23-05-2020, 04:06 AM
خوف اور بےعزتی کے ڈر سے میرا لن بھی ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ میں نے اپنی آواز کو ایسے بنایا جیسے میں سو رھا تھا جو، دروازہ کھٹکنے کی وجی سے اٹھا ھوں اور آرام سے پوچھا کون۔ تب باھر سے ایک ھلکی سی نسوانی آواز آئی اور میرے بجائے یاسمین کو مخاطب کر کے بولی باجی ابا بلاندا پیا ای۔ گھر آ۔ یہ آواز سن کر یاسمین کی جیسے جان میں جان آگئی ھو اس نے زور سے سانس لی اور مجھے ریلکس ھونے کا اشارہ کیا اور بولی رجو توں گھر جا میں 5 منٹ وچ آندی آں۔ مطلب رجو تم گھر جاو میں پامچ منٹ میں آتی ھوں۔ھالا جلدی آ ابا رولا پایا ھویا ای۔ مطلب۔ اچھا جلدی آ ابے نے شور مچایا ھوا ھے پھر مجھے کسی کے دروازے سے دور جانے کی آواز آئی ۔ یاسمین نے جلدی سے کپڑے پہننے شروع کر دئیے تو میں نے اسے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا یار اسے ایسے تو نا چھوڑ کر جاو۔ وہ بولی نھی یار پھر سہی ابھی اسے ھاتھ سے گزارہ کر لو۔ وہ کپڑے پہن چکی تو میں نے بھی شلوار اوپر کر لی اور اس سے پوچھا رجو گھر جا کر ابے کو کچھ بتاتو نا دے گی۔ وہ ھنس کر بولی ابے کو، اتنا ھوش نھی ھوتا اور رجو کو میں بتا کر آئی تھی تاکہ وہ ابے کا خیال رکھے۔ ابھی جا کر رجو کو 100 روپیہ دینا ھے وہ میری رازدار ھے بس تم کہیں کلثوم کو نا بتا دینا ورنہ وہ ھم دونوں کی جان لے لے گی۔ میں نے کہا میرا کلثوم سے کیا تعلق اورمیں کیوں اسے بتاوں گا۔ تو وہ بولی میں نے دن کو تم دونوں کو اشارے کرتے دیکھ لیا تھا اور ویسے بھی وہ تم سے ضرور چدوائے گی کیونکہ اس کی پھدی میں تندور لگا ھوا ھے جس کی آگ بجھتی ھی نھی۔ میں ھنس کر بولا تو تم کیا چاھتی ھو میں اس کی آگ بجھاوں یا رھنے دوں۔ وہ بولی مجھے کیا تم بجھاو یا نا بجھاو بس میرے بارے میں اسے پتہ نہ چلے۔ اتنا کہ کر اس نے دروازہ تھوڑا سا کھولا اور باھر جھانکا۔ پھر بڑی تیزی سے باھر نکل گئی اور میں اپنا لن ھاتھ میں پکڑے کھڑا رہ گیا۔ مجھے رجو پر غصہ آ رھا تھا جس نے آخری لمحات میں ٹانگ اڑا کر میرا سارا مزا خراب کر دیا تھا۔ کلثوم نے بتایا تھا تھا کہ رجو سترہ سال کی انکی سب سے چھوٹی بہن ھے۔ اور اب آواز سے بھی وہ اتنے کی ھی لگ رھی تھی لیکن میں نے اسے دیکھا نھی تھا اور اس وقت میرا، دل کر رھا تھا کہ کلثوم اور یاسمین سے پہلے رجو کو چودوں لیکن فلحال ایسا ھو نھی سکتا تھا۔ میں کمرے سے نکل کر باتھ روم میں آگیا، اور ھاتھوں سے لن کو ٹھنڈا کرنے لگا۔ دو دوستوں کو یہ بتاتا چلوں کہ یاسمین اور کلثوم سے میری بات پنجابی میں ھی ھوتی تھی آپ لوگوں کی آسانی کے لیے اسے اُردو میں لکھ رھا ھوں۔ باتھروم سے فری ھو کر میں بیٹھک میں آ کر گھڑی پر ٹائم دیکھا تو شام کے پانچ بج رھے تھے مجھے بھابی کو بھی لینے جانا تھا اور امی کو بھی سسٹر کے گھر سے لانا تھا۔ اس لیے میں گھر کو لاک کر کے بھابی کو لینے چلا گیا۔ شام کا کھانا بھابی کے میکے سے کھایا اور واپس گھر پہنچتے ھوئے سات بج گئے۔ پھر آدھے گھنٹے میں جا کر امی کو بھی لے آیا۔ پہاڑی علاقوں میں عموماً لوگ جلدی سو جاتے ھیں اسی لیے امی اور بھابی بھی جلد ھی اپنے کمروں میں سوگئے۔ میں بیٹھک میں لیٹا ڈیک ہر ھلکی آواز میں جگجیت سنگھ کو سن رھا تھا۔ ساڑھے گیاہ بجے مجھے ایسا لگا جیسے کوئی دیوار پھلانگ کر آیا ھو۔ میں نے باھر صحن میں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نھی آیا امی اور بھابی کا دروازہ بھی بند تھا۔ واپس مڑ کر بیٹھک میں جانے لگا تو باتھروم میں چھپی کلثوم نظر آگئی وہ جلدی سے میرے ساتھ ھی بیٹھک میں آ گئی اور دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔ اور اپنے سینے پر ھاتھ رکھ کر زور زور سے سانس لینے لگی۔ میں اسے دیکھ کر مسکرا رھا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ وہ بھی میرے سینے سے لگ کر مجھے زور زور سے بھینچنے لگی۔ میں نے اس کے منی کو پکڑ کر اوپر، آٹھایا اور اس کے ھونٹوں کو چوسنے لگا۔ وہ برابر میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میرے ھاتھ اس کے مموں کو دبا رھے تھے۔ میں نے قمیض کے نیچے سے ھاتھ اندر لے جا کر اس کے مموں پر رکھ دئیے تو مجھے پتہ چلا کہ اس نے برا نھی پہنھی ھوئی۔ میں زور زور سے اس کے ممے مسل رھا تھا اور وہ مست ھوتی جا رھی تھی۔ اب میں نے ھاتھ اس کے پیٹ پر پھیرتء ھوئے اس کی شلوار میں گھسا دیا اور سیدھا اس کی پھدی ہر جا کر رگڑا اس نے نیچے انڈر وئیر بھی نھی پہنا ھوا تھا اور پھدی کے اردگرد جتنی ملائم جگہ تھی وہ بتا رھی تھی کہ ککثوم پوری تیاری کر کے اور نیچے سے صفائی کر کے آئی تھی