20-07-2023, 07:10 PM
شام کو تقریباً 5 بجے سائمہ مجھے جگا رہی تھی اور چائے کے لیے باہر بلا رہی تھی . میں بیڈ سے اٹھ کر باتھ روم میں گھس گیا منہ ہاتھ دھو کر فریش ہوا پِھر کمرے سے نکل کر باہر صحن میں آ گیا اور سب کے ساتھ مل کر چائے پینے لگا اور امی کے ساتھ یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگا پِھر میں وہاں سے اٹھ کر چھت پے چلا گیا کیونکہ مجھے میرے اسلام آباد والے دوست کی کال آ رہی تھی میں چھت پے جا کر اس کو دوبارہ کال ملائی تو سلام دعا کے بعد اس نے مجھے کہا کسی دن ٹائم نکال کر اسلام آباد آؤ تم سے ضروری باتیں کرنی ہیں . میں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے کچھ بتاؤ تو سہی تو اس نے کہا کے ثناء کے متعلق تمہیں کچھ بتانا ہے لیکن فون پے نہیں بتا سکتا . اِس لیے تم ٹائم نکال کر اسلام آباد کا چکر لگاؤ . میں نے کہا خیر تو ہے ثناء کو کیا ہوا ہے . تو وہ بولا ثناء بالکل ٹھیک ہے فکر نہیں کرو بس تم یہاں آ جاؤ پِھر بیٹھ کر تفصیل میں بات ہو گی . میں نے کہا چلو ٹھیک میں چکر لگاؤں گا ابھی مجھے کچھ دن کے لیے لاہور جانا ہے ایک ضروری کام ہے . پِھر کچھ دیر باتیں کر کے فون بند ہو گیا اچانک میری نظر سیڑھیوں کے پاس کھڑی نبیلہ پے پڑی پتہ نہیں وہ کب سے کھڑی میری باتیں سن رہی تھی . پِھر وہ آہستہ سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھے بولی بھائی کیا بات ہے آپ کا دوست ثناء کے بارے میں کیا کہہ رہا تھا ثناء کو کیا ہوا ہے خیر تو ہے. میں نے کہا نبیلہ میری جان کوئی مسئلہ نہیں ہے ثناء بالکل ٹھیک ہے وہ میرا دوست ویسے ہی مجھے بلا رہا تھا اور ثناء کے بارے میں بات وہاں ہی بتا ےگا . زیادہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا بس ثناء کے کی پڑھائی کا کوئی مسئلہ ہو گا جس لیے مجھے بلایا ہو گا . فکر کوئی بات نہیں ہے میں ٹائم نکال کر جا کر پتہ کر آؤں گا . نبیلہ کو میری بات سن کر سکون ہو گیا اور پِھر بولی بھائی شازیہ باجی کی دو دو مطلب والی باتیں سنی تھیں . میں ہنس پڑا اور کہا ہاں سنی تھیں بڑی ہی چالو چیز ہے مجھے خود ہی دانہ ڈال رہی تھی . نبیلہ نے کہا بھائی جب میں باجی کی طرف گئی تھی تو میں نے شازیہ باجی کو آپ کے متعلق کچھ گرم کیا تھا آپ کا اور سائمہ کی ایک دو باتیں بتائی تھیں . لگتا ہے اس کا اثر ہو رہا ہے . میں نے کہا ہاں نبیلہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو پِھر میں نے گلی میں ہوئی میری اور شازیہ کی باتیں سنا دیں . نبیلہ یہ سن کر خوش ہو گئی اور بولی بس بھائی اب شازیہ باجی پے 1 یا 2 دفعہ اور محنت کرنا پڑے گی پِھر وہ آپ کے نیچے ہو گی . اور پِھر فضیلہ باجی کا کام بھی بہتر ھونا شروع ہو جائے گا . جب آپ لاہور جائیں گے تو میں 1 یا 2 چکر اور لگاؤں گی .اور شازیہ باجی کو مکمل تیار کر دوں گی . پِھر نبیلہ نے کہا بھائی آپ نے سائمہ کو بتا دیا ہے کے آپ اسلام آباد جا رہے ہو . تو میں نے کہا ابھی نہیں بتایا آج رات کو بتا دوں گا اور پرسوں میں نے جانا بھی ہے . نبیلہ نے کہا ٹھیک ہے بھائی میں اب نیچے چلتی ہوں کچن کا تھوڑا کام ہے مجھے آگے ہو کر ہونٹوں پے ایک کس دی اور پِھر نیچے چلی گئی .پِھر میں بھی کچھ دیرٹہل کر نیچے آ گیا 8 بج چکے تھے كھانا تیار تھا سب نے مل کر كھانا کھایا اور پِھر میں اپنے کمرے میں آ گیا اور ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا . اور ٹی وی دیکھنے لگا تقریباً 10بجے سائمہ گھر کا کام ختم کر کے کمرے میں آ گئی اور دروازہ بند کر کے باتھ روم میں چلی گئی . پِھر 10منٹ بعد باتھ روم سے نکل کر بیڈ پے آ کر میرے ساتھ لیٹ گئی اور میرے ساتھ چپک گئی اور شلوار کے اوپر ہی میرا لن پکڑ کر سہلانے لگی . میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا سائمہ میں پرسوں جا رہا ہوں مجھے اپنی گاڑی کی پیمنٹ لینی ہے . اور اپنے دوست کو بھی ملنا ہے شاید 3 سے 4 دن لگ جائیں . تو وہ بولی ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی لیکن آج تو میرا کچھ کریں . میں نے پِھر اس دن رات کو2 دفعہ سائمہ کو جم کر چدائی کی اور بھی 2 دفعہ کی چدائی سے سائمہ نڈھال ہو گئی تھی . اور تھک کر سو گئی اور میں بھی سو گیا . پِھر اگلے دن کچھ خاص نہیں ہوا اور اس رات سائمہ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کیا اور سو گیا اور پِھر اگلے دن صبح اٹھ کر تیاری کی اپنے بیگ تیار کیا اور 9 بجے گھر سے نکل آیا اور اسٹیشن پے آ گیا 10بجے ٹرین کا ٹائم تھا پِھر میں تقریباً 6 بجے کے قریب لاہور پہنچ گیا. پِھر میں نے اپنے پلان کے مطابق چا چی کی فون کیا اور چا چی کا حال حوال معلوم کیا پِھر کچھ دیر یہاں وہاں کی باتیں کر کے میں نے کہا چا چی میں نے اسلام آباد سے پیمنٹ لینی تھی اور اپنے دوست کو بھی ملنا تھا لیکن میرا دوست کچھ اپنے دفتری کام کے لیے لاہور آ گیا ہے اس نے ہی میری اسلام آباد سے پیمنٹ لے کر دینی ہے . اِس لیے میں ابھی لاہور میں ہی ہوں اور میں کسی ہوٹل کی طرف رات کے لیے جا رہا ہوں میں اپنا سامان رکھ کر آپ کی طرف آتا ہوں آپ سے بھی تھوڑی دیر کے لیے ملاقات ہو جائے گی . چا چی میری بات سن کر غصہ ہو گئی اور بولی وسیم تم میرے دآماد ہو اور لاہور میں آ کر ہوٹل میں رہو گے . مجھے تم نے ناراض کر دیا ہے . میں نے کہا چا چی آپ ناراض نہیں ہو 1 رات کی بات ہے . میں آپ کو تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا . چا چی نے کہا مجھے کچھ نہیں سننا بس تم ابھی اپنا سامان لے کر گھر آؤ اور تم نے یہاں ہی رہنا ہے اور غصے سے فون بند کر دیا . میرا پلان کامیاب ہو گیا تھا . میں نے ان کے نمبر پے ایس ایم ایس کیا چا چی آپ ناراض نہیں ہوں میں سامان لے کے آپ کی طرف آ رہا ہوں لیکن آپ سائمہ کو نہیں بتانا نہیں تو وہ بھی مجھ سے غصہ کرے گی . چا چی کو جب میرا ایس ایم ایس ملا چا چی کی کال آ گئی اور بڑی خوش لگ رہی تھی اور بولی وسیم میرے بیٹے میں ناراض نہیں ہوں میں سائمہ کو نہیں بتاؤں گی تم بس اب گھر آ جاؤ . میاں نے کہا جی چا چی جان میں آ رہا ہوں . اور پِھر میں نے اپنا فون بند کر کے رکشہ پکڑا اور اس میں بیٹھ کر چا چی کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا تقریباً آدھے گھنٹے بَعْد میں چا چی کے گھر کے دروازے کے پاس کھڑا تھا . پِھر میں نے رکشے والے کو پیسے دیئے وہ چلا گیا تو میں نے دروازے پے دستک دی 1 منٹ بَعْد ہی چا چی نے دروازہ کھول دیا چا چی شاید ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی . ان کے بال گیلے تھے . میں گھر کے اندر داخل ہوا اور چا چی کو سلام کیا تو چا چی نے سلام جا جواب دے کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا چا چی جب مجھے گلے لگ کر ملی تو ان کے روئی جیسے نرم نرم موٹے موٹے ممے میری چھاتی ساتھ چپک گئے میرے اندر چا چی کے مموں کو محسوس کر کے سرور کی لہر دوڑگئی . اور میرے لن نے بھی نیچے سے انگڑائی لینا شروع کر دی اِس سے پہلے کے لن چا چی کو اپنا آپ دکھاتا میں چا چی سے آرام سے الگ ہو گیا اور بولا چا چی جی اندر چلتے ہیں . تو وہ بھی بولی ہاں بیٹا چلو اندر چلو میں نے اپنے بیگ اٹھا لیا گھر کے اندر آ گیا اندر آ کر چا چی نے بیگ مجھ سے لے لیا اور کمرے میں رکھنے کے لیے چلی گئی اور میں ان کے ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا پِھر چا چی کمرے سے نکل کر سیدھا کچن میں چلی گئی اور وہاں سے ٹھنڈی کولڈ ڈرنک 2 گلاس میں ڈال کر لے آئی ایک مجھے دیا اور ایک خود لے کر سامنے والے صوفے بیٹھ گئی . جب چا چی بیٹھی تو انہوں نے ایک ٹانگ کو اٹھا کر دوسری ٹانگ کے اوپر رکھ کر اپنا جسم تھوڑا سا موڑ لیا جس سے ان کی گانڈ کا ایک پٹ بالکل عیاں ہو گیا تھا چا چی نے سفید رنگ کی کاٹن کی ٹائیٹ شلوار پہنی ہوئی تھی جس سے چا چی کی گانڈ کا ابھا ر صاف نظر آ رہا تھا . یہ نظارہ دیکھ کر میرے لن جھٹکے کھانے لگا تھا میں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی میں نے اپنی ٹانگ کو اٹھا کر دوسری ٹانگ کے اوپر رکھ کر آپس میں جوڑ لیا اور اپنے لن کو ٹانگوں کے درمیان قید کر لیا چا چی میری یہ حرکت دیکھ کر سمجھ گئی تھی وہ پرانی کھلاڑی تھی سب جانتی تھی مجھے ایک دِل فریب سمائل دی اور کولڈ ڈرنک پینے لگی جب میں نے کولڈ ڈرنک ختم کر لی تو چا چی برتن اٹھا کر کچن میں چلی گئی . اور کچھ دیر بَعْد آ کر میرے ساتھ بیٹھ گئی مجھ سے گھر میں سب کے بارے میں پوچھنے لگی . پِھر چا چی نے کہا وسیم بیٹا تم اٹھ کر نہا لو اور فریش ہو جاؤ میں اتنی دیر میں تمھارے لیے كھانا تیار کرتی ہوں پِھر مل کر كھانا کھاتے ہیں . میں نے کہا ٹھیک ہے . تو چا چی نے کہا آؤ میں تمہیں باتھ روم دیکھا دیتی ہوں میں چا چی کے پیچھے پیچھے چل پڑا چا چی مجھے اپنے کمرے میں لے گئی اور اپنے کمرے سے متصل باتھ روم دیکھا کر بولی تم اندر جا کر فریش ہو جاؤ پِھر باہر ہی آ جانا میں کچن میں تمھارے لیے كھانا بناتی ہوں . پِھر چا چی چلی گئی . میں بھی باتھ روم میں گھس گیا اور اپنے کپڑے اُتار کر نہانے لگا جب میں نے اپنے کمرے اُتار کر لٹکا نے لگا تو مجھے وہاں چا چی کے بھی کپڑے نظر آئے اور ان کے ساتھ ان کی برا اور انڈرویئر بھی لٹکا تھا .مجھے چا چی کا انڈرویئر دیکھا کر شہوت سی چڑھ گئی میں نے آگے ہو کر چا چی کی برا اور انڈرویئر لے کر چیک کرنے لگا . چا چی کا انڈرویئر مجھے گیلا گیلا محسوس ہوا میں نے انگلی پھیر کر گیلا پن چیک کیا پِھر کچھ گیلی چیز میری انگلی پے لگ گئی میں نے اپنی ناک کے پاس لے جا کر سونگھا تو مجھے بھینی بھینی سی مہک محسوس ہوئی میں وہاں ہی مست ہو گیا . میں نے چا چی کے انڈرویئر کو اپنے لن پے چڑھا کر اس کو مسلنے لگا تھوڑی دیر بَعْد ہی چا چی کے گیلے انڈرویئر کی مہک سے میرا لن تن کر کھڑا ہو گیا اور جھٹکے کھانے لگا . میں کچھ دیر تک انڈرویئر کو اپنے لن کے اوپر مسلتا رہا پِھر میں نے دوبارہ اس کو لٹکا دیا کیونکہ میں انڈرویئر کے اوپر فارغ ہو کر چا چی کو کسی قسم کے شق میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا . پِھر میں نہا کر فریش ہو گیا اور باتھ روم سے باہر نکل آیا اور دوبارہ آ کر ٹی وی لاؤنج میں آ کر بیٹھ گیا . چا چی سامنے کھڑی کچن میں کام کر رہی تھی . وہ کچن کی کھڑکی سے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے ٹی وی لگا لیا کرکٹ میچ لگا ہوا تھا . میں نے کہا چا چی ثناء نہیں آئی تو چا چی نے کہا وہ 1 مہینہ پہلے آئی تھی ہفتہ رہ کر پِھر واپس چلی گئی تھی . ابھی پِھر اس نے آنا ہے کہہ رہی تھی شاید اِس مہینے کے آخر میں چکر لگاؤں گی . اب اس نے فائنل پیپر دینے ہیں پڑھائی سخت ہے . اِس لیے نہیں آ سکتی . پِھر میں اور چا چی یہاں وہاں کی باتیں کرتے رہے اور چا چی کچن میں كھانا بناتی رہی . تقریباً 9 بجنے والے تھے تو چا چی نے کچن میں كھانا تیار کر لیا تھا پِھر انہوں نے ٹی وی لاؤنج میں ہی كھانا لگا دیا . چا چی نے بریانی بنائی تھی اور ساتھ میں کھیر بنائی تھی . پِھر میں اور چا چی بیٹھ کر كھانا کھانے لگے كھانا کھا کر میں صوفے پے بیٹھ گیا اور چا چی برتن اٹھانے لگی برتن اٹھا کر کچن میں رکھ کر صاف صفائی کر کے تقریباً 10بجے چا چی فارغ ہو کر آ کر میرے ساتھ ہی صوفے پے بیٹھ گئی اپنی دونوں ٹانگیں صوفے کے اوپر رکھ لیں . اور مجھے سے باتیں کرنے لگی . چا چی نے کہا وسیم بیٹا تم سناؤ سعودیہ سے آ کر پاکستان میں دِل لگ گیا ہے یا نہیں تو میں نے کہا چا چی پَردیس پَردیس ہوتا ہے اپنے ملک یا اپنے گھر کا سکون باہر کہاں ملتا ہے اور اپنے لوگوں کا پیار اور خیال بھی تو اپنے ملک میں ہی ملتا ہے . تو چا چی نے کہا ہاں یہ تو ہے لیکن تم نے تو اپنی چا چی کو کبھی اپنا سمجھا ہی نہیں ہے . کبھی اپنی بیوہ چا چی کا خیال تمہیں آیا ہی نہیں ہے . میں چا چی کی بات سن کر ہنس پڑا اور بولا چا چی آپ کا خیال کیوں نہیں ہے آپ کا خیال نہیں ہوتا تو یہاں آپ کے پاس کیوں آتا اور آپ کا خیال تھا تو آپ کی بیٹی سے شادی بھی کی تھی . چا چی نے کہا آج میں تم سے ناراض نہیں ہوتی تو تم نے کب آنا تھا . اور رہی بات میری بیٹی کی اس کے ساتھ تو شادی تم نے اپنے چا چے کے پیار میں کی ہے . مجھ سے بھلا کس کو پیار ہے میں چا چی کی بات سن کر ان کی طرف دیکھنے لگا تو وہ بولی ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں تمہیں کہاں اپنی بیوہ چا چی کی فکر ہے . تم تو اپنی بِیوِی کے ساتھ بھی یہاں نہیں آتے ہو . اور کبھی فون پے بھی چا چی کا حال حوال نہیں پوچھا ہے چا چی جی آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے لیکن آپ اگر وہاں گاؤں میں ہوتی تو میں روز آپ کا حال حوال پوچھ لیتا آپ کا خیال بھی کرتا . آپ ہماری اور ہمارے چا چے کی عزت ہو . آپ کا بھی ہم پے پورا حق ہے . تو چا چی نے کہا حق ہے تو کبھی حق ادا کیوں
گی حق ادا کر دوں گا آپ بولیں تو سہی . چا چی نے کہا آب بول کر ہی حق لینا پڑے گا سمجھدار ہو خود ہی کوشش کر کے ادا کر دیا کرو . میں نے کہا چا چی جی پہلے کے لیے معافی مانگتا ہوں لیکن اب کے بَعْد حاضر ہی حاضر ہوں . چا چی میری بات سن کر خوش ہو گئی . میں نے کہا چا چی جی آپ کی بیٹی سے میں آپ کا اور ثناء کا پوچھتا رہتا ہوں وہ تو یہ ہی کہتی ہے کے امی خوش ہیں اس نے کبھی بھی کوئی گلہ نہیں کیا . یکدم چا چی غصے میں بولی ہاں اس کو کیا فکر ہے دن رات لن ملتا رہتا ہے میں چا چی کے منہ سے لن کا لفط سن کر حیران ہو گیا چا چی بھی کافی شرمندہ ہو گئی اور بولی بیٹا غلطی سے منہ سے نکل گیا تھا . پِھر میں نے کہا چا چی آپ کی بیٹی کا اپنا نصیب ہے اور آپ کا اپنا اگر آج چا چا زندہ ہوتا تو شاید آپ کو اِس چیز کی کمی نہیں رہتی . آپ بھی اپنی بیٹی کی طرح خوش رہتی . تو چا چی نے کہا بیٹا تمہیں نہیں پتہ یہ دکھ کافی پرانا ہے . تمہارے چا چے کی طرف سے سکھ ملنا تو تو ان کے فوت ہونے سے 4 یا 5 سال پہلے ہی ختم ہو گیا تھا . پِھر اس کے بَعْد سے بعد گھٹ گھٹ کر زندگی گزر رہی ہوں . میں نے کہا چا چی میں آپ کی تکلیف سمجھ سکتا ہوں . چا چی نے کہا بیٹا سائمہ تمہاری بہت تعریف کرتی ہے . اور تمہاری وجہ سے آج خوش زندگی گزر رہی ہے . میں چا چی کی بات سن کر خاموش ہو گیا . پِھر چا چی نے کہا وسیم بیٹا ایک بات پوچھو ں تو برا تو نہیں مانو گے اور کیا اپنی چا چی کو دوست جان کر سچ سچ بتاؤ گے . میں نے کہا چا چی آپ کیسی بات کر رہی ہیں . آپ پوچھو کیا پوچھنا ہے . چا چی نے کہا بیٹا تم مرد ہو شادی کے بَعْد دو دو سال تک سعودیہ میں رہتے رہے ہو کبھی اپنے بِیوِی کی یاد نہیں آتی تھی اس کا ساتھ یاد نہیں کرتے تھے . کہیں تم نے وہاں کوئی اور دوست تو نہیں بنا رکھی تھی چا چی یہ بول کر ہنسنے لگی . میں بھی مسکرا پڑا میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کے چا چی نے کہا 12 بجنے والے ہیں تم بھی بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہو گے آؤ کمرے میں چل کر بیڈ پے آرام سے لیٹ کر باتیں کرتے ہیں باہر تھوڑی گرمی بھی ہے اندر اے سی لگا لیتے ہیں . میں نے کہا ٹھیک ہے چا چی جیسے آپ کی مرضی چا چی نے اٹھ کر باہر کا دروازہ بند کیا لائٹس کو آ ف کیا اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے میں لے جانے لگی تو میں نے کہا چا چی میں دوسرے کمرے میں سو جاؤں گا آپ آرام سے سو جائیں . تو چا چی نے منہ پھلا کر کہا کوئی ضرورت نہیں ہے میرا بیڈ بہت بڑا ہے تم بھی وہاں سو سکتے ہو اور دوسرے کمرے میں اے سی بھی نہیں ہے اور ویسے بھی میرے بیٹے ہو . اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئی . اور مجھے اپنے بیڈ پے بیٹھا کر خود اے سی آن کر دیا . پِھر الماری سے ایک بلینکٹ نکال کر بیڈ کی پاؤں والی طرف رکھی دی اور کمرے میں زیرو کا بلب لگا کر بیڈ پے آ کر بیٹھ گئی . میں ابھی بھی ٹانگیں نیچے لٹکا کر بیٹھا تھا . تو چا چی نے کہا وسیم بیٹا میں کھا نہیں جاؤں گی . چلو سہی ہو کر بیڈ پے بیٹھ جاؤ . مجھے قمیض اُتار کر سونے کی عادت تھی . چا چی نے شاید بھانپ لیا تھا تو بولی مجھے پتہ ہے تم قمیض اُتار کر سوتے ہو تم اپنے قمیض اُتَر کر لیٹ جاؤ . میں نے قمیض کو اُتار کر ایک طرف رکھ دی اور ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹ گیا اب میرے اور چا چی کے درمیان کوئی 1 فٹ کا فاصلہ تھا . پِھر چا چی نے کہا اب بتاؤ جو میں نے تم سے سوال پوچھا تھا . میں نے کہا چا چی بِیوِی کی کس کو یاد نہیں آتی ہے . میں بھی انسان ہوں عورت کا ساتھ کس کو نہیں اچھا لگتا اور سعودیہ میں میری کوئی دوست نہیں تھی وہاں ایسے دوست بنانا بہت مشکل ہے بس میں بھی 2 سال مجبوری سمجھ کر گزار لیتا تھا . پِھر چا چی نے کہا بیٹا کیا میری بیٹی تمہیں خوش رکھتی ہے کے نہیں اگر نہیں رکھتی ہے تو مجھے بتاؤ میں اس کو سمجھا دوں گی . میں چا چی کی بات سن کر خاموش ہو گیا . چا چی نے کہا بیٹا کیا بات ہے تم خاموش کیوں ہو تمہاری خاموشی سے مجھے لگتا ہے کے تمہیں میری بیٹی سے کوئی شکایت ہے . تم مجھے بتاؤ میں اس کو سمجھا دوں گی وہ تمہارا اور زیادہ خیال رکھے گی . اور یہ بات کہہ کر چا چی میرے اور قریب ہو کر میرے ساتھ لیٹ گئی . اور میرے بالن میں پیار سے انگلیاں پھیر نے لگی میں پِھر بھی خاموش تھا کے چا چی کو ان کی بات کا کیا جواب دوں یہ تو میرا اور سائمہ کا میاں بِیوِی والا مسئلہ ہے . چا چی مجھے خاموش دیکھ کر بولی وسیم بیٹا میں نے کہا تھا نہ تم اپنی چا چی کو اپنا سمجھتے ہی نہیں ہو اِس لیے اگر اپنا سمجھتے تو اپنے دِل کی بات مجھے بتا دیتے سائمہ میری بیٹی ہے میں اس کو سمجھا سکتی ہوں . تم میرے داماد کے ساتھ ساتھ میرے بھتیجےبھی ہو . میرا تو تمھارے ساتھ دوہرا رشتہ ہے . پِھر بھی تم مجھے اپنا نہیں سمجھتے ہو اگر نہیں بتانا تو نہیں بتاؤ . میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور چا چی کی طرف دیکھ کر بولا چا چی جی اِس دِل میں بہت کچھ ہے جو آپ کو بتا سکتا ہوں لیکن آپ کے اور میرے رشتے کا مان ہے اِس لیے بتا نہیں پا رہا ہوں . تو چا چی نے کہا بیٹا تم مجھے اپنی ایک دوست سمجھ کر یا اپنے دکھ کا ساتھی سمجھ کر بتاؤ . میرا یقین کرو میں اپنی بیٹی یا کسی بھی بات کا برا یا غصہ نہیں کروں گی . تم آج اپنا دِل کھول دو . تم نے یہ بات بول کر میرے اندر کے وہم کو اور زیادہ پختہ کر دیا ہے مجھے یقین ہو گیا ہے کے تمھارے دِل میں ضرور بہت زیادہ شکایات اور سوالات ہیں .میں پِھر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور چا چی نے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا . پِھر مجھے جو جو باتیں نبیلہ نے کہی تھیں میں نے ایک ایک کر کے چا چی کو بتا دیں. میں نے چا چی کو نبیلہ کی وہ بات بھی بتا دی جو نبیلہ نے چا چی کو اس لڑکے کے ساتھ کرتے ہوئے پکڑا تھا . میں کافی دیر تک بولتا رہا اور چا چی خاموشی سے سنتی رہی . میں جب چا چی کی باتیں سنا رہا تھا میرا دھیان دوسری طرف تھا . جب میں نے آخری بات یہ بولی چا چی جان آپ فیصلہ کرو اِس میں میرا قصور کیا تھا . میں نے جب دیکھا تو چا چی کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے . چا چی نے آگے ہو کر میرا ہاتھ چوم لیا پِھر میرا ماتھا چُوما پِھر میرے گالن کو چوما اور پِھر میرے ہونٹ پے ہلکا سا بوسہ دیا .اور پیچھے ہٹ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی . اور کچھ دیر خاموش رہی . پِھر کچھ دیر بعد چا چی کے منہ سے ایک روہانسی سی آواز نکلی کہ وسیم بیٹا جو جو تم نے کہا ہے وہ سب کچھ سچ ہے اور اِس میں میری اپنی کوئی غلطی نہیں ہے میں تمہیں ایک ایک بات سچ سچ بتاتی ہوں . ہو سکتا ہے تم میری بات کا یقین نہیں کرو اور یہ ہی کہو کے جیسی بیٹی ویسی ہی ماں لیکن بیٹا ایسا کچھ بھی نہیں ہے . پِھر چا چی نے کہا بیٹا جب سائمہ کالج میں جاتی تھی تو اس لڑکے کے ساتھ اس کی کالج میں ملاقات ہوئی پِھر سائمہ اور عمران کے درمیان دوستی گہری ہوتی گئی اور سائمہ کو بھی یہ بات نہیں پتہ تھی کے تمھارے چا چے نے اس کا رشتہ تمھارے ساتھ کرنا ہے اِس لیے وہ عمران کے ساتھ اپنے پیار کی پِینْگ ڈالنے لگی اور یہ دوستی اور پیار کی پِینْگ زیادہ خطرناک ثابت ہوئی . کیونکہ سائمہ عمران کے چکر میں بہت پاگل ہو چکی تھی جوان تھی جوانی نے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا اور ان دونوں کی دوستی اور محبت لمبی ہوتی جا رہی تھی. پِھر سائمہ جب یونیورسٹی میں چلی گئی تو عمران نے بھی اس یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اب تو سائمہ اور عمران ایک ہو گئے تھےمجھے اس وقعت تک سائمہ اور عمران کے تعلق کا کچھ پتہ نہیں تھا . میں بس یہ ہی سمجھتی تھی کے یونیورسٹی کے دوست ہیں . لیکن میں غلط تھی . کیونکہ ایک دن سائمہ نے گھر آ کر بتایا کے ا می ہماری یونیورسٹی کا ٹوور مری کے لیے جا رہا ہے. اور میں نے بھی جانا ہے ہمارا 3 دن کا ٹوور ہے تمھارے چا چے نے بہت منع کیا اور وہ باز نہیں آئی مجھے بھی اتنی باتوں کا پتہ نہیں تھا . میں نے بھی تمھارے چا چے کو بول کر اس کو اِجازَت لے دی اور وہ مری چلی گئی . بس وہ ہی سب سے بڑی غلطی تھی . کیونکہ مری سے واپس آنے کے کافی دن بعد میں نے نوٹ کیا سائمہ پہلے 2 بجے تک گھر آ جاتی تھی . لیکن پِھر آہستہ آہستہ وہ دیر سے گھر آنے لگی کبھی شام کو 6 بجے کبھی 8 بجے گھر آتی تھی . میں ماں تھی مجھے فکر لگ گئی تھی . ایک دن شام کو 8 بجے وہ گھر آئی تو اس کا چہرہ لال سرخ تھا اور کافی پریشان بھی لگ رہی تھی . گھر آ کر اپنے کمرے میں چلی گئی رات کے کھانے کے لیے ثناء 2 دفعہ اس کے کمرے میں گئی تو وہ كھانا کھانے کے لیے نہیں آئی میں نے کچن کا سارا کام ختم کر کے تقریباً رات کے 10بجے اس کے کمرے میں چلی گئی وہ تکیے میں سر دے کر لیی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ رو رہی تھی. میں کمرے کا دروازہ بند کر کے اس کے بیڈ پے چلی گئی اور اس کے پاس بیٹھ کر تکیہ اس کے منہ سے ہٹایا تو اس کی آنکھیں لال سرخ تھیں اور وہ رَو رہی تھی . میرا تو دِل ہی بیٹھ گیا میں نے پوچھا سائمہ میری بچی کیا ہوا ہے رَو کیوں رہی ہو . وہ میری آواز سن کر اور زیادہ رونے لگی پِھر کافی دیر رونے کے بَعْد اٹھ کر میرے گلے لگ گئی اور بولی ا می مجھے معاف کر دیں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے . میں نے اس کو دلاسہ دیا اور بولا بیٹی مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے . پِھر اس نے جو اپنی کہانی مجھے سنائی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی . اس نے اپنی اور عمران کی کالج سے لے یونیورسٹی تک کی ساری اپنی پیار اور دوستی کی کہانی سنائی اس نے کہا پہلے پہلے تو عمران مجھے کہیں کسی ہوٹل میں یا یونیورسٹی میں اکیلی جگہ پے لے جاتا مجھے بس پیار کرتا رہتا تھا مجھے کس وغیرہ کرتا رہتا تھا پِھر آہستہ آہستہ میرے مموں تک چلا گیا مجھے اپنی جھولی میں بیٹھا کر میرے ممے سہلا تا رہتا تھا اور کسسنگ کرتا رہتا تھا اور کبھی کبھی کوئی ویران جگہ دیکھ کر میری شلوار کے اندر ہاتھ ڈال کر میرے پھدی کو سہلا تا رہتا تھا . یونیورسٹی تک وہ یہ ہی کر کے مجھے بھی مزہ دیتا تھا خود بھی لیتا تھا اس نے اور میں نے وعدہ کیا تھا ہم آپس میں شادی بھی کریں گے . لیکن پِھر یونیورسٹی میں آ کر جب ہم لوگ مری گئے تو وہاں اس نے گروپ سے الگ ہو کر ایک کمرا لے لیا اور مجھے بھی بتا دیا اور ایک رات مجھے اس ہوٹل میں ہی کمرے میں بلا کر مجھ سے مزہ لیا اور میں مزے ہی مزے میں بہک گئی اور اس نے مجھے اس رات چود دیا اور پِھر 3 دن تک لگاتار وہ مجھے رات کو اس کمرے میں بلا لیتا اور مجھے چودتا رہتا تھا . پِھر جب ہم واپس آ گئے تو کافی دفعہ اپنے کسی دوست کے فلیٹ میں بھی لے جاتا اور مجھے چودتا رہتا تھا میں اس کے پیار میں گم تھی مجھے اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا . پِھر ایک دن اس نے مجھے کہا کے میرے ایک دوست کو خوش کرو یہ وہ ہی دوست تھا جس کے فلیٹ میں وہ مجھے لے جا کر چودتا تھا . میں اس کی بات سن کر آگ بگولہ ہو گئی . اور اس کو تھپڑ مار دیا اور بولا تم نے مجھے گشتی سمجھ رکھا ہے جو میں تمھارے دوست سے بھی کروں گی یہ کبھی نہیں ہو گا . پِھر اس نے مجھے اپنے موبائل میں ایک ویڈیو دکھائی جس کو دیکھا کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی . یہ ویڈیو مری کے اس ہوٹل میں بنی ہوئی تھی جس میں عمران نے مجھے پہلی دفعہ چودا تھا . میں بہت روئی بہت گڑ گڑ آئی لیکن اس نے میری ایک نہیں سنی . پِھر میں اس ویڈیو کے پیچھے مجبور ہو گئی . اور اس کے دوست سے بھی کروایا اور اس کے گروپ کے 2 اور دوست تھے جن سے میں نے کروایا . بیٹا پِھر سائمہ نے اپنے باپ کی عزت کے ڈر سے ان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا . پِھر کچھ عرصہ بعد عمران گھر تک آنے لگا اور جب تمھارا چا چا کام پے ہوتا تھا وہ سائمہ کے ساتھ گھر آ جاتا اور میرے اور ثناء کے ہوتے ہوئے بھی وہ سائمہ کو اس کے کمرے میں چودتا رہتا تھا . میں یہ جان کر بھی میری بیٹی اندر کسی غیر مرد سے چودوا رہی ہے. میں کئی دفعہ مرتی تھی کئی دفعہ جیتی تھی . پِھر تو عمران نے اس ویڈیو کی وجہ سے میری بیٹی کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپنا غلام بنا لیا کیونکہ اس نے سائمہ کو میرے لیے بھی مجبور کرنا شروع کر دیا . اور پِھر آخر کار مجھے بھی اپنی بیٹی کی خاطر اس کا ساتھ دینا پڑا . پِھر میں بھی عورت تھی جذبات رکھتی تھی تمھارے چا چے کی عدَم توجہ کے وجہ سے میں بھی بہک گئی اور اس کا ساتھ دینے لگی . لیکن میں نے اپنے جسم کو آگے کر کے سائمہ کو کافی حد تک بچا لیا تھا وہ لڑکا اور اس کے دوستوں کو میں اکیلے ہی نمٹا لیتی تھی . پِھر میں نے تمھارے چا چے کو بول کر سائمہ کی شادی جلدی سے جلدی کروا کے اس کو یہاں سے بھیج دیا بعد میں میں اکیلے ہی ان سب کو جھیلتی رہی جب عمران زیادہ تنگ کر دیتا تھا تو کبھی کبھی سائمہ کو بلا لیتی تھی اور وہ بیچاری بھی یہاں آ کر جتنے دن رہتی تھی عمران اور اس کے دوست آ کر روز اس کو چودتے تھے . پِھر ان کی نظر ثناء پے پڑی تو مجھے اور سائمہ کو ثناء کے لیے مجبور کرنے لگے. ثناء کا سن کر تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی کیونکہ میری ایک بیٹی کی زندگی برباد ہو چکی تھی میں دوسری کی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی
نہیں کیا میں نے کہا چا چی جب آپ موقع دیں
گی حق ادا کر دوں گا آپ بولیں تو سہی . چا چی نے کہا آب بول کر ہی حق لینا پڑے گا سمجھدار ہو خود ہی کوشش کر کے ادا کر دیا کرو . میں نے کہا چا چی جی پہلے کے لیے معافی مانگتا ہوں لیکن اب کے بَعْد حاضر ہی حاضر ہوں . چا چی میری بات سن کر خوش ہو گئی . میں نے کہا چا چی جی آپ کی بیٹی سے میں آپ کا اور ثناء کا پوچھتا رہتا ہوں وہ تو یہ ہی کہتی ہے کے امی خوش ہیں اس نے کبھی بھی کوئی گلہ نہیں کیا . یکدم چا چی غصے میں بولی ہاں اس کو کیا فکر ہے دن رات لن ملتا رہتا ہے میں چا چی کے منہ سے لن کا لفط سن کر حیران ہو گیا چا چی بھی کافی شرمندہ ہو گئی اور بولی بیٹا غلطی سے منہ سے نکل گیا تھا . پِھر میں نے کہا چا چی آپ کی بیٹی کا اپنا نصیب ہے اور آپ کا اپنا اگر آج چا چا زندہ ہوتا تو شاید آپ کو اِس چیز کی کمی نہیں رہتی . آپ بھی اپنی بیٹی کی طرح خوش رہتی . تو چا چی نے کہا بیٹا تمہیں نہیں پتہ یہ دکھ کافی پرانا ہے . تمہارے چا چے کی طرف سے سکھ ملنا تو تو ان کے فوت ہونے سے 4 یا 5 سال پہلے ہی ختم ہو گیا تھا . پِھر اس کے بَعْد سے بعد گھٹ گھٹ کر زندگی گزر رہی ہوں . میں نے کہا چا چی میں آپ کی تکلیف سمجھ سکتا ہوں . چا چی نے کہا بیٹا سائمہ تمہاری بہت تعریف کرتی ہے . اور تمہاری وجہ سے آج خوش زندگی گزر رہی ہے . میں چا چی کی بات سن کر خاموش ہو گیا . پِھر چا چی نے کہا وسیم بیٹا ایک بات پوچھو ں تو برا تو نہیں مانو گے اور کیا اپنی چا چی کو دوست جان کر سچ سچ بتاؤ گے . میں نے کہا چا چی آپ کیسی بات کر رہی ہیں . آپ پوچھو کیا پوچھنا ہے . چا چی نے کہا بیٹا تم مرد ہو شادی کے بَعْد دو دو سال تک سعودیہ میں رہتے رہے ہو کبھی اپنے بِیوِی کی یاد نہیں آتی تھی اس کا ساتھ یاد نہیں کرتے تھے . کہیں تم نے وہاں کوئی اور دوست تو نہیں بنا رکھی تھی چا چی یہ بول کر ہنسنے لگی . میں بھی مسکرا پڑا میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کے چا چی نے کہا 12 بجنے والے ہیں تم بھی بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہو گے آؤ کمرے میں چل کر بیڈ پے آرام سے لیٹ کر باتیں کرتے ہیں باہر تھوڑی گرمی بھی ہے اندر اے سی لگا لیتے ہیں . میں نے کہا ٹھیک ہے چا چی جیسے آپ کی مرضی چا چی نے اٹھ کر باہر کا دروازہ بند کیا لائٹس کو آ ف کیا اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے میں لے جانے لگی تو میں نے کہا چا چی میں دوسرے کمرے میں سو جاؤں گا آپ آرام سے سو جائیں . تو چا چی نے منہ پھلا کر کہا کوئی ضرورت نہیں ہے میرا بیڈ بہت بڑا ہے تم بھی وہاں سو سکتے ہو اور دوسرے کمرے میں اے سی بھی نہیں ہے اور ویسے بھی میرے بیٹے ہو . اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئی . اور مجھے اپنے بیڈ پے بیٹھا کر خود اے سی آن کر دیا . پِھر الماری سے ایک بلینکٹ نکال کر بیڈ کی پاؤں والی طرف رکھی دی اور کمرے میں زیرو کا بلب لگا کر بیڈ پے آ کر بیٹھ گئی . میں ابھی بھی ٹانگیں نیچے لٹکا کر بیٹھا تھا . تو چا چی نے کہا وسیم بیٹا میں کھا نہیں جاؤں گی . چلو سہی ہو کر بیڈ پے بیٹھ جاؤ . مجھے قمیض اُتار کر سونے کی عادت تھی . چا چی نے شاید بھانپ لیا تھا تو بولی مجھے پتہ ہے تم قمیض اُتار کر سوتے ہو تم اپنے قمیض اُتَر کر لیٹ جاؤ . میں نے قمیض کو اُتار کر ایک طرف رکھ دی اور ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹ گیا اب میرے اور چا چی کے درمیان کوئی 1 فٹ کا فاصلہ تھا . پِھر چا چی نے کہا اب بتاؤ جو میں نے تم سے سوال پوچھا تھا . میں نے کہا چا چی بِیوِی کی کس کو یاد نہیں آتی ہے . میں بھی انسان ہوں عورت کا ساتھ کس کو نہیں اچھا لگتا اور سعودیہ میں میری کوئی دوست نہیں تھی وہاں ایسے دوست بنانا بہت مشکل ہے بس میں بھی 2 سال مجبوری سمجھ کر گزار لیتا تھا . پِھر چا چی نے کہا بیٹا کیا میری بیٹی تمہیں خوش رکھتی ہے کے نہیں اگر نہیں رکھتی ہے تو مجھے بتاؤ میں اس کو سمجھا دوں گی . میں چا چی کی بات سن کر خاموش ہو گیا . چا چی نے کہا بیٹا کیا بات ہے تم خاموش کیوں ہو تمہاری خاموشی سے مجھے لگتا ہے کے تمہیں میری بیٹی سے کوئی شکایت ہے . تم مجھے بتاؤ میں اس کو سمجھا دوں گی وہ تمہارا اور زیادہ خیال رکھے گی . اور یہ بات کہہ کر چا چی میرے اور قریب ہو کر میرے ساتھ لیٹ گئی . اور میرے بالن میں پیار سے انگلیاں پھیر نے لگی میں پِھر بھی خاموش تھا کے چا چی کو ان کی بات کا کیا جواب دوں یہ تو میرا اور سائمہ کا میاں بِیوِی والا مسئلہ ہے . چا چی مجھے خاموش دیکھ کر بولی وسیم بیٹا میں نے کہا تھا نہ تم اپنی چا چی کو اپنا سمجھتے ہی نہیں ہو اِس لیے اگر اپنا سمجھتے تو اپنے دِل کی بات مجھے بتا دیتے سائمہ میری بیٹی ہے میں اس کو سمجھا سکتی ہوں . تم میرے داماد کے ساتھ ساتھ میرے بھتیجےبھی ہو . میرا تو تمھارے ساتھ دوہرا رشتہ ہے . پِھر بھی تم مجھے اپنا نہیں سمجھتے ہو اگر نہیں بتانا تو نہیں بتاؤ . میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور چا چی کی طرف دیکھ کر بولا چا چی جی اِس دِل میں بہت کچھ ہے جو آپ کو بتا سکتا ہوں لیکن آپ کے اور میرے رشتے کا مان ہے اِس لیے بتا نہیں پا رہا ہوں . تو چا چی نے کہا بیٹا تم مجھے اپنی ایک دوست سمجھ کر یا اپنے دکھ کا ساتھی سمجھ کر بتاؤ . میرا یقین کرو میں اپنی بیٹی یا کسی بھی بات کا برا یا غصہ نہیں کروں گی . تم آج اپنا دِل کھول دو . تم نے یہ بات بول کر میرے اندر کے وہم کو اور زیادہ پختہ کر دیا ہے مجھے یقین ہو گیا ہے کے تمھارے دِل میں ضرور بہت زیادہ شکایات اور سوالات ہیں .میں پِھر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور چا چی نے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا . پِھر مجھے جو جو باتیں نبیلہ نے کہی تھیں میں نے ایک ایک کر کے چا چی کو بتا دیں. میں نے چا چی کو نبیلہ کی وہ بات بھی بتا دی جو نبیلہ نے چا چی کو اس لڑکے کے ساتھ کرتے ہوئے پکڑا تھا . میں کافی دیر تک بولتا رہا اور چا چی خاموشی سے سنتی رہی . میں جب چا چی کی باتیں سنا رہا تھا میرا دھیان دوسری طرف تھا . جب میں نے آخری بات یہ بولی چا چی جان آپ فیصلہ کرو اِس میں میرا قصور کیا تھا . میں نے جب دیکھا تو چا چی کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے . چا چی نے آگے ہو کر میرا ہاتھ چوم لیا پِھر میرا ماتھا چُوما پِھر میرے گالن کو چوما اور پِھر میرے ہونٹ پے ہلکا سا بوسہ دیا .اور پیچھے ہٹ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی . اور کچھ دیر خاموش رہی . پِھر کچھ دیر بعد چا چی کے منہ سے ایک روہانسی سی آواز نکلی کہ وسیم بیٹا جو جو تم نے کہا ہے وہ سب کچھ سچ ہے اور اِس میں میری اپنی کوئی غلطی نہیں ہے میں تمہیں ایک ایک بات سچ سچ بتاتی ہوں . ہو سکتا ہے تم میری بات کا یقین نہیں کرو اور یہ ہی کہو کے جیسی بیٹی ویسی ہی ماں لیکن بیٹا ایسا کچھ بھی نہیں ہے . پِھر چا چی نے کہا بیٹا جب سائمہ کالج میں جاتی تھی تو اس لڑکے کے ساتھ اس کی کالج میں ملاقات ہوئی پِھر سائمہ اور عمران کے درمیان دوستی گہری ہوتی گئی اور سائمہ کو بھی یہ بات نہیں پتہ تھی کے تمھارے چا چے نے اس کا رشتہ تمھارے ساتھ کرنا ہے اِس لیے وہ عمران کے ساتھ اپنے پیار کی پِینْگ ڈالنے لگی اور یہ دوستی اور پیار کی پِینْگ زیادہ خطرناک ثابت ہوئی . کیونکہ سائمہ عمران کے چکر میں بہت پاگل ہو چکی تھی جوان تھی جوانی نے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا اور ان دونوں کی دوستی اور محبت لمبی ہوتی جا رہی تھی. پِھر سائمہ جب یونیورسٹی میں چلی گئی تو عمران نے بھی اس یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اب تو سائمہ اور عمران ایک ہو گئے تھےمجھے اس وقعت تک سائمہ اور عمران کے تعلق کا کچھ پتہ نہیں تھا . میں بس یہ ہی سمجھتی تھی کے یونیورسٹی کے دوست ہیں . لیکن میں غلط تھی . کیونکہ ایک دن سائمہ نے گھر آ کر بتایا کے ا می ہماری یونیورسٹی کا ٹوور مری کے لیے جا رہا ہے. اور میں نے بھی جانا ہے ہمارا 3 دن کا ٹوور ہے تمھارے چا چے نے بہت منع کیا اور وہ باز نہیں آئی مجھے بھی اتنی باتوں کا پتہ نہیں تھا . میں نے بھی تمھارے چا چے کو بول کر اس کو اِجازَت لے دی اور وہ مری چلی گئی . بس وہ ہی سب سے بڑی غلطی تھی . کیونکہ مری سے واپس آنے کے کافی دن بعد میں نے نوٹ کیا سائمہ پہلے 2 بجے تک گھر آ جاتی تھی . لیکن پِھر آہستہ آہستہ وہ دیر سے گھر آنے لگی کبھی شام کو 6 بجے کبھی 8 بجے گھر آتی تھی . میں ماں تھی مجھے فکر لگ گئی تھی . ایک دن شام کو 8 بجے وہ گھر آئی تو اس کا چہرہ لال سرخ تھا اور کافی پریشان بھی لگ رہی تھی . گھر آ کر اپنے کمرے میں چلی گئی رات کے کھانے کے لیے ثناء 2 دفعہ اس کے کمرے میں گئی تو وہ كھانا کھانے کے لیے نہیں آئی میں نے کچن کا سارا کام ختم کر کے تقریباً رات کے 10بجے اس کے کمرے میں چلی گئی وہ تکیے میں سر دے کر لیی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ رو رہی تھی. میں کمرے کا دروازہ بند کر کے اس کے بیڈ پے چلی گئی اور اس کے پاس بیٹھ کر تکیہ اس کے منہ سے ہٹایا تو اس کی آنکھیں لال سرخ تھیں اور وہ رَو رہی تھی . میرا تو دِل ہی بیٹھ گیا میں نے پوچھا سائمہ میری بچی کیا ہوا ہے رَو کیوں رہی ہو . وہ میری آواز سن کر اور زیادہ رونے لگی پِھر کافی دیر رونے کے بَعْد اٹھ کر میرے گلے لگ گئی اور بولی ا می مجھے معاف کر دیں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے . میں نے اس کو دلاسہ دیا اور بولا بیٹی مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے . پِھر اس نے جو اپنی کہانی مجھے سنائی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی . اس نے اپنی اور عمران کی کالج سے لے یونیورسٹی تک کی ساری اپنی پیار اور دوستی کی کہانی سنائی اس نے کہا پہلے پہلے تو عمران مجھے کہیں کسی ہوٹل میں یا یونیورسٹی میں اکیلی جگہ پے لے جاتا مجھے بس پیار کرتا رہتا تھا مجھے کس وغیرہ کرتا رہتا تھا پِھر آہستہ آہستہ میرے مموں تک چلا گیا مجھے اپنی جھولی میں بیٹھا کر میرے ممے سہلا تا رہتا تھا اور کسسنگ کرتا رہتا تھا اور کبھی کبھی کوئی ویران جگہ دیکھ کر میری شلوار کے اندر ہاتھ ڈال کر میرے پھدی کو سہلا تا رہتا تھا . یونیورسٹی تک وہ یہ ہی کر کے مجھے بھی مزہ دیتا تھا خود بھی لیتا تھا اس نے اور میں نے وعدہ کیا تھا ہم آپس میں شادی بھی کریں گے . لیکن پِھر یونیورسٹی میں آ کر جب ہم لوگ مری گئے تو وہاں اس نے گروپ سے الگ ہو کر ایک کمرا لے لیا اور مجھے بھی بتا دیا اور ایک رات مجھے اس ہوٹل میں ہی کمرے میں بلا کر مجھ سے مزہ لیا اور میں مزے ہی مزے میں بہک گئی اور اس نے مجھے اس رات چود دیا اور پِھر 3 دن تک لگاتار وہ مجھے رات کو اس کمرے میں بلا لیتا اور مجھے چودتا رہتا تھا . پِھر جب ہم واپس آ گئے تو کافی دفعہ اپنے کسی دوست کے فلیٹ میں بھی لے جاتا اور مجھے چودتا رہتا تھا میں اس کے پیار میں گم تھی مجھے اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا . پِھر ایک دن اس نے مجھے کہا کے میرے ایک دوست کو خوش کرو یہ وہ ہی دوست تھا جس کے فلیٹ میں وہ مجھے لے جا کر چودتا تھا . میں اس کی بات سن کر آگ بگولہ ہو گئی . اور اس کو تھپڑ مار دیا اور بولا تم نے مجھے گشتی سمجھ رکھا ہے جو میں تمھارے دوست سے بھی کروں گی یہ کبھی نہیں ہو گا . پِھر اس نے مجھے اپنے موبائل میں ایک ویڈیو دکھائی جس کو دیکھا کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی . یہ ویڈیو مری کے اس ہوٹل میں بنی ہوئی تھی جس میں عمران نے مجھے پہلی دفعہ چودا تھا . میں بہت روئی بہت گڑ گڑ آئی لیکن اس نے میری ایک نہیں سنی . پِھر میں اس ویڈیو کے پیچھے مجبور ہو گئی . اور اس کے دوست سے بھی کروایا اور اس کے گروپ کے 2 اور دوست تھے جن سے میں نے کروایا . بیٹا پِھر سائمہ نے اپنے باپ کی عزت کے ڈر سے ان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا . پِھر کچھ عرصہ بعد عمران گھر تک آنے لگا اور جب تمھارا چا چا کام پے ہوتا تھا وہ سائمہ کے ساتھ گھر آ جاتا اور میرے اور ثناء کے ہوتے ہوئے بھی وہ سائمہ کو اس کے کمرے میں چودتا رہتا تھا . میں یہ جان کر بھی میری بیٹی اندر کسی غیر مرد سے چودوا رہی ہے. میں کئی دفعہ مرتی تھی کئی دفعہ جیتی تھی . پِھر تو عمران نے اس ویڈیو کی وجہ سے میری بیٹی کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپنا غلام بنا لیا کیونکہ اس نے سائمہ کو میرے لیے بھی مجبور کرنا شروع کر دیا . اور پِھر آخر کار مجھے بھی اپنی بیٹی کی خاطر اس کا ساتھ دینا پڑا . پِھر میں بھی عورت تھی جذبات رکھتی تھی تمھارے چا چے کی عدَم توجہ کے وجہ سے میں بھی بہک گئی اور اس کا ساتھ دینے لگی . لیکن میں نے اپنے جسم کو آگے کر کے سائمہ کو کافی حد تک بچا لیا تھا وہ لڑکا اور اس کے دوستوں کو میں اکیلے ہی نمٹا لیتی تھی . پِھر میں نے تمھارے چا چے کو بول کر سائمہ کی شادی جلدی سے جلدی کروا کے اس کو یہاں سے بھیج دیا بعد میں میں اکیلے ہی ان سب کو جھیلتی رہی جب عمران زیادہ تنگ کر دیتا تھا تو کبھی کبھی سائمہ کو بلا لیتی تھی اور وہ بیچاری بھی یہاں آ کر جتنے دن رہتی تھی عمران اور اس کے دوست آ کر روز اس کو چودتے تھے . پِھر ان کی نظر ثناء پے پڑی تو مجھے اور سائمہ کو ثناء کے لیے مجبور کرنے لگے. ثناء کا سن کر تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی کیونکہ میری ایک بیٹی کی زندگی برباد ہو چکی تھی میں دوسری کی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی
نہیں کیا میں نے کہا چا چی جب آپ موقع دیں