18-05-2025, 07:03 PM
یہ کہانی مجھ سے میرے حقیقی چچا زاد عماد نے شیئر کی ہے جن کا تعلق کوٹلی نواب سے ہے اور وہ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں ۔
یہ کہانی ایک ایسی عالمہ کی ہے کہ جو پارسائی و پاکیزگی کا بے مثال پیکر تھی لیکن جب اس کی جوانی نے پلٹی کھائی تو وہشہوت و بےحیائی میں پورن سٹارز سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی ۔
اس کہانی کے کرداروں کی پرائیویسی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے ان کے نام بدل دیے ہیں ۔
میں اپنے کزن کی طرف سے بتائے قصے کو اپنے الفاظ کی لڑی میں پرو کے آپ کے سامنے پیش کررہی ہوں ۔
مولوی قاسم نصیر سے ہمارے پرانے خاندانی تعلقات تھے۔ کوٹلی نواب میں ان کا گھر ہمارے گھر کے بالکل سامنے واقع تھا ۔ پہلے انکے والد مولوی نصیر علی 40 برس تک ہمارے محلے کی مسجد کی امامت کر چکے تھے ۔ اور ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری ان کے27 سالہ بیٹے مولوی قاسم کو مل گئی تھی ۔
مولوی صاحب کی شادی 2 برس قبل گوجرانولہ سے ہوئی تھی اور ان کی بیگم گوجرانولہ کے ایک مدرسے سے فارغ التحصیل عالمہتھیں۔ صائمہ قاسم سے دو سال چھوٹی تھی ۔
صائمہ سے نہ کبھی ملاقات ہوئی تھی نہ کبھی سامنا ہوا تھا اور نہ کبھی اسے دیکھا تھا ۔
میری امی کی صائمہ کے ساتھ اچھی سلام دعا تھی ۔ میری چھوٹی بہن زارہ پانچویں جماعت کے پیپرز سے فارغ ہوئی تھی اورپڑھائی کا بوجھ کچھ کم ہوا تھا ۔ چنانچہ امی نے صائمہ سے کہا کہ روز شام کو آ کر زارہ کو پارہ پڑھا دیا کرو تجوید کے ساتھ ۔
ویسے تو صائمہ شاید یہ فرمائش نہ مان پاتی ۔ لیکن دونوں گھروں کے درمیان محض چند فٹ کا فاصلہ ہونے ، مولوی قاسم کے ساتھہمارے خاندانی تعلقات اور امی کی صائمہ کے ساتھ دوستی کی وجہ سے صائمہ ان کی یہ فرمائش مان گئی اور مولوی صاحب نےبھی انہیں اجازت دے دی ۔
چنانچہ یہ معمول بن گیا کہ روز شام چار بجے صائمہ اپنے عبایہ و نقاب میں ہمارے گھر کی بیٹھک میں زارہ کو پڑھانے آ جاتیں ۔ اسکلاس کا دورانیہ ایک گھنٹے ہوتا تھا ۔ 5 بجے صائمہ واپس چلی جاتی ۔
اس دوران بیٹھک کے دونوں دروازے بند رہتے اور گھر کا کوئی بھی مرد صائمہ کے واپس جانے سے قبل بیٹھک میں قدم نہ رکھ سکتاتھا ۔
صائمہ کو ہمارے گھر آکر زارہ کو پڑھاتے ایک مہینہ ہوا تھا کہ پہلی مرتبہ صائمہ سے میرا سامنا ہوا ۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک روز شامکے سوا 5 بجے اچھی خاصی آندھی آگئی ۔ میں گرد و غبار کی وجہ سے گھر کی سب کھڑکیاں بند کررہا تھا ۔میرا یہی اندازہ تھاکہ صائمہ جا چکی ہو گی ۔کیونکہ 5 سے اوپر ٹائم ہو چکا تھا ۔ تو کب بیٹھک کی کھڑکی بند کرنے کے لیے اندر داخل ہوا تو یہ دیکھکر ٹھٹھک گیا کہ صائمہ اور زارہ ابھی تک بیٹھک میں موجود تھیں ۔
صائمہ کے جسم پر اس وقت عبایہ موجود نہ تھا کیونکہ وہ آ کر عبایہ اتار دیتی تھی اور جانے سے پہلے دوبارہ پہن لیتی تھی۔
عبایہ کے بغیر صائمہ پر نظر پڑھتے ہی میرا دل جیسے اچانک ساکت ہوگیا ۔ انتہائی خوبصورت نقوش اور کھِلی رنگت اور سڈول جسمکی مانند صائمہ گویا دیکھنے میں ایک حور پری لگ رہی تھی ۔ مجھے دیکھتے ہی صائمہ نے اپنے دوپٹے سے چہرہ ڈھک لیا ۔ اور میں” اوہ سوری ” کہہ کر واپس پلٹ گیا ۔
وہ چند لمحے میرے سوچنے کا انداز بدل گئے ۔
اس سے قبل صائمہ میرے لیے محض ایک قابل عزت خاتون تھیں کہ جو اپنے قیمتی وقت میں سے ایک گھنٹہ نکال کر میری بہن کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے آتی ہیں ۔
لیکن وہ پہلی نظر سب کچھ بدل گئی ۔ اس کی دلفریب اجلی رنگت ، گہری آنکھوں ، جادوئی حسن کے حامل بھرے بھرے ہونٹوں اورخوبصورت نقوش نے تو جیسے مجھ پر ایک جادو سا کر ڈالا ۔ لیکن افسوس کہ صائمہ شادی شدہ لڑکی تھی ۔ اور میں اس سےشادی نہیں کر سکتا تھا ۔ لیکن صائمہ سے دوستی کی تمنا میرے دل میں انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔
لیکن میں جانتا تھا کہ یہ کام ناممکنات میں سے ایک ہے ۔ ایک تو صائمہ مذہبی گھرانے کی چشم و چراغ تھی اوپر سے ایک مولویکی بیوی اور پھر ایک عالمہلیکن اس سب کے باوجود بھی میں نے ہمت ہارنے سے انکار کردیا اور یہ سوچنے لگا کہ اس حسن کی دیوی سے تعلق کیسے استوارکیا جائے ۔ مجھے قاری صاحب پر رشک آنے لگا کہ ایسی خوش بدن حسینہ جن کے بستر کی زینت بنتی تھی
چند دن بعد شام کے وقت امی جان نے مجھے بریانی کی پلیٹ ڈھک کر دی کہ قاری صاحب کے گھر دے آؤ۔ میں جب قاری صاحب کےگھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ عصر کا وقت قریب تھا اور شاید قاری صاحب مسجد کے لیے نکل چکے تھے ۔ دروازہ کھٹکھٹانے کےایک منٹ بعد صائمہ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ، کون ہے ؟
میں عماد ہوں ۔ امی نے بریانی دے کر بھیجی ہے ۔ وصول کرلیں ۔ میں نے کہا
چند سیکنڈ بعد دروازہ کھلا ۔ صائمہ نے اپنے دوپٹے سے چہرہ ڈھک رکھا تھا ۔ پلیٹ پکڑاتے ہوئے بےاختیار میرا ہاتھ اس کی انگلیوںسے ٹکرا گیا اور وہ جھینپ کر پیچھے ہوگئی
ایک منٹ ٹھہرو میں پلیٹ واپس لا دیتی ہوں۔ صائمہ نے کہا اور اندر چلی گئی
ایک منٹ بعد وہ لوٹی اور اس نے خالی پلیٹ مجھے تھمائی
قاری صاحب کہاں ہیں آج ؟ اس سے قبل کہ وہ دروازہ بند کرتی میں نے پوچھا ۔
مسجد گئے ہیں عصر پڑھانے ۔ صائمہ نے کہا
اوہ اچھا ۔ میں بھی کہوں اس وقت گھر موجود نہیں ۔ پہلے تو قاری صاحب ہی دروازہ کھولتے تھے ہمیشہ ۔ میں نے جان بوجھ کر باتجاری رکھنے کے لیے کہا
تم مسجد جاؤ تو تمہیں پتا ہو کہ یہ وقت عصر کا ہے ۔ صائمہ کے لہجے میں ہلکی سی سرزنش تھی
میں جو اتنا نیک ہوتا تو قاری صاحب کی طرح میرا رشتہ بھی اتنے اچھے گھرانے میں ہونا تھا ۔ میں نے کہا ۔ جس پر وہ ہلکی سیہنسی
سمجھ رہی ہوں تمہاری اب شادی کی عمر کے لیکن تمہارے گھر والے توجہ نہیں دے رہے ۔ میں شازیہ ( امی ) سے بات کروں گی کہتمہارے رشتے کا کچھ سوچیں اب ۔ عاصمہ نے کہا
بہت شکریہ ۔ امی جان ایک آپ ہی کی سنتی ہیں ۔ میں نے کہا ۔ پلیٹ سنبھالی اور واپس چل پڑا ۔ میں بات کو مزید طویل نہیں کرناچاہتا تھا کہ کہیں گلی میں آتے جاتے کوئی دیکھ سن نہ لے
صائمہ کے ساتھ میں بات چیت کا آغاز کر چکا تھا لیکن اس کے شباب کی لذتوں کو پانے میں ابھی کئی مراحل باقی تھے
اس کے بعد دو ہفتے گزر گئے نہ تو میرا صائمہ سے سامنا ہو سکا اور نہ کوئی بات
پھر ایک شام کو کچھ ایسا ہوا کہ جس کی مجھے توقع نہ تھی ۔ ہوا کچھ یوں کہ میں اپنے پراپرٹی آفس سے واپس گھر لوٹ رہا تھاکہ جب قاری صاحب کے گھر کے نزدیک سے گزرتے ہوئے کچھ انتہائی مدہم سی آوازیں میری سماعت سے ٹکرائیں ۔ میں دیوار کےبالکل نزدیک ہو گیا اور اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑ کر نظر موبائل پر جما دی کہ جیسے میں کوئی میسج پڑھ رہا ہوں ۔ اور ساتھ ہی میںنے اپنے کان ان آوازوں پے دھر دیے جو گھر میں سے آ رہی تھیں ۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دو لوگوں میں کوئی جھگڑا یا تلخ کلامیچل رہی ہو ۔ گو کہ وہ آوازیں بہت دھیمی تھیں یعنی گھر کے اندرونی سے ابھر رہی تھیں پر اتنا صاف ظاہر تھا کہ قاری صاحب کاکسی سے جگھڑا چل رہا ہے ۔ دوسری آواز زنانہ تھی جو کہ صائمہ کے سوا اور کس کی ہو سکتی تھی ؟
میں ان کے الفاظ نہیں سمجھ پارہا تھا لیکن ان دونوں کی آواز میں موجود غصے کو سمجھ پارہا تھا ۔ کچھ دیر بعد خاموشی چھا گئی۔ اور میں سوچ میں ڈوبے ذہن کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے کی طرف بڑھ گیا
اس واقعے کے بعد میں کافی دیر تک اس سوچ میں ڈوبا رہا کہ آخر ان دونوں کے بیچ ایسا کیا اختلاف ہوگیا کہ یوں جھگڑے تک نوبت آپہنچی حالانکہ قاری صاحب تو اپنی متانت و نرم دلی کی وجہ سے خوب مانے جاتے تھے
اور مجھے ان پر غصہ بھی آرہا تھا کہ ایسی حور سی بیوی پر غصہ کررہے تھے کہ جیسی لڑکی کی تمنا ہر کوئی کرتا ہے
اس کے بعد ایک ہفتہ تک صائمہ زارہ کو پڑھانے گھر نہ آئی ۔ میں نے امی کو زارہ سے بات کرتے سنا کہ صائمہ میکے گئی ہوئی ہے
پھر ایک ہفتے بعد قاری صاحب ایک دن کے لیے اپنے ایک شاگرد کو اپنی جگہ امامت کی زمہ داری دے کر چلے گئے ۔ اور شام کے وقتہی ان کی واپسی ہو پائی
اگلے دن صائمہ پھر سے زارہ کو پڑھانے واپس آ گئی ۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ قاری صاحب صائمہ کو لینے اس کے گھر گئےتھے
اب صائمہ پھر سے زارہ کو پڑھانے باقاعدگی سے آنے لگی تھی ۔ لیکن اگلے ہی ہفتے پھر سے ایک غیر متوقع واقع ہوگیا ۔ میں شام کےوقت گھر کا کچھ سودا سلف لانے کے لیے بازار جانے کی خاطر گھر سے نکلا تو قاری صاحب کے گھر کے نزدیک سے گزرتے وقتمجھے پھر سے لڑائی جھگڑے کی کچھ دھمیی سے آوازیں سنائی دیں
اور اب کی مرتبہ اس جھگڑے کا دورانیہ بھی زیادہ تھا ۔ اب یہ بات تو صاف ظاہر ہو چکی تھی کہ کچھ عرصے سے قاری صاحب اورصائمہ کے درمیان معاملات اچھے نہیں چل رہے تھے ۔ لیکن اس کی وجہ کیا تھی اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا ۔ اس وقت تومیں بازار کی سمت چل دیا تاہم میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ صائمہ سے ضرور پوچھوں گا
اور پھر مجھے چند دن بعد صائمہ سے بات کرنے کا موقعہ مل ہی گیا ۔ ہوا کچھ یوں کہ اگلے ہفتے امی کی ایک کزن کی شادی تھی ۔اور شادی میں شرکت کے لیے گھر والوں کو کپڑوں وغیرہ کی شاپنگ کرنے جانا تھا ۔ چنانچہ امی نے مجھ سے کہا کہ قاری صاحبکے گھر پیغام دے آؤں کہ صائمہ کو بتا دیں آج شام ہم گھر نہیں ہوں گے آج پڑھانے نہ آئیں
لیکن میں نے جان بوجھ کر یہ پیغام نہیں دیا
میں نے کیونکہ چند دن پہلے ہی دو نئے جوڑے سلوائے تھے اس لیے مجھے نہ تو نئے کپڑوں کی ضرورت تھی نہ ہی شاپنگ پر جانےکی
اس طرح گھر والے شاپنگ پر چلے گئے اور میں گھر ہی رک گیا
حسب سابق میں نے بیٹھک کا وہ دروازہ اندر سے کھول دیا جو باہر گلی میں کھلتا تھا
اور خود میں واپس اپنے کمرے میں آگیا
کچھ ہی دیر بعد صائمہ کے آنے کا وقت ہوگیا اور مجھے بیٹھک کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی
میں اٹھا اور بیٹھک کے گھر والے دروازے کی جانب بڑھا اور ہینڈل گھما کر اندر داخل ہوگیا ۔ توقع کے مطابق صائمہ بیٹھک میں پہنچچکی تھی اور اپنا عبایہ اتار رہی تھی
زارہ کی جگہ وہ مجھے بیٹھک میں دیکھ کر بیک وقت حیران اور کنفیوز سی ہوگئی
زارہ کہاں ہے ؟ اس نے جھجھکتے لہجے میں پوچھا
آئی ایم سوری۔ میں آپ کے گھر بتانے آ ہی رہا تھا کہ آج زارہ کی چھٹی ہے ۔ بس زرا دیر ہوگئی بتانے میں ۔ میں نے کہا۔
اوہ اچھا ۔ میں پھر چلتی ہوں۔ صائمہ نے کہا اور دروازے کی جانب بڑھی
ایک منٹ زرا رکیے مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔ میں نے کہا اور صائمہ کے اٹھتے قدم تھم گئے
ہاں بولو ۔ صائمہ نے کہا
آپ کے گھر میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے ؟ اب خیریت تو ہے ناں ؟ میں نے کہا
ہاں سب خیریت ہے کیوں کیا ہوا ؟ صائمہ نے الجھے لفظوں میں کہا
دراصل ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میں گلی سے گزر رہا تھا تو آپ کے گھر سے کچھ لڑائی جھگڑے کی سی آوازیں سنائی دیں ۔ اسلیے مجھے تشویش ہورہی تھی ۔ میں نے کہا
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہمارے گھر سب ٹھیک چل رہا ہے ۔ اس نے تیز لفظوں میں کہا جیسے جلدی جلدی بات ختم کر کے وہاںسے نکلنا چاہتی ہو
صائمہ میری بات سنیں ۔اگر آپ کا قاری صاحب سے کوئی جھگڑا چل رہا ہے تو آپ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں ۔ اور صرف شیئرہی نہیں اگر قاری صاحب کے ساتھ آپ کے معاملات ٹھیک نہیں چل رہے تو آپ مجھ سے دوستی رکھ سکتی ہیں۔ یہ راز صرف ہمدونوں کے درمیان ہی رہے گا آخر کار ہمت جٹا کر میں نے اپنے دل کی بات کہہ ہی دی
کیا بکواس کررہے ہو ؟ تم اتنے گھٹیا اور چھچھورے نکلو گے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ لعنت ہو تمہارے اس دماغ پر جسمیں ایسا خیال آیا بھی ۔ میں آج کے بعد تمہارے گھر کسی صورت نہیں آ رہی اور نہ ہی اس کے بعد تم کبھی میرے سامنے آنے یامجھ سے بات کرنے کی کوشش کرنا ورنہ میں یہ سب قاری صاحب کو بتا دوں گی اور پھر وہ جانیں اور تمہاری فیملی جانے ۔ صائمہنے غصے سے ابلتی آواز میں کہا اور دروازہ کھول کر چلی گئیصائمہ چلی گئی اور میں گہری شرمندگی میں ڈوب گیا کہ مجھے اس طرح سیدھے لفظوں یہ بات نہیں کہہ دینی چاہیے تھی آخر وہایک مذہبی گھرانے کی چشم و چراغ شادی شدہ عورت تھی
اس کے بعد تین دن گزر گئے اور صائمہ زارہ کو پڑھانے کے لیے نہیں آئی ۔ اور مجھے اس بات کی پریشانی لاحق ہوگئی کہ جب امیصائمہ سے نہ آنے کا سبب پوچھیں گی تو کہیں صائمہ انہیں یہ سب بتا ہی نہ دے
لیکن پھر اچانک چوتھے دن صائمہ زارہ کی کلاس لینے کے لیے آگئی ۔ جس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ امی نے صائمہ کو دوبارہآنے کے لیے کہا ہوگا اور اس نے امی کی دوستی کا لحاظ کرتے ہوئے یہ درخواست قبول کر لی بغیر انہیں بتائے کہ اس روز ایسا کیا ہواتھا
صائمہ کو پھر سے پڑھانے آتا دیکھ کر میرا دل شرمندگی اور پشیمانی سے بھر گیا ۔ کتنا گر گیا تھا میں کہ ایک شادی شدہ پاکبازعورت پر بری نگاہ رکھ بیٹھا تھا اور کتنا بڑا دل تھا صائمہ کا کہ جس نے میری بدتمیزی کو نظر انداز کر دیا تھا اور اس بات کو رازہی رکھا تھا ورنہ میں اپنے خاندان اور معاشرے کو کیا منہ دکھانے کے قابل رہتا ؟
اب مجھ میں صائمہ کا سامنا کرنے کی ہمت تو نہ تھی تاہم دل میں ایک دبی دبی خواہش ضرور تھی کہ میں صائمہ سے اپنی حرکتپر معافی مانگ سکوں
جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا کہ چند روز بعد میری امی کی کزن کی شادی سر پہ تھی اور اس میں شرکت کے لیے گھر والوں کو دوروز کے لیے گوجرانولہ جانا تھا ۔
تاہم مجھے ایک غیر متوقع مصروفیت نے آن گھیرا۔ اور وہ یہ کہ لاہور سے آئی ایک پارٹی کو یہیں کوٹلی نواب میں کچھ زرعی زمینوںکا دورہ کروانا تھا تاکہ اگر وہ زمین انہیں پسند آجائے تو مالک کے ساتھ ان کی ڈیل پکی کروائی جا سکے
چنانچہ صبح 7 بجے روانگی سے قبل ابو نے مجھے ہدایت کی کہ میں آج اس پارٹی کو زمینوں کا وزٹ کروا دوں اور سہ پہر کے وقتروانہ ہو کر رات کو گوجرانولہ پہنچ جاؤں ۔ جس پر میں نے حامی بھر لی
خلاف توقع 8 بجے ہی وہ لوگ ان پہنچے۔ پتا چلا کہ وہ لوگ گزشتہ شام ہی پہنچ گئے تھے انہوں نے یہیں ایک رشتے دار کے ہاں راتکو قیام کیا تھا ۔ بحرحال بغیر تاخیر کے میں نے انہیں زمینوں کا وزٹ کروایا ۔ یہ زرعی زمین دیکھ کر انہوں نے پسندیدگی کا اظہارکیا اور تین دن بعد دوبارہ رابطہ کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد واپسی کے لیے روانہ ہوگئے
انہیں وزٹ کروا کر میں گھر واپس پہنچا تو صبح کے 9 بجے تھے ۔ میں نے سوچا اب جلدی فراغت ہو ہی گئی ہے تو جلدی ہیگوجرانولہ روانہ ہو جاؤں ۔ چنانچہ میں غسل کرنے اور کپڑے بدلنے کے لیے باتھ کی طرف بڑھ گیا
غسل کرنے اور نیا لباس پہننے کے بعد میں گوجرانولہ روانگی کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دی
اس وقت کون آگیا ۔ میں یہ سوچتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا اور دروازہ کھولا
یہ دیکھ کر جیسے زمین میرے پیروں تلے سے کھسک گئی کہ دروازے پر صائمہ تھی ۔ آج اس نے عبایہ نہ پہن رکھا تھا البتہ دوپٹےسے چہرہ ڈھک رکھا تھا ۔
آپ ۔ یہاں اس وقت ۔ میں نے حیرت سے کہا ۔ کیونکہ ایک تو وقت بھی صبح کا تھا اور اوپر سے شام کو بھی اس کا آنا نہیں بنتا تھاکیونکہ صائمہ کو امی نے شادی پر جانے کی اطلاع کر دی تھی.
بے وقت آنے کے لیے معذرت ۔ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔ صائمہ نے اندر قدم رکھتے کہا اور میں پیچھے ہٹ گیا
میں بھی کئی دن سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا۔ اور معذرت کرنا تو میرا بنتا ہے جو اس دن آپ سے یوں بد تہذیبی سے پیش آیا ۔ بسجوانی کے جوش میں اندھا ہوگیا تھا ۔ امید ہے آپ مجھے نادان سمجھ کر معاف کر دیں گی ۔ میں نے کہا
کیا ہم بیٹھ کر اطمینان سے بات کر سکتے ہیں ؟ صائمہ نے کہا
ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ میں نے کہا اور دروازہ بند کیا ۔ جس کے بعد ہم دونوں بیٹھک میں پہنچے
آمنے سامنے صوفوں پر بیٹھنے کے بعد چند منٹ تک خاموشی رہی
اب دوپٹہ اس کے چہرے پر نہ تھا اور اس کا چاند سا مکھڑا میرے سامنے تھا
سمجھ نہیں آرہی کہ کہاں سے بات شروع کروں ۔شاید اس دن میں کچھ زیادہ ہی سخت بول گئی تمہارے ساتھ ۔ صائمہ نے کہا
کوئی بات نہیں ۔ بات ہی ایسی تھی جسے کوئی بھی شریف لڑکی براشت نہ کر پاتی ۔ میں نے کہا
جس پر صائمہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری
یہی شرافت اب میں زندگی میں زہر گھول رہی ہے ۔ صائمہ نے کہا
میں سمجھا نہیں ۔ سب کچھ ٹھیک تو ہے ناں ؟ میں نے کہا
تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ قاری صاحب کے ساتھ میری کونسی ناچاقی چل رہی ہے ۔
آج وہی دکھڑا تمہیں سنانے آئی ہوں ۔ کیونکہ یہ بات نہ تو میں اپنے گھر میں کسی سے کر سکتی ہوں نہ کسی اور سے ۔ صائمہ نےافسردہ لہجے میں کہا
جو بھی بات ہے آپ بلا جھجھک میرے ساتھ شیئر کر سکتی ہیں ۔ آپ کی پریشانی دور کرنے کے لیے میں جو بھی کر سکا کروں گا ۔میں نے کہا
بات کچھ یوں ہے کہ
جب سے ہماری شادی ہوئی ہے تبھی سے یہ مسئلہ چل رہا ہے کہ قاری صاحب مجھ پر توجہ نہیں دیتے ۔ یعنی میری ازدواجیضروریات پورا کرنے میں سستی کرتے ہیں۔ صائمہ نے کہا
کیا ؟ سچ میں ؟ میں نے حیرت زدہ ہو کے کہا
ہاں ۔ یہ سچ ہے ۔ قاری صاحب کو کوئی جنسی مسئلہ درپیش نہیں ہے ۔ لیکن انہیں ازدواجی تعلقات میں اتنی دلچسپی نہیں ہے جتنیانسان کو ہونی چاہیے ۔ ایک تو وہ دو دو ہفتوں بعد میرے طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اوپر سے انہیں رومینس نامی کسی چیز کا پتا نہیں ۔ان کے نزدیک ہمبستری صرف چند منٹ کے جھٹکوں اور انزال کا نام ہے ۔ پھر بھلے میں ساری رات پیاسی سلگتی رہوں ۔ اور یہی وجہہے عماد کہ ہمارے درمیان اب تلخی بڑھتے بڑھتے جھگڑوں تک پہنچ چکی ہے
اوہ ۔ تو یہ بات ہے ۔ میں نے کہا ۔ مجھے یہ سب سن کر اتنا شاک لگا تھا کہ میں کچھ اور کہہ ہی نا پایا
کل شام پھر ہمارا جھگڑا ہوگیا ۔ اور عماد پتا ہے انہوں نے مجھے کیا کہا ؟ صائمہ نے کہا اور اس کی آنکھیں بھیگ گئیں
کیا کہا ؟ میں نے کہا
انہوں نے کہا تمہارے ذہن پر پر وقت سیکس سوار رہتا ہے فاحشہ لڑکیوں کی طرح ۔ صائمہ نے کہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکپڑے
بہت گھٹیا بات کی انہوں نے ۔ میں نے کہا
مجھ جیسی لڑکیاں لڑکپن سے جوانی تک جان سے بھی بڑھ کر اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہیں اور اپنے پاکیزہ وجود پر کسینامحرم کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیتیں ۔ کس لیے ؟ تاکہ ہم حق حلال کے رشتے میں بندھ کر جس کے گھر جائیں وہی ہماری جوانی کیسب امنگیں اس نیک رشتے کے سائے تلے پوری کر سکے ۔ اب میں اپنے آپ سے ہی یہ سوال کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے پوری عمراتنی پارسائی نبھا کر کیا ملا ؟ فاحشہ کا لقب ؟ صائمہ نے غصے سے کہا
قاری صاحب نے تو نا شکرے پن کی انتہا کر دی ۔ میں نے کہا
اگر وہ مجھے فاحشہ سمجھتے ہیں تو ایسے ہی سہی ۔ اب مجھے بھی کوئی پروا نہیں اس رشتے کے نام نہاد تقدس کی ۔ اگر وہمیری ضروریات پوری نہیں کر سکتے تو میں یہ سب کہیں اور سے حاصل کر لوں گی ۔ صائمہ نے کہا
کیا مطلب آپ کا ؟ میں سمجھا نہیں ۔ میں نے کہا
مطلب یہ کہ ۔ اس روز تم نے جو مجھے دوستی کی پیشکش کی آج وہ پیشکش میں قبول کرتی ہوں ۔ بس میری ایک شرط ہے ۔ صائمہنے کہا اور میں ہکا بکا رہ گیا
کیسی شرط ۔ میں نے تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ کہا
شرط یہ کہ مجھے ہر حرام و ناجائز کام ۔ ہر گناہ و بے حیائی سے گزرنا ہے ۔ بہت کر لیا یہ پارسائی کا ناٹک اب میں زندگی کا اصلمزہ لینا چاہتی ہوں ۔ صائمہ نے کہا اور صوفے سے اٹھی
آہ صائمہ ۔ آپ نے تو آج یہ کہہ کر میرے دل کی سب سے گہری تمنا پوری کر دی ۔ میں نے بھی صوفے سے اٹھ کر کہا
میرے بدن کی کھیتی برسوں سے بنجر ہے عماد ۔ اس پر اپنے پیار کی برکھا برسا دو ۔ صائمہ نے خمار آلود لہجے میں کہا اور میریطرف قدم بڑھایا
صائمہ ۔ میری عالمہ آج تک آپ نے سب کو نیکی کا سبق پڑھایا ہے آج مجھے پیار و محبت ۔ شہوت و لذت کا سبق بھی پڑھا دو ۔ میںنے اس کی جانب بڑھ کر اس کے مخملی بدن کو اپنی بانہوں میں سماتے بولا
مجھے پتا ہے کہ میں اپنے شوہر سے بے وفائی کررہی ہوں ۔ مجھے پتا ہے کہ میں ایک نامحرم کے ساتھ خلوت گزار رہی ہوں ۔ پر مجھےاس پر کوئی شرمندگی نہیں ۔ اب مجھے کھل کر اپنی جوانی کو جینا ہے ۔ صائمہ نے کہا ۔ ہمارے چہروں کے درمیان فاصلہ کم ہوتاجارہا تھا اور میں اس کی گرم دہکتی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا ہمارے ہونٹوں کے بیچ اب محض چند انچ کافاصلہ رہ گیا تھا
اور پھر چند طویل لمحوں کے بعد لبوں سے لب ٹکرا گئے
صائمہ کے نرم و نازک ، بھیگے سے ، گلابی ہونٹ جب میرے پیاسے ہونٹوں سے ٹکرائے تو لگا کہ جیسے میرے ہونٹ ریشم سے نرم اورانگارے سے گرم کسی یاقوت سے جا ملے ہوں
میں نے اس کے ہونٹوں سے ہونٹ پیوست کر دیے اور پوری طرح سے ان لمحات میں ڈوب کر ان نشیلے لبوں کا جام پینے میں مگن ہوگیا ۔آہ ۔ شراب کی سو بوتلوں میں بھی اتنا نشہ و سرور نہیں ہوسکتا جتنا صائمہ کے رسیلے ہونٹوں میں تھا ۔ میں کبھی اس کے نچلےہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوس رہا تھا تو کبھی اس کے اوپری ہونٹ کو ۔ کبھی وہ میرے ہونٹوں کو اپنے لبوں کا اسیر بنا کرچوس رہی تھی تو کبھی میں اس کے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا
اس نے اپنی بانہیں میری کمر کے گرد حمائل کر رکھی تھیں جبکہ میرے ہاتھ صائمہ کے کولہوں پر تھے اور میں اس کے لبوں کو چومتاہوا نرمی سے اس کے بھرے بھرے کولہوں کو سہلا اور دبا رہا تھا ۔ میرے سینے سے اس کا سینہ چپکا ہوا تھا اور میں اس کے ابھرےہوئے پستانوں کی حدت و تپش اپنے سینے پر محسوس کر رہا تھا ۔ میرے ہونٹ صائمہ کی تھوک سے بھیگ چکے تھے اور میں بغیررکے صائمہ کے لبوں کی چاشنی سے اپنی روح کو سیراب کررہا تھا
جی بھر کے بوس و کنار کرنے کے بعد ہم نے ہونٹ جدا کیے

![[+]](https://xossipy.com/themes/sharepoint/collapse_collapsed.png)