Thread Rating:
  • 7 Vote(s) - 1.86 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
Small but hot sex stories. ( Collected from Net )
اور گوشت کاٹنے والی بڑی چھُری لے آئی, " اگر خود کو سنبھال نہیں سکتے تو یہ چھُری لو اور پھیر دو میرے گلے پر، کیونکہ جو ہوا اس میں میں بھی شریک تھی۔" اس کے تیور دیکھ کر میرے پورے بدن میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ میں اُسے دیکھے جا رہا تھا۔ اگرچہ وہ مجھ سے تین سال چھوٹی تھی اور ساتھ میں لڑکی تھی لیکن  اُس کے اعصاب مجھ سے مضبوط تھے وہ اتنے بڑے واقعے کو اتنا جلدی فراموش کر دے گی بلکہ مجھے بھی حوصلہ دے گی کہ میں بھی اسے فراموش کر دوں۔ ایسا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ "سعدیہ اگر کسی کو علم ہو گیا تو؟ " میں اس ذلت کا سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا ہوں۔" ابھی الفاظ میرے منہ میں تھے کے سعدیہ بول پڑی " کسی کو کیسے علم ہو گا، اس بات کو آپ جانتے ہیں یا میں۔ کیا آپ بتائیں گے؟ کیونکہ میں تو کسی کو بتانے والی نہیں۔" سعدیہ میرے چہرے پر نظریں جمائے بولے جا رہی تھی اور میں سُن رہا تھا۔ اس کی باتیں مجھے حوصلہ دے رہی تھیں۔ سعدیہ نے ایک بار پھر مُجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس واقعے کو بھول جاؤں گا اور اپنے کسی عمل یا بات سے کبھی اسے ظاہر نہیں ہونے دوں گا۔
        کچھ دن کرب و اذیت کے گُذرے لیکن پھر آہستہ آہستہ حالات معمول پر آنے لگے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کے میں اس واقعے کو بالکل بھول گیا تھا۔ مگر یہ ضرور تھے کے میں پہلے جیسی نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا۔ ہر چیز پہلے جیسی تھی لیکن کبھی کبھی یہ احساس ہوتا کے کچھ نہ کچھ ضرور بدلہ ہوا ہے۔ لیکن پھر سب کو اپنی اپنی زندگی میں مگن دیکھ کر اسے اپنا وہم خیال کر کے ذہن سے جھٹک دیتا۔ لیکن ایک روز مجھے لگا کے میں جسے وہم سمجھ رہا تھا وہ محض وہم نہ تھا۔ بلکہ حقیقت میں بدلاؤ تھا۔ اور یہ بدلاؤ سعدیہ کے رویے میں تھا۔ میں جب بھی گھر ہوتا وہ میرے قریب ہونے کی کوشش کرتی۔ میرے ساتھ اس کے انداز بڑے دلربانہ ہوتے۔ وہ  میرے سامنے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اور چھاتی پھیلا پھیلا کر انگڑائیاں لیا کرتی۔ میں اگر کچن میں اس کے ہوتے ہوئے کچھ لینے چلا جاتا تو وہ بہانے بہانے سے مجھ سے ٹکراتی۔ میں صوفے پر ہوتا تو وہ میرے ساتھ جُڑ کے بیٹھنے کی کوشش کرتی۔ اگر اسے دوسرے صوفے پر بیٹھنا پڑتا تو وہ ایسے انداز سے بیٹھتی کے میری نظر اس کی گانڈ پر ضرور پڑے۔ بہت دفعہ میرے قریب سے گُذرتے ہوئے بڑے غیر محسوس انداز سے اس کے ہاتھ نے یا گانڈ نے میرے لن کو چھوا تھا۔ صوفے پر اگر اسے میرے ساتھ بیٹھنے کا موقع مل جاتا تو وہ ہمیشہ اپنا ہاتھ میری ران پر رکھ دیتی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگتی۔ اُسے چونکہ سکول یا کالج جانا نہیں ہوتا تھا اسی لیئے رات سونے والے پاجامے میں ہی سارا دن گھر میں گھومتی رہتی جس سے اس کی گانڈ کی گولائیوں کے اُبھار واضح نظر آتے۔ میں ان سب چیزوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ اور اگر دماغ میں کوئی بات آتی بھی تو یہ سوچ کر کے چونکہ ہم ایک واقعے سے گُذر چُکے ہیں اس لیئے یہ میرا ذہنی خلفشار ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔ پھر میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا اس واقعے سے پہلے اور بعد میں ہونے والی چیزوں کا موازنہ کرتا۔ اور پھر خود کو سمجھانے کی کوشش کرتا کے سعدیہ کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھنا یا پھر گھر میں آگے پیچھے ٹکرانا پہلے بھی ہوا کرتا تھا لیکن پہلے کبھی خیالات ایسے نہیں ہوتے تھے۔ اور پھر خود کو کہتا کے میرا وہم ہے۔ لیکن اُس دن میں کالج سے آیا تو امی گھر میں نہیں تھیں اور سعدیہ اپنے کمرے میں تھی۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی۔ اس لیئے میں اسے کھانا لگانے کا کہنے کے لیئے اسے آوازیں دیتا ہوا اس کے کمرے میں چلا گیا تو دیکھا وہ بغیر قمیض پہنے ہوئے صرف برا میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ شائید وہ کچھ کر رہی تھی۔ مجھے ایک جھٹکا لگا اور میں کچھ لمحوں کیلئے وہیں ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر الٹے قدموں اس کے کمرے سے باہر آ گیا۔ باہر آکر میں نے پھر اسے آواز دی سعدیہ میں تمہیں آوازیں دے رہا تھا تو تم مجھے ٹھہرنے کا کہہ سکتی تھی کے تم ایسی حالت میں ہو تو میں بے دھڑک اندر نہیں آتا۔ میں اوٹ سے ہی بول رہا تھا۔ وہ اسی طرح اُٹھ کر دروازے میں آگئی ، " بھائی یہ قمیض ہی ہے جسے سی رہی تھی، تھوڑی پھٹ گئی تھی، اور آپ سے کیا پردہ " میں نے اسے یوں دروازے میں برہنہ جسم آتے دیکھ تو منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ وہ میرے سامنے آتے ہوئے بولی '' آپ منہ تو ایسے پھیر رہے ہیں جیسے آپ کے دیکھے بھالے نہیں"  " وہی ہیں جنہیں آپ نے پہلے دیکھا بھی ہے اور ٹیسٹ بھی کیا ہوا ہے۔" وہ برا کے اوپر سے ہے اپنے مموں کو دبا کر بولی۔   اس کی اس بات نے مجھے بُت کی طرح ساکت کر دیا تھا کیونکہ اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر اس خیال نے جگا دیا کے اگر اس وقت اچانک کوئی گھر میں آ گیا تو وہ ہمیں ایسی حالت میں دیکھ لے گا۔ میں نے  سعدیہ کو بازو سے پکڑ کر کمرے میں دھکیل دیا اور کہا جلدی قمیض پہنو اور مجھے کھانے کیلئے کچھ دو بہت بھوک لگی ہے۔ اس واقعے کے بعد سے یہ آج پہلا موقع تھا جب سعدیہ نے میرے سامنے یوں بیباکی  کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس دن وہ میرے جذبات پھر سے بھڑکا دیتی لیکن امی آگئیں تو وہ بھی قمیض پہن کر میرے لیئے کھانا تیار کر کے لے آئی۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مُسکرا رہی تھی۔ لیکن میں کسی اور سوچ میں غرق تھا۔ میں سوچ رہا تھا کے آگے کیا ہونے والا ہے۔ لیکن میری سوچنا لا حاصل رہا۔ سعدیہ برتن اٹھانے آئی تو سرگوشی سے کہہ گئی بھائی سوچ کر اپنی جان ہلکان نہ کریں بس زندگی کے دھارے پر بہتے رہیں۔ میں اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔
     اس دن کے بعد میری انتہائی کوشش ہوتی کے میں سعدیہ سے دور رہوں۔ کیونکہ سعدیہ کے اندر مجھے شیطان نظر آ رہا تھا۔ ابھی دو دن ہی گذرے تھے کے سعدیہ نے مجھے کالج جانے کیلئے نکلتے وقت ایک چٹ ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے گیٹ سے نکلتے وقت اسے کھول کے دیکھا تو اس پر صرف اتنا لکھا تھا، " ایک بار یا بار بار" میں کچھ بھی سمجھ نہ پایا کے یہ کیا پیغام ہے اور سعدیہ کس چیز کے بارے میں اشارہ کر رہی ہے۔ کالج سے واپس آیا تو میں جیسے ہی اپنی روم میں داخل ہوا تو بیڈ کے کونے پر ایک کاغذ پڑا ملا اُٹھا کر دیکھا تو لکھا تھا۔ "کوئی فرق نہیں پڑتا" پہلے تو سمجھ نہ آئی لیکن صبح کی تحریر اور اسے ملا کر پڑھا تو سب سمجھ آ گئی یعنی سعدیہ مجھے پھر سے دعوتِ گُناہ دی رہی تھی۔ "ایک بار یا بار بار، کوئی فرق نہیں پڑتا" میں فوراً سعدیہ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن کیا کرتا امی گھر میں موجود تھیں۔ شام کو تو چانس ہی نہیں تھا کیونکہ شام کو تو سبھی گھر ہوتے ہیں۔ مجھے پتا تھا کے جو بات مجھے سعدیہ سے کرنی ہے اس کیلئے خاصہ وقت چاہیئے اور یقیناً یہ بات ہم کسی بھی دوسرے کے سامنے نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے بھی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا "مجھے تُم سے فوری بات کرنی ہے" اور پانی پینے کے بہانے کچن میں جا کر سعدیہ کے ہاتھ میں تھما کر واپس ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا۔ میں انتظار کر رہا تھا کے سعدیہ کی طرف سے کوئی جواب آئے گا۔ لیکن کوئی جواب نہ ملا صبح کالج جانے کیلئے نکلا تو سعدیہ نے نکلنے سے پہلے ایک کاغذ تھما دیا، جس پر لکھا تھا۔ " کالج سے جلدی واپس آ جانا، مجھے اور امی کو آج شاپنگ کرنے بازار جانا ہے لیکن میں نہیں جاؤں گی اور کوئی بہانہ کر کے گھر ہی رہ جاؤں گی۔ امی گیارہ بجے سے لے کر ساڑھے تین بجے تک گھر نہیں ہوں گی۔" میں نے تحریر پڑھنے کے بعد کاغذ کے پُرزے پُرزے کر کے پھینک دیئے۔ اور گھڑی پر وقت دیکھا تو ساڑھے نو بج چُکے تھے میرے لیئے محال تھا کے میں دس بجے کالج پہنچوں اور گیارہ بجے واپس گھر آجاؤں۔ اس لیئے میں نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا اور ڈیڑھ گھنٹہ یونہی آگے پیچھے گذارنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی گیارہ بجنے میں کچھ وقت باقی تھا جب میں گھر کے قریب ہی آ گیا۔ اور ایک سائیڈ کی گلی میں نُکڑ پر کھڑا ہو گیا۔ یہاں سے میں اپنے گھر کے گیٹ کو باآسانی دیکھ سکتا تھا۔ میں چاہتا تھا کے امی کے گھر سے نکل جانے کا یقین کر لوں تو میں گھر جاؤں ۔ گیارہ بجے سے دس منٹ اوپر ہوں گے جب میں نے امی کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ میں سائیڈ میں چھپ گیا اور یہ یقین کر لینے کے بعد کے امی چلی گئی ہیں۔ تب وہاں سے نکلا اور گیٹ کھول کر گھر میں داخل ہو گیا۔ میں نے سعدیہ کو آواز دے کر پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے اپنے کمرے سے آواز دی ، میں اپنی روم میں ہی ہوں آپ بھی ادھر ہی آجاؤ۔ میں اس کی روم کے اندر داخل ہوا تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سٹول پر بیٹھی تھی، اس کے بال کھُلے تھے جبکہ کپڑوں کے نام پر صرف ایک پینٹی تھی جو اس کی شرم گاہ کو چھپائے ہوئے تھی۔ باقی سارا جسم برہنہ تھا۔ سعدیہ تم جو چاہ رہی ہو ٹھیک نہیں ہے، میں نے آگے بڑھ کر اس کے بیڈ سے چادر کھینچی اور اس کا جسم ڈھانپتے ہوئے کہا۔ اگرچہ اسے ننگا دیکھ کر میرے تن بدن میں بھی آگ لگ گئی تھی لیکن میں نے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔ دیکھو جو غلطی ہوئی سو ہوئی اب ضروری نہیں کے ہم وہی غلطی دوبارہ کریں۔ میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سعدیہ بول پڑی، کیا غلط اور کیا صحیح یہ سوچنے کی حد ہم نے بہت پہلے عبور کر لی، اب فرق نہیں پڑتا کے ہم ان حدوں کو کتنی بار پھلانگتے ہیں۔ لیکن سعدیہ..... میں نے بات کرنا چاہی تو سعدیہ نے پھر درمیان میں ہی میری بات کاٹ دی، لیکن کیا؟ آپ ہی بتاؤ اس دن میری چُدائی کرتے ہوئے آپ کو مزہ آیا تھا کے نہیں؟ یہ کیسا سوال ہے؟ میں نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کیا تو سعدیہ اُٹھ کر میری طرف بڑھتے ہوئے بولی ، بات گول کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بتائیں مزہ آیا تھا کے نہیں؟ مجھے تو بہت آیا تھا، یہ کہتے ہوئے ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی۔ مجھے بھی آیا تھا پر سعدیہ وہ حالات کچھ اور تھے، جن کی وجہ سے ہم سے یہ شیطانی فعل سرزد ہوا۔ میں بات کر رہا تھا اور وہ میرے بالکل سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ اس کے انار جیسے ممے تنے ہوئے تھے اور بالکل میری آنکھوں کے متوازی تھے۔ حالات جو بھی تھے، لیکن ہم ایسا کر چکے، سعدیہ میرے اتنا قریب آ گئی کے مجھے اُس کے جسم کی گرمی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس حرارت سے سعدیہ کا بدن چمک رہا تھا۔ سعدیہ ہم بھائی بہن ہیں ۔ مجھ پر میرا کنٹرول ختم ہو رہا تھا۔ بھائی بہن تو ہم اُس دن بھی تھے۔ سعدیہ ترقی بہ ترقی جواب دے رہی تھی۔  تم کو پتا ہے سعدیہ کے اس دن تم سردی سے مر رہی تھی اور جو کچھ ہوا اس میں نظریہ لذت حاصل کرنے کا نہ تھا۔ بلکہ برادرانہ شفقت سے مغلوب ہو کر میں تمہارے جسم کو حرارت دینے کی کوشش کر رہا تھا کے شیطان کے بہکاوے میں آ کر بہک گیا ۔ میں نے گویا اپنی صفائی پیش کی لیکن سعدیہ کا مُوڈ کچھ اور ہی لگ رہا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے پیٹ پر رکھ دیا اور کہا ' بھائی  اگر میں کہوں کے میں آج بھی مر رہی ہوں تو کیا آج میری زندگی نہیں بچاؤ گے؟ آج کیا اُس دن کے بعد سے تو میں روز مرتی ہوں ہر روز خواب میں تمہیں ہی دیکھتی ہوں دن کو جب بھی سامنے آتے ہو میرے بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس نے باتیں کرتے کرتے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھتے ہوئے کہا تمہارے اس لن نے جو لذت مجھے اس دن دی میں اس لذت کے سحر سے آج تک نہیں نکلی۔ مجھے تُمہارا لن ہر وقت اپنی پھُدی میں محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یہ چاہئے سعدیہ نے جو بات کرتے ہوئے میرے لن کو پکڑا تو وہ آگ کی طرح تپنے لگا۔ اکڑ کے سخت تو وہ کب کا ہو چکا تھا لیکن سعدیہ کے ہاتھ لگتے ہی مچلنے لگا تھا۔ بھائی یہ صرف میرے دل کی خواہش نہیں، سعدیہ کی آواز پھر میری سماعتوں میں گونج اٹھی۔ مجھے علم ہے کے آپ بھی یہی چاہتے ہو، میں جانتی ہوں کے جب بھی آپ کے قریب سے گذروں تو سامنے سے آپ کی نظر میرے مموں پر جبکہ پیچھے سے آپ میری گانڈ کو دیکھتے رہتے ہو۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کے میں جب کام کر رہی ہوتی ہوں تو آپ میرے جھکنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہو تاکہ میں جھکوں تو آپ میرے مموں کو جھانک سکیں۔ نہیں یہ بہتان ہے، میں نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تو سعدیہ پھر بول پڑی اگر اُس دن آپ مجھے تھپڑ لگا دیتے جس دن میں کمرے میں ننگی بیٹھی اپنی قمیض سی رہی تھی تو میں سمجھ جاتی کے آپ کے بارے میں جو میری رائے قائم ہو رہی ہے وہ صحیح نہیں۔ لیکن اُس دن جس طرح میرے ننگے بدن کے گرد آپ کی آنکھیں گھوم رہی تھیں  وہ مجھے یقین دلانے کیلئے کافی تھیں کے آپ کے دل میں میرے بدن سے کھیلنے کی خواہش ابھی ہے۔ بھائی اگر آج آپ کالج چلے جاتے اور میرے یوں بلانے پر کے جس وقت میں گھر میں اکیلی ہوں نہ آتے تو تب بھی میں یقین کر لیتی۔ میں مانتی ہوں کے میرے دل میں آپ کے لیئے خواہش ہے۔ اب آپ بھی نقاب اتاریں اور مجھے چودنے کی جو خواہش ہے اسے پورا کر لیں۔ دیکھیں میں تو بالکل تیار ہوں۔ بس ایک یہ پینٹی ہے جسے آپ نے اُتارنا ہے۔
میری حالت لاش کی سی تھی۔ سچ میں میری رگوں میں خون جم سا گیا۔ میں سانس لینا بھول گیا۔ میں بس سعدیہ کو دیکھے جا رہا تھا۔ کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کہوں کیا کروں۔ ایک بُت کی مانند کھڑا تھا۔ جو غلطی اور گُناہ مجھ سے سرزد ہو گیا تھا میں اسے پھر سے دُھرانا نہیں چاہتا تھا۔ سعدیہ کا نرم و نازک بدن میرے سامنے بالکل برہنہ تھا اور اسے کوئی اعتراض بھی نہ تھا بلکہ وہ خود مجھے اس گُناہ کی طرف ترغیب دے رہی تھی ۔ اُس کے خیال میں جن حدود کو ہم کراس کر چُکے ان کو دوبارہ پار کر لیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اس کے کہے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ "ایک بار یا بار بار ، کوئی فرق نہیں پڑتا"۔ میں تذبذب کی کیفیت میں تھا جبکہ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی مسلسل میرے لن کو ٹٹول رہی تھی۔ سعدیہ نے کہا تھا کے میری آنکھیں اس کے نسوانی حُسن کے تعاقب میں رہتی ہیں۔ میں اُس کی گانڈ اور مموں کو گھورتا ہوں ۔ میں نے خود سے ہی سوال کیا کے کیا واقعی ایسا ہے جیسے سعدیہ نے کہا ہے۔ میں سوچ میں غرق تھا۔ میں نے  میرے اور سعدیہ کے درمیان ہونے والے واقعے کے بعد کے تمام واقعات کا جائزہ لیا تو مجھے لگا کے سعدیہ کا کہنا کسی حد تک سچ ہی تھا۔ واقعی میری نظر سعدیہ کے سراپے پر گڑھی رہتی تھی۔ لیکن یہ ارادتاً نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ ایسا مجھ سے غیر ارادی طور پر ہو جاتا تھا۔ یہ حقیقت تھی کے اس دن کے بعد خواب میں میں نے بارہا سعدیہ کے ساتھ مختلف پوزیشن میں سیکس کیا تھا۔ اب سعدیہ نے کہا تو میں بھی سوچنے پر مجبور ہوا کے ایسا غیر ارادی طور پر ہونا کیا واقعی میرے اندر کی خواہش تھی۔ کیا میں واقعی نقاب کے پیچھے چھُپنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کیا سعدیہ جو کہہ رہی ہے ویسا کرنے سے واقعی فرق نہیں پڑے گا۔ میں سوچوں کے سمندر میں غرق تھا۔ میں جتنا سوچ رہا تھا سعدیہ کا پلڑا باری ہو رہا تھا۔ سعدیہ کی آواز میرے کانوں میں ایک بار پھر گُونجی، " یہ آپ کے اندر کی خواہش ہی ہے کے میں کب سے آپ کے لن کو سہلا رہی ہوں اور آپ نے ایک بار بھی میرے ہاتھ کو اپنے لن سے نہیں ہٹایا" اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مُسکراہٹ مجھے واضع نظر آئی اور مجھے لگا جیسے میں رنگے ہاتھوں چوری کرتے پکڑا گیا ہوں، میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے فوراً اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ پھر بولی " خود پر جبر نہ کریں، دیکھیں ہمارے لیئے یہی بہتر ہے کے ہم میں جو تعلق استوار ہو چُکا ہے اسی کو بنائے رکھیں، نہ کہ ہم باہر جا کر نئے تعلق بنائیں، یہ ہی سب سے محفوظ اور بھروسہ مند ہے، ضرورت مند ہم دونوں ہیں، اور دونوں کیلئے ایسا کرنا نیا بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ ہم  دونوں اس حد کو پھلانگ چکے۔"  وہ بولے جا رہی تھی، میں جو اسے سمجھانے آیا تھا خود پگل رہا تھا۔ میرے منہ میں جیسے الفاظ ہی نہ تھے۔ اُس نے میرے لن کو ایک بار پھر ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا، مجھے تو یہ چاہئیے آپ نہیں دو گے تو میں باہر کسی سے بھی اس کیلئے دوستی لگا لونگی، لیکن آپ کو بتا دیتی ہوں کے مجھ سے اگر کبھی بھی سوال ہوا کے میں نے عزت و ناموس کا خیال کیوں نہیں کیا تو میں آپ کا نام لینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاؤں گی کے آپ ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے میری عزت کو تار تار کیا تھا۔ اس کی یہ بات مجھ پر ایٹم بم کی طرح گری میں ایکدم سے چاروں شانے چِت ہو گیا۔ نہیں سعدیہ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔ تم جو کہتی ہو میں کرنے کو تیار ہوں۔ پھنسے پھنسے الفاظ میرے منہ سے ادا ہو ہی گئے۔ میرے اندر کی خواہش الفاظ بن کر میرے ہونٹوں سے اُبل پڑی۔ لیکن میں سعدیہ کو جتلانے کی کوشش میں تھا کے جیسے میں اُس کے ساتھ ڈر کر ایسا کرنے پر آمادہ ہوا ہوں۔  حادثاتی طور پر اور نامناسب حالات اور جگہ پر جو فعل ہم سے سرزد ہوا تھا ہم وہی فعل اب مرضی سے کرنے پر آمادہ تھے۔ میں نے سعدیہ کو کہا کے وہ اپنے کپڑے پہن لے۔ اُس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا صرف تمہاری پینٹی اُتارنے میں مزہ نہیں آئے گا۔ میں چاہتا ہوں کے ہم جو کرنے جا رہے ہیں اسے اب پوری طرح سے انجوائے کریں۔ یہ کہتے ہوئے میں نے سعدیہ کی طرف دیکھا تو اس نے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا۔  سعدیہ نے الماری سے کپڑے نکالے اور میری پسند سے ایک سوٹ پہنا، اس کے سلکی بال کھلے ہوئے تھے جو کے شانوں سے گر رہے تھے۔ اس کے گال پہلے سے ہی تپ کر سُرخ ہو چکے تھے۔ آنکھوں میں خمار بھرا ہوا تھا۔ اس کے رسیلے ہونٹ لرز رہے تھے اس پر اُس نے ایک تیز پرفیوم لگا لی تھی جس کی خوشبو نے ماحول کو مزید گرما دیا تھا۔ کپڑے پہن کر اُس نے میری طرف عجب دلفریب انداز میں دیکھا تو میں جیسے اس کی جانب لپک پڑا۔ میرا بایاں ہاتھ اُس کے پیٹ سے رینگتا ہوا اس کی کمر کی جانب جا رہا تھا جبکہ میرا دایاں ہاتھ کنگھے کی طرح اُس کے کان کے قریب سے بالوں کو چیرتا ہوا اس کے سر کے پیچھے پہنچا تو میں نے اس کے بالوں کو مُٹھی میں لیتے ہوئے تھوڑا سا نیچے کھینچا تو اس کا منہ اوپر کو ہو گیا۔ جیسے ہی منہ اوپر اُٹھا میں نے اپنے تپتے ہونٹ اس کے گرم ہونٹوں پر رکھ دیئے۔بائیں بازو سے میں نے اس کی پتلی کمر کو گھیرے میں لے کر اپنے جسم کو اس کے جسم سے چپکا لیا۔ اس کے بدن سے جیسے آگ نکل رہی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں سے رس چُوس رہے تھے۔ سعدیہ نے بھی مجھے اپنے دونوں بازؤوں میں بھر لیا تھا۔اس کے ہاتھ میری کمر پر گردش کر رہے تھے۔ میں اب سعدیہ کے ہونٹوں کے ساتھ ساتھ اس کے گال بھی چومنے چاٹنے لگا۔اور ساتھ ہی میں دونوں ہاتھ اس کی کمر پر لے جا کر اوپر اس کے کندھوں سے لے کر اس کے کولہوں تک پھیرنے لگا۔ میرے ہاتھ جیسے ہی اس کے کولہوں پر آتے وہ سمٹ جاتی۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے دونوں ہاتھ سعدیہ کی قمیض کے اندر کر لیئے۔اب اس کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ساتھ ہی ساتھ اس کے گالوں اور ہونٹوں پر کسنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ میرے ہاتھ نیچے جاتے تو میں انہیں سعدیہ کی شلوار کے اندر لے جاتا اور گانڈ کے گول گول ابھاروں کو دونوں ہاتھوں سے دبا دیتا۔ سعدیہ ایسا کرنے پر اور جوش میں آ جاتی۔اس کے ہاتھ بھی میرے جسم پر جم سے جاتے۔ سعدیہ بے خود ہو رہی تھی میں نے اس کی قمیض کو اوپر اٹھایا تو سعدیہ نے بازو اُٹھا دیئے جیسے وہ قمیض کے قید سے آزاد ہونا چاہتی ہو۔ میں نے بھی دیر نہیں لگائی اور اس کی قمیض اُتار دی۔ ساتھ ہی میں نے اس کی برا کی ہُک بھی کھول دی۔ اب سعدیہ کا بالائی جسم ننگا تھا۔ ہمارے جسموں سے پہلے سے ہی انگارے برس رہے تھے اس لیئے شائید ہم نے جلدی سے کپڑے اُتار پھینکے۔میں نے اپنی شلوار اتاری تو میرا لن سعدیہ کی ٹانگوں کے بیچ چلا گیا۔ جسے سعدیہ نے اپنی ٹانگوں میں پھنسا کر جکڑ لیا۔اس کی عجیب حالت ہو رہی تھی۔ عجیب سی آوازیں تھیں جو منہ سے نکل رہی تھیں۔ میں نے ہلکا دھکا دے کر اسے بیڈ پر گرایا اور خود جمپ کر کے اُس کے اوپر آگیا۔ میرے ہاتھ اب اس کے مموں پر تھے سخت اکڑے ہوئے تھے۔ سعدیہ کے نپلز بہت چھوٹے تھے۔ میں اپنے ہاتھوں سے اس کے مموں اور نپلز کو مسلنے کی حد تک دبا رہا تھا۔ سعدیہ کی سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں سعدیہ کے ہونٹ گال اور گردن کو چومتے اس کے مموں پر آیا۔جیسے ہی میں نے سعدیہ کے ممے منہ میں لے کر چوسنے شروع کیئے سعدیہ لذت سے بے حال ہو گئی اس کی سسکیاں بلند اور تیز ہو گئیں۔ میں اسے چومتے ہوئے نیچے جانے لگا اس کی ناف پیٹ پر بوسے دینے کے بعد میں نے اس کی رانوں پر کس کیا۔سعدیہ نے پھُدی صاف کی ہوئی تھی۔ چھوٹی سی اور بہت ملائم لگتا نہیں تھا کے سعدیہ پہلے چُدائی کرا چکی ہے۔  اس کی پھُدی گیلی ہو چکی تھی میں نے اسے کپڑے سے خشک کیا اور اپنے ہونٹ پھُدی کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ میرا ایسا کرنا تھا کہ سعدیہ کی ایک تیز سسکی نکل گئی۔ میں نے زبان کے نوک سعدیہ کی پھُدی کے ہونٹوں کے درمیان رکھ کر اسے چاٹنا شروع کیا تو سعدیہ کا سارا جسم جھٹکے لینے لگا۔ اس کی سسکیاں تیز تر ہو گئیں۔ وہ نیچے سے گانڈ ہلا ہلا کر پھُدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی، لیکن الفاظ بے ربط تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا کہہ رہی ہے۔ تھوڑی دیر سعدیہ کی پھُدی چاٹنے کے بعد میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا اور خود فرش پر کھڑا ہو کے لن سعدیہ کے ہونٹوں پر رکھ دیا۔ سعدیہ نے میری طرف دیکھا تو میں نے نشے سے سرشار آواز میں کہا، میں نے تمہاری پھُدی چاٹی ہے تو تمہیں میرا لن منہ میں لینے سے ہچکچاہٹ کیوں؟ ایسا کرنا ضروری ہے کیا؟ سعدیہ میرے چہرے پر نظریں جمائے بولی۔ تو میں نے لن اس کے ہونٹوں پر دباتے ہوئے کہا چُوس کر دیکھو مزہ آئے گا۔ اس کے ہونٹوں پر لن کا دباؤ پڑا تو اس نے منہ کھول دیا۔ میرا لن اس کے منہ میں گھستا چلا گیا۔ سعدیہ کو میرا ایسا کرنا شائید عجیب لگا تھا اسی لیئے وہ پہلے جھجھک رہی تھی لیکن بعد میں مزے لے لے کر چوسنے لگی۔ مجھے لگا کے میں نے اگر سعدیہ کو روکا نہیں تو میرا لن لاوا اُگل دے گا۔  میں نے لن سعدیہ کے منہ سے نکالا تو وہ ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ میں نے سعدیہ کو اوندھے منہ بیڈ پر گرایا اور دونوں کولہوں سے کھینچ کر اس کی گانڈ کو اتنا اونچا کیا کے اس کی پھُدی میری آنکھوں کے سامنے تھی  جبکہ اس کے دونوں کندھے اور چہرہ بیڈ پر ٹِکے تھے۔ میں نے دونوں ہاتھ گانڈ کے اوپر رکھے، اور پھیرتے ہوئے نیچے لے گیا۔ میرے ہاتھ سعدیہ کے چوتڑوں پر تھے جبکہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے اس کی پھُدی کے دونوں ہونٹوں کا مساج کر رہے تھے۔ اس کی سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ انگوٹھوں کی دونوں پوروں سے میں نے سعدیہ کے پھُدی کے ہونٹوں کو ذرا کھولا اور سر کو جھکا کر ایک دفعہ پھر زبان کو پھُدی کے درمیان ٹکا دیا۔ سعدیہ تڑپ اٹھی وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو مسل رہی تھی۔ اس کا یوں تڑپنا اور سسکارنا میرے رگ رگ میں بجلیاں دوڑا رہا تھا اور میرا جوش اپنی انتہا کو تھا۔  میں زبان کی نوک سعدیہ کی پھُدی کے اندر بڑی تیزی سے گھما رہا تھا اور وہ نیچے تڑپ رہی تھی، اس کا جسم آگ برسا رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں اس کی پھُدی سے دوبارہ پانی چھوٹ گیا۔ جو اس کی رانوں سے ہوتا ہوا اس کے گھٹنوں تک پہنچ گیا۔ اب کی بار میں نے اسے صاف نہیں کیا بلکہ اپنا لن پھُدی کے اوپر رگڑ کر اسے خوب تر کیا۔ پھر لن کا سر پھُدی کے بیچ رکھ کر تھوڑا دبایا تو وہ تھوڑا سا اندر چلا گیا۔ سعدیہ کی سسکی بلند ہوئی، میں نے تھوڑا اور دباؤ ڈالا تو لن آہستہ آہستہ اندر جانے لگا۔ میں جانتا تھا کے سعدیہ کی یہ دوسری بار ہی ہے اسی لیئے میں لن کو آہستہ آہستہ اندر ڈال رہا تھا۔ لن پورا اندر چلا گیا تو میں نے اسے ویسے ہی آہستگی سے باہر کی طرف کھینچا۔  میں کچھ دیر اسی طرح آہستگی سے یہ عمل دُہراتا رہا۔ سعدیہ نیچے سسک اور تڑپ رہی تھی۔ لیکن مجھ پر اس کے سسکنے یا تڑپنے کا کوئی اثر نہیں ہونے والا تھا۔ میں نے اب اپنی رفتار کو بڑھانا شروع کیا۔ بالکل ایسے ہے جیسے طیارہ اڑان بھرنے سے پہلے رن وے پر آہستگی سے سٹارٹ لیتا ہے اور پھر سپیڈ پکڑ کر رن وے پر دوڑنے لگتا ہے اور دوڑتے ہوئے فضاؤں میں غائب ہو جاتا ہے۔ میں بھی جہاز کی طرح اب فُل سپیڈ پر تھا ۔میں تیزی سسی دھکے پر دھکا دی رہا تھا سعدیہ چیختے ہوئے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے ہر جھٹکے کو رسپانس کر رہی تھی۔ پسینے کی بوندیں  ہم دونوں کو نہلا رہی تھیں۔ سعدیہ کی چیخیں بلند سے بلند تر ہو رہی تھیں۔ اور میرے منہ سے بھی عجیب آوازیں نکل رہی تھیں۔ ہم دونوں کے جسموں پر جیسے لرزہ طاری تھا۔  اور پھر سعدیہ کا جسم  کانپتے ہوئے ڈھیلا پڑنے لگا۔ اس کی پھُدی سے پانی اُبل پڑا تھا۔ میرے لن کے ذریعے یہ پانی میری رانوں تک آگیا اور سعدیہ کی رانیں بھی اس سے تر ہو گئیں میرا لن اس کے پانی سے پورا لتھڑ گیا تھا، پھُدی پوری طرح سے چکنی ہو گئی تھی اور لن آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ میں نے جھٹکے دینے کی رفتار میں کوئی کمی نہ کی ۔ میں سعدیہ کی پھُدی کو اسی رفتار سے چودتا رہا۔ میرے لن کی رگیں ابھر آئیں اور لگا جیسے پھٹ جائیں گی۔ یہی وہ لمحات تھے جب میں بھی لاوا اُگلنے والا تھا۔ میں نے لن کو سعدیہ کی پھُدی میں سے نکال لیا اور سعدیہ کو اوندھے منہ بیڈ پر لٹا کر لن اس کی چوتڑوں کے قریب رانوں کے درمیان رکھ کر تیزی سے ادھر ہی دھکے دینے لگا۔ چند ہی لمحوں بعد میرے لن کا جوش پانی نکلنے پر ٹھنڈا پڑنے لگا۔ میں کچھ دیر کیلئے سعدیہ کے اوپر ہی لیٹ گیا۔ ہم دونوں کی اکھڑی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں تو میں نے اس کے پہلو میں لیٹتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنی طرف کیا۔ تو اس کے بکھرے بال اس کے چہرے کو ڈھانپ رہے تھے ۔اس کی آنکھیں نشے اور خُمار سے بھری  پڑی تھیں جبکہ ہونٹوں پر پُرسکون مُسکراہٹ مجھے اس کے ہونٹ چومنے پر مجبور کر رہی تھی
Like Reply


Messages In This Thread
RE: Small but hot sex stories. ( Collected from Net ) - by hirarandi - 15-05-2025, 09:29 PM



Users browsing this thread: 2 Guest(s)