20-07-2023, 07:15 PM
مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی . پِھر میں کچھ دیر خاموش رہا اور پِھر میں نے اپنے دوست کو کہا یار ثناء یہ کام اس لڑکے کے ساتھ کر چکی ہے وہ اپنی عزت تو خراب کر چکی ہے . اِس کا ایک ہی حَل ہو سکتا ہے اگر ثناء اور اس لڑکے کی آپس میں شادی کروا دی جائے تو ہی بدنامی کم سے کم ہو گی . تو میرا دوست میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا یار تو بہت بھولا ہے . تو جانتا ہے وہ لڑکا کس کا بیٹا ہے . میں اپنے دوست کی طرف دیکھنے لگا اور پِھر میرے دوست نے کہا یار وہ لڑکا کوئی عام گھر کا لڑکا نہیں ہے اس کا باپ ایک سرکاری مہکمے کا بہت بڑا آفیسر ہے اس کی پہنچ مجھ سے بھی بہت زیادہ ہے اور وہ اس باپ کی بگڑی ہوئی اولاد ہے . اور وہ لڑکا تو بس ثناء کے ساتھ اپنے فائدہ نکال کر ایک طرف ہو جائے گا اس نے خود ہی شادی سے انکار کر دینا ہے اور اگر میں اپنی پوزیشن استعمال کر کے اس کو کچھ کروانے کی کوشش کروں گا تو اس کا باپ اس کو ایک گھنٹے میں باہر لے آئے گا اور فائدہ کچھ بھی نہیں ہو گا . اِس لیے میرے دوست کچھ اور سوچ جس سے یہ مسئلہ بھی حَل ہو جائے اور بدنامی بھی نہ ہو . اور پِھر میرا دوست مجھے لے کر گا ڑی میں بیٹھ گیا . میں نے اپنے دماغ پر زور دینا شروع کر دیا اور تقریباً آدھا گھنٹہ گا ڑی میں خاموشی سے بیٹھ کر میں نے ثناء کے متعلق سوچ لیا تھا . میں نے اپنے دوست کو سب سے پہلے سائمہ اور اس کی ماں کی ساری اسٹوری سنا ڈی اور اس لڑکے عمران کا بھی پورا بتا دیا میں نے یہ نہیں بتایا کے سائمہ میری بِیوِی ہے بس یہ ہی کہا کے وہ میری رشتےدار ہیں . میری قسمت اچھی تھی میرا دوست میری شادی پر بھی نہیں آیا تھا . میں نے اپنے دوست کو بتا دیا کے وہ میں اب اپنے رشتےداروں کو واپس ملتان لے کر جانا چاہتا ہوں اور مکان کے سودے کا بھی بتا دیا اور اس کو عمران کا پکا کام کرنے کے لیے اور ویڈیو والے ثبوت کا بھی بول دیا . اور یہ بھی کہہ دیا کے جب میری وہ رشتےدار ملتان شفٹ ہوں گے تو میں ثناء کو بھی واپس ملتان لے جاؤں گا اور وہاں ملتان شہر میں ہی پڑھائی کے لیے داخلا کروا دوں گا . میرا دوست میری ساری بات کو سمجھ گیا تھا اس نے کہا یہ بہت اچھا فیصلہ کیا ہے کے ثناء کو واپس لے جاؤ گے اور اِس میں ہی ہماری بدنامی نہیں ہے . اور رہی بات اس لڑکے کی تم بے فکر ہو جاؤ اس کا ایسا بندوبست کروا دوں گا کے اگر 12 یا14 سال سے پہلے باہر نکل آیا تو پِھر کہنا اور وہ ویڈیو والا ثبوت بھی لے کر ختم کرو دوں گا . اور یہ کام اگلے ہی ہفتے میں ہو جائے گا . اب ہم گھر چلتے ہیں كھانا کھا کر ڈرائیور تمہیں ثناء کے ہاسٹل لے جائے گا تم ثناء کو مل لینا اور پِھر آ جانا آگے تمہاری اپنی مرضی تم کیا کرنا ہے . تو میں نے کہا یار میں كھانا کھا کر ثناء کو مل لوں گا اور پِھر آج رات ہی مجھے واپس ملتان جانا ہے . اور ہو سکتا ہے اگلے 2 یا 3 دن تک مجھے لاہور جانا پڑ ے کیونکہ مجھے مکان کا کچھ کروانا ہے . تو میرا دوست بولا ٹھیک ہے یار جیسے تیری مرضی اور پِھر ہم گھر آ گئے اور دو پہر کو كھانا کھا کر میں ثناء کے ہاسٹل چلا گیا اور ثناء کو جا کر ملا وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی . میں نے اس کو ذرا سا بھی شق نہیں ہونے دیا کہ مجھے اس کی ساری بات پتہ چل چکی ہے . اور پِھر میں اس کے ساتھ وہاں تقریباً 2 گھنٹے رہا میں نے ایک چیز نوٹ کی میں ثناء کو سعودیہ جانے سے پہلے دیکھ کر گیا تھا اور آج دوبارہ دیکھ رہا تھا . وہ کافی حد تک بدل چکی تھی وہ اب ایک بچی سے ایک مکمل جوان لڑکی بن چکی تھی اس کا جسم بھی کافی بھر چکا تھا اس کے سینے کے ابھار کافی نکل آئے تھے اور میں نے تصویر میں دیکھا تھا اس کے ممے گول گول اور موٹے ہو چکے تھے . اور اس کا پیٹ بھی ایک مناسب پیٹ تھا اور اس کی گانڈ بھی کافی باہر کی نکلی نظر آ رہی تھی . میں سوچ رہا تھا کے اس لڑکے نے پتہ نہیں کتنی دفعہ اِس پھول کو مسئلہ ہو گا جو ثناء اب ایسی دکھنے لگی ہے . اور پِھر میں ثناء سے مل کر اور اس کو کچھ پیسے دے کر واپس اپنے دوست کے گھر آ گیا وہ گھر پر ہی تھا شام تک اس سے باتیں ہوتی رہیں اس نے بتایا میں نے آج ہی لاہور فون کر کے اس لڑکے عمران کی تفصیل چیک کرنے کے لیے ایک بندے کی ڈیوٹی لگا دی ہے اور آج رات تک اس کا پتہ چل جائے گا . اور اِس ہی ہفتے میں اس کا بندوبست بھی ہو جائے گا . پِھر میں نے اپنے سامان لیا اور اپنے دوست سے اِجازَت لی اور اس کا ڈرائیور مجھے اسٹیشن چھوڑ نے آیا اور پِھر میں رات 11 بجے والی کراچی والی ٹرین میں سوار ہو گیا اور اپنے گھر اگلے دِن دو پہر کو 3 بجے واپس ملتان آ گیا .
میں نے راولپنڈی سے ٹرین میں بیٹھ کر ہی چا چی کو بتا دیا تھا کے کام ہو گیا ہے . اور میں آج رات واپس جا رہا ہوں کل دن کو گھر پہنچ جاؤں گا . چا چی بھی یہ سن کر خوش ہو گئی تھی . میں اگلے دن 3 بجے جب گھر پہنچ کر سب سے سلام دعا کر کے پِھر کچھ دیر آرام کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا . رات کا كھانا وغیرہ کھا کر سو گیا سائمہ کا موڈ تھا لیکن میں نے اس کو تھکاوٹ کا بول کر ٹال دیا اور سو گیا اور اگلا دن بھی معمول کے مطابق گزر گیا اور اس رات بھی سائمہ یا نبیلہ کے ساتھ کچھ نہ ہوا ایک بات تھی کہ نبیلہ مجھے گھر میں دیکھ کر خوش ہو گئی تھی . اور میرے آگے پیچھے شاید کسی بات کے لیے موقع تلاش کر رہی تھی . لیکن شاید اس کو مناسب موقع مل نہیں رہا تھا . پِھر وہ دن بھی یوں ہی گزر گیا . مجھے گھر آ کر آج 2 دن ہو گئے تھے . اور اگلے ہی دن شام کو موسم اچھا تھا میں چھت پر ٹہلنے کے لیے چلا گیا . ابھی مجھے چھت پر آئے ہوئے 15 منٹ ہی ہوئے تھے تو سائمہ نیچے سے اوپر چھت پر بھاگتی ہوئی آ گئی اس کا سانس پھولا ہوا تھا وہ بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لگ گئی اور کچھ دیر تک تو خاموش رہی جب اس کی کچھ سانس بَحال ہوئی تو وہ میرے آنکھوں میں دیکھ کر بولی وسیم آج میں بہت خوش ہوں آج مجھے بہت بڑی خوش خبری ملی ہے اور میں وہ تم کو ہی پہلے سنانا چاہتی ہوں تو میں نے تھوڑا حیران ہو کر اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولی آپ کو پتہ ہے مجھے ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے امی کا لاہور سے فون آیا ہے وہ کہتی ہیں کے میں اب لاہور میں نہیں رہ سکتی میرا اکیلے یہاں دِل نہیں لگتا ہے اور میں اب واپس گاؤں آ نا چاہتی ہوں اور تم سب کے ساتھ مل کر رہنا چاہتی ہوں . مجھے تو یہ بات پہلے ہی پتہ تھی لیکن میں سائمہ کو کسی بھی شق میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا . اِس لیے اس کی بات سن کر اپنا موڈ کافی اچھا کر لیا اور خوشی ظاہر کرنے لگا اور اس کو کہا کے یہ تو بہت اچھی بات ہے چا چی واپس گاؤں آ نا چاہتی ہے . میں اور ابّا جی تو پہلے بھی چا چے کے لاہور جانے کے حق میں نہیں تھے لیکن چلو جو ہوا سو ہوا لیکن اب خوشی کی بات ہے چا چی واپس اپنے گاؤں آ نا چاہتی ہے . پِھر سائمہ نے کہا کے وسیم امی کہہ رہی تھی کے وسیم کو 1 یا 2 دن میں لاہور بھیج دو تا کہ میں مکان بیچ کر اپنا سامان لے کر واپس ملتان آ جاؤں تو میں نے کہا ٹھیک ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے میں کل یا پرسوں تک چلا جاتا ہوں . اور پِھر سائمہ بھاگ کر نیچے جانے لگی اور کہنے لگی میں امی جی مطلب میری امی کو بھی بتا دیتی ہوں . اور نیچے چلی گئی میں بھی اس کے پیچھے نیچے اُتَر کر آ گیا امی باہر صحن میں ہی تھیں سائمہ جا کر ان کے گلے لگ گئی اور ان کو اپنی امی کی واپسی کا بتانے لگی نبیلہ کچن میں چائے بنا رہی تھی اس نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر باہر دیکھا اور پِھر سائمہ کی بات سن کر میری طرف دیکھا تو میں نے اشارے سے اس کو سب اچھا ہے کا بتا دیا وہ بھی مطمئن ہو گئی . میری امی بھی سائمہ کی بات سن کر خوش ہو گئی اور دعا دینے لگی . پِھر نبیلہ چائے لے کر آ گئی . ہم سب نے مل کر چائے پی اور پِھر ٹائم دیکھا تو شام کے 6 بج رہے تھے . سائمہ نے کہا میں آج بہت خوش ہوں میں آج وسیم کے لیے اس کی پسند کی بریانی اور کھیر بناؤں گی اور نبیلہ کو کہا آج تم آرام کرو میں کچن کا کام میں خود کروں گی . نبیلہ بھی اس کی بات سن کر حیران ہوئی . پِھر سائمہ کچن میں گھس گئی اور نبیلہ باہر امی کے ساتھ ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگی میں کچھ دیر بیٹھ کر پِھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا . تقریباً 1 گھنٹے بَعْد نبیلہ میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی . اور مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی . میں نے اس کو لاہور والی چا چی کی اور اپنی پوری اسٹوری سنا دی میں نے نبیلہ کو ثناء کی کوئی بھی بات ابھی نہیں بتائی تھی
میں نے راولپنڈی سے ٹرین میں بیٹھ کر ہی چا چی کو بتا دیا تھا کے کام ہو گیا ہے . اور میں آج رات واپس جا رہا ہوں کل دن کو گھر پہنچ جاؤں گا . چا چی بھی یہ سن کر خوش ہو گئی تھی . میں اگلے دن 3 بجے جب گھر پہنچ کر سب سے سلام دعا کر کے پِھر کچھ دیر آرام کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا . رات کا كھانا وغیرہ کھا کر سو گیا سائمہ کا موڈ تھا لیکن میں نے اس کو تھکاوٹ کا بول کر ٹال دیا اور سو گیا اور اگلا دن بھی معمول کے مطابق گزر گیا اور اس رات بھی سائمہ یا نبیلہ کے ساتھ کچھ نہ ہوا ایک بات تھی کہ نبیلہ مجھے گھر میں دیکھ کر خوش ہو گئی تھی . اور میرے آگے پیچھے شاید کسی بات کے لیے موقع تلاش کر رہی تھی . لیکن شاید اس کو مناسب موقع مل نہیں رہا تھا . پِھر وہ دن بھی یوں ہی گزر گیا . مجھے گھر آ کر آج 2 دن ہو گئے تھے . اور اگلے ہی دن شام کو موسم اچھا تھا میں چھت پر ٹہلنے کے لیے چلا گیا . ابھی مجھے چھت پر آئے ہوئے 15 منٹ ہی ہوئے تھے تو سائمہ نیچے سے اوپر چھت پر بھاگتی ہوئی آ گئی اس کا سانس پھولا ہوا تھا وہ بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لگ گئی اور کچھ دیر تک تو خاموش رہی جب اس کی کچھ سانس بَحال ہوئی تو وہ میرے آنکھوں میں دیکھ کر بولی وسیم آج میں بہت خوش ہوں آج مجھے بہت بڑی خوش خبری ملی ہے اور میں وہ تم کو ہی پہلے سنانا چاہتی ہوں تو میں نے تھوڑا حیران ہو کر اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولی آپ کو پتہ ہے مجھے ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے امی کا لاہور سے فون آیا ہے وہ کہتی ہیں کے میں اب لاہور میں نہیں رہ سکتی میرا اکیلے یہاں دِل نہیں لگتا ہے اور میں اب واپس گاؤں آ نا چاہتی ہوں اور تم سب کے ساتھ مل کر رہنا چاہتی ہوں . مجھے تو یہ بات پہلے ہی پتہ تھی لیکن میں سائمہ کو کسی بھی شق میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا . اِس لیے اس کی بات سن کر اپنا موڈ کافی اچھا کر لیا اور خوشی ظاہر کرنے لگا اور اس کو کہا کے یہ تو بہت اچھی بات ہے چا چی واپس گاؤں آ نا چاہتی ہے . میں اور ابّا جی تو پہلے بھی چا چے کے لاہور جانے کے حق میں نہیں تھے لیکن چلو جو ہوا سو ہوا لیکن اب خوشی کی بات ہے چا چی واپس اپنے گاؤں آ نا چاہتی ہے . پِھر سائمہ نے کہا کے وسیم امی کہہ رہی تھی کے وسیم کو 1 یا 2 دن میں لاہور بھیج دو تا کہ میں مکان بیچ کر اپنا سامان لے کر واپس ملتان آ جاؤں تو میں نے کہا ٹھیک ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے میں کل یا پرسوں تک چلا جاتا ہوں . اور پِھر سائمہ بھاگ کر نیچے جانے لگی اور کہنے لگی میں امی جی مطلب میری امی کو بھی بتا دیتی ہوں . اور نیچے چلی گئی میں بھی اس کے پیچھے نیچے اُتَر کر آ گیا امی باہر صحن میں ہی تھیں سائمہ جا کر ان کے گلے لگ گئی اور ان کو اپنی امی کی واپسی کا بتانے لگی نبیلہ کچن میں چائے بنا رہی تھی اس نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر باہر دیکھا اور پِھر سائمہ کی بات سن کر میری طرف دیکھا تو میں نے اشارے سے اس کو سب اچھا ہے کا بتا دیا وہ بھی مطمئن ہو گئی . میری امی بھی سائمہ کی بات سن کر خوش ہو گئی اور دعا دینے لگی . پِھر نبیلہ چائے لے کر آ گئی . ہم سب نے مل کر چائے پی اور پِھر ٹائم دیکھا تو شام کے 6 بج رہے تھے . سائمہ نے کہا میں آج بہت خوش ہوں میں آج وسیم کے لیے اس کی پسند کی بریانی اور کھیر بناؤں گی اور نبیلہ کو کہا آج تم آرام کرو میں کچن کا کام میں خود کروں گی . نبیلہ بھی اس کی بات سن کر حیران ہوئی . پِھر سائمہ کچن میں گھس گئی اور نبیلہ باہر امی کے ساتھ ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگی میں کچھ دیر بیٹھ کر پِھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا . تقریباً 1 گھنٹے بَعْد نبیلہ میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی . اور مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی . میں نے اس کو لاہور والی چا چی کی اور اپنی پوری اسٹوری سنا دی میں نے نبیلہ کو ثناء کی کوئی بھی بات ابھی نہیں بتائی تھی