18-05-2025, 07:39 PM
میری بڑی باجی نے مجھے یہ کہانی اس وقت سنائی جب میں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ چدائی کا مست کھیل کھیل رہے تھے انہیں کی زبانی سنیئے
مُجھے محسوس ہو رہا تھا کہ کوُئی مُجھے دیکھ رہا ہے ۔ ۔ میں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مجھے کوئ دیکھتا ہوا دکھائی نہ دیا ہر کوئی اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا ۔ ایک شوشل ورکر کے ہاں پارٹی تھی اورمیں بھی أس میں مدعو تھی ۔ ایک بڑی شوشل پارٹی کی وجہ سے کافی سےزیادہ لوگ دعوت میں موجود تھے اور اکثر ایک دوسرے سے ناواقف تھے اس لئے لوگ اپنے اپنے جاننے والوں کے ساتھ الگ الگ یا گروپ کی صورت میں باعث مباحثہ میں مشغول تھے میں بھی اپنی فرینڈذ کے ساتھ خوش گپیوں میں لگی ہوئی تھی کہ مجھے بے چینی سی محسوس ہوئی اور مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ معلوم کروں کہ یہ میرا وہم تھا یا واقعی کسی کی کی نگاہوں کی ذد میں تھی ۔ بہت کوشش کی کہ کسی کو دیکھتے ہوئے دیکھ سکوں مگر بے سُود ۔ لیکن میری چھٹی حس برابر مجھے متنبہ کر رہی تھی ۔ میں اپنی دوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی کرتی رھی اور ادھر أدھر بھی دیکھتی رہی کہ اتفاق سے میری ساتھ والے کمرے کے دروازے کی طرف نگاہ گئی تو میں نے أسے اپنی جانب بڑے غور سےدیکھتے ہوئے پایا ۔ ساتھ والے کمرہ پر مرد حضرات نے قبضہ جما رکھا تھا اور زیادہ لوگ ہونے کی وجہ سے دروازے تک لوگ براجمان تھے اور وہ وہیں دروازے سے ہماری طرف دیکھ سکتے تھے اگرچہ ہماری ٹولی کمرے کی دوسری سائڈ پر تھی مگر وہ حضرت جب بھی موقع ملتا مجھے دیکھ لیتے ۔ میرے لئے وہ بالکل اجنبی تھا اور پہلی بار ہی أسے دیکھنے کا اتفا ق ہوا تھا ۔ ایک پُرکشش شخصیت کا جوان جس کی طرف کوئی بھی عورت دوسری بار دیکھنے کو مجبور ہو جائے مجھ مڈل ایجڈ عورت کی طرف کس لئے متوجہ ہو سکتایہ سوچ کر میں د لجمعی سے اپنی فرینڈذ کےساتھ باعث مباحثہ میں شریک ہوگئی کیونکہ وہ ألجھن دور ہو گئی تھی کہ کون دیکھ رہا تھا ۔
میں اب گاہے بگاہے أس طرف بھی دیکھ لیتی اور أسے اپنی طرف متوجہ پاتی ۔ اب مجھے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ موصوف نے اتنی حسینائیں جوان اور نوخیز گرلز اور خواتین میں سے مجھے ہی نظرِالتفات کا نشانہ بنا رکھا ہے ۔ میں نے بھی أس کی طرف چور نظروں سے دیکھنا شروع کردیا جسے أس نے بھی محسوس کیا اور اب میں جب بھی اس جانب أچٹتی نظر ڈالتی تو أس کی نظروں کی تپش محسوس کرتی اور بے خیالی میں کئی بار میں مسکرا بھی دی أس کی نظروں سے اب طلب جھلکتی نظر آتی وہ اپنی نگاہوں سے اب مسلسل پیغام رسانی کا کام لے رہا تھا ۔ میں نہ ہی تو حوصلہ افزائی کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی یہ سلسہ ٹوٹنے دینا چاہتی تھی کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ مجھے اچھا لگ رہا تھا ۔ چاہے جانا پسند کئے جانا ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے اور ایک پنتالیس سالہ عورت کو ایک تیس پیتیس سال کا جوان نظروں ہی نظروں میں نہار رہا ہو تو یہ عورت ہی جان سکتی ہے ک وہ اندر ہی اندر کتنا خوش اور مسرور ہوسکتی ہے ۔ تو میں بھی أس طرف گاہے نظر ڈال لیتی اور ایک أچٹتی ہوئی نگاہ أس پر بھی ڈالتی ۔ وہ کوئی اجنبی ہی تھا کیونکہ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے افراد بھی أسکے ساتھ کوئی زیادہ بات چیت نہیں کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد میں نے بھی أس کی آنکھوں میں دیکھنا شروع کردیا اور کسی کسی وقت جھکی نظروں سے مسکرا بھی دیتی ۔ وہ اب زیادہ خوش نظر آنے لگا تھا اور اسکی نظروں میں ہوس صاف نظر آرہی تھی ۔ میں اپنی فرینڈذ کے ساتھ بھی محوِگفتگو رہی اور اس کے ساتھ بھی نہ جانے کہاں پہنچ چکی تھی ۔ دماغ تو ابھی تک دلائل کی جنگ میں مصروف تھا مگردلی اور جسمانی تقاضے مجھے سرنڈر کرنے پر رضامند کر چُکے تھے ۔ میں چور نظروں سے اپنی پسندیدگی اوررضامندی کا اظہار کر چُکی تھی اسکا اب دیکھنا میری ریڑھ کی ھڈی تک سرایت کر جاتا تھا ۔ایسے میں کھانا شروع ہونے کی اناونسمنٹ ہوئی تو ہم خواتین بھی ایک ڈائننگ ٹیبل جس پر کئی اقسام کی ڈشز لگی ہوئی تھیں سے اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا پروسنا شروع کردیا اور مرد حضرات اُسی ٹیبل کی دوسری سائڈ سے کھانا لینے میں مصروف تھے اتفاقا وہ صاحب میرے مقابل آگئےیا انہوں نے دانستہ کسی طرح ایسا منیج کیا تھا کہ ٹیبل کی ایک طرف سے میں کھانا لے رہی تھی اور میرے بالمقابل دوسری طرف سے وہ ۔ مجھ میں حوصلہ نہیں تھا کہ اس کیطرف برائے راست دیکھتی مگر میری نظریں أسکی پلیٹ پر تھیں کیونکہ جو کچھ میں اپنی پلیٹ میں ڈالتی وہ بھی وہی اپنی پلیٹ میں رکھتا ۔ سوچا ہو سکتا ہے ایسا اتفاق سے ہو رہا ہو میں نے اپنی پلیٹ سےایک چکن لیگ نکال کے رکھدی تو أس نے بھی ایسا ہی کیا میں نے اس کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہا تھا اور میں بھی دھیمے سے مسکرا دی ۔
ہم سب اپنی اپنی پلیٹس اورکولڈ ڈرنکس لے کر اپنی اپنی جگہ واپس آکے کھانا تناول کرنے لگے کھانا بہت زبرد ست او لذیذ تھا سب نے ہی شوق سے کھایا اور کھانے کے بعد پھر ہم سب سویٹ ڈشز کی طرف بڑھے میں نے چوکلیٹ پسند کیا مگر اس بار وہ صاحب کافی دور تھےاس لئے جب وہ واپس اپنی جگہ لوٹے تو میں نے دیکھا وہ صاحب ونیلا آئس کریم ذوق فرما رہے ہیںسب نے ہی اپنی اپنی پسند سےجو چاہا وہ لیا اور انجوائے کیا پھر اکا دکا شریکِ محفل کو واش رومز میں جانے کی حاجت ہوئی یہ تین بیڈ روم کا ہاؤس تھا اور باتھ روم تو بیڈ رومزمیں ہی تھے جو کہ دوسری منزل پر تھے اور نیچے صرف دو واش روم ہی تھے وہ بیک ڈور کے ساتھ ملحق تھے اور قدرے اندھیرے میں تھے کیونکہ اس طرف لائٹس کم تھیں ۔ مجھے بھی حاجت محسوس ہوئی تو میں بھی اس طرف گئی ایک دو پہلے سے ہی ویٹ کر رہے تھے کہ اندر جائیں میں بھی زرا ہٹ کے کھڑی ہو گئی اور باری کا انتظار کرنے لگی کہ اتنے میں وہ صاحب بھی میرے پاس آکے کھڑے ہو گئے ۔ ہماری نظریں ملیں مگر ہم ایک دسرے سے کچھ بولے نہیں ، اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی مگر آنکھوں میں شرارتی مسکراھٹ ۔ اب میں نے چور انکھیوں سے اس کی پرسونیلٹی کا جائزہ لیا وہ کوئی چھ فیٹ اور دو یا چار انچ کا قدآور بہت ہی سمارٹ ویل ایجوکیٹڈڈ پُر کشش شخصیت کا مالک ۔ قاتلانا مسکراہٹ کا حامل تھا آپ أسے لیڈی کلر بھی کہ سکتے ہیں
تھوڑی دیر کے بعد صاحب میرے ساتھ لگ کے کھڑے ہو گئے اور میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چُھونے لگے ۔ میں نے ادھر أدھر نظر دوڑائی کوئی ہماری طرف متوجہ نہ تھا اور روشنی کم ہونے کی وجہ سے صاف نظر آنا زرا ناممکن تھا ۔ أس نے آہستہ سے میرے ہات کو اپن ہاتھ میں لے لیا اور دبانے لگا میں کچھ کہ نہ سکی نہ ہی اپنا ہاتھ چھڑایا ۔ شاید یہ نادانستہ اسکی حوصلہ افزائی تھی کہ أس نے اچانک میرا ہاتھ اپنی پنٹ کی زپ کی جگہ رکھ دیا اس نے اوپن شرٹ پہنی ہوئی تھی اور شرٹ پینٹ کے اندر نہ تھی ۔ میں تو اس کی بے باکی اور حوصلہ پر حیران رہ گئی مگر زیادہ حیرانی مجھے اسکے مردانہ عضو کوچھو کر محسوس ہوئی کہ وہ کافی بڑا اور موٹا لگ رہا تھا اور نیم ایستاہ تھا اگرچہ پینٹ کے اندر ہی تھا مگر میں اس کو محسو س کر کے اپنی ٹانگوں تک کمزوری محسوس کرنے لگی – میں کافی پریشان ہوئی کہ اس کو اتن ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے ایسی حرکت کی دوسرا اس ابھار کو محسوس کرکے کہ یہ کوئی فیک ابھار ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا سائز کافی سے زیادہ بڑا لگ رہا تھا
میں اب بھی وہیں کھڑی تھی اور اب رہ رہ کر چور نگاہوں سے اسکے ابھار کو دیکھ لیتی من چاہ رہا تھا کاش ایک بار دبا کے دیکھ لیتی تو پتہ چل جاتا کہ أبھار کہیں فیک تو نہیں ابھار مزید ابھر کر بڑا ہو گیا ۔ میرا حلق خشک ہونے لگا تھا اور میں بے قراری محسوس کر رہی تھی ابھی واش روم میں جانے کے لئے ایک اور آدمی کے بعد میرا نمبر آنا تھا ۔ وہ میری حالت دیکھ رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ میں اتنی بیکل کیوں ہو رہی ہوں میں اسکے ابھار کو دیکھتی اور اپنےخشک ہونتوں کو زباں سے تر کرتی میرا سارا جسم تپ رہا تھا اس نے پھرہولے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ میں نے چھڑانے کی معمولی سی کوشش کی مگر اس بار اس کی گرفت کافی مضبوط تھی اور اس نے میرا ہاتھ پھر اپنے ابھار پر رکھ دیا ۔ اس نے کوشش کی کہ میں اسے پکڑ لوں ، تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ میرا ہاتھ اس پر رکھنے میں کامیاب ہوگیا میں بھی یہی چاہتی تھی مین نے اس کے اوپر ہاتھ پھیرا ور پھر اس کو دباکے دیکھا تو مجھےتسلی ہو گئی کہ اصل ہے فیک نہیں مگر میں یقیں نہیں کرپارھی تھی کہ کسی کا اتنا موٹا بھی ہو سکتا ہے
جلد ہی مجھے آس پاس کا خیال آیا کہ کوئی دیکھ ہی نہ لے اور اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا اور اسے دیکھے بنا ہی وہاں سے واپس لوٹ آئی ۔ اب مجھے سگریٹ کی سخت طلب ہوئی مگر سگریٹ کا پیکٹ تو باھر پارکنگ لاٹ میں کھڑی کار میؒں تھا ، پبلک گیدرنگ میں سگریٹ نوشی معیوب سمجھی جاتی ہے اس لئے سگیٹ پیکٹ کار میں ہی چھوڑ دیا تھا ۔ اب أس کا چُھو کرتو میں بے بس سی ہو گئی تھی مجھےسانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا مجھے تازہ ہواکی ضرورت محسوس ہو رہی تھی تو میں نے اپنے ساتھ آنے والی ھمسائی کو بتایا کہ میں سگریٹ کے لئے زرا باھر جار ھی ہوں اسے سگریٹ سے الرجی تھی اور نفرت کرتی تھی سگریٹ سے جس کی وجہ سے وہ خوش ہو گئی کہ کہیں میں نےاسے اپنے ساتھ آنے کو نہیں کہ دیا اور میں اسے بتا کر بیک ڈور سے بیک یارڈ میں پارکنگ لاٹ کی طرف نکل آئی ۔ ۔۔
میں سگریٹ کی طلب میں بیک ڈور سے بیک یارڈ میں نکل آئی اور اپنی کار کو دیکھنے لگی کہ کس طرف پارک کی تھی میں چونکہ شام سے پہلےآئی تھی أس وقت میں نے کار کو ایک سائیڈ میں ایک درخت کے نیچے پارک کیا تھا اور أس تک اتنے مہمان نہیں آئےتھے اور اتنی زیادہ وہیکلز نہیں تھیں ۔ اب اگرچہ سٹریٹ لائٹس کی کافی روشنی تھی پھر بھی مجھے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ گاڑی کھڑی کہاں تھی ریموٹ سے کار کی پارکنگ کامعلوم کرکےمیں اس جانب بڑھی اور جلدی سے سگریٹ پیکٹ اٹھا کے سگریٹ سلگایا اور ایک دو کش لے کرمیں وہیں کار کے بونٹ پر ہی بیٹھ کر سگریٹ سموک کرنے لگی ۔ موسم خنک تھا مگر مجھے تو گرمی محسوس ہو رہی تھی شکر ہے دیسی پارٹی ہونے کی وجہ سے میں شرٹ اور پاجامہ نما شلوار پہن کے آئی تھی ورنہ بھاری ملبوس ہوتا تو مجھے کافی پریشانی کا سامنا ہوتا ویسے بھی مجھے ہلکا پھلکا لباس ہی پسند ہے ۔ تکلفات سے کوفت ہوتی ہے اس لئے کسی سادہ لباس میں بھی پارٹی وغیرہ میں شریک ہو جاتی ہوں اور یہ پارٹی تو سماجی کارگزاری کی رپورٹ کے بارے میں تھی اور اب کھانے کے بعد سفینہ آپی جو کہ شوشل ورکر ہیں اورجس نے اس گیٹ ٹو گیدرنگ کا اہتمام کیا تھا نے ایک مووی کا پروگرام رکھا تھا جس میں ان کی پورے سال کی کارگذاری دکھائی جانی تھی ۔ میں نے سوچا ایک دو سگریٹ سموک کرکے میں بھی ان سب کے ساتھ شامل ہو جاؤنگی کہ ان سب میں تو وہ بھی ہوگا أس کا خیال آتے ہی میرے زہن میں أس کا ابھار أبھر آیا اور میری انگلیوں کو اس کا لمس ستانے لگا ۔ میرے سارے بدن میں ایک لہر سی دوڑ گئی اور میں سوچنے لگی جو کچھ میں نے محسوس کیا تھا جس کو چھوا تھا دبا کے دیکھا تھا اتنا موٹا بھی کسی کا ہوتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اب تک میں کافی برت چکی تھی کسی کا میں شکار ہوئی تو کوئی میرا شکار ہوا ۔ کسی کا لمبا کسی کا موٹا ہر طرح کے مردانہ اوزار برت چکنے کا اتفاق ہوچکا تھا ۔ مگر اتنا موٹا میں نے پہلی بار چھو کر دیکھا اور دبا کر جانچا تھا۔ میں شاید تکلف سے کام لے رہی ہوں اور کچھ شرما بھی رہی ہوں کہ اس عضو مردانہ کو کیا کہ کرلکھوں ۔ ایک وقت تھا جب دیسی عورت کے لئے خاوند کا نام لینا یا أسے نام سے پکارنا بہت مشکل ہوتا تھا اب خیر نام تو بگاڑ کر بھی ہم لے لیتی ہیں مگر ان کا اوزار منہ میں تو ڈال لیتی ہیں مگر أسے کہنا کافی مشکل محسوس ہوتا ہے ویسے اس کا ننم لینا یا کہنا کافی سیکسی معلوم ہوتاہے اور مردوں کو تو عورت سے اسکا نام کہلوا کر کچھ زیادہ ہی مزہ آتا ہے مجھے یا د ہے جب شادی ہوئی تھی تقریبا پچیس برس پہلے ، شادی کے دوسرے یا تیسرے روز میرےخاوند نے اپنا اوزارمیرے ہاتھ میں دے کر پوچھا تھا کہ اس کو کیا کہتے ہیں ۔ میں کیا بتاتی شرم سے گلنار ہوگئی اور میں نے کہ دیا میں کیا جانوں ۔ ۔ اب میاں ضد کرنے لگے کہ بتاؤ تومیں نے کہا آپ بتا دیں
تو انہوں نے بتایا اس کو لن کہتے ہیں لنڈ بھی کہتے ہیں ھم پنجابی ہیں اس کو لوڑا کہتے ہیں۔
پھر پوچھنے لگے تمہیں یہ کیسا لگتا ہے؟
۔ میں بولی کیا مطلب؟
تو بولے تم کو اچھا لگتا ہےیا نہیں ۔
میں شرما گئی اور چپ رہی، انہوں نے میری ٹھوڑی انگلی سے اوپر اٹھائی اور میرے
ہونٹوں کو بوسہ دے کر پوچھا بتاؤ ناجان اچھا لگتا ہے
تو میں نے اقرار میں سر ہلایا، پھر وہ بولے جان بتاؤ اچھا لگتا ہے کہ پیارا۔
میں پھر چپ ، انہوں نے پھر پوچھ بتاؤنا پلیز
ہم میاں بیوی ننگے ہی تھے تو میں نے لن کو دیکھا جو سر اٹھا کے اکڑا ہوا لہرا رہا تھا
سچی بہت پیارا لگ رہا تھا ۔ میں نے لن کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ایک ہی بات ہے اچھا لگنا یا
پیارا لگنا وہ کہنے لگے نہیں تم بتاؤ ۔ میں بولی اچھا بھی اور پیارا بھی ۔
وہ کہنے لگے چلو ٹھیک ہے تم اس کو پیار کرو منہ میں لے کر
میں نے کہا کبھی نہیں ایسا تو میں نہیں کرسکتی اتنا گندہ اور منہ میں ۔
بولنے لگے تم نے خود ہی کہا ہے پیارا لگتا ہےتمہیں تو پیار کرو اسے ،
میں سوچنےلگی کیا کروں عجیب الجھن میں پھنس گئی ہوں نئی نئی شادی ہوئی تھی ماں کی
ہدایت تھی جیسے مجازی خدا کہے کرنا اور وہ کہ رھا تھا لن منہ میں لوں ۔[اس وقت انٹرنیٹ نہیں تھا اور لن کو منہ میں لینا ایک معیوب بات تھی اب تو سٹارٹنگ ہی بلوجاب اور سکسٹی نائن سے ہوتی ہے ۔ ہاں مرد لوگوں کو شاید معلوم ہوتا تھا اسی لئے میرے میاں یہ فرمائش
کر رہے تھے ] خیر انکی ضد ی فرمائش کو دیکھتے ہوئے میں نے ان کے لن کو ایک بوسہ دیا پھر ایک بار پھر چوما اور تیسری بار چوما تو کہنے لگے کہ منہ میں لو ناں پلیز ۔ تو
میں نے معزرت کرلی کہ پھر کبھی آج نہیں وہ مان گئے سوچا ہوگا اج نہیں تو کل یا پرسوں
اور ان کی سوچ بجا تھی کہ أنے والے دنوں میں ہم ایک دوسرے کی خواہش کے مدِ نظر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے تھے ۔
اب وہ میری چوت کو سہلاتے ہوئےپوچھنے لگے کہ تمہاری اس کو کیا کہتے ہیں ، میں نے کہا آپ تو جانتے ہیں مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں تو وہ اس کو انگلیوں سے چھوتے ہو ئے کہنے لگے اس پیاری کو چوت بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی میری چوت کا بوسہ لے لیا میں تو حیران ہوگئی کہ کوئی چوت جیسی گندی چیز کو بھی چومتا ہے مگر میں کچھ کہ نہ سکی انہوں نے اسے چومنا شروع کردیا اور انگلی سے کھجاتے بھی جا رہے تھے ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اپنی زباں کی نوک سے چوت کو کھجایا اور پھر تو باقاعدگی سے چاٹنے لگے مجھے بہت مزہ آرہا تھا مگر ان کو میں روک بھی رہی تھی میں ان کے بال پکڑکے انہیں اوپر کھینچنے کی کوشش کرتی مگر جب انکی زبان چوت کے اندر جاتی تو سر کو اور چوت کی طرف دبا بیٹھتی یہ شاید ہماری شادی کا تیسرا دن تھا اور انہوں نے مجھے ایک نئے مزہ سے روشناس کیا۔ اخر وہ میرے اوپر آگئے اور میرے منہ میں اپنی زباں دے دی میں تھوڑی دیرپہلے جس چیز کو گندہ کہ رھی تھی اب اسی کا رس انکی زبان سے چو س رھی تھی ۔ ان کا چاٹنا غضب ڈھا گیا تھا اور میں ان کو بے خودی میں دیوانوں کی طرح چومنے لگی تھی ، ایک زبردست چدائی کا دو ر چلا پھر باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا
پنجاب میں چوت کو پُھدی بھی کہتے ہیں اور جس علاقے سے میں تعلق رکھتی ہوں وہاں اسے تیتا اور کُس کا نام بھی دیا گیا ہے


![[+]](https://xossipy.com/themes/sharepoint/collapse_collapsed.png)