کے سامنے ہلا ہلا کر ننگے ٹھمکے لگاتی رہی اور جھک جھک کر اپنے ننگے ممے نوکروں کے چہروں سے ٹکراتی رہی ! ۔
ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ کچن سے دونوں نوکر کھانا لے آئے۔ لہذا صائمہ کا ننگا ڈانس روک کر سب نے کھانا کھایا البتہ صائمہ کی سہیلی کے نوکر کی فرمائش پر صائمہ نے اپنی پلیٹ میں تمام نوکروں کے سپرمز نکال کر نوکر کے لئے اپنا پیار ثابت کرنے کے لئے اپنی روٹی نوکروں کے سپرمز کے ساتھ لگا کر کھائی اور مسکرا کر بولی “ جانو ! آج میں تمہاری وجہ سے یہ سب انجوائے کررہی ہوں اس لئے تم کہو تو میں تمہارا ننگا لن اپنے گلاس میں دھو کر اس پانی کو بھی پی سکتی ہوں”۔
یہ سنکر صائمہ کی سہیلی کے نوکر نے اٹھ کر مسکراتے ہوئے اپنا ننگا لن صائمہ کے پانی کے گلاس میں ڈبو دیا تو صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا لن اپنی نازک انگلیوں سے گلاس کے اندر ہی رگڑ رگڑ کر صاف کیا اور پھر سب کے سامنے وہی گلاس اٹھا کر سارا پانی پی لیا اور مسکرا کر بولی “جانو ! تمہارے پیار میں یہ سب کچھ معمولی باتیں ہیں ، اگر تم کہو تو میں تمہارے پیار میں آج رات پورے شہر میں بالکل ننگی گھوم سکتی ہوں”۔ تو صائمہ کی سہیلی کا نوکر بولا “ٹھیک ہے رانی ! آج رات تو ہمارے لئے شہر کی سڑکوں پر ننگا ڈانس کرے گی”۔
نوکر کی بات سنکر صائمہ نے اٹھ کر اپنا منہ نوکر کے منہ سے لگا دیا اور اسے kiss کر کے مسکراتے ہوئے اپنا بایاں ممہ نوکر کی طرف کر کے بولی “ جانو ! تم میرے دل میں رہتے ہو ، تمہارے لئے میں اپنا سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں”۔ نوکر نے آگے بڑھ کر صائمہ کا ننگا ممہ منہ میں لے لیا اور زور زور سے چوسنے لگا تو صائمہ بھی اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی سہیلی کے نوکر سے اپنے ننگے ممے چوسوانے لگی اور آہیں بھرنے لگی۔
یہ دیکھ کر ایک ڈرائیور نے صائمہ کے پیچھے سے اپنا آٹھ انچ لمبا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا اور صائمہ کو چودنے لگا۔ اب صائمہ اپنی سہیلی کے نوکر کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے خوبصورت ننگے ممے نوکر سے چوسوا رہی تھی اور دوسری طرف ڈرائیور صائمہ کے پیچھے سے اس کی پھدی میں لن ڈال کر صائمہ کو چود رہا تھا۔ جلد ہی ڈرائیور اور صائمہ کا کلائمکس ہوگیا اور صائمہ اپنے محبوب نوکر کی بانہوں میں سما گئی۔
اب رات گہری ہو چلی تھی اور آس پاس کے اکثر گھروں کی روشنیاں گل ہو چکی تھیں۔ نوکروں کا پورا گروپ اب کھانے سے فارغ ہو چکا تھا اور چند ایک نوکر جو اپنا کام مکمل کرنے کے لئے آس پاس اپنے مالکوں کے گھروں میں گئے تھے، کام ختم کر کے واپس آ چکے تھے۔ تو سب نے فیصلہ کیا کہ اب صحیح وقت ہے صائمہ کو ننگی حالت میں باہر لے جاکر شہر میں گھمانے کا۔اگرچہ تمام نوکروں اور ڈرائیوروں نے اپنے کپڑے پہن لئے تھے تاہم اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ صائمہ کو کپڑے پہنا کر لے جایا جائے یا پھر اسی طرح بالکل ننگا ہی رہنے دیں !
یہ مشکل صائمہ کے محبوب نوکر نے حل کردی جب اس نے کہا “کیوں نہ ہم صائمہ کو صرف بریزئر اور پینٹی پہنا کر لے جائیں ؟ یہ سنُکر سب خوش ہوگئے اور صائمہ سے اس کی رائے پوچھی ؟ تو صائمہ شرما کر اپنی سہیلی کے نوکر کے گلے میں بانہیں ڈال کر مسکراتے ہوئے بولی “ جیسے جانو چاہے ، مجھے کوئی اعتراض نہیں”۔ یہ سنتے ہی نوکروں نے نعرہ لگایا ننگی رانی ! ۔
تبھی صائمہ کی سہیلی کے نوکر نے اپنی مالکن کی الماری سے ایک پینٹی نکال کر صائمہ کو دی (کیونکہ صائمہ صبح نوکر کو سرپرائز دینے کے لئے بغیر پینٹی پہنے صرف شلوار پہن کر آئی تھی) ساتھ ہی صائمہ کی باریک ڈوریوں پرمشتمل فریم نما بریزئر بھی دی جس کا پہننا یا نہ پہننا برابر تھا کیونکہ وہ بریزئر کم اور فریم زیادہ تھی ۔ اس میں کوئی کپڑا استعمال نہیں ہوا تھا بلکہ دونوں مموں کو ایڈجیسٹ کرنے کیلئے باریک پٹیوں کے بنے ہوئے دو عدد دائرے تھے جن میں سے صائمہ کے دونوں ممے مکمل طور پر باہر جھانکتے رہتے تھے۔ اس کا فائدہ صرف اتنا تھا کہ صائمہ کے بھاری مموں کو کھینچ کر ذرا ٹائٹ کر دیتی تھی اور صائمہ اسے پہن کر زیادہ سیکسی لگتی تھی۔
سب تیاری کرنے کے بعد تمام نوکر اور ڈرائیور پہلے سے لائی گئی دو کاروں میں بیٹھ گئے۔ صائمہ صرف بریزئر اور پینٹی پہنے اپنی سہیلی کے نوکر کی گود میں بیٹھ گئی اور دونوں گاڑیاں شہر کی طرف روانہ ہو گئیں۔ سب سے پہلے انہوں نے صائمہ کو اسی حالت میں شہر کی مین سڑک پر اتارا اور کہا کہ جو بھی ایک دو گاڑیاں سڑک پر آئیں ، ان سے قریبی مارکیٹ کا راستہ پوچھنے کے بہانے انہیں اپنے بریزئر میں سے جھانکتے مموں سے کھیلنے کا موقع دے۔
اگرچہ شروع میں صائمہ کو گزرتی ہوئی کاروں کو روکنے میں کچھ شرم محسوس ہوئی لیکن جب پہلے کار سوار آدمی نے بڑے آرام سے اسے راستہ بتایا اور اس کے بریزئر میں سے لٹکتے ہوئے ننگے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر پیار سے دبایا اور جاتے جاتے اپنے موبائل فون سے صائمہ کے ننگے مموں کی ایک تصویر بھی بنائی تو صائمہ کو بھی یہ انوکھا تجربہ بہت اچھا لگا۔
اگلی گاڑی ایک سوزوکی وین تھی جسے ایک لمبی داڑھی والا مولوی ٹائپ شخص چلا رہا تھا۔ اس نے بھی بغیر شور کئے آرام سے صائمہ کو پورا راستہ سمجھایا اور اس دوران صائمہ کے دونوں مموں کو پکڑ کر صائمہ کے ننگے نپلز چوسنے لگا۔ صائمہ بھی اسکی گاڑی کے پاس جھکی رہی اور اسے آرام سے اپنے ننگے ممے چوسنے دئیے لیکن جب اس شخص نے صائمہ کو اپنی وین میں بیٹھنے کی پیشکش کی تو صائمہ نہیں تھینک یو کہہ کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس پر اس مولوی نما آدمی نے جاتے جاتے صائمہ کی پینٹی نیچے کروا کر صائمہ کی ننگی پھدی کی تصویر کھینچ لی۔
اس دوران نوکروں کا گروپ کچھ فاصلے سے سب کاروائی دیکھتا رہا اور اکثر نوکروں نے تو مٹھ مار کر اپنی منی بھی نکال دی۔ یہاں سے نکل کر وہ لوگ صائمہ کو ایک مارکیٹ میں لے گئے جہاں صرف ایک پان سگریٹ کی دکان کھلی تھی اور چند نوجوان لڑکے وہاں کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ نوکروں کی ہدایت کے مطابق یہاں بھی صائمہ نے دکان سے کوک کی ایک بوتل خریدی اور اسی طرح ان لڑکوں سے قریبی پیٹرول پمپ کا راستہ پوچھا۔ لڑکوں نے راستہ بتانے کے دوران صائمہ کی پینٹی نیچے کرکے صائمہ کی ننگی پھدی دیکھی اور اندر انگلیاں ڈال کر صائمہ سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی کی۔
صائمہ یہ سب مسکرا کر کرواتی رہی اور ایک لڑکے کو تو اپنے ننگے ممے چومنے کا بھی موقع دیا۔ جب لڑکوں نے اسے رنڈی سمجھ کر ساتھ چلنے کو کہا تو صائمہ نے مسکرا کر انگریزی میں انہیں بتایا کہ I am married and I am doing it just to enjoy myself. لڑکے بھی کاروں میں موجود ڈرائیوروں اور نوکروں کا گروپ دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔
وہاں سے روانہ ہو کر صائمہ نے نوکروں سے ان کی اگلی فرمائش پوچھی تو ان کا جواب سن کر ایک لمحے کے لئے تو صائمہ خود بھی گھبرا گئی کیونکہ فرمائش صائمہ کے محبوب نوکر نے کی تھی اور تھی بھی انتہائی خطرناک۔ دراصل نوکر نے فرمائش کی تھی کہ صائمہ اپنی بریزئر اور پینٹی اتار کر بالکل ننگی ہو کر ان سب کو اپنے گھر لے کر جائے اور اپنے گھر کے لان میں ان کے ساتھ بالکل ننگی ہو کر سیکس کرے !
پلان انتہائی خطرناک تھا اور اگر یہ فرمائش صائمہ کے فیورٹ نوکر نے نہ کی ہوتی تو صائمہ صاف انکار کر دیتی مگر نوکر نے اپنی فرمائش کو صائمہ کے پیار کا امتحان قرار دیا تو صائمہ اس پر بھی راضی ہو گئی۔ لہذا دونوں کاریں صائمہ کی گائیڈنس میں اس کے گھر کی سٹریٹ میں پہنچ گئیں۔ آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد صائمہ اور اس کا محبوب نوکر کار سے اتر کر صائمہ کے گھر کا گیٹ کھول کر گھر کے لان میں پہنچ گئے۔ صائمہ لباس کی قید سے آزاد تھی جبکہ نوکر نے پورے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ لان کے درمیان میں پہنچ کر صائمہ مسکراتے ہوئے لان میں موجود ایک کرسی پر جھک گئی اور اپنی ننگی پھدی اور ننگے ہپس نوکر کی طرف کرکے مسکرانے لگی۔
نوکر صائمہ کا سیکسی انداز دیکھ کر جوش میں آگیا اور جھک کر پیچھے سے صائمہ کی گلابی پھدی چاٹنے لگا۔ صائمہ بھی اپنی آنکھیں بند کر کے آہیں بھرنے لگی۔ جلد ہی صائمہ کا کلائمکس ہوگیا تو نوکر نے اپنا لن نکال کر صائمہ کی گیلی پھدی میں ڈال دیا۔ صائمہ بھی جوش وخروش سے نوکر کا لن اپنی پھدی میں لیکر اپنے ہی گھر کے لان میں زوروں سے چووانے لگی جبکہ باقی تمام نوکر اور ڈرائیور صائمہ کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے اور اپنے لن نکال کر اپنی اپنی مٹھ مارنے لگے۔
ایک ڈرائیور نے آگے بڑھ کر اپنا لن صائمہ کے خوبصورت ہونٹوں سے لگا دیا تو صائمہ اس کا پورا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اسی دوران نوکر نے صائمہ کی پھدی میں اپنے سپرمز نکال دئیے تو پاس کھڑے دوسرے نوکر نے اپنا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا۔ اس طرح باری باری سارے نوکروں اور ڈرائیورز نے صائمہ کے ساتھ اس کے اپنے گھر کے لان میں ننگا سیکس کیا اور صائمہ کے ساتھ ننگی تصویریں بنوائیں۔
آخر جب صبح کے آثار نظر آنے لگے تو صائمہ گھبرا کر بولی جانو ! اب بہت ہو گیا ! اب اگر کوئی جاگ گیا تو بہت مشکل ہو جائے گی، ویسے بھی میں ابھی تمہارے پیار کو کھونا نہیں چاہتی ! اس لئے بہتر ہے کہ اب ہم واپس چلیں ! ۔ صائمہ کی بات سن کر اس کے محبوب نوکر نے ایک آخری فرمائش کردی ۔ وہ بولا ٹھیک ہے رانی لیکن پہلے تو اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے میرے ساتھ بالکل ننگی ہوکر ایک تصویر کھینچوائے گی پھر ہم سب واپس چلیں گے۔
یہ سن کر صائمہ بہت گھبرائی اور بولی جانو بہت مشکل فرمائش ہے تمہاری ! ہو سکتا ہے کھڑکی کا پردہ کھلا ہو ؟ اور ہو سکتا ہے اندر سے میرا شوہر مجھے تمہارے ساتھ بالکل ننگا دیکھ لے ؟ مگر نوکر نہ مانا۔ آخر صائمہ کو ہی ہار ماننی پڑی اور وہ نوکر کو لیکر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس پہنچ گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ کھڑکی کا پردہ ہٹا ہوا تھا اور کمرے میں لیمپ کی مدھم روشنی میں بیڈ پر صائمہ کا شوہر سو رہا تھا۔ وہ اس حقیقت سے بےخبر تھا کہ اس کی بیوی اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ کھڑکی کے باہر بالکل ننگی کھڑی اسے دیکھ رہی ہے ۔
نوکر نے مسکرا کر صائمہ کا ایک ننگا ممہ پکڑ کر دبایا اور پوچھا رانی ! کیسا لگ رہا ہے ؟ نوکر کا ہاتھ اپنے ننگے ممے پر محسوس کرتے ہی صائمہ کے ننگے جسم میں نوکر کے پیار کا کرنٹ دوڑنے لگا اور وہ نوکر کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر اسے ایک بھرپور kiss کرکے بولی جانو ! اب بھی کیا کوئی کسر رہ گئی ہے کہ میں تمہارے لئے اپنا پیار ثابت کروں ؟ تو نوکر صائمہ کو اپنا موبائل پکڑا کر بولا رانی میں پیچھے سے تیرے ممے پکڑوں گا اور تو ہم دونوں کے پیار کی سیلفی لے گی ! تو صائمہ نے مسکرا کر نوکر کا موبائل لیا اور سیلفی لینے لگی تو نوکر نے صائمہ کے پیچھے سے ہاتھ ڈال کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے ۔ اسی پوز میں صائمہ نے نوکر کے ساتھ اپنی ننگی سیلفیاں بنائیں اور موبائل نوکر کو دے کر بولی جانو پلیز اب واپس چلو !
صائمہ کی گھبراہٹ دیکھ کر نوکر مسکرایا اور اس نے صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر کھڑکی کی طرف کر کے زور سے دبائے تو صائمہ کے ننگے نپلز سے دودھ کی دھاریں نکل کر کھڑکی کے شیشے پر قطروں کی صورت میں بہنے لگیں تو نوکر مسکرا کر صائمہ کی طرف دیکھ کر بولا رانی ! کل دن میں تیرے دودھ کی دھاروں کے یہ نشان تجھے ہمارے پیار کی یاد دلائیں گے۔ صائمہ نے نوکر کا ہاتھ پکڑا اور اسے زبردستی کھینچ کر گیٹ کی طرف چل پڑی ! اب دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا اور اخبار والے کوٹھیوں میں اخبار پھینک رہے تھے۔
صائمہ اسی طرح بالکل ننگی ہی جلدی سے نوکروں کے ساتھ کار میں بیٹھی اور دونوں کاریں تیزی سے صائمہ کی سہیلی کے گھر کی طرف روانہ ہو گئیں !
صبح کی روشنی آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ دونوں کاریں تیزی سے صائمہ کی سہیلی کے گھر کی طرف واپس جارہیں تھیں۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے صائمہ کے محبوب نوکر سمیت کئی نوکر اور ڈرائیورز اونگھ رہے تھے۔ البتہ ساری رات نوکروں اور ڈرائیورز کے ساتھ ننگا سیکس کرنے کے باوجود صائمہ کو تھکن محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہ اپنے اندر ایک نئی تازگی اور سیکس کی چاہت محسوس کررہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ایک نئی نویلی دلہن ہے اور اپنے ہنی مون کو انجوائے کررہی ہے۔
نوکر کے پیار نے صائمہ کو ایک بہت ہی خوبصورت اور جوانی سے بھرپور احساس دیا تھا اور وہ یہ حقیقت بالکل بھول چکی تھی کہ وہ تین بچوں کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف اور وفادار بیوی بھی ہے جسے اپنے شوہر سے محبت تھی اور جسے پچھلے دو دنوں کے واقعات سے پہلے کسی غیر مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ البتہ اس وقت وہ بالکل ننگی حالت میں انجان نوکروں اور ڈرائیوروں کے درمیان کار میں اپنی سہیلی کے نوکر کی گود میں بیٹھی اسی سہیلی کے گھر واپس جارہی تھی اور صائمہ کو اپنے گھر اور شوہر کی بجائے ان نوکروں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزرے ہوئے پیار کے لمحات یاد آرہے تھے۔
جونہی کاریں صائمہ کی سہیلی کے گھر پہنچیں ! تمام نوکر اور ڈرائیورز باری باری صائمہ کے ننگے مموں کو دبا کر اپنے اپنے مالکوں کے گھروں کی طرف چلے گئے اور دونوں کاروں والے ڈرائیورز بھی صائمہ اور اسکی سہیلی کے نوکر کو اتار کر اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔ نوکر اور صائمہ بھی گیٹ کا تالا کھول کر صائمہ کی سہیلی کے گھر میں آگئے ۔ صائمہ ابھی تک لباس کی قید سے بالکل آزاد تھی اور اسے اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ بالکل ننگی رہنا ہی اچھا لگ رہا تھا۔
نوکر کچن میں جاکر چائے بنانے لگا تو صائمہ نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور باتھ روم میں گھس گئی۔ نیم گرم پانی کے شاور نے رات بھر جاری رہنے والے سیکس کے اثرات زائل کرکے صائمہ کو تازہ دم کردیا اور وہ اپنا بدن خشک کرکے اسی طرح ننگی ہی باہر آگئی۔
ناشتہ تیار تھا اور نوکر اپنی ننگی محبوبہ کا انتظار کررہا تھا۔ صائمہ مسکراتی ہوئی آئی اور نوکر کی گود میں بیٹھ کر اس کی گردن میں اپنی نازک بانہیں ڈال کر نوکر کی آنکھوں میں جھانک کر مسکراتے ہوئے بولی جانو ! تمہیں چھوڑ کے اپنے گھر واپس جانے کا خیال بھی بہت برا لگتا ہے۔ نوکر نے شرارت سے صائمہ کے ایک نپل پر چٹکی لی اور مسکرا کر بولا” تو یہاں ہی رک جا رانی ! تیرا شوہر تو تیرے بغیر بھی آرام سے سو رہا تھا لیکن میرا لن تیرے بغیر کیسے رہے گا ؟”۔
نوکر کی بات سن کر صائمہ کی آنکھوں میں پیار کا نشہ چھا گیا اور صائمہ اپنا منہ نوکر کے منہ لگا کر اسے بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی۔ یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا اور صائمہ اور نوکر ایک دوسرے کے منہ سے منہ لگا کر آپس میں زوردار کسنگ کرتے رہے۔ اسی دوران صائمہ نے ناشتے کا ایک لقمہ اٹھا کر اپنے منہ میں لے کر نوکر کے منہ میں دے دیا تو نوکر صائمہ کے منہ سے لقمہ لے کر کھانے لگا۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا جو صائمہ کے ننگے بدن میں نوکر کے لئے پیار کا ایک نیا جذبہ۔ پیدا کررہا تھا۔
صائمہ نے مسکرا کر آنکھوں سے نوکر کو ناشتے کی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا تو نوکر صائمہ کا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے پلیٹ سے ایک لقمہ اٹھایا اور اپنے منہ میں ڈال کر اپنا منہ صائمہ کے منہ سے لگا دیا۔ صائمہ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ نوکر کے منہ سے لقمہ اپنے منہ میں لیا اور مسکرا کر نگل گئی ۔ اسی طرح نوکر اور صائمہ محبت سے ایک دوسرے کو ناشتہ کروا کر فارغ ہوئے جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے مموں سے کھیلتا رہا۔
ناشتے سے فارغ ہو کر صائمہ نے بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کی گود میں بیٹھے بیٹھے اپنے شوہر کو فون کر کے یوں ظاہر کیا جیسے وہ ابھی ابھی نیند سے جاگی ہو جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا۔ شوہر نے بتایا کہ بچے تیار ہو کر سکول جا چکے ہیں اور وہ خود بھی ناشتہ کرکے دفتر کیلئے نکلنے ہی والا ہے۔ صائمہ نے ذرا سست سی آواز میں شوہر کو آئی لو یو کہا تو وہ بولا “لگتا ہے رات بھر گپ شپ چلتی رہی ہے اور نیند پوری نہیں ہوئی ہے”؟ تو صائمہ بھی اپنا ایک ننگا ممہ نوکر کے منہ سے لگا کر بولی “ ٹھیک کہا آپ نے ! رات بھر جاگتی رہی ہوں اور اب نیند آرہی ہے”۔
یہ سن کر صائمہ کا شوہر بولا ٹھیک ہے تم آرام کرلو پھر گھر آؤ گی تو شام کو ملتے ہیں۔ صائمہ نے شوہر کو فون پر kiss کیا اور کال بند کردی۔ اس دوران نوکر مسلسل صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا، کبھی صائمہ کے ممے چوسنے لگتا تو کبھی صائمہ کو کھڑا کرکے اس کی پھدی چومنے لگتا اور کبھی صائمہ کو موڑ کر اس کے ننگے ہپس کھول کر ان میں پیار کرنے لگتا۔ صائمہ بھی مسکرا کر چپ چاپ نوکر کی شرارتیں برداشت کرتی رہی اور فون بند کرتے ہی بھوکی شیرنی کی طرح نوکر پر جھپٹ پڑی ! ۔ اس نے نوکر کی شلوار کھول کر نوکر کا کھڑا ہوا لن باہر نکال لیا اور مسکراتے ہوئے اپنی زبان نوکر کے ننگے لن پر پھیرنے لگی۔
نوکر نے اپنا لن صائمہ کے خوبصورت ہونٹوں سے لگا دیا تو صائمہ اسے منہ میں لیکر جوش و خروش سے چوسنے لگی۔ نوکر بھی صائمہ کے گرم گرم پیار کا مزہ لینے لگا اور بے ساختہ بولنے لگا “ آہ ! میری رانی ! اور زور سے چوس ! اور زور سے ! آج میری ساری منی چوس لے رانی ! کب سے تیرے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مارتا تھا ! میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی تو سچ مچ میرے سامنے ننگی ہوگی اور میری ننگی رانی بنے گی۔ چند ہی لمحوں میں نوکر نے صائمہ کے منہ میں اپنے سپرمز نکال دئیے اور صائمہ نے مسکراتے ہوئے نوکر کے سارے سپرمز پی لئے۔
اس بھرپور سیکس کے بعد صائمہ بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کے گلے لگ گئی اور اٹھلا کر بولی جانو ! اب میں تم سے دور نہیں رہ سکتی ! ۔ پلیز مجھ سے شادی کرلو ! ۔ نوکر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر بولا رانی ! اب تو میری رانی ہے اور ہم دونوں کھل کر ایک دوسرے سے پیار تو کررہے ہیں ! ۔ تو صائمہ منہ پھلا کر بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھے اپنی بیوی نہیں بناؤ گے مجھے سکون نہیں ملے گا۔ نوکر صائمہ کا مطالبہ سن کر بولا رانی ! تو پہلے ہی شادی شدہ ہے اور تین بچوں کی ماں ہے ! جبکہ میں تو ایک معمولی نوکر ہوں ، تو بھلا میری بیوی کیسے بن سکتی ہے؟
نوکر کی بات سن کر صائمہ ناراضگی سے بولی جانو ! تمہارے پیار میں کل رات بھر تمہارے دوستوں کے ساتھ پورے شہر میں ننگی ہوکر گھومتی رہی ہوں ، یہاں تک کہ اپنے گھر کے لان میں تمہارے ساتھ اور تمہارے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی ہوکر سیکس کرتی رہی ہوں ! اب اور اپنے پیار کا کیا ثبوت دوں ؟ تو نوکر صائمہ کے ننگے نپلز چوم کر بولا رانی ! میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ تو میرے ساتھ اور میرے دوستوں کے ساتھ اسی طرح ننگی ہو کر پیار کرتی رہنا اور بس !
نوکر کی بات سن کر صائمہ بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھ اے شادی نہیں کرو گے میں یہاں سے نہیں جاؤں گی ! اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے ! ۔ اب نوکر کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ! وہ صائمہ کے ننگے بدن کو ہاتھ لگا کر صائمہ کو۔ پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا تو صائمہ اس کا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیتی کہ پہلے شادی کرو ! پھر ہاتھ لگانے دوں گی۔ نوکر بھی اس اچانک تبدیلی پر حیران تھا کہ صائمہ نے کیا شادی کی ضد لگا رکھی ہے !
آخر اس نے تھک ہار کر ہمسائے والے نوکر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی۔ دوست بولا تو فکر نہ کر میں نواز اور شیرو کو لے کر آتا ہوں ، تو جاکر مولوی کو بلا لے ! بس ہم گواہ بن جائیں گے اور شادی کا ڈرامہ کرکے اسے کہہ دیں گے کہ اب وہ تیری بیوی ہے ! نوکر یہ سن کر بہت خوش ہوا اور صائمہ سے بولا رانی ! تو دلہن بن کر تیار ہو جا میں گواہوں اور مولوی کو لے کر آتا ہوں ۔
صائمہ نوکر کی بات سن کر کھل اٹھی اور اپنی سہیلی کے کمرے میں جاکر تیار ہونے لگی۔ اسی دوران ہمسایوں کا نوکر اپنے دو عدد دوستوں کو لے کر وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے کال کرکے علاقے کے مولوی کو بھی بلا لیا تو صائمہ بھی ایک خوبصورت جوڑا پہن کر ڈرائنگ روم میں آکر گھونگٹ نکال کر دلہن کے روپ میں بیٹھ گئی۔ جب مولوی ایجاب و قبول کروانے لگا تو صائمہ اپنی قمیض کھینچ کر اوپر کرکے اپنے جوان ممے باہر نکال کر ننگے کر کے نوکر سے بولی جانو ! ایسے نہیں ! بلکہ میرے یہ پکڑ کر مجھے قبول کرو ! تو نوکر نے صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر ایجاب و قبول کیا اور صائمہ نے بھی اپنے ننگے ممے نوکر کو پکڑوا کر نوکر سے ایجاب و قبول کیا۔
دلہن کے خوبصورت ننگے ممے دیکھ کر مولوی بھی برداشت نہ کرسکا اور اس نے اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے اور زور زور سے دبانے لگا۔ یہ دیکھ کر صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے مولوی کو اپنی گود میں لٹا لیا اور اپنے ننگے ممے مولوی کے منہ میں دے دئیے۔ ساتھ ہی مولوی کی شلوار کھول کر اس کا کھڑا ہوا لن باہر نکال کر مولوی کی مٹھ مارنے لگی اور اسے اپنے ننگے مموں سے اپنا دودھ پلانے لگی۔
مولوی یہ منظر برداشت نہ کر سکا کہ صائمہ جیسی خوبصورت عورت دلہن کے روپ میں بیٹھی اپنے ننگے مموں سے اسے اپنا دودھ پلا رہی ہے اور اپنے نازک ہاتھوں سے اس کی مٹھ مار رہی ہے۔ تو مولوی نے صائمہ کے ہاتھوں میں ہی اپنی منی نکال دی جو صائمہ نے مسکرا کر چاٹ چاٹ کر صاف کردی۔ مولوی بھی شرمندہ شرمندہ صائمہ کی گود سے اٹھا اور وہاں سے روانہ ہوگیا تو نوکر کے دوست اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر کھینچنے لگے اور اس کے ننگے ممے کھینچ کھینچ کر لال کر کے اسے شادی کی مبارکباد دینے لگے۔ تو صائمہ نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور بولی اپنے جانو کو خوش رکھنے کے لئے میں جانو کے سب دوستوں کے سامنے بالکل ننگی رہوں گی۔
یہ سن کر نوکر اور اس کے دوستوں نے صائمہ کے سارے کپڑے اتار کر اسے ایک بار پھر بالکل ننگا کرلیا اور صائمہ انکے ساتھ بالکل ننگی ہو کر پھر سے سیکس کے مزے لینے لگی۔ نوکر نے قالین پر لیٹ کر صائمہ کو اپنے کھڑے ہوئے لن پر بٹھا لیا اور اپنا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا جبکہ اسکے ایک دوست نے اپنا لن آہستہ آہستہ صائمہ کے ہپس میں ڈال دیا باقی دونوں دوست صائمہ کے دائیں اور بائیں طرف کھڑے ہوگئے اور صائمہ انکے کھڑے ہوئے لن پکڑ کر باری باری منہ میں لیکر بیک وقت چار مردوں کے ساتھ سیکس کرنے لگی۔ یہ سلسلہ شام تک وقفے وقفے سے چلتا رہا یہاں تک کہ صائمہ کے شوہر کی کال آگئی۔
صائمہ اس وقت بھی نوکر کے ایک دوست کے لن پر سواری کررہی تھی اور وہ صائمہ کے دونوں مموں کو پکڑ کر زور زور سے دبا کر صائمہ کے نپلز سے نکلتی ہوئی دودھ کی دھاریں اپنے منہ میں لیکر صائمہ کا دودھ نکال رہا تھا جبکہ صائمہ کے ممے لال ہو رہے تھے۔ موبائل بجتے ہی صائمہ نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف اس کا شوہر پوچھ رہا تھا “ سوئٹ ہارٹ ! یہ تمہاری سہیلی نے کیا جادو کردیا ہے کہ تم ابھی تک وہاں ہی ہو؟ لگتا ہے تم اپنا گھر بھول گئی ہو ! ۔ شوہر کی بات سنکر صائمہ گھبرا کر شرماتے ہوئے بولی نہیں نہیں ڈارلنگ ! میں بس آنے ہی والی تھی۔ یہ کہتے ہوئے بھی صائمہ مسکرا کر اپنا ایک ننگا ممہ پاس کھڑے نوکر کی طرف بڑھا کر اسے اپنا نپل چوسنے کی دعوت دے رہی تھی۔
جونہی ! نوکر نے آگے بڑھ کر صائمہ کا نپل منہ میں لیا تو صائمہ مسکرا کر بولی آہ ! جانو ! ذرا آہستہ سے ! ۔ یہ سن کر صائمہ کا شوہر ذرا سخت لہجے میں بولا تم نے پھر مجھے جانو کہا ؟ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ ! دراصل میں تو یہاں سعدیہ کو کہہ رہی تھی کیونکہ میرے پیر میں موچ آگئی ہے اور یہ پیر کو پکڑ کر سیدھا کررہی تھی ۔
صائمہ کے جھوٹ سے شوہر کا لہجہ دوبارہ نرم ہو گیا اور وہ پریشان ہوکر بولا اچھا تم فکر نہ کرو ! میں تمہیں آکر پک کرلیتا ہوں ، تم کہاں اس حال میں ٹیکسیوں میں دھکے کھاتی آؤ گی ! ۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ اتنی زیادہ تکلیف نہیں ہے اور ویسے بھی ٹیکسی گیٹ پر آ چکی ہے، آپ فکر نہ کریں میں پہنچ جاؤں گی۔ تب کہیں صائمہ کے شوہر کی تسلی ہوئی اور اس نے کال بند کی۔ کال بند ہوتے ہی صائمہ نے بے چینی سے نوکر اور اسکے دوستوں کی طرف دیکھا اور بولی پلیز جلدی سے ایک ایک راؤنڈ اور لگا لو ! پلیز ! ! ! ! صائمہ کی دعوت سنتے ہی چاروں صائمہ پر ٹوٹ پڑے اور دھڑادھڑ صائمہ کے منہ ، ہپس اور پھدی میں اپنے لن ڈال کر اسے چودنے لگے۔ صائمہ اب بھی گھر واپس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن جونہی نوکروں کا کلائمکس ہوا انہوں نے صائمہ کو باتھ روم میں لے جاکر اپنے ہاتھوں سے نہلایا۔
باتھ روم سے نکل کر نوکر اور اسکے دوستوں نے جلدی جلدی صائمہ کو اسکی واجبی سی بریزئر پہنائی اور باقی کپڑے پہنا کر جلدی جلدی Uber سے کار منگوا کر صائمہ کو وہاں سے روانہ کیا۔ صائمہ بھی پورے دو دن اپنی سہیلی کے نوکر اور اسکے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزارنے کے بعد ان سے اگلے ہی دن دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے آنکھوں میں پیار بھرے آنسو لئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔
کچھ ہی دیر پہلے صائمہ کے شوہر نے فون پر صائمہ سے بات کرکے خیریت معلوم کی تھی کیونکہ شام تک گھر سے باہر رہنا صائمہ کا معمول نہیں تھا۔ اسی دوران صائمہ کے شوہر نے صائمہ کو اپنی سہیلی کے پاس خوش محسوس کرتے ہوئے اسے رات اپنی سہیلی کے گھر گزارنے کی اجازت دی تھی جبکہ وہ اس بات سے بالکل بےخبر تھا کہ جب وہ اپنی خوبصورت بیوی سے فون پر بات کررہا تھا تو اسکی پیاری بیوی اپنی سہیلی کی بجائے آٹھ دس انجان نوکروں کے درمیان بالکل ننگی حالت میں موجود تھی اور وہ اس گھر میں اپنی سہیلی اور اسکے گھروالوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکے نوکر اور آس پاس کے نوکروں کے ساتھ دن بھر بالکل ننگی ہوکر ننگا سیکس کرتی رہی تھی۔
جونہی صائمہ کے شوہر نے اسے رات اپنی سہیلی کے گھر گزارنے کی اجازت دی تو صائمہ پوری رات نوکروں کے ساتھ ننگی رہنے کا سوچ کر کھل اٹھی اور نوکر بھی صائمہ کو بالکل ننگی حالت میں اٹھا کر مل کر زور زور سے اوپر اچھالنے لگے۔ اسی دوران ایک ڈرائیور بولا یارو ! آج یہ عورت پوری رات کیلئے ہماری ننگی رانی ہے، تو کیوں نہ اسے کہیں باہر لے جاکر اسکے ساتھ ننگا پیار کریں ؟
یہ آئیڈیا صائمہ سمیت سب کو بہت پسند آیا اور سب لوگ صائمہ کو باہر لے جانے کو تیار ہوگئے۔ کیونکہ ابھی رات شروع ہوئی تھی اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ ابھی رات کا کھانا کھایا جائے اور رات گہری ہونے پر دو عدد ڈرائیورز خاموشی سے اپنی گاڑیاں لے آئیں تاکہ سب لوگ صائمہ کے ساتھ باہر جاسکیں۔ یہ فیصلہ سن کر صائمہ مسکراتی ہوئی اٹھی اور اسی طرح بالکل ننگی حالت میں کچن میں کھانا بنانے چلی گئی۔
صائمہ کی مدد کیلئے دو نوکر بھی کچن میں چلے گئے تاکہ کھانا جلدی تیار ہوجائے۔ کھانا بنانے کے دوران دونوں نوکر صائمہ کے ننگے مموں اور ننگے ہپس سے کھیلتے رہے۔ ویسے بھی ان کے لئے یہ سب ایک خوبصورت خواب سے کم نہیں تھا کہ صائمہ جیسی پڑھی لکھی ، کھاتے پیتے خاندان کی خوبصورت شادی شدہ عورت انکے ساتھ بالکل ننگی ہو کر کچن میں کھانا پکا رہی تھی۔ اس دوران کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب دونوں نوکروں میں سے کسی ایک نے صائمہ کے پیچھے کھڑے ہو کر صائمہ کے ننگے ممے نہ پکڑے ہوں۔ بلکہ دونوں نوکروں نے صائمہ کے ننگے ممے دبا دبا کر لال کر دئیے اور صائمہ بھی مسکرا کر کھانا پکاتے ہوئے درمیان میں اپنے ننگے نپلز نوکروں کے منہ سے لگا لگا کر انہیں ترساتی رہی۔
آخر ان دونوں نوکروں میں سے ایک صائمہ کے ہپس کھول کر چاٹنے لگا اور دوسرا صائمہ کی ننگی پھدی کھول کر اپنی زبان اندر ڈال کر زور زور سے چاٹنے لگا تو صائمہ کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ اپنی آنکھیں بند کر کے آہیں بھرنے لگی۔ ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ صائمہ کا موبائل بجنے لگا۔ صائمہ نے دیکھا تو اس کے شوہر کی کال تھی، مجبوراً صائمہ نے کال ریسیو کرلی البتہ دونوں نوکر صائمہ کی پھدی اور ہپس چاٹتے رہے۔ ہیلو سوئٹ ہارٹ ! مجھے میری نیند کی میڈیسن نہیں مل رہی ، صائمہ کا شوہر اپنی بیوی کی حالت سے بےخبر، چہک کر بولا۔ صائمہ اپنے کلائمکس کے قریب تھی اس لئے بڑی مشکل سے اپنی آواز ضبط کرکے بولی الماری کی چھوٹی والی دراز میں رکھی ہے ڈارلنگ !
اسی دوران ایک نوکر نے اپنی زبان صائمہ کے ہپس میں گھسانے کی کوشش کی تو صائمہ کے منہ سے بےساختہ نکلا “آہ ! جانو آرام سے پلیز ! “۔ یہ سن کر صائمہ کا شوہر حیران ہوکر بولا “کیا ہوا سوئٹ ہارٹ ؟”۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی “ کچھ نہیں ڈارلنگ ! میں تو تمہیں کہہ رہی تھی کہ ذرا آرام سے دیکھو گے تو میڈیسن مل جائے گی”۔ تو اس کا شوہر بولا “وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ابھی تم نے مجھے *جانو* کہا حالانکہ تم مجھے کبھی بھی جانو نہیں کہتی؟ کیا ایک رات اپنی سہیلی کے پاس رہ کر اتنی بدل گئی ہو؟” تو صائمہ سنبھل کر بولی “نہیں نہیں ڈارلنگ ! ایسی کوئی بات نہیں ! تم اب بھی میرے ڈارلنگ ہو”۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے دل میں اپنے شوہر کے بارے میں سوچنے لگی “ انہیں کیا پتہ ! ڈارلنگ اور جانو میں کتنا فرق ہے ! جو پیار جانو میں ہے وہ ڈارلنگ میں کہاں؟ اور جو مزہ ان نوکروں کے ساتھ ننگی ہونے میں ہے، وہ شوہر کے ساتھ معمول کے سیکس میں کہاں؟”۔
دوسری طرف سے صائمہ کے شوہر کی آواز سنائی دی “ اوکے سوئٹ ہارٹ ! میڈیسن مل گئی ہے تھینک یو ! “۔ صائمہ نے اطمینان کا سانس لیا اور اوکے بائے کہتے ہوئے کال بند کردی۔ دونوں نوکر جو صائمہ کو گبھراتے دیکھ کر رک گئے تھے، پریشان ہو کر بولے کیا ہوا رانی ؟ تیرے شوہر کو شک تو نہیں ہوگیا؟ تو صائمہ مسکرا کر بولی “تم لوگوں کی شرارتوں نے تو مروا ہی دیا تھا، وہ تو میرے شوہر کو مجھ پر بہت بھروسہ ہے اس لئے بچت ہو گئی ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی”۔
یہ سنکر دونوں نوکروں نے سکون کا سانس لیا اور مزید وقت ضائع کیے بغیر صائمہ کو کچن کے ریک کے سہارے جھکا دیا۔ ایک نوکر نے صائمہ کے ننگے ہپس میں ہلکا سا تیل لگا کر اپنا تنا ہوا لن صائمہ کے ہپس میں ڈال دیا جبکہ دوسرے نوکر نے اپنا لن صائمہ کے منہ میں ڈال دیا۔ صائمہ بھی مسکرا کر کچن میں ان دونوں نوکروں کے ساتھ بیک وقت Anal sex اور Oral sex کے مزے لینے لگی۔
کچن سے صائمہ کی آہوں کی آوازیں سنکر باقی نوکر بھی وہاں آگئے اور صائمہ کو دونوں نوکروں کے ساتھ سیکس کرتے دیکھ کر ظاہری ناراضگی دکھانے لگے۔ صائمہ کی سہیلی کا نوکر بولا “رانی ! ہم نے تجھے کھانا بنانے بھیجا تھا اور تو ان دونوں کمینوں کو مزے دے رہی ہے؟ “۔ یہ سنکر باقی نوکر بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور بولے “بس رانی ! بہت ہو گیا ! اب تو ہمارے لئے ڈرائنگ روم میں ننگا ڈانس کرے گی اور یہ دونوں کمینے یہاں کھانا بنائیں گے”۔
صائمہ مسکرا کر بالکل ننگی حالت میں نوکروں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئی اور کمرے کے درمیان میں ننگا ڈانس کرنے لگی۔ نوکر صائمہ کے ننگے ٹھمکے دیکھ دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔ صائمہ بھی مسکرا مسکرا کر اپنے ننگے ہپس نوکروں کے سامنے ہلا ہلا کر ننگے ٹھمکے لگاتی رہی اور جھک جھک کر اپنے ننگے ممے نوکروں کے چہروں سے ٹکراتی رہی ! ۔
ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ کچن سے دونوں نوکر کھانا لے آئے۔ لہذا صائمہ کا ننگا ڈانس روک کر سب نے کھانا کھایا البتہ صائمہ کی سہیلی کے نوکر کی فرمائش پر صائمہ نے اپنی پلیٹ میں تمام نوکروں کے سپرمز نکال کر نوکر کے لئے اپنا پیار ثابت کرنے کے لئے اپنی روٹی نوکروں کے سپرمز کے ساتھ لگا کر کھائی اور مسکرا کر بولی “ جانو ! آج میں تمہاری وجہ سے یہ سب انجوائے کررہی ہوں اس لئے تم کہو تو میں تمہارا ننگا لن اپنے گلاس میں دھو کر اس پانی کو بھی پی سکتی ہوں”۔
یہ سنکر صائمہ کی سہیلی کے نوکر نے اٹھ کر مسکراتے ہوئے اپنا ننگا لن صائمہ کے پانی کے گلاس میں ڈبو دیا تو صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا لن اپنی نازک انگلیوں سے گلاس کے اندر ہی رگڑ رگڑ کر صاف کیا اور پھر سب کے سامنے وہی گلاس اٹھا کر سارا پانی پی لیا اور مسکرا کر بولی “جانو ! تمہارے پیار میں یہ سب کچھ معمولی باتیں ہیں ، اگر تم کہو تو میں تمہارے پیار میں آج رات پورے شہر میں بالکل ننگی گھوم سکتی ہوں”۔ تو صائمہ کی سہیلی کا نوکر بولا “ٹھیک ہے رانی ! آج رات تو ہمارے لئے شہر کی سڑکوں پر ننگا ڈانس کرے گی”۔
نوکر کی بات سنکر صائمہ نے اٹھ کر اپنا منہ نوکر کے منہ سے لگا دیا اور اسے kiss کر کے مسکراتے ہوئے اپنا بایاں ممہ نوکر کی طرف کر کے بولی “ جانو ! تم میرے دل میں رہتے ہو ، تمہارے لئے میں اپنا سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں”۔ نوکر نے آگے بڑھ کر صائمہ کا ننگا ممہ منہ میں لے لیا اور زور زور سے چوسنے لگا تو صائمہ بھی اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی سہیلی کے نوکر سے اپنے ننگے ممے چوسوانے لگی اور آہیں بھرنے لگی۔
یہ دیکھ کر ایک ڈرائیور نے صائمہ کے پیچھے سے اپنا آٹھ انچ لمبا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا اور صائمہ کو چودنے لگا۔ اب صائمہ اپنی سہیلی کے نوکر کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے خوبصورت ننگے ممے نوکر سے چوسوا رہی تھی اور دوسری طرف ڈرائیور صائمہ کے پیچھے سے اس کی پھدی میں لن ڈال کر صائمہ کو چود رہا تھا۔ جلد ہی ڈرائیور اور صائمہ کا کلائمکس ہوگیا اور صائمہ اپنے محبوب نوکر کی بانہوں میں سما گئی۔
اب رات گہری ہو چلی تھی اور آس پاس کے اکثر گھروں کی روشنیاں گل ہو چکی تھیں۔ نوکروں کا پورا گروپ اب کھانے سے فارغ ہو چکا تھا اور چند ایک نوکر جو اپنا کام مکمل کرنے کے لئے آس پاس اپنے مالکوں کے گھروں میں گئے تھے، کام ختم کر کے واپس آ چکے تھے۔ تو سب نے فیصلہ کیا کہ اب صحیح وقت ہے صائمہ کو ننگی حالت میں باہر لے جاکر شہر میں گھمانے کا۔اگرچہ تمام نوکروں اور ڈرائیوروں نے اپنے کپڑے پہن لئے تھے تاہم اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ صائمہ کو کپڑے پہنا کر لے جایا جائے یا پھر اسی طرح بالکل ننگا ہی رہنے دیں !
یہ مشکل صائمہ کے محبوب نوکر نے حل کردی جب اس نے کہا “کیوں نہ ہم صائمہ کو صرف بریزئر اور پینٹی پہنا کر لے جائیں ؟ یہ سنُکر سب خوش ہوگئے اور صائمہ سے اس کی رائے پوچھی ؟ تو صائمہ شرما کر اپنی سہیلی کے نوکر کے گلے میں بانہیں ڈال کر مسکراتے ہوئے بولی “ جیسے جانو چاہے ، مجھے کوئی اعتراض نہیں”۔ یہ سنتے ہی نوکروں نے نعرہ لگایا ننگی رانی ! ۔
تبھی صائمہ کی سہیلی کے نوکر نے اپنی مالکن کی الماری سے ایک پینٹی نکال کر صائمہ کو دی (کیونکہ صائمہ صبح نوکر کو سرپرائز دینے کے لئے بغیر پینٹی پہنے صرف شلوار پہن کر آئی تھی) ساتھ ہی صائمہ کی باریک ڈوریوں پرمشتمل فریم نما بریزئر بھی دی جس کا پہننا یا نہ پہننا برابر تھا کیونکہ وہ بریزئر کم اور فریم زیادہ تھی ۔ اس میں کوئی کپڑا استعمال نہیں ہوا تھا بلکہ دونوں مموں کو ایڈجیسٹ کرنے کیلئے باریک پٹیوں کے بنے ہوئے دو عدد دائرے تھے جن میں سے صائمہ کے دونوں ممے مکمل طور پر باہر جھانکتے رہتے تھے۔ اس کا فائدہ صرف اتنا تھا کہ صائمہ کے بھاری مموں کو کھینچ کر ذرا ٹائٹ کر دیتی تھی اور صائمہ اسے پہن کر زیادہ سیکسی لگتی تھی۔
سب تیاری کرنے کے بعد تمام نوکر اور ڈرائیور پہلے سے لائی گئی دو کاروں میں بیٹھ گئے۔ صائمہ صرف بریزئر اور پینٹی پہنے اپنی سہیلی کے نوکر کی گود میں بیٹھ گئی اور دونوں گاڑیاں شہر کی طرف روانہ ہو گئیں۔ سب سے پہلے انہوں نے صائمہ کو اسی حالت میں شہر کی مین سڑک پر اتارا اور کہا کہ جو بھی ایک دو گاڑیاں سڑک پر آئیں ، ان سے قریبی مارکیٹ کا راستہ پوچھنے کے بہانے انہیں اپنے بریزئر میں سے جھانکتے مموں سے کھیلنے کا موقع دے۔
اگرچہ شروع میں صائمہ کو گزرتی ہوئی کاروں کو روکنے میں کچھ شرم محسوس ہوئی لیکن جب پہلے کار سوار آدمی نے بڑے آرام سے اسے راستہ بتایا اور اس کے بریزئر میں سے لٹکتے ہوئے ننگے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر پیار سے دبایا اور جاتے جاتے اپنے موبائل فون سے صائمہ کے ننگے مموں کی ایک تصویر بھی بنائی تو صائمہ کو بھی یہ انوکھا تجربہ بہت اچھا لگا۔
اگلی گاڑی ایک سوزوکی وین تھی جسے ایک لمبی داڑھی والا مولوی ٹائپ شخص چلا رہا تھا۔ اس نے بھی بغیر شور کئے آرام سے صائمہ کو پورا راستہ سمجھایا اور اس دوران صائمہ کے دونوں مموں کو پکڑ کر صائمہ کے ننگے نپلز چوسنے لگا۔ صائمہ بھی اسکی گاڑی کے پاس جھکی رہی اور اسے آرام سے اپنے ننگے ممے چوسنے دئیے لیکن جب اس شخص نے صائمہ کو اپنی وین میں بیٹھنے کی پیشکش کی تو صائمہ نہیں تھینک یو کہہ کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس پر اس مولوی نما آدمی نے جاتے جاتے صائمہ کی پینٹی نیچے کروا کر صائمہ کی ننگی پھدی کی تصویر کھینچ لی۔
اس دوران نوکروں کا گروپ کچھ فاصلے سے سب کاروائی دیکھتا رہا اور اکثر نوکروں نے تو مٹھ مار کر اپنی منی بھی نکال دی۔ یہاں سے نکل کر وہ لوگ صائمہ کو ایک مارکیٹ میں لے گئے جہاں صرف ایک پان سگریٹ کی دکان کھلی تھی اور چند نوجوان لڑکے وہاں کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ نوکروں کی ہدایت کے مطابق یہاں بھی صائمہ نے دکان سے کوک کی ایک بوتل خریدی اور اسی طرح ان لڑکوں سے قریبی پیٹرول پمپ کا راستہ پوچھا۔ لڑکوں نے راستہ بتانے کے دوران صائمہ کی پینٹی نیچے کرکے صائمہ کی ننگی پھدی دیکھی اور اندر انگلیاں ڈال کر صائمہ سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی کی۔
صائمہ یہ سب مسکرا کر کرواتی رہی اور ایک لڑکے کو تو اپنے ننگے ممے چومنے کا بھی موقع دیا۔ جب لڑکوں نے اسے رنڈی سمجھ کر ساتھ چلنے کو کہا تو صائمہ نے مسکرا کر انگریزی میں انہیں بتایا کہ I am married and I am doing it just to enjoy myself. لڑکے بھی کاروں میں موجود ڈرائیوروں اور نوکروں کا گروپ دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔
وہاں سے روانہ ہو کر صائمہ نے نوکروں سے ان کی اگلی فرمائش پوچھی تو ان کا جواب سن کر ایک لمحے کے لئے تو صائمہ خود بھی گھبرا گئی کیونکہ فرمائش صائمہ کے محبوب نوکر نے کی تھی اور تھی بھی انتہائی خطرناک۔ دراصل نوکر نے فرمائش کی تھی کہ صائمہ اپنی بریزئر اور پینٹی اتار کر بالکل ننگی ہو کر ان سب کو اپنے گھر لے کر جائے اور اپنے گھر کے لان میں ان کے ساتھ بالکل ننگی ہو کر سیکس کرے !
پلان انتہائی خطرناک تھا اور اگر یہ فرمائش صائمہ کے فیورٹ نوکر نے نہ کی ہوتی تو صائمہ صاف انکار کر دیتی مگر نوکر نے اپنی فرمائش کو صائمہ کے پیار کا امتحان قرار دیا تو صائمہ اس پر بھی راضی ہو گئی۔ لہذا دونوں کاریں صائمہ کی گائیڈنس میں اس کے گھر کی سٹریٹ میں پہنچ گئیں۔ آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد صائمہ اور اس کا محبوب نوکر کار سے اتر کر صائمہ کے گھر کا گیٹ کھول کر گھر کے لان میں پہنچ گئے۔ صائمہ لباس کی قید سے آزاد تھی جبکہ نوکر نے پورے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ لان کے درمیان میں پہنچ کر صائمہ مسکراتے ہوئے لان میں موجود ایک کرسی پر جھک گئی اور اپنی ننگی پھدی اور ننگے ہپس نوکر کی طرف کرکے مسکرانے لگی۔
نوکر صائمہ کا سیکسی انداز دیکھ کر جوش میں آگیا اور جھک کر پیچھے سے صائمہ کی گلابی پھدی چاٹنے لگا۔ صائمہ بھی اپنی آنکھیں بند کر کے آہیں بھرنے لگی۔ جلد ہی صائمہ کا کلائمکس ہوگیا تو نوکر نے اپنا لن نکال کر صائمہ کی گیلی پھدی میں ڈال دیا۔ صائمہ بھی جوش وخروش سے نوکر کا لن اپنی پھدی میں لیکر اپنے ہی گھر کے لان میں زوروں سے چووانے لگی جبکہ باقی تمام نوکر اور ڈرائیور صائمہ کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے اور اپنے لن نکال کر اپنی اپنی مٹھ مارنے لگے۔
ایک ڈرائیور نے آگے بڑھ کر اپنا لن صائمہ کے خوبصورت ہونٹوں سے لگا دیا تو صائمہ اس کا پورا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اسی دوران نوکر نے صائمہ کی پھدی میں اپنے سپرمز نکال دئیے تو پاس کھڑے دوسرے نوکر نے اپنا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا۔ اس طرح باری باری سارے نوکروں اور ڈرائیورز نے صائمہ کے ساتھ اس کے اپنے گھر کے لان میں ننگا سیکس کیا اور صائمہ کے ساتھ ننگی تصویریں بنوائیں۔
آخر جب صبح کے آثار نظر آنے لگے تو صائمہ گھبرا کر بولی جانو ! اب بہت ہو گیا ! اب اگر کوئی جاگ گیا تو بہت مشکل ہو جائے گی، ویسے بھی میں ابھی تمہارے پیار کو کھونا نہیں چاہتی ! اس لئے بہتر ہے کہ اب ہم واپس چلیں ! ۔ صائمہ کی بات سن کر اس کے محبوب نوکر نے ایک آخری فرمائش کردی ۔ وہ بولا ٹھیک ہے رانی لیکن پہلے تو اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے میرے ساتھ بالکل ننگی ہوکر ایک تصویر کھینچوائے گی پھر ہم سب واپس چلیں گے۔
یہ سن کر صائمہ بہت گھبرائی اور بولی جانو بہت مشکل فرمائش ہے تمہاری ! ہو سکتا ہے کھڑکی کا پردہ کھلا ہو ؟ اور ہو سکتا ہے اندر سے میرا شوہر مجھے تمہارے ساتھ بالکل ننگا دیکھ لے ؟ مگر نوکر نہ مانا۔ آخر صائمہ کو ہی ہار ماننی پڑی اور وہ نوکر کو لیکر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس پہنچ گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ کھڑکی کا پردہ ہٹا ہوا تھا اور کمرے میں لیمپ کی مدھم روشنی میں بیڈ پر صائمہ کا شوہر سو رہا تھا۔ وہ اس حقیقت سے بےخبر تھا کہ اس کی بیوی اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ کھڑکی کے باہر بالکل ننگی کھڑی اسے دیکھ رہی ہے ۔
نوکر نے مسکرا کر صائمہ کا ایک ننگا ممہ پکڑ کر دبایا اور پوچھا رانی ! کیسا لگ رہا ہے ؟ نوکر کا ہاتھ اپنے ننگے ممے پر محسوس کرتے ہی صائمہ کے ننگے جسم میں نوکر کے پیار کا کرنٹ دوڑنے لگا اور وہ نوکر کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر اسے ایک بھرپور kiss کرکے بولی جانو ! اب بھی کیا کوئی کسر رہ گئی ہے کہ میں تمہارے لئے اپنا پیار ثابت کروں ؟ تو نوکر صائمہ کو اپنا موبائل پکڑا کر بولا رانی میں پیچھے سے تیرے ممے پکڑوں گا اور تو ہم دونوں کے پیار کی سیلفی لے گی ! تو صائمہ نے مسکرا کر نوکر کا موبائل لیا اور سیلفی لینے لگی تو نوکر نے صائمہ کے پیچھے سے ہاتھ ڈال کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے ۔ اسی پوز میں صائمہ نے نوکر کے ساتھ اپنی ننگی سیلفیاں بنائیں اور موبائل نوکر کو دے کر بولی جانو پلیز اب واپس چلو !
صائمہ کی گھبراہٹ دیکھ کر نوکر مسکرایا اور اس نے صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر کھڑکی کی طرف کر کے زور سے دبائے تو صائمہ کے ننگے نپلز سے دودھ کی دھاریں نکل کر کھڑکی کے شیشے پر قطروں کی صورت میں بہنے لگیں تو نوکر مسکرا کر صائمہ کی طرف دیکھ کر بولا رانی ! کل دن میں تیرے دودھ کی دھاروں کے یہ نشان تجھے ہمارے پیار کی یاد دلائیں گے۔ صائمہ نے نوکر کا ہاتھ پکڑا اور اسے زبردستی کھینچ کر گیٹ کی طرف چل پڑی ! اب دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا اور اخبار والے کوٹھیوں میں اخبار پھینک رہے تھے۔
صائمہ اسی طرح بالکل ننگی ہی جلدی سے نوکروں کے ساتھ کار میں بیٹھی اور دونوں کاریں تیزی سے صائمہ کی سہیلی کے گھر کی طرف روانہ ہو گئیں !
صبح کی روشنی آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ دونوں کاریں تیزی سے صائمہ کی سہیلی کے گھر کی طرف واپس جارہیں تھیں۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے صائمہ کے محبوب نوکر سمیت کئی نوکر اور ڈرائیورز اونگھ رہے تھے۔ البتہ ساری رات نوکروں اور ڈرائیورز کے ساتھ ننگا سیکس کرنے کے باوجود صائمہ کو تھکن محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہ اپنے اندر ایک نئی تازگی اور سیکس کی چاہت محسوس کررہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ایک نئی نویلی دلہن ہے اور اپنے ہنی مون کو انجوائے کررہی ہے۔
نوکر کے پیار نے صائمہ کو ایک بہت ہی خوبصورت اور جوانی سے بھرپور احساس دیا تھا اور وہ یہ حقیقت بالکل بھول چکی تھی کہ وہ تین بچوں کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف اور وفادار بیوی بھی ہے جسے اپنے شوہر سے محبت تھی اور جسے پچھلے دو دنوں کے واقعات سے پہلے کسی غیر مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ البتہ اس وقت وہ بالکل ننگی حالت میں انجان نوکروں اور ڈرائیوروں کے درمیان کار میں اپنی سہیلی کے نوکر کی گود میں بیٹھی اسی سہیلی کے گھر واپس جارہی تھی اور صائمہ کو اپنے گھر اور شوہر کی بجائے ان نوکروں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزرے ہوئے پیار کے لمحات یاد آرہے تھے۔
جونہی کاریں صائمہ کی سہیلی کے گھر پہنچیں ! تمام نوکر اور ڈرائیورز باری باری صائمہ کے ننگے مموں کو دبا کر اپنے اپنے مالکوں کے گھروں کی طرف چلے گئے اور دونوں کاروں والے ڈرائیورز بھی صائمہ اور اسکی سہیلی کے نوکر کو اتار کر اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔ نوکر اور صائمہ بھی گیٹ کا تالا کھول کر صائمہ کی سہیلی کے گھر میں آگئے ۔ صائمہ ابھی تک لباس کی قید سے بالکل آزاد تھی اور اسے اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ بالکل ننگی رہنا ہی اچھا لگ رہا تھا۔
نوکر کچن میں جاکر چائے بنانے لگا تو صائمہ نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور باتھ روم میں گھس گئی۔ نیم گرم پانی کے شاور نے رات بھر جاری رہنے والے سیکس کے اثرات زائل کرکے صائمہ کو تازہ دم کردیا اور وہ اپنا بدن خشک کرکے اسی طرح ننگی ہی باہر آگئی۔
ناشتہ تیار تھا اور نوکر اپنی ننگی محبوبہ کا انتظار کررہا تھا۔ صائمہ مسکراتی ہوئی آئی اور نوکر کی گود میں بیٹھ کر اس کی گردن میں اپنی نازک بانہیں ڈال کر نوکر کی آنکھوں میں جھانک کر مسکراتے ہوئے بولی جانو ! تمہیں چھوڑ کے اپنے گھر واپس جانے کا خیال بھی بہت برا لگتا ہے۔ نوکر نے شرارت سے صائمہ کے ایک نپل پر چٹکی لی اور مسکرا کر بولا” تو یہاں ہی رک جا رانی ! تیرا شوہر تو تیرے بغیر بھی آرام سے سو رہا تھا لیکن میرا لن تیرے بغیر کیسے رہے گا ؟”۔
نوکر کی بات سن کر صائمہ کی آنکھوں میں پیار کا نشہ چھا گیا اور صائمہ اپنا منہ نوکر کے منہ لگا کر اسے بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی۔ یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا اور صائمہ اور نوکر ایک دوسرے کے منہ سے منہ لگا کر آپس میں زوردار کسنگ کرتے رہے۔ اسی دوران صائمہ نے ناشتے کا ایک لقمہ اٹھا کر اپنے منہ میں لے کر نوکر کے منہ میں دے دیا تو نوکر صائمہ کے منہ سے لقمہ لے کر کھانے لگا۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا جو صائمہ کے ننگے بدن میں نوکر کے لئے پیار کا ایک نیا جذبہ۔ پیدا کررہا تھا۔
صائمہ نے مسکرا کر آنکھوں سے نوکر کو ناشتے کی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا تو نوکر صائمہ کا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے پلیٹ سے ایک لقمہ اٹھایا اور اپنے منہ میں ڈال کر اپنا منہ صائمہ کے منہ سے لگا دیا۔ صائمہ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ نوکر کے منہ سے لقمہ اپنے منہ میں لیا اور مسکرا کر نگل گئی ۔ اسی طرح نوکر اور صائمہ محبت سے ایک دوسرے کو ناشتہ کروا کر فارغ ہوئے جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے مموں سے کھیلتا رہا۔
ناشتے سے فارغ ہو کر صائمہ نے بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کی گود میں بیٹھے بیٹھے اپنے شوہر کو فون کر کے یوں ظاہر کیا جیسے وہ ابھی ابھی نیند سے جاگی ہو جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا۔ شوہر نے بتایا کہ بچے تیار ہو کر سکول جا چکے ہیں اور وہ خود بھی ناشتہ کرکے دفتر کیلئے نکلنے ہی والا ہے۔ صائمہ نے ذرا سست سی آواز میں شوہر کو آئی لو یو کہا تو وہ بولا “لگتا ہے رات بھر گپ شپ چلتی رہی ہے اور نیند پوری نہیں ہوئی ہے”؟ تو صائمہ بھی اپنا ایک ننگا ممہ نوکر کے منہ سے لگا کر بولی “ ٹھیک کہا آپ نے ! رات بھر جاگتی رہی ہوں اور اب نیند آرہی ہے”۔
یہ سن کر صائمہ کا شوہر بولا ٹھیک ہے تم آرام کرلو پھر گھر آؤ گی تو شام کو ملتے ہیں۔ صائمہ نے شوہر کو فون پر kiss کیا اور کال بند کردی۔ اس دوران نوکر مسلسل صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا، کبھی صائمہ کے ممے چوسنے لگتا تو کبھی صائمہ کو کھڑا کرکے اس کی پھدی چومنے لگتا اور کبھی صائمہ کو موڑ کر اس کے ننگے ہپس کھول کر ان میں پیار کرنے لگتا۔ صائمہ بھی مسکرا کر چپ چاپ نوکر کی شرارتیں برداشت کرتی رہی اور فون بند کرتے ہی بھوکی شیرنی کی طرح نوکر پر جھپٹ پڑی ! ۔ اس نے نوکر کی شلوار کھول کر نوکر کا کھڑا ہوا لن باہر نکال لیا اور مسکراتے ہوئے اپنی زبان نوکر کے ننگے لن پر پھیرنے لگی۔
نوکر نے اپنا لن صائمہ کے خوبصورت ہونٹوں سے لگا دیا تو صائمہ اسے منہ میں لیکر جوش و خروش سے چوسنے لگی۔ نوکر بھی صائمہ کے گرم گرم پیار کا مزہ لینے لگا اور بے ساختہ بولنے لگا “ آہ ! میری رانی ! اور زور سے چوس ! اور زور سے ! آج میری ساری منی چوس لے رانی ! کب سے تیرے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مارتا تھا ! میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی تو سچ مچ میرے سامنے ننگی ہوگی اور میری ننگی رانی بنے گی۔ چند ہی لمحوں میں نوکر نے صائمہ کے منہ میں اپنے سپرمز نکال دئیے اور صائمہ نے مسکراتے ہوئے نوکر کے سارے سپرمز پی لئے۔
اس بھرپور سیکس کے بعد صائمہ بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کے گلے لگ گئی اور اٹھلا کر بولی جانو ! اب میں تم سے دور نہیں رہ سکتی ! ۔ پلیز مجھ سے شادی کرلو ! ۔ نوکر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر بولا رانی ! اب تو میری رانی ہے اور ہم دونوں کھل کر ایک دوسرے سے پیار تو کررہے ہیں ! ۔ تو صائمہ منہ پھلا کر بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھے اپنی بیوی نہیں بناؤ گے مجھے سکون نہیں ملے گا۔ نوکر صائمہ کا مطالبہ سن کر بولا رانی ! تو پہلے ہی شادی شدہ ہے اور تین بچوں کی ماں ہے ! جبکہ میں تو ایک معمولی نوکر ہوں ، تو بھلا میری بیوی کیسے بن سکتی ہے؟
نوکر کی بات سن کر صائمہ ناراضگی سے بولی جانو ! تمہارے پیار میں کل رات بھر تمہارے دوستوں کے ساتھ پورے شہر میں ننگی ہوکر گھومتی رہی ہوں ، یہاں تک کہ اپنے گھر کے لان میں تمہارے ساتھ اور تمہارے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی ہوکر سیکس کرتی رہی ہوں ! اب اور اپنے پیار کا کیا ثبوت دوں ؟ تو نوکر صائمہ کے ننگے نپلز چوم کر بولا رانی ! میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ تو میرے ساتھ اور میرے دوستوں کے ساتھ اسی طرح ننگی ہو کر پیار کرتی رہنا اور بس !
نوکر کی بات سن کر صائمہ بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھ اے شادی نہیں کرو گے میں یہاں سے نہیں جاؤں گی ! اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے ! ۔ اب نوکر کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ! وہ صائمہ کے ننگے بدن کو ہاتھ لگا کر صائمہ کو۔ پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا تو صائمہ اس کا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیتی کہ پہلے شادی کرو ! پھر ہاتھ لگانے دوں گی۔ نوکر بھی اس اچانک تبدیلی پر حیران تھا کہ صائمہ نے کیا شادی کی ضد لگا رکھی ہے !
آخر اس نے تھک ہار کر ہمسائے والے نوکر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی۔ دوست بولا تو فکر نہ کر میں نواز اور شیرو کو لے کر آتا ہوں ، تو جاکر مولوی کو بلا لے ! بس ہم گواہ بن جائیں گے اور شادی کا ڈرامہ کرکے اسے کہہ دیں گے کہ اب وہ تیری بیوی ہے ! نوکر یہ سن کر بہت خوش ہوا اور صائمہ سے بولا رانی ! تو دلہن بن کر تیار ہو جا میں گواہوں اور مولوی کو لے کر آتا ہوں ۔
صائمہ نوکر کی بات سن کر کھل اٹھی اور اپنی سہیلی کے کمرے میں جاکر تیار ہونے لگی۔ اسی دوران ہمسایوں کا نوکر اپنے دو عدد دوستوں کو لے کر وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے کال کرکے علاقے کے مولوی کو بھی بلا لیا تو صائمہ بھی ایک خوبصورت جوڑا پہن کر ڈرائنگ روم میں آکر گھونگٹ نکال کر دلہن کے روپ میں بیٹھ گئی۔ جب مولوی ایجاب و قبول کروانے لگا تو صائمہ اپنی قمیض کھینچ کر اوپر کرکے اپنے جوان ممے باہر نکال کر ننگے کر کے نوکر سے بولی جانو ! ایسے نہیں ! بلکہ میرے یہ پکڑ کر مجھے قبول کرو ! تو نوکر نے صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر ایجاب و قبول کیا اور صائمہ نے بھی اپنے ننگے ممے نوکر کو پکڑوا کر نوکر سے ایجاب و قبول کیا۔
دلہن کے خوبصورت ننگے ممے دیکھ کر مولوی بھی برداشت نہ کرسکا اور اس نے اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے اور زور زور سے دبانے لگا۔ یہ دیکھ کر صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے مولوی کو اپنی گود میں لٹا لیا اور اپنے ننگے ممے مولوی کے منہ میں دے دئیے۔ ساتھ ہی مولوی کی شلوار کھول کر اس کا کھڑا ہوا لن باہر نکال کر مولوی کی مٹھ مارنے لگی اور اسے اپنے ننگے مموں سے اپنا دودھ پلانے لگی۔
مولوی یہ منظر برداشت نہ کر سکا کہ صائمہ جیسی خوبصورت عورت دلہن کے روپ میں بیٹھی اپنے ننگے مموں سے اسے اپنا دودھ پلا رہی ہے اور اپنے نازک ہاتھوں سے اس کی مٹھ مار رہی ہے۔ تو مولوی نے صائمہ کے ہاتھوں میں ہی اپنی منی نکال دی جو صائمہ نے مسکرا کر چاٹ چاٹ کر صاف کردی۔ مولوی بھی شرمندہ شرمندہ صائمہ کی گود سے اٹھا اور وہاں سے روانہ ہوگیا تو نوکر کے دوست اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر کھینچنے لگے اور اس کے ننگے ممے کھینچ کھینچ کر لال کر کے اسے شادی کی مبارکباد دینے لگے۔ تو صائمہ نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور بولی اپنے جانو کو خوش رکھنے کے لئے میں جانو کے سب دوستوں کے سامنے بالکل ننگی رہوں گی۔
یہ سن کر نوکر اور اس کے دوستوں نے صائمہ کے سارے کپڑے اتار کر اسے ایک بار پھر بالکل ننگا کرلیا اور صائمہ انکے ساتھ بالکل ننگی ہو کر پھر سے سیکس کے مزے لینے لگی۔ نوکر نے قالین پر لیٹ کر صائمہ کو اپنے کھڑے ہوئے لن پر بٹھا لیا اور اپنا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا جبکہ اسکے ایک دوست نے اپنا لن آہستہ آہستہ صائمہ کے ہپس میں ڈال دیا باقی دونوں دوست صائمہ کے دائیں اور بائیں طرف کھڑے ہوگئے اور صائمہ انکے کھڑے ہوئے لن پکڑ کر باری باری منہ میں لیکر بیک وقت چار مردوں کے ساتھ سیکس کرنے لگی۔ یہ سلسلہ شام تک وقفے وقفے سے چلتا رہا یہاں تک کہ صائمہ کے شوہر کی کال آگئی۔
صائمہ اس وقت بھی نوکر کے ایک دوست کے لن پر سواری کررہی تھی اور وہ صائمہ کے دونوں مموں کو پکڑ کر زور زور سے دبا کر صائمہ کے نپلز سے نکلتی ہوئی دودھ کی دھاریں اپنے منہ میں لیکر صائمہ کا دودھ نکال رہا تھا جبکہ صائمہ کے ممے لال ہو رہے تھے۔ موبائل بجتے ہی صائمہ نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف اس کا شوہر پوچھ رہا تھا “ سوئٹ ہارٹ ! یہ تمہاری سہیلی نے کیا جادو کردیا ہے کہ تم ابھی تک وہاں ہی ہو؟ لگتا ہے تم اپنا گھر بھول گئی ہو ! ۔ شوہر کی بات سنکر صائمہ گھبرا کر شرماتے ہوئے بولی نہیں نہیں ڈارلنگ ! میں بس آنے ہی والی تھی۔ یہ کہتے ہوئے بھی صائمہ مسکرا کر اپنا ایک ننگا ممہ پاس کھڑے نوکر کی طرف بڑھا کر اسے اپنا نپل چوسنے کی دعوت دے رہی تھی۔
جونہی ! نوکر نے آگے بڑھ کر صائمہ کا نپل منہ میں لیا تو صائمہ مسکرا کر بولی آہ ! جانو ! ذرا آہستہ سے ! ۔ یہ سن کر صائمہ کا شوہر ذرا سخت لہجے میں بولا تم نے پھر مجھے جانو کہا ؟ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ ! دراصل میں تو یہاں سعدیہ کو کہہ رہی تھی کیونکہ میرے پیر میں موچ آگئی ہے اور یہ پیر کو پکڑ کر سیدھا کررہی تھی ۔
صائمہ کے جھوٹ سے شوہر کا لہجہ دوبارہ نرم ہو گیا اور وہ پریشان ہوکر بولا اچھا تم فکر نہ کرو ! میں تمہیں آکر پک کرلیتا ہوں ، تم کہاں اس حال میں ٹیکسیوں میں دھکے کھاتی آؤ گی ! ۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ اتنی زیادہ تکلیف نہیں ہے اور ویسے بھی ٹیکسی گیٹ پر آ چکی ہے، آپ فکر نہ کریں میں پہنچ جاؤں گی۔ تب کہیں صائمہ کے شوہر کی تسلی ہوئی اور اس نے کال بند کی۔ کال بند ہوتے ہی صائمہ نے بے چینی سے نوکر اور اسکے دوستوں کی طرف دیکھا اور بولی پلیز جلدی سے ایک ایک راؤنڈ اور لگا لو ! پلیز ! ! ! ! صائمہ کی دعوت سنتے ہی چاروں صائمہ پر ٹوٹ پڑے اور دھڑادھڑ صائمہ کے منہ ، ہپس اور پھدی میں اپنے لن ڈال کر اسے چودنے لگے۔ صائمہ اب بھی گھر واپس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن جونہی نوکروں کا کلائمکس ہوا انہوں نے صائمہ کو باتھ روم میں لے جاکر اپنے ہاتھوں سے نہلایا۔
باتھ روم سے نکل کر نوکر اور اسکے دوستوں نے جلدی جلدی صائمہ کو اسکی واجبی سی بریزئر پہنائی اور باقی کپڑے پہنا کر جلدی جلدی Uber سے کار منگوا کر صائمہ کو وہاں سے روانہ کیا۔ صائمہ بھی پورے دو دن اپنی سہیلی کے نوکر اور اسکے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزارنے کے بعد ان سے اگلے ہی دن دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے آنکھوں میں پیار بھرے آنسو لئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔


![[+]](https://xossipy.com/themes/sharepoint/collapse_collapsed.png)