18-05-2025, 12:48 PM
میرا نام مہرو نساء جعفری ھے میری عمر چوبیس سال ھے
میں بچپن سے شادی تک کسی کے ساتھ اپنے جذبات شئیر
نہیں کرتی تھی میں سیل بند تھی جب میری شادی ھوئی
اور پھر آیا میری زندگی میں بدالؤ جو میں بیان کرونگی گھر
میں پلی پڑھی تھی یہ نہ تو کوئی خاص مذہبی گھرانہ تھا
جہاں بہت زیادہ سختی برتی جا رہی ہو اور نہ ہی آزاد خیال
کہ جو مرضی کرو اور کوئی پوچھ تاچھ نہیں والد کام پر
جاتے شام کو گھر لوٹ آتے اماں گھریلو کاموں میں مصروف
رہتیں یونہی زندگی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی#مہروکی
بھی بہت زیادہ سہیلیاں نہیں تھیں سکول کا سب کچھ
سکول میں رہ جاتا اور گھر آ کر والدہ کے ساتھ گھربکے
کاموں میں ہاتھ بٹا دیتی البتہ ابا جی کے لیے رات کی
چائے#مہرو نے ہی بنانی ہوتی تھی سکول ختم ہوا تو نہ
#مہرونے کسی کالج میں جانے کے لیے تگ و دو کی اور نہ ہی
گھر میں کسی نے پوچھا کہ آگے کی پڑھائی کا کیا کرنا ہے
یوں وہ کالج بھی نہ جاسکی ماں نے#مہرو کو گھر کے
کاموں میں مشغول کر لیا اور جیسے ہی پہال رشتہ آیا
ہاں کردی شادی
مناسب دیکھ بھال کے بعد#مہروکے لیے فور
کے بعد بھی#مہرو کی زندگی کچھ خاص نہیں بدلی خاوند
اچھا تھا خیال رکھتا تھا بہت زیادہ نکتہ چینی بھی نہیں
کرتا تھا معمول کی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن اچانک
ایک بھونچال سا آ گیا ہوا یوں کہ ایک قریبی عزیز کی
مہندی کھ موقع پر#مہرو پیچھے سٹور روم میں کپڑے بدلنے
گئی سٹور روم کا دروازہ نہیں تھا اس لیے#مہرونے بلب آن
نہیں کیا قمیض اتار کر ایک طرف رکھی ہی تھی کہ اچانک
اسکا نندوئی کمرے میں داخل ہوا وہ ہڑبڑا کر رہ گئی اس
اچانک آمد نے جیسے اسکے اوسان ہی خطا کردیئے دوسری
طرف دیکھا کے نندوئی کا بھی یہی حال تھا وہ چند ثانیے
مبہوت کھڑا رہا اس سے پہلے کہ عمارہ سنبھلتی اس نے آگے
بڑھ کر#مہرو کی گردن کے پیچھے ہاتھ ڈال کر بالوں سے
پکڑا گردن پر بوسہ دیا ساتھ ہی اسکی گال ہر اپنے ہونٹ
رکھ دیئے #مہرو نے جھٹکے سے اس سے اپنا آپ چھڑایا اور
قمیض اٹھا کر پہننے لگی اتنی دیر میں اسکا نندوئی بھی تیز
تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا جب تک دوبارہ حال
میں آئی تو اس کے اوسان خطا تھے وہ قطعی اجنبیت سے
سب پر نظریں دوڑا رہی رھی جیسے اسے اپنے چور کی تالش
ہو کہیں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ دیکھ کر وہ طمانیت
سے ایک طرف صوفے ہر بیٹھ گئی اسکی آنکھیں بند تھیں
اور وہی منظر اس کی نظروں میں بار بار گھوم رہا تھا جو
چند لمحے پہلے اسکے ساتھ پیش آیا تھا اسکے خاوند تو
کلین شیو تھے البتہ کچھ دیر پہلے اپنے گالوں پر کسی اجنبی
کی مونچھوں کی چبھن اب اسے بھلی محسوس ہو رہی
تھی#مہرو نے غیر ارادی طور پر ہاتھ اپنی گردن اور گال پر
پھیرا وقت گزرتا رہا اور وہ کسی اجنبی کے لمس کی پیاسی
ہوتی چلی گئی اسے رہ رہ کر وہ منظر یاد آتا مونچھ کی وہ
چبھن اسے کہیں تسکین نہ لینے دیتی جہاں وہ لوگ پہلے
رہائش پزیر تھے چھت پر جانے کا موقع بہت کم ملتا البتہ اب
وہ نئے مکان میں شفٹ ہو گئے جہاں وہ اکثر چھت ہر ٹہلنے
کی غرض سے چلی جاتی یہیں سے اسکی زندگی کا نیا رخ شروع ہوا ۔۔۔
شاھد#مہرو کا پڑوسی تھا جو ٹرانسپورٹ کا
کاروبار کرتا تھا چھت پر ٹہلتے ٹہلتے کبھی کبھار#مہرو کی
نظرشاھد پر پڑتی اسکی مونچھیں دیکھ کر غیر ارادی اپنی
گردن پر ہاتھ پھیر دیتی شاھد شاید گھر میں کسی کے
سامنے سگریٹ نہیں پیتا تھا کیونکہ وہ اکثر و بیشتر تھوڑی
دیر کے لیے چھت پر آتا سگریٹ ختم کرکے واپس نیچے چال
جاتا اکثر ایسا بھی ہوتا دونوں کی نظریں چار ہوتیں اور
دونوں ہی ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد ادھر ادھر مشغول ہو
جاتےشاھد اور#مہروکے گھروں کی چھت ساتھ ملتی تھیں
جن کے درمیان صرف ایک چار انچ کی دیوار حائل تھی ایک
دن جب شاھدنے#مہرو کی طرف دیکھا توشاھدنے بھی
دیکھنے کے بعد اپنی نظریں #مہروپر گاڑھ دیں وہ کافی
وقت ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر دونوں ہی مسکرا
دیے#مہروتو اچانک نیچے بیٹھ گئی البتہ شاھداسکے بلکل
قریب دیوار کی دوسری طرف آ گیا پڑوسی ہونے کے ناطے نام
تو وہ پہلے ہی ایک دوسرے کے جانتے تھےشاھد نے#مہرو کو
کافی آوازیں دیں لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھ سکی اس
سے اگلے دن شاھد اسکے قریب آ گیا اور پوچھنے لگا کل میں
نے تمہیں اتنی آوازیں دیں تھیں مجھے جواب کیوں نہیں دیا
#مہروشرما کر رہ گئی کچھ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں
وہ شرماتے شرماتے بولی یہاں سے انکی یہ دوریاں نزدیکیوں
میں بدلتی گئیں یہ ایک چاند رات تھی جب. شاھد نے اسے
گلی میں آنے کا اشارہ کیا اور کہا میں تمہیں پیار کرنا چاہتا
ہوں اسکے بدلے میں تمہیں دس ہزار روپے بھی دوں
گا#مہروکو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی پھر غصہ بھی آیا
لیکن کچھ سوچ کر اس نے حامی بھر لی اور کہا ٹھیک ہے
گلی میں آو دراصل وہ اپنے لیے ایک سوٹ خریدنا چاہتی
تھی عید کی شاپنگ تو وہ پہلے ہی کرچکے تھے لیکن بعد میں
اسے ایک سوٹ بہت پسند آیا تھا اور وہ اس خوف سے اسے
ہر حال میں خریدنا چاہتی تھی یہ نہ ہو کوئی اور لے جائے
اور بعد میں وہ ہاتھ ملتی رہ جائےشاھد جب گلی میں آیا
تو#مہرو پہلے سے وہاں موجود تھی جیب سے کچھ پیسے
نکالتے ہوئے اس نے#مہرو کی طرف بڑھائ#مہرو ایک ہاتھ
سے پیسے پکڑ رہی تھی شاھد نے اسکا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ
لیا اور انتہائی پھرتی سے اسکی گردن پر بوسہ دے ڈاال
اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھرے اور گردن پر بوسہ دیتے
دیتے پہلے دونوں گالوں پر بوسہ دیا پھر اسکے ہونٹوں میں
اپنے ہونٹ ڈالتے ہوئے اسکے ہونٹ کاٹنے لگا اسکے ہونٹوں کی
گرمی. شاھد کی روح میں اترتی چلی گئی یہ دوسرا موقع
تھا جب#مہرو نے اپنی گردن پر مونچھوں کی چبھن
محسوس کی وہ جلدی سے پلٹی اور گھر میں گھس گئی عید
کا پورا دن اس نے جیسے پاگلوں کی طرح گزارا وہ جب بھی
ان مونچھوں کی چبھن کو محسوس کرتی اس کا لوں لوں
کھڑا ہو جاتا اور عید کے چوتھے دن ہی اسکی برداشت
جواب دے گئی وہ چھت پر چڑھ کرشاھد کا انتظار کرنے
لگی جیسے ہی شاھد اسے چھت پر آتا دکھائی دیا وہ دیوار
کے ساتھ لگ کر اسکی طرف دیکھنے لگی آپ یہاں آہیں ہماری
چھت پر اس نے ہلکے سے آواز دی اور خود نیچے چلی گئی
جب واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں پیک شدہ ایک نیا سوٹ
تھا جبکہ شاھد انکی چھت پر بنے چھوٹے سے کمرے کی
دہلیز پر کھڑا تھا یہ سوٹ میں الئی تھی آپکی طرف سے
اپنے لیے اس نےشاھد کو سوٹ دکھاتے ہوئے مسکرا کر کہا
ہاں بہت پیارا ہے لیکن پہنا تو تم نے ہے نہیں ابھی تک ابھی
پہن کر دکھاوں۔ وہ یہ کہہ کر اسکے جسم کو چھوتی ہوئی
چھوٹے کمرے میں گھسی اورشاھد بھی ساتھ ہی اندر چال
گیا وہ ہنسی نہیں ناں آپ تو باہر جائیں پہلے نہیں نہیں میں
آنکھیں بند کرتا ہوں تم یہیں پہن لو وہ پھر ہنسی پکا
آنکھیں کھولو گے تو نہیں پکا ۔۔شاھد نے آنکھیں بند کرتے
ہوئے کہا شاھدنے جلدی سے قمیض اتاری اور اس نئے سوٹ
کی پیکنگ کھولنے لگی۔ شاھد میں نے قمیض اتاری ہوئی ہے
آنکھیں نہیں کھولنا۔۔ اس سے پہلے #مہروقیمض کو اپنی
آستینوں پر چڑھاتی آشاھدنے آنکھیں کھول دیں#مہروجو
اسی کی طرف دیکھ رہی تھی خود کو چھپانے کی ناکام
کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی آپ نے کیوں دیکھ لیا مجھے
میں تمہیں دیکھے بنا نہیں رہ سکتا میں تمہیں محسوس کرنا
چاہتا ہوں میں تمہارے اندر سمونا چاہتا ہوں. شاھد نے اسے
بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا اسے اپنے سینے
کے ساتھ لگایا اور اپنا منہ #مہروکی گردن پر ٹکا دیا۔۔۔۔۔۔


![[+]](https://xossipy.com/themes/sharepoint/collapse_collapsed.png)