18-05-2025, 08:20 PM
دوستو میرا نام کومل ہے اور میرے والد کالج میں لیکچرر ہیں میں بدنانی اعتبار سے کافی خوبصورت رہی ہوں سمارٹ بدن پیارا فگر اور گورا رنگ کوئی بھی ایک نظر دیکھ لے تو دوبارہ دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں ضرور جنم لیتی ہے جب ہوش سنبھالا تو گھر والوں کی شفقت میسر ہوئی کسی چیز کی خواہش ہوتی فورا خواہش پوری ہو جاتی بڑے گاوں کے پرائمری سکول میں داخل کروایا گیا۔
جب مڈل کلاس میں گئی تو مجھے بخار ہو گیا جو طول پکڑتا گیا اب میں گھر رہنےلگی تعلیم کا بہت شوق تھا اس لیے میں نے پرائیویٹ اپنی تعلیم جاری رکھی اور دسویں پاس کر لیا اور گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی تھی اس وقت تک میں پیار پیار کے نام سے بالکل ناواقف تھی مگر ان کی اصلیت کے بارے میں سوچا تک بھی نا تھا ہر دم اپنے کاموں میں مگن رھنا اور سکون سے زندگی بسر کرنا میرا کام تھا جب عزیزرشتہ داروں کے ہاں جاتی تو وہ سب مجھ سے اتنا پیار کرتے کہ جنت کا سماں نظر آتا۔
پھر ایک دن یوں ہوا کہ میں اپنے سیل جو ہمارے گھر کا تھا اس پر گانے پرانے سن رہی تھی کہ رانگ نمبر سے کال آئی میں نے اسے او کے نا کیا بلکہ مصروف کر دیا شاید اس کو شک ہو گیا کہ یہ نمبر کسی لڑکی کا نمبر ہے اور وہ بار بار تنگ کرنے لگا میں نے اس کوایس ایم ایس کیا کہ مہربانی فرمائیں یہ ہماری فیملی کا نمبر ہے وہ تو بس ڈھیٹ تھا بار بار ایس ایم ایس کرنے لگا کہ پلیز ایک بار کال پر بات کر لو۔
میں نے اس کے بے حد ضدپر کال او کے کر لی اور پوچھا کہ بتائیں آپ کا کیا مسئلہ ہے جناب وہ کہنے لگا کہ بس ایسے ہی دل کیا آپ سے بات کرنے کو اس طرح اس نے کال کٹ کر دی میں سوچوں میں پڑ گئی تھی کہ اب وہ روزانہ گڈ نائٹ گڈ مارننگ کے ایس ایم ایس کرتا۔
اب میرے دل کو پتہ نہیں کیا ہوا میں بھی اس سے بات کرنے لگ گئی وہ ہمارے گاؤں کا ہی نکلا اس کا نام نفاست علی تھا ہماری اچھی دوستی ہو گئی اب وہ کہتا کہ مجھ سے ملو مگر میں تو کبھی گھر سے باہر بالکل نہیں نکلی تھی کیسے ملتی گھر سے باہر جاتی تو میرے بھائی ہر پل میرے ساتھ ہوتے وہ ہمارے گھر کے سامنے آتا تو میں ونڈوسے اسے صرف دیکھتی وہ بہت خوبصورت تھا اتنا خوبصورت کہ میں اس کی شکل دیکھ کر پا گل ہو گئی تھی
اور اتنی پیار دل میں پیدا ہو گئی کہ میں اس کی دیوانی ہی ھو گئی ایک دن اس نے کہا کہ میں نزدیک سے آ پ کو بس دیکھنا چاہتا ہوں میں نے کہا ضد نہ کرو میں بہت مجبور ہوں وہ بہت رونے لگا میں نے امی سے کہا میں نےانکل کے گھر جانا ہے مگر امی نے اکیلے جانے نہیں دیا تھا امی نے کہا کہ کومل بیٹی کل میں آپ کو بھائی کے ساتھ بھیجوں گی
میں نے نفاست علی سے ایک دن کا وقت لیا وہ بہت خوش ہوا تھا لیکن دوسرے دن ابا نے جانے نہ دیا میں بہت پریشان ہوئی وہ بار بار ضد کر ہی رھا تھا تم مجھ سے پیار نہیں کرتی اب میں زہر کھا لوں گا مر جاونگا ابا سے میں نے کہا کے جانے دو مگر ابا نے کہا کہ وہاں کوئی شادی نہیں ہے جو اتنی ضد کر رہی ہو تم چپ کر کے اپنا کام کرو مجھے تنگ نہ کرو بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے شرم نہیں آتی
اتنی بڑی ہو گئی ہو کچھ تو خیال کرو جوان بیٹی کو ہی ادھر بھیج دوں کسی روز سب چلیں گے اور واپس آ جائیں گے میں کمرے میں جا کر بہت روتی رہی تھی میرا دل توپھٹ رھا تھا ابا کیا جانے مجھ پر کیا گزر رہی تھی میں نفاست علی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ میرے دل کی دھڑکن تھا میں اس کے بنا ایک پل اب نہیں رہ سکتی تھی
ایک دن میرے ابا کسی میٹنگ میں دوسرے شہر چلے گئے۔ بھابھی بھی میکے گئی ہوئی تھیں اور امی اپنی بڑی بہن کی طرف تھیں شام کو امی کی کال آئی کے ان کی بہن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے وہ ادھر ہی رکیں گی میں نے اس رات نفاست علی کو گھر بلا لیا تھا یہ ہماری پہلی ملاقات تھی میں نے اپنی جان کو بہت پیار کیا اور ہم بہت دیر تک پیار بھری باتیں کرتے رہے کسنگ بھی کچھ کی ہم نے ساتھ نبھانے کے قول قرار کیے
اور پھر آہستہ آہستہ ہم کھونےلگے اس رات میں نے ایکدم ٹائٹ شلوار قمیض پہنا ہوا تھا سیکسی لگ رہی تھی جس میں کسی سیکس بم سے زیادہ غضب ڈھا رہی تھی نفاست علی میری کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا تو میں نے بھی جواب میں سیکسی مسکراہٹ پیش کی اور یہ بڑی معنی خیز سی مسکراہٹ تھی جو کہ میں اسوقت سمجھ نہ سکی اس مسکراہٹ کا شروع شروع میں علم کم ہی ہوتا ہے اور جب علم ہو جاتا ہے تب ہم مسکراہٹ میں ہی ہاں یا ناں کر دیا کرتے ہیں
اور سامنے والے کو سوال کا جواب آنکھوں ہی آنکھوں میں مل جاتا ہے میں نے نفاست علی سے کہا چلو کھانا کھا لیتے ہیں ہم پہلے پھر باقی باتیں کریں گے اس نے کوئی جواب نہ دیا اور میرے ساتھ باورچی میں آکر کھانا گرم کرنے میں میری ہیلپ کرنے لگا اس دوران کچن میں مختلف چیزیں اٹھانے کے چکر میں گھومتے اور چلتے پھرتے میں دو تین بار نفاست علی سے ٹکرا گئی تھی میرے بڑے ممے وہ دیکھتا تھاایک بار اسکا لنڈ میری چوت اور گانڈ سے ٹکرایا مگر میں کچھ نہ بولی بلکہ مسکرا کرخاموش رہی خیر پھر ہم دونوں ٹیبل پر پہنچے کھانا لے کر اور ساتھ ہی کھانے لگے تھے
کھانے سے فارغ ہو کر نفاست علی میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور میرا گورا ہاتھ اپنے ھاتھ میں لیا میری سانسیں تیز چل رہی تھیں مگر میں پیار میں اتنی اندھی ہوتی ہے ہو چکی تھی کہ نفاست علی کی خاطر کچھ بھی کر سکتی تھی اس نے میرا ہاتھ اپنے لوڑا پر رکھ دیا میں ایک دم ہوش میں آگئی ایکدم ہڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی اس نے مسکراتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھا
اور کہا آج اگر تم مجھ سے بہت سچا پیار کرتی ہو تو خود کو میرے حوالے کر دو میں کچھ نہیں بولی اور نظریں نیچے کر لیں اس نے ہمت کر کے میرے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور میرے لپس پر ایک ہلکی سی کس کی میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی
پھر اس نے میرے بوبز پر ہاتھ رکھ دیا میں ایکدم کسمسا اٹھی اب اس نے مجھے دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا میں نے بھی اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا اور اسے اپنے سینے میں بھینچنے لگی اس نے مزید وقت ضائع کیئے بغیر میری قمیض میں ہاتھ ڈالا اور میرے بوبز کو پکڑ لیا
اور دبانے لگا میری سانسیں تیز ہونے لگی تھیں اور میرے لپس کپکپا رہے تھے میں اس کی جانب دیکھ رہی تھی میری آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھے اور میری آنکھیں آدھی کھلی اور آدھی بند تھیں اس نے ایک بار پھر میرے لپس پر اپنے لپس رکھے مگر اس بار اس نے ایک لمبی کس کی اور اسکے ساتھ ساتھ میرے دونوں بوبز کو دباتا رہا جس سے میں کافی گرم ہو گئی تھی تقریباً چدنے کے لیے تیار
اس نے کہا کہ مجھے بیڈ روم میں لے چلو میں اسکو بیڈ پر لے آئی
بیڈ کے پاس پہنچ کر اس نے مجھے کھڑا کیا اور اپنے ساتھ لپٹا لیا اور میری کمر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے میرے کولہوں تک لے گیا اور انکا مساج کرنے لگا میں نے اپنے کولہے سکیڑ کر سخت کر لیے پھر اس نے میری گالوں پر کسنگ کی میں نے جو قمیض پہنی تھی اسکی زپ پیچھے کی طرف تھی
اس نے واپس کمر تک ہاتھ لے جاکر میری زپ کھولی اور میری قمیض کو ڈھیلا کردیا میری قمیض کندھوں سے ڈھلک کر نیچے آگئی اور بریزر صاف نظر آرہا تھا جس میں سے بڑے بڑے دودھیا رنگ کے بوبز اپنی بہار دکھا رہے تھے اس نے میری قمیض کو اسی پوزیشن میں چھوڑ کر میری شلوار پر حملہ کیا
میں شلوار میں الائسٹک استعمال کرتی تھی عام طور پہ لڑکیاں کرتی ہیں اس نے ایک ہی جھٹکے سے میری پوری شلوار زمین پر گرا دی میں خاموش کھڑی صرف تیز تیز سانسیں لے رہی تھی مگر کچھ نہ کہہ رہی تھی اور نہ ہی اسے روک رہی تھی اب اس نے میری قمیض کو بھی میرے بدن سے الگ کیا
میں صرف بریزر میں رہ گئی تو مجھے اس تکلف سے بھی آزاد کردیا اب میں پوری ننگی اس کے سامنے ایک دعوت نظارہ بنی کھڑی تھی اس نے میرے پورے چکنے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیامیرا بدن ایکدم چکنا تھا اور کافی گرم ہو چکا تھا اس نے آہستہ آہستہ ہاتھ میری خوار پھدی کی جانب بڑھایا اور اپنی انگلی جیسے ہی میری خوار پھدی میں ڈالی وہ گیلی ہوگئی
میں بہت ھاٹ ہو چکی تھی اب اسے اپنا کام کرنا تھااس نے مجھے بیڈ پر چلنے کو کہا تھامیں خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور اسے دیکھنے لگی اس نے انتظار نہیں کیا اور بیڈ پر چڑھ گیا تھا اور میرے اوپر لیٹ کر اپنا لوڑا میری ٹانگوں کے بیچ خوار پھدی کے منہ پر پھنسا دیا اس نے بیٹھ کر میری ٹانگیں کھول دیں۔ اور خوار پھدی کے منہ پر لوڑا کو سیٹ کیا اسکا لوڑا میری خوار پھدی کے پانی سے گیلا ہو کر چکنا ہوچکا تھا اور اندر جانے کو بے تاب تھا اس نے تنے ہوئے لوڑا کو ایک زور دار جھٹکا لگایا اور لوڑا میری خوار پھدی کی سیل توڑتا ہوا اس میں داخل ہوگیا اور اسی لمحے میرا سانس ایک لمحے کو رکا اور درد سے میری فل چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں
مگر کوئی سننے والا نہیں تھا اور پھرمیں نے تیز تیز سانسن لینا شروع کر دیا اس نے خون میں لت پت تھوڑا سا لوڑا باہر نکالا کیونکہ پورااندر جانے کے لیے اسے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ضروری تھا اس نے تھوڑا سا پیچھے کیا لوڑا کو اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور پورا لوڑا خوار پھدی کے اندر داخل ہوگیا
اب میرے منہ سے آہیں نکل رہی تھیں مجھے اپنے بدن میں اسکا سخت تنا ہوا لوڑا محسوس ہوا تو میں نشے میں بے حال ہونے لگی اور بے تحاشہ اسے چومنے لگی اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا مجھے چودو جلدی بس یہ سننا تھا اس کے اندر بجلی دوڑ گئی اور اس نے لوڑا کو اندر باہر کرنا شروع کردیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہا میں جلدی جلدی فارغ رہی تھی
اس نے اپنی رفتار بڑھا دی اور بے تحاشہ جھٹکوں سے مجھے چودنے لگا میں بے حال ہو رہی تھی میری آہوں سے زیادہ تو چیخیں نکل رہی تھیں اور میں اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ اب رکنے والا تھا بھی نہیں بہرحال میں اس دوران دوبار فارغ ہوئی میری ہمت جواب دے رہی تھی اس نے اپنا لوڑا باہر نکالا اور کہا ابھی میں فارغ نہیں ہوا ہوں جان من
تم گھوڑی بنو مجھے اسکا تجربہ نہیں تھا میں اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے مجھے بتایا کیسے گھوڑی بننا ہے میں سمجھی تھی وہ شاید پیچھے کی طرف سے میری خوار پھدی میں لوڑا داخل کرےگا جیسے ہی میں گھوڑی بنی اس نے اپنا لوڑا میری کنواری گانڈ پر رکھا اور پوری طاقت سے اسکو اندر داخل کردیا لوڑا کسی پسٹن کی طرح چکنا اور گیلا تھا اور میری گانڈ بھی خوار پھدی سے بہہ کر آنے والے پانی سے گیلی تھی اسکا پورا لوڑا میری گانڈ میں ایک ہی بار میں آدھا گھس گیا اور میں درد سے بلبلا اٹھی مگر وہ باز آنے والا کب تھا سالا کتا میری گانڈ چودنے لگا تھا۔

![[+]](https://xossipy.com/themes/sharepoint/collapse_collapsed.png)