15-05-2025, 08:57 PM
میرا نام کومل ہے. میری عمر 27 سال ہے اور میں شادی شدہ ہوں. میرے شوہر آرمی میں ہیں. میں اپنے ساس – سسر کے ساتھ اپنے سسرال میں رہتی ہوں. شوہر آرمی میں ہیں تو اس وجہ سے میں کئی کئی ماہ لنڈ کو ترستي رہتی ہوں. ویسے تو میرے ارد گرد گلی محلے میں بہت سارے لنڈ رہتے ہیں پر ساس – سسر کے ہوتے یہ میرے کسی کام کے نہیں.
میری گلی کے سارے لڑکے مجھے پٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. میرے ممے لڑکوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں. میری بڑی سی گانڈ دیکھ کر لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کھڑے کھڑے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں. میرے ریشمی لمبے بالوں میں پتہ نہیں کتنے لڈو کے دل اٹكے پڑے ہیں. میری پتلی کمر، میرے گلابی گلابی ہونٹ، لڑکوں کو میرے گھر کے سامنے کھڑے رہنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں. سب مجھے پٹانے کے ہتھکنڈے اجماتے رہتے تھے پر میں کسی سے نہیں پٹ رہی تھی. کمپیوٹر پر ضرور چیٹنگ کرکے اپنی پیاس ہاتھ سے بجھا لیتی. چیٹنگ پر مجھے لڑکے اکثر اپنا موبائل نمبر دینے اور ملنے کو کہتے مگر میں سب کو منع کر دیتی. پھر بھی ایک – دو نے اپنا نمبر دے دیا تھا.
ان سب دوستوں میں ایک اےنار آئی بڈھا بھی تھا. وہ کچھ دن بعد پاکستان آنے والا تھا. اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے، مگر میں نے انکار کر دیا.
کچھ دن کے بعد اس نے پاکستان آنے کے بعد مجھے اپنا فون نمبر دیا اور اپنی تصویر بھی بھیجی اور کہا – میں اکیلا ہی آیا ہوں، باقی ساری فیملی امریکہ میں ہیں.
اس نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف مجھے دیکھنا چاہتا ہے بے شک دور سے ہی سہی.
اب تو مجھے بھی اس پر ترس سا آنے لگا تھا. وہ جہلم کا رہنے والا تھا اور میرا گاؤں بھی جہلم کے پاس ہی ہے.
اگلے مہینے میری ساس کی بہن کے لڑکے کی شادی آ رہی تھی جس کے لئے مجھے اور میری ساس نے شاپنگ کے لئے جہلم جانا تھا. مگر کچھ دنوں سے میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو اس نے مجھے اکیلے ہی جہلم چلی جانے کو کہا.
جب میں نے اکیلے جہلم جانے کی بات سنی تو ایک دم سے مجھے اس بوڑھے کا خیال آ گیا. میں نے سوچا کہ اسی بہانے اپنے بوڑھے عاشق کو بھی مل آتی ہوں.
میں نے نہاتے وقت اپنی جھاٹے صاف کر لی اور پوری سج – سںور کر بس میں بیٹھ گئی اور راستے میں ہی اس بوڑھے کو فون کر دیا. اسے میں نے ایک جوس – بار میں بیٹھنے کے لئے کہا اور کہا – میں ہی وہاں آ کر فون کروں گی.
میں آپ کو بوڑھے کے بارے میں بتا دوں. وہ 55-60 سال کا لگتا تھا. اس کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے پر اس کی جو تصویر اس نے مجھے بھیجی تھی اسمے اس کی باڈی اور اس کا چہرہ مجھے اس سے ملنے کو مجبور کر رہا تھا.
بس سے اترتے ہی میں رکشہ لے کر وہاں پہنچ گئی جہاں پر وہ میرا انتظار کر رہا تھا. اس نے میری تصویر نہیں دیکھی تھی اس لئے میں تو اسے پہچان گئی پر وہ مجھے نہیں پہچان پایا. میں اس سے تھوڑی دور بیٹھ گئی.وہ ہر عورت کو آتے ہوئے غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کا دھیان بار بار میرے بڑے بڑے مممو اور اٹھی ہوئی گانڈ کی طرف آ رہا تھا. وہی کیا وہاں پر بیٹھے تمام مرد میری گانڈ اور مممو کو ہی دیکھ رہے تھے. میں آئی بھی تو سج – دھج کر تھی اپنے بوڑھے یار سے ملنے.
تھوڑی دیر کے بعد میں باہر آ گئی اور اسے فون کیا کہ باہر آ جائے. میں تھوڑی چھپ کر کھڑی ہو گئی اور وہ باہر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا.
میں نے اسے کہا – تم اپنی گاڑی میں بیٹھ جاؤ، میں آتی ہوں.
وہ اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا، میں نے بھی ادھر ادھر دیکھا اور اس کی طرف چل پڑی اور جھٹ سے جا کر اس کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی.
مجھے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور کہا – تم ہی تو اندر گئی تھی، پھر مجھے بلایا کیوں نہیں؟
میں نے کہا – اندر بہت سارے لوگ تھے، اس لیے!
اس نے دھیرے دھیرے گاڑی چلانی شروع کر دی، اس نے مجھے پوچھا – اب تم کہاں جانا چاهوگي؟
میں نے کہا – کہیں نہیں، بس تم نے مجھے دیکھ لیا، اتنا ہی کافی ہے، اب مجھے شاپنگ کرکے واپس جانا ہے.
اس نے کہا – اگر تم برا نا مانو تو میں تمہیں کچھ تحفہ دینا چاہتا ہوں. کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چل سکتا ہو؟
اس کا جہلم میں ہی ایک شاندار بنگلہ تھا.
پہلے تو میں نے انکار کر دیا پر اس کے مزید زور ڈالنے پر میں مان گئی. پھر ہم اس کے گھر پہنچے. مجھے احساس ہو چکا تھا کہ اگر میں اس کے گھر پہنچ گئی ہوں تو آج میں ضرور چدنے والی ہوں.
میں گاڑی سے اتر کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی.
اندر جا کر اس نے مجھے پوچھا – کیا پیوگی تم کومل؟
“کچھ نہیں! بس مجھے تھوڑا جلدی جانا ہے!”
وہ بولا – نہیں ایسے نہیں! اتنی جلدی نہیں .. ابھی تو ہم نے اچھے سے باتیں بھی نہیں کی!
“اب تو میں نے تمہیں اپنا فون نمبر دے دیا ہے، رات کو جب جی چاہے فون کر لینا .. میں اکیلی ہی سوتی ہوں.”
“پلیز! تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی!”
میں نے کچھ نہیں کہا اؤر صوفے پر بیٹھ گئی.
وہ جلدی سے کولڈنگ لے آیا اور مجھے دیتے ہوئے بولا – یہ کولڈرنگ ہی پی لو پھر چلی جانا.
میں نے وہ مشروب لے لیا. وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے.
باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا.
وہ بولا – کومل .. جب جوس بار میں تمہیں دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کاش کومل ایسی ہو، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ نرم یہی ہے.
رہنے دو! جھوٹی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے جی! میں نے کہا.
اس نے بھی موقع کے حساب سے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا – سچ میں نرم، تم بہت خوبصورت ہو.
میرا ہاتھ میری ران پر تھا اور اس پر اس کا ہاتھ!
وہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا. کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی.۔

![[+]](https://xossipy.com/themes/sharepoint/collapse_collapsed.png)