19-07-2023, 01:45 PM
اگلے دن ولیمہ تھا اور میں سارا دن بس یہ سوچ میں تھا کے کیا سائمہ کی پھدی سیل نہیں تھی . کیا وہ پہلے بھی کسی سے کروا چکی ہے . یا لاہور میں اس کا کوئی یار ہے جس سے وہ اپنی پھدی مروا چکی ہے . بس یہ ہی میرے دماغ میں چل رہے تھے . یوں ہی ولیمہ والا دن بھی گزر گیا اور رات ہو گئی اور اس رات بھی میں نے 2 دفعہ جم کر سائمہ کی پھدی ماری لیکن سیل پھدی والی بات میرے دماغ سے نکل ہی نہیں رہی تھی . میں حیران تھا کے سائمہ دو دن سے دِل وجان سے مجھ سے چودوا رہی ہے اور کھل کر میرا ساتھ دے رہی ہے اور ہنسی خوشی میرے ساتھ بات بھی کر رہی لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دماغ بس سائمہ کی سیل پھدی والی بات پے ہی اٹک گیا تھا اور میں نے اپنے دِل و دماغ میں ہی وہم پال لیا تھا. ہر بندے کی خواہش ہوتی ہے اس کی ہونے والی بِیوِی صاف اور پاکباز ہو اور سیل پیک ہو لیکن میرے ساتھ تو شاید دھوکہ ہی ہو گیا تھا . ولیمہ والی رات بھی گزر گئی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں کروں تو کیا کروں اور کس سے اپنے دِل کی بات کروں . اور پِھر اگلی صبح سائمہ کے گھر والے آ گئے اور سائمہ اس دن دو پہر کو اپنے ماں باپ کے ساتھ لاہور اپنے گھر چلی گئی . سائمہ کے چلے جانے کے بعد میں بس اپنے کمرے میں ہی پڑا رہا بس اپنے وہم کے بارے میں ہی سوچتا رہا میری بڑی باجی فضیلہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ گھر پے ہی آئی ہوئی تھی شادی کے بعد وہ اپنے گھر سسرال نہیں گئی تھی. میں شام تک اپنے کمرے میں ہی تھا تو 6 بجے کے وقعت ہو گا جب فضیلہ باجی میرے کمرے میں آئی اور لائٹ آن کر کے میرے بیڈ کے پاس آ گئی میں اس وقعت جاگ رہا تھا . باجی میرے پاس آ کر بولی وسیم کیا ہوا ہے یوں کمرے میں اکیلا کیوں بیٹھا ہے باہر سب ا می ابّا جی تمھارا پوچھ رہے ہیں . میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا باجی بس ویسے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور لیٹا ہوا تھا . باجی میرے بیڈ پے بیٹھ گئی اور میرے ماتھے پے ہاتھ رکھا تو مجھے بخار وغیرہ تو نہیں تھا اِس لیے باجی بولی تمہیں بخار بھی نہیں ہے پِھر طبیعت کیوں خراب ہے. میں نے کہا ویسے ہی باجی تھکن سی ہو گئی تھی تو جسم میں دردتھی . باجی نے کہا چل میرا بھائی لیٹ جا میں تیرا جسم دبا دیتی ہوں . میں نے کہا نہیں باجی میں بالکل ٹھیک ہوں بس تھوڑی سی تھکن کی وجہ سے ہے آپ پریشان نہ ہوں . میں بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور باجی سے بولا چلو باجی باہر ہی چلتے ہیں تو باجی اور میں باہر آ گئے باہر صحن میں سب بیٹھے چائے پی رہے تھے . میں بھی وہاں بیٹھ گیا اور چائے پینے لگا اور یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگا . گھر میں شاید نبیلہ ہی تھی جو میری ہر پریشانی اور بات کو سمجھ جایا کرتی تھی وہ باجی کے چلے جانے کے بَعْد بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی گھر کی سا ری ذمہ داری اس پے تھی ابّا جی اور ا می کا خیال گھر کے کام سب وہ اکیلا کرتی تھی میں وہاں کافی دیر تک بیٹھ رہا باجی اور نبیلہ اٹھ کر کچن میں رات کا كھانا بنانے چلی گئی . اور میں وہاں سے اٹھ کر سیدھا چھت پے چلا گیا اور وہاں چار پای رکھی تھی اس پے لیٹ گیا اور دوباہ پِھر سائمہ کے بارے میں سوچنے لگا. . تقریبا 1 گھنٹے بعد نبیلہ چھت پے آئی اور آ کر بولی وسیم بھائی كھانا تیار ہو گیا ہے نیچے آ جاؤ سب انتظار کر رہے ہیں . میں نے کہا ٹھیک ہے تم چلو میں آتا ہوں وہ یہ کہہ کر نیچے چلی گئی اور میں بھی وہاں سے اٹھ کر نیچے آ گیا اور سب کے ساتھ مل بیٹھ کر كھانا کھانے لگا کھانے کے دوران بھی میں بس خاموش ہی تھا. كھانا کھا کر میں تھوڑی دیر تک امی اور ابّا جی سے باتیں کرتا رہا اور پِھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا اور آ کر بیڈ پے لیٹ گیا میں سوچنے لگا مجھے سائمہ سے بات کرنی چاہیے اور اپنا شق کو ختم کرنا چاہیے . پِھر میں یہ ہی سوچتا سوچتا سو گیا اگلے دن دو پہر کا وقعت تھا جب میں اپنے کمرے میں بیٹھ ٹی وی دیکھ رہا تھا تو فضیلہ باجی میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پے بیٹھ گئی. کچھ دیر تک وہ بھی خاموشی سے ٹی وی دیکھتی رہی پِھر کچھ ہی دیر بعد بولی وسیم مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے . میں نے ٹی وی کی آواز آہستہ کر دی اور باجی کی طرف دیکھ کر بولا کہو باجی آپ کو کیا پوچھنا ہے. باجی بولی وسیم میں 3 دن سے دیکھ رہی ہوں تم بہت چُپ چُپ رہتے ہو شادی تک تم اتنا خوش تھے اور شادی کی رات تک اتنا خوش نظر آ رہے تھے اور ویسے بھی سائمہ تمہیں پسند بھی تھی پِھر آخر ایسی کیا بات ہے تم شادی کی رات سے لے کر اب تک خاموش ہو کیا مسئلہ ہے مجھے بتاؤ میں تمھاری بڑی باجی ہوں کیا کوئی سائمہ کے ساتھ مسئلہ ہوا ہے . مجھے بتاؤ شاید میں تمھاری کوئی مدد کر سکوں. میں باجی کی بات سن کر تھوڑا بوكھلا سا گیا اور پِھر یکدم اپنے آپ کو سنبھالا اور باجی کو کہا باجی کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے اور نہ ہی سائمہ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے . آپ بلا وجہ پریشان نا ہوں . باجی نے کہا پِھر اپنے کمرے میں ہی کیوں بیٹھے رہتے ہو باہر کیوں نہیں نکلتے پِھر باجی تھوڑا ہنس کر بولی لگتا میرے چھوٹے بھائی کو سائمہ کی یاد بہت آتی ہو گی. میں باجی کی بات سن کر شرما گیا اور بولا نہیں باجی ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے . باجی نے کہا اگر میرا بھائی اداس ہے تو میں سائمہ کو فون کرتی ہوں کے وہ جلدی واپس آ جائے اور آ کر میرے بھائی کا خیال رکھے . میں فوراً بولا نہیں باجی ایسا نہیں کرو میں بالکل ٹھیک ہوں کوئی اداس نہیں ہوں آپ اس کو نہ بلاؤ وہ اپنے ماں باپ کے گھر گئی ہوئی ہے اس کو رہنے دو . باجی نے کہا اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتی لیکن تم پِھر اپنی حالت ٹھیک کرو کوئی باہر نکلو کسی سے ملو بات کرو . میں نے کہا جی باجی آپ فکر نہ کریں میں جیسا آپ کہہ رہی ہیں ویسا ہی کروں گا. پِھر باجی کچھ دیر وہاں بیٹھی یہاں وہاں کی باتیں کرتی رہی اور پِھر اٹھ کر چلی گئی . میں نے سوچا مجھے گھر میں کسی کو شق میں نہیں ڈالنا چاہیے جب سائمہ آئے گی تو اس سے بات کر کے ہی کچھ آگے کا سوچوں گا2 دن کے بَعْد باجی اپنے گھر چلی گئی اور دن یوں ہی گزر رہے تھے پِھر کوئی ایک ہفتے بَعْد سائمہ واپس آ گئی اس کے ماں باپ ہی اس کو چھوڑ نے آئے تھے وہ ایک دن رہ کر واپس چلے گئے . میں ہر روز ہی سائمہ کے ساتھ بات کرنے کا سوچتا لیکن وقعت آنے پے میری ہمت جواب دے جاتی تھی . میں تقریباً ہر دوسرے دن ہی سائمہ کو چودلیتا تھا اس اس کا میرے ساتھ کھل کر ساتھ دینا اور ہنسی خوشی میرے ساتھ رہنا اور باتیں کرنا میرے شق کو ختم کر دیتا تھا لیکن اکیلے میں میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا . اور یوں ہی دن گزرتے جا رہے تھے اور آخر کام میری چھٹی ختم ہو گئی مجھے پاکستان آئے ہوئے 3 مہینے ہو گئے تھے
l
l