20-07-2023, 06:38 PM
اور کچھ نا کچھ پلان بنا چکا تھا . ایسے ہی ایک دن موسم اچھا تھا میں چھت پے چار پائی پے لیٹا ہوا تھا اور آج نبیلہ نے کپڑے دھو نےکے لیے مشین لگائی ہوئی تھی وہ بار بار کپڑے دھو کر اوپر چھت پے ڈال رہی تھی . پِھر کوئی چوتھی دفعہ نبیلہ اوپر کپڑے ڈالنے آئی تو اس نے اپنی قمیض کو پیچھے سے پجامے کے اندر پھنسایا ہوا تھا یہ وہ والا ہی سفید تنگ پجامہ تھا جو نبیلہ نے اس دن کچن میں پہنا ہوا تھا اور کپڑے دھو دھو کر اس کا پجامہ پورا گیلا ہوا تھا اور اس کی گول مٹول چٹی گانڈ اس کے پجامہ سے كافی حد تک نظر آ رہی تھی اس نے نیچے کوئی انڈرویئر بھی نہیں پہنا ہوا تھا . یہ منظر دیکھ کر میرا لن نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور اپنا سر اٹھانے لگا نبیلہ اپنے دھیان میں ہی کپڑے ڈال رہی تھی لیکن میں یہاں شلوار کے اوپر سے ہی اپنا لن پکڑ کر اس کو اوپر نیچے مسل رہا تھا اور نبیلہ کی گانڈ کا مزہ لے رہا تھا . میں اتنا غور سے دیکھ رہا تھا كے یکدم نبیلہ خالی بالٹی اٹھا کر واپس مڑ کر نیچے جانے لگی تو اس کی نظر میرے پے پڑی میں گھبرا گیا اور اپنے لن کو ہاتھ سے چھوڑ دیا لیکن میری قمیض اوپر سے ہٹی ہوئی تھی اور شلوار میں ہی میرا لن تن کر کھڑا تمبو بنا ہوا تھا جو نبیلہ کی آنکھوں نے صاف صاف دیکھ لیا تھا اور اس کا چہرہ دیکھ کر لال سرخ ہو گیا تھا وہ شرما کر اس نے ہلکی سی مجھے سمائل دی اور بھاگتی ہوئی نیچے چلی گئی . میں اس کے جانے کے بَعْد كافی دیر تک اپنے کھڑے لن کو بیٹھا نے کی کوشش کرتا رہا لیکن لن تھا كے بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا آج اِس نے کنواری گانڈ دیکھ لی تھی . میں سمجھا شاید اب نبیلہ نہیں آئے گی میں نے سوچا بہتر یہ ہی ہے کے شلوار میں مٹھ لگا کر پانی نکال لیتا ہوں اور پِھر بَعْد میں کپڑے بَدَل لوں گا . میں نے پِھر لن کو پکڑ لیا اور اس کو اوپر نیچے آہستہ آہستہ سہلانے لگا اور مٹھ لگانے لگا . مجھے اپنے لن کو مٹھ لگا تے ہوئے10 منٹ ہو گئے تھے . یکدم نبیلہ دوبارہ بالٹی ہاتھ میں پکڑے ہوئے اوپر آ گئی اس نے مجھے پِھر دیکھ لیا تھا میں نے فوراً لن کو اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان دبا لیا تھا . نبیلہ نے گیلے کپڑے ڈال کر میری طرف دیکھا اور پِھر میری طرف آ گئی اور آ کر چار پائی کے ایک کونے میں بیٹھ گئی . اور کچھ دیرچُپ رہی پِھر بولی بھائی اب سائمہ اپنی گانڈ نہیں دیتی تو اپنی بہن کی گانڈ پے ہی نظر رکھ لی ہے اور تھوڑی سمائل دے کر منہ نیچے کر لیا . میں نے کہا نہیں نبیلہ ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو بس ویسے ہی تھوڑا . نبیلہ بولی بھائی مجھے پتہ ہے سائمہ کو گئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں اور یہ بھی پتہ ہے آپ کو وہ گانڈ نہیں مارنے نہیں دیتی . اِس لیے آپ آج پِھر ایک دفعہ میری گانڈ دیکھ کر اپنے لن کے ساتھ کھیل رہے تھے . میں نے کہا نبیلہ غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دو . نبیلہ نے کہا بھائی میں آپ کی بہن ہوں اگر نہ ہوتی تو شاید کچھ آپ کا سوچ لیتی . میں نے کہا مجھے پتہ ہے . لیکن اگر سائمہ گانڈ میں نہیں لیتی تو کیا ہوا ، میں کوئی مر تو نہیں گیا ہوں . میں نے کہا نبیلہ ایک بات پوچھو ں برا تو نہیں مانو گی . تو اس نے کہا نہیں بھائی یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ پوچھو کیا پوچھنا ہے تو میں نے کہا جب تمہیں باجی نے شازیہ باجی اور ظفر بھائی کی بات بتائی تھی تو کیا کچھ اور بھی بتایا تھا . نبیلہ میری طرف دیکھ کر بولی بھائی میں آپ کی بات نہیں سمجھی آپ کیا کہنا چاھتے ہیں. میں نے کہا کہ کیا باجی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ظفر بھائی شازیہ باجی کی گانڈ بھی مارتے ہیں . نبیلہ میری بات سن کر تھوڑا شرما گئی اور بولی باجی نہیں تو اِس کا نہیں بتایا تھا لیکن آپ خود سوچو اگر ظفر بھائی باجی کی گانڈ روز مارتے تھے . تو لازمی بات ہے ان کو گانڈ مارنے کا شوق ہو گا اِس لیے انہوں نے شازیہ باجی کی بھی گانڈ ضرور ماری ہو گی . اور بات کر کے اور پِھر شرم سے لال سرخ ہو گئی اور منہ نیچے کر لیا. میں نے کہا ہاں یہ بات بھی تم ٹھیک کر رہی ہو . پِھر نبیلہ نے کہا بھائی آپ سے ایک بات پوچھنی ہے لیکن شرم بہت آ رہی ہے . میں نے کہا جتنا ہم بہن بھائی آپس میں کھل چکے ہیں اب تو شرمانا فضول ہے . ویسے بھی باتیں ہی کر رہے ہیں کون سا عمل کر رہے ہیں . پِھر شاید اس کو میری بات سن کر کافی حوصلہ ہوا میں نے کہا جو پوچھنا ہے کھل کر پوچھو. تو نبیلہ نے کہا بھائی کیا واقعہ ہی آپ کو گانڈ مارنے کا بہت شوق ہے اور سائمہ آپ کو مارنے نہیں دیتی . میں نے کہا ہاں یہ دونوں باتیں سچ ہیں . نبیلہ نے کہا بھائی آپ کو میری یا باجی کی گانڈ میں سے کون سی اچھی لگتی ہے اور اتنا بول کر اور شرم سے لال ہو گئی . میں نے کہا سچ بتاؤں یا جھوٹ . تو وہ آہستہ سے بولی آپ کی مرضی ہے . میں نے کہا مجھے تم دونوں بہن سر سے پاؤں تک بہت اچھی لگتی ہو اور گانڈ بھی تم دونوں بہن کی بہت زبردست ہے . باجی کی تو مروا مروا کر کافی بڑی ہو گئی ہے . لیکن سچ پوچھو تو تمہاری مجھے زیادہ پسند ہے . نبیلہ میری بات سن کر بہت زیادہ شرم گئی اور اپنا منہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا. پِھر کچھ دیر بَعْد وہ نارمل ہوئی اور بولی بھائی ایک آخری بات آپ سے پوچھنی تھی . میں نے کہا ہاں پوچھ لو تو بولی کیا آپ بھی ظفر بھائی کی طرح آپ کا بھی اپنی بہن کے لیے دِل کرتا ہے . اور بس اتنا بول کر نیچے بھاگ گئی . مجھے اس کے سوال نے خود ہی جھٹکا دیا تھا . اور سوچ رہا تھا کہ نبیلہ نے یہ کیا پوچھ لیا ہے . پِھر میں یہ ہی سوچتا رہا . پِھر اگلے 3 سے 4 دن میری نبیلہ سے کوئی بات نہ ہوئی جب بھی گھر میں آگے آ جاتی تو شرما کر نکل جاتی . ایک دن میں دو پہر کا ٹائم تھا اپنے کمرے میں بیٹھ ٹی وی دیکھ رہا تھا تو مجھے سائمہ کے نمبر سے مس کال آئی میں نے کال ملائی تو آگے سے بولی آپ مجھے لینے نہیں آئے . میں نے بہانہ کیا سائمہ میں بیمار ہو گیا تھا اِس لیے نہیں آ سکا ابھی بھی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے . اس نے کہا میں اور ا می مری جانا چاھتے ہیں کچھ دوں کے لیے گھومنے کے لیے آپ سے اِجازَت لینی تھی . میں نے کہا سائمہ آگے تم مجھ سے کون سا کام اِجازَت لے کر کرتی ہو جو آج پوچھ رہی ہو . تو بولی میں نے سوچا آپ مجھے لینے آ جائیں گے میں اگر یہاں نہ ہوئی تو آپ ناراض ہو جاؤ گے اِس لیے بتایا تھا . میں نے کہا ٹھیک ہے جہاں جانا ہے جاؤ تمہاری مرضی ہے . تم ماں بیٹی کے ساتھ اور کون جا رہا ہے تو وہ شاید تھوڑا پریشان ہو گئی تھی . اور فوراً بولی کس نے جانا ہے میں اورامی نے ہی جانا ہے . میں نے دِل میں سوچ ماں بیٹی پوری رنڈی ہیں کسی یار کےپیسوں پے مزہ لینے جا رہی ہوں گی اور مجھے فلم لگا رہی ہیں . میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے جب دِل کرے واپس آ جانا اسکو تو شاید میرا یہ ہی جواب پسند تھا. میں جب فون پے باتیں کر رہا تھا تو نبیلہ میرے کمرے کے دروازے پے کھڑی ساری باتیں سن رہی تھی اور پِھر یکدم اندر آ گئی اور آ کر دوسری طرف سے بیڈ پے آ کر بیٹھ گئی . میں نے فون پے کہا اچھا ٹھیک ہے پِھر تم خود ہی یہاں بھی آ جانا میں فون رکھنے لگا ہوں . میں نے فون بند کر دیا تو نبیلہ فوراً بولی بھائی سائمہ کنجری کا فون تھا . میں نے کہا ہاں اس کا تھا . نبیلہ نے کہا کیا وہ آپ کو وہاں لے کر جانے کے لیے بلا رہی تھی . میں نے کہا نہیں صرف یہ بتانے کے لیے فون کر رہی تھی کہ میں اپنی ماں کے ساتھ مری گھومنے کے لیے جا رہی ہوں مجھے کچھ دنوں بعد آ کر لے جانا میں نے کہا میں بیمار ہوں تم خود ہی گھوم پِھر کر یہاں گھر واپس آ جانا . تو نبیلہ بولی تو اس نے کیا آگے سے کہا . میں نے کہا کیا کہنا تھا اس کو میرے اِس جواب کا ہی شاید انتظار تھا تا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ اور آگ ٹھنڈی کروا سکے . تو نبیلہ بولی ضرور اس اپنے یار عمران کے ساتھ دونوں ماں بیٹی مری جا رہی ہوں گی . میں نے کہا ہو بھی سکتا ہے . میں نے نبیلہ کو کہا اب تو تم خوش ہو وہ کچھ دن اور نہیں آئے گی . نبیلہ نے کہا لیکن بھائی آپ کو بھی تو برداشت کرنا پڑ رہا ہے . میں نے کہا میری خیر ہے . جب نصیب میں لکھا ہے تو پِھر کیا کر سکتا ہوں . میں نے کہا کیا فضیلہ باجی سے زیادہ میں برداشت کر رہا ہوں. میری بات سن کر نبیلہ بولی ہاں بھائی باجی بیچاری تو کافی برداشت کر رہی ہے . پِھر میں نے نبیلہ کو کہا نبیلہ تمہیں ایک بات بتانی تھی . تو وہ بولی جی بھائی بولو کیا بولنا ہے . میں نے کہا اگر بہن خود دِل سے راضی ہو تو بھائی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اور اِس کے ساتھ ہی آگے ہو کر نبیلہ کے ہونٹ پے ایک فرینچ کس کر دی . نبیلہ شاید میرے اِس حملے کا سوچا نہیں تھا اس کا ایک دم چہرہ لال سرخ ہو گیا اور وہ آنکھیں پھاڑکر مجھے دیکھتی رہی اور پِھر منہ نیچے کر کے میرے کمرے سے چلی گئی. میں اس دن دوبارہ اپنے کمرے سے نہیں نکلا اور رات کو بھی سو گیا اگلے دن میں اٹھ کر باہر گیا نبیلہ فرش دھو رہی تھی مجھ پے نظر پڑی اور پِھر ایک دفعہ دیکھ کر اپنا کام کرنے لگی . میں دوبارہ پِھر اپنے کمرے میں آ گیا . تھوڑی دیر بَعْد نبیلہ ناشتہ لے کر میرے کمرے میں آئی ناشتہ رکھ کر چلی گئی وہ کوئی بھی بات نہیں کر رہی تھی . لیکن ایک بات تھی اس کے چہرے پے کسی بھی قسِم کا غصہ نہیں تھا . خیر وہ پورا دن میری اس سے کوئی بات نہیں ہوئی . رات کے کھانے پے بھی وہ بالکل خاموش تھی . میں بھی كھانا کھا کر تھوڑی دیر چھت پے گیا تھوڑا ٹہل کر واپس اپنے کمرے میں آ گیا اور آ کر ٹی وی دیکھنے لگا . ٹی وی دیکھتے دیکھتے رات کے11 بج گئے تھے میں ٹی وی پے چینل آگے پیچھے کر رہا تھا . ایک لوکل کیبل چینل پے انگلش مووی لگی تھی اس میں کافی گرم اور سیکس بھی سین تھا میں گرم ہو گیا اور اٹھ کر دروازہ بند کر دیا کنڈی نہیں لگائی کیونکہ رات کو کوئی بھی میرے کمرے میں نہیں آتا تھا میں نے دروازہ بند کر کے پِھر لائٹ بھی آف کر ڈی اور پِھر ٹی وی دیکھنے لگا اس مووی میں دوسرا سیکس سین چل رہا تھا