20-07-2023, 07:11 PM
گی حق ادا کر دوں گا آپ بولیں تو سہی . چا چی نے کہا آب بول کر ہی حق لینا پڑے گا سمجھدار ہو خود ہی کوشش کر کے ادا کر دیا کرو . میں نے کہا چا چی جی پہلے کے لیے معافی مانگتا ہوں لیکن اب کے بَعْد حاضر ہی حاضر ہوں . چا چی میری بات سن کر خوش ہو گئی . میں نے کہا چا چی جی آپ کی بیٹی سے میں آپ کا اور ثناء کا پوچھتا رہتا ہوں وہ تو یہ ہی کہتی ہے کے امی خوش ہیں اس نے کبھی بھی کوئی گلہ نہیں کیا . یکدم چا چی غصے میں بولی ہاں اس کو کیا فکر ہے دن رات لن ملتا رہتا ہے میں چا چی کے منہ سے لن کا لفط سن کر حیران ہو گیا چا چی بھی کافی شرمندہ ہو گئی اور بولی بیٹا غلطی سے منہ سے نکل گیا تھا . پِھر میں نے کہا چا چی آپ کی بیٹی کا اپنا نصیب ہے اور آپ کا اپنا اگر آج چا چا زندہ ہوتا تو شاید آپ کو اِس چیز کی کمی نہیں رہتی . آپ بھی اپنی بیٹی کی طرح خوش رہتی . تو چا چی نے کہا بیٹا تمہیں نہیں پتہ یہ دکھ کافی پرانا ہے . تمہارے چا چے کی طرف سے سکھ ملنا تو تو ان کے فوت ہونے سے 4 یا 5 سال پہلے ہی ختم ہو گیا تھا . پِھر اس کے بَعْد سے بعد گھٹ گھٹ کر زندگی گزر رہی ہوں . میں نے کہا چا چی میں آپ کی تکلیف سمجھ سکتا ہوں . چا چی نے کہا بیٹا سائمہ تمہاری بہت تعریف کرتی ہے . اور تمہاری وجہ سے آج خوش زندگی گزر رہی ہے . میں چا چی کی بات سن کر خاموش ہو گیا . پِھر چا چی نے کہا وسیم بیٹا ایک بات پوچھو ں تو برا تو نہیں مانو گے اور کیا اپنی چا چی کو دوست جان کر سچ سچ بتاؤ گے . میں نے کہا چا چی آپ کیسی بات کر رہی ہیں . آپ پوچھو کیا پوچھنا ہے . چا چی نے کہا بیٹا تم مرد ہو شادی کے بَعْد دو دو سال تک سعودیہ میں رہتے رہے ہو کبھی اپنے بِیوِی کی یاد نہیں آتی تھی اس کا ساتھ یاد نہیں کرتے تھے . کہیں تم نے وہاں کوئی اور دوست تو نہیں بنا رکھی تھی چا چی یہ بول کر ہنسنے لگی . میں بھی مسکرا پڑا میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کے چا چی نے کہا 12 بجنے والے ہیں تم بھی بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہو گے آؤ کمرے میں چل کر بیڈ پے آرام سے لیٹ کر باتیں کرتے ہیں باہر تھوڑی گرمی بھی ہے اندر اے سی لگا لیتے ہیں . میں نے کہا ٹھیک ہے چا چی جیسے آپ کی مرضی چا چی نے اٹھ کر باہر کا دروازہ بند کیا لائٹس کو آ ف کیا اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے میں لے جانے لگی تو میں نے کہا چا چی میں دوسرے کمرے میں سو جاؤں گا آپ آرام سے سو جائیں . تو چا چی نے منہ پھلا کر کہا کوئی ضرورت نہیں ہے میرا بیڈ بہت بڑا ہے تم بھی وہاں سو سکتے ہو اور دوسرے کمرے میں اے سی بھی نہیں ہے اور ویسے بھی میرے بیٹے ہو . اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئی . اور مجھے اپنے بیڈ پے بیٹھا کر خود اے سی آن کر دیا . پِھر الماری سے ایک بلینکٹ نکال کر بیڈ کی پاؤں والی طرف رکھی دی اور کمرے میں زیرو کا بلب لگا کر بیڈ پے آ کر بیٹھ گئی . میں ابھی بھی ٹانگیں نیچے لٹکا کر بیٹھا تھا . تو چا چی نے کہا وسیم بیٹا میں کھا نہیں جاؤں گی . چلو سہی ہو کر بیڈ پے بیٹھ جاؤ . مجھے قمیض اُتار کر سونے کی عادت تھی . چا چی نے شاید بھانپ لیا تھا تو بولی مجھے پتہ ہے تم قمیض اُتار کر سوتے ہو تم اپنے قمیض اُتَر کر لیٹ جاؤ . میں نے قمیض کو اُتار کر ایک طرف رکھ دی اور ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹ گیا اب میرے اور چا چی کے درمیان کوئی 1 فٹ کا فاصلہ تھا . پِھر چا چی نے کہا اب بتاؤ جو میں نے تم سے سوال پوچھا تھا . میں نے کہا چا چی بِیوِی کی کس کو یاد نہیں آتی ہے . میں بھی انسان ہوں عورت کا ساتھ کس کو نہیں اچھا لگتا اور سعودیہ میں میری کوئی دوست نہیں تھی وہاں ایسے دوست بنانا بہت مشکل ہے بس میں بھی 2 سال مجبوری سمجھ کر گزار لیتا تھا . پِھر چا چی نے کہا بیٹا کیا میری بیٹی تمہیں خوش رکھتی ہے کے نہیں اگر نہیں رکھتی ہے تو مجھے بتاؤ میں اس کو سمجھا دوں گی . میں چا چی کی بات سن کر خاموش ہو گیا . چا چی نے کہا بیٹا کیا بات ہے تم خاموش کیوں ہو تمہاری خاموشی سے مجھے لگتا ہے کے تمہیں میری بیٹی سے کوئی شکایت ہے . تم مجھے بتاؤ میں اس کو سمجھا دوں گی وہ تمہارا اور زیادہ خیال رکھے گی . اور یہ بات کہہ کر چا چی میرے اور قریب ہو کر میرے ساتھ لیٹ گئی . اور میرے بالن میں پیار سے انگلیاں پھیر نے لگی میں پِھر بھی خاموش تھا کے چا چی کو ان کی بات کا کیا جواب دوں یہ تو میرا اور سائمہ کا میاں بِیوِی والا مسئلہ ہے . چا چی مجھے خاموش دیکھ کر بولی وسیم بیٹا میں نے کہا تھا نہ تم اپنی چا چی کو اپنا سمجھتے ہی نہیں ہو اِس لیے اگر اپنا سمجھتے تو اپنے دِل کی بات مجھے بتا دیتے سائمہ میری بیٹی ہے میں اس کو سمجھا سکتی ہوں . تم میرے داماد کے ساتھ ساتھ میرے بھتیجےبھی ہو . میرا تو تمھارے ساتھ دوہرا رشتہ ہے . پِھر بھی تم مجھے اپنا نہیں سمجھتے ہو اگر نہیں بتانا تو نہیں بتاؤ . میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور چا چی کی طرف دیکھ کر بولا چا چی جی اِس دِل میں بہت کچھ ہے جو آپ کو بتا سکتا ہوں لیکن آپ کے اور میرے رشتے کا مان ہے اِس لیے بتا نہیں پا رہا ہوں . تو چا چی نے کہا بیٹا تم مجھے اپنی ایک دوست سمجھ کر یا اپنے دکھ کا ساتھی سمجھ کر بتاؤ . میرا یقین کرو میں اپنی بیٹی یا کسی بھی بات کا برا یا غصہ نہیں کروں گی . تم آج اپنا دِل کھول دو . تم نے یہ بات بول کر میرے اندر کے وہم کو اور زیادہ پختہ کر دیا ہے مجھے یقین ہو گیا ہے کے تمھارے دِل میں ضرور بہت زیادہ شکایات اور سوالات ہیں .میں پِھر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور چا چی نے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا . پِھر مجھے جو جو باتیں نبیلہ نے کہی تھیں میں نے ایک ایک کر کے چا چی کو بتا دیں. میں نے چا چی کو نبیلہ کی وہ بات بھی بتا دی جو نبیلہ نے چا چی کو اس لڑکے کے ساتھ کرتے ہوئے پکڑا تھا . میں کافی دیر تک بولتا رہا اور چا چی خاموشی سے سنتی رہی . میں جب چا چی کی باتیں سنا رہا تھا میرا دھیان دوسری طرف تھا . جب میں نے آخری بات یہ بولی چا چی جان آپ فیصلہ کرو اِس میں میرا قصور کیا تھا . میں نے جب دیکھا تو چا چی کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے . چا چی نے آگے ہو کر میرا ہاتھ چوم لیا پِھر میرا ماتھا چُوما پِھر میرے گالن کو چوما اور پِھر میرے ہونٹ پے ہلکا سا بوسہ دیا .اور پیچھے ہٹ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی . اور کچھ دیر خاموش رہی . پِھر کچھ دیر بعد چا چی کے منہ سے ایک روہانسی سی آواز نکلی کہ وسیم بیٹا جو جو تم نے کہا ہے وہ سب کچھ سچ ہے اور اِس میں میری اپنی کوئی غلطی نہیں ہے میں تمہیں ایک ایک بات سچ سچ بتاتی ہوں . ہو سکتا ہے تم میری بات کا یقین نہیں کرو اور یہ ہی کہو کے جیسی بیٹی ویسی ہی ماں لیکن بیٹا ایسا کچھ بھی نہیں ہے . پِھر چا چی نے کہا بیٹا جب سائمہ کالج میں جاتی تھی تو اس لڑکے کے ساتھ اس کی کالج میں ملاقات ہوئی پِھر سائمہ اور عمران کے درمیان دوستی گہری ہوتی گئی اور سائمہ کو بھی یہ بات نہیں پتہ تھی کے تمھارے چا چے نے اس کا رشتہ تمھارے ساتھ کرنا ہے اِس لیے وہ عمران کے ساتھ اپنے پیار کی پِینْگ ڈالنے لگی اور یہ دوستی اور پیار کی پِینْگ زیادہ خطرناک ثابت ہوئی . کیونکہ سائمہ عمران کے چکر میں بہت پاگل ہو چکی تھی جوان تھی جوانی نے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا اور ان دونوں کی دوستی اور محبت لمبی ہوتی جا رہی تھی. پِھر سائمہ جب یونیورسٹی میں چلی گئی تو عمران نے بھی اس یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اب تو سائمہ اور عمران ایک ہو گئے تھےمجھے اس وقعت تک سائمہ اور عمران کے تعلق کا کچھ پتہ نہیں تھا . میں بس یہ ہی سمجھتی تھی کے یونیورسٹی کے دوست ہیں . لیکن میں غلط تھی . کیونکہ ایک دن سائمہ نے گھر آ کر بتایا کے ا می ہماری یونیورسٹی کا ٹوور مری کے لیے جا رہا ہے. اور میں نے بھی جانا ہے ہمارا 3 دن کا ٹوور ہے تمھارے چا چے نے بہت منع کیا اور وہ باز نہیں آئی مجھے بھی اتنی باتوں کا پتہ نہیں تھا . میں نے بھی تمھارے چا چے کو بول کر اس کو اِجازَت لے دی اور وہ مری چلی گئی . بس وہ ہی سب سے بڑی غلطی تھی . کیونکہ مری سے واپس آنے کے کافی دن بعد میں نے نوٹ کیا سائمہ پہلے 2 بجے تک گھر آ جاتی تھی . لیکن پِھر آہستہ آہستہ وہ دیر سے گھر آنے لگی کبھی شام کو 6 بجے کبھی 8 بجے گھر آتی تھی . میں ماں تھی مجھے فکر لگ گئی تھی . ایک دن شام کو 8 بجے وہ گھر آئی تو اس کا چہرہ لال سرخ تھا اور کافی پریشان بھی لگ رہی تھی . گھر آ کر اپنے کمرے میں چلی گئی رات کے کھانے کے لیے ثناء 2 دفعہ اس کے کمرے میں گئی تو وہ كھانا کھانے کے لیے نہیں آئی میں نے کچن کا سارا کام ختم کر کے تقریباً رات کے 10بجے اس کے کمرے میں چلی گئی وہ تکیے میں سر دے کر لیی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ رو رہی تھی. میں کمرے کا دروازہ بند کر کے اس کے بیڈ پے چلی گئی اور اس کے پاس بیٹھ کر تکیہ اس کے منہ سے ہٹایا تو اس کی آنکھیں لال سرخ تھیں اور وہ رَو رہی تھی . میرا تو دِل ہی بیٹھ گیا میں نے پوچھا سائمہ میری بچی کیا ہوا ہے رَو کیوں رہی ہو . وہ میری آواز سن کر اور زیادہ رونے لگی پِھر کافی دیر رونے کے بَعْد اٹھ کر میرے گلے لگ گئی اور بولی ا می مجھے معاف کر دیں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے . میں نے اس کو دلاسہ دیا اور بولا بیٹی مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے . پِھر اس نے جو اپنی کہانی مجھے سنائی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی . اس نے اپنی اور عمران کی کالج سے لے یونیورسٹی تک کی ساری اپنی پیار اور دوستی کی کہانی سنائی اس نے کہا پہلے پہلے تو عمران مجھے کہیں کسی ہوٹل میں یا یونیورسٹی میں اکیلی جگہ پے لے جاتا مجھے بس پیار کرتا رہتا تھا مجھے کس وغیرہ کرتا رہتا تھا پِھر آہستہ آہستہ میرے مموں تک چلا گیا مجھے اپنی جھولی میں بیٹھا کر میرے ممے سہلا تا رہتا تھا اور کسسنگ کرتا رہتا تھا اور کبھی کبھی کوئی ویران جگہ دیکھ کر میری شلوار کے اندر ہاتھ ڈال کر میرے پھدی کو سہلا تا رہتا تھا . یونیورسٹی تک وہ یہ ہی کر کے مجھے بھی مزہ دیتا تھا خود بھی لیتا تھا اس نے اور میں نے وعدہ کیا تھا ہم آپس میں شادی بھی کریں گے . لیکن پِھر یونیورسٹی میں آ کر جب ہم لوگ مری گئے تو وہاں اس نے گروپ سے الگ ہو کر ایک کمرا لے لیا اور مجھے بھی بتا دیا اور ایک رات مجھے اس ہوٹل میں ہی کمرے میں بلا کر مجھ سے مزہ لیا اور میں مزے ہی مزے میں بہک گئی اور اس نے مجھے اس رات چود دیا اور پِھر 3 دن تک لگاتار وہ مجھے رات کو اس کمرے میں بلا لیتا اور مجھے چودتا رہتا تھا . پِھر جب ہم واپس آ گئے تو کافی دفعہ اپنے کسی دوست کے فلیٹ میں بھی لے جاتا اور مجھے چودتا رہتا تھا میں اس کے پیار میں گم تھی مجھے اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا . پِھر ایک دن اس نے مجھے کہا کے میرے ایک دوست کو خوش کرو یہ وہ ہی دوست تھا جس کے فلیٹ میں وہ مجھے لے جا کر چودتا تھا . میں اس کی بات سن کر آگ بگولہ ہو گئی . اور اس کو تھپڑ مار دیا اور بولا تم نے مجھے گشتی سمجھ رکھا ہے جو میں تمھارے دوست سے بھی کروں گی یہ کبھی نہیں ہو گا . پِھر اس نے مجھے اپنے موبائل میں ایک ویڈیو دکھائی جس کو دیکھا کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی . یہ ویڈیو مری کے اس ہوٹل میں بنی ہوئی تھی جس میں عمران نے مجھے پہلی دفعہ چودا تھا . میں بہت روئی بہت گڑ گڑ آئی لیکن اس نے میری ایک نہیں سنی . پِھر میں اس ویڈیو کے پیچھے مجبور ہو گئی . اور اس کے دوست سے بھی کروایا اور اس کے گروپ کے 2 اور دوست تھے جن سے میں نے کروایا . بیٹا پِھر سائمہ نے اپنے باپ کی عزت کے ڈر سے ان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا . پِھر کچھ عرصہ بعد عمران گھر تک آنے لگا اور جب تمھارا چا چا کام پے ہوتا تھا وہ سائمہ کے ساتھ گھر آ جاتا اور میرے اور ثناء کے ہوتے ہوئے بھی وہ سائمہ کو اس کے کمرے میں چودتا رہتا تھا . میں یہ جان کر بھی میری بیٹی اندر کسی غیر مرد سے چودوا رہی ہے. میں کئی دفعہ مرتی تھی کئی دفعہ جیتی تھی . پِھر تو عمران نے اس ویڈیو کی وجہ سے میری بیٹی کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپنا غلام بنا لیا کیونکہ اس نے سائمہ کو میرے لیے بھی مجبور کرنا شروع کر دیا . اور پِھر آخر کار مجھے بھی اپنی بیٹی کی خاطر اس کا ساتھ دینا پڑا . پِھر میں بھی عورت تھی جذبات رکھتی تھی تمھارے چا چے کی عدَم توجہ کے وجہ سے میں بھی بہک گئی اور اس کا ساتھ دینے لگی . لیکن میں نے اپنے جسم کو آگے کر کے سائمہ کو کافی حد تک بچا لیا تھا وہ لڑکا اور اس کے دوستوں کو میں اکیلے ہی نمٹا لیتی تھی . پِھر میں نے تمھارے چا چے کو بول کر سائمہ کی شادی جلدی سے جلدی کروا کے اس کو یہاں سے بھیج دیا بعد میں میں اکیلے ہی ان سب کو جھیلتی رہی جب عمران زیادہ تنگ کر دیتا تھا تو کبھی کبھی سائمہ کو بلا لیتی تھی اور وہ بیچاری بھی یہاں آ کر جتنے دن رہتی تھی عمران اور اس کے دوست آ کر روز اس کو چودتے تھے . پِھر ان کی نظر ثناء پے پڑی تو مجھے اور سائمہ کو ثناء کے لیے مجبور کرنے لگے. ثناء کا سن کر تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی کیونکہ میری ایک بیٹی کی زندگی برباد ہو چکی تھی میں دوسری کی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی