Thread Rating:
  • 0 Vote(s) - 0 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
Farah ki Kahani - Urdu Font
#1
یہ تقریباً دس ماہ پہلے کی بات ہے جب ایک روز دفتر میں بیٹھا ہوا تھا ریسیپشن سے فون آیا کہ شاکر صاحب سے ملنے کے لئے ڈیفنس سے ناصر صاحب آئے ہیں میں نے ریسپشنسٹ سے کہا کہ ان سے میسج لے کر کہیں کہ شاکر صاحب ابھی سیٹ پر نہیں ہیں اور فون بند کردیا تھوڑی دیر کے بعد ریسپشنسٹ کا دوبارہ فون آیا کہ وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے ان سے ہر حال میں ملنا ہے میں ان کا انتظار کرلیتا ہوں جب بھی آئیں گے میں مل کر جاﺅں گا جس پر اس کو ویٹنگ روم میں بٹھا دیا گیا ہے میں نے اسے کہا کہ تھوڑی دیر کے بعد اس کو میرے کمرے میں بھیج دیں تقریباً پانچ منٹ کے بعد میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک شخص میرے کمرے میں داخل ہوگیا مجھے یہ شخص جانا پہچانا سا لگا میں نے حافظے پر زور دیا تو مجھے یاد آگیا کہ یہ ناصر ہے جو میرا سکول میں کلاس فیلو تھا اور سب سے لائق لڑکا تھا میں نے اس کو بٹھایا اور نائب قاصد کو چائے لانے کے لئے کہا چائے پینے کے بعد ناصر نے بتایا کہ اس کو ایک مسئلہ درپیش ہے جس پر وہ بہت پریشان ہے میں نے اس سے مسئلے کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنا مسئلہ بیان کیا میں نے اس کو بتایا کہ میں اس کو حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں پھر بھی میں کسی سے اس کے بارے میں بات کروں گا اس کے علاوہ میں نے اس کو کچھ مشورے بھی دئیے اور کہا کہ شائد اس سے اس کا مسئلہ حل ہوجائے جس پر ناصر مطمیئن ہوا اور کچھ دیر بعد مجھے اپنا موبائل نمبر دے کر چلا گیا چند روز بعد ناصر کا مجھے فون آیا اور اس نے بتایا کہ میرے مشورے کی وجہ سے اس کا مسئلہ حل ہوگیا ہے چند اور باتوں کے بعد اس نے مجھے اپنے گھر کھانے کی دعوت دے ڈالی میں نے اس کو بتایا کہ میں ایک دو روز میں یوکے جارہا ہوں تو اس نے کہا کہ میرے گھر کا ایڈریس لے لو واپس آکر جس دن مرضی گھر آجانا میں اگلے روز یوکے چلا گیا اور ایک ہفتے کے بعد واپس آگیا ایک دن میں دفتر میں فارغ بیٹھا ہوا تھا اچانک مجھے ناصر کی دعوت یاد آگئی میں نے ناصر کو موبائل پر فون کیا تو وہ مسلسل بند جارہا تھا میں نے شام کو اس کے گھر جانے کا فیصلہ کرلیا شام کو سات بجے کے قریب میں اس کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچ گیا دروازے کے باہر لگی نیم پلیٹ پر اس کا نام پڑھ کر میں نے بیل دی ایک نوکر نے دروازہ کھولا اور میرا نام پوچھ کر اندر چلا گیا تھوڑی دیر بعد آیا اور مجھے اندر بلا کر ڈرائنگ روم میں بٹھا کر کولڈ ڈرنک لے آیا تھوڑی دیر کے بعد ناصر صاحب بھی آگئے اور ہم لوگ گپ شپ لگانے لگے اس نے بتایا کہ اچھا ہوا تم آج آگئے میں کل صبح کی فلائٹ سے ایک ہفتہ کے لئے اسلام آباد جارہا ہوں ابھی گپ شپ چل رہی تھی کہ ناصر صاحب کی اہلیہ بھی ڈرائنگ روم میں چلی آئی اور بیٹھ گئی میں نے اسے دیکھا تو میں حیران رہ گیا یہ فرح شاہ تھی جو میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی میں اس کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے برسوں سے بیمار ہو ناصر نے اس کے آنے پر کہا کہ آپ دونوں تو ایک دوسرے کو جانتے ہو میں تعارف کیا کراﺅں ناصر بدستور باتیں کئے جارہا تھا اور میں ماضی میں کھویا ہوا تھا
یونیورسٹی میں میرا پہلا دن تھا جب ایک لمبی سی کالے رنگ کی مرسڈیز گاڑی یونیورسٹی کے پارکنگ ایریا میں آکر کھڑی ہوگئی سب لوگ اسی کی طرف دیکھنے لگے ڈرائیور نے فوری طورپر پیچھے والا دروازہ کھولا اور ایک ایک خوبصورت لڑکی نے باہر قدم رکھا گلابی کلر کے سوٹ میں ملبوس یہ لڑکی تھی یا کو ئی پری ساڑھے پانچ فٹ قد گلابی چہرے ‘ لمبے سیاہ بالوں‘ عنابی آنکھوں اور بھرپور جسم کی مالکہ تھی گاڑی سے اتر کر چلی تو جیسے ہوا بھی تھم گئی کمر سے نیچے تک آئے ہوئے کھلے بال جب ہوا میں لہرائے تو دیکھنے والوں کی جیسے جان ہی نکل گئی ہو میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی میرا دل چاہا کہ آگے بڑھ کر اس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا دوں مگر اچانک میری نگاہ اپنی کپڑوں پر پڑی جن پر سلوٹیں پڑی ہوئی تھی صبح ہی میں نئے کاٹن کے کپڑے استری کرکے یونیورسٹی کے لئے روانہ ہوا تھا بس میں جگہ نہ ملی تو مجبوراً کھڑے ہوکر آنا پڑا بھیڑ نے کپڑوں کا ستیا ناس کردیا تھا مجھے اپنی قسمت پر رونا آگیا اس وقت مجھے خدا پر شکوہ بھی آیا کہ کاش تو نے بھی مجھے ایسے گھر میں پیدا کیا ہوتا جس میں گاڑی ہوتی اور آج میں گاڑی پر یونیورسٹی آتا بہرحال میں اس کو چلتے ہوئے دیکھتا ہی رہ گیا اور وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی اس کو کلاس میں بھی دیکھا لیکچر کے دوران پروفیسر صاحب بھی اس کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے بہرحال کئی ہفتوں تک اس کے ساتھ بات کرنے کی بھی ہمت نہ ہوسکی اس دوران ہرلڑکا اور لڑکی فرح شاہ سے دوستی کے لئے پر تول رہا تھامگر یہ عجیب لڑکی تھی کسی کے ساتھ سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی تھی کوئی بھی بات کرتا تو اس کو نظر انداز کر دیتی اس کی یونیورسٹی میں ایک ہی لڑکی کے ساتھ دوستی ہوئی تھی جو خود بھی ایک بہت بڑی گاڑی میں آتی تھی اور ڈرائیور صبح اس کے ساتھ آتا اور پارکنگ ایریا میں کھڑا اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتا رہتا تھایونیورسٹی میں ان دونوں کے قہقہوں کی مثالیں دی جاتی تھیں ایک دن میرا ایک دوست ناصر مجھ سے ملنے کے لئے آیا تو اس نے فرح شاہ کو دیکھ کر ٹھنڈی سی آہ بھری اور کہا کہ کیا لڑکی ہے میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں میں نے اس کو کہا بیٹا یہ خیال دل سے نکال دے بلا کی مغرور لڑکی ہے تو کہنے لگا میں اس کا غرور توڑ دوں گا میں اس کے ساتھ شادی ضرور کروں گا اور یونیورسٹی سے چلا گیا بہرحال پورے دو سال گزر گئے ایک دو بار سٹڈی ٹور پر اس کے ساتھ صرف سلام دعا ہوئی تھی اس کو صرف یہ معلوم تھا کہ میرا نام شاکر ہے اس کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں بن سکا اور میری اس کے ساتھ دوستی کی حسرت ہی رہ گئی وقت گزر گیا یونیورسٹی سے فارغ ہوکر میں جاب پر لگ گیا اور آج اس کو دیکھا تھا اس کی حالت پر مجھے رونا آرہا تھا ابھی خیالوں میں ہی گم تھا کہ ملازم نے آکر کہا کہ صاحب کھانا تیار ہے اور میں خیالوں کی وادی سے باہر نکل آیا کھانا کھاتے ہوئے بھی میری نگاہ بار بار اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی بہرحال کھانے سے فارغ ہوکر میں ان کو خدا حافظ کہا اور اپنے گھر چلا آیا ساری رات مجھے نیند نہیں آئی بار بارفرح شاہ کا چہرہ میرے سامنے آرہا تھا کبھی اس کا یونیورسٹی کے زمانے کو یاد کرتا اور کبھی ابھی کی تصویر ذہن میں آجاتی میں نے اپنی الماری میں پڑی البم نکالی اور اس میں سے سٹڈی ٹور کی تصویریں نکال کر دیکھنے لگا اس میں ایک تصویر میں فرح کی تصویر بھی تھی آج اور یونیورسٹی کے دور کی فرح شاہ میں کتنا فرق تھا یونیورسٹی دور میں کتنی خوبصورت تھی اور بے خوف اور بے فقر تھی اور آج نہ جانے اس کو کیا ہوگیا تھا اس کی شکل سے ایسے لگتا تھا جیسے کئی ہفتوں سے کھانا ہی نہ کھایا ہو اس کی عنابی آنکھیں آج حلقوں کی قید میں تھیں اورچہرے پر رونق نام کی کوئی چیز نہیں تھی کافی سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اس کے بارے میں فرح شاہ ہی سے پوچھا جائے صبح میں نے سٹڈی ٹور کی تصویر گاڑی میں رکھی اور دفتر چلا گیا شام کو نو بجے کے قریب دفتر سے فارغ ہو کر گاڑی کا رغ ڈیفنس میں ناصر کے گھر کی طرف موڑ لیا راستے میں مجھے چند سال پہلے کی مغرور فرح شاہ یاد آگئی اور ڈر لگنے لگا کہ اگر فرح شاہ نے ماضی کی طرح بے عزتی کردی تو کیا ہوگا بہرحال میں سوچتے سوچتے ناصر کے گھر پہنچ گیا اور بیل دے دی فرح نے ہی دروازہ کھولا اور کہنے لگی کہ ناصر تو گھر میں نہیں ہیں میں نے اس سے کہا کہ کل کچھ کاغذات آپ کے گھر میں رہ گئے ہیں وہ لینے آیا ہوں تو مجھے لے کر ڈرائنگ روم میں آگئی اور کہا کہ مجھے تو کوئی کاغذ نظر نہیں آئے آپ دیکھ لیں میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں اور چلی گئی تھوڑی دیر کے بعد چائے اور دیگر لوازمات لے کر آئی اور میرے ساتھ خود بھی بیٹھ کر چائے پینے لگی میں نے اس کو بتایا کہ کاغذات تو نہیں ملے خیر کہیں اور رہ گئے ہوں گے اس نے بتایا کہ نوکر تو چند منٹ پہلے ہی گھر کو چلا گیا ہے اس لئے خود چائے بنانا پڑی بری بنی ہوتو معافی چاہتی ہیں میں نے کہا نہیں بہت اچھی چائے ہے اچانک میں نے اپنی فائل میں سے اس کی سٹڈی ٹور والی تصویر نکال کر اس کے سامنے رکھ دی اس نے تصویر دیکھی اور ہنس دی میں نے اس سے کہا کہ ناصر کے ساتھ شادی کیسے ہوگئی اور تم نے اپنی حالت کیا بنا رکھی ہے اس نے بتایا کہ میرے والدین دس سال پہلے ہی انتقال کرگئے تھے بڑے بھائی اور بھابھیوں نے مجھے اپنے اوپر بوجھ سمجھ لیا تھا یونیورسٹی میں ناصر نے کہیں مجھے دیکھا اور اپنے والدین کو میرا رشتہ لینے کے لئے میرے گھر بھیج دیا میرے بھائیوں اور بھابیوں نے کچھ بھی نہ دیکھا اور میرا رشتہ کردیا میں نے انکار کیا تو ایک بھائی نے مجھ پر تشدد بھی کیا اور کہا کہ تم کو یہیں شادی کرنا ہوگی میں نے خاموشی سے شادی کرلی کچھ عرصہ تک ناصر نے میرا بہت خیال رکھا پھر ناصر غیر عورتوں کو گھر میں لانے لگاجس پر اس کے والدین نے اس کو علیحدہ کردیا اور ہم کرائے کے ایک گھر میں آگئے میں نے غیر عورتوں کے ساتھ تعلقات پر احتجاج کیا تو مجھ پر تشدد کرنے لگا پھر اچانک اس نے کہنا شروع کردیا کہ اپنے بھائیوں سے جائیداد میں سے حصہ لے کر آﺅ میں نے بھائیوں سے حصہ مانگا تو انہوں نے اس شرط پر مجھے اسی لاکھ روپے دیئے کہ آئندہ ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گاحالانکہ اس کا جائیداد میں حصہ اڑھائی کروڑ روپے سے بھی زیادہ بنتا تھا ناصر نے اس پیسے سے یہ گھر خریدا اور باقی کی رقم اپنی عیاشیوں میں اڑا دی اب آئے روز ناصر مجھے تشدد کا نشانہ بناتا ہے اس نے بتایا کہ گذشتہ تین سال کے دوران وہ ایک بار بھی اس کے ساتھ نہیں سویا اور نہ ہی اس نے اس کی ضروریات پوری کی ہیں اس نے بتایا کہ میں نے کئی بار اس سے طلاق لینے کا بھی سوچا مگر پھر دل میں آتی ہے میں جاﺅں گی کہاں اس لئے خاموش ہوجاتی ہوں اس نے بتایا کہ ناصر اسلام آباد نہیں گیا بلکہ اپنی ایک نئی سہیلی کو لے کر مری گیا ہوا ہے فرح باتیں کرتے ہوئے مسلسل رو رہی تھی میں نے اگے بڑھ کر ٹشو سے اس کے آنسو صاف کئے تو میرے ساتھ چمٹ گئی اور چیخ چیخ کر رونے لگی میں نے اس کو بڑی مشکل سے چپ کرایا اچانک میری نظر سامنے لگے کلاک پر پڑی تو رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے میں نے اس سے اجازت چاہی تو کہنے لگی کھانے کا وقت ہوگیا ہے کھانا کھا کر چلے جانا مجھ سے انکار نہ ہوسکا وہ مجھے بٹھا کر کچن میں چلی گئی تھوڑی دیر کے بعد کھانا کمرے میں ہی لے آئی دونوں نے مل کر کھانا کھایا اس دوران بھی دونوں باتیں کرتے رہے لیکن اب فرح کافی حد تک نارمل ہوچکی تھی شائد رونے سے اس کا من ہلکا ہوگیا تھا بات چیت کے دوران اس نے مجھ سے ہنسی مذاق بھی شروع کردیا اور کہنے لگی کہ مجھے معلوم ہے یونیورسٹی کے زمانے میں تم بھی مجھ پر بہت مرتے تھے یہ بات سنتے ہی میرے منہ سے غیر ارادی طورپر نکل گیا کہ یونیورسٹی کے دور میں ہی نہیں اب بھی تم پر بہت مرتا ہوں یہ بات سنتے ہی چپ ہوگئی اور اس کا چہرہ سرخ ہوگیا مجھے لگا کہ ابھی فرح مجھے تھپڑ مارے گی اور کہے گی کہ ابھی یہاں سے دفع ہوجاﺅ لیکن اس نے کچھ نہ کہا بلکہ خاموشی کے ساتھ کھانا کھاتی رہی کھانے کے بعد برتن بھی خاموشی سے اٹھائے اب میں نے اس سے اجازت چاہی تو کہنے لگی کہ چائے لاتی ہوں پی کر چلے جانا وہ کچن میں گئی اور تھوڑی دیر بعد چائے لے آئی اور خاموشی سے بیٹھ کر چائے پینے لگی میں تھوڑی دیر تک اس بات پر ردعمل کا انتظار کرتا رہا جب اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا تو میں نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا میں نے اس سے پوچھا کہ ناصر تو گذشتہ تین سال سے تمہارے پاس نہیں آیا تو تم کیسے اس کے ساتھ گزارہ کررہی یہ بات سن کر بھی وہ خاموش رہی میں نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا تو بھی خاموش رہی میں نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا جیسے ہی میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اس کو جیسے کرنٹ لگ گیا ہو فوراً اپنا ہاتھ چھڑوایا لیکن خاموش رہی میں مزید آگے بڑھا اور اس کی ران پر ہاتھ رکھ دیا تو اس نے میرا ہاتھ پیچھے کردیا اور کہنے لگی شاکر کیا کررہے ہو میں نے کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ اپنا ہاتھ اس کی ران پر رکھا اور اس کو پھیرنا شروع کردیا اس نے اپنے ہاتھ سے مجھے ہٹانا چاہا تو میں نے اسے پکڑ کر اس کے ہونٹوں پرکس کردی وہ ٹھوڑی سی تلملائی مگر بولی کچھ نہ میں نے دوبارہ اس کو کسنگ شروع کردی اب وہ نہ کرو شاکر نہ کرو ایسا ٹھیک نہیں ہے کہتی رہی مگر میں نے اپنا کام جاری رکھا تھوڑی دیر کے بعد اس نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کردیا میں نے اس کے پستا پکڑے تو بھی اس نے ناں ناں کی مگر میں باز نہ آیا تو اس نے خود کو تقریباً میرے حوالے کردیا میں مزید آگے بڑھا اور اس کی قمیص میں ہاتھ ڈال کر اس کے پستان پکڑ لئے اف ف ف ف ف یہ کتنے ٹائٹ تھے میں نے اس کی قمیص اور برا اتار دی اور حیران رہ گیا سرح کلر کے اڑتیس سائز کے گول اور ٹائٹ پستان تھے جن کے نپل گلابی کلر کے تھے میں نے اس کے نپلز پر زبان پھیرنا شروع کردی تو وہ آﺅٹ آف کنٹرول ہوگئی اور ام م م م م م م ‘ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ‘ س س س س س س س س س کی آوازیں نکالنے لگی میں نے اس کے بعد اس کے پیٹ پر بھی کسنگ کی تو کانپنے لگی میں نے اس کی شلوار اتاری واہ کیا بات ہے میرے منہ سے نکل گیا اس کی گول گول ٹانگیں اور ان کے درمیان میں چھوٹے سائز کی چوت ‘ اس نے اپنے بال ایک دو روز قبل ہی صاف کئے تھے میں نے اس بار پھر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھے اور ہاتھ ٹانگوں پر پھیرنا شروع کردیا اب وہ بے حال سی ہو رہی تھی اس نے میرے ہونٹوں پر کاٹنا شروع کردیا پانچ منٹ تک اس کے ہونٹوں‘ اور کانوں پر کسنگ کی تو وہ نڈھال ہوگئی اور اس نے اپنا پورا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا میں نے اس کو ڈرائنگ روم میں ہی صوفے پر لٹا یا تو کہنے لگی اندر بیڈ روم میں چلتے ہیں وہ مجھے لے کر اپنے بیڈ روم میں آگئی اور بیڈ پر ڈھیر ہوگئی میں نے اس کو دوبارہ ہونٹوں پر کسنگ شروع کی اس کے بعد کانوں پر کسنگ کی پھر پستانوں کی طرف ہوگیا ایک کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ دبانا شروع کردیا جبکہ دوسرے کے نپل کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا پھر دوسرے کا نپل منہ میں لیا اور چوسنا شروع کردیا وہ مسلسل ام م م م م م ‘ س س س س س س س س س ‘ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ‘ کی آوازیں نکال رہی تھی پانچ منٹ تک اس کے پستان چوسنے کے بعد میں نے اس کے پیٹ پر کسنگ شروع کردی جب میرے ہونٹ اس کی ناف کے قریب پہنچے تو جیسے سمٹ گئی ہو اس نے میرے سر کو پکڑ کر اوپر کرنے کی کوشش کی مگر میں لگا رہا اس کے بعد میں نے اس کی رانوں پر زبان پھیرنا شروع کی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی شاکر یہ برداشت نہیں ہوگا میں نے اس کو زبردستی لٹا دیا اور اس کی رانوں پر زبان پھیرنے لگا وہ مستی میں ادھر ادھر سر مار رہی تھی اور منہ سے ش ش ش ش ش ش شاکر نہ کرو کہہ رہی تھی پھر میں نے اس کی پنڈلیوں پر کسنگ کی تو وہ دوبارہ اٹھ گئی اور مجھے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیا میں نے اس کے ہونٹوں پرہونٹ رکھ دیئے اور ہاتھ کے ساتھ اس کے جسم کو ٹٹولنے لگا میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالی تو اس نے زور زور سے چوسنا شروع کردی پھر کچھ دیر کے بعد کہنے لگی شاکر اب بس کرو مجھ سے اب مزید برداشت نہیں ہورہا میں اس کی ٹانگوں کے درمیان میں بیٹھ گیا اور اپنا عضو اس کی چوت پر رکھ کر اس کو رگڑنے فرح مستی میں پاگل ہورہی تھی اور سیکسی آوازیں نکال رہی تھی کچھ دیر کے بعد اس کی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کردیا اور اس کی چوت چکنی ہوگئی میں نے اب اپنا عضو اس کے اندر کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی ایک زور دار جھٹکا مار دیا جس کے ساتھ ہی میرا آدھے سے زیادہ عضو اس کی چوت میں چلا گیا سال ہا سال سے اس کی چوت نہ چدنے کی وجہ سے کافی ٹائٹ ہوگئی تھی اور میرا لن اس کے اندر جانے سے اس کو کافی تکلیف بھی ہورہی تھی اس کی چوت اتنی گرم تھی کہ مجھے لگا کہ جیسے میرا لن کسی آگ کی بھٹی میں چلا گیا ہو پہلے جھٹکے کے ساتھ ہی اس کی ایک چیخ بھی بلند ہوئی اور ساتھ ہی وہ نیچے سے ہل گئی اور میرا لن اس کے اندر سے باہر آگیا جیسے ہی اس کی نظر میرے لن پر پڑی دیکھ کرکہنے لگی شاکر اتنا بڑا میں برداشت نہیں کرسکوں گی میں نے اس کو سمجھایا کہ کچھ نہیں ہوگا تو کہنے لگی شاکر ذرا آرام سے کرو مجھے تکلیف ہورہی ہے میں نے دوبارہ اپنے لن کو اس کی چوت کے منہ کے اوپر رکھا اور فوری طورپر پہلے سے بھی زور دار جھٹکا دیا اور میرا آٹھ انچ کا لن اس کی چوت کے اندر چلا گیا اس بار اس نے پہلے سے بھی زیادہ بلند چیخ ماری نیچے سے نکلنے کی کوشش کی مگر اس بار میں نے اس کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور کچھ دیر کے لئے رک گیا اور اس کے اوپر ہی لیٹ کر اس کو کسنگ کرنے لگا وہ اب نارمل ہوگئی کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے لن کو حرکت دینا شروع کی اور اندر باہر شروع کردیا اب فرح کو بھی مزہ آرہا تھا اور نیچے سے وہ اپنی گانڈ کو اٹھا اٹھا کر میرا ساتھ دے رہی تھی اس نے اپنا نیچے والا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا رکھا تھا اب میری حرکت میں آہستہ آہستہ تیزی آرہی تھی اور اس کی طرف سے جواب میں بھی تیزی آتی جارہی تھی پانچ منٹ کی مسافت پر اس کی منزل آگئی اور اس کی چوت سے تیزی کے ساتھ پانی بہنے لگا مگر ابھی میری منزل بہت دور تھی تاہم ابھی میں نے اس جگہ رک کر آرام کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ دیر کے لئے اس کے اوپر لیٹ گیا اب فرح بری طرح مجھے چومنے لگی میں بھی اس کا اسی طریقے کے ساتھ جواب دے رہا تھا کچھ دیر کے بعد وہ دوبارہ تیار ہوگئی اور میں نے دوبارہ سفر کا آغاز کردیا اب میرے جھٹکوں میں بہت زیادہ تیزی آگئی تھی اور وہ بھی اسی سپیڈ کے ساتھ میرا ساتھ دے رہی تھی مزید کچھ دیر کے بعد وہ دوبارہ فارغ ہوگئی مگر مجھے کہنے لگی کہ تم جاری رہو میں نے مزید پانچ منٹ لئے اور فارغ ہونے کے قریب آگیا اس کو بتایا تو کہنے لگی کہ اندر نہ چھوٹنا باہر نکل آﺅ میں نے اپنا لن باہر نکال لیا اور فارغ ہوکر اس کے ساتھ پہلو میں لیٹ گیا وہ میرے ڈھیلے پڑے لن پر اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی اس دوران باتیں شروع ہوئیں اس نے بتایا کہ ناصر کا لن زیادہ سے زیادہ پانچ انچ کا ہے اور وہ بھی کافی باریک ہے میں آج تک سمجھتی رہی کہ تمام مردوں کے لن اتنے ہی ہوتے ہیں اس کے ساتھ کرنے میں بھی بہت مزہ لیتی رہی ہوں مگر تین سال سے اس کے ساتھ بھی سیکس نہیں کیا جس کے باعث میں سیکس کا ذائقہ ہی بھولتی جارہی تھی آج تمہارا لن دیکھا ہے جو اتنا بڑا ہے مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ حقیقتاً انسان کا ہی لن ہے یہ موٹا بھی بہت ہے میں نے اس کو کہا کہ فلموں میں تو اس سے بھی بڑے بڑے لن ہوتے ہیں تم نے کبھی فلم نہیں دیکھی تو کہنے لگی نہیں کبھی دل ہی نہیں کیا اس رات ہم نے مزید ایک بار سیکس کیا اور پھر رات کو ساڑھے چار بجے کے قریب میں اس کے گھر سے نکلا اور اپنے گھر جاکر سو گیا اگلے دن صبح دس بجے کے قریب اس نے مجھے فون کیا اور پھر ملنے کا کہنے لگی میں شام کو پھر اس کے گھر گیا لیکن اس رات کھانے کے بعد فوری طورپر اپنے گھر چلا آیا کیونکہ اس دن میرے دفتر کے بہت سارے کام باقی پڑے تھے جن کو میں نے اسی دن کرنا تھا اس شام میں نے اس سے کہا کہ وہ ناصر سے طلاق کیوں نہیں لے لیتی تو اس نے کہا کہ ناصرسے طلاق کے بعد کیا تم مجھ سے شادی کرو گے تو میں چپ ہوگیا اس نے دوبارہ پوچھا تو میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تم میرے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتی بہرحال اگر ناصر کا رویہ تمہارے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا تم بیان کررہی ہو تو اس کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ تم علیحدہ رہنا بہتر ہے ہاں اس صورت میں میں تمہارا بھرپور ساتھ دوں گا اور بطورایک دوست کے ہمیشہ مجھے تم ہر مشکل گھڑی میں اپنے پاس ہی پاﺅ گی اس کے بعد ناصر کی غیر موجودگی میں میں نے ایک بار پھر اس کے گھر گیا تو اس بارمیری بجائے فرح نے مجھ سے سیکس کیا اس طرح لگتا تھا کہ جیسے بھوکی بلی ہو حقیقتاً بھی وہ تین سال سے بھوکی تھی ایک ہفتہ کے بعد ناصر گھر واپس آیا تو فرح نے اس سے طلاق کا مطالبہ کردیا یہ بات مجھے ناصر سے ہی معلوم ہوئی اس نے مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے اس کو کہا کہ اگر فرح اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اس کو طلاق دینے میں کوئی دیر نہیں کرنی چاہیے مگر ناصر نے بتایا کہ جس گھر میں وہ رہ رہے ہیں وہ فرح کے نام پر ہے اگر اس کو طلاق دے دی تو میں کہاں جاﺅں گا میں نے پھر فرح کی طرف داری کی بہرحال چند روز بعد ناصر نے فرح کو طلاق دے دی جس کے بعد میں نے فرح کو دوسری شادی کرنے کو کہا مگر وہ ابھی تک تیار نہیں ہوئی ابھی بھی ہفتے دس دن کے بعد اس کے ساتھ محفل کرنے کا موقع مل جاتا ہے اب پھر فرح کے چہرے کی رونقیں بحال ہورہی ہیں مگر وہ بات نہیں ہے جو یونیورسٹی کے زمانے میں ہوا کرتی تھی
یہ تھی میری اور فرح شاہ کی کہانی امید ہے کہ پڑھنے والوں کو یہ سٹوری پسند آئے گی یاد رہے کہ اس سٹوری میں بھی میرے سمیت تمام لوگوں کے نام فرضی ہیں لیکن ناموں کے علاوہ تمام کہانی حرف بہ حرف سچی ہے فرضی نام دینے پر میں دوستوں سے معافی چاہتا ہوں مگر یہ کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ اس کہانی سے وابستہ تمام لوگ معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیں اگر ان کی شناخت ظاہر ہوجائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا
Like Reply
Do not mention / post any under age /rape content. If found Please use REPORT button.


Messages In This Thread
Farah ki Kahani - Urdu Font - by hirarandi - 29-05-2020, 07:24 PM



Users browsing this thread: 1 Guest(s)