Thread Rating:
  • 7 Vote(s) - 1.86 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
Small but hot sex stories. ( Collected from Net )
گاؤں کی شادی میں میری شادی شدہ پھدی کی بھی چدائی ہوگئی میں رضیہ ہوں پنتیس سال عمر ہے شادی شدہ ہوں دو بچے ہیں میرے سَُسرال میں شادی تھی جس کے لئے گاؤں جانا تھا میرے شوہر نے کام کی وجہ سے مجھ سے کہا کہ تم بچوں کو لے جاؤ پانچ دن کی بات ہے بچے بھی گاؤں دیکھ لیں گے میں اپنی ساس کے ساتھ گاؤں پہنچی جہاں ایک بڑی حویلی میں ہمارا استقبال کیا گیا حویلی بہت بڑی تھی وہ لوگ گاؤں کے چوہدری ہیں بچے کُھلی جگہ دیکھ کر کھیلنے لگے ایک نوکرانی نے ہمارا سامان ایک کمرے میں رکھ دیا اور ہمیں بتایا کہ یہ آپ کو کمرہ ہے کمرہ بہت بڑا اور اچھے سلیقے سے سجایا ہوا تھا جس میں ایک بڑا بیڈ اور دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھی دوپہر کا وقت تھا اکتوبر کی گرمی تھی جو برداشت ہو رہی تھی مجھے گاؤں دیکھنا تھا میں نے نوکرانی سے کہا کہ مجھے گاؤں دیکھنا ہے تو وہ مجھے ساتھ لے کر چل نکلی کھیت کھلیان دیکھ کر میں خوش ہوئی ہم چلتے چلتے بہت دور نکل گئے پھر وہ مجھے ٹیوب ویل پر لے گئی میں نے پانی میں ہاتھ ڈالا تو کافی مزے کی ٹھنڈک محسوس ہوئی نوکرانی نے کہا باجی نہانا ہے تو بتاؤ میں نے کہا دل تو کر رہا ہے لیکن کپڑے گیلے ہوجائیں گے تو نسرین بولی باجی کوئی بات نہیں ساتھ ہی اپنا ڈیرہ ہے وہاں جاکر سُکھا لیں گے ہم دونوں نہانے لگی تو وہاں ایک عورت آئی اور نسرین سے ٹھیٹ پنجابی زبان میں کہنے لگی کہ لگتا ہے مہمان شہر سے آئے ہیں تو نسرین بولی ہاں شہر سے آئے ہیں تو میری طرف دیکھ کر مسکرا کر بولی نسرین دھیان کریں چھوٹا چوہدری رس گلوں کا بہت شوقین ہے کہیں چکھ ہی نا لے تو نسرین ہنستے ہوئے بولی جیسے کہ چوہدری نے پہلے کبھی رس گلے چھوڑے ہیں تم بھی تو اتنا ہی کہا تھا کہ وہ عورت منہ میں ڈوپٹہ ڈالے شرما کے چل پڑی میں نے اس کی بات کچھ حد تک سمجھ لی تھی لیکن تجسس تھا کہ پتہ چلے کہ رس گلے والا کیا قصہ ہے اور یہ چھوٹا چوہدری کون ہے میں اُس عورت کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی کافی اونچی لمبی اور چوڑی جٹی ٹائپ جسم تھا میں نے نسرین سے کہا کہ یہ رس گلے کا کیا چکر ہے تو وہ ہنسنے لگی میں نے کہا نسرین ہنس نہی مجھے بتا تو اُس نے کہا باجی اب چلتے ہیں ڈیرے وہاں ہم دوسرے کپڑے پہن کر اپنے یہ کپڑے دھوپ میں ڈال دیتے ہیں جلد ہی سوکھ جائیں گے میں نے کہا نہی میں کپڑے نہی اتاروں گی اسی طرح دھوپ میں سُکھا لونگی اور ہم ڈیرے پر آگئیں اور میں نے پھر نسرین سے سوال کیا کہ وہ رس گلے اور چھوٹے چوہدری کا کیا قصہ ہے مجھے بتاؤ کیا اُس عورت نے مجھے رس گلہ کہا ہے تو نسرین نے کہا باجی تم سے کچھ نہیں چھپاؤں گی رس گلہ اُس نے تمہارے جسم کو دیکھ کر کہا ہے اور چھوٹے چوہدری کو تمہارے جیسے رس گلے جسم بہت پسند ہیں اور جس عورت سے ہم ملے تھے وہ چھوٹے چوہدری کا رس گلہ ہے اسی ڈیرے پر چھوٹے چوہدری نے اس رس گلے کی چیخیں نکلوائی تھی میں یہ سب سُن کر حیران تھی میں نے پوچھا یہ چھوٹا چوہدری کون ہے تو وہ کہنے لگی چوہدری ارسلان اپنے چوہدری کا بڑا بیٹا آج شہر گیا ہوا ہے کل آئے گا تو میں نے کہا کہ نسرین پر اُس نے مجھے کیوں رس گلہ کہا تو نسرین بولی باجی آپ بھی تو اچھی خاصی صحت مند ہو چھاتیاں بھی اور پیچھا بھی کافی اچھا ہے میں نے کہا وہ بات تو ٹھیک ہے لیکن میں چوہدری ارسلان کا رس گلہ نہی ہوں تو نسرین نے کہا باجی بس اتنا جان لو اگر چوہدری ارسلان کو تم پسند آگئی تو پھر وہ تیرا رس گلہ کھائے بغیر اس گاؤں سے تجھے جانے نہی دے گا میں خاموش ہو گئی اور چوہدری ارسلان کے بارے میں سوچنے لگی کہ وہ کیسا دکھتا ہے اور کیوں کر کوئی عورت اُس کا رس گلہ بننے کو تیار ہوسکتی ہے میں اسی سوچ میں تھی کہ نسریرن نے کہا باجی وہ عورت سلیم کمہار کی بیوی نذیراں ہے ایک بار اس کو چھوٹے چوہدری نے کھیتوں میں دیکھا تھا بس ایک ھفتے کے اندر یہ سامنے والے کمرے میں لاکر پلنگ پر اس کا رس گلہ کھایا تھا چوہدری نے جب چوہدری کا کیلا اندر گیا تھا تو یقین کرنا اس کی چیخیں میں نے سامنے کمرے میں سَنی تھی اور چودنے کے بعد چھوٹے چوہدری نے مجھے دو ہزار روپے دئے تھے کیونکہ میں ہی اس کو چھوٹے چوہدری کے لئے گھیر کر لائی تھی چوہدری نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی پھدی بہت ٹائٹ ہے اور اب تو کئی بار خود ہی چوہدری ارسلان کے پاس آجاتی ہے جب دل کرتا ہے میں یہ سُن کر تجسس میں پڑ گئی کہ آخر یہ چھوٹا چوہدری ہے کیا چیز میں نے نسرین سے پوچھا نسرین کیا تم کو بھی چھوٹے چوہدری نے کبھی پکڑا ہے تو نسرین مسکرا کر بولی باجی نوکرانیوں میں صرف مجھے ہی کیا ہے وہ بھی میری شادی کے بعد حالانکہ میں اسی حویلی میں پلی بڑھی ہوں لیکن چھوٹے چوہدری نے مجھے کنواری ہوتے ہوئے ہاتھ تک نہی لگایا لیکن شادی کے بعد حویلی میں ہی مجھے چودا تھا میں نے پوچھا نسرین کیا وہ بہت زیادہ سیکس پسند کرتا ہے تو کہنے لگی باجی بس اُس کے دل پر چڑھنے کی دیر ہے پھر وہ نہی چھوڑتا یہ بڑا لن ہے ہاتھ سے اشارے کرکے بتایا یہ موٹا ہے میں ہاتھ کے اشارے سے ہی اندازہ لگا گئی کہ قریب کوئی نو دس انچ لمبا ہے اور کافی موٹا بھی ہے نسرین نے کہا باجی بس جب وہ سوار ہوتا ہے تو پھر کافی دیر بعد ہی فارغ ہوتا ہے میں نے بات کو پلٹتے ہوئے کہا چل دفعہ کرو مجھے ان باتوں سے کیا لینا حالانکہ اندر سے تجسس یہی تھا کہ ایک بار وہ لن اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں میں بھی کوئی اتنی سادہ نہی ہوں شوہر کے علاوہ مجھے ایک سہیلی کے عاشق نے چار پانچ بار چودا ہے میں جانتی ہوں کہ غیر مرد کیسے کرتے ہیں لیکن جس سے میں کرتی ہوں اَس کا سایز میرے شوہر سے بڑا نہی ہے لیکن ٹائمنگ اچھی ہے جس سے میں خوش ہوتی ہوں اب جو سائز نسرین بتا رہی تھی اَسے دیکھنے کا دل کر رہا تھا میں نے خیالات کو جھٹکا اور نسرین سے کہا چلیں اب ہم حویلی چلتے ہیں تو نسرین میرے ساتھ چلنے لگی راستے میں میں نے نسرین سے سیکس کے بارے میں کوئی بات نہی کی اور حویلی پہنچ کر میں نے سب سے پہلے اپنے کپڑے پہنے دوپہر کا وقت تھا کھانا کھایا اور اسی طرح بچوں کے ساتھ وقت گزارا شام ہوتے ہی گاؤں میں خاموشی چھا گئی جیسے ہر طرف سکون ہو گیا ہو رات آٹھ بجے ہم سب نے کھانا کھایا جس لڑکی کی شادی تھی اُسے چھیڑتے رہے ڈھولکی پر گانے اور ٹپے گائے جا رہے تھے خوب رونق لگی اور رات دس بجے سب سونے کو چلے گئے میں جب چارپائی پر لیٹی تو میرا چھوٹا بیٹا میرے ساتھ سوگیا مجھے نیند نہیں آ رہی تھی بس نسرین کی بتائی باتیں ذہن میں گھوم رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اگر چھوٹے چوہدری کا دل مجھ پر آگیا تو مجھے کس طرح کہاں لے جاکر چودے گا کیا مجھے خود کو اُس کے لئے تیار رکھنا چاہئے یا مجھے اس سے بچنا چاہئے کافی دیر سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اگر چھوٹا چوہدری اچھی شخصیت کا مالک ہوا اور مجھے چودنا چاہا تو پھر میں ضرور چدائ کرواؤں گی اور اگر کوئی وحشت ناک بندہ ہوا تو پھر ہرگز نہیں کب نیند آگئی کچھ اندازہ نہیں ہوا صبح ہوئی سب کے لیے ناشتہ بنا ہمیں بھی دیسی انڈوں اور دیسی گھی کے پراٹھوں کا ناشتہ ملا ناشتہ کیا اور بچوں کے ساتھ میں اور نسرین گاؤں کی طرف چل نکلی کافی دور جاکر نسرین نے کہا باجی رضیہ ایک بات پوچھوں آپ کل سے خاموش ہو گئی ہیں جب سے آپ کو چوہدری ارسلان اور رس گلوں کے بارے میں بتایا ہے باجی آپ پریشان نہ ہوں اگر آپ نہی چاہیں گی تو چوہدری ارسلان آپ کو نظر اُٹھا کر نہی دیکھ سکتا میں مسگرا دی اور خاموش رہی نسرین بہت ہی معاملہ فہم عورت تھی جانتی تھی کہ میرے من میں کیا چل رہا ہے میرا ہاتھ پکڑ کر بولی باجی اگر تمہارے دل میں کوئی خواہش ہے تو مجھے اپنی سہیلی سمجھ کر بتا دو یقین کرو کسی تیسرے کو خبر نہی ہوگی میں نے نسرين پر اعتماد کرنے کا فیصلہ کرلیا اور تھوڑی دیر چلنے کے بعد بولی نسرین اصل میں کل سے میرے ذہن میں چوہدری ارسلان کے لن کا سائز گھوم رہا ہے جو تم نے مجھے بتایا تھا اور پھر تمہاری اور نذیراں کی کی ہوئی باتیں ہیں جو گھوم رہی ہیں اگر واقعی چوہدری ارسلان کا مجھ پر دل آگیا تو کیا وہ واقعی میری پھدی مارے گا اور اگر میں اس کا صرف لن دیکھنا چاہوں تو کیا ممکن ہے صرف لن دیکھوں اور وہ مجھے کچھ نا کرے تو نسرین نے کہا باجی تیری مرضی کے بغیر چوہدری ارسلان تیری پھدی نہی مارے گا یہ گارنٹی میں دیتی ہوں اور اگر تم صرف لن دیکھنا چاہتی ہو تو وہ بھی میں بندوبست کر دوں گی لیکن دیکھ کر اگر تمہارا دل کر آیا تو پھر لن کو پکڑ کر دو بار چوم لینا پھر اگلا کام چوہدری ارسلان کا ہوگا آج وہ دوپہر کو شہر سے آجائے گا تم خود اُس کو دیکھ لینا اور مجھے بتا دینا میرا اعتبار کرنا میں ہر وقت تمہارے ساتھ رہوں گی میں نے نسرین کا ہاتھ دباتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ گاؤں کی سیر کرنے لگی دوپہر کے کھانے کے وقت ایک جیپ حویلی کے اندر آکر رُکی جس میں سے ایک اٹھائیس سالہ گھبرو جوان نکلا چہرے پر تنی ہوئی مونچھیں گندمی سفید رنگ سفید شلوار قمیض کوئی فلمی ہیرو ہی لگ رہا تھا نسرین دوڑتی ہوئی آئی باجی چھوٹا چوہدری آگیا ہے میں تو جیسے آدھی جنگ دیکھتے ہی ہار گئی میری خواہشات نے جیسے انسانی روپ دھار لیا تھا جیسی شخصیت میں سوچتی تھی بالکل ویسی ہی میرے سامنے تھی میں نے ارادہ کرلیا رضیہ گاؤں سے ارسلان سے چدے بغیر نہی جائے گی میں نے ارادہ بنا لیا رس گلہ خود چوہدری ارسلان کے منہ میں جائے گا اور پھر میں آگے بڑھی اور سلام کیا ارسلان شکار دیکھتے ہی ٹھٹک گیا جیسے ماہر شکاری شکار دیکھ کر چونک جاتا ہے مجھ سے پوچھا آپ کون میں نے تعارف کرایا کہ تمہارے رشتے دار کی بیوی رضیہ آنکھوں سے آنکھیں ملیں اور خواہشات کا تبادلہ ہوا میں مُڑی اور اپنی بڑی گانڈ گھماتے ہوئے مٹک مٹک کے اُس کے سامنے چلتی ہوئی کمرے میں آگئی ایک بار مڑ کر دیکھا وہ مجھے دیکھ رہا تھا اپنے آدھ کھڑے لن کو شلوار کے اندر سے ہی ہاتھ سے سیٹ کرتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا اور پیچھے پیچھے اُس کی بیوی تھوڑی دیر بعد نسرین آئی اور کہنے لگی باجی چوہدری ارسلان کی تو گھنٹیاں بج گئی ہیں مجھے ابھی بلا کر تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا میں نے بھی شرارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رس گلہ ہے تو مشکل لیکن کھانا ہے تو پانچ ہزار لگے گے میں نے کہا کوئی بات نہیں نسرین پانچ اس سے لینا دو میں دو گی لیکن میری ملاقات اس کے ساتھ آج ہی ڈیرے پر کروا دے میں قسم سے اس جیسے ہی گھبرو کی تلاش میں تھی میں تیار ہوتی ہوں تم اس کو یہی ظاہر کروانا کہ تم مجھے گھیر کر ڈیرے پر لا رہی ہو اور وہاں تم اس کو کہنا کہ کمرے میں چھپ جائے اور میں رضیہ باجی کو کمرے میں بھیج دوں گی باقی چوہدری تم خود سنبھال لینا نسرین نے پلان کے مطابق ارسلان کو کہا کہ وہ ڈیرے پر جاکر کمرے میں چھپ جائے میں رس گلہ لے کر آتی ہوں کھانا تم نے خود ہے ارسلان نے جیپ دوڑائی اور ڈیرے پہنچ گیا میں بھی نسرین کے ساتھ پیدل چل پڑی راستے میں نسرین نے کہا باجی خوب مزہ کرنا میں نے کہا نسرین مجھے بتا لن کتنا بڑا ہے تو نسرین نے کہا باجی اب تو خود پکڑ کر دیکھ لینا بس اتنا ہے کہ تمہاری ناف کو جاکر لگے گا ہم دونوں ڈیرے پہنچ گئی اور نسرین نے مجھے کمرے میں بٹھا کر اونچی آواز میں کہا باجی آپ ادھر بیٹھو میں تھوڑی دیر بعد آتی ہوں اور نسرین چلی گئی میں بیڈ پر بیٹھ گئی ارسلان پردے کے پیچھے سے نکلا اور جھٹ سے دروازہ بند کر دیا میں نے چونک جانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ارسلان یہ کیا حرکت ہے ارسلان نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا اپنے دل سے پوچھو کہ کیا وہ یہ حرکت نہی چاہتا میں نے کہا ارسلان پلیز چھوڑو مجھے نسرین کسی بھی وقت آجاے گی تو ارسلان نے کہا کہ وہ ابھی نہی آئے گی اور ارسلان نے میرے ہونٹوں پر ہونٹ جما کر چومنا شروع کر دیا میں پہلے ہی بیتاب تھی فوری طور پر رد عمل دینے لگی تھوڑی دیر بعد کسنگ توڑ کر ارسلان نے کہا بتاؤ کہ تم یہ نہی چاہتی ہو میں نے اداکاری کرتے ہوئے کہا دھوکے سے مجبوری سے فائدہ اٹھا رہے ہو میں ایسا نہیں چاہتی ہوں ارسلان نے اپنی قمیض اتار دی نیچے سلیؤ لیس بنیان تھی گندمی جسم بھرپور بالوں والا مردانہ سینہ میں دیکھ کر ہی پگھلنے لگی اور پھر اس نے اپنی شلوار اتار کر اپنا کھڑا ہوا لن ہاتھ سے گھماتے ہوئے مجھے کہا کہو کہ تم اس کو دیکھنا نہی چاہتی تھی کہو کہ تم نے جب مجھے پہلی بار دیکھا تو تمہاری آنکھوں میں اس کی چاہت نہی تھی میں لن دیکھ کر دنگ رہ گئی جیسا نسرین نے بتایا تھا اُس سے کافی بڑا لن تھا شاید ہم شہر والیوں اور گاؤں والیوں کے دیکھنے میں فرق ہو یا شہر والو کے لن اور گاؤں والوں کے لن میں فرق ہے دیسی گھی خالص خوراک مکھن دیسی انڈے مرغیاں تازہ خالص دودھ ان سب چیزوں کے اثرات نمایاں نظر آ رہے تھے یہی کوئی نو دس انچ لمبا اور چار انگلی چوڑا لن میرے سامنے سلامی مار رہا تھا میں جذبات میں بہہ گئی اور لن ہاتھ میں پکڑ لیا پکڑتے ہی اندازہ ہو گیا کہ ایسے ہی نہی پھدیوں کی چیخیں نکلواتا ایک دو ہاتھ چلائے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چومنا شروع کر دیا ارسلان نے میرے بال پکڑے اور کہنے لگا چل چوسا لگا اور میں چوسا لگانے کی کوشش کرنے لگی لیکن منہ نہی کھل رہا تھا میں نے ٹوپا چوسا اور لن پر ہاتھ اوپر نیچے چلایا میری پھدی نیچے سے گھنٹیاں بجا رہی تھی کہ رضیہ اس کو منہ میں نہی میرے منہ میں ڈال ارسلان نے مجھے کھڑا کیا اور کپڑے اتارنے لگا پوری ننگی کرکے میری گانڈ کی طرف آیا اور مجھے کہا ٹھمکا کے چل کر بیڈ پر جا میں نے ویسے ہی کیا ارسلان بولا مزہ آگیا تو پھر اس نے میرے قریب آکر مجھے بیڈ پر لٹا لیا اور میرے اوپر چڑھ کر مجھے چومنے چاٹنے لگا میں بھی گرم ہوچکی تھی اَس نے میری ٹانگیں آٹھا کے کندھے پر رکھ لی اور لن پکڑ کر پھدی پر اوپر نیچے اوپر نیچے پھیرنے لگا مجھے مزہ آ رہا تھا پھر مجھے کہنے لگا کتنی عمر ہے میں نے کہا بس اتنا ہی کافی ہے کہ تم سے بڑی ہوں اب دیر نا کر پلیز مجھے چود دے وہ کھل کر ہنسا اور کہنے لگا لگتا ہے تیرے بندے کے پاس ایسا ہتھیار نہی ہے میں نے بھی زبان نکالتے ہوئے کہا ارسلان اس کا تیرے لن لن سے کوئی مقابلہ نہی ہے یہ بہت بڑا ہے پلیز اب ڈال دے پھر اس نے لن اوپر نیچے پھیرتے ہوئے کہا ایک بات سچی سچی بتانا شوہر کے علاوہ کوئی اور بھی ہے نا میں اس وقت فل گرم ہو گئی تھی اور پھدی لن مانگ رہی تھی میں نے کہا ارسلان سب کچھ بتاؤں گی ایک بار اس کو پورا اندر ڈال دے ارسلان نے لن کا ٹوپا اندر کیا میری جیسے پھدی کا دروازہ کھل گیا میں نے ہلکی سی چیخ ماری ارسلان نے لن سیٹ کرکے ایک ہی وار میں لن پھدی کے اندر پورا ٹھوک دیا میری چیخیں نکل گئی اوپر سے کندھے پر ٹانگیں رکھ کر مجھے قابو کیا ہوا تھا اور ساتھ میں میری زندگی کا سب سے بڑا لن ایک جھٹکے میں پھدی کے دونوں دروازے کھول کر اندر اُس جگہ تک پہنچا دیا تھا جہاں آج تک کوئی چیز نہیں گئی میں نے اس سے پہلے دو لن لئے تھے اور دو تین بار کھیرا بھی لیا ہے لیکن جہاں تک ارسلان کا لن پہنچا ہوا تھا وہاں تک کچھ بھی نہیں پہنچا تھا ارسلان نے منہ میں منہ ڈال کر کسنگ شروع کر دی اور پھر آہستہ آہستہ چودنے لگا میں چیخ رہی تھی لیکن کسنگ کی وجہ سے آواز دب گئی تھی تھوڑی دیر بعد ارسلان نے لن نکال لیا اور میری آنکھوں کے سامنے لا کر اس پر لگے میری چوت سے نکلے سفید مادے کو مجھے دکھاتے ہوئے کہا یہ تم میرے لن پر فارغ ہوئی ہو نا میں نے کہا ہاں ارسلو میں تیرے لن سے فارغ ہوئی ہوں تو اس نے کہا کہ اب سچ سچ بتا شوہر کے بعد کس کس نے چودی ہے میں نے کہا ارسلو جو بھی پر تیرے مقابلے میں صفر ہے اس نے کہا کہ اب یہ لن تب ہی اندر جائے گا جب تم سچ سچ بتاؤ گی میں نے کہا کہ میری سہیلی کے عاشق نے مجھے چودا ہے اور کبھی کبھار کھیرا بھی لیا ہے اب پلیز مجھے چودو مجھے ایسا چودو کہ میں تمہاری ہوجاؤں ارسلان نے پھر لن اندر کیا میری چیخیں نکلوا دی اور پھر ایسا چودنا شروع کیا کہ مجھے گاؤں اور شہر کے مردوں کی طاقت کا فرق سمجھ میں آگیا میں تین بار فارغ ہو چکی تھی اور ارسلو ابھی تک تباہی پھیر رہا تھا میری پھدی جواب دے گئی تھی لیکن وہ فارغ ہونے کا نام نہی لے رہا تھا پھر اس نے مجھے گھوڑی بنا کر گانڈ پر تین چار تھپڑ مارے اور لن پھدی پر سیٹ کر کے ایک بار پھر میری چیخیں نکلوا دی ایسا لگا کسی گھوڑے نے لن ڈال دیا ہے میں درد کے مارے پیچھے ہاتھ لے جا کر اس کو پورا لن اندر کرنے سے روکنے لگی لیکن وہ بھپرا ہوا شیر کہاں رکنے والا تھا پورا لن اندر باہر اندر باہر کرنے لگا اور پھر سپیڈ پکڑی تو میں رونے لگی اس پوزیشن میں لن پھدی پھاڑ رہا تھا بہت موٹا لگ رہا تھا میں روتے ہوئے کہنے لگی ارسلو میں مر جاؤں گی یہ تیرا لن تلوار کی طرح میری پھدی چیر رہا ہے لیکن ارسلو اپنی دھن میں میری پھدی پھاڑ رہا تھا تھوڑی دیر بعد پھدی ایک بار پھر فارغ ہو گئ اور کافی گیلی ہونے سے لن آسانی سے لینے لگی میں درد اور مزے کے ایک نئے جہاں میں تھی سسکاریاں بھرتی اپنے سے چھوٹے ایک ایسے مرد سے چد رہی تھی جس کا لن بہت زبردست ہے کافی دیر چدائ کے بعد ارسلان نے لن نکالا اور منی میری گانڈ پر فوارے کی طرح چھوڑی میں نڈھال ہوکر اُلٹی لیٹ گئی اور ارسلان میرے اوپر لیٹ گیا کافی دیر دونوں اسی طرح رہے پھر وہ اُٹھا اور اٹیچ باتھ روم میں چلا گیا واپس آیا تو ننگا تھا لیکن لن ابھی بھی آدھ کھڑا تھا میں نے لن دیکھا تو اس وقت بالکل میرے شوہر کے لن کے سایز جیسا لگ رہا تھا میں نے کروٹ بدلی اور سیدھی ہوئی ارسلان نے اوپر آکر میرے ممے چوسنے شروع کر دئے میں مدہوش ہو گئی پھر کافی بعد اُٹھا اور مجھے کہا جاؤ واش روم سے ہو آؤ میں جب فلیش پر بیٹھی تو پیشاب کرتے ہوئے ایسا لگا کہ پیشاب پھدی کے سوراخ سے نکل رہا ہے بہت جلن ہو رہی تھی پانی سے صاف کیا اور واپس آئی تو ارسلان مجھے چومتے ہوئے واش روم چلا گیا میں نے کپڑے پہن لئے چوہدری ارسلان آیا اور اس نے بھی کپڑے پہن کر مجھے بانہوں میں لے لیا اور خوب کسنگ کرتے ہوئے کہنے لگا رضیہ بہت مزہ آیا ہے مجھے تمہاری پھدی بہت زبردست ہے اور پھر وہ کمرے سے نکل گیا اور نسرین کمرے میں داخل ہوئی اور آتے ہی مجھے جھپی ڈال لی اور میرا ماتھا چومتے ہوئے کہنے لگی باجی میں نے کھڑکی کی ایک نکر سے ساری چدائی دیکھی ہے تم نے بہت زبردست مزہ لیا ہے میں نے نسرین کو بانہوں میں دباتے ہوئے کہا نسرین شکریہ تمہارا تم نے میری ارسلان سے ملاقات کروائی یقین کر ایسی چدائی آج تک نہی ہوئی نسرین بولی باجی کہو تو آج رات حویلی میں تم دونوں کی پھر ملاقات کروا دوں میں نے کہا کہ ارسلان کی بیوی کو شک ہوجائے گا کہ اس کا شوہر رات اُس کے ساتھ نہی ہے تو نسرین ہنس پڑی اور کہنے لگی باجی اُس کی آپ فکر نہ کریں پہلے بھی کئی بار اُس کو نیند کی گولی کھلا کر چوہدری ارسلان کے لئے رات رنگین کروا چکی ہوں میں نے کہا نہی یار آج رات نہی آج مہندی کی رسم ہونی ہے اور ویسے بھی میری پھدی میں بہت درد ہورہا ہے کل رات کا کروا دو حویلی جاکر میں نہائی اور کپڑے بدل کر سو گئی بچے گاؤں میں کھیل کود میں مصروف تھے اور گائے بکریوں سے دل بھلا رہے تھے اور میں ارسلان کے ساتھ دل خوش کرنے میں مصروف تھی میں کھانا کھا کر سو گئی اور پھر شام سات بجے آنکھ کھُلی جب حویلی میں ڈھولک بجنا شروع ہوئی میں بھی تیار ہوکر ڈھولک بجاتی اور گاتی عورتوں کے ساتھ شامل ہو گئی میری نظر حویلی کی پہلی منزل پر پڑی تو مجھے چوہدری ارسلان کھڑا نظر آیا اَس نے مجھے اوپر آنے کا اشارہ کیا میں نے نفی میں سر ہلا دیا پھر تھوڑی دیر بعد نسرین نے میرے کان میں آکر کہا باجی تماشہ نا بناؤ اور چلو میرے ساتھ وہ تم کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہے اُس نے شراب پی رکھی ہے وہ نا ہو کہ وہ کوئی ہنگامہ برپا کردے اور تمہیں سب کے سامنے رسوا کردے بہتری یہی ہے کہ ملاقات کرلو میں گارنٹی دیتی ہوں کہ وہ آج پھدی نہی چودے گا میں نسرین کے ساتھ چل پڑی اور سب سے نظر بچا کر میں پہلی منزل پہنچی سامنے ارسلان کھڑا تھا گبھرو جوان میں پاس گئی تو میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہنے لگا بہت خوبصورت لگ رہی ہو مجھ سے برداشت نہی ہورہا تھا میں نے کہا کہ قریب سے دیکھ لوں میں بولی جی بھر کے دیکھ لیں چوہدری صاحب اُس نے مجھے گھما کے پیچھے سے دیکھا اور پیچھے سے مجھے بانہوں میں بھر لیا اُس کا کھڑا لن میری گانڈ پر لگ رہا تھا اور اس نے میرے بال ایک طرف کرکے گردن پر کسنگ کرتے ہوئے میرے کان میں کہا کل رات کو وہ سامنے والے کمرے ہم ملینگے اور میری گردن چومتے ہوئے مجھے چھوڑ دیا میں واپس عورتوں میں چلی گئی اور رات کو دیر تک نیند نا آئی چوہدری ارسلان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا صبح دس بجے آنکھ کھلی ناشتہ کیا اور شادی کی تیاریاں شروع کردی بارات دوپہر دو بجے کی تھی بارات سے فارغ ہوئے تو رات کے آٹھ بج رہے تھے سب حویلی والوں نے کھانا کھایا اور پھر سب اکٹھے بیٹھ کر ولیمے پر جانے کا پلان بنانے لگے ارسلان مسلسل مجھے ہی دیکھ رہا تھا اور موقع ملتے ہی آنکھ مارتا یا کس پھینکتا فیصلہ ہوا کہ کل گھر سے تین بجے نکلیں گے اس لیے اب سویا جائے تو ارسلان کی ماں نے ارسلان کی بیوی کو کہا کہ تم جلدی سوجاؤ تاکہ جلدی اُٹھ سکو تم ہی سب سے آخر میں جاگتی ہو وجہ میں سمجھ گئی تھی کہ نسرین اکثر اوقات نیند کی گولی کھلا دیتی ہے سب اُٹھے اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے میں اور میری ساس بھی بچوں کو لے کر کمرے میں چلے گئے اور پھر میں بچوں کے ساتھ سو گئی رات کوئی ایک بجے کے قریب نسرین دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے ہلکا سا ہاتھ لگا کر اُٹھنے کو کہا میں کچی نیند میں تھی فوری آنکھ کھولی اور اپنا حلیہ درست کیا اور نسرین کے ساتھ چل دی نسرین نے سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر مجھے کہا کہ وہ کمرے میں انتظار کر رہا ہے تم اکیلی ہی اوپر جاؤ گی میں صبح چار بجے آجاؤ گی اچھی طرح پھدی چدوانا ویسے بھی وہ رات پوری تجھے سونے نہی دے گا میں چلتے ہوئے کمرے تک پہنچ گئی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو ارسلان بیڈ سے اُٹھا اور کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے بانہیں پھیلا کر سامنے کھڑا ہو گیا بالکل ایک دَلہے کی طرح مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے آج میری شادی ہوئی ہے اور میں دلہن بن کر اپنے شوہر کے سامنے کھڑی ہوں ارسلان بانہیں پھیلا کر کھڑا تھا میں نے شرماتے ہوئے آگے بڑھ کر جھپی ڈال لی ارسلان کے چوڑے سینے سے لگتے ہی مردانہ جسم کی خوشبو کا مزہ آگیا ارسلان نے منہ میں منہ ڈال کر کسنگ شروع کر دی اور میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتا گیا میں مدھوش ہورہی تھی ارسلان نے اپنی بنیان بھی اتار دی اب وہ صرف شلوار میں تھا اُس کی بالوں سے بھری مضبوط چوڑی مردانہ چھاتی دیکھتے ہی پھدی پگھلنا شروع ہوگئی اور میں نے جھپی ڈالتے ہوئے چھاتی چومنا شروع کر دی ارسلان نے میری قمیض کی زپ کھولی اور قمیض اتار دی اور پھر میرے بریزیر کی ہَک کھول کر میرے ممے بالکل آزاد کر دئے اور مجھے بانہوں میں بھینچ لیا ممے بالوں والی مردانہ چھاتی سے لگے تو کرنٹ دوڑ گیا اوپر سے ارسلان نے کسنگ شروع کر دی میں تو پاگل ہورہی تھی میں نے اس کا لن شلوار کے اوپر سے پکڑ لیا اور تھوڑا سا ہلانے کے بعد اس کی شلوار کا ناڑا کھول دیا اور کھڑے لن کو ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگی ارسلان نے میرا سر نیچے کی طرف دباتے ہوئے کہا چل رضیہ چوسا لگا میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر لن کو غور سے دیکھنے لگی کیا موٹا لمبا گندمی رنگ کا لن تھا ایک ایک رگ خون کی روانی سے پھولی ہوئی تھی اور لن میں خون کی گردش کی وجہ سے وہ دھڑک رہا تھا آج تک میرے شوہر کا لن کبھی ایسے فل کھڑا نہی ہوا تھا اسی لئے میں دوسرے بندے سے چدی تھی میرا شوہر زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ نکال سکتا تھا جس سے میری تسلی نہی ہوتی تھی جس کا ذکر میں نے اپنی سہیلی سے کیا تو اس نے مجھے اپنے بوائے فرینڈ سے چدوایا جس کی ٹائمنگ زبردست ہے لیکن جو چوہدری ارسلان کی ٹائمنگ ہے اُس کا کوئی مقابلہ نہی میں لن کو چومنا شروع ہوگئی اوپر نیچے دائیں بائیں اچھی طرح چومنے لگی پھر ٹوپا منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی کافی دیر چوستی رہی فل سیکس چڑھ گیا تھا دل کرتا تھا کہ گلے کے اندر پورا لے جاؤں پر اَلٹی ہونے کو ہوتی تھی کبھی اتنے بڑے لن کو چوسا نہی تھا آدھا ہی لن لے پارہی تھی ارسلان نے کہا رضیہ میری طرف دیکھو میں نے لن منہ میں ڈالے ارسلان کی طرف دیکھا اُس نے کہا کہ ایک بار پورا لن گلے میں لے جا پھر چاہے چوسا چھوڑ دینا میں نے لن نکالتے ہوئے کہا بہت بڑا ہے نہی جارہا تو ارسلان نے کہا میں بھیجتا ہوں تم منہ کھولو اور میری طرف دیکھتی جاؤ میں نے ایسا کیا ارسلان نے دو تین بار لن اندر باہر کیا اور پھر میرا سر پکڑ کر زبردستی لن میرے گلے میں اتار دیا میری تو سانس بند ہوگئی ارسلان بولا سانس ناک سے لو اور پھر آخر تک لن گلے میں ڈال دیا میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگیے تکلیف تو ہورہی تھی لیکن میری پرانی خواہش پوری ہو گئی پورا لن آج تک شوہر کا بھی نا لے سکی تھی لیکن ارسلان کا بڑا لن پورا اندر چلا گیا تھا میں ارسلان کو دیکھ رہی تھی ارسلان نے اپنے موبائل سے میری اس حالت میں ایک تصویر کھینچی اور لن باہر نکال دیا میں کھانسنے لگی اور ارسلان لن میرے چہرے پہ مارنے لگا اور مجھے میری تصویر دکھائی لن پورا میرے منہ میں تھا اور میرے آنسو نکل رہے تھے ارسلان نے تصویر ڈلیٹ کر دی اور مجھے زمین سے اُٹھایا اور کسنگ کرنے لگا میں اب سنبھل چُکی تھی ارسلان نے میری شلوار اتار کر پوری ننگی کرتے ہوئے گھوم کر میرا بدن دیکھتے ہوئے کہنے لگا تیرا شوہر بہت خوش قسمت ہے جو تیرے جیسا جسم ملا ہے اُسے بہت زبردست لگتی ہو اور میری گانڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہنے لگا بہت زبردست ہے تیری گانڈ اور مجھے پیچھے سے پکڑ لیا اور گردن پر کسنگ شروع کر دی لن میری گانڈ پر لگا ہوا تھا اور وہ کسنگ کر رہا تھا میں جیسے کسی سیکس کے سمندر میں ڈوب رہی تھی اُس نے مجھے پیچھے سے بانہوں میں جگڑ رکھا تھا اور میرے ممے دباتے ہوئے کسنگ کر رہا تھا پھر وہ مجھے اسی طرح چلا کر بیڈ تک لے گیا اور مجھے لیٹنے کا کہا میں لیٹ گئی تو میری ٹانگیں پکڑ کر بولا رضیہ یہی سوچ کہ آج تیری میں چوت کی نتھ کھولنے لگا ہوں سوکھا ہی اندر ڈالوں گا پورا اندر تک دیکھنا کیا مزہ آئے گا اور میری ٹانگیں کندھے پر رکھ کر میری چوت کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا کیا ڈبل روٹی کی طرح پھولی ہوئی چوت ہے تیری بالکل ہونٹ بند میں شرما گئی اور اس نے لن پھدی پر سیٹ کیا اور ایک ہی بار میں ٹوپا اندر کردیا باہر سے سوکھی تھی لیکن اندر سے گیلی تھی میری چیخ نکلی اور ارسلان نے لن باہر نکال کر میری پھدی کے دونوں ہونٹ کھول کر قریب سے دیکھتے ہوئے کہا اندر سے گیلی ہے اور پاس پڑے کپڑے سے میری پھدی کو صاف کرنے لگا ساف کرکے دوبارہ لن سیٹ کیا اور ایک ہی بار میں پورا لن اندر کردیا میری تو جیسے جان نکال دی میں چیخی تو ارسلان نے منہ میں منہ ڈال کر پورا اندر کرکے کھڑا کر دیا اور خوب کسنگ کرنے لگا میرے اندر ایک بھرپور جوان مرد کا لن فَل کھرڑا دھڑک رہا تھا اور میری پھدی پھٹ گئی تھی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے لوہے کا گرم ڈنڈا اندر کردیا ہو چوہدری ارسلان نے کسنگ توڑی اور مجھے پوچھا سچی بتا رضیہ جب تیری سیل ٹوٹی تھی تو ایسا ہی محسوس ہوا تھا میں نے کہا اتنا درد نہی ہوا تھا اگر تم میری سیل توڑتے تو شاید میں مر جاتی تمہارا تو گھوڑے جیسا بڑا لن ہے بہت درد کرتا ہے ارسلان خوش ہوکر مجھے چودنے لگا پہلے پیار پھر تیز پھر پیار سے اسی طرح کرتے ہوئے میں دوبار اُس کے لن پر فارغ ہوئی اب اَس نے لن باہر نکال دیا اور کپڑے سے لن صاف کرتے ہوئے سیدھا لیٹ گیا اور مجھے کہنے لگا رضیہ انگریز عورتوں کی طرح اوپر چڑھ جاؤ ایک ٹانگ ادھر ایک ٹانگ اُدھر میں نے ویسا ہی کیا لن ہاتھ میں پکڑا اور نشانے پر رکھ کر ایک بار میں پورا لن اندر لے گئی درد کے مارے چیخ نکلی لیکن میں نے ہاتھ رکھ کر دبا لی ارسلان بولا رضیہ کمال ہے پورا ایک ہی بار میں لے لیا ہے میں نے کہا چوہدری صاحب چوت تیرے لن کی طاقت موٹائی لمبائی کی دیوانی ہو گئی دیکھنا اب میں کیسے تیرا مقابلہ کرتی ہوں تو ارسلان ہنستے ہوئے کہنے لگا رضیہ شرط لگا لے تم اس پر دس پندرہ جمپ کے بعد ہی درد اور تھکاوٹ کے مارے اُتر جاؤ گی میں کچھ نہیں کرونگا اگر تم نڈھال ہوکر اُتری تو پھر میں تمہاری گانڈ ماروں گا بولو منظور ہے میں نے کہا منظور ہے میں نے جمپنک شروع کر دی لیکن جیسے کہ ارسلان کہہ چکا تھا میں صرف دس گیارہ جمپ ہی لگا پائی تھی کہ چوت پکڑ کر لن سے اَتر کر دوسری جانب لیٹ گئی اور چوت کو دبانے لگی ارسلان نے کہا ہاں رضیہ تم شرط ہار گئی ہو چلو اب گانڈ مرواو میں نے کہا ارسلان میں نے آج تک گانڈ میں نہی لیا پلیز گانڈ نہی مارنا تیرا لن بہت بڑا موٹا اور طاقت والا ہے میری گانڈ پھٹ جائے گی مجھے صحیح سلامت واپس شہر جانا ہے وہ نا ہو کہ ڈاکٹر پر جانا پڑ جائے ارسلان ہنسا اور کہنے لگا چل ٹھیک ہے لیکن بکری تو بن تیرا سیل پیک گانڈ کا سوراخ تو دیکھوں میں بکری بنی تو میرے چوتڑ کھول کر میری گانڈ کا سوراخ دیکھتے ہوئے بولا رضیہ اتنا بھی ٹائٹ نہی ہے بس اگر تو دل سے چاہتی ہے تو مجھے کہہ دینا اس سیل کو توڑنے کا مجھے بہت مزہ آئے گا باقی تیری مرضی ہے اور ارسلان نے لن چوت میں ڈال کر چودنا شروع کر دیا اور کافی دیر مجھے بیڈ پر بکری بنا کر چودتا گیا میں سیکس میں دیوانی ہوچکی تھی اور ارسلان مجھے چودتے ہوئے کسی ماہر چودو کی طرح اپنے انگھوٹے سے میرے گانڈ کے سوراخ کو مسلسل مساج کر رہا تھا میرا بھی اب موڈ بن گیا تھا اور وہ بھی اب یہی چاہتا تھا میں نے گردن گھما کے ارسلان سے کہا جاؤ کیا یاد کرو گے کھول دو میری گانڈ کی سیل بنا میری گانڈ کو اپنی ارسلان خوش ہوگیا اور لن چوت سے نکال کر صاف کیا اور تھوک لگا کر میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور مجھے کہنے لگا رضیہ گانڈ ڈھیلی چھوڑ دو اور دل سے میرا لن گانڈ میں جانے دو تمہیں درد ہوگا لیکن یقین کر جب تم پورا اندر لے لو گی پھر تم خود کہو گی چوہدری میری گانڈ چود اور لن میری گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک مردانہ وار کیا اور لن میری گانڈ کی سیل توڑ کر آندر چلا گیا میں تکلیف کے باعث رو پڑی اور منہ تکئے میں دے کر چیخی تھوڑا سا ہی اندر گیا تھا ارسلان رَک گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد بولا رضیہ گانڈ کو بالکل دل سے میرے لن کو دو اب میں پورا اندر کرنے لگا ہوں ڈھیلی نا چھوڑی تو بُری طرح پھٹے گی میں نے گانڈ بالکل ڈھیلی چھوڑ دی ارسلان نے ایک ہی وار میں پورا لن اندر کردیا درد کی ایک بڑی لہر دوڑ گئی اور میں تکئے میں منہ دے کر رونے چیخنے لگی پہلی بار کسی مرد کا لن میری گانڈ میں گیا تھا بے تحاشہ درد ہورہا تھا ارسلان میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئیے تعریفیں کرتے ہوئے کہہ رہا تھا اس گانڈ نے مجھے پہلے ہی دن سے پاگل کیا ہوا تھا آج یہ میری ہے رضیہ مجھ سے وعدہ کر یہ کسی کو نہی دے گی میں نے روتے ہوئے کہا چوہدری صاحب میں وعدہ کرتی ہوں اس کو کوئی ہاتھ بھی نہی لگائے گا تمہارا لن اندر ڈنڈے کی طرح کھڑا ہے میں پاگل ہو جاؤں گی پلیز چوہدری ارسلان میری گانڈ چودو پھاڑ دو پورا سوراخ کھول دو اور ارسلان نے لن اندر باہر اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھوڑی دیر چودا اور لن باہر نکال دیا اور مجھے لن دکھاتے ہوئے کہا دیکھ اپنی گانڈ کی سیل کا خون دیکھ میں نے لن پر لگا خون دیکھا اور شرما گئی چوہدری ارسلان نے گانڈ چودنی شروع کر دی اب مجھے بھی مزہ آرہا تھا ارسلان نے چودتے ہوئے پوچھا رضیہ منی گانڈ میں لینی ہے یا باہر میں نے کہا ارسلان منی میری چوت میں نکالنا ارسلان نے لن نکال لیا اور اچھی طرح صاف کرکے میری ٹانگیں کندھے پر رکھ کر چوت مارنی شروع کر دی میں کتنی بار فارغ ہوئی مجھے اندازہ نہی اور پھر أرسلان نے تیز دھکے مارتے ہوئے مجھے رلاتے ہوئے ڈھیر ساری منی میری بچے دانی میں پچکار دی اتنی زیادہ منی نکلی کہ میری چوت سے رسنے لگی میں نڈھال ہوچکی تھی ارسلان کسی فاتح کی طرح میرے اوپر ہی تھا لن چوت میں منی کے آخری قطرے بھی چھوڑ رہا تھا میں جنسی طور پر پہلی بار اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہی تھی سب کچھ اچھا لگ رہا تھا چوہدری ارسلان نے لن باہر نکالا تو منی پَرچ پَرچ کی آواز کے ساتھ باہر نکلنے لگی چوت میں ہوا بھر چُکی تھی پَرچ پُرچ کی آواز کے ساتھ وہ منی باہر نکل رہی تھی میں فل نڈھال ہوچکی تھی ارسلان نے مجھے پیار کرنا شروع کیا اور مجھ سے پوچھنے لگا رضیہ مزہ آیا میں نے کہا جی بہت مزہ آیا ہے پھر کوئی آدھے گھنٹے کے ریسٹ کے بعد ارسلان نے پھر سے مجھے چودنا شروع کر دیا بھرپور پیار اور سیکس کا مزہ آرہا تھا چوت چودی اور پھر دوبارہ گانڈ چودنی شروع کر دی درد تو ہوا لیکن مزہ بہت آرہا تھا ارسلان نے قریب مزید ایک گھنٹہ چودا اور پھر گھوڑی بنا کر چوت چودنے لگا میں کئی بار فارغ ہو گئی اور مکمل طور پر ارسلان کے لن کی نوکرانی بن گئی دل کر رہا تھا کہ یہ لن میرے اندر ہی ٹھک جائے نکلے ہی نا ارسلان اب دوسری بار فارغ ہونے جا رہا تھا مجھ سے کہنے لگا رضیہ تیار ہو جا چوہدری اب تیری چوت کا حلوہ بنانے لگا ہے میں نے گانڈ اور اونچی کردی اور منہ تکیے میں دے دیا ارسلان پوری طاقت سے ٹھپ ٹھپ چودنے لگا تکلیف ایک بار پھر بڑھ گئی میں نیچے سے روہانسی ہوکر بولنے لگی چوہدری ارسلان تو گھوڑا ہے کیا تیرا لوڑا ہے یار میری چوت آج تک ایسے نہی چدی ارسلان نے کہا وعدہ کر اب وہ دوسرے بندے کو کبھی چوت نہی دے گی میں نے کہا جان وعدہ کرتی ہوں اب میں تیری ہوں تو جو کہے وہی کروں گی تو
ارسلان جوش میں اور زور سے چودنے لگا اور منی کے فوارے میری بچے دانی میں چھوڑ دئے طاقتور ہونے کی وجہ سے خود لن ڈالے قائم رہا جب تک کہ منی کا آخری قطرہ تک اندر نہی چھوڑ دیا پھر میرے پہلو میں لیٹ گیا اور مجھے جھپی ڈال لی اور چومنے لگا میں سیکس میں مدھوش بھی ہوچکی تھی اور گانڈ اور چوت چدنے سے درد بھی ہورہی تھی میں ارسلان کو جھپی ڈال کر لیٹ گئی ارسلان مجھے چوم بھی رہا تھا اور اپنی بانہوں میں بھر کر دبا بھی رہا تھا پھر وہ اُٹھا اور مجھے اُلٹی لٹا کر میری کمر دبانے لگا اور مالش کرنے کے انداز میں گردن سے لیکر پاؤں تک پوری کمر کو مساج کرنے لگا مجھے ایک مرد کے ہاتھوں مساج سے مزہ بھی آرہا تھا اور ساتھ ساتھ وہ میرے جسم کو چومتا بھی جارہا تھا پھر اُس نے مجھے سیدھا کیا اور اچھی طرح دبانے اور مساج کرنے لگا میری تو جیسے ساری تھکاوٹ اُتار دی میں نے ارسلان کو لیٹنے کا کہا اور اس کو مساج کرنے لگی اُس نے آنکھیں بند کر لی میں اپنے مموں کو اُس کی چھاتی کے ساتھ لگا کر ارسلان کے اوپر لیٹ گئی اور ارسلان کو چومنے لگی ابھی تھوڑی دیر ہی ایسا کیا تھا کہ ارسلان کا لن پھر کھڑا ہوگیا میں حیران رہ گئی کہ دوبار فل منی کے فوارے چھوڑنے کے بعد بھی لن اس طرح کھڑا ہو گیا ہے ارسلان نے کہا رضیہ جو دل کرتا ہے کرو اس کو فارغ کرو میں نے اوپر چڑھ کر پھر لن پھدی میں لے لیا اور خوب مزے سے اُس کے اوپر ہی لیٹ کر لن اندر باہر کرنے کے لئے ہلنے لگی منہ میں منہ ڈال کر ممے اَس کی چھاتی سے لگائے لن چوت میں لئے میں اپنی زندگی کا بہترین لطف لے رہی تھی کوئی بیس منٹ تک ایسا کرتی رہی تو ارسلان نے کہا اب ہلنا نہی اور نیچے سے کمر اُٹھا اُٹھا کر مجھے چودنے لگا اور پھر ایک زور دار منی کا فوارہ میرے اندر چھوڑ دیا میں ایک قسم کی بیہوش ہوگئی اور اس کی چھاتی پر ہی آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی ارسلان نے میرا ماتھا چوما اور لن آرام سے باہر نکالا اور اُٹھ کر واش روم چلا گیا وہ وہاں سے نہا کے نکلا اور مجھے بھی اُٹھا کر واش روم چھوڑ آیا میں نے بھی اچھی طرح شاور لیا اور آکر کپڑے پہن لئے رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے ارسلان نے مجھے بانہوں میں بھر کر خوب دبایا اور چومتے ہوئے کہا کہ رضیہ آج تک ایسی کسی کی پھدی نہی ماری تم ایک نشہ ہو تمہارا جسم بہت ہی کمال ہے میں نے بھی جوابی تعریف کرتے ہوئے کہا میں نے بھی آج تک ایسی چدائی نہی کروائی پہلی بار ایک رات اتنے دیر تک چدائی ہوئی ہے تمہارا لن بہت زبردست ہے اور اسٹیمنا بھی لاجواب ہے میں شہر جاکر اس چدائی کو یاد کروں گی ارسلان نے کہا کہ میں آیا کروں گا تم سے ملنے میں نے کہا ضرور آیا کرنا مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کی چدائی سے جس طرح تم نے میری بچے دانی بھری ہے میں تمہارے بچے کی ماں بن جاؤنگی ارسلان خوش ہوا اور کہنے لگا تم کیا چاہتی ہو لڑکا یا لڑکی میں نے کہا میں لڑکا چاہتی ہوں تیرے جیسا طاقتور لڑکا اپنے باپ کی طرح ہو ارسلان نے کہا اب چلتے ہیں صبح ہونے والی ہے کسی نے دیکھ لیا تو مشکل ہو جائے گی میں نے کہا ٹھیک ہے ارسلان کمرے سے باہر نکلا اور راستہ کلئیر دیکھتے ہی مجھے نکلنے کا اشارہ کیا میں بھی نکل آئی سیڑھیاں نیچے اُترے ہی تھی کہ سامنے نسرین آتی دکھائی دی ارسلان جلدی سے آگے بڑھ گیا اور نسرین نے مجھے جھپی ڈال لی اور پوچھنے لگی باجی کتنی بار کیا ہے میں نے کہا تین بار اندر ہی فارغ ہوا ہے نسرین نے پوچھا اور باجی ڈکی کیسی ہے میں نے کہا ارسلان نے کھول دی ہے نسرین نے مجھے جھپی ڈال کر چومتے ہوئے کہا باجی ڈکی میں کیسا لگا میں نے کہا نسرین پہلے تو درد ہی بہت ہوا لیکن بعد میں بہت مزہ آیا نسرین نے کہا باجی جاؤ اب سوجاؤ میں جاکر سوگئی اور صبح گیارہ بجے اُٹھی ناشتہ کیا اور ولیمے کی تیاری میں مصروف ہوگئی ارسلان کو دیکھا تو رات کی ساری کہانی پھر ذہن میں گھوم گئی میں شرما گئی ولیمے سے واپس آئے اور رات دیر تک دلہن اور دلَہا سے مزاق کرتے رہے پھر صبح اُٹھے آج ہم نے شہر واپس جانا تھا ارسلان نے کہا کہ میں اپنی جیپ میں چھوڑ کر آتا ہوں میں نے ہاں کردی اور میں ساس اور بچے ارسلان کے ساتھ شہر چلے گئے گھر پہنچ کر میں نے ارسلان کو چائے بنا کر پلائی اور اپنا فون نمبر بھی دے دیا وہ واپس چلا گیا اور پھر کبھی کبھی میرے فون کرنے پر آتا اور ملاقات کرکے چود کر چلا جاتا میں حاملہ ہوچکی تھی اور پھر میں نے ارسلان کے بیٹے کو جنم دیا بچہ باپ کی طرح صحت مند ہے اور اس کا ہتھیار بھی باپ کی طرح بڑا بڑا سا ہے میں اب بھی ارسلان سے چدائی کرواتی ہوں لیکن اب وہ بہت کم آتا ہے نسرین سے بات چیت ہوتی رہتی ہے وہ بتاتی ہے کہ 9پھدیوں کا شکاری ہے چوہدری ارسلان میرے جانے کے بعد بھی نئی تین چار پھدیاں شکار کر چٌکا 

Like Reply
Do not mention / post any under age /rape content. If found Please use REPORT button.
Jin bun gaya Family Member

 ya story Horror or incest hai, agar aap ko ayse stories achi nahi lagti to sorry esko read na karain. ya story kafie old or real hai, Summer ka husband ki death ho gae thi wo apna 3 bachon ka saath aik normal sa ghar main rahti thi, 7 stops ki aik market thi jis ka rent atta tha, summer aik buhat piyare or smart good looking ourat thi. age koi 42 thi magar apna smart gora jisam ka buhat khayal rahkti thi jis sa oski age koi 34 ya 35 lagti thi. oski 1 bare Bati jis ki age 23 saal thi or jis ki shaadi ko 5 month ho ga tha.

Bati ka naam Aleza tha jo apni Maa summer ki tarha buhat piyare or smart gori chitti thi, kali lumbe motti aanhkaian, bhara bhara jisam motti motti sadool hips or motta motta 36 ka mummay tha, koi be dakhta to dakhta rah jata, os ka baad chhoti Bati jis ka naam Alisha tha, wo 21 ki thi or wo be apni Maa or behan ki tarha piyare or sexy thi, jab chalti to oska mummay jasa gool motool hon jo her time loose bra main hilta to dakhna wala ko AAg lag jati. or hips wide thi or chuttar alaga alag hilta jab chalti or jisam gora chitta or bhara bhara, dono Bation ki Maa na in ko dunya sa bacha kar raha hua tha, jasa bari Bati ka acha rishta aya os na shaadi kar di thi. or in dono ka baad chhota Beta jis ka naam Sunny tha jo smart or jawaan ho raha tha, wo be good looking tha, oski age 19 ki thi, or hight koi 5’7 thi. or jisam strong tha, or esko bhook buhat lagti thi. maybe jawaan ho raha tha or Maa ka Hero be tha.
Aleza her 1 ya 2 week ka baad ghar atti or 1 ya 2 raat guzaar kar wapes chali jati, jis per Summer jo es ki Maa thi osay acha to lagta magar kuch dil main atta ka qu her week ya 2 week baad atti hai or bolti hai main aap logo sa udaas hoge thi, jab ka nai nai shaadi hue ho to larki nahi atti, magar ya akali atti or chali jati hai, summer na kafie baar pocha magar Aleza bolti agar aap ko bura lagta hai to nahi aya karon ge. anyway. Mussam kafie change ho gea tha raat ko thori sardi be ho jati thi, magar ya log ghar ka beramda main apni chaar-payain daal kar aik he line main soya karta tha. aaj Aleza be aye hue thi or soe hue thi, 1 saal sa zeyda time ho gea tha Summer jab raat ko soti to osay koi hosh na rahti or phir subha he uth kar Nashta banati ya ghar ka kaam karti, aaj raat ko osko kuch zeyda sardi lage to uth kar apna oper chadar layna chha rahi thi, os time oski nazar pare oska Beta sunny jasa apni char-paee sa uth kar araam sa apni bare behan jis ko Aleza baji bolta tha oska saath chipak kar layt gea.
jis per summer ko buhat ajeeb laga ka ya esay kiya hua? os time summer na apni Bati ki taraf dakha jo side badal kar layte hue thi or os ka chahra ese ki taraf tha magar oper chadar li hue thi, or pecha eska chhota bhai sunny eski qamer or hips ka saath laga hua tha. summer ki heart beat taiz ho gae or khud ko chadar main chupha kar kuch dayr tak dakhti rahi. or osko apna time yaad aa raha tha ka, jab ya bacha chhota hota tha or in ka Baap raat ko mera pass ese tarha atta tha or saath chipak jata tha, wohi ab ya dakh rahi thi. or saath dil ko samjha rahi thi ka nahi nahi, sunny soya hua neind main edhar aa kar layt gea ho ga. or summer ya be janti thi ka itna qareeb ho kar koi be layta to kasa ho sakta hai ka oska lund saath na laga. agar sunny ki qamer or Aleza ki qamer ka saath qamer hoti to or baat thi. kuch time guzra to Aleza ki chadar ka necha sa kuch hilta hua feel hona lag pare, kabhi Aleza ka oper wala jagha per to kabhi Aleza ki chadar ka necha wali jagha per, jasa wo apni tangay hilla rahi ho, ya apni shalwar utaar rahi ho.
summer ki neind to ab jasa bhaag gae ho, or os ko kuch samhj nahi aa rahi thi, kuch dayr guzre to chadar ka necha jasa dono ki fight shuro ho gae ho or aik dam sa chadar oper sa uttar gae to dakha, Sunny na apni he Aleza baji ka motta mumma ko oski qumeez ka oper sa pakar rahka tha, or necha ko dakha to, oski gori chitti tangay nangi nazar aa rahi thi, or oper wali gori sadool thighs ka oper oska chhota bhai ki thigh thi, oh God. ya, ya kiya dakh rahi hun, behan es style main layte hue thi ka bhai ka lund ko jasa apni choot ka rasta da rahi ho. or es baar wo kabhi zoor sa khud ko hilati, jasa oska bazoo sa nikalna chha rahi ho, or kabhi apni tangon ko itna zoor sa hilati jasa osko buhat dard ho raha ho. summer khud be ourat thi or ya sab achi tarha janti thi, kab kiya kiya or kasa feel hota hai, magar wo aik cheez per Haraan thi ka sunny bus saath chipka hua hai wo hil nahi raha jitne Aleza hilti hai, or Maa saath ya be soch rahi thi ka eski shaadi ko 5 month ho ga hain or es ka husband be hai or wo es ka saath sex be karta hoga to phir ya qu itne hil rahi hai dard sa, or chhota bhai ka lund be kitna hoga, jis ka es ko itna dard ho raha hai.
phir mind main aya ka ho sakta hai sunny na apni bare behan ki motti gaand main lund daal diya ho ga, ya sunny bang kar raha hai? itna main summer bol uthe, Aleza kiya baat hai? kiya kar rahi ho? jis per Aleza ki koi awaaz na aye or wo apni chadar oper lay kar ose tarha layte rahi. bus itna boli. kuch nahi mom, magar oski lumbe saans or wo be toti hue saans kuch or baata rahi thi. summer uth kar dono ko pakarna chha rahi thi, magar os main jasa himmet na ho, or saath wo apni Bati ki feelings ko apni porani feelings sa match karna lag pare, udhar, sunny thora sa be nahi hil raha tha wo bus jasa saath chipka hua tha or Aliza ki jasa jaan ko aye hue thi, edhar Maa be aik ourat thi oska gussa khatam hua or feelings zeyda hoti gae ka kitna lund andar ho ga or choot main hoga ya gaand main. kabhi Aleza ulti ho jati or sunny oska oper aa jata to kabhi phir sa Aleza side lay kar layte rahi, koi 35 mint tak Aleza ki char-pae kafie zoor sa hilti rahi, or phir sunny apni behan ka pecha sa uth khara hua, os na white trouser pehan rahka tha or, os ka trouser sa aik buhat lumba or motta loura bhair ko nikla hua tha.
ya loura nazar na atta agar kamra ki light os per na parti, or ya loura itna lumba or motta? summer to jasa koi dream dahk rahi ho. sunny ki aanhkaian band or wo chalta hua bathroom chala gea, kuch dayr baad wapes aya to oska lund wasa seedha khara hua tha jo koi 10 inch lumba ya or zeyda lumba ho ga or motta be koi 3 inch tak hoga. edhar Aleza apni shalwar pahan kar ulti ho kar layt gae, zaroor itna bara loura na choot ko phaar diya hoga, or choot dard ho rahi hoge ese liya ya ulti ho kar soo gae hai, summer ya sochta hua be soo gae, osko be ya dahk kar jasa buhat meetha maza or saroor aya ho, or wo apni lumbe gori 2 unglion ko choot main lay kar farig ho gae thi.
summer subha rooz jaldi utha karti thi ese liya subha uthe to raat ko yaad karti rahi ya dream tha ya such, ya sochta hua wo phalha apna Beta ki char-pae ka pass gae to dakha, Beta ka such main lumba motta loura jo be soya hua tha, wo oska trouser sa bhair nikla hua tha jo koi 6 inch hoga or motta be. choot ka pani ka liquad jasa laga ho, or Bati ki taraf dakha to oski shalwar ulti pahan kar soe hue thi. bati ki motti gaand ka motta motta chuttar shalwar main phansa hua tha or shalwar ka beech main kafie thick liqwad jam chuka tha. ya dakh kar summer ka phir sa bura haal ho gea tha, anyway sab log utha or sab na Nashta kiya, summer sab ko dakhti rahi, magar Aleza buhat slow slow chalti or bhathti or sunny na 3 Parhta khaya to osay sakoon mila. summer nashta ka baad apni socho main gum ho gae thi, kiya karon? kasa Aleza sa baat karon. ya sab Gunha hai. or phir sunny ka khayal aya to heart beat or taiz. Beta to hai magar kiya es ka itna lumba or motta lund? such main itna bara kasa ho gea, kabhi nazar qu na pare.
or phir khayal aya, oh ho. ya sab sunny ki galti nahi jo raat main hua, esko neind main kuch na kuch karna ki addat to hai, magar sab sa bare cheez ya hai ka es main koi Jin be atta hai, or es ka bura haal ho jata tha, magar 2 saal sa es main jin nahi aya or main samjhti rahi ka jitna Baba log tha un ka ilam kaam ker gea hai. warna subha uth kar apni Baji sa itne tazeez sa baat qu karta, or ya sab Aleza ka kaam hai, os time Maa na Aleza ko apna room main bulaya or bhatha kar pocha raat ko kiya karti rahi ho? magar Aleza na saaf inqaar kar diya main soe rahi hun or kiya karna tha. jab summer na dakha ya larki kese taraf nahi aa rahi to summer boli, raat ko tari char-pae per sunny aya tha? kiya karta raha ho tum dono? main sab dakhti rahi thi tum ko. or subha uth kar konse dawae tum na khaye thi? bacha na paida ho os ka liya? tab Aleza bol uthe or rona lag pare aap mujh per qu ilzaam laga rahi ho? os na apna beg khola or boli dakho ya pain killer hai, mera jisam main dard tha to es liya khae thi.
edhar summer be gussa main thi, or gussa main boli, haan pain killer to khane para ge, jab itna lumba or motta andar lu ge. itna lumba or motta layna ka baad tujha kese dosra ka kiya feel hoga? ya words Maa apni Bati ko bol rahi thi. jis per Aleza boli, Maa aap ko sharam anee chahya kes tarha ki wording aap mujha bol rahi ho? mujha kiya samhj rahka hai. or saat roti hue Aleza bhair chali gae. pora din guzar gea magar Aleza or summer ki baat nahi hue, jis per chhoti Bati Alisha na Maa or behan sa pocha kiya hua magar ya baat ayse thi jisa koi be apna mu sa bol nahi sakti thi. edhar Aleza ose tarha dheera dheera uthti or chal rahi thi, jis wajha sa wo aaj wapes nahi gae, husband ko kiya bataon ge or agar husband ka dil kiya to kasa oska necha laytu ge. edhar sunny bilkul normal hanse mazhk karta edhar udhar aa jaa raha tha. or Maa sochti rahi or ab wo sure ho gae thi ka jo be hua raat ko os main sunny ki galti nahi, es ka andar jo jin hai os ka chaker hai.
buhat sa aysa kaam ya kuch be ho sunny kar jata hai wo es liya ka es ka andar jin hai or jab be ya akaila ho eska pass na ho to ya baatain karta rahta hai, or jab andhara ho tab eski awaaz be kuch or ho jati hai kabhi kabhi. or kabhi kabhi wo baatain bol dayta hai jo kese ko pata nahi hoti. summer ka samna ab jab be sunny atta to esko es ka lund yaad aa jata ya es sa darr lagta, raat ho gae or phir sa char-pae daal di. Aleza phir sa ose char-pae per layt gae, aik taraf sunny ki thi or dosre taraf oski Maa summer ki thi. wasay sunny mostly akila sota tha room main, magar jab eski baji atti to bhair es ka saath char-pae pay sota. raat ko Aleza ko es ki maa na edhar sa utha diya or boli tum udhar mari char-pae per so jao. Aleza na aaj wasa be chudai nahi karwane thi jitna bura haal oska hua tha. or Maa to Maa hoti hai osay be samhj nahi aa rahi thi raat such tha ya koi dream. anyway raat 12 baja ka baad,
summer jo apni mix feelings main soe hue thi. es ko aik ajeeb sa saroor or maza ana lag para, es ki aanhkaian kabhi khulti to aysa khulti jasa koi metha sa sapna dahk rahi ho, eska gora rasham sa bhara jisam main aik ajeeb se feelings ana lag pare, es ka gora chitta motta 38 size ka mummu ka nipples pore tarha hard hona lag para. or raat wali Bati ki hot feelings ko feel karna lag pare ka kasa maza osko aya hoga, kes tarha mari jawaan married Bati hil rahi thi. edhar eski choot be aaj achi tarha saaf hue thi jis main lund ga hua ko 7 saal ho ga hain. or shalwar main jasa Aag lage hue ho, apni shalwar ko es tarha uttar diya jasa ya akali es ghar main rahti ho. or apni motti chori gori gaand ko edhar udhar hilla rahi thi or apna haath ko apni choot ka mu per rahk kar daba rahi thi, jasa bol rahi ho ka chup kar koi loura tari awaaz sun na lay. edhar es ka mummay jo ab thora latak ga thay wo be jasa sooja hua feel kar rahi thi or nipples jasa kese ka mu main jana chha raha thay.
kuch dayr guzre to Maa ko feel hua jasa oska pecha koi aa kar layt gea hai, or wo apna bazoo ko khool kar apna aik haath ko qumeez ka necha sa oper oska bra ki taraf haath aa raha tha, ya koi or nahi ya ese ka apna Beta sunny tha, summer mur kar sunny ko dakhna chha rahi thi or saath rokna chha rahi thi magar ya bolta hua ruk gae ka esko thore dayr tak rokti hun, buhat acha or buhat maza aa raha hai, or edhar ya lumba chora haath bra ko pecha karta hua motta gora mumma ko es tarha pakra jasa motta mumma pora oska haath main aa gea tha. jis per summer na lumbe saans li or saroor main kho gae, or kuch dayr baad osko apni motti gore nange hips ka motta chuttar ki creck line main lumba motta or buhat hard loura buhat araam araam sa ragar khata hua feel hona lag para. jis per summer na apna patla sa gora gaath ko apni choot sa utha liya jo choot ka pani sa bhar chuka tha or apna haath pecha lay aye or os lumba motta hard lund ko apna nazuk sa haath main buhat piyar or araam sa pakar liya, jo buhat garam be tha or luha ki tarha hard or haath sa lumba or motta lund tha. jo sunny ka lund tha.
wo dil sa nahi chha rahi thi, magar phir ese baat per aa gae kuch nahi hota bus thora or maza kar lu phir sunny ko pecha kar doon ge. khud per control nahi kar paa rahi thi. edhar wo be apni Bati ki tarha adhe side lay kar layte hue thi, or oski qamer ka saath Beta chipka hua tha or oska lumba motta hard or heavy lund ka motta cap kabhi oski gori gaand ka light brown hole ka mu per fit hota to summer ko aik ajeeb maza atta. or jab lund or necha ko jata to oski choot ka mu per lagta to aik ajeeb maza atta. edhar summer ki choot ka paani nikal raha tha, sunny na buhat he piyara or aik expert ki tarha apni Maa ki thighs ko khula or tangay es tarha set ki or edhar maa na be apni gori or shaved choot ko thora pecha ko nikaal diya ka lund ko problem na ho, edhar sunny na apna loura ka cap ko maa ki os choot ka mu per thora sa andar slip kiya jhider sa kabhi khud aya tha. jasa loura ka motta cap choot ka mu main phansa to summer jasa pagal ho gae ho.
edhar sunny apna lund ka cap ko choot ka mu main phans kar kuch dayr tak ruka raha or eska lund ka cap jasa choot ko ready karwa raha ho or osko or be wet kar raha tha, kabhi halka halka loura apna jhatka es style main marta jasa pora josh main loura khara ho kar khud jhatka kha raha hota hai. jis per summer ko buhat maza aa raha tha. or choot apna paani lund ka cap per gira rahi thi, kuch dayr baad sunny na apna pora weight apna piyare 42 saal ki maa ki qamer per daal diya, maa ko be feel hua ka sunny itna motta to nahi jitna es ka weight hai. jo kafie weight tha jis per wo char-pae ka andar agay sa dhans gae thi. or pecha sa wase he ose style main thi, gaand ka chuttar pore tarha khool kar or aik thigh ko bhair ko nikali hue thi, or choot jis ki lumbae 3 inch sa kuch zeyda thi, or motta lips ka mu main motta loura ka topa tha, magar sunny ka weight kuch zeyda feel ho raha tha.
itna main sunny na apna lumba motta loura ko kese janwar ki tarha apni piyare or tarsee hue maa ki choot main lund ko andar dalta gea jo phalha 3 mint tak apna sir topa phansa kar maza da raha tha, wo ab apni pora zoor sa or araam sa chikni choot main ruka bagair andar jata gea, edhar summer pora zoor sa apni Bati ki tarha apni tangay hilla rahi thi, or jasa nikalna chha rahi thi sunny ka heavy weight ka necha sa. magar wo time ab ja chuka tha. ab serf es ko loura pora andar tak layna tha. summer 42 saal ki ho kar nahi lay paa rahi thi to es ki Bati ka kiya haal hua hoga. choot pore tarha khul kar loura ka saath chipki hue thi or loura ka cap andar phans chuka tha, or choot main jasa halchal mach gae thi. edhar esko feel ho raha tha jasa es ka dono nipples ko choose raha ho, or summer pore tarha madhosh ho gae thi. edhar choot main loura jasa halka halka edhar udhar hil raha tha or saath thora bhair atta or phir andar chala jata. jab loura bhair ko atta to esko sakoon milta or jasa pora jata to apni tangay zoor sa edhar udhar marti or phir kuch dayr baad maza ana lag para.
aaj 7 saal baad koi lund gea tha, magar aysa loura jae ga or aysa maza da ga kabhi socha nahi tha summer na. wo be apna he Beta ka ya Beta ka andar jo jin hai oska. summer ab tak 3 baar farig ho gae thi or loura ose tarha andar bhair aa jaa raha tha, or mummay or nipples pore tarha sooj ga thay or choot main maza ka saath ab jald be feel ho rahi thi, itna main osay aik garam aag jasa lawa apni choot main girta hua feel hua or os ki choot os lawa sa bhar gae thi. koi 45 mint tak chudai hue or 7 mint tak lund andar raha or phir loura bhair nikal aya, sunny uth kar apni char-pae per layt gea. subha jab summer ki aainhk khuli to 9 baj raha thay or Aleza sab ko nashta bana kar da rahi thi. Aleza na apni Maa ki taraf dakha to dono ki aanhkaion main aik dosra ka liya buhat sawaal thay. udhar sunny na Maa ko dakha to bola, mom, baji na buhat maza ka nashta banaya hai maine 3 parhta kha liya hain. jis per Aleza phir sa mom ko dakhna lag pare. summer apni nazar na to sunny sa mila rahi thi or na Aleza sa.
summer ko buhat sa sawalon ka jawab mil gea tha magar phir be wo upset hoti to kabhi dil he dil main khush. quka. jase chudai hue thi oska jisam phool ki tarha halka ho gea tha, or saath aik ajeeb sa maza be andar feel karti, or upset es liya ka kiya Beta tha ya jin tha jo mujha or mari bare Bati ko chood raha tha. Nashta ka baad Aleza na apna paress sa 2 tabelts nikali or maa ko di jisa summer na pocha bagair pakar li or kha gae. oska jisam ka be bura haal ho gea tha. choot es tarha lag rahi thi jasa necha latak rahi hai or andar aag lage hue hai. mumma be metha metha dard da raha thay or nipples be. duphar ko koi 2 ya 3 baja Maa or Bati Aleza dono bhathi hue thi un dono behan bhai sa jo aik dosra ko tang kar raha tha. sunny or Alisha. aaj maa un dono ko rook nahi rahi thi, jo phalha sunny ko rokti hoti thi ka behan ab jawaan ho gae hai es ka jisam ko haath na lagaya karo. or saath Bati ko be rokti thi magar ab wo serf dakh rahi thi.
jo apni jawaan 21 saal ki behan ki sadool qamer per bhatha hua os ka sir per pillow maar raha tha, or necha Alisha bare behan ulti layte hue thi or oski motti arounded sadool oper ko uthe hue hips buhat piyare lag rahi thi oski qumeez ka oper sa, or sadool chuttar thar-tharta hua edhar udhar ho raha thay. summer apni chhoti Bati ko dakhti hue dheera sa Aleza ko boli, es ka kiya bana ga? aik to es per jawani be buhat zalim aye hue hai or oper sa jo es ghar main ho raha hai. Aleza be apni behan ko bhai ko dakhta hue boli, mom aap upset na ho, hum kiya kar sakta hain? agar oska dil es piyare se Alisha behan per aa gea to hum sa na to Alisha pocha ge or na wo. jis per summer na lumbe saans li or boli, haan magar ya to abhi be kamsin hai, jis per Aleza boli aray mom ab ayse be koi baat nahi, ya 21 ki hai. or sambhaal lay ge apna aap ko. phir Aleza dubra behan bhai ko dakh kar boli, mom wo pecha sa atta hai na? jis per summer na Aleza ki taraf dakha, magar aanhkaian nahi mila sake or phir sunny ki taraf dakha jo bacho ki tarha es baar apni he behan ki os sadool hips per thaper maar raha tha, jo summer phalha dahk kar khush ho rahi thi ka os ki bati ki kitne piyare hips hain. 
Like Reply
 jin ki chudai ka part 2 hai.
or wo jo pecha sa atta hai wo sunny to hota hai, magar os ka andar koi or hota hai, mom na Aleza ko bola. itna main phir summer boli, tum batao ge? kab sa wo tumhara saath kar raha hai? jis per Aleza phalha chup rahi or phir boli, yahe 1 saal or 5 month ho ga hain. jab sa aap ka bolna per sunny humara saath soo raha hai, jab ya akaila sota tha tab kabhi kabhi thora sa feel hota tha, magar phir rooz feelings zeyda hoti gae or phir jab sunny ka dil karta ya jo eska andar hai oska dil karta. wasay ya karta andhara main hai mom. din ka time jo marze kar lu kuch nahi karta. summer boli, to tum ko ya bolta hai tum edhar aya karo? or esko maza do. to Aleza boli, nahi maa.. ab raha nahi jata, jab tak week ya 2 week main karwa na lu sakoon nahi milta, or karwa lu to 1 din kuch nahi kar sakti. summer kuch dayr chup rahi or phir boli. kiya tum sa baat hoti hai eski, mera matlab sunny sa nahi, jo sunny ka andar hai os ka saath? to Aleza boli. kabhi kabhi, jab andhara ho to baat aap be kar sakti ho, os time aap note karna es ki aanhkaian chamak uthti hain andhara main.

summer boli, kiya esko hum bol sakti hain ka humari es bachi sa dour raha? jis per Aleza na phir sa apni behan ki taraf dakha or boli apni maa sa. mom aap ko kiya lagta hai es jase piyare or jawaan larki ko koi mard chhor sakta? or wo to humara saath humara ghar main hai. jis per summer boli, kiya tum Alisha sa poch sakti ho ka esay aaj tak kuch feel hua? ya kabhi kuch hua hai es ko? Aleza boli maine pocha tha kafie baar magar ya bolti hai aysa kuch nahi. or maine be zeyda baat nahi ki ya darr na jae. or wasay be dakho zara, agar kuch aysa hota to sunny be es tarha es saath na khaylta. jasa ya baat ki to dono na phir aik dosra ko dakha or summer boli. oh. ya esko apni taraf to nahi kar raha. jis per Aleza boli, oh. jab aap log pass nahi hota thay to mera saath be aysa khaylta tha or mari himmet nahi hoti thi esko rook sakon. or mujha maza milta tha. ya sunta hua summer na awaaz di sunny ab bus karo Beta, maine tum ko roka hua hai na. chalo utho Alisha necha sa, kes tarha layte hue ho? kuch dayr baad sunny apni dosre behan sa uth khara hua, edhar Aleza boli, mom main shaam hota chali jaon ge phir next week ana ki try karon ge.
itna main Alisha be apni qumeez or duppta theek karti hue aa gae, os ka atta he summer boli, tum ko sharam ane chhaya, ab tum jawaan ho gae ho, 36 ka ese age main itna motta mummay kar gae ho or bhai ka kabhi oper bhaht jati ho to kabhi necha layt jati ho. kise din andar daal diya to lag pata jae ga, phaar kar haath main da ga, phir pata chala ga. Alisha na phalhi baar apni piyare or achi maa ka mu sa ayse baat sun kar jasa chup chaap khare un ka mu dakhti rahi or boli, maa tum mari apni maa ho? kes tarha aap na ya wording use ki hai. jis per Aleza na apni behan ko samjhaya or bataya wo aik marad be hai, or marad ka kab or kes time khara ho jae pata nahi chalta, ese liya aaj mom na wo kuch bola hai jo wo kabhi be na bolti agar tum ruk gae hoti, Alisha mood bana kar dosra room main chali gae, shaam ho gae thi, Aleza apna jisam ko sakoon or full maza lay kar apna husband ka ghar chali gae, or sochti gae aaj be apni choot ka maza apna husband ko nahi da sakti, abhi be choot thore khuli hue hai or dil be nahi chha raha koi jhoot bol doon ge.
edhar summer ko 3 din ho ga thay or wo kabhi dil he dil main khush hoti or apni chudai yaad karti to or zeyda maza layte or saath kabhi darr be jati ka kese ko pata na chal jae, magar jo osko feelings uthti wo buhat zeyda hoti, aik dam summer ka dil kiya ka aaj phir try karti hun, summer raat hota he apna halka sa makeup or perfume laga liya, or khud ko raat ka liya ready karna lag pare, raat ka khana summer, sunny or chhoti Bati Alisha mil kar kha raha tha kitchen main, Alisha na jald khana khatam kiya or tv ki taraf bhaag gae jhider drama laga hua tha or wo es drama ko miss nahi karti thi, edhar summer or sunny raha ga or sunny jo kafie khana khata tha jis ka summer ko ilam ho gea tha ka eski cum kitne nikalti hai or jaan jati hai chudai main, wo es liya sunny Beta ka liya acha or dasi Ghe wala parhta or salan bana kar dayte thi. sunny khana kha chuka tha or Maa kitchen main khare thi ka light chali gae aik dam, or pore tarha andhara ho gea tha. summer kitchen ki shalf ki taraf mu kar ka bartan rahk rahi thi drow main. andhara jasa hua to summer boli uffff…. kiya karon ab? itna main summer ko apna pecha koi khara hua feel hua, qu ka summer ki feelings kuch change hue or os main jasa sex ki smell or jisam ka andar aik sex ki lahar uthe thi.
magar pecha koi or nahi sunny, summer ka apna Beta he tha, itna main sunny ka dono haath summer ka shoulders per tha or summer aik chhoti se bachi ki tarha jasa sharamae hue or kuch darre hue khare thi, os ko pata be tha ka ya os ka Beta sunny hai magar wo es tarha sharmae hue thi or oski heart beat taiz chal rahi thi, itna main sunny ka hard or kuch khurdara haath os ka shoulders per phairta hua necha oski sadool gora bazoon sa hota hua oska gora patla haatho main haath daal diya or phir unhe bazoon ka saath oski qamer per chalta hua oska gora rashaim jasa sadool jisam ka gird daal diya or pore tarha apni bazoon main apni maa ko lay liya. edhar summer ko phalha aik dream ki chudai samjhte thi magar es time real ho raha tha, edhar pecha summer ko aik lumba motta loura apni motti or wide gaand ki creck line ka beech main ragar khata hua necha sa oper ko aa raha tha. or es loura main itna jaan thi ka es ki shalwar ka oper sa ragar es tarha kha raha tha ka shalwar pore tarha es ki gaand ka chuttar main phanse hue press hoti ja rahi thi. jis ka wo saroor tha jisa aaj tak kabhi es na feel nahi kiya tha or na kabhi socha tha ka aik loura ka gaand ka beech ragarna ka be itna maza hoga.
udhar ya lumba or kuch khurdara haath jab qumeez ka oper sa summer ka dono motta or naram mummu ko halka sa pakra to summer jasa khud pagal ho gae thi or bhool gae thi wo kon hai or os ka pecha kon hai, or wo kese ki Maa be hai. edhar es ki lumbe sadool tangay jo thore khuli hue thi, or pecha sa qumeez oper tak aye hue hai. or oski cotten ki white shalwar jo oski wide sadool motti gaand main phanse to hue hai magar wo loura kitna jaan wala hai jo itna araam sa gaand ki creck line main itna araam sa or aik maza ka jhatka lagata hua theek apna loura ka topa gaand ka piyara sa ose surahk per aa kar ruk jata jis main aaj tak serf ungli he dali gae thi, or ab loura ka topa apna thora sa garam lawa nikaal kar ose jagha per halka halka metha sa jhatka maar raha tha, or summer ko apni bund ka hole ka around or shalwar ka oper be garam or chikna sa lawa feel ho raha tha.
summer samhji ka sunny farig to nahi ho gea, magar edhar summer ko jo maza mil raha tha, wo kuch sochna nahi chha rahi thi. jis maza main wo thi os sa wo khud apni tangon ko ab thora or khool chuki thi or loura na utne shalwar ko pore tarha wet kar diya tha jitna wo motta tha, or gaand ka creck line or bund ka hole per loura es tarha ragar khata hua oper necha ho raha tha jo aysa kabhi nahi ho sakta. kabhi loura ka topa es tarha bund main press hota jasa shalwar ko be saath andar lay jae ga. summer itna jaan rahi thi ka maza buhat aa raha hai magar es shalwar ka hota hua andar kasa jae ga? itna main os ko apna kaan main awaaz aye, mom aap ki gaand buhat maza ki hai, buhat maza ki gaand hai, ya awaaz sunny ki thi magar es tarha ki thi jasa gala bhatha ho or insaan bola. jis per summer or be garam hoti gae or apni gaand ko kabhi thore oper kar layte to kabhi thore bhair ko nikaal layte.
summer ko khud feel hona lag gea ka os ki gaand ka hole jasa khulta or band ho raha hai or kabhi aysa be feel hota jasa lund ka cap oski gaand ka hole main apna mu ko phansa raha ho or gaand ka hole kafie chikna ho gea tha, itna main loura na zoor lagana shuro kiya es kanwari motti naram gaand ka andar cotten ki shalwar ki phatna ki awaaz ana lag pare or loura shalwar ko phaar kar naram se bund ka andar ghusta chala gea, jis per summer ki be aahhh nikali or pore tarha hilli or gaand ka mu pore tarha khulta gea. or loura ka around shalwar phathi hue phanse hue thi to dosre taraf 4 inch tak motta loura andar phans kar ruka hua tha, or summer apna Beta ka loura or oski bazoon main pore tarha jakari hue full maza main doobti ja rahi thi. or loura ka motta cap gaand ko jasa or wet kar raha tha jasa wo farig ho raha ho, magar jis tarha abhi tak 4 inch andar gea tha, wo apna rasta or baqi ka loura andar jana ka liya gaand ko maza or relex kar raha tha, halka halka hill kar or edhar udhar hill kar jo metha dard os ko ho raha tha wo dard araam sa utha kar apna saroor main aye hue thi.
wo sab kuch bhool chuki thi serf khud ko Asmaano ki saair ko nikal chuki thi, ya andhara es ko itna maza da raha tha jitna aaj tak nahi mila tha, oska gulabi lips pora khula hua thay or kabhi apna lips ko teeth main daba layte, oska 73 kg ka jisam jasa kaanp raha tha or jurjahre feel karti jo oski motti chori gaand sa uthti hue os ka pora jisam main aa jati. ya loura kes tarha itna maza gaand main da sakta tha. jitna maza es ko aa raha tha.
itna main Alisha candle light jala kar kitchen ka darwaza ki taraf aa rahi thi or saath mom, mom bol rahi thi. mom khider ho aap log? itna main summer ko kuch hosh aya or edhar sunny ka andar jo cheez thi osko ghussa to buhat aya jo summer samhj gae thi, jis per summer apna khush gala sa boli, aaaa… aatti… atti hun.. itna main Alisha candle light lay kar kitchen ka door ka pass khare ho kar andar dakh rahi thi or bol rahi thi, khider ho aap log. jis per sunny na summer ka mummu ka oper sa apna haath uthaya jo qumeez ka oper sa pakar rahka thay. or summer ki naram rashaim jase qamer ka gird apna bazoo daal diya. magar apna lumba motta loura jo 4 inch tak loura mom ki gori chitti naram or motti virgin gaand ka andar loura daal kar chipka raha.
edhar summer apna maza khatam karna chha rahi thi, magar ab oska bus main nahi tha, magar phir be jitne wo try kar sakti thi os na ki or khud ko normal karna main, magar es time Alisha ko wo khud kha jana chha rahi thi jo os ka maza kharab kar rahi thi. edhar sunny ose tarha saath chipka hua tha pecha sa, summer pora zoor laga kar bol rahi thi magar os sa bola nahi ja raha tha, wo apni aik sex wali awaaz or aik aah karti hue awaaz main boli, tum jaooo naa.. aabhi aatti hun. magar itna main Alisha ab dheera dheera chalti hue kitchen ka door tak aye to Alisha boli kiya hua mom? bhai na qu aap ko pakra hua hai? to mom boli, wo, wo main phalha girna wali thi es liya pecha sa pakar rahka hai, Alisha ko summer rokti rahi tum jao hum hum atta hain magar Alisha jasa kitchen main aye wo candle bojh gae or phir sa andhara ho gea or summer ko kuch sakoon hua magar Alisha itna main in dono ka bilkul saath aa kar khare ho gae. edhar sunny ose tarha pecha chipka hua apna lumba motta lund serf 4 inch andar gea hua tha,
Alisha jasa in dono ka pass khare hue to Alisha be aik jawaan jisam ki malik thi or oper sa itna piyara jisam ki malik thi, os ko be kuch feelings uthna lag pare, edhar sunny apni maa ki gardan chaat raha tha or udhar ab jasa summer be maza main aa kar apni gaand ko thora oper ko kar rahi thi, edhar Alisha ka andar be sex ki feelings aati ja rahi thi or wo ab samhj be rahi thi ka mom or sunny ka beech kuch hai, ya kuch kar raha hain, osko bura nahi laga raha tha, osay ya sab feel kar ka or be maza ana lag para jasa kese ajnabi ko feel kar ka maza liya jata hai. itna main sunny na summer ki qamer ko thora or zoor sa pakar liya or apna lumba motta loura ko phir sa zoor lagta hua pora andar ko jasa dala to summer ki AAAAaah niklie or boli.. aahhh.. mmmaar gae main… aaaahh.. or Alisha saaf feel kar rahi thi ab even ab wo kuch kuch dakh be rahi thi or saath apni shalwar ka oper sa apni jawaan hue choot ka lips daba rahi thi.
magar mom ki es awaaz ko wo jaan gae thi ka mom ko kitna metha dard utha ho ga. udhar summer pora zoor sa hilli to sunny na summer ki qamer sa pakar kar oper utha liya jo wo zameen sa koi 4 inch tak oper uth gae thi, or apna dono bazoon sa summer ko utha kar wo kitchen ki dosre shilf ki taraf lay gea or saath summer ko thora necha ko agay sa jhuka diya or apna lumba motta loura ko zoor sa andar bhair kuch dayr karta hua ruk gea jab Alisha dubra in ka pass aa kar khare ho gae thi. edhar summer apna mind sa full zoor laga kar jasa Alisha ko apna sa dour kar rahi thi apna bazoo sa, magar Alisha thore pecha hoti to phir or pass aa jati. edhar sunny na summer ki qamer sa aik bazoo nikala or pass khare hue Alisha ki motti or bhair nikali hue gaand ka oper haath rahk diya. haath be es parha rahka ka dono motta chuttar ka beech main, magar gaand ka oper shalwar or os ka oper qumeez thi, magar Alisha ka rashami shuit tha to oski motti hard or soft gaand ko achi tarha feel kar raha tha, edhar Alisha ko kuch bura na laga jis tarha sunny oski motti naram gaand ka chuttar ko daba raha tha ya oski creck line main haath daal kar gaand ka maza lay raha tha.
edhar pora loura already es tarha mom ki gaand main gea hua tha jasa dewaar main keeil phansa ho, or edhar summer jasa maza be pora lay rahi thi or Alisha ko rokna be chha rahi thi magar rook nahi rahi thi, or ya be feel kar rahi thi ka eski gaand per dosra haath kiya kar raha hai, or jab sunny jhatka marta summer ki gaand main to summer pore hilti or summer or Alisha aik dosra ko feel karti. qu ka kabhi kabhi sunny Aleza ki gaand per thaphar be marta jis ki awaaz summer ko atti. itna main sunny na apna haath ko Alisha ki shalwar ka andar lay gea or eski kuwari gaand ka chhota sa light pink bund ka hole main apni motti unglie ko andar ko dabta to kabhi nikalta jis per Alisha aaahhh karti… es time mom or Bati ki aik feelings thi or aik dosra ko feel be kar rahi thi.
edhar sunny kabhi apni motti unglie gaand sa nikaal kar khud be sunghta or saath summer ko be sungata or es smell ko dono enjoy kar raha tha. ab tak koi 45 mint ho ga thay loura ko gaand ka andar or ab loura na zoor zoor sa bund main apna garam Lawa ki pichkare marna lag para, udhar Alisha ki gaand main 2 motti ungliya pore andar tak daal kar ruka hua tha, ya 2 ungliyan be jasa aik acha motta lund jase thi, edhar jab wo apna lawa ki pichare maar raha tha or loura ko kafie bhair nikaal chuka tha to summer ki bund sa theek pichkari ki awaaz sunae da rahi thi, pich picch ki, jis ko Alisha be sun rahi thi, or kuch dayr baad jab pora loura bund sa bhair nikla to aik achi awaaz aye jasa kese bara janwar breed karna ka baad oska loura agay sa phool kar bhair nikalta hai to awaaz atti hai, wase awaaz aye. or summer apni gaand ka oper haath rahkti hue pecha ko chali gae.
summer ki gaand aaj achi tarha sooj gae thi, or surhk pora khula hua tha, or apni shalwar ka phatha hua hole sa apni gaand saaf karti rahi, edhar sunny ab aik haath sa Alisha ki gaand ka apna haath sa maza lay raha tha or dosre taraf Alisha ka 36 size ka motta mumma ko achi tarha daba kar maza lay raha tha, or Alisha ki lift thigh ka saath laga hua sunny ka jaber loura khara hua tha, jis ko Alisha apna gora chitta chhota or patla haath main pakar kar halki halki muth maar rahi thi, os ka haath ki grip main loura nahi aa raha tha magar wo loura ko maza sa ragar rahi thi jo buhat zeyda chikna tha. summer dour sa sab dahk rahi thi or sooch rahi thi itna motta lumba loura kasa es na gaand main liya tha. summer ka jisam ab dard karna lag para tha, wo ab os saroor or jadu sa bhair thi, magar ab wo Bati ka sooch rahi thi ka ya mar jae ge or es ko jitna maza ana hai es na rooz chudwaya karna hai.
udhar ab sunny kabhi mur kar summer ko dahkta to kabhi Alisha ki shalwar ko necha karta ja raha tha, or udhar Aleza khud he agay ko necha ko jhukti ja rahi thi or apni tangay be khol rahi thi. Alisha full musti main aa gae thi or es sunny es haal main lay aya tha, udhar summer nahi chhati thi, summer ka jisam dard be kar raha tha or jasa nasha main ja rahi thi, ya sab sunny ki cheez ka jadu tha jo wo janta tha ka summer kuch kar da ge, es ko eski bati nahi chodna da ga. itna main sunny na apna lumba motta loura ko Alisha ki gori pinkish chhoti or motti choot ka lips main apna loura ka motta cap ko ragarna shuro kiya to Alisha jasa pagal ho gae thi maza main. itna main sunny na apna loura ka lumba motta topa ko naram se kunwari choot ka motta sa jawaan lips main halka sa phansa diya jis sa choot ka lips pora loura ka topa ka gird khul ga tha. udhar Alisha full maza main apna dosra mumma qumeez ka oper sa daba rahi thi,
itna main sunny na apna dono bara haath qumeez ka andar lay gea or Alisha ka motta gora mummu ko halka halka daba raha tha, jasa Alisha os stage per aya ge ya pora zoor sa es ki choot main loura daal da ga. magar es ki nazar serf summer ki taraf thi, jis pass rahi hue matches or candle thi. agar es na roshan kar di jab khatam ho jae ga, ese liya Summer ki taraf dakhta raha ka wo aysa na kara os ka saath, itna main ab Alisha apni piyare se choot ko halka halka loura ka topa per dabati or loura sa 2 thick drop nikalta jo loura ko wet karta, itna main sunny na Alisha ka motta mummu ko zoor sa pakar liya tha or apna loura ko pora zoor sa Alisha ki choot ka andar dalna lag para or Alisha ki buhat onchi awaaz aye jasa esko kitna zeyda maza aya ho, magar loura es ki chhoti pink choot ko cheerta hua or pore tarha kholta hua andar ja raha tha, or Alisha pora josh or maza ki dard sa oper ko uthe jasa oper ko chalaang lagae ho,
jis per sunny na Alisha ko zoor sa pakar rahka tha or apna loura ko aik he zoor main pora andar daal diya tha. or Alisha dard or maza main edhar udhar hill rahi thi or sunny na pora zoor sa pakar kar 3 sa 4 jhatka andar bhair maar diya, jis sa Alisha ki choot ka blood os ka lund per laga hua tha or 1 drop necha zameen per gir gea tha. udhar summer ab kuch nahi kar sake thi, or ab os ka oper sa wo nasha be khatam ho raha tha or wo dahk rahi thi apna samna apni Bati ki bure tarha chudai, kuch dayr ki chudai ka baad sunny na wasay he pecha sa behan ko utha liya oper ko or utha kar bedroom main lay gea. edhar summer kuch dayr bhathe rahi or wapes bedroom main chali gae, udhar dakha Alisha ulti layte hue hai or oper sunny layta hua apna loura ko oski nazuk choot main andar bhair karta ja raha hai.
or necha layte Aleza ki jasa ab bus ho gae thi, summer dil he dil main bol rahi thi, phalhi baar bati chudi to wo be jin sa or wo be itna bara loura sa, kiya haal kar da ga eski choot ka. raat ko kon kab soya or kasa soya kuch yaad nahi. magar jab subha utha to Maa or Bati ko buhat achi tarha feel ho raha tha, Bati ki choot pore tarha sooji hue thi or mummay dard kar raha thay or nipples be sooja hua tha, edhar maa ki gaand be jasa sooji hue thi, udhar sunny normal baat karta hua bhair chala gea. Alisha ko or summer ko koi baat nahi aa rahi thi, phir summer boli, bati agar dard zeyda hai to dawae ka pata karon? 1 sa 2 din laga ga theek hona tak. Alisha boli ji mom, mujh sa chala nahi ja raha. mom boli haan main dahk liya hai tum to tangay khool kar chal rahi ho. jis per summer na dawae khud be khae or bati ko be di.
or saath boli ya baat tum na apni behan sa be share nahi karne. or mera pass aao, main oil ki malish kar don, jis per Alisha sharmati rahi phalha phir razi ho gae, jab maa na bati ki phudi dakhi to khud be Haraan ho gae, choot ka mu khula hua tha or choot kafie sooji hue thi. jis per mom na oil ki massage araam arram sa ki. or saath tips da rahi thi sunny ka liya ka perfume raat ko use nahi karna or jo kuch be tha ya sab baatain os ko batae, or boli. ab kese or baba ko dakhta hon jo esko theek kar saka or es ka andar sa wo jin nikaal saka. summer boli, acha bati such such batao? tum ko phalha kabhi kuch feel hota tha? jo be baat hai mujh sa mat chupho. hum aik dosra ki raaz daar thi or hain. or haan jab be sunny ghar ho koi ayse wase baat na karne hai or na sochne hai. acha bolo ab? phalha kabhi feel hua? or feel hua to kiya feel hua?
to Alisha phalha sharmati rahi or phir boli, haan kafie baar aysa laga jasa sunny mari yahe shalwar ka oper sa chaat raha ho. summer boli kiya shalwar? to Alisha boli uff mom, nahi. mari choot shalwar ka oper sa or mujha buhat maza atta tha, or kabhi wo mujha jasa apni goad main bhatha layta tha or os ka lund, mari shalwar ka oper sa mari choot ko ragarta tha. or aik baar main or baji bhatha thay sofa per or light nahi thi, to sunny be humara pass aa kar bhaht gea, kuch dayr baad pata nahi baji na mujha qu bola ka tum uth kar sunny ki goad main aa jao. mom such main pata nahi kasa or qu baji ki baat maan gae or sunny ki goad main bhaht gae. summer boli… ohh… to os ko sab pata tha or khud karwa rahi thi or mujha jhoot bolti rahi hai ka ayse koi baat nahi. acha phir kiya hua bati. to Alisha boli, mom mujha be buhat acha lag raha tha or jab main bhathna lage to sunny ka kafie bara lund mujha zoor sa choot per laga, or main phir sa khare ho gae.
or Aleza baji boli araam sa bhatho darro mat, to jab main araam sa bhathna lage to pata nahi mare shalwar kasa phati ja rahi thi or sunny ka lund ose hole sa mari choot sa ragar khata hua mera saath choot ka lag gea. magar mujha maza aya tha, or baji mari sunny ka lund or mari choot per apna haath phairti to or zeyda maza atta. os din mera andar jana laga tha tab pata nahi kes na rook diya sunny ko. ya sunny na os ko rook diya tha. baji be kafie naraaz hue thi sunny sa or wo sunny ka lund pakar kar mari choot per rahkti to koi mujha edhar udhar hilla dayta or lund bhair nikal atta. main thak gae thi mom. or es tarha kafie baar hota raha or raat ko be wohi hua hai, magar raat ko wo andar daal kar he khush hua hai or bolta tha tumhara her tarha sa khayal rahkon ga. or bolta tha tum log mera saath bura na karna or tum logo sa bura nahi karon ga, aap sa buhat piyar karta hai or respect be.
phir Alisha boli, mom, baji bolti thi, jab tum ko ya asal maza da ga phir tum ko samhj aya ge or un ki baat theek nikli jitna raat ko maza aya maine itna kabhi socha na tha. summer ya sab baatain sunte ja rahi thi or os ko ya to samhj aa gae thi ka oski bare bati Aleza ka kaam hai os na apni behan chudwana ka liya os jin ki help ki hai. or aik lumbe soch main par gae thi. magar sunny aa gea tha es liya topic change kar diya or summer apna baqi kaam main lag gae.
Like Reply
ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﻓﻠﮏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺳﯿﮑﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﯾﮧ 2009 ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ 16 ﺳﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻤﮯ 32 ﺳﺎﺋﺰ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﺘﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﮉ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺁﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻟﻠﭽﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮔﺮ ﭼﻮﺩﮮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ۔
ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺮ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﻟﮕﺎﺅ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﭨﯿﭽﺮ ﮐﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﭩﺎﻑ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺰﮮ ﻟﯿﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺮﺍ ﺩﯾﺘﮯ۔
ﺍﻧﮩﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﮯ ﭨﯿﭽﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﭘﮍﮬﺎﻧﮯ ﺁﺋﮯ۔ ﻋﻤﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺤﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻋﺎﺷﻖ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻔﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺍﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﺹ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺎﻓﯽ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﭽﺘﯽ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﭨﯿﭽﺮ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﺴﻢ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎﺋﮉ ﭘﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﺖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﮏ ﻧﮧ ﮨﻮ۔
ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻮﺭﮈ ﮐﮯ ﭘﯿﭙﺮ ﺁﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺳﺐ ﺗﯿﺎﺭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﺁﺗﯽ۔ ﺑﻮﺭﮈ ﮐﮯ ﭘﯿﭙﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮐﺘﻨﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻧﮕﻠﺶ ﮐﺎ ﭘﯿﭙﺮ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺳﺮ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻓﻠﮏ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﮐﺎ ﭘﯿﭙﺮ ﺁﺝ ﭼﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺗﻢ ﺁﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺳﭩﺎﻑ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﮭﯿﮟ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﯾﺎ ﮨﺎﺳﭩﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﮯ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﮐﺎ ﮨﺎﺳﭩﻞ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﺳﺮ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺑﺠﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﭘﯿﭙﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﻠﮑﻞ ﻧﮑﮍ ﭘﺮ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺑﺠﮯ ﺗﮏ ﻭﯾﭧ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺩﻭ ﺑﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺑﺲ ﭘﯿﭙﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﺻﺒﺢ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﺣﺎﻃﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﻭﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﯽ۔ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﺮ ﺟﮕﯽ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻧﯽ ﺳﯽ ﭼﮭﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺳﺮ ﻧﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﮐﺖ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮦ ﮬﺌﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﭙﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺅﻧﮕﯽ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﻤﺮﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﻌﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮮ ﺳﯽ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﻤﺮﯼ ﺑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﺮ ﻧﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﭘﮭﻠﮑﺎ ﮈﺭﯾﺲ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺍﭼﮭﮯ ﻟﮓ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﯿﭙﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮭﻤﺎﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻓﯿﻞ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻓﻠﮏ؟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻀﻮﻝ ﭘﯿﭙﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ؟
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﮨﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻼﺋﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻠﮑﮯ ﮨﮑﮯ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺝ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺟﻮﺱ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﭩﺮﺍ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺟﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮﺱ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭨﺸﻮ ﭘﯿﭙﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﺌﯽ ﻧﺌﯽ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﭼﮍﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﻓﻠﮏ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﭘﺎﺱ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﭼﮭﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻦ ﺟﺎﺅ۔
ﺳﺮ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﺎ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺎﺹ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﺏ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺮﺩﯾﮟ۔
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﭘﻮﻟﮯ۔ ﻓﻠﮏ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺷﺌﯿﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﺎ ﺷﺌﯿﺮ ﮐﺮﻭﮔﯽ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻨﻊ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﭘﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺯﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﺮﺩ ﺣﻤﺎﺋﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﺑﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ۔
ﺳﺮ ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔


سر آپ کیا کر رہے ہیں؟
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﻓﻠﮏ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺍﭼﮭﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺳﺮ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻼﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﭦ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﭙﻞ ﮐﻮ ﺳﮩﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎﺅﮞﮕﺎ۔ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﯾﺎﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﻤﯿﺺ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﭘﮭﺴﻼ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﯿﭧ ﺳﮩﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺑﮭﮍﮎ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺁﮒ ﭘﮧ ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﺗﯿﻞ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ ﮨﻮ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﮎ ﺩﮬﺎﺭ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﻮ ﺑﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﺮ ﺫﺭﺍ ﻟﯿﭧ ﮐﺮ ﮔﮩﺮﯼ ﮔﮩﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮﺋﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻣﺪﮨﻮﺷﯽ ﺳﯽ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﮔﺮﺩﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﻨﭻ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭨﺎﺋﻢ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺫﯾﺎﺩﮦ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﺩﮨﮏ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻻﺳﭩﮏ / ﺭﺑﮍ ﮈﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﮨﻠﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭼﻮﺕ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺒﺢ ﺳﮑﻮﻝ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮩﺎ ﺩﮬﻮﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﺑﮩﺖ ﻣﻼﺋﻢ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺷﺎﺋﺪ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻨﻮﺍﺭﯼ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﻣﺰﮮ ﻣﺰﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﺟﺴﺎﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﮍﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ 16 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﮐﻨﻮﺍﺭﯼ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﮔﮍﯾﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻨﯿﭻ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻔﯿﺪ ﮔﻮﻝ ﺳﺎ ﻣﻤﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﺮ ﭼﺎﭨﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺑﺠﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﻮﺍﺭﯼ ﻟﮍﮐﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﺎ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﮨﻮﺱ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻏﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺸﺶ ﺍﻭﺭ ﻭﺣﺸﺖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮬﮏ ﺳﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﮐﺖ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻨﮓ ﺳﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻠﮑﺎ ﺩﺭﺩ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﭨﺎﺋﻢ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮ ﻟﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻧﮉﺭ ﻭﺋﯿﺮ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﺎﺭ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺟﯿﺴﯽ ﮐﻠﯽ ﮐﻮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺩﮬﻼ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﺑﮏ ﺳﯽ ﮔﺌﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺮ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﺑﺪﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﭘﮧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻠﮑﺎ ﻣﺴﻼ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﻣﺰﮮ ﮐﯽ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻠﮑﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺭﺳﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺫﻭﺭ ﺫﻭﺭ ﺳﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺁﮔﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺑﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﺳﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺷﺮﺍﭨﺎ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﮔﯿﻼ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ۔ ﺳﺮ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺁﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻏﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﮯ۔
ﻓﻠﮏ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﻧﺎ؟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﺭﮐﮫ ﺩﺋﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﻨﮓ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﭼﻮﺳﺘﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﻧﮑﮯ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺨﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺭﺳﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮔﯿﻼ ﮔﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺴﻨﮓ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﺌﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻨﮭﯽ ﺳﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﮔﺎ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺰﺍ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺁﺭﺍﻡ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﻟﻦ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻠﮑﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﭼﯿﺨﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺳﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﺎﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﺎﭨﻨﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮐﻮ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﺩﺑﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﯾﭗ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ۔
ﺳﺮ ﺑﺲ ﮐﺮﺩﯾﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻨﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺮ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ
ﻓﻠﮏ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ۔ ﺁﭖ ﮐﺎ ﭘﯿﭙﺮ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ۔۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﻟﻦ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺳﺮ ﮐﯽ ﮔﺮﻡ ﮔﺮﻡ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﭘﺮ ﭘﮕﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﮭﭩﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺰﯼ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻨﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮐﮧ ﺳﺮ ﺑﺲ ﮐﺮﺩﯾﮟ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﮒ ﺑﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻟﭩﺎ ﻟﭩﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﭧ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﮑﯿﮧ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺏ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻟﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﮔﺊ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻟﻦ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﻝ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﻦ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻭﺣﺸﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺌﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﻟﺮ ﭘﮭﯿﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻨﮧ ﭘﮑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭼﺎﭨﻨﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺭﯾﻨﮕﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﯽ ﮈﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺧﻮﺏ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﮐﻮ ﺍﻟﻮﺩﺍﻋﯽ ﭨﮭﻮﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻟﻦ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﺑﻨﮉ ﭘﺮ ﮔﺮﻡ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﮍﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ۔ ﺳﺮ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻻﻭﺍ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻟﮧ ﺟﻮﺍﻥ ﻟﻦ ﮐﺎ ﻣﻨﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﻨﮉ ﮔﯿﻠﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔
ﻣﯿﺮﯼ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻠﮑﺎ ﺧﻮﻥ ﻧﮑﻼ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮨﻼ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮦ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﺮ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﺵ ﺭﻭﻡ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮮ ﭨﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻢ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﺮ ﺍﺱ ﭨﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﺮ ﻧﮯ ﻓﻮﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮﺵ ﭨﮭﮑﺎﻧﮯ ﺁﺋﮯ۔ﭨﺐ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﺳﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺱ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺱ ﭘﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻠﮑﺎ ﺳﺮﻭﺭ ﻣﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺳﺮ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﭘﮑﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﭘﯿﭙﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﮮ ﻧﻤﺒﺮ ﻟﯿﮑﺮ۔
Like Reply
میری بڑی باجی نے مجھے یہ کہانی اس وقت سنائی جب میں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ چدائی کا مست کھیل کھیل رہے تھے انہیں کی زبانی سنیئے
مُجھے محسوس ہو رہا تھا کہ کوُئی مُجھے دیکھ رہا ہے ۔ ۔ میں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مجھے کوئ دیکھتا ہوا دکھائی نہ دیا ہر کوئی اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا ۔ ایک شوشل ورکر کے ہاں پارٹی تھی اورمیں بھی أس میں مدعو تھی ۔ ایک بڑی شوشل پارٹی کی وجہ سے کافی سےزیادہ لوگ دعوت میں موجود تھے اور اکثر ایک دوسرے سے ناواقف تھے اس لئے لوگ اپنے اپنے جاننے والوں کے ساتھ الگ الگ یا گروپ کی صورت میں باعث مباحثہ میں مشغول تھے میں بھی اپنی فرینڈذ کے ساتھ خوش گپیوں میں لگی ہوئی تھی کہ مجھے بے چینی سی محسوس ہوئی اور مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ معلوم کروں کہ یہ میرا وہم تھا یا واقعی کسی کی کی نگاہوں کی ذد میں تھی ۔ بہت کوشش کی کہ کسی کو دیکھتے ہوئے دیکھ سکوں مگر بے سُود ۔ لیکن میری چھٹی حس برابر مجھے متنبہ کر رہی تھی ۔ میں اپنی دوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی کرتی رھی اور ادھر أدھر بھی دیکھتی رہی کہ اتفاق سے میری ساتھ والے کمرے کے دروازے کی طرف نگاہ گئی تو میں نے أسے اپنی جانب بڑے غور سےدیکھتے ہوئے پایا ۔ ساتھ والے کمرہ پر مرد حضرات نے قبضہ جما رکھا تھا اور زیادہ لوگ ہونے کی وجہ سے دروازے تک لوگ براجمان تھے اور وہ وہیں دروازے سے ہماری طرف دیکھ سکتے تھے اگرچہ ہماری ٹولی کمرے کی دوسری سائڈ پر تھی مگر وہ حضرت جب بھی موقع ملتا مجھے دیکھ لیتے ۔ میرے لئے وہ بالکل اجنبی تھا اور پہلی بار ہی أسے دیکھنے کا اتفا ق ہوا تھا ۔ ایک پُرکشش شخصیت کا جوان جس کی طرف کوئی بھی عورت دوسری بار دیکھنے کو مجبور ہو جائے مجھ مڈل ایجڈ عورت کی طرف کس لئے متوجہ ہو سکتا
یہ سوچ کر میں د لجمعی سے اپنی فرینڈذ کےساتھ باعث مباحثہ میں شریک ہوگئی کیونکہ وہ ألجھن دور ہو گئی تھی کہ کون دیکھ رہا تھا ۔
میں اب گاہے بگاہے أس طرف بھی دیکھ لیتی اور أسے اپنی طرف متوجہ پاتی ۔ اب مجھے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ موصوف نے اتنی حسینائیں جوان اور نوخیز گرلز اور خواتین میں سے مجھے ہی نظرِالتفات کا نشانہ بنا رکھا ہے ۔ میں نے بھی أس کی طرف چور نظروں سے دیکھنا شروع کردیا جسے أس نے بھی محسوس کیا اور اب میں جب بھی اس جانب أچٹتی نظر ڈالتی تو أس کی نظروں کی تپش محسوس کرتی اور بے خیالی میں کئی بار میں مسکرا بھی دی أس کی نظروں سے اب طلب جھلکتی نظر آتی وہ اپنی نگاہوں سے اب مسلسل پیغام رسانی کا کام لے رہا تھا ۔ میں نہ ہی تو حوصلہ افزائی کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی یہ سلسہ ٹوٹنے دینا چاہتی تھی کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ مجھے اچھا لگ رہا تھا ۔ چاہے جانا پسند کئے جانا ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے اور ایک پنتالیس سالہ عورت کو ایک تیس پیتیس سال کا جوان نظروں ہی نظروں میں نہار رہا ہو تو یہ عورت ہی جان سکتی ہے ک وہ اندر ہی اندر کتنا خوش اور مسرور ہوسکتی ہے ۔ تو میں بھی أس طرف گاہے نظر ڈال لیتی اور ایک أچٹتی ہوئی نگاہ أس پر بھی ڈالتی ۔ وہ کوئی اجنبی ہی تھا کیونکہ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے افراد بھی أسکے ساتھ کوئی زیادہ بات چیت نہیں کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد میں نے بھی أس کی آنکھوں میں دیکھنا شروع کردیا اور کسی کسی وقت جھکی نظروں سے مسکرا بھی دیتی ۔ وہ اب زیادہ خوش نظر آنے لگا تھا اور اسکی نظروں میں ہوس صاف نظر آرہی تھی ۔ میں اپنی فرینڈذ کے ساتھ بھی محوِگفتگو رہی اور اس کے ساتھ بھی نہ جانے کہاں پہنچ چکی تھی ۔ دماغ تو ابھی تک دلائل کی جنگ میں مصروف تھا مگردلی اور جسمانی تقاضے مجھے سرنڈر کرنے پر رضامند کر چُکے تھے ۔ میں چور نظروں سے اپنی پسندیدگی اوررضامندی کا اظہار کر چُکی تھی اسکا اب دیکھنا میری ریڑھ کی ھڈی تک سرایت کر جاتا تھا ۔ایسے میں کھانا شروع ہونے کی اناونسمنٹ ہوئی تو ہم خواتین بھی ایک ڈائننگ ٹیبل جس پر کئی اقسام کی ڈشز لگی ہوئی تھیں سے اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا پروسنا شروع کردیا اور مرد حضرات اُسی ٹیبل کی دوسری سائڈ سے کھانا لینے میں مصروف تھے اتفاقا وہ صاحب میرے مقابل آگئےیا انہوں نے دانستہ کسی طرح ایسا منیج کیا تھا کہ ٹیبل کی ایک طرف سے میں کھانا لے رہی تھی اور میرے بالمقابل دوسری طرف سے وہ ۔ مجھ میں حوصلہ نہیں تھا کہ اس کیطرف برائے راست دیکھتی مگر میری نظریں أسکی پلیٹ پر تھیں کیونکہ جو کچھ میں اپنی پلیٹ میں ڈالتی وہ بھی وہی اپنی پلیٹ میں رکھتا ۔ سوچا ہو سکتا ہے ایسا اتفاق سے ہو رہا ہو میں نے اپنی پلیٹ سےایک چکن لیگ نکال کے رکھدی تو أس نے بھی ایسا ہی کیا میں نے اس کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہا تھا اور میں بھی دھیمے سے مسکرا دی ۔
ہم سب اپنی اپنی پلیٹس اورکولڈ ڈرنکس لے کر اپنی اپنی جگہ واپس آکے کھانا تناول کرنے لگے کھانا بہت زبرد ست او لذیذ تھا سب نے ہی شوق سے کھایا اور کھانے کے بعد پھر ہم سب سویٹ ڈشز کی طرف بڑھے میں نے چوکلیٹ پسند کیا مگر اس بار وہ صاحب کافی دور تھےاس لئے جب وہ واپس اپنی جگہ لوٹے تو میں نے دیکھا وہ صاحب ونیلا آئس کریم ذوق فرما رہے ہیںسب نے ہی اپنی اپنی پسند سےجو چاہا وہ لیا اور انجوائے کیا پھر اکا دکا شریکِ محفل کو واش رومز میں جانے کی حاجت ہوئی یہ تین بیڈ روم کا ہاؤس تھا اور باتھ روم تو بیڈ رومزمیں ہی تھے جو کہ دوسری منزل پر تھے اور نیچے صرف دو واش روم ہی تھے وہ بیک ڈور کے ساتھ ملحق تھے اور قدرے اندھیرے میں تھے کیونکہ اس طرف لائٹس کم تھیں ۔ مجھے بھی حاجت محسوس ہوئی تو میں بھی اس طرف گئی ایک دو پہلے سے ہی ویٹ کر رہے تھے کہ اندر جائیں میں بھی زرا ہٹ کے کھڑی ہو گئی اور باری کا انتظار کرنے لگی کہ اتنے میں وہ صاحب بھی میرے پاس آکے کھڑے ہو گئے ۔ ہماری نظریں ملیں مگر ہم ایک دسرے سے کچھ بولے نہیں ، اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی مگر آنکھوں میں شرارتی مسکراھٹ ۔ اب میں نے چور انکھیوں سے اس کی پرسونیلٹی کا جائزہ لیا وہ کوئی چھ فیٹ اور دو یا چار انچ کا قدآور بہت ہی سمارٹ ویل ایجوکیٹڈڈ پُر کشش شخصیت کا مالک ۔ قاتلانا مسکراہٹ کا حامل تھا آپ أسے لیڈی کلر بھی کہ سکتے ہیں
تھوڑی دیر کے بعد صاحب میرے ساتھ لگ کے کھڑے ہو گئے اور میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چُھونے لگے ۔ میں نے ادھر أدھر نظر دوڑائی کوئی ہماری طرف متوجہ نہ تھا اور روشنی کم ہونے کی وجہ سے صاف نظر آنا زرا ناممکن تھا ۔ أس نے آہستہ سے میرے ہات کو اپن ہاتھ میں لے لیا اور دبانے لگا میں کچھ کہ نہ سکی نہ ہی اپنا ہاتھ چھڑایا ۔ شاید یہ نادانستہ اسکی حوصلہ افزائی تھی کہ أس نے اچانک میرا ہاتھ اپنی پنٹ کی زپ کی جگہ رکھ دیا اس نے اوپن شرٹ پہنی ہوئی تھی اور شرٹ پینٹ کے اندر نہ تھی ۔ میں تو اس کی بے باکی اور حوصلہ پر حیران رہ گئی مگر زیادہ حیرانی مجھے اسکے مردانہ عضو کوچھو کر محسوس ہوئی کہ وہ کافی بڑا اور موٹا لگ رہا تھا اور نیم ایستاہ تھا اگرچہ پینٹ کے اندر ہی تھا مگر میں اس کو محسو س کر کے اپنی ٹانگوں تک کمزوری محسوس کرنے لگی – میں کافی پریشان ہوئی کہ اس کو اتن ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے ایسی حرکت کی دوسرا اس ابھار کو محسوس کرکے کہ یہ کوئی فیک ابھار ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا سائز کافی سے زیادہ بڑا لگ رہا تھا
میں اب بھی وہیں کھڑی تھی اور اب رہ رہ کر چور نگاہوں سے اسکے ابھار کو دیکھ لیتی من چاہ رہا تھا کاش ایک بار دبا کے دیکھ لیتی تو پتہ چل جاتا کہ أبھار کہیں فیک تو نہیں ابھار مزید ابھر کر بڑا ہو گیا ۔ میرا حلق خشک ہونے لگا تھا اور میں بے قراری محسوس کر رہی تھی ابھی واش روم میں جانے کے لئے ایک اور آدمی کے بعد میرا نمبر آنا تھا ۔ وہ میری حالت دیکھ رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ میں اتنی بیکل کیوں ہو رہی ہوں میں اسکے ابھار کو دیکھتی اور اپنےخشک ہونتوں کو زباں سے تر کرتی میرا سارا جسم تپ رہا تھا اس نے پھرہولے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ میں نے چھڑانے کی معمولی سی کوشش کی مگر اس بار اس کی گرفت کافی مضبوط تھی اور اس نے میرا ہاتھ پھر اپنے ابھار پر رکھ دیا ۔ اس نے کوشش کی کہ میں اسے پکڑ لوں ، تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ میرا ہاتھ اس پر رکھنے میں کامیاب ہوگیا میں بھی یہی چاہتی تھی مین نے اس کے اوپر ہاتھ پھیرا ور پھر اس کو دباکے دیکھا تو مجھےتسلی ہو گئی کہ اصل ہے فیک نہیں مگر میں یقیں نہیں کرپارھی تھی کہ کسی کا اتنا موٹا بھی ہو سکتا ہے




جلد ہی مجھے آس پاس کا خیال آیا کہ کوئی دیکھ ہی نہ لے اور اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا اور اسے دیکھے بنا ہی وہاں سے واپس لوٹ آئی ۔ اب مجھے سگریٹ کی سخت طلب ہوئی مگر سگریٹ کا پیکٹ تو باھر پارکنگ لاٹ میں کھڑی کار میؒں تھا ، پبلک گیدرنگ میں سگریٹ نوشی معیوب سمجھی جاتی ہے اس لئے سگیٹ پیکٹ کار میں ہی چھوڑ دیا تھا ۔ اب أس کا چُھو کرتو میں بے بس سی ہو گئی تھی مجھےسانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا مجھے تازہ ہواکی ضرورت محسوس ہو رہی تھی تو میں نے اپنے ساتھ آنے والی ھمسائی کو بتایا کہ میں سگریٹ کے لئے زرا باھر جار ھی ہوں اسے سگریٹ سے الرجی تھی اور نفرت کرتی تھی سگریٹ سے جس کی وجہ سے وہ خوش ہو گئی کہ کہیں میں نےاسے اپنے ساتھ آنے کو نہیں کہ دیا اور میں اسے بتا کر بیک ڈور سے بیک یارڈ میں پارکنگ لاٹ کی طرف نکل آئی ۔ ۔۔
میں سگریٹ کی طلب میں بیک ڈور سے بیک یارڈ میں نکل آئی اور اپنی کار کو دیکھنے لگی کہ کس طرف پارک کی تھی میں چونکہ شام سے پہلےآئی تھی أس وقت میں نے کار کو ایک سائیڈ میں ایک درخت کے نیچے پارک کیا تھا اور أس تک اتنے مہمان نہیں آئےتھے اور اتنی زیادہ وہیکلز نہیں تھیں ۔ اب اگرچہ سٹریٹ لائٹس کی کافی روشنی تھی پھر بھی مجھے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ گاڑی کھڑی کہاں تھی ریموٹ سے کار کی پارکنگ کامعلوم کرکےمیں اس جانب بڑھی اور جلدی سے سگریٹ پیکٹ اٹھا کے سگریٹ سلگایا اور ایک دو کش لے کرمیں وہیں کار کے بونٹ پر ہی بیٹھ کر سگریٹ سموک کرنے لگی ۔ موسم خنک تھا مگر مجھے تو گرمی محسوس ہو رہی تھی شکر ہے دیسی پارٹی ہونے کی وجہ سے میں شرٹ اور پاجامہ نما شلوار پہن کے آئی تھی ورنہ بھاری ملبوس ہوتا تو مجھے کافی پریشانی کا سامنا ہوتا ویسے بھی مجھے ہلکا پھلکا لباس ہی پسند ہے ۔ تکلفات سے کوفت ہوتی ہے اس لئے کسی سادہ لباس میں بھی پارٹی وغیرہ میں شریک ہو جاتی ہوں اور یہ پارٹی تو سماجی کارگزاری کی رپورٹ کے بارے میں تھی اور اب کھانے کے بعد سفینہ آپی جو کہ شوشل ورکر ہیں اورجس نے اس گیٹ ٹو گیدرنگ کا اہتمام کیا تھا نے ایک مووی کا پروگرام رکھا تھا جس میں ان کی پورے سال کی کارگذاری دکھائی جانی تھی ۔ میں نے سوچا ایک دو سگریٹ سموک کرکے میں بھی ان سب کے ساتھ شامل ہو جاؤنگی کہ ان سب میں تو وہ بھی ہوگا أس کا خیال آتے ہی میرے زہن میں أس کا ابھار أبھر آیا اور میری انگلیوں کو اس کا لمس ستانے لگا ۔ میرے سارے بدن میں ایک لہر سی دوڑ گئی اور میں سوچنے لگی جو کچھ میں نے محسوس کیا تھا جس کو چھوا تھا دبا کے دیکھا تھا اتنا موٹا بھی کسی کا ہوتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اب تک میں کافی برت چکی تھی کسی کا میں شکار ہوئی تو کوئی میرا شکار ہوا ۔ کسی کا لمبا کسی کا موٹا ہر طرح کے مردانہ اوزار برت چکنے کا اتفاق ہوچکا تھا ۔ مگر اتنا موٹا میں نے پہلی بار چھو کر دیکھا اور دبا کر جانچا تھا۔ میں شاید تکلف سے کام لے رہی ہوں اور کچھ شرما بھی رہی ہوں کہ اس عضو مردانہ کو کیا کہ کرلکھوں ۔ ایک وقت تھا جب دیسی عورت کے لئے خاوند کا نام لینا یا أسے نام سے پکارنا بہت مشکل ہوتا تھا اب خیر نام تو بگاڑ کر بھی ہم لے لیتی ہیں مگر ان کا اوزار منہ میں تو ڈال لیتی ہیں مگر أسے کہنا کافی مشکل محسوس ہوتا ہے ویسے اس کا ننم لینا یا کہنا کافی سیکسی معلوم ہوتاہے اور مردوں کو تو عورت سے اسکا نام کہلوا کر کچھ زیادہ ہی مزہ آتا ہے مجھے یا د ہے جب شادی ہوئی تھی تقریبا پچیس برس پہلے ، شادی کے دوسرے یا تیسرے روز میرےخاوند نے اپنا اوزارمیرے ہاتھ میں دے کر پوچھا تھا کہ اس کو کیا کہتے ہیں ۔ میں کیا بتاتی شرم سے گلنار ہوگئی اور میں نے کہ دیا میں کیا جانوں ۔ ۔ اب میاں ضد کرنے لگے کہ بتاؤ تومیں نے کہا آپ بتا دیں
تو انہوں نے بتایا اس کو لن کہتے ہیں لنڈ بھی کہتے ہیں ھم پنجابی ہیں اس کو لوڑا کہتے ہیں۔
پھر پوچھنے لگے تمہیں یہ کیسا لگتا ہے؟
۔ میں بولی کیا مطلب؟
تو بولے تم کو اچھا لگتا ہےیا نہیں ۔
میں شرما گئی اور چپ رہی، انہوں نے میری ٹھوڑی انگلی سے اوپر اٹھائی اور میرے
ہونٹوں کو بوسہ دے کر پوچھا بتاؤ ناجان اچھا لگتا ہے
تو میں نے اقرار میں سر ہلایا، پھر وہ بولے جان بتاؤ اچھا لگتا ہے کہ پیارا۔
میں پھر چپ ، انہوں نے پھر پوچھ بتاؤنا پلیز
ہم میاں بیوی ننگے ہی تھے تو میں نے لن کو دیکھا جو سر اٹھا کے اکڑا ہوا لہرا رہا تھا
سچی بہت پیارا لگ رہا تھا ۔ میں نے لن کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ایک ہی بات ہے اچھا لگنا یا
پیارا لگنا وہ کہنے لگے نہیں تم بتاؤ ۔ میں بولی اچھا بھی اور پیارا بھی ۔
وہ کہنے لگے چلو ٹھیک ہے تم اس کو پیار کرو منہ میں لے کر
میں نے کہا کبھی نہیں ایسا تو میں نہیں کرسکتی اتنا گندہ اور منہ میں ۔
بولنے لگے تم نے خود ہی کہا ہے پیارا لگتا ہےتمہیں تو پیار کرو اسے ،
میں سوچنےلگی کیا کروں عجیب الجھن میں پھنس گئی ہوں نئی نئی شادی ہوئی تھی ماں کی
ہدایت تھی جیسے مجازی خدا کہے کرنا اور وہ کہ رھا تھا لن منہ میں لوں ۔[اس وقت انٹرنیٹ نہیں تھا اور لن کو منہ میں لینا ایک معیوب بات تھی اب تو سٹارٹنگ ہی بلوجاب اور سکسٹی نائن سے ہوتی ہے ۔ ہاں مرد لوگوں کو شاید معلوم ہوتا تھا اسی لئے میرے میاں یہ فرمائش
کر رہے تھے ] خیر انکی ضد ی فرمائش کو دیکھتے ہوئے میں نے ان کے لن کو ایک بوسہ دیا پھر ایک بار پھر چوما اور تیسری بار چوما تو کہنے لگے کہ منہ میں لو ناں پلیز ۔ تو
میں نے معزرت کرلی کہ پھر کبھی آج نہیں وہ مان گئے سوچا ہوگا اج نہیں تو کل یا پرسوں
اور ان کی سوچ بجا تھی کہ أنے والے دنوں میں ہم ایک دوسرے کی خواہش کے مدِ نظر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے تھے ۔
اب وہ میری چوت کو سہلاتے ہوئےپوچھنے لگے کہ تمہاری اس کو کیا کہتے ہیں ، میں نے کہا آپ تو جانتے ہیں مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں تو وہ اس کو انگلیوں سے چھوتے ہو ئے کہنے لگے اس پیاری کو چوت بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی میری چوت کا بوسہ لے لیا میں تو حیران ہوگئی کہ کوئی چوت جیسی گندی چیز کو بھی چومتا ہے مگر میں کچھ کہ نہ سکی انہوں نے اسے چومنا شروع کردیا اور انگلی سے کھجاتے بھی جا رہے تھے ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اپنی زباں کی نوک سے چوت کو کھجایا اور پھر تو باقاعدگی سے چاٹنے لگے مجھے بہت مزہ آرہا تھا مگر ان کو میں روک بھی رہی تھی میں ان کے بال پکڑکے انہیں اوپر کھینچنے کی کوشش کرتی مگر جب انکی زبان چوت کے اندر جاتی تو سر کو اور چوت کی طرف دبا بیٹھتی یہ شاید ہماری شادی کا تیسرا دن تھا اور انہوں نے مجھے ایک نئے مزہ سے روشناس کیا۔ اخر وہ میرے اوپر آگئے اور میرے منہ میں اپنی زباں دے دی میں تھوڑی دیرپہلے جس چیز کو گندہ کہ رھی تھی اب اسی کا رس انکی زبان سے چو س رھی تھی ۔ ان کا چاٹنا غضب ڈھا گیا تھا اور میں ان کو بے خودی میں دیوانوں کی طرح چومنے لگی تھی ، ایک زبردست چدائی کا دو ر چلا پھر باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا
پنجاب میں چوت کو پُھدی بھی کہتے ہیں اور جس علاقے سے میں تعلق رکھتی ہوں وہاں اسے تیتا اور کُس کا نام بھی دیا گیا ہے

Like Reply
سوری میں ٹاپک سے ہٹ گئی میں اس صاحب کے بارے سوچ رہی تھی اب تک مجھے اس کے لمس کا احساس ہو رہا تھا اس کا لن اتنا موٹا تھا کہ اسے لوڑا ہی کہنا اچھا لگتا ہے دل کرتا تھا کہ کسی طرح اسکا لے لوں پہلے تومیں اسکی نظروں کا شکار ہوئی اور اس کی طرف کھینچتی چلی گئی مگرجب سے اس کےلوڑے کو چھوا تھا وہ میری چوت کی مانگ بن گیا تھا اور اب مجھے کوئی ایسی تدبیرنہیں دکھائی د ے رہی تھی ۔ میں اب تک دو سگریٹ پھونک چکی تھی اور تیسرا سُلگا چُکی تھی ، میرا دھیان بار بار اس کے أبھار کی طرف پلٹ جاتا جس کی وجہ سے میری چوت میں بھی کھجلی ہونے لگتی ۔ ملگجی اندھیرا ہونے کی وجہ سے کسی کےدیکھنے کازیادہ امکان نہیں تھا میں کئی بار شلوار میں ہاتھ ڈال کر پینٹی کو چیک کرچکی تھی پینٹی گیلی تھی اور چوت مسلسل لییک ہو رہی تھی یہ اس لوڑے
کے لئے چوت کی ضد اور فرمائش تھی مگر کیا کروں ۔ اس سے جاکر میں فون نمبر لوں یا اس پرچھوڑ دوں کہ وہ کیسے اور کس طرح مجھے شکار کرتا ہے ۔ ا سکی آنکھوں میں اپنے لئے جوطلب دیکھی تھی مجھے یقین تھا وہ کچھ نہ کچھ تدبیر سوچ چکا ہوگا ۔
اور میں اس کا لوڑا چُھو کر اور دبا کر دانہ ڈال آئی تھی وہ ضرور چبائے گا پھر خیال آتا کہ کیا معلوم وہ فلرٹ ہو اور جب اس نے دیکھا کہ میں سرنڈر کرچکی ہوں تو وہ مطمئن ہو کر سب کچھ بھول چکا ہو ایسے ہی خیالوں میں گرفتار چوت کو سہلاتی اور اس کو تھپکتی رہی ۔ میں نے پاجامہ نما شلوار پہن رکھی تھی جس میں آزار بند کی جگہ الاسٹک ڈالا ہوا تھا اور شلوار میں ہاتھ ڈالنا نکالنا اسان تھا ۔
ایسے میں خیال آتا نہ جانے کس قسم کا آدمی ہو کیونکہ میں نےنہ کبھی پہلے دیکھا نہ ملی تھی وہ ایک اجنبی تھا اور میں اس سے ہار مان چکی تھی وہ کسی بھی وقت مجھے برت سکتا تھا میری بے قرار طبیعت کو چین نہیں آرہا تھا میں جانتی تھی جب تک اس سے کروا نہ لوں مجھے قرار ملنا مشکل ہوگا جب من کسی سے چُدوانا چاہے تو پھر جب تک وہ چُود نہ لے
تب تک چُوت کی کُھجلی تن بدن میں آگ لگائے رکھتی ہے ۔
اتنے میں جس دروازہ سے میں آئی تھی وہاں کسی نے سگریٹ سلگائی ، کوئی سگریٹ پینے باہر آیا ہوگا ۔ مجھے وہ ہیولہ کی طرح نظر آرہا تھا لائیٹس تو تھیں مگردرختوں کی وجہ سے روشنی مدھم ہی تھی ۔ میں نے سگریٹ کا کش لیا اور وہ ہیولہ جو دروازے کے آگے چہل قدمی کر رہا تھا کے قدم رک گئے اور میری جانب دیکھنے لگا میں نے ایک اور کش لیا تو وہ ہیولہ میری جانب چل پڑا وہ بڑی آہستہ خرامی سے چہل قدمی کے انداز میں میری طرف ہی آرہا تھا کچھ نزدیک آنے سے اتنا تو معلوم ہو گیا کہ وہ کوئی مرد ہے عورت نیہیں مگر پہچاننا مشکل ہی تھا کہ کون ہے ۔ میں عجیب امید وبیم کی زد میں تھی من دعا کرتا کہ کاش وہی ہو اور دماغ کہتا کہ نہ ہو تو اچھا ہے اب وہ سگریٹ کے کش لگاتا میری جانب بڑھتا آرہا تھا کہ میرا سانس اوپرکا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا میں نے
اسے پہچان لیا تھا ۔ میری طلب کا جواب اجنبی کی صورت نزدیک پہنچ چکا تھا میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ک کیا کروں یوں ہی بیٹھی رہوں یا دوڑ کر اس کے گلے لگ جاؤں یا کہیں چُھپ جاؤں وہ سامنے آچکا تھا کہ اچانک کوئی عجیب سی اواز سنائی دی اور میں اس طرف متوجہ ہو گئی اب وہ سگریٹ کے کش لگاتا میری جانب بڑھتا آرہا تھا کہ میرا سانس اوپرکا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا میں نے اسے پہچان لیا تھا ۔ میری طلب کا جواب اجنبی کی صورت نزدیک پہنچ چکا تھا میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ک کیا کروں یوں ہی بیٹھی رہوں یا دوڑ کر اس کے گلے لگ جاؤں یا کہیں چُھپ جاؤں وہ سامنے آچکا تھا کہ اچانک کوئی عجیب سی اواز سنائی دی اور میں اس طرف متوجہ ہو گئی ۔ وہ درخت کے اوپر سے کسی پرندے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے اندازہ ہوا کوئی پرندہ ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پرگیا تھا ۔ میری نظر پھر سامنے کی طرف گئی وہ قریب آچکا تھا اور میں وہاں بے حسِ وحرکت اس کی جانب ایسے دیکھے جارہی تھی جیسے کوئی سحر زدہ ہو یا جیسے کسی کو ہپٹنائز کر دیا گیا ہو ۔ وہ میرے سامنے آکے کھڑا ہوگیا ہماری نظریں ملیں اس کے کی تاب نہ لاتے ہوئے میں نے نظریں جھکا لیں اور اب میں اس أبھار کی جانب متوجہ ہو گئی جو اب بھی نظر ا رہا تھا۔ نہ اس نے کچھ کہا نہ میں ہی کچھ بول سکی ۔ میں وہیں کار کے بونٹ پر ہی بیٹھی رہی اور وہ میرے نزدیک سامنے آ کے کھڑا ہوگیا ۔ اچانک أس نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور دیکھنے لگا پھر جھک کر اس نے میری پیشانی پر ایک بوسہ دیا ایک سکون کی لہر میرے سارے بدن میں دوڑ گئی اس نے باری باری میری دونوں آنکھوں کو چوما اور پھر میرے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ اس وقت اس کی نظروں میں مجھے اپنے لئے بے پناہ پیار نظر آیا ۔ میرے دل سے اب اس سے اجنبیت کا احساس کم ہونے لگا وہ میرے ہونٹوں کو اپنے انگوٹھے سے چھو رہا تھا اور ہلکا ہلکا ان پر مساج کر کررہا تھا جس کی وجہ میرے ہونٹ تشنگی سے جل رہے تھے ۔ پھر اس نے میری نظروں میں دیکھتے ہوئے اپنے گرم ہونٹ میرے پیاسے لبوں پر رکھ دئے اور ان کا بوسہ لے کر پھر میری طرف دیکھا ۔ مجھے عالم سُپردگی کی کیفیت میں دیکھ اس نے میرے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور چُوسنے لگا اس کے لبوں کے چوسنے کے انداز سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ ایکسپرٹ کسر ہے میں بھی اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگی اوراس کی زبان کو اپنے منہ میں لے لیا اس کی زبان میرے مُنہ کے ہرحصہ کو چھو رہی تھی کہ میں اس کی زبان کو ہونٹوں میں دبا کر چُوسنے لگی ۔ وہ اسی طرح میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامے میرا ساتھ دے رہا تھا ۔ مجھے اس کے ابھار کا خیال آیا تو میں نے اسی حالت میں اس کی پنٹ کی زپ کو اوپن کر دیا چونکہ وہ میری ٹانگوں کے بیچ میں کھڑا تھا اس لئے اس راسکل کو میں باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی اسکو ہاتھ میں لیتے ہی بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی وہ اس وقت پوری مستی میں تھا گرم گرم اور تقریبا ساڑھے چھ یا سات انچ لمبا ہوگا جو کہ میری پسندیدہ رینج ہے مگروہ ہاتھ میں سما نہیں رہا تھا کافی سے زیادہ موٹا تھا میں نے آج تک ایسا موٹا لوڑا نہ دیکھا نہ لیا تھا اور اس کو ہاتھ میں لے کر جہاں مجھے اچھا محسوس ہو رہا تھا وہیں کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا ۔ مگر اب یہ بات تو طے تھی کہ ہم دونوں ہی چدائی پر امادہ تھے اور مجھے یہ رسک لینا ہی تھا اس کو چوت میں لئے بنا اب شاید چین نہ پا سکتی اور میں اسے زندگی بھر کے لئے حسرت نہیں بلکہ پُر مسرت اور یادگار واقعہ بنا دیناچاہتی تھی ۔ وہ میرے لبوں کو چوسنے میں مشغول تھا اور میں نے اسکی بیلٹ کھول دی تاکہ پینٹ کو نیچے سرکا دوں پینٹ کا فرنٹ بٹن کھولا تو لوڑے نے مکمل آذادی کا سانس لیا میری چوت اسکو خیر مقدم کہنے کے لئے بے قرار تھی اور گیلی تو وہ کب سے تھی بلکہ اب تو ٹپکنے کے قریب تھی جاری ہے




میں یوں ہی وہاں سر کو نیچے کی جانب جھکانے کی کی کوشش کرنے لگی کہ اس نے میری زبان چوستے ہوئے میرے سر کو ہاتھ میں پکڑ کر مجھے لیٹنے میں مدد کی اور اب میری ٹانگیں تو لٹک رہی تھیں مگر میری پشت کار کے بونٹ پر ٹک گئی تھی اور وہ مجھ پر جھکا ابھی تک میرے لبوں سے کھیل رہا تھا ۔ اس طرح اب وہ مرے بدن پر لیٹا ہوا تھا اور اسکا مست لوڑا میری پُھدی سے ٹکرا رہا تھا اور میری شلوارنما پاجامہ کو رگڑ رہا تھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ اب شلوار کو اتارے گا اور میری چوت کےدرشن کرے گا مگر وہ ابھی تک میرے ہونٹوں سے دل بہلا رہا تھا ۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر شلوار اور پینٹی کو نیچے سرکانے کی کوشش کی اور تھوڑی دیر میں ہی میری شلوار اور پنیٹی میرے چوتڑوں سے اتر گئی تھیں مگر پوری طرح سے نہیں میں نے اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی شلوار کے لاسٹک پر رکھ دیا اس کی شاید سمجھ میں آگیا تھا کہ میں کیا چاھتی تھی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میری شلوار اور پینٹی نیچے کردی مگر اس نے میرے ہونٹوں کو ہونٹوں میں رکھا تھا ابھی تک ہم دونوں میں کسی قسم کی بات چیت نہ ہوئی تھی میں نے کوشش کرکے اپنی ٹانگوں اور پاؤں کی مدد سے اسکی پینٹ انڈر وئر گھٹنوں تک گرا دیئے اور اپنی شلوار اور پینٹی کو ایک ٹانگ کی مد سے دوسری ٹانگ سے نکال دیاتھا اب اس کا لوڑا ڈائریکٹ میری چوت سے مس ہوتا تھا اور ادھر أدھر ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا ۔ میری بے قراری بڑھ رہی تھی وہ لوڑے کو اسی طرح چو ت میں ڈالنے کی کو شش کر رہا تھا مگر لوڑا چوت سے پھسل جاتا لوڑےکا سر اتنا موٹا تھا جب تک اس کو چوت پر رکھ کر آگے نہ کیا جاتا وہ اندر جانے سے قاصر رہتا مجھے بڑا مزہ آرہا تھا جب لوڑا چوت سے ٹکراتا اور پھسل کر چوت کے دانے کو مسلتا ہوا میری ناف کی جانب سرکتا تو میں نہال ہوجاتی اخر لوڑے کو میں نے اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اور اسکو چوت پر رگڑنے لگی ۔ چوت تو اس کے استقبال کے لئے تیار تھی اور اسے لینے کے بے تاب تھی ۔ چوت کے لب تھرتھرا رہے تھے وہ اتنے بڑے موٹے لوڑے کا چیلنج قبول کرچکی تھی ۔ میں نے لوڑے کو پکڑ کر چوت پر رگڑنا اور پھسلانا شروع کردیا کبھی اوپر سے کبھی چوت دانے سے نیچے چکنی گیلی گلی تک ۔ وہ اب تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور اپنی ٹانگوں کو کھولا ۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ لوڑے کو چوت میں ڈالنے کی تیاری کر رہا ہےاور نشانہ فکس کر رہا ہے میں نےچُوت کے لب کھول کے لوڑے کے سر کو وہاں مسلنا شروع کر دیا اس لئے چوت بھی مہمان کے استقبال کے لئے تیار تھی ۔ اس نے میرے لب آذاد کئے اورمیری آنکھوں میں دیکھنے لگا جیسے اجازت مانگ رہا ہو میں نے شرمیلی رضامندی سےنظر جُھکائی اور أس نے اسی پل ایک ہی جھٹکا سے لوڑے کو گہرائی تک پہنچا دیا ۔ ظالم
نے بنا کسی تردد کے ایسی مستی دکھائی کہ میری چوت کے بخیئے ادھیڑ دیئے۔ درد کی لہر میں نے اپنی کمر تک محسوس کی اگر میرے لب اس نے اپنے منہ میں نہ دبا رکھے ہوتے تومیری آواز نجانےکہاں تک جاتی ۔ میں نے جلدی سے اس کے چوتڑوں کو پکڑ لیا کہ کہ پھر دھکا لگانے کے لئے لوڑے کو نہ ہلائے ۔ میں چاھتی تھی کہ پہلے لوڑے کو چوت میں ایڈجسٹ کرلوں ۔ وہ سلو ٹائپ نظر آتا تھا اتنی بے دردی سے اس کی طرف سے اٹیک کا کوئی امکان نہ تھا مگر أس نے ایک منجھے ہوئے شکاری کی مانند شکار کے کمزور لمحات سے فائدہ أٹھایا تھا اب میں نیچے اپنے چوتڑ تھوڑے آگے پیچھے کئے اور لوڑے کو کچھ سٹ کیا ۔ میں نے سات انچ سے زیادہ لمبے اور ڈھائی انچ تک موٹے لن بار ہا لئے تھے مگر یہ تین انچ سے زیادہ موٹا لوڑا اور اسکی اس سے بڑی ٹوپی کے ساتھ کبھی لینے کا اتفاق نہ ہوا تھا اور مجھ اندازہ ہو رہا تھاتا کہ وہ سات انچ سے بھی زیادہ لمبا لوڑا ہے ۔ اب اس نے میری شرٹ نما کُرتا میں ہاتھ ڈال کر میرے مموں کو دبانا شروع کردیا جو کہ نہ جانے کب سے اپنے نظرانداز کئے پر شاکی تھے اس کا لوڑا چوت میں تھا اور وہ میری شرٹ کے بٹن کھولکر میرے مموں کو برا سے آذاد کر چکا تھا اور نپلز کو ہاتھ کی انگلیوں سے مسلنے لگا میری چوت میں چیونٹیاں سی کاٹ رہی تھیں اور میں اپنے چوتڑ ہلا کر لوڑے کو ایڈجسٹ کرنے میں لگی ہوئی تھی اس نے میرا نپل منہ میں لے کر زرا سا ہٹ کر ایک زور کا دھکا لگایا اور اسی وقت لوڑے کو پیچھے چوت کے منہ پر لا کر ایک جھٹکے کے ساتھ پھر اندر داخل ہوا ۔ اگرچہ اس کا حملہ شدید تھا مگر ایک طرح سے اچھا ہی ہوگیا کہ چوت کی چُولیں کچھ ڈھیلی ہو گئیں اور لوڑے سے کمنٹمنٹ کے قابل ہوگئی ۔ اب درد کی جگہ اچھ لگ رہا تھا اورچوت کی باچھیں کِھلنا شروع ہو گئیں کہ وہ اتنے بڑے مونسٹر کو برداشت کر رہی ہے اب وہباری باری میرے مموں کو منہ میں لیتا اور ہاتھوں سے دباتا اور اکا دکا دھکا بھی لگا دیتا۔مجھے اب لوڑے پر پیار آرہا تھا یوں لگتا تھا لوڑے نے چوت کے وہ مسل بھی چھو لئے جن کو آج تک کوئی چھو نہیں سکا تھا ۔ اب وہ بھی اپنے لوڑے کو کبھی آہستہ اور کبھی زور
کے دھکے کے ساتھ چوت میں ہلا رہا تھا ۔ اس کو چودنے کا فن آتا تھا کس وقت کس جگہ کو رگڑکے گذرنا ہے اور کس وقت کس ہدف کو چوٹ لگانی ہے اسے اندازہ تھا یا وہ میری طلب کو سمجھ رہا تھا کہ میں چوت کے جس حصہ کو کھجانے کی حاجت محسوس کرتی تو وہی جگہ کھجارہا ہوتا میرا من کرتا کہ وہ ہٹ کے زرا زور سے جھٹکا لگائے وہ ایسا ہی کرتا میری چوت کو مزے پے مزہ آرہا تھا یوں لگ رہا تھا چوت میں نہ جانےکتنے مسام ہیں جو رِس رہے ہیں چوت کی تو آج لاٹری نکل آئی تھی ۔ وہ میرے ممے منہ میں ڈالے چوپا لگا رہا تھا اور اب اس نے میرے چوتڑ تھوڑے اٹھا کر پیچھے کھینچے اور میری ٹانگیں اپنی کمر کے آس پاس کیں ۔اوراس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو میرے بازووں کے نیچےسے گذارر کرمیرے دونوں شانوں کو پکڑ لیا اور میرے ہونٹ چومنے لگا اور گردن چومتے ہوئے پھر مموں کو منہ میں ڈال لیا اور اس کے ساتھ بڑے پیار سے ہولے ہولے دھکے لگانے لگا اور جس لوڑے سے میں ڈر رہی اب وہ بڑی اسانی کے ساتھ آگے پیچھے ہو رہا ۔ مجھے مزے کی لہر پر لہر آرہی تھی میں نے بھی اب اس کےدھکوں کا ساتھ دینے لگی اور لوڑا میری چوت میں پھسلتا سرکتا چوت کی دعائیں لےرہا تھا ۔ اس کے دھکوں میں شدت أنے لگ گئی تھی چونکہ ا س نےمجھےشانوں سے پکڑ رکھا تھا اس لئے میری پیٹھ کو اتنی رگڑ نہیں لگ رہی مگر چوت اچھی طرح چُد رہی تھی کہ اب اس نے سیدھا ہو کر میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا اس طرح میری چوت اور لوڑ دونوں بالمقابل آگئے تھے میری ٹانگوں کے بیچ وہ کھڑا ہوگیا او میری ٹانگوں کو اس نے شانوں پر رکھ لیا ۔ میں سمجھ گئی کہ وہ اب جم کےچودائی کرنے کا ارادہ کر چکا ہے اب اس نے سیدھا ہو کر میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا اس طرح میری چوت اور لوڑا دونوں بالمقابل آگئے تھے میری ٹانگوں کے بیچ وہ کھڑا ہوگیا او میری ٹانگوں کو اس نے شانوں پر رکھ لیا ۔ میں سمجھ گئی کہ وہ اب جم کےچودائی کرنے کا ارادہ کر چکا تھا ۔ أس نے لوڑے کو چوت کے دہانے پر رکھا اورمیں سنبھل گئی کہ وہ ایک ہی جھٹکے سے اندر کردے گا مگر اس نے لوڑے کو چوت پر مسلنا شروع کر دیا اور مسلتے مسلتے لوڑے کا ٹوپا اندر کر دیتا اور باھر کھینچ کر پھر مساج شرو ع کردیتا وہ بڑے اطمینان اور ارام سے اسی شغل میں لگارہا اور میں مزے کے دھارے میں بہتی رہی اس نے میری ٹانگوں کو شانوں سے اتار دیا ۔میرے پاؤں اب بونٹ پر تھے اور وہ میری ٹانگوں کے بیچ کھڑے ہو کر اس نے چوت میں ہولے ہولے لوڑا داخل کرنا شروع کیا اور کچھ اندر ڈال کے رک گیا اور میرے چوت کے دانے کو انگھوٹھے سے مسلنے لگا میں تو نہ جانے کہاں پہنچ گئی تھی ایک سرور کی وادی تھی اور میں تھی ۔ میری چوت نے لوڑے کو بھینچنا شروع کردیا جیسے جیسے وہ مساج کرتا میری چوت کے مسل لوڑے کو زور سے جپھی ڈالتے وہ بھی اس سے محظور ہو رہا تھا اورمیں خوش تھی کہ وہ مزہ لے رہا ہے اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کو پکڑا اور اچانک ہی پورا لوڑا اندر کردیا اس بار تکلیف نہیں ہوئی بلکہ جب اس نے چوٹ لگائی تومزا دوگنا آیا اس نے ہولے ہولے دھکے لگانے شروع کر دئیے اور مجھے مزے پے مزا انے لگا ۔ میں بھی نیچے سے اس کو جواب دینے لگی جس سے اسے اور جوش آیا اور وہ مست ہوکر زور زور سے دھکے لگانے لگا میری چوت کے چُول ڈھیلے ہو چکے تھے اس میں اتنا پانی رِس چکا تھا کہ اب لوڑا کے کسی دھکے کا کوئی خوف نہ تھا بلکہ اب چوت زیادہ زور کی رگڑ کی خواہشمند تھی میری اب ہر سانس کے ساتھ لذت بھری آہیں نکلتی اس کا ہر دھکا ہی مجھے زیادہ مزیدار لگتا کہ اس نے پھر میرے بازووں کے نیچے سے میرے شانوں کو ھاتھوں میں پکڑا اور چھوٹے مگر بڑی شدت کے ساتھ دھکے لگانے شروع کر دئیے اس کی شپیڈ کے بڑھنے سے چوت کو زور سے رگڑا لگنے سے سواد چوکھا آرہا تھا ۔ چوت کی تو آج لاٹر نکل آئی تھی کئی بار ڈھیلی اور کئی بار پھر تیار ہونے کی وجہ سےوہ اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوتی رہی اور اپنی طرف سےاس نے بھی لوڑے کو بڑی گرمجوشی دکھائی تھی ۔ لوڑے کی تیز رفتاری کا ساتھ دینے کی کوشش میں چوت کچھ زیادہ ہی ایکٹیو ہونے لگی تو ایک دو بار لوڑا چوت کے باھر نکل آیا کیونکہ جب لوڑا چوت کے منہ پر تھا تو چوت نے آگے ہونے کی بجائے پیچھے ہٹ کر آگے ہوئی اور اتنے میں لوڑا باھر نکل کے چوت دانے کو رگڑتا آگے پھسل گیا جس کی وجہ سےچوت کی جلد چھل گئی اور لوڑا واپس ہٹ کر چوٹ لگانے لگا تو میں نے جلدی سے ہاتھ سے پکڑ کر أسے اندر داخل ہونے کی راہ دکھائی ۔ اب اس نے تو مجھے ہاتھوں میں جکڑ رکھا تھا اس کے ہونٹ میرے نپلز چوسنے میں مگن تھے اس کا لوڑا کبھی تیزی دکھاتا تو کبھی آہستہ خرامی سے چوت کو چھیڑتا ۔ مجھے ہر طرح سے اچھا لگ رہا تھ بلکہ میرے لئے اندازہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ اس کا زور کا دھکا مجھے زیادہ مزا دے رہا ہے یا آہستگی سے آتا جاتا لوڑا 

Like Reply
میرا ایک ہاتھ اسکے بالوں میں پھررہا تھا اور دوسرا ہاتھ اس کی پیٹھ کو سہلا رہا تھا مجھے اس پر بے انتہا پیار رہا آرہا تھا ۔ جس خوبی سے وہ چود رہا تھا اس کے لئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھی ۔ اب وہ زیادہ جارحانہ انداز میں دھکے لگانے لگا اور ان میں تیزی بھی آگئی تھی وہ اب منزل ہونے کے قریب تھا اس کی سانسیں تیز ہو گئں اور میری گردن پر محسوس ہو رہی تھیں میں نے ٹانگوں کو اسکی کمر کے گرد کس لیا اور اپنے بازو اس کی کمر کے گرد اور اسے زور سے بھینچنے لگی وہ اب زور لگاتے ہو ئے ہانپنے لگا تھا
اور اس خنکی میں بھی پسینہ اس کے سارے جسم پر نمودار ہو چکا تھا میں کب کی کئی بار منزل ہوچکی تھی مگر اس کو مزہ کی انتہائی بلندی پر دیکھتے میرا لاوہ پھر أبل ٹھا اور اسنے آخری دو چار جھٹکوں میں مجھے رگڑ کر رکھ دیا اور آخری دھکا مار کر وہ مجھ پر ڈھے چلا گیا اس کے ساتھ ہی اس کے گرم مادہ کا ایک سیلاب میرے تُرس مادے کے ساتھ مل گیا مجھے ایک گونا گوں راحت کا احساس ہوا جیسے چوت کی ٹکور ہو گئی ہو میں نے ٹانگوں کو اسکی کمر سے ہٹا لیا اور اسکی کمر پر اپنے ہاتھوں سے مساج کرنے لگی ۔ ہاتھ پھیرنے لگی اور ساتھ ساتھ اس کو چومنے لگی اس کی سانسیں ابھی تک بے ترتیب تھیں ۔ اس کے ہاتھ ابھی تک میرے شانوں کو پکڑے ہوئے تھے۔اور لوڑا اپنی آخری حدوں کو چھو کر وہیں ٹک گیا تھا ۔ اس کے چہرے کی بوسے لیتے ہوے میں نے ہاتھ سے اسکے بالوں میں کنگھی کی اس کے بال ایسے گیلے تھے جیسے ابھی نہا کرآیا ہو اب اس نے بھی مجھے چومنا شروع کردیا میرےچہرے اور گردن پر ۔ ابھی تک اس کا لوڑا میری چوت میں تھا حیرت کی بات کہ ابھی تک اکڑا ہوا تھا ۔ آدمی جب ریلیز ہوتا ہے تو لن اسی وقت ڈھیلا ہو جاتا ہے مگراس کا لوڑا پوری ایستادگی کے ساتھ کھڑامیری چوت کو محسوس ہو رہا تھا
وہ آٹھا اور جب کھڑا ہونے لگا تو لوڑا بھی چوت کے باہر آگیا وہ اپنے مادہ اور میرے رس سے لپٹا ہوا تھا تھا اس نے اپنی جیب سے رومال نکال کر پہلے اپنا لوڑا صاف کیا اور پھر میری چوت کو بھی صاف کیا جو بھی مواد اسے ملا وہ رومال میں سمو لیا۔ می بھی أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ گرمی نکل چکی تھی اور اب کچھ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی مگر اس کا لوڑا دیکھا تو حیران رہ گئی اور خود سے پوچھنے لگی ارے نازو تو نے اتنا بڑا مونسٹر کو کیسے جھیل لیا ۔ وہ دکھنے میں بھی بڑا پیارا لگ رہا بڑا کیوٹ ۔ اس کے چودنے سے پہلے میں نے چھوا اور پکڑا تو تھا مگر اسے دیکھا نہ تھا ۔ اب جو دیکھا تو اتنا پیارا لگا کہ دوبا را اس سے چُد جانےکے لئے چوت تیار ہو گئی ۔ بالکل سیدھا لمبا سانولے رنگ کا ایک موٹا تازہ لوڑا جو ہر عورت کا خواب ہوتا ہے ۔ میرا دل کر رہا تھا میں اسے چوم لوں وہ پیارا ہی اتنا تھا اور بڑی بات ابھی تک وہ سر اٹھائے کھڑا تھا ۔ میں نے لوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اجنبی میرے ساتھ بونٹ پر ہی ٹک گیا اور میرے گلے میں بازو ڈال کر میرا چہرہ اپنی طرف کر کے میرے لبوں کو چومنے لگا میں نے لوڑے کو ہاتھ میں لیا اور اسے مُٹھانے لگی اس کے ہاتھ میرے مموں سے کھیل رہے تھے اور وہ دیوانہ وار مجھے چومےجا رہا تھا ۔ صاف ظاہر تھا وہ مجھے دوسری بار کے لئے تیار کر رہا تھا ۔ جب کہ میں تو پہلے ہی موڈ بنا بیٹھی تھی اب میرا دل چاہا لوڑے کو پیار کروں تو میں نے جلدی سے سر نیچے کرکے اسے چوم لیا اور دوسری بار چومنےگی تو اس نے مجھے بالوں سے پکڑ کےمیرا چہرہ اوپر اٹھا کے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دئے ۔ میں ہاتھ میں اس کے پیارے لوڑے کو لئے ہوئے تھی اور سوچ رہی یہ مرجھایا نہیں حالانکہ ایک جگ یہ منی نکال چکا تھا اور اسےکچھ ریسٹ تو کرنی تھی مگر وہ کھڑا تھا اور چودنے کے لئے تیار تھا ادھر میری چوت چودوانے کے لئے بیقرار ہو رہی تھی مجھے اچانک ایک خیال آیا تو میں اجنبی کی طرف دیکھنے لگی کہ اتنے بڑے موٹے لوڑے کا مالک ملٹی اورگیزمک بھی ہے ۔ بہت ہی کم مرد اس قابل ہوتے ہیں ایک ہی ایرکسن میں دو بار ریلیز ہوں ہم عورتیں زیادہ بار ، بار آور ہوتی ہیں مگر اس نعمت سے سو میں سے کوئی ایک مرد ہی مالا مال ہوتا ہے ۔ یہ پڑھ بھی رکھا تھا اور ہم فرینڈز اس پر بحث بی کرتیں کہ جس کا خاوند یا یار دوبارایک ہی ہوشیاری میں ریلیز ہوتا ہے تو وہ واقعی خوش نصیب ہوتی ہیں ۔ دل چاہا اس سے پوچھ لوں مگر ابھی اس نے کوئی بات نہیں کی تھی اور میں پہل نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ ہمارے درمیان گفتگو آنکھوں سے ہو رہی تھی یا مسکراٹ سےتھی اور اب میں دوبارا چودوانا چاہتی تھی ادھر ڈر تھا کہ کہیں لوگ باہر آنا نہ شروع ہو جائیں
ہمیں تقریبا پنتالیس منٹس ہو چکے تھے اور ابھی کچھ دیر اور ان کی آمد کی امید نہیں تھی
اگرچہ ہم اندھیرے میں تھے پھر بھی آس پاس کاریں کھڑی تھیں ان میں جانے والے تو آسکتے تھے ۔ میں أٹھ کھڑی ہوئی اس کی گود میں اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی میں لوڑے کےاوپر بیٹھنا چا رہی تھی مشکل تو تھا مگر میں اس کی مدد سے لوڑے کو اندر لینے میں کامیاب ہو گئی ۔ لوڑا زبردست پھب گیا تھا اب مسلہ یہ ہوا کہ میں ہلوں کیسے پہلے تو میں نے دونوں ہاتھ بونٹ پر ٹکا کر اوپر نیچے ہونے کی کوشش کی مگر وہ نہ ہو سکا پھر اس کی رانوں پر ہاتھ جما کر میں اوپر نیچے ہونے لگی تو اب میں اچھل کود کرنے لگی مگر اس کی رانوں پر زور پڑ رہا تھا میرا خیال بنا کہ کیوں نہ اس کی طرف رخ کر کے اس کی گود میں دونوں ٹانگیں بونٹ پر رکھ کر بیٹھ جاؤں اس طرح وہ مجھے چوم بھی سکے گا اور اپنی مرضی سے ہل جُل بھی سکونگی مجھے ہمیشہ گیم اپنے کنٹرول میں لے کر کھیلنےکا زیادہ سواد آتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ میں ایسا کرتی اس نے مجھے ٹانگوں کے نیچے ہاتھ ڈال کے اس طرح اٹھایا کہ اس کا لوڑا میری پھدی کے اندر ہی رہا اور اس نے مجھے ونڈ شیلڈ کی طرف رخ کرکے بنڈ کر دیا اور میں نے اپنے ہاتھ بونٹ کے اوپر رکھ کےگھوڑی بن گئی اس کو ڈوگی اسٹائل بھی بولتے ہیں جوکہ میرا پسندیدہ اسٹائلز میں سے ایک ہے ۔ مگر یہ گھوڑی سٹائل ہی تھا اب اس نے میرے کولہوں پر ہاتھ رکھے میری پوزیشن درست کروأئی اور لوڑے کو آہستہ آہستہ دھکے لگانے لگا میری ٹانگیں کیونکہ اس کی ٹانگوں کے درمیان آگئی تھیں اس طرح میری چوت زرا تنگ ہو گئی اور اس کا لوڑا بھی پورا اندر تک مار نہیں کررہا تھا میں نے ٹانگوں کو چوڑا کیا اور پھیلایا تو وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اس طرح اب میرے کولہے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ رہے اورچوت کے لب بھی مزید کھل گئے اب وہ اپنی مرضی سے دھکے لگا سکتا تھا اس نے ایک ہاتھ میری کمر کی طرف سے ڈال کے میری چوت کے دانے کو مسلنا شروع کر دیا اور دھکے لگانے لگا ۔ وہ بڑے ارام سے چودائی کر رہا تھا کبھی کبھی زور کا جھٹکا لگاتا تو میری کمر میں بل ا جاتا میں پوری طرح لطف اندوزہو رہی تھی اس کے چودنے کا انداز مثالی تھا اور میرا لاوا پھر ابل رہا تھا ۔ میں جب بھی چدواتی ہوں تو یہی سمجھتی ہوں کہ اج کی چدائی زبردست ہے یعنی ہیمشہ لطف کی انتہائی گہرائی تک پہنچ جاتی ہوں اور اس سے پہلے کی چدائی بھول جاتی ہوں مگر اس اجنبی نے جس طرح چدائی کی اور مجھے بار بار نچوڑا ایسا اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا وہ میرے مموں کو ہاتھ میں لے کر دھکے پے دھکا لگا رہا تھا میرا دل کر رہا تھا کہ وہ مجھے چُومے میں نے سر پیچھے موڑ کر منہ اس کی طرف کیا تو اس نے اگے ہو کے میرے ہونٹ چوم لئے میں پھر آگئی تھی اور اس کو بھی میرے کانپنے اور چوت کے بھینچنے سے اس کا احساس ہو گیا تھا اس نے ہاتھ لگا کر چوت کے دانے کو چھوا تومیری سسکی نکل گئی اب میں تھوڑی سی اٹھ کر کھڑی ہوئی یعنی بونٹ سے ہاتھ ہٹا کر تھوڑی سی اوپرہوئی تو لوڑا مزید گہرائی تک جانے لگا جس سے مزہ دوبالا ہو گیا اور اس کو دھکے لگانے میں اسانی ہوگئی ۔ ہم جس پوزیشن میں تھے اس سے ہم دونو ں کی ییٹھ مکان کی طرف تھی اورکوئی آتا تو ہمیں معلوم نہ ہو پاتا مگر کیا کرتے ہم مزہ لینے اوردینے میں لگے ہوئے تھے اور اس کو ادھورا چھوڑنا ناممکن تھا وہ اب میری پیٹھ بھی چومتااور دھکے بھی زور سے لگاتا میرے مموں کو بھی دبا لیتا اور چوت کے دانےکو مسل لیتا اور میری پیٹھ کو سہلا بھی لیتا ۔ آستہ آہستہ اس کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی اور جس طرح وہ واہلانہ میری پیٹھ کو چوم رہا تھا وہ آنے کے قریب تھا اب تھوڑا نیچے ہو کے دھکے مار رہا تھا میری چوت کا رس اسکےلوڑے کو بھگو رہا تھا میری اور اس کی سانسیں بے ترتیب ہوچکی تھیں اس کی گرفت میری کمر پر سخت ہوتی گئی او اس کے جھٹکے مجھے مزہ کے نئے راستے دکھا رہے تھے آج اس کے لوڑے نے میری چوت کی ان جگہوں کو بھی چھوا جن کو آج تک کوئی نہ چھو سکا تھا۔ ایسا لگتاتھا چوت کے مسام رِس رہے ہیں مزا کی بارش ہو رہی ہے ۔ آج چوت کے کچھ ایسے پرت بھی برتے گئے جن کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا تھا ۔ اس نے چند جھٹکے اتنی زور سے لگائے کہ میں اس کو دل ہی دل میں دعائیں دینے لگی کہ ظالم نے کہاں پہنچادیا تھا مزہ کی آخری سرحد کو چھو چکی اور اب چوت لوڑےکی اور مساج کے قابل نہ تھی ۔ اس نے دھکا زور سے لگایا اس کے ساتھ ہی اس کی آواز بھی اونچی نکلی اور وہ اپنی لذت بھرے لمحات میں اپنی آہ اور واہ کو دبا
نہ سکا اور میں خوش ہوئی کہ میری وجہ سے اسے اتنا لطف آیا اس کی آہ اور واہ میں میں نے بھی پانی چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو اس کے حوالےکردیا جیسےکہ مجھ میں جان نہ رہی ہو اس نے مجھے سنبھالا اور گلے سے لگا لیا اس بار بھی ا س کا پرنالہ پھر کافی سے زیادہ چوت کے اندر گرا مگر اب چوت سے باھر رس کر میری ٹانگوں کو بھگو گیا میں اس کی جانب مُڑ کر اس کے گلے لگ گئی کچھ دیر یوں ہی ایک دوسرے کے گلے لگے رہے پھر مجھے خیال آیا کہ مووی ختم نہ ہو گئی ہو تو میں شلوار پینٹی کو اٹھا کر پہننے کے لئے جھکی تو دیکھا لوڑا مہاراج سر جھکائے لٹک رہے ہیں میں نے جھکتےجھکتے اسے ایک بوسہ دیا تو اجنبی ایک طرف ہوکے اپنے پاؤں میں پڑی ہوئ اپنی پینٹ وغیرہ اوپر کرنے لگا میں نے اپنی پینٹی اور پاجامہ شلوار جو ایک پاؤں میں تھے کو پہننے لگی وہ پھر بونٹ پر بیٹھ چکا تھا میں نے سگریٹ کا پیکٹ جوکہ نیچے گر گیا تھا اٹھا کر سگریٹ نکالا تو اجنبی نے لائٹ سے سلگا دیا میں نے کار سے اپنی شال نکالی ایک تو خنکی کا احساس ہونے لگا تھا چونکہ گرمی تونکل چکی تھی دوسرا سارا مواد میرے پاجامہ پر بھی اور میری ٹانگوں پر بھی تھا جس کی وجہ سے شلوار کے بھیگنے کا بھی اندیشہ تھا ۔اس لئے شال لپیٹ لی کہ کچھ پردہ پوشی ہو جائے۔




میں نے سگریٹ کے دو تین گہرے کش لئے اور اجنبی کی طرف بڑھی اور اس کے لوڑے کو دیکھا جو کہ سورہا تھا ابھی تک اس نے پینٹ نہ باندھی تھی میں نے ہاتھ سے لوڑے کو پکڑا اس کو ایک بوسہ دیا اور پینٹ میں ڈال کر زپ اوپر کردی اب میں اجنبی کی جانب
متوجہ ہوئ جو بڑا مطمئن ہوکر بیٹھا تھا میں نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لےکر اپنے پورے دلی محبت پیار اور ممنونیت کے امنڈتےہوئےجذبات کے اظہار کے لئےاس کی پیشانی کو چوما اور اسکی دونوں آنکھوں کو چوم کر اپنے لب اسکے ہونٹوں پر رکھ دئے
اسنے میرے ہونٹ چومے اور ان کو چوسنا چاہا تو میں نے پیچھے ہٹ کر مُسکراتے ہوئے
سگریٹ اس کے ہونٹوں میں دے دیا اس کے ہاتھ میں رومال تھا اس نے ا سکو تہ کیا
اور میری طرف بڑھا دیا جس کو میں نے لے لیا ۔ وہ ایک اجنبی تھا اجنبی ہی رہا ہم ایک دوسرےکا نام تک نہ جان سکے مگر وہ کیسا اجنبی تھا جومیرےجسم کے چپے چپے سے واقف تھا ۔ اورجس سے چدوا کر میں اپنے آپ کو خوشقسمت عورت گردان رہی تھی ۔ اس کی طرف دیکھے بنا میں پلٹی اور جلدی سے مکان کی جانب قدم بڑھا دئیے ۔ میں جانتی تھی وہ مجھے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی نظروں کی گھائل تھی اور اب اس کی نظریں ضرور میرے کولہوں پر ہوں گی یہی سوچتے ہوئے میں ایک دو بارلڑ کھڑائی بھی مگر پھر خود اعتمادی سے چلتی ہوئی مکان میں داخل ہوگئی ۔ شکر ہے ابھی تک مووی چل رہی تھی ا ور میرے باہر سے آنے کا کسی نے نوٹس نہ لیا میں چپکے سے واش روم میں چلی گئ ۔ میرے ہاتھ میں رومال تھا جوکہ اجنبی نےدیا تھا دیکھا تو یہ وہی رومال تھا جس سے اجنبی نے لوڑا اور میری چوت کو خشک کیا تھا اس پر سارا مواد لگا ہوا تھا میں اسے پھینکنے لگی تو کچھ لکھا نظر آیا میں نے دیکھا تواس پر کڑھائی سے ایک کونے میں ؒ می دوسرے کونے پر یو تیسرے کونے میں میں اور چوتھے کونے پر تم لکھا ہوا تھا میں نے نہ جانے کیا سوچ کر رومال کو تہ کیا اور گیلا ہی اپنے پرس میں رکھ دیا اور اپنے آپ کو واش کرنے لگی
میری چوت سوج چکی تھی اوراس کے لبوں پر خراشیں بھی تھیں ۔ اب دو چار دن تک اس کی دیکھ بھال تو کرنی ہوگی مگر جو سواد اور مزہ آیا اس کے آگے یہ تکلیف کچھ بھی نہ تھی
فکر کی بات یہ تھی کہ میرا نچلا ہونٹ بھی سوج گیا تھا ۔ زیادہ سرخ تھا اور اس پرکاٹنے جیسا
نشان بھی تھا اس نے سچی بڑی بے دردی سے ان کو چوسا تھا۔ خیر کسی نے پوچھا تو بول دونگی باہر مچھر وغیرہ کافی ہیں کسی نے کاٹ لیا ہے ۔ اب گھر جا کر معلوم ہوگا کہ میری چھاتیوں کا کیا حال ہے کہ وہ پگلا وہاں کاٹتا بھی رہا تھا ، میں نے جلدی جلدی بال سنوارے اور لپ سٹک لگا کر باہر نکلی تو لوگ اب جا رہے تھے اور میری ہمسائی مجھے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ہم دونوں جب باہر نکل رہی تھیں تو اجنبی اندر داخل ہو رہا تھا ہم دونوں
نے ایک دوسرے کو دیکھا اور بنا کچھ کہے سنے ایک دوسرے کے پاس سے گذر گئے
ختم شُد.

Like Reply
دوستو میرا نام کومل ہے اور میرے والد کالج میں لیکچرر ہیں میں بدنانی اعتبار سے کافی خوبصورت رہی ہوں سمارٹ بدن پیارا فگر اور گورا رنگ کوئی بھی ایک نظر دیکھ لے تو دوبارہ دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں ضرور جنم لیتی ہے جب ہوش سنبھالا تو گھر والوں کی شفقت میسر ہوئی کسی چیز کی خواہش ہوتی فورا خواہش پوری ہو جاتی بڑے گاوں کے پرائمری سکول میں داخل کروایا گیا۔
جب مڈل کلاس میں گئی تو مجھے بخار ہو گیا جو طول پکڑتا گیا اب میں گھر رہنےلگی تعلیم کا بہت شوق تھا اس لیے میں نے پرائیویٹ اپنی تعلیم جاری رکھی اور دسویں پاس کر لیا اور گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی تھی اس وقت تک میں پیار پیار کے نام سے بالکل ناواقف تھی مگر ان کی اصلیت کے بارے میں سوچا تک بھی نا تھا ہر دم اپنے کاموں میں مگن رھنا اور سکون سے زندگی بسر کرنا میرا کام تھا جب عزیزرشتہ داروں کے ہاں جاتی تو وہ سب مجھ سے اتنا پیار کرتے کہ جنت کا سماں نظر آتا۔
پھر ایک دن یوں ہوا کہ میں اپنے سیل جو ہمارے گھر کا تھا اس پر گانے پرانے سن رہی تھی کہ رانگ نمبر سے کال آئی میں نے اسے او کے نا کیا بلکہ مصروف کر دیا شاید اس کو شک ہو گیا کہ یہ نمبر کسی لڑکی کا نمبر ہے اور وہ بار بار تنگ کرنے لگا میں نے اس کوایس ایم ایس کیا کہ مہربانی فرمائیں یہ ہماری فیملی کا نمبر ہے وہ تو بس ڈھیٹ تھا بار بار ایس ایم ایس کرنے لگا کہ پلیز ایک بار کال پر بات کر لو۔
میں نے اس کے بے حد ضدپر کال او کے کر لی اور پوچھا کہ بتائیں آپ کا کیا مسئلہ ہے جناب وہ کہنے لگا کہ بس ایسے ہی دل کیا آپ سے بات کرنے کو اس طرح اس نے کال کٹ کر دی میں سوچوں میں پڑ گئی تھی کہ اب وہ روزانہ گڈ نائٹ گڈ مارننگ کے ایس ایم ایس کرتا۔
اب میرے دل کو پتہ نہیں کیا ہوا میں بھی اس سے بات کرنے لگ گئی وہ ہمارے گاؤں کا ہی نکلا اس کا نام نفاست علی تھا ہماری اچھی دوستی ہو گئی اب وہ کہتا کہ مجھ سے ملو مگر میں تو کبھی گھر سے باہر بالکل نہیں نکلی تھی کیسے ملتی گھر سے باہر جاتی تو میرے بھائی ہر پل میرے ساتھ ہوتے وہ ہمارے گھر کے سامنے آتا تو میں ونڈوسے اسے صرف دیکھتی وہ بہت خوبصورت تھا اتنا خوبصورت کہ میں اس کی شکل دیکھ کر پا گل ہو گئی تھی
اور اتنی پیار دل میں پیدا ہو گئی کہ میں اس کی دیوانی ہی ھو گئی ایک دن اس نے کہا کہ میں نزدیک سے آ پ کو بس دیکھنا چاہتا ہوں میں نے کہا ضد نہ کرو میں بہت مجبور ہوں وہ بہت رونے لگا میں نے امی سے کہا میں نےانکل کے گھر جانا ہے مگر امی نے اکیلے جانے نہیں دیا تھا امی نے کہا کہ کومل بیٹی کل میں آپ کو بھائی کے ساتھ بھیجوں گی
میں نے نفاست علی سے ایک دن کا وقت لیا وہ بہت خوش ہوا تھا لیکن دوسرے دن ابا نے جانے نہ دیا میں بہت پریشان ہوئی وہ بار بار ضد کر ہی رھا تھا تم مجھ سے پیار نہیں کرتی اب میں زہر کھا لوں گا مر جاونگا ابا سے میں نے کہا کے جانے دو مگر ابا نے کہا کہ وہاں کوئی شادی نہیں ہے جو اتنی ضد کر رہی ہو تم چپ کر کے اپنا کام کرو مجھے تنگ نہ کرو بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے شرم نہیں آتی
اتنی بڑی ہو گئی ہو کچھ تو خیال کرو جوان بیٹی کو ہی ادھر بھیج دوں کسی روز سب چلیں گے اور واپس آ جائیں گے میں کمرے میں جا کر بہت روتی رہی تھی میرا دل توپھٹ رھا تھا ابا کیا جانے مجھ پر کیا گزر رہی تھی میں نفاست علی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ میرے دل کی دھڑکن تھا میں اس کے بنا ایک پل اب نہیں رہ سکتی تھی
ایک دن میرے ابا کسی میٹنگ میں دوسرے شہر چلے گئے۔ 



بھابھی بھی میکے گئی ہوئی تھیں اور امی اپنی بڑی بہن کی طرف تھیں شام کو امی کی کال آئی کے ان کی بہن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے وہ ادھر ہی رکیں گی میں نے اس رات نفاست علی کو گھر بلا لیا تھا یہ ہماری پہلی ملاقات تھی میں نے اپنی جان کو بہت پیار کیا اور ہم بہت دیر تک پیار بھری باتیں کرتے رہے کسنگ بھی کچھ کی ہم نے ساتھ نبھانے کے قول قرار کیے
اور پھر آہستہ آہستہ ہم کھونےلگے اس رات میں نے ایکدم ٹائٹ شلوار قمیض پہنا ہوا تھا سیکسی لگ رہی تھی جس میں کسی سیکس بم سے زیادہ غضب ڈھا رہی تھی نفاست علی میری کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا تو میں نے بھی جواب میں سیکسی مسکراہٹ پیش کی اور یہ بڑی معنی خیز سی مسکراہٹ تھی جو کہ میں اسوقت سمجھ نہ سکی اس مسکراہٹ کا شروع شروع میں علم کم ہی ہوتا ہے اور جب علم ہو جاتا ہے تب ہم مسکراہٹ میں ہی ہاں یا ناں کر دیا کرتے ہیں
اور سامنے والے کو سوال کا جواب آنکھوں ہی آنکھوں میں مل جاتا ہے میں نے نفاست علی سے کہا چلو کھانا کھا لیتے ہیں ہم پہلے پھر باقی باتیں کریں گے اس نے کوئی جواب نہ دیا اور میرے ساتھ باورچی میں آکر کھانا گرم کرنے میں میری ہیلپ کرنے لگا اس دوران کچن میں مختلف چیزیں اٹھانے کے چکر میں گھومتے اور چلتے پھرتے میں دو تین بار نفاست علی سے ٹکرا گئی تھی میرے بڑے ممے وہ دیکھتا تھاایک بار اسکا لنڈ میری چوت اور گانڈ سے ٹکرایا مگر میں کچھ نہ بولی بلکہ مسکرا کرخاموش رہی خیر پھر ہم دونوں ٹیبل پر پہنچے کھانا لے کر اور ساتھ ہی کھانے لگے تھے
کھانے سے فارغ ہو کر نفاست علی میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور میرا گورا ہاتھ اپنے ھاتھ میں لیا میری سانسیں تیز چل رہی تھیں مگر میں پیار میں اتنی اندھی ہوتی ہے ہو چکی تھی کہ نفاست علی کی خاطر کچھ بھی کر سکتی تھی اس نے میرا ہاتھ اپنے لوڑا پر رکھ دیا میں ایک دم ہوش میں آگئی ایکدم ہڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی اس نے مسکراتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھا
اور کہا آج اگر تم مجھ سے بہت سچا پیار کرتی ہو تو خود کو میرے حوالے کر دو میں کچھ نہیں بولی اور نظریں نیچے کر لیں اس نے ہمت کر کے میرے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور میرے لپس پر ایک ہلکی سی کس کی میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی
پھر اس نے میرے بوبز پر ہاتھ رکھ دیا میں ایکدم کسمسا اٹھی اب اس نے مجھے دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا میں نے بھی اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا اور اسے اپنے سینے میں بھینچنے لگی اس نے مزید وقت ضائع کیئے بغیر میری قمیض میں ہاتھ ڈالا اور میرے بوبز کو پکڑ لیا
اور دبانے لگا میری سانسیں تیز ہونے لگی تھیں اور میرے لپس کپکپا رہے تھے میں اس کی جانب دیکھ رہی تھی میری آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھے اور میری آنکھیں آدھی کھلی اور آدھی بند تھیں اس نے ایک بار پھر میرے لپس پر اپنے لپس رکھے مگر اس بار اس نے ایک لمبی کس کی اور اسکے ساتھ ساتھ میرے دونوں بوبز کو دباتا رہا جس سے میں کافی گرم ہو گئی تھی تقریباً چدنے کے لیے تیار
اس نے کہا کہ مجھے بیڈ روم میں لے چلو میں اسکو بیڈ پر لے آئی
بیڈ کے پاس پہنچ کر اس نے مجھے کھڑا کیا اور اپنے ساتھ لپٹا لیا اور میری کمر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے میرے کولہوں تک لے گیا اور انکا مساج کرنے لگا میں نے اپنے کولہے سکیڑ کر سخت کر لیے پھر اس نے میری گالوں پر کسنگ کی میں نے جو قمیض پہنی تھی اسکی زپ پیچھے کی طرف تھی
اس نے واپس کمر تک ہاتھ لے جاکر میری زپ کھولی اور میری قمیض کو ڈھیلا کردیا میری قمیض کندھوں سے ڈھلک کر نیچے آگئی اور بریزر صاف نظر آرہا تھا جس میں سے بڑے بڑے دودھیا رنگ کے بوبز اپنی بہار دکھا رہے تھے اس نے میری قمیض کو اسی پوزیشن میں چھوڑ کر میری شلوار پر حملہ کیا
میں شلوار میں الائسٹک استعمال کرتی تھی عام طور پہ لڑکیاں کرتی ہیں اس نے ایک ہی جھٹکے سے میری پوری شلوار زمین پر گرا دی میں خاموش کھڑی صرف تیز تیز سانسیں لے رہی تھی مگر کچھ نہ کہہ رہی تھی اور نہ ہی اسے روک رہی تھی اب اس نے میری قمیض کو بھی میرے بدن سے الگ کیا
میں صرف بریزر میں رہ گئی تو مجھے اس تکلف سے بھی آزاد کردیا اب میں پوری ننگی اس کے سامنے ایک دعوت نظارہ بنی کھڑی تھی اس نے میرے پورے چکنے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیامیرا بدن ایکدم چکنا تھا اور کافی گرم ہو چکا تھا اس نے آہستہ آہستہ ہاتھ میری خوار پھدی کی جانب بڑھایا اور اپنی انگلی جیسے ہی میری خوار پھدی میں ڈالی وہ گیلی ہوگئی
میں بہت ھاٹ ہو چکی تھی اب اسے اپنا کام کرنا تھااس نے مجھے بیڈ پر چلنے کو کہا تھامیں خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور اسے دیکھنے لگی اس نے انتظار نہیں کیا اور بیڈ پر چڑھ گیا تھا اور میرے اوپر لیٹ کر اپنا لوڑا میری ٹانگوں کے بیچ خوار پھدی کے منہ پر پھنسا دیا اس نے بیٹھ کر میری ٹانگیں کھول دیں۔ 



اور خوار پھدی کے منہ پر لوڑا کو سیٹ کیا اسکا لوڑا میری خوار پھدی کے پانی سے گیلا ہو کر چکنا ہوچکا تھا اور اندر جانے کو بے تاب تھا اس نے تنے ہوئے لوڑا کو ایک زور دار جھٹکا لگایا اور لوڑا میری خوار پھدی کی سیل توڑتا ہوا اس میں داخل ہوگیا اور اسی لمحے میرا سانس ایک لمحے کو رکا اور درد سے میری فل چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں
مگر کوئی سننے والا نہیں تھا اور پھرمیں نے تیز تیز سانسن لینا شروع کر دیا اس نے خون میں لت پت تھوڑا سا لوڑا باہر نکالا کیونکہ پورااندر جانے کے لیے اسے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ضروری تھا اس نے تھوڑا سا پیچھے کیا لوڑا کو اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور پورا لوڑا خوار پھدی کے اندر داخل ہوگیا
اب میرے منہ سے آہیں نکل رہی تھیں مجھے اپنے بدن میں اسکا سخت تنا ہوا لوڑا محسوس ہوا تو میں نشے میں بے حال ہونے لگی اور بے تحاشہ اسے چومنے لگی اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا مجھے چودو جلدی بس یہ سننا تھا اس کے اندر بجلی دوڑ گئی اور اس نے لوڑا کو اندر باہر کرنا شروع کردیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہا میں جلدی جلدی فارغ رہی تھی
اس نے اپنی رفتار بڑھا دی اور بے تحاشہ جھٹکوں سے مجھے چودنے لگا میں بے حال ہو رہی تھی میری آہوں سے زیادہ تو چیخیں نکل رہی تھیں اور میں اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ اب رکنے والا تھا بھی نہیں بہرحال میں اس دوران دوبار فارغ ہوئی میری ہمت جواب دے رہی تھی اس نے اپنا لوڑا باہر نکالا اور کہا ابھی میں فارغ نہیں ہوا ہوں جان من
تم گھوڑی بنو مجھے اسکا تجربہ نہیں تھا میں اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے مجھے بتایا کیسے گھوڑی بننا ہے میں سمجھی تھی وہ شاید پیچھے کی طرف سے میری خوار پھدی میں لوڑا داخل کرےگا جیسے ہی میں گھوڑی بنی اس نے اپنا لوڑا میری کنواری گانڈ پر رکھا اور پوری طاقت سے اسکو اندر داخل کردیا لوڑا کسی پسٹن کی طرح چکنا اور گیلا تھا اور میری گانڈ بھی خوار پھدی سے بہہ کر آنے والے پانی سے گیلی تھی اسکا پورا لوڑا میری گانڈ میں ایک ہی بار میں آدھا گھس گیا اور میں درد سے بلبلا اٹھی مگر وہ باز آنے والا کب تھا سالا کتا میری گانڈ چودنے لگا تھا۔
Like Reply
اس نے مجھے زور جکڑ لیا اور میں کوشش کرتی رہی اسکی گرفت سے نکلنے کی مگر اس نے مجھے نہیں چھوڑ تھا سالا گانڈ چودنے پہ کچھ برا لگا تھاا ذرا دیر بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی میں نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا مگر اس نے انکار کردیا تھا
مجھے گانڈ میں وہ مزہ نہیں مل رہا تھااور کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر میں میں خاموش ہوگئی میں نے خود کو پورا اسکے حوالے کیا ہوا تھا اس نے میری رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیا اور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار میں ایکبار پھر سے آگیا میرے بوبز بری طرح سے ہل ہل کر میرے چہرے سے ٹکرا رہے تھے
اور میں بھی پوری ہل رہی تھی میں نے کہا ایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں پلیز میں تو اس نے کہا چلو نیچے زمین پر مجھے زمین پر لاکر اس نے پیٹ کے بل مجھے بیڈ پر اسطرح لٹایا کہ میرے گھٹنے زمین پر لگے تھے اب وہ بھی اسی پوزیشن میں آگیا اور پھر سے لوڑا میری گانڈ میں داخل کیا تھا
اب اس نے پورا لوڑا اندر ڈال کر مزید کنواری گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لوڑا کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا جس سے ایک بار پھر میری چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں بالاخر اسکا وقت پورا ہونے لگااس نے مجھ سے کہا میں تمہاری گانڈ میں ہی منی نکال رہا ہوں
نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو میں نے کوئی جواب نہیں دیا اس نے پورا لوڑا گانڈ میں گھسیڑا اور لوڑا نے منی اگلنا شروع کردی تھی میری گانڈ فل بھر دی اس نےمیری زندگی اتنی حسیں ہوتی جا رہی تھی کہ کیا بتاؤں دن بدن خشیوں میں اضافہ ہوتا گیا وقت اپنی فطری منزل کی جانب رواں دواں تھا
ہماری پیار کا صرف نفاست علی کےصرف دو دوستوں قیصر اور سرادر کے علاوہ کسی کو پتا نہیں تھا وہ اپنے دوستوں سے میری بات کرواتا میں اس کی پیار میں دیوانی ہو گئی تھی وہ جتنے پیسے بھی مانگتا میں جہاں سے بھی لیتی مگر اس کو وقت پر دیتی وہ کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی ناراض نا ہوتا نہ کبھی مجھے اس کو منانے کا بہانہ ملتا وہ اپنے وقت کا ہیرا تھا جس کا شوق صرف مجھے تھا مجھے اس کی ضرورت تھی
صرف میں ہی اسے پانا چاہتی تھی اسے کھونے سے پہلے میں اپنی جان دے دیتی ہم نادان لڑکیاں جب چاہتی ہیں تو اس طرح ہی چاہتی ہیں ایک دن اس کے دوست قیصر نے پتہ نہیں کس سے میرے ابا کا نمبر لیا تھا اور کال کر کے کہا کہ تمہاری بیٹی فلاں لڑکے سے پیار کرتی ہے اس کے بنا نہیں رہ سکتی وہ حالانکہ شادی شدہ ہے میرے ابا نے گھر آ کرفل مچا دی اور گھر والا سیل امی کو کہا کہ کومل کو نہیں دینا
لیکن مجھے تو نفاست علی نے سیل لے کر دیا ہوا تھا مگر شادی شدہ والی بات تو ایک دم میرے دل میں بیٹھ گئی کیا نفاست علی واقعی شادی شدہ تھا میں نے نفاست علی سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ قیصر ایسے ہی بکواس کرتا رہتا ہے تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا اس طرح اسکی میٹھی میٹھی باتوں کے بہکاوے میں آکر میں شادی شدہ والی بات بالکل بھول ہی گئی اب امی ابا مجھ سے ناراض رہنے لگے
مگر میں اس کی پیار میں اتنی جنونی ہو چکی تھی کہ اس بات پرتوجہ ہی نہ دیا میں بتانا بھول گئی کہ اس بات پر مجھے گھر والوں نے بہت مارا حتی کہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت بھی نہیں تھا کہ ان کو شک ہوتا میرے ابا ویسے ہی سخت مزاج تھے میرے ماموں کے بیٹے کی اب شادی تھی ہم سب گھر والے ادھر گئے ہوئے تھے تو نفاست علی نے بیت ضد کی کہ مجھے ملو
میں نے وہاں ایک پکی سہیلی بنائی ہوئی تھی میں اس کے گھر رات کو نفاست علی کو لے گئی تھی سہیلی کے گھر اس رات کوئی بھی نہیں تھا مجھے چدانی تھی اس رات نفاست علی سے میری دوسرے ملاقات تھی اس سے بہت دل کی باتیں ہوئیں دل کی ایک بار پھر سے پیار کے عہد و پیماں ہوئے باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا
اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا – سچ میں نرم تم بہت خوبصورت ہووہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا ادھرپھدی گیلی ہو رہی تھی کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری چنی ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی
اب میں مدہوش سی ہو رہی تھی مگر پھر بھی اپنے اوپر قابا رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھاپھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے ریشمی بالوں میں گھس گیا میں چپ چاپ بیٹھی مست مست ہو رہی تھی اور میری سانسیں اور زیادہ گرم ہو رہی تھی
اس کا ایک ہاتھ میری گانڈ والی سائیڈ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف پہ تعریف کئے جا رہا تھا پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا تھا میں جان گئی کیا کرنا چاہتا ہےمیں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا
اس نے اپنے رس بھرے لپس کو میرے لپس پر رکھ دیا اور میرے لپس کا رس چوسنا شروع کر دیامجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی تھی پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور مجھے اپنی مردانہ گرمی والی گود میں بٹھا لیا اب میرے دونوں نپلز اس کی چھاتی سے دب رہے تھے
اور کواری بڑھنے لگی تھی اس کا ہاتھ اب کبھی میری چکنی گانڈ پر کبھی بالوں میں کبھی گالوں میں اور کبھی میرے بوبز پر چل رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی پندرہ سے بیس منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے چوستے چاٹتے رہے تھے
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا میری بریزر میں سے میرے سفید دودھ جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے وہ بریزر کے اوپر سے ہی میرے بوبز مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا
پھر اس کا ہاتھ میری تنگ پجامی تک پہنچ گیا جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا
میری پجامی بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی مگر پجامی اتارتے ہی وہ میرے گول گول خوار پھدی کے درازدیکھ کر خوش ہو گیا اب میں اس کے سامنے بریزر اور پینٹی میں تھی اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیامیں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے خوارپھدی کے لپسوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب اپنے پیار کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا میں پیچھے مڑی اور چدائی کے لیئے فل گھوڑی بن کر اس کی پینٹ جہاں پر لوڑا تھا پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا میں بہت ہاٹ مست ہوتی جا رہی تھی
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی اس کا لوڑا انڈروئیر میں کسا ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا اب اس طرح کا لن ہی مانگ رہی تھی
میں نے اس کی پینٹ اتار دی
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کیااس سے اس کی بالوں والی جگہ جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھینچااس کا ساڑھے سات انچ کا لوڑا میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا موٹا لن تھا
اور سرا بھی موتا تھا اتنا بڑا لوڑا اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی اس کا بڑا سا اور لمبا سا لوڑا مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھامیرے لپس اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا میرے ہونٹوں پر گرم گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی تبھی نفاست علی نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا
اور میرا سر اپنے لوڑا کی طرف دبانے لگامیں نے منہ کھولا اور اس کا لوڑا میرے منہ میں سمانے لگا اس کا لوڑا میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی نفاست علی بھی میرے سر کو اپنے لوڑا پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لوڑا گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لوڑا میرے گلے تک اترنے لگا میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا تب مجھے سمجھ میں آیا کہ نفاست علی فارغ ہو گیا ہےتبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لوڑا بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیااس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا
کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہےتھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری بریزر کی ہک کھول دی میرے دونوں بوبز آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے
اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں بوبز اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا
وہ میرےممے کو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا میری تو جان نکلی جا رہی تھی میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا اس نے میری پینٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹانگیں پھیلا کر کھول دیوہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری خوار پھدی پر رکھ دی میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی
میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا اس کا لوڑا میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا بڑالوڑا پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے میں نے نفاست علی کی ببازو پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا میری جان میرے اوپر آ جاؤ نفاست علی۔



وہ بھی سمجھ گیا کہ اب میری پھدی لوڑا لینا چاہتی ہے وہ میرے اوپر آ گیا اور اپنا لوڑا میری خوار پھدی پر رکھ دیا میں نے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا لوڑا اپنی خوار پھدی کے منہ پر ٹكايا اور اندر کو کھینچااس نے بھی ایک دھکا مارا اور اس کا لوڑا میری خوار پھدی میں گھس گیا
میرے منہ سے آہ نکل گئی میری خوار پھدی میں میٹھا سا درد ہونے لگا اس نے میرے ہونتوں پہ اپنے لپس رکھ دیئےمیں لئے اور ایک اور دھکا مارا اس کا سارا لوڑا میری خوار پھدی میں اتر چکا تھامیرا درد بڑھ گیا تھا میں نے اس کی گانڈ کو زور سے دبا لیا تھا کہ وہ ابھی اور دھکے نہ مارے
جب میرا درد کم ہو گیا تو میں اپنی گانڈ ہلانے لگی وہ بھی لوڑا کو دھیرے دھیرے سے اندر باہر کرنے لگا کمرے میں میری اور اس کی سينكارے اور آهوں کی آواز گونج رہی تھی وہ مجھے بےدردي سے پیل رہا تھا اور میں بھی اس کے دھکوں کا جواب اپنی گانڈ اٹھا کے فل اٹھا کر دے رہی تھی
پھر اس نے مجھے گھوڑی بننے کے لئے کہا میں نے گھوڑی بن کر اپنا سر نیچے جھکا لیا اس نے میری خوار پھدی میں اپنا لوڑا ڈالا مجھے درد ہو رہا تھا مگر میں سہ گئی درد کم ہوتے ہی پھر سے دھکے زور زور سے چالو ہو گئے میں تو پہلے ہی ڈسچارج ہو چکی تھی
اب وہ بھی چھوٹنے والا تھا اس نے دھکے تیز کر دئے
اب تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ آج میری خوار پھدی پھاڑ دے گا پھر ایک سیلاب آیا اور اسکا سارا مال میری خوار پھدی میں بہہ گیا میں نے سن رکھا تھا کہ پھدی کے اندر مال جائے تو حمل ہوتا ہے لیکن اس وقت اس نے جان بوجھ کے یا پھر بے خودی میں منی میری خوار پھدی کے اندر گرا دی تھی
وہ ویسے ہی میرے اوپر گر گیا میں بھی نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور وہ میرے اوپر لیٹ گیا میری خوار پھدی میں سے اس کا مال نکل رہا تھا پھر اس نے مجھے سیدھا کیا اور میری خوار پھدی چاٹ چاٹ کر صاف کر دی
ہم دونوں تھک چکے تھے اور بھوک بھی لگ چکی تھی اس نے کسی ہوٹل میں فون کیا اور کھانا گھر پر ہی مگوا لیا میں نے اپنے چھاتی اور خوار پھدی کو کپڑے سے صاف کئے اور اپنی بریزر اور پینٹی پہننے لگی اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور ایک گفٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا
میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں بہت ہی پیارا دلکش بریزر اور پینٹی تھی جو وہ میرے لئے لایا تھاپھر میں نے وہی بریزر اور پینٹی پہنی اور اپنے کپڑے پہن لیے تبھی بیل بجی وہ باہر گیا اور کھانا لے کر اندر آ گیا چاہتیں جب ملتی ہیں تو کتنا سکون ملتا ہے
زندگی کی مسرتیں اور کامیابیاں صرف اسی سے منسوب تھیں دل کی دھڑکن رک سی جاتی تھی جب کچھ دن اس سے بات نہ ہوتی تھی پیاروں کے سانچے میں اس نے مجھے کچھ ایسا ڈھال دیا تھا کہ اب میں کسی صورت بدل نہیں سکتی تھی میرے لپس پر مسکراہٹ اسی کے دم سے تھی میری آنکھوں میں آنسو نکلتے تھے تو صرف خوشی کے ملاقات کرتے تو دنیا کو بھول جاتے
میں نے اسکی خاطر والدین کو ٹھکرایا ان کی ناراضگی دور نہ کی مجھے اس بات کا خیال تک نہ آیا ایک دن کہتا کہ مل کر شہر گھومتے ہیں مگر ایسا کیسے کرتی کیونکہ مجھے اتنا وقت کون دیتا اتفاق سے ماموں بیمار ہو گئے ان کے بیٹے کی جاب تھی وہ فیملی ساتھ لے گئے تھے ماموں نے مجھے بلا لیا کہ مامی کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا میری امی نے ابا سے اجازت لے کر مجھے ماموں کے گھر بھیج دیا وہاں ایک ماہ کے بعد مجھے پیریڈ نا آئے پہلے میں تھوڑا پریشان ہوئی تھی اور اب پندرہ دن مزید اوپر ہو چکے تھے
اور اب میری کئی عادتیں بدل گئی مجھے چائے کی خوشبو بری لگتی میرا لیمن اور مٹی کھناے کو دل کرنے لگا تھااور میرا برائے نام پیٹ اوپر ہونے لگا تھا ایک دن میں نے نفاست علی کو کال کی اور سب بتایا وہ ہنستے ہوئے بولا جانو تم ماں بننے والی ہوں خوشی کی خبر ہے اور اب وہ کھلتا گیااور کہنے لگا اپنی ماں کو بتا دو کہ تم حاملہ ہو چکی ہے
اور میراشتہ قبول کر لے اور تب اس نے دھماکہ خیز انکشاف بھی کر دیا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اس کی بات سنتے ہوئے میں سمجھ گئی کس طرح اس نے مجھے حاملہ کیااور تاکہ میرا رشتہ مل سکے اور اب وہ سائیڈ پہ کھڑا تھا اس نے مجھے دھوکہ دیا تھا اس نے جان بوجھ کے مجھے حاملہ کیا تھا میں ایک ضدی لڑکی بھی تھی
جو ماں باپ کے سامنے نا جھکی تھی اب مجھے وہ زہر لگنے لگا تھا مجھے ا سکی چیٹنگ سے شدید نفرت اور دل میں کدورت آ چکی تھی وہ بلیک میلر نکلا تھا میں نے ایک رات میں کے ساتھ لپٹ کے رونا شروع کر دیا اور ماں نے بس ہولے سے مجھے کہا میری جان سب بتا دے مشکل میں پھنس گئی ہے نا اور میں نے بس ہاں میں سر ہلا دیا تھا
اگلے دن امی نے ابا کو کہا اس کی بہن کی اس کو یاد آ رہی ہے کچھ دن ان کے پاس جانا ہے مجھے ساتھ لیکر امی اس غریب بہن کے گھر چلی گئی اور سب کچھ ا سکو بتا دیا کہ اس کے ساتھ کیا پلان کیا گیا تھا وہ بہت اچھی خالہ تھی اس کے گھر میں ایک راز داری کے ساتھ میرا حمل ختم کرایا گیااور غریب خالہ نے میرا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگ لیا
اس کا بیٹا سکول ٹیچر تھا فراز اس کا نام تھا اور اب میں اس کی بیوی ہوں ہمارے دو بچے ہیں میں نے خدمت اور وفا کرنا شیوہ پھر بنا لیا ہے لیکن صرف اپنے شوہر کے لیئے شوہر جو بھی ہو لیکن اس کی غیرت کچھ نا کچھ ہوتی ہے مجھے نفاست علی نے بیچ چوراہے چھورااور شوہر نے سہارا دیا میری سب لڑکیوں سے گزارش ہے کہ جزبات میں نا جائیں زندگی کی سچائی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ 
Like Reply
ہیلو فرینڈز میرا نام نور العین ہے اور میں یاسر کی بیوی ہوں اور راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہتی ہوں۔
آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے یہ میری زندگی کا ایسا واقعہ ہے جو میں نے اپنے شوہر یاسر کو کافی ماہ کے بعد بتایا اور میرے پیارے شوہر یاسر نے مجھے یہ واقعہ آپ بہن بھائیوں سے شئیر کرنے کا کہا تاکہ آپ اپنی بہن کی چدائی کی کہانی پڑھ کر میرا نام لے لے کر مٹھ ماریں اور تصور میں اپنی منی میری پھدی کے سوراخ پر گرائیں۔
ایک بار گھر کے پردوں کے لیے مجھے راجہ بازار راولپنڈی جانا پڑ گیا۔میں سکول سے چھٹی کے بعد تین بجے وہاں بازار میں پہنچ گئ۔سردیوں کے دن تھے اور بازار میں کافی رش تھا اور کافی دھکم پیل تھی۔
میں بازار میں ایک گلی میں داخل ہوئی اور وہاں پردوں کی دکانیں تھیں اور میں پردے دیکھنے لگی۔بازار میں کافی زیادہ رش تھا اور پنڈی راجہ بازار کا یہ والا ایریا تو بہت رش والا تھا۔میں بازار میں چلتی جارہی تھی اور میرے آگئے اور پیچھے کافی لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔یکدم مجھے احساس ہوا کسی نے پیچھے سے میری چوتڑوں میں انگلی دی ہے۔میں شرم کے مارے چپ رہی تھوڑی دیر کے بعد اب مجھے زیادہ طاقت سے پھدی میں انگلی محسوس ہوئی۔میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو ایک پچاس سالہ انکل مسکرا رہا تھا اور ایسے محسوس کروایا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
کچھ دیر کے بعد میں دکان پر پردے دیکھنے رکی تو وہ انکل بھی رک گیا اور جب میں چلتی تو وہ میرے پیچھے پیچھے چلتا اور دو بار مجھے اس کا لن اپنی چوتڑوں کے درمیان محسوس بھی ہوا۔ میں بہت پریشان ہو گئ تھی اور میں جلدی گھر جانا چاہتی تھی مگر کافی رش تھا اور اس شخص نے اب سب کھل کر کرنا شروع کر دیا۔
میں اسکے آگئے کھڑی ہوتی تو وہ ادھر ادھر لوگوں کا خیال کرتے ہوئے میری پھدی پر ہاتھ رکھ دیتا اور کبھی میرے چوتڑوں پر لن رگڑنے لگا۔شام کے پانچ بج رہے تھے سردی اور آندھیرا ہو رہا تھا۔میری پھدی میں سے جھرنے بہنے لگے تھے اس انکل نے میری پھدی کو اپنی پراپرٹی سمجھ لیا تھا جب موقع ملتا وہ مجھے رش میں گھسے مارتا اور میرے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگلی ڈالتا۔
ایک جگہ میں نے اس کو رک کر آہستہ سے کہا کیا مسلہ ہے؟ انکل کیوں پریشان کر ریے ہو؟
تو وہ انکل بولا کچھ تمہیں بیٹی مزا دے رہا ہوں دیکھو چہرہ کتنا لال ہو گیا ہے اور یقیناً بیٹی تمہاری پھدی بھی گیلی ہو رہی ہے۔میں انکل کے منہ سے اپنی پھدی کا نام سن کر مزید گرم ہو گئ۔
انکل بولا تمہارا دل ہے تو میرے پیچھے پیچھے چلو اور وہ شخص پرانا قلعہ بازار کی جانب چلا گیا۔ نجانے کیا جادو تھا اس انکل کی باتوں اور آنکھوں میں کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس شخص کے پیچھے چل پڑی اور وہ شخص مجھے اپنے پیچھے آتا دیکھ کر مسکرایا اور چلتے چلتے ہم ایک محلے میں داخل ہوئے ۔وہ شخص تنگ تاریک گلی میں ایک پرانے مکان میں داخل ہو گیا اور میں بھی اس کے پیچھے اس مکان میں داخل ہو گئ۔
اس شخص نے دروازے کو بند کیا اور مجھے ایک کمرے میں لے گیا اور کہا میرا نام اشفاق ہے اور یہیں رہتا ہوں ۔
میں نے کہا میرا نام نور العین ہے میں شادی شدہ عورت ہوں۔ نجانے کیا جادو کیا ہے انکل اشفاق آپ نے کہ میں آپکے پیچھے چلی آئی ہوں۔
اشفاق بولا بیٹی تیری پھدی کو گرم کر دی ہے۔
کیسا لگا بیٹی بازار میں پھدی میں انگلیاں اور چپے چڑھوا کر ؟
میں نے کہا عجیب لگا لیکن پھر مزا آنے لگا لیکن انکل آپ مجھے بیٹی کیوں کہہ رہے ہو جبکہ میری پھدی پر مزا بھی لینے والے ہو؟
اشفاق انکل:- بیٹی جیسی ہی ہو ناں اور بیٹی کی پھدی بھی تو باپ کے لن کے لیے ترس رہی ہے۔
اشفاق انکل نے یہ کہتے ہوئے میری چادر اتار دی اور میرے کپڑے اتار کر مجھے ننگی کر کہ خود بھی ننگا ہو گیا۔ انکل اشفاق کا 7 انچ کا لن میری پھدی کو سلامی دے رہا تھا
اشفاق انکل نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور ایک چارپائی میں رضائی پڑی تھی اس میں لیٹا دیا اور میرے ساتھ چارپائی میں لیٹ کر رضائی اوپر اوڑھ کر مجھے جھپی ڈال دی۔
انکل اشفاق کی ڈاڈھی اور مونچھیں تھیں اور وہ میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا اور انکل نے میری گوری چٹی ٹانگوں پر اپنی ٹانگیں رکھیں ہوئی تھیں اور اشفاق انکل میرے ہونٹوں کو چوسنے میں مگن تھا۔
آہ آہ اشفاق انکل میری پھدی بہت گرم ہو گئی ہے آج آہ آہ اوہ اوہ اف آف
اشفاق انکل :- بیٹی فکر نہ کر ابھی تیری چوت ٹھنڈی کر دیتا ہوں
اب اشفاق انکل نے میرے ممے چوسنے شروع کر دیے اور میرے مموں کو چوسنے لگا اور میرے ممے دبانے لگا
اشفاق انکل آیک دیہاتی ٹائپ تھا جو سیکس کو بس کسنگ ،بوبز سکنگ اور پھدی چودنے تک جانتا تھا۔
اشفاق انکل نے میری چارپائی پر ٹانگیں اٹھا لی اور اپنا موٹا کالا لن میری گلابی چوت کے سوراخ پر رکھ کر گھسا مارا اف آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ مار ڈالا اور کیا ٹاٹٹ لن ہے ۔
اشفاق انکل نے میری ٹانگوں کو کندھے پر رکھ کر زور دار گھسا مارا اور لن پورا اندر گھسا دیا اور میرے چوتڑوں کو پکڑ کر کر میری پھدی چودنے لگا۔
آف آہ آہ آہ اوہ چودو آہ زور زور سے چودو پھاڑ دو میری گرم چوت آہ آہ آہ آہ اوہ اشفاق انکل کیا لوڑا ہے افف میری پھدی ساتویں آسمان پر ہے آہ آہ آہ چودو
اشفاق انکل:- بیٹی تیری پھدی کو بہت مزا دینا ہے چودنا ہے جی بھر کر تیری چوت مارنی ہے ۔
اشفاق انکل میری جم کر پھدی چودے جا رہے تھے اور میں انکی رنڈی بنی ہوئی تھی۔ میری پھدی تین بار فارغ ہو چکی تھی مگر اشفاق انکل کا لن ابھی تک کڑک تھا۔مجھے درد تھا اور تھک گئ تھی اشفاق انکل نے لن پھدی سے باہر نکال لیا تھا۔
کچھ دیر کے بعد میں گھوڑی بن گئی اور پھدی اشفاق انکل کے لیے کھول دی اور کہا بسم اللہ کرو انکل چودو اپنی گرم بیٹی کی پھدی میرے درد کی پرواہ نہیں کرو۔
اشفاق انکل نے میری گوری چٹی کمر پر ہاتھ رکھ کر پکڑ لیا اور میں نے اشفاق انکل کا لن پکڑ کر اپنی پھدی کے سوراخ پر رکھ کر اشارہ کیا اور اشفاق انکل نے گھسا زور سے مارا اور لن میری پھدی میں پورا ڈال کر چودنے لگے۔
افف کیا چوت چد رہی تھی پورے کمرے میں میری پھدی میں اشتاق انکل کے لن کے جھٹکوں کی آوازیں گونج رہی تھی اور اشفاق انکل میری جم کر پھدی چودنے میں مگن تھے۔
اشفاق انکل مجھے گھوڑی بنا کر پندرہ منٹ سے چود رہے تھے اور میری دو بار پھدی فارغ ہو چکی تھی۔اشفاق انکل بولا نور العین تیری پھدی کا حشر نکل گیا ہے ۔میرے لوڑے نے تیری پھدی کا پھداڑ بنا دیا ہے۔
میں نے کہا بنا دو مجھے پرواہ نہیں ہے۔
کچھ منٹ میں میری پھدی میں گرم گرم لاوہ گرتا محسوس ہوا میں نے چوت ٹائٹ کر لی اور اشفاق انکل کے لن کو پھدی ٹائٹ کر کہ جکڑ لیا۔اشفاق انکل نے کی میرے تھپڑ مارا کہ پھدی ڈھیلی چھوڑ مگر میں نے کتیا کی طرح چوت ٹائٹ رکھی اور اشفاق انکل کا لن نچوڑ کر پھدی ڈھیلی چھوڑ دی۔
اشفاق انکل:- میری بیٹی بڑی گشتی ہے تو لن نچوڑ دیا ہے۔
میں نے کہا پھدی مارنے کا شوق ہے تو گانڈ میں دم رکھا کرو
میں تیار ہونے لگی تو اشفاق انکل بولا رات رک جاؤ
میں نے کچھ سوچا اور فون نکال کر یاسر کو کال کی کہ آج رات میں اپنی سہیلی کے ساتھ ہوں اسکی طبعیت خراب ہے تو صبح آجاؤں گئ۔یہ کہہ کر فون بند کردیا۔
اور میں اشفاق انکل کے ساتھ رضائی میں گھس کر لیٹ گئی اور اپنی پھدی پر اشفاق انکل کا لن رگڑتے ہوئے کہا ساری رات تیرے لن کے نیچے رکھنی ہے پھدی اب گانڈ میں دم رکھنا۔
اس رات اشفاق انکل نے میری 8 بار پھدی چودی اور صبح میں اپنی چدی ہوئی چوت لے کر اپنے سسرال واپس آگئ۔ یہ میری زندگی کی یادگار چدائی میں سے ایک تھی۔میں اور میرے شوہر یاسر نے سوچا کہ آپ بہن بھائیوں سے شئیر کرنی چاہئے 
Like Reply
اسلام علیکم دوستو میرا نام عاصمہ ہے میں ہری پور کی رہنے والی ہوں میری عمر 32 سال ہے میرا رنگ سانولہ ہے جس کی وجہ سے میری شادی بھی نہیں ہو رہی ہے میرے گھر میں میرے ابو امی اور دو بڑے بھائی ہیں ایک بھا سعودیہ کام کرتا ہے اور ایک بھائی کراچی کپڑے والی فیکٹری میں کام کرتا ہے. ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور ہے اور جنگلی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہم مال مویشی اور بکریاں پال کر گزارا کرتے ہیں میرے ابو بکریاں چراتے ہیں اور قربانی کی عید پر بکریاں اور بیل منڈی میں فروخت کرتے ہیں اس طرح ہمارا گزر بسر ہوتا ہے بکریوں کی رکھوالی کے لیے ہم نے کتے پال رکھے ہیں جو کہ بڑی نسل کے ہیں جن کے قد کسی بڑے بچھڑے کی طرح ہیں اور لمبے لمبے بال ہیں جو کہ گھر اور باڑے کی رکھوالی کرتے ہیں کیوں کہ ہم لوگوں کے گھر دور دور ہیں اور رات کے وقت جنگلی جانوروں کے حملے کا خطرہ ہوتا ہے اس کی وجہ سے رات کو اور دن کو کتے کھلے ہی رہتے ہیں اس سال 2021 میں جون کے وسط میں ابو نے امی سے مشورہ کیا کہ اس سال جانور بیچنے جلدی جانا ہوگا کیوں کہ برسات کے شروع ہوتے ہی پہاڑی راستے بند ہو جاتے ہیں تو ابو دو دن بعد جانور لے کر اسلاماباد فروخت کرنے کے لیے چلے گے ابو جب بھی گھر سے دور ہوتے تو میں اور امی جان گھر اور جانوروں کی رکھوالی کرتے اور چرانے کے لیے لے کر جاتے تے. اب روز میں صبع گھر کا کام کرتی اور امی جانور لے کر پہاڑوں میں چلی جاتی اور گھر کا کام ختم کرنے کے بعد میں امی کے ہاس جاتی اور اں کو گھر ارام کرنے بھیج دیتی
ایک دن کی بات ہے میں نے امی کو گھر بھیجا اور خود جانوروں کی دیکھ بھال میں لگ گئی کتے چھاوں میں بیٹے تھے ان میں سے ایک کا رنگ کالا اور ایک کا بھورا تھا کالے رنگ والا کتے بھورے رنگ والے کتے سے بڑا اور تگڑا تھا میں نے دیکھا کہ بھورے رنگ والا کتا بیٹھا ہے اور اس کا گلابی لن اس کے چمڑے والی تھیلی سے جھلک رہا ہے میں نے اس چیز کو خاص نہیں لیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی مگر میرے دماغ میں لن بابار دیکھنے کا خیال ارہا تھا اتنی زیادہ عمر کے باوجود میں بالکل کنواری تھی جس کی وجہ میرا سانولہ رنگ تھا
مگر اج ہتا نہیں کیوں میرے اندر کی عورت نے انگڑائی لی اور میرا دل بار بال کتے کے لن کو دیکھنے کی ضد کر رہا تھا. اب جو میں لگاتار لن دیکھنے لگی تو کتے کبھی کبھی اپنے لن کو اپنی زبان سے چاٹ لیتا اور پھر لیٹ جاتا
میری پھدی نے مچلنا شروع کر دیا اور میں کتے کے قریب ہو کر بیٹھ گی اور کتے کو سہلانے لگی اور ہاتھ کتے کے لن کے قریب کرنے لگی اہستہ اہستہ جیسے ہی کتے کے لن کو پکڑا کتے بدک کر کھڑا ہو گیا میں ڈر گئی اور اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئی وہ دن ویسے ہی گزر گیا مگر ساری رات میری انکھ اس لال سرخ لن کو بھول نہیں پائی. صبح جب میں گھر کا کام ختم کر کے امی جان کی ممد کرنے گئی تو تھوڑی سی روٹی کتے کو کھلانے کے لیے ساتھ لے گی
وہاں جاکر میں نے امی جان کو گھر بھیج دیا اور کتے کے لن کو پکڑنے کے لیے موقع کا انتظار کرنے لگی میں نے کتے کو روٹی کھلائی اور اس کے جسم کو سہلانے لگی کتا میرے پاس اکر بیٹھ گیا اب میں پیار سے کتے کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی اور اس کے لن کی طرف ہاتھ لے کر گئی پہلے تو کتے نے غرا کر مجھے خبر دار کیا مگر جب میرے ہاتھ کا لمس کتے کو اچھا لگنے لگا پھر کتے. میرے جسم کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور اس کا لن اہستہ اہستہ سخت ہونے لگا اور لال سرخ گاجر اس کے چمڑے کے تھیلے سے باہر نکلنے لگ گئی اور میں اس کے لن کو سہلا رہی تھی اور ارد گرد دیکھ رہی تھی تاکہ کوئی مجھے گندا کام کرتے نہ پکڑ لے کافی دیر تک کتے کے لن کو ملنے کے بعد میں نے رات کو موقع تلاش کرنے کا سوچا کیوں کے ابو جی کے آنے میں دس ہندرہ دن لگ سکتے تھے. شام کو کام ختم کرنے کے بعد میں نے امی کو سلایا اور باڑے کی طرف چل پڑی اور باڑے میں جاکر جانوروں کا جائزہ لیا اور مناسب جگہ کی تلاش کی مگر مایوسی ہوئی کیوں کہ بارش کے موسم کی وکہ سے سب جانوروں کو باڑے کے کمرے میں باندھا تھا اور مجھے کوئی مناسب جگہ نظر نہیں ائی پھر میرے ذہن میں بھوسے والے گودام کا خیال آیا جو کہ ہمارے گھر کی ہچھلی طرف تھا اوت اس طرف سے مشکل سے آواز آتی تھی میں نے بھورے رنگ والے کتے کو پچکارا اور گھر کی پچھلی طرف چل پڑی جاتے جاتے امی کو دیکھا تو وہ بے خبر سو رہی تھیں.
میں نے بھوسے والے گودام میں توڑوں کو ہٹا کر مناسب جگہ بنائی اور کتے کے ساتھ مستی کرنے لگ گئی اور کتے کے لن کو پکڑ کر سہلانے لگی. کتے کا لن اب سخت ہونا شروع ہو گیا تھا کافی دیر مسلنے کے بعد میں نے شلوار کا ناڑہ کھولا اور کتے کو اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کی مگر کتے کو لڑکی سے چدائی کا تجربہ نہیں تھا اور میں بھی اس کام میں نئی تھی پھر میرے ذہن میں ایا کہ اج کچھ نہ کچھ کر کے چوت کی اگ کو ٹھنڈا کرنا یی پڑے گا کافی دیر کی تگ و دو کے بعد کتا جمپ مار کے میرے اوپر چڑھ گیا اور لن کو جھٹکے مارنے لگا مگر اس کو جگہ نہیں مل رہی تھی میں نے ہاتھ بڑھا کر کتے کے لن کو اپنی پھدی کے منہ پر سیٹ کیا اور اپنے جسم کو پیچھے کی طرف کیا تاکہ لن اندر گھس جائے میری یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی اور کتے کو میری چوت کا راستہ مل گیا اور اس نے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے اور مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے اپنی چوت کے ساتھ کیا ظلم کر دیا ہے کیوں کہ کتے کے لگاتار جھٹکوں نے میرے پورے جسم کو جھنجوڑ دیا تھا اور لن چوت میں گھستا ہی جا رہا تھا پھر میں نے دل کو مضبوت کیا اور اپنے شوہر نما کتے کے لن کی لزت کو محسوس کرنے لگی مجھے کتے کا لن دل کے ساتھ لگتا محسوس ہو رہا تھا مجھے کیا معلوم تھا یہ تو شروعات ہے پانچ منٹ تک لگاتا جھٹکوں کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے کتے کے لن کے اندر ہوا بھر رہی ہو اور وہ پھول رہا ہو جیسے جیسے کتا جھٹکے کی رفتار تیز کر رہا تھا لن کی موٹائی بڑھتی جا رہی تھی اور اب میری برداشت سے بائر تھا میں نے کتے کو اپنے اوپر سے ہٹانا چاہا مگر میں اس ظالم جانور کی گرفت سے نہ نکل سکی مسلسل کوشش کے باوجود میں کتے کی گرفت میں قید رہی اور کتے کے جھٹکے برداشت کرنے ہر مجبور رہے ب مجھے ایسے لگا میری چوت میں کسی نے کوئی موٹا سا فٹبال گھسا دیا ہو میری انکھ سے انسو نکلنے لگے اور میں کراہنے لگی اوئی ماں
مر گئی مجھے اپنی چوت پھٹتی محسوس ہو رہی تھی اف میری ماں میں نے اپنے ساتھ کیا ظلم کر دیا ادھر کتا جھٹکے لگا رہا تھا مگر اس کی رفتا کم ہو گی تھی مگر ابھی قیامت باقی تھی کتا اب رک گیا اور میری کمر سے ایک طرف اتر گیا ہائے میری ماں مجھے تو اپنی موت نظر انے لگی تھی کتے نے لن لو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا میں نے فورا کتے کی دم کو پکڑر کر اپنی گانڈ کتے کی گانڈ کے ساتھ جوڑ لی اور میری چوت کو قدرے ارام لگا اور میں نے کتے کے لن کو اپنے اندر لیے.کتی بنی ہوئی تھی اور کتے کا لن کسی پمپ کی طرح میرے اندر حرکت کر رہا تھا کچھ دیر بعد مجھے چوت کی جلن کم ہوتی محسوس ہوئی اور میری کالی گانڈ کتے کی گانڈ کے ساتھ لگی تھی اب میں نے کتے کی دم کو چھوڑ دیا کتا ارام سے میری گانڈ سے اپنی گانڈ ملا کر کھڑا رہا میں سر جھکائے اپنے کتے شوہر کے لن کو اپنی بچہ دانی میں محسوس کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا میں اس قدر گر سکتی ہوں کہ میرے لیے کتا ہی بچا تھا
یہ سوچتے سوچتے نہ جانے تھکن کی وجہ سے کب میری انکھ لگی ہتا نہیں چلا اچانک میری چوت میں تیز درد کی لہر اٹھی میں ہڑ بڑا کر اٹھی تو کتا اپنا دس انچ اور کافی موٹا لن میری چوت سے نکال چکا تھا اور میری چوت سے کتے کی منی نکل رہی تھی میں نے اپنی چوت کو کپڑے سے صاف کیا اور کھڑی ہوئی مگر میری ٹانگوں میں جان نہیں تھی کافی دیر کے بعد میری جان میں جاں ائی اور میں اپنے بستر تک کیسے پہنچی مجھے علم نہیں ہوا اور بے سدھ ہو کر سو گئی……

Like Reply
میرا نام صائمہ ہے۔ دو سال قبل گرمیوں کے موسم میں میرا شوہر پشاور گیا تھا کام کے سلسلے میں اورمیں اکیلی تھی اور گرمی خوب زورپر تھی۔۔میں اپنے شوہر کے دوست نوید کے بارے میں سوچ رہی تھی جس نے میرے شوہر کے کہنے پر ایک بار چودا تھا، میری قسمت دیکھیں کہ اتنے میں ہی نوید کا فون آگیا۔ اس نے پوچھا کیا کر رہی ہو۔میں نے کہا کہ گرمی کیساتھ اکیلے مقابلہ کر رہی ہںو۔ اس نے کہا کہ میں آجاؤں؟۔میں نے کہا کہ آجاؤ لیکن تھوڑا لیٹ آنا کوئی دیکھے نہ۔ اس نے کہ کہا ٹھیک ھے۔پھر میں نے شوھرکو فون کیا کی نوید آنا چاہتا ھے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ ہمارا یہ فلیٹ 3 کمروں کا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ھوگا کہ کوئی غیر بندہ ہمارے فلیٹ پر آرہا تھا۔ہم چوتھے فلور پر رھتےتھے۔ اس بلڈنگ کے کاریڈور میں سیڑھی اور لفٹ کیساتھ ایک سایڈ پر 8 فلیٹ تھے اور 8 دوسری طرف۔ہمارا فلیٹ سب سے آخر میں تھا۔ نوید کو میں نے فون کیا اور سمجھایا کہ جب آپ نزدیک پہنچے مجھے کال کرو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ اورمیں شدت سے اسکاانتظار کر رھی تھی۔ اور طرح طرح کے پروگرام کے بارےمیں سوچ رھی تھی رات 10 بجے کے قریب نوید آگیا۔ اس وقت بجلی چلی گئی لوڈشیڈنگ کی و جہ سے۔ اس کار یڈور میں صرف ہمارے فلیٹ کے دروازے پر لائٹ تھی جو کہ ہمارے یو پی ایس کی تھی۔ میں نے فوراَ چادر اوڑ لی اور کاریڈور میں آگئی۔ اتنے میں نوید اوپر پہنچ گیا میں نےآہستہ سےآواز دی۔ میں چادر میں تھی اس لیے وہ نہ پہچان سکا۔ اللہ کا شکر تھا اس وقت کار یڈور میں کوئی نہیں تھا۔ میں نے فوراَ نوید کو فلیٹ کے اندر کیااور دروزہ لاک کیا۔ نوید نے فوراَ مجھے گلے لگایا اور خوب کسنگ کی۔ میں حیران رہ گئی کہ نوید کھانے پینے کے لیےبہت کچھ اٹھاکے لایا تھا۔ میں نے پوچھا یہ اتنا سامان کیا لائے ہو۔ سجی، تکے، چکن، چامپ، چائنیز چاول ،فروٹ جوسز اور بہت کچھ، اس نے کہا۔بہر حال نوید کو میں نے کولڈ ڈرنک دی۔ اسنے کہاں مجھے مزے کی چائے پلاؤ۔ اتنے میں وہ واش روم میں چلاگیا۔ اور اس نے منہ ہاتھ دھویا اور شرٹ اتار دی اور برمودہ پہن لیا ۔ جس میں اسکا لن صاف نظر آرہا تھا۔ نوید آج بہت خوش تھا۔میں نے بھی سلیو لیس شرٹ اور ٹائٹس پہنی ھوی تھی ،ویسے بھی بہت گرمی تھی۔ میں نے چائے رکھی، اس نے کہا کہ سموسےہیں اسمیں وہ نکلو۔ میں نے ایک شاپر سے سموسے چلیبی نکال کر چائے کیساتھ رکھ دی۔ نوید نے کہاآجا و میرے ساتھ بیٹھو۔ میں نوید کیساتھ اسکی بغل میں بیٹھ گئی۔ نوید نے میری کمر پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔آج مجھے بہت مزا آرھا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ مزے مزے کی باتیں بھی کر رھا تھا۔ پھر اس نے میری قمیص کے اندر ھاتھ ڈالا۔ میں نے گرمی کی وجہ سے براء نہی پہنی تھی۔ اس نے میرے ممے پکڑے اور لپ کس کی۔ پھر اس نے اپنا بیگ کھولا اسمیں سے میرے لیے پرفیوم، میک اپ کا سامان لیپ سٹک، فاونڈیشن اور براء پینٹی اور نایٹ گاؤن نکال کر مجھے دیا۔۔۔ اف میں حیران رہ گئی۔ نوید نے کہا کہ کپڑے اترو اور اسکی سائز چیک کرو۔ میں اسکے سامنے ننگی ھوگئی اور اس نے براء اور پینٹی خود مجھے پہنا کہ چیک کیا۔ بہت ھی فٹ سائز لایا تھا۔ پھر نوید نے کہا کہ نائٹ گاؤن پہنو۔۔ ایک بالکل ریڈ ایک پرپل اور ایک بلیک سیٹ تھا۔۔۔ اس نے کہا کہ بالکل ریڈ والا پہنو۔ کوئی براء کوی پینٹی نہ پہننا۔ میں نے کہا جو حکم سرکار کا۔اس نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور ہم چائےپی رھے تھے اور وہ میرے منہ میں تھوڑےتھوڑے سموسے کے پیس ڈالتا اور کسنسگ بھی ساتھ ساتھ کررہا تھا۔ میں گرم ھوگی اور چوت سے پانی آنا شروع ھوگیا۔ پھر اس نے میرا ھاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھا اور میں نے فوراَ ایسے پکڑا جیسے کہ میں بالکل بھوکی تھی۔ میں نے اسکا برمودہ اترا اوراسکو بالکل ننگا کیا۔ اب اسکا لن میرے ھاتھ میں تھا۔ نوید نے کہا کہ کبھی لن چوسا ھے۔ میں نے کہا نہیں۔ اس نے پوچھا میرے لن کے بارے میں کیا خیال ھے۔ میں نے کہا جس طرح آپ کہیں گے۔ میں صوفے سے نیچے اسکے لن کے سامنے بیٹھی تھی۔ وہ میرےبالوں میں ہاتھ مار رہا تھا اور آہستہ آہستہ نیچے لن کی طرف میرا منہ لےگیا۔میں نے بلا جھجک بڑا لن منہ میں لےلیا۔ مجھے بہت مزا آرہا تھا۔ اس نے مجھے اٹھا کہ قالین پر لٹایا اور اس نے اپنا لن میرے منہ میں دیا اور میرے چوت چاٹنے لگا۔اف میں بالکل پاگل ہورہی تھی۔ ہائے میں پہلی دفعہ ایسے کررھی تھی۔اف اسکا لن بہت سخت ھوگیا تھا،میری چوت میں آگ لگ چکی تھی۔جب نوید بھی گرم ھوگیا تو اس نے مجھے کہا کہ لن پربیٹھو۔وہ پھر صوفے پر بیٹھ گیا، میں اسکے لن پر جا کہ بیٹھی۔اف ہائے کیا بتاؤں، اتنا مزاآیا کہ میں پاگل ھوگی۔ اس نے کہا میرے طرف منہ کرو۔ میں نے اس کے طرف منہ کیا ااور لن پر بیٹھ گئی۔ اس نے میرے ممے منہ میں لیے اور چوسنے لگا،اف آج تک ایسی چدائی تو کبھی میں نے کی ہی نہیں تھی ۔نوید مجھے 15 ، 20 منٹ تک چود تا رہا اس نے مجھے بہت چودا لیکن میری چوت پھر بھی ٹھنڈی نہی ہوئی۔ آخر اس نے زور زور سے جھٹکے مارنے شروع کردیے اور میں فارغ ہوگئی۔ جب نوید فارغ ھونے کے قریب ھوا اس نے مجھے پھر قالیں پر لٹیا اور میری ٹانگیں اوپر اٹھا لیں اور خوب ٹائٹ چودائی شروع کردی۔ ساتھ ساتھ مجھے پوچھ رھا تھا کہ درد تو نہیں ھورہا؟ میں نے کہا نہی جس طرح چودنا چاھتے ھوچودو میری پھدی کو۔اور میں نیچے سے ہلکی ہلکی سکسکیاں بھی بھر رہی تھی۔ اف، امی جی، ہائے، اور زور سے کرو، پھاڑ ڈالو، میری پھدی کو پھدا بنا دو۔ پھر اس نے ڈوگی سٹائ میں میری چدائی شروع کی۔ اف اتنا مزا اتنا سرور کہ کیا بتاؤں۔ پھر جب نوید فارغ ہو رہا تھا تواس نے مجھے کہا کہ جانو منی اندر چھوڑوں؟ میں نے کہا میری جان ہاں ہاں اندر چھوڑو۔ پھر وہ فارغ ہوگیا۔ 3 منٹ تک اسکا لن میرے اندر تھا۔ اسکے بعد بھی لن جب میری چوت سے نکالا تب بھی سخت تھا۔ میں نے اسکالن ٹشو سےصاف کیا۔ پھرمیں واش روم گئی اور چوت صاف کی۔ میں حیران تھی میں نے اتنی منی نکلتی پہلی بار دیکھی تھی۔ میرے شوھر صرف 4 منٹ سے زیادہ مجھے چود نہیں پاتے تھےاور جب چوت میں فرغ ہوتے تھے فوراَ انکا لن لوز ہوجاتا تھا۔میں واش روم سے باھر نکلی تو نوید نے کہا کہ بس براء اور پینٹی پہن لو۔ میں نےکہا ٹھیک ھے۔ میں نے نوید کے لن کو دیکھا وہ ا سی طرح سخت تھا۔میں کچن جاتے جاتے نوید کو خوب کس کیا اور پھر اسکے سخت لن منہ میں لینے کی کوشش کی۔ ادھا لن منہ میں لیا اور لن کے ٹوپے کو خوب چوسا۔ وہ ابھی بھی سخت تھا۔ پھر میں کچن میں کھانا تیار کرنے لگی۔ تو نوید میرے پیچھے آکے کھڑا ھوگیا اور اسی سخت لن کو میرے گانڈ کے درمیان مار رھا تھا۔ مجھے مزا بھی آرھاتھا۔ پھر وہ میری گردن پرکسنگ کرنے لگا۔ میں نے کہا کھانا تیار ہےنوید نے کہا او یار کھانا بعد میں کھا لینگے رات باقی ھے۔پھر مجھ سے بہت پیار سے پوچھا کہ چدائی سے تنگ تو نہیں ہوی۔ میں نے نفی میں سر ھلایا۔ اس نے کہا زبان سے کہو۔ میں نے کہا بالکل بھی نہیں تنگ ہوئی بلکہ انتہای مزہ آیاہے۔ نوید نےپوچھا کہ اگر ساری رات تم کو چودوں تو تنگ تو نہیں ھوگی۔ میں نے کہا کہ مجھے خوشی ھوگی کہ آپ کا لن میرے اندر رہے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ اوروہ مجھے کسنگ کرنے لگا ۔ اتنے میں میرے میاں کا نوید کوفون آیا۔ نوید نے مجھے اشارہ کیا کچھ بولنا نہیں۔ اس نے سپیکر آن کیا۔ میرے شوھر نے پوچھا آپ کدھر ھو۔ نوید نے کہا کہ اپنے محبوبہ کے قدموں میں۔ اس نے پوچھا کدھر ہے صائمہ۔نوید نے کہا کہ وہ کچن میں ھے۔۔۔ پھر نوید نے میرے شوہر کو کہا کہ تمہاری بیوی بہت سیکسی اور بہت گرم ھے۔اتنی گرم ھے کہ پوری رات بھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔ بہت کوپرایٹو بھی ہے، ہر طرح سیکس کی ماہر ھے۔ میرے شوہر نے کہا کہ میری بیوی تمہارا دل خوش کر دے گی۔ جو بھی سٹائل ہو وہ کرےگی۔ سب سے بڑی اور اچھی بات کہ بات مانتی ہے۔ بہت پیار کرتی ہے۔ بس چوت چاٹوانے کی انتہای شوقیں ھے۔ نوید نے پوچھا کہ گانڈ بھی دیگی۔ اس نے کہا ھاں بالکل۔یہی تو اسمیں خصوصیت ھے۔ بہت پیاری بیوی ھے میری۔جب فون بند ھوگیا تو نوید نے مجھے اشارہ کیا۔ میں نے کہا میں آپکی غلام ھوں ۔ پھر اس نے شدت جذبات سے مجھے گلے لگایا اوکسنگ شروع کردی۔پھر اس نے مجھے گود میں بٹھایا۔آہستہ آہستہ میرے ممے چوسنے لگا۔ اس نے میری براء اور پینتی اتار کر۔پھر چوت کو چاٹنے لگا۔اف کیا مزا تھا۔پھر وہ میری گانڈ کو چاٹنے لگا۔ پھر اس نے کچھ کریم نکالی اور میری گانڈ کے اندر تک انگلی سے لگائی۔ پہلے تو اس کی انگلی سے درد ہوا لیکن پتہ نہیں کریم میں کیا ایسی خاصیت تھی کہ گانڈ بلکل نرم محسوس ہونے لگی اور اسکی انگلی سے مزا آنے لگا۔ پھر اس نے دو انگلیاں گانڈ میں ڈالیں لیکن مجھے درد نہیں ہوا۔پھر اس مجھے سامنے کیا اور چوت کو چاٹنے لگا۔ میں نے خود اسکا لن منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ لن پہلے کی طرح سخت ھو گیا۔پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر گانڈ میں ڈالوں تو کوئی مسئلہ تو نہی ھوگا۔ میں نے کہا مجھے کوئی مسئلہ نہی ں لیکن درد کرے گا، میں نے کبھی بھی گانڈ کے اندر نہی ڈلوایا تھا۔ اس نے کہا کہ تمہیں تکلیف ھوئی تو میں لن نہی ڈالونگا۔ میں نے کہا ٹھیک ھ۔۔وہ میری چوت چاٹ رھا تھا اور پھر میرے ممے دبانے لگا۔ لیکن میں لن کو دیکھ کر پریشان ھورھی تھی کہ یہ لن میری گانڈ میں کیسے جائے گا اتنا موٹا۔ میں نےکہ کہ یہ تو میری گانڈ پھاڑ دے گا۔ نوید سمجھ گیا کہ میں پریشان ہوگئی ہوں۔اس نے پیار سے کہا جان پریشان نہ ھو۔۔۔ اگر اپ پریشان ھوتی تو میں گانڈ میں نہی ڈالونگا۔ میں نے کہا بالکل پریشان نہیں ھوں۔جو کرنا ھے میں آپ کاساتھ دونگی۔پھر وہ میرے ممے زبان سے چوس نے لگا۔میں نے کہا جان میں پاگل ہوگئی ہوں ۔پھر اس نے مجھے ڈوگی سٹائل میں کیا پہلے چوت میں لن ڈالا اور جھٹکے مارنے لگا پہلے شدید درد ہوا اور میں چیختی رہی لیکن پھر مزا آنے لگا۔۔ اف اتنا مزہ آیا کہ میں سوچ نہیں سکتی تھی، اف۔ وہ پھر زور زور سے جٹکے لگانے لگا اور مجھ سے پوچھا درد تو نہی ھو رھا ھے۔ میں نے کہا نہیں اور زور زور سے جھٹکے مارو۔پھراس نے لن میری گانڈ سے نکالا ۔ میں نے پوچھا کیوں نکلا۔ گانڈ کے اند ڈالو۔ پھراس نے گانڈ کے اندر ایک سپرے کیا اور خود صوفے پر بھیٹ گیا اور مجھے کہا آجاو۔ میں نے پوچھا چوت میں ڈالو گے یا گانڈ میں۔اس نے گانڈ میں۔ میں گانڈ پر فل بیٹھ گی۔ میں نے نیچے ہو کر لن کو دیکھا وہ فل اندر تھا ، وہ زور زور سے میری گانڈ چودنے لگا اور دس منٹ بعد میری گانڈ کے اندر ہی فارغ پوگیا۔ پھر میں اٹھی اور گانڈ کو صاف کیا، ہم دونوں ساتھ ساتھ نہائے اور پھر میں اٹھی کچن میں گی اور ڈنر تیار کیا۔لیکن نوید نے کہا کہ کوئی کپڑ انہیں پہننا۔ ہم دونوں ننگے تھے۔۔ رات ایک بجے کھانا کھایا۔ اور پھر میں نوید کی گود میں سو گئی۔
Like Reply
ہیلو میرا نام نورالعین ہے اور میں یاسر کی بیوی ہوں اور ہم راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہتے ہیں.
کچھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ مجھے کمرشل مارکیٹ اپنے درزی شوکت کو اپنے کپڑے سلنے دینے جانا تھا لہذا میں سکول سے چھٹی کے فورا بعد ہی کمرشل مارکیٹ پہنچ گئی.
شوکت درزی کی دکان پر جب پہنچی تو دکان پر تالا پڑا ہوا تھا اور سخت گرمی تھی دوپہر کے 2 بج رہے تھے میں نے شوکت کے موبائل نمبر پر کال کی اور اسکو بنایا کہ میں یاسر کی بیوی نورالعین بات کر رہی ہوں مجھے تمہیں کپڑے دینے ہیں لہذا دکان پر جلدی آجاؤ.شوکت بولا باجی آپ کپڑے ساتھ والی دکان پر میرا نام بتا کر سے جائیں میں آکر لے لوں گا تو میں نے کہا شوکت میں نے اپنا سائز بھی دینا ہے پچھلی بار بھی کپڑے تم نے خراب بنا دیے تھے.شوکت بولا ٹھیک ہے میں آتا ہوں.
تقریباً 15 منٹ کے بعد شوکت آگیا اور مجھے کہا باجی معذرت میں ذرا کھانا کھانے گھر گیا تھا. شوکت نے دکان کا دروازہ کھولا اور میں شوکت کے ساتھ اندر داخل ہوگئی.
شوکت نے کپڑے دیکھے اور مجھے کہا کہ چلیں آپکا ناپ لیتا ہوں اور مجھے دکان کے پیچھے بنے ایک سائیڈ پر بنے کیبن میں لے کر چلا گیا اور مجھے چادر اتارنے کو بولا اور مجھے کھڑا کر کہ میری قمیض کا باپ لینے لگا. شوکت ناپ لیتے میرے جسم کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور ناپ لیتے لیتے شوکت میرے جسم کو ہلکا ہلکا سا دبا رہا تھا جو مجھے بھی اچھا لگ رہا تھا. میری نظر شوکت کی شلوار ہر تھی کیونکہ شوکت کا لن تنا ہوا تھا.
اب شوکت نے میری شلوار کا ناپ لینا شروع کر دیا اور میری شلوار کا ناپ لیتے میری رانوں پر شہوت بھرے انداز سے ہاتھ پھیرتے ہوئے باپ لینے لگا.
میں نے کہا کیوں کیا ہوا شوکت کبھی عورت نہیں دیکھی جو رال ٹپک رہی ہے مجھے دیکھ کر؟
شوکت :پتہ نہیں آپکو دیکھ کر دل اوپر نیچے ہو گیا ہے
یہ کہتے ہوئے شوکت نے میری ہپ کو ہلکا سا دبایا
میں مسکرا دی اور شوکت نے مجھے کہا اگر تمہیں اچھا لگا ہے تو مجھے اپنی چوت چودنے دو
میں نے کہا کیوں میں اپنی چوت تم سے کیوں چدوانی ہے؟ تم بس اوپر اوپر سے ناپ لیتے مزا لو جو تمہارا کام ہے
لیکن میں گرم ہو چکی تھی اور میری چوت میں سے پانی نکل رہا تھا
شوکت نے دروازہ کو چابی سے لاک کیا اور شٹر نیچے کر دیا اور واپس دکان کے اندر آکر مجھے پکڑ لیا اور بولا میں اپنی بیوی شبانہ کی پھدی چودنے لگا تھا تیرا فون آگیا اور بنا اسکی پھدی مارے واپس آگیا اب تیری چوت میں اپنے لن کی گرمی نکالوں گا جیسے تیری ساس نسرین کی پھدی میں اپنی گرمی کبھی کبھی نکالتا ہوں یہ کہتے ہوئے شوکت نے میری رانوں اور میری ہپ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا.
میں نے شوکت سے کہا سچ میں تم میری ساس کی چوت مارتے ہو؟ شوکت بولا ہاں ابھی کل صبح تمہارے آور تمہارے شوہر کے کام پر جاتے ہی تمہارے گھر گیا تھا اور دن 12 بجے کی مجھ سے تیری ساس پھدی چدواتی رہی ہے اور آج نورالعین تیری چوت پر اپنے لن سے مہر لگا دوں گا آج رات اپنے شوہر یاسر کو اپنی چدی ہوئی پھدی پیش کرنا.
یہ کہتے ہوئے شوکت نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میرے ہونٹ چوسنے لگا اور میں ساتھ دینے لگی میں شوکت کی باتوں سے بہت گرم ہو چکی تھی اور سوچا جب میری ساس اب تک باہر پھدی چدواتی ہے تو میں تو جوان ہوں میری پھدی کے بھی بہت عاشق ہیں اور شوکت سے چدوانے میں کوئی حرج نہیں ہے گھر کا درزی ہے.
شوکت میرے ہونٹ چوستے ہوئے میری پھدی شلوار کے اوپر سے سہلا رہا تھا اور میں نے شوکت کے لن کو اسکی شلوار کے اوپر سے پکڑ لیا اور سہلانے لگی. شوکت نے فوراً اپنی شلوار اتار دی اور شوکت کا 8 انچ کا ٹائٹ لوڑا میرے سامنے تھا اور میں نے شوکت کو کہا تیرا لن میرے شوہر یاسر کے لن سے بڑا اور موٹا ہے. شوکت بولا تیری پھدی کو سہی اندر تک چودے گا.
شوکت نے مجھے ننگا کرنا شروع کر دیا اور میری قمیض اتار دی اور پھر میری شلوار اتار دی میری بالوں سے بھری ہوئی چوت پر شوکت ہاتھ پھیرنے لگا اور بولا کتنے ماہ سے پھدی کے بال نہیں صاف کیے تو میں نے کہا 4 ماہ ہو گئے ہیں یاسر کو بالوں والی چوت پسند ہے. پھر شوکت نے میرا برا اتار دیا اور اپنی بھی قمیض اتار کر فل ننگا ہو کر میرے ممے چوسنے لگا. شوکت میرے مموں کے نپلز چوس رہا تھا اور ساتھ ساتھ میری پھدی پر ہاتھ پھیر رہا تھا.
شوکت نے مجھے کہا نورالعین لن چوسنا ہے تیری ساس تو لن چوسنے کی بڑی شوقین ہے تیرا کیا دل ہے؟
میں نے شوکت کے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور بولی ایسا لن چوسو گی میری ساس کو بھول جائے گا
میں نے شوکت کے لن کو منہ میں لے کر لن کو زور زور سے چوسنا شروع کر دیا 5 منٹ لن چوسنے کے بعد شوکت کنٹرول نہ کر سکا اور شوکت کے لن سے منی کی دھاریں میرے منہ میں نکلنے لگی اور میں شوکت کی منی چوس کر نگل گی.
اب شوکت کو میں نے کرسی پر بیٹھ کر کہا چل میری پھدی چاٹ اور اپنی ٹانگوں کو کرسی پر بیٹھ کر کھول دیا شوکت نے میری بالوں والی پھدی کے سوراخ پر زبان پھیرنا شروع کر دی اور میری پھدی سے پانی نکلنے لگا اور شوکت چاٹ رہا تھا.
شوکت میری پھدی چاٹ رہا تھا اور میں فل مستی میں پھدی چٹوا رہی تھی کہ یاسر کی فون کال آگی اور پوچھا کہاں ہو؟ میں نے کہا بازار ہوں کچھ دیر کے بعد آتی ہوں اور ساتھ شوکت کو اشارہ کیا کہ تم میری پھدی چاٹنا جاری رکھو شوکت میری پھدی کو مزے لے لے کر چاٹ رہا تھا کچھ دیر کے بعد میری چوت نے شوکت کے منہ میں پانی چھوڑ دیا اور شوکت نے میری پھدی کو چاٹ کر صاف کیا اور مجھے کہا اب جلدی سے چوت مروا لو
شوکت نے مجھے کاؤنٹر پکڑ کر جھکنے کا کہا اور پیچھے سے آکر میری کمر پکڑ لی اور میری پھدی کے سوراخ پر لن رکھ کر زور سے گھسا مارا اور لن میری چوت میں گھس گیا شوکت نے زور زور سے چار پانچ جھٹکے مارے تو لن پورا میری پھدی میں ڈال کر مجھے چودنا شروع کر دیا اور وحشیوں کی طرح میری چوت چودنے لگا میں نے اپنی چوت اپنا آپ شوکت کے حوالے کر چکی تھی جیسے مرضی میری چوت چودے چاہے پھاڑ سے میری چوت میں اپنی جگہ پر کھڑی تھی اور شوکت مسلسل میری چوت پر جھٹکے مارے جا رہا تھا. کچھ دیر کے بعد شوکت نے مجھے کرسی پر گھوڑی بنا دیا اور مجھے گھوڑی بناتے ہی پوری طاقت سے لن میری پھدی میں ڈال کر چودنا شروع کر دیا.
شوکت زور زور سے وحشیوں کی طرح میری چدائی کر رہا تھا اور بولا آج تیری چوت پھاڑ کر بھیجوں گا آہ میں بولی اف شوکت پھاڑ دو میری پھدی بہت گرم ہے. شوکت اب میری پھدی پر تیز تیز جھٹکے مارنے لگا میری چوت تین بار فارغ ہو چکی تھی اور مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ شوکت فارغ ہونے والا ہے. کچھ سیکنڈ کے بعد شوکت کے لن سے منی کی سیلاب میری چوت میں نکلنے لگا اور میں نے پھدی کو ٹائٹ کر لیا اور شوکت کے لن کو اپنی پھدی سے جکڑ لیا. شوکت نے اپنی لن میری چوت میں تب تک رکھا جب تک اسکی منی کا آخری قطرہ میری چوت میں نکل نہ گیا.
میں اپنے درزی شوکت سے چد چکی تھی شوکت نے لن نکالتے ہی میری ہپ پر تھوکا اور بولا آٹھ گشتی کپڑے پہن اور جا کپڑے سلائی کرنے کے بعد فون کروں گا آجانا لینے اور شوکت کپڑے پہننے لگا.
میں نے اپنی ہپ پر ہاتھ سے شوکت کا تھوک صاف کیا اور پوچھا کہ میری چوت مارنے کے بعد میری ہپ پر تھوکا کیوں ہے تو شوکت بولا اس لیے کہ گشتی تیری چوت چد گی ہے اب یاد رکھنا میرے لن کو اور اس تھوک کو بھی، اور میں نے شوکت کا انگلیوں پر لگا تھوک چاٹ لیا اور کپڑے پہن کر جب باہر نکلی تو ساتھ دکانوں والے مجھے غور سے دیکھ رہے تھے اور شوکت فخریہ مسکرا رہا تھا جیسے سب کو بتا رہا ہو کہ میں اسکے لن سے چدوا کر نکلی ہوں.
اس کے بعد جب کبھی شوکت کا دل ہوتا ہے تو مجھے فون کرتا ہے اور میں اس سے پھدی چدوانے چلی جاتی ہوں.
Like Reply
ہیلو دوستو میرا نام نورالعین ہے اور میں یاسر کی 29 سالہ بیوی ہوں. آج میں اپنے شوہر یاسر کے کہنے پر آپ سب سے اپنا ایک ایسا راز اور سیکس کا تجربہ شئیر کرنے جا رہی ہوں جس کو میں جب بھی سوچتی ہوں تو میری پھدی گیلی ہونے لگتی ہے اور میں سوچتی ہوں کاش ایسا پھر میرے ساتھ ہو جائے.
یہ ایک سال پہلے کی بات ہے کہ مجھے اپنی کزن سدرہ کی شادی کا کراچی سے کارڈ آیا ہوا تھا اور سدرہ نے لازمی آنے کا بولا تھا یاسر کام کی وجہ سے میرے ساتھ نہیں جا سکا تو یاسر نے مجھے اکیلی کو جانے کو بولا اور چونکہ میری کزن اصرار کر رہی تھی تو میں نے بھی سوچ لیا کہ میں کراچی شادی میں شرکت کے لئے ضرور جاؤں گی.
یاسر نے راولپنڈی صدر سے میرے لیے ایک ٹرین کا ٹکٹ لے لیا اور کیبن بک کروا دیا اور میں کراچی کے لیے روانہ ہو گئ. میرے ساتھ کیبن میں ایک میاں بیوی تھے جنکی عمر40 سے 50 سال کے قریب تھی.
رسمی گفتگو کے بات اس عورت نے بتایا کہ اسکا نام شگفتہ ہے اور وہ اور اسکا شوہر بھی راولپنڈی سےکراچی جا رہے ہیں.
میں نے شگفتہ کو بتایا کہ میرا نام نورالعین ہے اور میں بھی شادی شدہ عورت ہوں اور سکول ٹیچر ہوں اور راولپنڈی میں ہی رہتی ہوں.
شگفتہ بظاہر اچھی عورت لگ رہی تھی اور کافی باتیں کر رہی تھی جس سے میرا بھی وقت پاس ہو رہا تھا شگفتہ نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ بھی راولپنڈی کی رہنے والی ہے مگر اسکی شادی کراچی ہوئی ہے شگفتہ نے بتایا کہ اسکی کوئی اولاد نہیں ہے. شگفتہ کا شوہر عثمان بینک میں منیجر تھا اور 47 سال کے قریب اسکی عمر ہو گئی.
خیر وقت گزر رہا تھا اور رات ہوگئی اور ہم سب نے کھانا کھایا اتو شگفتہ کا شوہر عثمان اوپر برتھ پر سونے چلا گیا اور شگفتہ اور میں باتیں کرنے لگی.
کچھ دیر کے بعد میں نے نوٹ کیا شگفتہ مجھے تھوڑا عجیب نظروں سے دیکھ رہی ہے اور میرے جسم کو گھور رہی ہے. گرمیوں کے دن تھے اور ہمارے کیبن میں اے سی چل رہا تھا. شگفتہ ایک درمیانے قد کی عورت تھی اور اسکا جسم بھرا بھرا سا تھا اور رنگ کی سانولی تھی. کچھ دیر کے بعد ہم نے لائیٹ بند کر دی تاکہ شگفتہ کا شوہر عثمان کی نیند خراب نہ ہو جائے اور ہم باتیں کرنے لگے.
باتیں کرتے کرتے شگفتہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی اور پھر بولی نورالعین تیرا شوہر بڑا قسمت والا ہے جسکو تیرے جیسی سیکسی بیوی ملی ہے ایک عورت کے منہ سے اپنی ایسی تعریف سن کر میں ہنس پڑی اور بولی شکریہ شگفتہ باجی اور شگفتہ نے بھی مسکرا دیا. اور میں آنکھیں بند کر کہ بیٹھ گئ کیوں کہ میں تھوڑا سونا چاہتی تھی.
کچھ دیر کے بعد میں نے محسوس کیا شگفتہ باجی نے میرے پاؤں پر اپنا پاؤں ٹچ کیا ہے اور اپنے پاؤں کو میرے پاؤں پر رگڑ رہی ہے مجھے تھوڑا عجیب سا لگا تو میں نے اپنا پاؤں پیچھے ہٹا دیا. لیکن کچھ دیر کے بعد شگفتہ نے میرے پاؤں پر اپنا پاؤں پھر سے رگڑنا شروع کر دیا اور پھر میں نے محسوس کیا شگفتہ نے اپنا پاؤں میری شلوار کے پائنچہ سے اندر ڈال کر رگڑ رہی ہے.
میں نے دھیرے سے شگفتہ کو کہا پلیز نہ کریں تو شگفتہ بولی کیوں نورالعین تجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے؟
میں نے کہا یہ تھوڑا عجیب ہے. شگفتہ آٹھ کر میرے ساتھ آکر بیٹھ کر دھیرے سے بولی نورالعین تم بہت پیاری ہو اور میں تمہیں پیار کرنا چاہتی ہوں اور یہ کہہ کر شگفتہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے گلے سے لگا لیا. میں نے کہا شگفتہ پاگل ہو؟ مجھے یہ سب تھوڑا عجیب لگ رہا تھا مگر شگفتہ نے مجھے نہ چھوڑا اور میرے ہونٹوں پر شگفتہ نے کس کر دی. میرے ہونٹوں کو پہلی بار کسی عورت نے چوما تھا اور مجھے تھوڑا عجیب لیکن مزا آنے لگا تھا.
میں نے کہا شگفتہ تمہارا شوہر جاگ جائے گا پلیز ایسا نہ کرو لیکن شگفتہ بولی میرا شوہر نیند کی دوائی لیتا ہے نہیں اٹھے گا. اب شگفتہ نے اپنا ہاتھ میری ٹانگوں پر پھیرنا شروع کر دیا اور بولی نورالعین شرم کیسی ہے جو تمہارے پاس ہے وہی میرے پاس ہے. میں ڈر کے کانپنے لگی کیوں کہ شگفتہ عجیب حرکتیں کر رہی تھی میرے جسم کو سونگھ رہی تھی اور میری ٹانگوں اور کمر پر مستی سے ہاتھ پھیر رہی تھی.
اب شگفتہ نے میرے ہونٹوں کو باقاعدہ کس کیا اور چوسنے لگی میں نے کچھ مزاحمت کے بعد ہار مان لی اور شگفتہ مجھ پر ہاوی ہو گئی. شگفتہ میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی اور ساتھ میں میرے ممے دبا رہی تھی. میں پوری طرح گرم ہو چکی تھی. اب شگفتہ نے کیبن کے دروازے کا لاک چیک کیا اور کچھ دیر پہلے ٹی ٹی ٹکٹ چیک کر کہ جا چکا تھا لہذا اب کسی نے آنا نہیں تھا.
شگفتہ دوبارہ میرے پاس آگئ کیبن میں مکمل اندھیرا تھا. شگفتہ نے اپنی اور میری چادر اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اب ہم دونوں بس شلوار قمیض میں تھیں. شگفتہ نے دوبارہ سے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ شگفتہ میرے ممے دبانے لگی تو میرا ہاتھ بھی خود ہی شگفتہ کی چھاتیوں پر چلا گیا اور میں شگفتہ کے اور شگفتہ میرے ممے دبانے لگی.
شگفتہ پاگلوں کی طرح میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی. اب شگفتہ نے میری شلوار اتار دی اور مجھے بولی نورالعین میری شلوار اتارو اور میں نے شگفتہ کی شلوار اتار دی. اب شگفتہ نے میری قمیض بھی اتار دی اور پھر میں نے شگفتہ کی قمیض اتار دی. شگفتہ اور میں بس برا میں تھیں شگفتہ نے میرا کالا رنگ کا برا کی ہک کھول کر اتار دیا اور اپنا برا بھی اتار دیا. اب میں اور شگفتہ بلکل ننگی تھیں.
شگفتہ اور میں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ہم نے اپنی چھاتیوں کو آپس میں جوڑنے لگے میرے اور شگفتہ دونوں کے مموں کے نپلز تنے ہوئے تھے. شگفتہ نے میرے ممے چوسنا شروع کر دیے اور میں چلتی ٹرین میں سسکیاں لینے لگی اہ آف کیا مست طریقے سے شگفتہ میرے ممے چوس رہی تھی. یہ میرا عورت کے ساتھ پہلا سیکس کا تجربہ تھا.
اب شگفتہ نے مجھے سیٹ پر ٹانگیں کھول کر بیٹھنے کا کہا اور شگفتہ نیچے بیٹھ کر میری پھدی چاٹنے لگی. میری پھدی پر کافی بال تھے شگفتہ بولی مجھے پھدی پر بال پسند ہیں تو میں نے کہا میرے شوہر یاسر کو پھدی پر بال پسند ہیں تو شگفتہ بولی میرے شوہر عثمان کو بھی بالوں سے بھری چوت پسند ہے. میں مزے سے پاگل ہو رہی تھی اور شگفتہ میری چوت کو چوس رہی تھی کچھ منٹ کے بعد میری پھدی نے شگفتہ کے منہ میں پانی چھوڑ دیا اور شگفتہ نے میری چوت کا پانی پی لیا اور چوت چاٹ کر صاف کر دی.
اب شگفتہ سیٹ پر آکر بیٹھ گئ اور بولی نورالعین میرے ممے چوس اور میں نے شگفتہ کے 38 سائز مموں کو چوسنا شروع کر دیا. شگفتہ اونچی آواز میں سسکیاں لینے لگی. اب شگفتہ نے اپنی ٹانگوں کو کھول دیا اور اپنی پھدی چاٹنے کا بولا میرا پہلا تجربہ تھا اور پھر میں نے شگفتہ کی بالوں سے بھری پھدی پر ہونٹ رکھ دئے. شگفتہ نے میرا سر اپنی پھدی میں دبایا اور میں زبان شگفتہ کی پھدی کے سوراخ پر مارنے لگی. شگفتہ کی پھدی کا سوراخ کافی بڑا اور کھلا ہوا تھا جو اس وقت مکمل گیلا تھا. میں زور زور سے شگفتہ کی پھدی چاٹ رہی تھی اور شگفتہ کی پھدی سے پیشاب کی مہک آرہی تھی جو مجھے اب اچھی لگ رہی تھی. اب مجھے شگفتہ کی پھدی چاٹنے میں بہت مزا آرہا تھا. کچھ دیر کے بعد شگفتہ کی چوت نے ڈھیر سارا پانی میرے منہ میں چھوڑ دیا میں تھوکنا چاہتی تھی مگر شگفتہ بولی پی جاؤ.
کچھ دیر میں اور شگفتہ ایسے ہی ننگی بیٹھی رہیں. اور کچھ دیر کے بعد شگفتہ نے مجھے پھر سے ہونٹوں پر کس کیا اور بولی نورالعین کیا دل کر رہا ہے تو میں نے کہا شگفتہ کاش کوئی لن میری پھدی کو ٹھنڈا کر دے تو شگفتہ بولی تیری پھدی تیار ہے تو لن تجھے میں اپنے شوہر عثمان سے دلواتی ہوں.
یہ کہہ کر شگفتہ نے میری پھدی میں اپنی انگلی ڈال دی اور میرے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی. شگفتہ نے پوچھا کیوں نورالعین چدے گی میرے شوہر کے لن سے؟ میں بہت گرم ہو چکی تھی اور میں نے کہا ہاں چدوا لوں گی. شگفتہ نے اپنے شوہر کو اٹھایا اور کہا نیچے اجاو اور شگفتہ کا شوہر عثمان آنکھیں ملتا ہوا نیچے اتر آیا اور مجھے اور شگفتہ کو ننگی دیکھ کر مسکرانے لگا.
عثمان شگفتہ سے بولا شکریہ میری بیوی تم نے آج پھر مجھے ایک نئی چوت کا تحفہ دیا ہے. شگفتہ نے عثمان کی پینٹ شرٹ اتارنے لگی اورعثمان کو فل ننگا کر دیا. عثمان مجھے ننگی دیکھ کر اپنا لن ہلانے لگا اور میرے پاس آکر بولا چدوائے گی پھدی؟
میں نے کہا ہاں تو عثمان نے لن میرے منہ کے قریب کیا اور میں نے عثمان کے لن کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی. میں زور زور سے لن چوس رہی تھی اور شگفتہ بولی تیرے شوہر کو پتہ نہیں کہ اسکی بیوی ٹرین میں کسی پرائے مرد کا لن چوس رہی ہے. میں فل گرمی سے عثمان کا لن چوس رہی تھی عثمان کا لن 6 انچ کا تھا لیکن موٹا بہت تھا. شگفتہ عثمان کے لن کے ٹٹوں کو ہلا رہی تھی اور میں لن چوس رہی تھی.
اب عثمان نے مجھے سیٹ پر گھوڑی بنا دیا اور دونوں میاں بیوی شگفتہ اور عثمان میری گرم چوت کے سوراخ کو باری باری چاٹنے لگے. میں مزے سے پاگل ہو رہی تھی. کہ اب میں نے عثمان کا سخت موٹا لن پھدی کے سوراخ پر محسوس کیا اور عثمان نے میری کمر پکڑ کر زور دار گھسا مارا اور شگفتہ کے شوہر عثمان کا لن میری پھدی میں گھس گیا اب عثمان نے دو تین زور سے گھسے مارے اور لن پورا میری پھدی میں اندر ڈال دیا.
عثمان میری چوتر پر تھپڑ مارنے لگا اور مجھے درد کے ساتھ مزا ارہا تھا. اب عثمان نے میری پھدی چودنا شروع کر دی اور زور زور سے میری پھدی چودنے لگا. مجھے عثمان سے پھدی چدوا کر بہت مزا ارہا تھا. عثمان زور زور سے میری چوت چود رہا تھا اور شگفتہ میرے ممے دباتے پوچھ رہی تھی نورالعین مزا آرہا ہے نا؟ میں نے کہا بہت مزا آرہا ہے. عثمان میرے چوتر پر زور دار تھپڑ مارتے ہوئے میری پھدی چود رہا تھا. اچانک مجھے محسوس ہوا کہ عثمان کے لن منی کا فوارہ نکلا ہے اور ساتھ ہی میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا عثمان کی منی کو میں اپنی بچہ دانی میں محسوس کر رہی تھی. عثمان نے منی کا آخری قطرہ نکالنے تک لن میری پھدی میں رکھی رکھا اور پھر لن نکال کر میرے منہ میں ڈال دیا اور میں نے عثمان کے لن کو چوس چوس کر صاف کر دیا.
اب شگفتہ میری پھدی کو چاٹ کر صاف کر رہی تھی اور مجھے پوچھا کیسا لگا تو میں نے شگفتہ سے کہا میری زندگی کی یادگار چدائی ہے. اس رات کراچی تک سفر کے دوران عثمان نے میری 4 بار پھدی ماری اور صبح 9 بجے ہم کراچی اسٹیشن پر تھے. ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کیا اور میری کزن سدرہ مجھے اسٹیشن لینے آئی ہوئی تھی میں اپنی کزن کے ہمراہ اسکے گھر چلی آئی اور آکر میں نے غسل کیا عثمان کی منی میری پھدی کے سوراخ کے ارد گرد چپکی ہوئی تھی. یہ میری زندگی کا خوشگوار ترین سفر تھا جسکو میں کبھی نہیں بھول سکوں گی.
Like Reply
میرا نام نورالعین ہے میں راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہتی ہیں ہوں اور یاسر کی بیوی ہوں.
میری عمر 29 سال ہے اور میرا رنگ گورا ہے میرا قد 5فٹ 7 انچ ہے. میرے بوبز کا سائز 36 ہے. امید ہے آپ سب میری کہانی پڑھ کر میری پھدی کے نام کی مٹھ ضرور لگائیں گئے.
میری ساس نسرین ایک چڈکر عورت ہے جسے نئے نئے لن لینے کا شوق ہے. اسی وجہ سے میری ساس 56 سال کی ہو کر بھی 45 کی لگتی ہے اور اسکا جسم بھی فٹ ہے. میری ساس کو چڈکر بنانے میں میرے شوہر یاسر کا ہی ہاتھ تھا جس نے اپنی سگی ماں کو 15 سال کی عمر سے چودنا شروع کر دیا اور ابھی تک خود بھی چودتا ہے اور چدواتا بھی ہے.
میری ساس اور مجھ میں کوئی پردہ نہیں ہے ایک دن میری ساس نسرین بولی نورالعین بیٹی میرا ایک پرانا دوست ہے آفتاب جو میرے شوہر کا دوست ہے وہ تیری پھدی چودنا چاہتا ہے تو میری بات مان تو ایک بار چدوا لے ویسے بھی یاسر کو کوئی اعتراض نہیں ہے کہ تو کسی سے بھی پھدی چدوائے، آفتاب مجھے بہت بار کہہ چکا ہے کہ اپنی بہو نورالعین کی پھدی دلوا دے.
میں نے اپنی ساس نسرین سے کہا ٹھیک ہے اگر تم چاہتی ہو تو ٹھیک ہے میں نے بھی کافی دن سے کسی کو اپنی پھدی نہیں دی تھی سوچا چلو آفتاب انکل سے ہی چدوا لیتی ہوں.
نسرین آنٹی نے مجھے کہا کل تم صبح اس ایڈریس پر چلی جانا اور اس نمبر پر فون کرنا یہ آفتاب کا نمبر ہے. اگلے دن سکول سے چھٹی تھی تو میں نے یاسر کو کہا کہ میں اپنی سہیلی کے گھر جاؤں گئ شام تک آجاؤں گی.
میں راولپنڈی کری روڈ پر واقع اس گھر کے ایڈریس پر پہنچ گئی اور میں نے آفتاب انکل کے نمبر پر فون کیا تو آفتاب انکل نے مسکراتے دروازہ کھولا اور میں گھر میں داخل ہو گئی. آفتاب انکل مجھے کمرے میں لے گئے اور بٹھا دیا.
آفتاب انکل 57 سال کا تھا لیکن صحیح جان والا تھا جوان لگتا تھا . آفتاب نے مجھے پیپسی دی گرمی کا موسم تھا اور اے سی چل رہا تھا.
آفتاب :- نورالعین مجھے اچھا لگا تم پھدی چدوانے چلی آئی ہو میرا لن تمہاری پھدی پر بہت گرم تھا.
مجھے دوسروں کی بیوی کی چدائی کرنے کا نشہ ہے سب سے پہلے اہنے دوست کی بیوی نسرین کی پھدی چودی اور اسکو اپنے دوستو سے بھی چدوایا اور آج نسرین کے بیٹے یاسر کی بیوی میرے لن کی سواری کرے گی.
میں نے کہا ہاں میں چاہتی تھی اپنی چوت کی چدائی کسی اپنے سے بڑے مرد سے کرواوں.
آبھی میں بات کر رہی تھی کہ آفتاب انکل نے میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اور آفتاب انکل کا ایک ہاتھ میرے ممے پر تھا. میں نے منہ کھول دیا اور اپنی زبان آفتاب انکل کے منہ میں ڈال دی. آفتاب انکل میری زبان کو چوسنے لگا اور آفتاب انکل ساتھ ساتھ میرے ممے دبا رہا تھا.
اب آفتاب انکل اٹھا اور اس نے مجھے بیڈ پر گرا کر میری شلوار کھینچ کر اتار دی میری ہلکے ہلکے بالوں والی پھدی میری ساس نسرین کے یار کے سامنے تھی. آفتاب انکل نے اپنی شلوار اتار دی اور انکا 8 انچ کا لوڑا سانپ کی طرح پھن پھلا کر لہرانے لگا. آفتاب انکل نے اپنی قمیض اتار دی اور میری قمیض بھی اتارنے لگا.
آفتاب انکل نے میری قمیض اور میرا سرخ برا اتار دیا اور کچن سے شہد کی بوتل لے کر آگیا.
آفتاب انکل مجھے بولا نورالعین اپنی ٹانگوں کو پورا کھول دے
میں نے اپنی ٹانگیں کھول دی تو آفتاب انکل نے میری پھدی کو شہد سے بھر دیا
پھر آفتاب انکل نے میرے ہونٹوں پر شہد لگایا اور پھر شہد میرے مموں کے نپلز پر لگانے لگا.
آفتاب انکل نے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور زور زور سے میرے ہونٹوں کو چوس رہا تھا
آف کیا بتاؤں میری کیا حالت ہو رہی تھی آفتاب انکل مجھے دیوانوں کی طرح چوم رہا تھا اور آفتاب انکل کا کالا لوڑا میرے پیٹ اور کبھی میری پھدی پر ٹچ ہو رہا تھا. آفتاب انکل میرے ہونٹوں اور گردن پر بوسے لے رہا تھا اور دانتوں سے کاٹ رہا تھا. میں بھی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اور بہت زیادہ مزے میں تھی. میری پھدی سے مسلسل پانی نکل رہا تھا.
اب آفتاب انکل نے میرے مموں کے نپلز کو چوسنا شروع کیا اور شہد میرے مموں کے نپلز سے چاٹ کر صاف کرنا شروع کر دیا. آفتاب انکل پرانا کھلاڑی تھا اور وہ جانتا تھا ایک عورت کو کیسے مزا دینا ہے.
آفتاب انکل میرے ممے زور زور سے چوس رہا تھا اور اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا میری پھدی اس دوران دو بار پانی چھوڑ چکی تھی. مگر آفتاب انکل میرے ممے مسلسل بیس منٹ سے چوس رہا تھا اور دبا رہا تھا.
آفتاب انکل : اور نورالعین آج تیری پھدی پھاڑ کر گھر بھیجو گا آج تیری پھدی کا سوراخ تیری ساس کی پھدی جتنا کھلا کر کہ بھیجوں گا. آف آہ نورالعین تیری گرم گرم چوت اہ
میں نے کہا آہ انکل چودو پھاڑ دو میری پھدی میری ساس نے تو تم سے چدوانے بھیجا ہے مجھے جی بھر کر مارنا میری پھدی آج اہ میں بھی بہت گرم ہو چکی ہوں. آفتاب انکل میری پھدی چاٹو
آفتاب انکل نے میری شہد سے بھری پھدی کو چاٹنا شروع کیا اور زور زور سے میری پھدی کو چاٹنے لگا اور میری ٹانگیں پوری طرح کھول کر آفتاب انکل نے اپنی زبان میری پھدی کے سوراخ کے اندر گھسا دی اور میری پھدی کے اندر زبان مارنے لگا.
آف میں بتا نہیں سکتی آفتاب انکل کی زبان میری پھدی کو کتنی لذت دے رہی تھی میری پھدی دو بار پانی چھوڑ چکی تھی مگر آفتاب انکل میری پھدی کو مسلسل چاٹ رہا تھا. میری پھدی بھی فل مستی میں تھی.
آفتاب انکل میری پھدی کو چاٹتے ہوئے میری پھدی کا تیسری بار پانی شہد کے ساتھ چاٹ کر نگل گیا.
اب آفتاب انکل نے اپنے 8 انچ کے لن پر شہد لگایا اور لن میرے منہ کے قریب کر دیا میں نے فوراً لن منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا آف کیا بتاؤں مجھے آفتاب کا لن منہ میں ایک لوہے کے راڈ کی طرح محسوس ہو رہا تھا. بہت تگڑا لن تھا اور مجھے چوس کر بھی مزا ارہا تھا. میں نے زور زور سے آفتاب انکل کے لن کو چوسنا شروع کیا اور لن کو چوستے اپنے گلے تک لے کر جاتی تھی اور پھر لن باہر نکال کر لن کے ٹوپے کو زبان مارتی اور پھر لن پورا منہ میں لے کر چوس رہی تھی.
آفتاب انکل بولا تم ساس بہو بہت اچھا لوڑا چوستی ہو مزا اجاتا ہے.
میں 20 مسلسل آفتاب انکل کا لوڑا چوس رہی تھی کہ آفتاب انکل بولا نورالعین میری منی نکلنے والی ہے تو میں نے کہا کیا ہوا میرے منہ کے اندر منی نکال دو اور پھر آفتاب انکل کے لن سے منی کا فوارہ چھوٹا اور میرا منہ آفتاب انکل کی گاڑھی منی سے بھر گیا تھا. میں نے منی نگل لی اور آفتاب انکل کے لوڑے کو چوسنا جاری رکھا ہوا تھا.
میری پھدی میں آگ لگی ہوئی تھی اور میں مسلسل آفتاب انکل کے لوڑے کو چوس رہی تھی. کچھ دیر کے بعد آفتاب انکل کا لن میری پھدی چودنے کے لیے تیار ہو چکا تھا.
آٰفتاب انکل نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا اور میں فوراً گھوڑی بن گئ اور آفتاب انکل نے میری چوت کو زبان ماری اور پھر اپنا 7 انچ کا لن میری پھدی کے سوراخ پر رکھ کر زور دار جھٹکا مارا
میری سسکی نکلی آہ میری چوت
آفتاب انکل بولا نورالعین آج پھاڑ دوں گا تیری چوت
میں نے کہا پھاڑ دو انکل تجھ سے چوت ہی چدوانے آئی ہوں
آفتاب انکل نے دو زوردار جھٹکے مارے اور لن میری پھدی کے اندر تک گھسا دیا اور زور زور سے میری پھدی چودنے لگا. آفتاب انکل میری پھدی زور زور سے چود رہا تھا اور میں مزے کے ساتویں آسمان پر تھی.
آفتاب انکل کا 8 انچ کا لوڑا میری پھدی میں لوہے کی راڈ کی طرح محسوس ہو رہا تھا. آفتاب انکل زور زور سے میری کمر کو پکڑ کر مجھے چود رہا تھا.
اب آفتاب انکل نے مجھے کہا میرے لن پر چڑھ کر پھدی مارو میں نے آفتاب انکل کو لٹا دیا اور اسکے لن پر اپنی پھدی رکھ دی اور پورا لن اپنی گرم پھدی میں لے کر آفتاب انکل کے لن پر پھدی مارنے لگی.
آفتاب انکل میری گانڈ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا اور میں زور زور سے آفتاب انکل کے لن پر اپنی چوت مار رہی تھی. آفتاب انکل نے گانڈ پر زور زور سے تھپڑ مارنا شروع کر دیے لیکن مجھے درد کے ساتھ مزا آریا تھا.
اب آفتاب انکل نے مجھے بیڈ پر لیٹنے کو کہا اور میں لیٹ گئ آفتاب انکل نے میری دونوں ٹانگیں اٹھا کر میری کندھوں سے لگا دی اور میری پھدی پر چڑھ کر زور زور سے چودنے لگا.
آفتاب انکل 20 منٹ سے میری چوت مار رہا تھا اور میری چوت تین بار فارغ ہو چکی تھی مگر آفتاب انکل کا فولادی لن ابھی تک فارغ نہیں ہو رہا تھا. آفتاب انکل بولا بول گشتی چدوانے آنا ہے دوبارہ؟ میں نے کہا ہاں لازمی مجھے مزا آرہا ہے تجھ سے چدوا کر
آفتاب انکل زود زور سے میری پھدی چود رہا تھا اور آفتاب انکل کے ٹٹے ہر گھسے پر میری گانڈ کے سوراخ پر لگ رہے تھے اب مجھے میری پھدی میں گرم گرم کوئی چیز گرتی محسوس ہوئی میں نے پھدی کو ٹایٹ کر کہ آفتاب انکل کے لن کو اپنی پھدی سے جکڑ لیا.
آفتاب انکل تیز تیز سانسیں لیتا بولا نورالعین گشتی تیری پھدی نے میرے لن کو چوس لیا ہے اور آفتاب انکل میرے اوپر لیٹ گیا. آفتاب انکل کا لن میری پھدی کے اندر ہی تھا میں نے آفتاب انکل کو کمر سے پکڑ رکھا تھا اور اپنی ٹانگیں کھول رکھی تھی اور آفتاب انکل میری پھدی کے اوپر بلکل فٹ چڑھا ہوا تھا.. کچھ دیر کے بعد آفتاب انکل کے لن نے میری پھدی میں پھر انگڑائی لی اور آفتاب انکل نے میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر میری پھدی کو پھر سے چودنا شروع کردیا. آفتاب انکل میرے ہونٹوں کو چوستے ہوئے میری پھدی چود رہا تھا اور میرے ہاتھ آفتاب انکل کی کمر پر تھے اور میں چوت اٹھا کر آفتاب انکل کے ہر جھٹکے کا جواب دے رہی تھی.
آفتاب انکل نے مجھے گھوڑی بنا دیا اور میری پھدی پر چڑھ کر میری پھدی چودنے لگا. میں نے کہا آہ انکل چودو بہت مزا ارہا ہے اور زور سے چودو میری پھدی آہ آفتاب انکل بولا گشتی فکر نہ کر آج تیری بہت چدائی ہو گئی. 10 منٹ کے بعد آفتاب انکل میری چوت میں فارغ ہو گیا.
پھر کچھ دیر کے بعد میری ساس کا فون آیا بولی سب ٹھیک ہےتو میں نے کہا ہاں بہت مزا ارہا ہے.
آفتاب انکل کے مجھ سے فون لے کر میری ساس کو بولا نسرین تیری بہو کی پھدی آج پھاڑ کر بھیجوں گا یہ ہفتے تک کسی کو پھدی دینے کے قابل نہیں رہے گی.
میری چوت میں فارغ ہونے کے بعد آفتاب انکل نے میری پھدی سے لن باہر نکال کر میرے منہ میں ڈال دیا اور میں نے آفتاب انکل لے لن کو چوس کر اچھے سے صاف کیا اور پھر آفتاب انکل نے میری پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا میری پھدی پھر سے مست ہونے لگی اور میں نے آفتاب انکل کا سر پکڑ کر اپنی پھدی میں دبانا شروع کر دیا اور آفتاب انکل کو کہا کھا جاؤ میری پھدی کو چاٹو اچھے سے چاٹو میری گرم پھدی کو آج سے تمہاری ہے جب تم کہو گے تم سے چدوانے آیا کروں گئ. اب تم میری ساس نسرین کے ساتھ ساتھ میری پھدی کو بھی چودا کرنا.
آفتاب انکل میری پھدی کو چوس رہا تھا اور پھر مجھے بولا نورالعین چل سیدھا لیٹ جا اور میں بیڈ پر سیدھا لیٹ گئ. آفتاب انکل میرے اوپر لیٹ گیا اور اپنا لن میری پھدی کے اوپر رکھ کر رگڑنے لگا. میری پھدی مست ہونے لگی تو میں نے آفتاب انکل کے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی کے سوراخ پر رکھ کر نیچے سے پھدی اٹھا کر جھٹکا دیا اور آفتاب انکل کے 8 انچ لمبے لن کا موٹا ٹوپا میری پھدی کے اندر داخل ہو چکا تھا.
اب آفتاب انکل نے ایک زور دار گھسا میری پھدی پر مارا اور پورا لن میری پھدی کے اندر گھس چکا تھا. میں نے آفتاب انکل کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور چوسنے لگی اور آفتاب انکل میری پھدی چودنے لگا. میری پھدی نے آفتاب انکل کے لن کو جکڑ رکھا تھا اور آفتاب انکل کھل کر میری چدائی کر رہے تھے.
اب آفتاب انکل نے میری پھدی چودتے ہوئے میرے ممے چوسنا شروع کر دیے اور میں چدائی کے نشے میں پاگل ہو رہی تھی. آفتاب انکل میرے مموں کو چوستا اور دانتوں سے کاٹتا تھا جس سے میری پھدی کو مزید نشہ چڑھ رہا تھا. بیس منٹ سے آفتاب انکل میری چوت چود رہا تھا مگر فارغ نہیں ہو رہا تھا اس دوران میری پھدی نے 2 بار پانی چھوڑا مگر آفتاب انکل کا لن راڈ بن کر میری پھدی مسلسل چود رہا تھا.
پھر 5 منٹ کے بعد آفتاب کے لن نے اپنی منی سے میری پھدی کو بھر دیا اور میرے اندر لن رکھ کر لیٹ گئے. کچھ دیر کے بعد آفتاب انکل نے لن میری پھدی سے باہر نکال کر چسوا کر صاف کروایا اور مجھے پوچھا نورالعین مزا ارہا ہے؟ میں نے کہا بہت لیکن تھک گئی ہوں تو آفتاب بولا گشتی ابھی تیری پھدی 4 چار مزید چودنی ہے.
اس دن آفتاب انکل نے میری پھدی کو 7 بار چودا اور میری پھدی کا برا حال کر دیا میری گردن اور ہونٹوں کو چوس کر کاٹ کر نشان بنا دیئے مجھے کوئی دیکھ کر اندازہ کر سکتا تھا کہ میری پھدی کسی بری طرح چودی ہے. میں شام 6 بجے گھر آئی اور سہی چلا نہیں جا رہا تھا اور تھکاوٹ تھی میں آتے ہی سو گی. رات یاسر نے میری پھدی چودنی چاہی تو میں نے کہا یاسر کچھ دن میرے قریب مت آنا میری طبیعت نہیں ٹھیک اور میں سو گئ. مگر یاسر کو میری گردن اور ہونٹوں پر نشان دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ اسکی بیوی کی پھدی کسی نے بری طرح چودی ہے.
اگلے دن میری ساس نے مجھ سے پوچھا کیسا رہا تجربہ آفتاب سے چدوانے کا، تو میں نے کہا بہت عمدہ تھا اب نسرین آنٹی ساس بہو دونوں آفتاب سے چدائی کروایا کریں گی. میری ساس نسرین ہنسنے لگی اور بولی آفتاب کے لن میں جادو ہے جس عورت کی پھدی چود دیتا ہے وہ عورت دوبارہ خود پھدی چدوانے جاتی ہے.
Like Reply
صائمہ اپنے گھر کے پیچھے والی سٹریٹ میں واک کرنے جاتی تو اس نے نوٹ کیا کہ ایک زیر تعمیر مکان کے باہر بہت سارے مزدور اور نوکر بیٹھے تاش کھیلتے رہتے اور جب بھی صائمہ انکے پاس سے گزرتی تو وہ لوگ آپس میں کھسر پھسر کرکے صائمہ کو دیکھ کر ہنسنے لگتے ۔
ایک دن صائمہ نے سوچا کہ آخر وہ لوگ آپس میں اسے دیکھ کر کیا کھسر پھسر کرتے ہیں اور اسے دیکھ کر کیوں ہنستے ہیں تو صائمہ اپنے کانوں میں ہیڈفونز لگا کر وہاں سے گزری تاکہ وہ مزدورلوگ یہ سمجھیں کہ وہ کوئی گانا وغیرہ سن رہی ہے حالانکہ صائمہ انکی کھسر پھسر سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ تو جونہی صائمہ انکے پاس سے گزرنے لگی تو اس نے سنا کہ مزدور آپس میں اسی کے بارے میں باتیں کرکے ہنس رہے تھے ۔
صائمہ نے سنا کہ ایک مزدور اس کے ہپس کی تعریف کررہا تھا جبکہ دوسرا مزدور اسکے بریسٹز دبانے کی خواہش کا اظہار کررہا تھا ۔ یہ سنکر صائمہ دل ہی دل میں مسکرادی اور واک کرنے آگے بڑھ گئی لیکن اس کے ذہن میں بار بار ان مزدوروں کی باتیں آتی رہیں ۔ واپسی پر وہ پھر ان مزدوروں کے قریب سے گزری تو اس نے سنا کہ مزدور آپس میں اسے ننگا کرنے کی باتیں کرکے ہنس رہے تھے تو صائمہ دل ہی دل میں مسکرانے لگی ۔ گھر واپس پہنچ کر صائمہ کو بار بار ان مزدوروں کی باتیں یاد آتی رہیں تو اس نے سوچا کہ اگر واقعی کسی دن وہ ان مزدوروں کے ہتھے چڑھ گئی تو وہ اس کا کیا حال کریں گے ۔
یہ سوچ کر صائمہ مسکرادی اور دل ہی دل میں ان مزدوروں کے درمیان بالکل ننگی ہونے کا تصور کرکے مسکرانے لگی ۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ کسی بہانے سے ان مزدوروں کے ساتھ اس زیر تعمیر مکان کے اندر جانے کی کوشش کرکے دیکھوں ،شاید وہ لوگ اسے اپنے درمیان بالکل اکیلی دیکھ کر ننگا کرنے کی کوشش کریں ؟ تو یہ سوچ کر صائمہ دل ہی دل میں مسکرانے لگی
اگلے دن جب صائمہ واک کیلئے نکلی تو وہ سیدھی اس زیر تعمیر مکان کے اندر چلی گئی اور ایسے ظاہر کیا جیسے وہ اس گھر کو اندر سے دیکھنے آئی ہے تو اس نے سنا کہ مزدور آپس میں اسی کے بارے میں باتیں کررہے تھے کہ وہ اکیلی اندر ہے ! موقع اچھا ہے آج اس کے کپڑے اتار کر اسے ننگا کرلیتے ہیں ! پھر یہ ننگی حالت میں کسی کے سامنے نہیں جاسکے گی “۔ یہ سنکر صائمہ دل ہی دل میں مسکرانے لگی اور انتظار کرنے لگی کہ مزدور اندر آکر اس کے کپڑے اتارنے کی کوشش کریں ۔
صائمہ نے سنا کہ وہ لوگ تین چار ہٹے کٹے مزدوروں کو کہہ رہے تھے کہ تم لوگ اندر جاکر اس عورت کو پکڑو اور اس کے کپڑے اتار کر اسے ننگا کرو تو یہ سنکر صائمہ دل ہی دل میں مسکرانے لگی ۔ اس نے دیکھا کہ چار ہٹے کٹے مزدور اس زیر تعمیر مکان میں داخل ہوئے تو صائمہ جان بوجھ کر وہاں پرسیمنٹ کے سٹور والے کمرے میں چلی گئی کیونکہ اس کمرے کا دروازہ بھی لگا ہوا تھا اور وہ لوگ دروازہ بند کر کے اسے بالکل ننگا کرسکتے تھے اور بظاہر صائمہ کو بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملتا ۔
یہ سوچ کر صائمہ مسکرادی اور دل ہی دل میں ان مزدوروں کے درمیان بالکل ننگی ہونے کا تصور کرکے شرمانے لگی تو اس نے دیکھا کہ چار ہٹے کٹے مزدور اس کے پیچھے سیمنٹ والے کمرے میں داخل ہوئے اور دروازہ اندر سے بند کر کے اس کی طرف بڑھنے لگے تو صائمہ ان کی طرف اپنی پیٹھ کرکے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تو ایک ہٹے کٹے مزدور نے اچانک پیچھے سے صائمہ کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور باقی تین مزدور جلدی جلدی صائمہ کے کپڑے اتارنے لگے ۔ صائمہ گھبرانے کی ایکٹنگ کرکے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی مگر مزدور بہت طاقتور تھے اور بظاہر صائمہ کو بھاگنے کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ مزدوروں نے اس کی قمیض پکڑ کر اوپر کرکے اتار لی اور اس کی بریزئر کے سٹریپ بھی اس کے بازؤں سے نکال لئے ۔ مزدوروں نے صائمہ کی شلوار کا ہک بھی کھول دیا تو صائمہ کی شلوار نیچے گر گئی تو مزدور یہ دیکھ کر ہنسنے لگے کہ صائمہ نے کوئی پینٹی وغیرہ نہیں پہنی ہوئی تھی اور صائمہ کی ننگی پھدی انکے سامنے تھی ۔
انہوں نے صائمہ کی بریزئر بھی کھول دی اور اس کھینچا تانی میں صائمہ کی کھلی ہوئی بریزئر بھی نیچے گرگئی اور صائمہ انکے سامنے بالکل ننگی ہوگئی تو ایک مزدور نے صائمہ کی ٹانگیں پکڑ کر کھول کر نیچے جھک کر صائمہ کی ننگی پھدی چوم لی ۔ صائمہ نے بھی اپنی ٹانگیں کھول دیں اور اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی ننگی پھدی اس مزدور کے منہ سے لگا دی تو ان مزدوروں نے صائمہ کو چھوڑ دیا اور اس کے منہ پر سے ہاتھ بھی ہٹا لیا ۔ اب صائمہ اپنی ننگی پھدی پر ان مزدوروں سے پیار کروانے لگی تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو صائمہ گھبرانے کی ایکٹنگ کرکے بولی کیا کررہے ہو؟ کوئی دیکھ لے گا؟
مزدور صائمہ کی بات سنکر ہنسنے لگے اور بولے رانی! تو بہت خوبصورت عورت ہے اور بالکل ننگی ہوکر تو اور بھی خوبصورت لگ رہی ہے اور یہاں تیرے اور ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے اسلئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں یہاں ہمیں کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔ یہ سنکر صائمہ سر جھکا کر شرمانے کی ایکٹنگ کرنے لگی تو ایک ہٹے کٹے مزدور نے پیچھے سے صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر زور سے دبائے اور بولا تجھے ہمارے سامنے بالکل ننگی ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ فکر ہے کہ کوئی تجھے ہمارے ساتھ بالکل ننگا نہ دیکھ لے؟ تو صائمہ سر جھکا کر شرمانے لگی۔ وہ مزدور بولا یارو ! اسے ہمارے سامنے ننگی ہونا اچھا لگ رہا ہے اس کے ممے دیکھو! بالکل سخت ہیں اور اس کے ننگے نپل بھی کھڑے ہوئے ہیں تو مزدوروں نے صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر زور زور سے دبائے تو صائمہ کے ننگے نپلز سے دودھ کی دھاریں نکلنے لگیں ۔
مزدور صائمہ کے نپلز سے دودھ کی دھاریں نکلتی دیکھ کر ہنسنے لگے اور بولے اس کے مموں میں تو دودھ بھرا ہوا ہے ہم تو سمجھے تھے کہ اس کے ممے ہمارے سامنے ننگے ہونے سے سخت ہوئے ہوئے ہیں ۔ یہ کہ کر وہ صائمہ کے ننگے نپلز پکڑ کر زور زور سے کھینچنے لگے تو صائمہ سر جھکا کر شرما کر مسکرانے لگی اور شرما کر اپنے ننگے بریسٹز پکڑ کر مزدوروں کی طرف کر کے بولی تم ٹھیک کہہ رہے ہو میرے یہ اور میرے نپلز تمہارے سامنے ننگے ہونے کی وجہ سے کھڑے ہیں اور یہ دودھ تو میں نے کب سے تمہارے لئے رکھا ہوا ہے ۔
یہ سن کر مزدوروں نے کمرے کا دروازہ کھول دیا اور صائمہ کو بالکل ننگی حالت میں ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے آئے ۔ وہاں پر سارے مزدور اور نوکر بھی جمع ہوئے تھے اور صائمہ کو بالکل ننگی حالت میں دیکھ کر ہنسنے لگے اور آپس میں صائمہ کے ننگے بریسٹز اور ہپس کے بارے میں باتیں کرنے لگے تو وہ ہٹے کٹے مزدور بولے یارو! اس عورت کو ہمارے سامنے ننگی ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ فکر ہے کہ کوئی اسے ہمارے ساتھ اس طرح ننگی حالت میں نہ دیکھ لے ۔ یہ سنکر صائمہ نے سر ہلا کر ہاں کردی اور سر جھکا کر مسکرا کر شرمانے لگی ۔
مزدوروں نے نعرہ لگایا ننگی رانی! اور ایک مزدور نے صائمہ کو اسی طرح بالکل ننگی حالت میں اپنے بازؤوں میں اٹھا لیا تو صائمہ سر جھکا کر شرمانے لگی تو ایک ہٹے کٹے مزدور نے صائمہ کو نیچے اتار کر اس کے ننگے ہپس کھول کر ان میں پیار کیا تو صائمہ آنکھیں بند کرکے آہیں بھرنے لگی ۔ ایک ہٹے کٹے مزدور نے صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر زور سے دبائے تو صائمہ کے ننگے نپلز سے دودھ کی دھاریں نکلیں تو صائمہ آہ بھر کر بولی آہ میرے جانو ! ذرا آہستہ کرو! میں تو کب سے تمہارے ہاتھوں سے اپنا دودھ نکلوانا چاہتی تھی آج موقع ملا ہے آج میرا سارا دودھ نکال لو!
یہ سنکر مزدور صائمہ پر ٹوٹ پڑے کوئی صائمہ کے ننگے بریسٹ پکڑ کر صائمہ کا دودھ نکالنے لگا تو کوئی صائمہ کے ننگے ہپس کھول کر اپنا لن اندر ڈال کر صائمہ کے ساتھ ننگا سیکس کرنے لگا تو کوئی اپنا ننگا لن نکال کر صائمہ کے ہونٹوں سے لگا کر اسے اپنی منی پلانے کی کوشش کرنے لگا ۔ صائمہ بھی مسکرا کر مزدوروں کے ننگے لن چومنے لگی تو باقی مزدور اپنے موبائل فون نکال کر صائمہ کی ننگی ویڈیو بنانے لگے اور صائمہ کی ننگی تصویریں کھینچنے لگے ۔ صائمہ شرما شرما کر مسکراتے ہوئے مزدوروں کے ننگے لن چوم کر اپنی ننگی ویڈیو بنوانے لگی اور ایک مزدور کا لمبا لن پکڑ کر منہ میں لے کر جوش و خروش سے چوسنے لگی تو مزدور برداشت نہ کرسکا اور اس کی منی صائمہ کے منہ میں ہی نکل گئی تو صائمہ نے مسکرا کر اس مزدور کی ساری منی پی لی اور ایک دوسرے مزدور کا لن منہ میں لیکر زور زور سے چوسنے لگی
ایک مزدور نے مٹھ مارتے ہوئے آکر اپنی منی صائمہ کے مسکراتے چہرے پر نکال دی تو صائمہ نے مسکرا کر اس مزدور کا ننگا لن چوم لیا اور بولی آہ! میرے جانو! میں تو کب سے تمہاری منی اپنے چہرے پر ملنے کا خواب دیکھ رہی تھی آج تم نے میرا خواب پورا کردیا تو دوسرے مزدور نے صائمہ کے ہپس کا سوراخ کھول کر زور زور سے چاٹا تو صائمہ آہ بھر کر بولی آہ جانو! اور زور سے چاٹو! میرے ہپس تو کب سے تمہارے پیار کے انتظار میں تھے آج میرے ہپس چاٹ چاٹ کر میرا کلائمکس کروا دو تو ایک ہٹے کٹے مزدور نے صائمہ کی ٹانگیں کھول کر صائمہ کی ننگی پھدی کی تصویریں کھینچیں ۔ صائمہ نے شرما کر اپنی ننگی پھدی اس مزدور کے آگے کرکے اس کے منہ سے لگا دی تو مزدور نے صائمہ کی ٹانگیں کھول کر صائمہ کی ننگی پھدی چوم لی۔
صائمہ مسکرا کر شرماتے ہوئے بولی جانو! میں تو کب سے تم لوگوں کو اپنی یہ ننگی کرکے دکھانا چاہتی تھی آج موقع ملا ہے تو مزدور صائمہ کی ٹانگیں کھول کر اپنے موبائل سے صائمہ کی ننگی پھدی کی تصویریں کھینچنے لگے ۔ صائمہ بھی جذبات سے بے قابو ہوکر بار بار اپنی ننگی پھدی کسی مزدور کے منہ سے لگا دیتی اور مزدور صائمہ کی ننگی پھدی چوم لیتا تو باقی مزدور صائمہ کی ننگی بےصبری دیکھ کر ہنسنے لگتے ۔ صائمہ بھی اپنی ننگی پھدی کسی دوسرے مزدور کے ہونٹوں سے لگا کر آہیں بھرنے لگتی اور مزدور صائمہ کی ننگی پھدی چوم لیتا کچھ دیر یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر صائمہ آہ بھر کر بولی آہ جانو! کچھ کرو نا! پہلے تو مجھے ننگی دیکھنے کیلئے ترستے تھے اور آج جب میں بالکل ننگی ہوکر تمہارے درمیان ہوں تو صرف چومیاں لے رہے ہو!
یہ سن کر مزدور صائمہ کے کپڑے اٹھا کر لائے اور باری باری آگ میں ڈال کر جلانے لگے ابھی انہوں نے صائمہ کا دوپٹہ ہی جلایا تھا تو صائمہ گھبرا کر بولی یہ کیا کررہے ہو؟ میں کپڑوں کے بغیر گھر کیسے جاؤں گی؟ تو مزدور ہنس کر بولے ہم یہی تو چاہتے ہیں رانی ! کہ تو ہمارے ساتھ بالکل ننگی ہوکر یہاں ہی رہے اور گھر بھی نہ جائے۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں نہیں! اگر میں گھر نہ گئی تو گھر والےہمیں یہاں آکر ڈھونڈ لیں گے اور ہم یہ ننگا پیار نہیں کرسکیں گے۔ تم لوگ فکر نہ کرو میں اب روزانہ یہاں آکر تمہارے ساتھ بالکل ننگی ہوکر تمہیں ننگا پیار کروں گی
Like Reply
صائمہ ایک شادی شدہ خوبصورت لیکن شرمیلی عورت تھی۔ اگرچہ وہ اعلی تعلیم یافتہ تھی مگر شادی کے بعد اس نے گھر داری ، بچوں کی پرورش اور ایک اچھی بیوی بننے کے دوران خود کو یکسر بھلا دیا تھا۔ تین بچوں کی پیدائش کے باوجود صائمہ ایک بھرپور اور سیکسی جسم کی مالک تھی جبکہ اسکی گوری رنگت صائمہ کے سیکسی خدوخال پر سونے پر سہاگہ کا کام کرتی تھی
شادی کے دس سال بعد جب بچے سکول جانے لگے اور شوہر بھی زیادہ وقت دفتر میں گزارنے لگے تو صائمہ کو اپنی سہیلیوں سے رابطے بحال کرنے کا موقع ملا۔ انہی دنوں صائمہ نے شوہر اور بچوں کی روانگی کے بعد اپنی دوستوں سے ملنے کا سلسلہ شروع کیا۔
ایک دن گھر کی ملازمہ کو گھریلو کام کاج کی ہدایات دینے کے بعد صائمہ اپنی ایک دوست کو ملنے اس کے گھر چلی گئی تو وہاں کا نوکر صائمہ کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر بولا گھر والے دو ہفتے کیلئے باہر گئے ہیں ۔تو صائمہ اٹھتے ہوئے بولی اچھا؟ تو پھر میں چلتی ہوں۔ صائمہ کو اٹھتے دیکھ کر نوکر گھبرا کر بولا جی! کچھ دیر تو بیٹھیں؟ تو صائمہ نے نوٹ کیا کہ نوکر کی نظریں مسلسل اس کے سینے پر تھیں جبکہ نوکر کا لن پورا کھڑا ہوا تھا اور زور زور سے تھرک رہا تھا۔
یہ دیکھ کر صائمہ سمجھ گئی کہ نوکر کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور وہ تنہائی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ تو صائمہ نے سوچا کیوں نہ آج اس نوکر کو تنہائی کا فائدہ اٹھانے دیا جائے اور دیکھا جائے کہ ایک غیر مرد اس کی خوبصورتی سے کتنا متاثر ہوتا ہے؟ تو یہ سوچ کر صائمہ دل ہی دل میں مسکرا دی اور صوفے پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے بولی ٹھیک ہے! تمہارے لئے کچھ دیر ٹھہر جاتی ہوں۔ صائمہ کو مسکراتے دیکھ کر نوکر کی ہمت بڑھ گئی اور وہ بھی مسکرا کر بولا جی شکریہ میڈم! تو صائمہ مسکرا کر بولی اچھا یہ بتاؤ کہ جب تمہیں پتہ تھا کہ گھر پر کوئی نہیں ہے تو پھر تم مجھے یہاں ڈرائنگ روم میں کیوں لائے؟ صائمہ کی مسکراہٹ دیکھ کر نوکر کی ہمت مزید بڑھ گئی اور وہ دھیرے سے مسکرا کر بولا جی! وہ دراصل آپ بہت خوبصورت ہیں تو آج آپ کو اکیلی دیکھ کر سوچا کہ آج موقع ہے کیوں نا آج تنہائی کا فائدہ اٹھا کر آپ کی خوبصورتی دیکھ لوں! یہ سنکر صائمہ مسکرا کر بولی کیا گھر بالکل خالی ہے؟ تو نوکر صائمہ کا مطلب سمجھ گیا اور بولا جی! آپ اور میں یہاں بالکل اکیلے ہیں۔
نوکر کا جواب سنکر صائمہ اپنے سینے سے دوپٹہ ہٹا کر مسکراتے ہوئے بولی اچھا! تمہیں مجھ میں کیا چیز خوبصورت لگتی ہے؟ نوکر صائمہ کا اشارہ سمجھ گیا اور آگے بڑھ کر صائمہ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا جی! آپ کے یہ! تو صائمہ آس پاس دیکھ کر شرماتے ہوئے بولی تم نے میرے یہ کب دیکھے؟ یہ سنکر نوکر سمجھ گیا کہ صائمہ اسے تنہائی کا فائدہ اٹھانے کا موقع دے رہی ہے تو وہ صائمہ کی قمیض کھینچ کر اوپر کرکے صائمہ کے بریزئر میں قید جوان بریسٹز دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا! میڈم! آج موقع ہے آج خالی گھر کا فائدہ اٹھا کر اپنے یہ دکھا دیں۔
تو صائمہ شرما کر آس پاس دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی مجھے شرم آتی ہے! یہ سنکر نوکر صائمہ کا مطلب سمجھ گیاُاور اس نے مسکراتے ہوئے صائمہ کی بریزئر کے کپس کے نیچے اپنی انگلیاں ڈال کر صائمہ کی بریزئر بھی کھینچ کر اوپر کردی اور صائمہ کے جوان بریسٹز باہر نکال کر بالکل ننگے کرلئے۔ تو صائمہ شرم سے لال ہوگئی اور اس نے شرماتے ہوئےسر جھکا کر اپنی نظریں جھکا لیں۔ صائمہ کو اس حالت میں شرماتے دیکھ کر نوکر مسکرا کر بولا آپ واقعی بہت خوبصورت عورت ہیں۔ تو صائمہ شرماتے ہوئے سر جھکا کر بولی مجھے بھی تمہیں اپنے یہ دکھانا اچھا لگ رہا ہے۔
یہ سنکر نوکر کی ہمت بڑھ گئی اور اس نے مسکراتے ہوئے صائمہ کی قمیض اوپر کرکے اتار لی اور صائمہ کی بریزئر کھینچ کر اوپر کرکے مسکراتے ہوئے صائمہ کے ننگے نپلز چوم کر بولا آج موقع ہے میڈم! آج خالی گھر کا فائدہ اٹھا کر اپنی خوبصورتی دکھا دیں۔ تو صائمہ شرما کر سر ہلا کر بولی تم بہت شیطان ہو! ۔ نوکر صائمہ کا اشارہ سمجھ گیا اور آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے صائمہ کے کپڑے اتارنے لگا تو صائمہ بھی شرما کر مسکراتے ہوئے نوکر سے اپنے کپڑے اتروانے لگی۔ جونہی نوکر نے صائمہ کے سارے کپڑے اتار کر صائمہ کو بالکل ننگا کیا ، صائمہ مسکرا کر بالکل ننگی حالت میں آگے بڑھ کر نوکر کے گلے لگ گئی اور شرما کر بولی مجھے تمہارے سامنے بالکل ننگی ہونا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ یہ سنکر نوکر صائمہ کے ننگے ہپس دبا کر مسکرا کر بولا آج موقع ہے! آج خالی گھر کا فائدہ اٹھا کر اپنا ننگا ڈانس دکھا دے رانی!
نوکر کی بات سنکر صائمہ مسکرادی اور بولی آج میں تمہاری ہوں جانو! آج تنہائی کا فائدہ اٹھا کر مجھے اپنی بیوی بنا لو! تو نوکر صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر آہستہ سے دبا کر بولا رانی! آج سے تو دو ہفتے کیلئے میری ننگی رانی ہے۔ یہ سنکر صائمہ مسکراتے ہوئے بے اختیار نوکر کے گلے لگ گئی اور نوکر کے گلے میں بانہیں ڈال کر شرماتے ہوئے بولی جانو! مجھے تمہارے سامنے بالکل ننگی ہونا بہت اچھا لگ رہا ہے، آج موقع ہے آج مجھ سے شادی کرکے مجھے اپنی رانی بنا لو۔
نوکر صائمہ کی بات سنکر بےقابو ہوگیا اور صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر زور زور سے دبانے لگا تو صائمہ کے ننگے نپلز سے دودھ کی دھاریں نکلنے لگیں۔ تو نوکر حیران ہو کر بولا رانی! یہ تو دودھ سے بھرے ہوئے ہیں؟ تو صائمہ شرما کر سر جھکا کر بولی جانو! یہ دودھ تمہارے لئے ہی تو ہے۔ اب تو نوکر صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر زور زور سے دبانے لگا اور صائمہ مسکرا کر بالکل ننگی ہوکر نوکر کے گلے میں بانہیں ڈال کر اپنے ننگے بریسٹز سے اپنا دودھ نکلوانے لگی اور زور زور سے سانس لینے لگی۔ نوکر سمجھ گیا کی صائمہ بھرپور جوش میں آگئی ہے تو اس نے صائمہ کو موڑ کر صوفے پر ڈوگی سٹائل میں جھکا دیا اور خود نیچے بیٹھ کر صائمہ کی خوبصورت گلابی پھدی چاٹنے لگا۔ تو صائمہ مزید جوش میں آگئی اور نوکر کا چہرہ پکڑ کر اپنی ننگی پھدی میں گھسا کرآہیں بھرنے لگی۔
صائمہ کی حالت دیکھ کر نوکر کو شرارت سوجھی اور وہ صائمہ کے ہپس کھول کر صائمہ کی گانڈ کا سوراخ چاٹنے لگا تو صائمہ بالکل بےقابو ہوگئی اور زور زور سے آہیں بھرتے ہوئے جوش سے بولی آہ! میرے جانو! اور زور سے چاٹو! آج تم نے جو مزہ دیا ہے وہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں ملا! آج اپنا لن مجھے دے دو! ۔ یہ سنتے ہی نوکر نے اپنی شلوار کھول کر اپنا تنا ہوا لن باہر نکالا اور صائمہ کی گیلی پھدی میں ڈال دیا اور صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر زور زور سے صائمہ کے ساتھ ڈوگی سٹائل میں بھرپور سیکس کرنے لگا۔ صائمہ بھی کھل کر بےشرمی سے نوکر کا پورا لن اپنے اندر لیکر جوش و خروش سے سیکس کرنے لگی۔
نوکر زیادہ دیر برداشت نہ کرسکا اور اس نے اپنی منی صائمہ کی پھدی میں ہی نکال دی۔ صائمہ کا جسم بھی پیار کے جذبات میں بےقابو ہو کر کانپنے لگا اور صائمہ بے ساختہ اپنا منہ نوکر کے منہ سے لگا کراسےبےتحاشہ کسنگ کرنے لگی۔ نوکر بھی اپنی زبان صائمہ کے منہ میں ڈال کر اسے زوردار کسنگ کرنے لگا اور اس نے صائمہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنا ننگا لن صائمہ کے ہاتھ میں دے دیا تو صائمہ اس کا مطلب سمجھ گئی۔ اگرچہ صائمہ نے اپنے شوہر کا لن کبھی منہ میں نہیں لیا تھا لیکن آج پیار کے جذبات میں صائمہ نے تمام حدیں پار کرلیں اور بلا جھجک نوکر کا ننگا لن اپنے منہ میں لے کر زور زور سے چوسنے لگی۔ اسے نوکر کے لن سے پیار ہوگیا تھا اور وہ نوکر کا ننگا لن بےتحاشہ چوم رہی تھی۔
صائمہ کے بےتحاشہ چومنے اور چاٹنے سے نوکر کا لن چند ہی لمحوں میں پھر سے تن کر کھڑا ہوگیا اور صائمہ کے خوبصورت چہرے سے ٹکرانے لگا۔ یہ دیکھ کر نوکر نے شرارت بھری نظروں سے صائمہ کی آنکھوں میں جھانکا اور مسکرا کر بولا رانی! اب ایک راؤنڈ پیچھے سے ہو جائے؟ اگرچہ صائمہ نے کبھی اپنے شوہر کا لن پیچھے سے نہیں لیا تھا لیکن نوکر کے پیار میں صائمہ مسکرا کر بولی جانو! آئی لو یو! تم جہاں چاہو اپنا لن ڈال سکتے ہو! آج میں صرف تمہاری ننگی رانی ہوں!
نوکر بھاگ کر اندر سے تیل کی بوتل لے آیا اور صائمہ کی گانڈ میں لگانے لگا۔ پھر اپنے لن پر بھی تیل لگا کر صائمہ کی گانڈ میں اپنا لن ڈالنے لگا۔
صائمہ نوکر کے پیار جذبات سے کپکپا رہی تھی اور آہیں بھر رہی تھی۔ اسی دوران نوکر نے آہستہ آہستہ اپنا پورا لن صائمہ کی گانڈ میں ڈال دیا اور آہستہ آہستہ جھٹکے مارنے لگا۔ شروع میں صائمہ کو درد محسوس ہوا لیکن کچھ ہی دیر میں اسے مزہ آنے لگا اور وہ نوکر کا بھرپور ساتھ دینے لگی۔ نوکر صائمہ کی ٹائٹ گانڈ کو زیادہ دیر برداشت نہ کرسکا اور اس کی منی نکل گئی۔ صائمہ ابھی بھی انجوائے کررہی تھی اور اس نے مڑ کر نوکر کے منہ سے منہ لگا کر اسے زوردار کس کیا اور ساتھ صائمہ کا بھی کلائمکس ہوگیا۔
صائمہ بالکل ننگی حالت میں نوکر کی بانہوں میں صوفے پر لیٹ کر اسے کسنگ کرنے لگی۔ صائمہ کا ننگا پیار نوکر کے لن کو تیسری دفعہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس مرتبہ صائمہ نے خود ہی نوکر کا ننگا لن اپنے منہ میں لے لیا اور زور زور سے چوسنے لگی ۔ نوکر نے بھی جھک کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے اور زور زور سے دبانے لگا۔جلد ہی نوکر نے اپنی منی صائمہ کے منہ میں ہی نکال دی اور صائمہ نے مسکرا کر نوکر کی ساری منی پی لی۔
صائمہ اسی طرح بالکل ننگی ہوکر نوکر کی آغوش میں دوپہر تک ننگا پیار کرتی رہی تو اچانک صائمہ کا موبائل فون بجا ۔ دوسری طرف صائمہ کی ملازمہ تھی جو بتا رہی تھی کہ بچے سکول سے آگئے ہیں۔ صائمہ نے اسےبچوں کو کھانا دینے کی ہدایات دیں اور فون بند کر کے نوکر کا لن چوم کر بولی جانو! تمہاری ننگی رانی بنکر تو میں سب کچھ بھول گئی تھی۔ نوکر اپنا لن صائمہ کے ہونٹوں سے لگا کر بولا رانی! تیری اصل جگہ یہاں میرے پاس ہی ہے تو صائمہ نے مسکرا کر نوکر کا تھرکتا ہوا ننگا لن چوم لیا اور بولی جانو! اب مجھے جانا ہوگا، کل صبح ہی پھر تمہاری ننگی رانی بننے کیلئے آجاؤں گی۔ صائمہ نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور وہاں سے نکل گئی۔


اگلے دن بچوں کے سکول جاتے ہی صائمہ صبح صبح تیار ہونے لگی تو اس کے شوہر نے پوچھا ” آج خیر ہے؟ صبح صبح کہاں کی تیاری ہے؟ ” تو صائمہ مسکرا کر بولی ” کچھ خاص نہیں! آج سعدیہ کی طرف جانے کا وعدہ کیا تھا تو رات کو اس کا میسج آیا تھا کہ صبح جلدی آ جانا! تاکہ دوپہر تک آرام سے شاپنگ کرسکیں ” ۔ یہ سنکر صائمہ کا شوہر مسکرا کر بولا ” تمہاری شاپنگ تو کبھی ختم نہیں ہوتی! ” ۔ صائمہ مسکرا کر بولی آپ کیوں جل رہے ہیں؟ تو صائمہ کا شوہر مسکراتے ہوئے بولا ” نہیں بھئی! ضرور جاؤ مجھے تو تمہیں خوش دیکھ کر خوشی ہوتی ہے ” ۔ یہ سنکر صائمہ اٹھلا کر بولی پہلے آپ آفس جائیں! ۔ صائمہ کے شوہر نے اپنا بریف کیس اٹھایا اور کار میں بیٹھ کر مسکراتا ہوا آفس کے لئے روانہ ہو گیا ۔

صائمہ نے ملازمہ کو جلدی جلدی گھر کے کام کی ہدایات دیں اور ٹیکسی لے کر اپنی دوست کے نوکر (جس کا نام بھی وہ ابھی تک نہیں جانتی تھی) اسے ملنے کے لئے روانہ ہو گئی۔ جب صائمہ اپنی دوست کے خالی گھر پہنچی تو اس نے دیکھا کہ نوکر گیٹ کے باہر ہی کھڑا ہمسایوں کے نوکر کے ساتھ سگریٹ پی رہا تھا ۔ لگتا تھا جیسے صبح سے اسی کا انتظار کررہا ہو۔ صائمہ کو دیکھتے ہی اس نے مسکرا کر دوسرے نوکر کے کان میں کچھ کہا تو ہمسایوں کا نوکر اپنے گھر کے گیٹ کی طرف چلا گیا اور صائمہ کو دیکھنے لگا۔
صائمہ نے ٹیکسی کا کرایہ ادا کیا اور جونہی ٹیکسی روانہ ہوئی، صائمہ مسکراتی ہوئی گیٹ پر کھڑے نوکر کی طرف چل پڑی۔ نوکر بھی صائمہ کو صبح اتنی جلدی آتا دیکھ کر بہت خوش نظر آرہا تھا۔ صائمہ نے نوکر کے قریب پہنچ کر گھر کے گیٹ کے باہر ہی نوکر کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور اس کے منہ سے اپنا منہ لگا کر سرعام سڑک پر ہی نوکر کو کسنگ شروع کر دی!
اگرچہ نوکر کو یہ امید نہیں تھی کہ صائمہ اتنی بےشرمی سے کھلے عام سڑک پر ہی اس کے ساتھ کسنگ شروع کر دے گی لیکن صائمہ کی خوبصورت مسکراہٹ دیکھ کر وہ بھی سب کچھ بھول گیا اور صائمہ کا ساتھ دینے لگا۔
اسی دوران صائمہ نے کن اکھیوں سے ہمسایوں کے نوکر کو دیکھا تو وہ آنکھیں پھاڑ کر صائمہ کو سرعام سڑک پر نوکر کے گلے لگ کر کسنگ کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور اس کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا ۔ یہ دیکھ کر صائمہ کو دل میں ایک انجان سی خوشی محسوس ہوئی کہ وہ سرعام سڑک پر نوکر کے گلے لگ کر اسے کسنگ کررہی ہے اور ایک انجان نوکر اسے دیکھ رہا ہے ۔
اس نئے احساس کے ساتھ صائمہ نے نوکر کے ہاتھ پکڑ کر اپنے ہپس پر رکھے اور مسکراتے ہوئے اپنا منہ نوکر کے منہ سے لگا کر اسے بھرپور طریقے سے کسنگ کرنے لگی۔ نوکر بھی صائمہ کے سیکسی جسم پر ہاتھ پھیرنے لگا اور صائمہ کے بھرے بھرے ممے پکڑ کر دبانے لگا تو صائمہ نے مسکرا کر نوکر کو نیچے دھکیل دیا ۔ نوکر صائمہ کا اشارہ سمجھ گیا اور نیچے بیٹھ کر مسکراتے ہوئے صائمہ کی شلوار کھینچ کر اتارنے لگا۔ جونہی نوکر نے صائمہ کی شلوار نیچے کی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صائمہ نے پینٹی نہیں پہنی ہوئی تھی اور صائمہ کی صاف شفاف پھدی اسکی نظروں کے سامنے تھی۔
اب صائمہ مسکرا کر سڑک پر سرعام اسے اپنی ننگی پھدی دکھا رہی تھی ۔ یہ دیکھ کر نوکر بےقابو ہو گیا اور نیچے بیٹھ کر صائمہ کی ننگی ٹانگیں کھول کر صائمہ کی ننگی پھدی چومنے لگا تو صائمہ نے مسکراتے ہوئے نوکر کا سر پکڑ کر اپنی ٹانگوں کے درمیان کھینچ لیا اور لمبی لمبی آہیں بھرتے ہوئے کن اکھیوں سے ہمسایوں کے نوکر کو دیکھنے لگی ۔ وہ ابھی بھی حیرت سے منہ کھولے صائمہ کو نوکر سے اپنی ننگی پھدی پر پیار کرواتے دیکھ رہا تھا اور اس کا لن بھی زور زور سے تھرک رہا تھا ۔
اسی دوران صائمہ نے نوکر کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا اور اور اپنی پیٹھ نوکر کی طرف کر کے کھڑی ہو گئی اور سر جھکا کر شرماتے ہوئے مسکرانے لگی۔ نوکر صائمہ کا مطلب سمجھ گیا اور اس نے صائمہ کی قمیض کی پوری زپ کھول دی اور صائمہ کی خوبصورت ننگی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر اسے چومنے لگا تو صائمہ نے مسکراتے ہوئے مڑ کر اپنی بانہیں نوکر کے گلے میں ڈال دیں اور اس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے مموں پر رکھ دیئے۔ نوکر صائمہ کا اشارہ سمجھ گیا اور اس نے فورا ہی صائمہ کی قمیض اوپر کر کے اتار لی اور سائیڈ پر سڑک پر ہی پھینک دی۔
قمیض اتارتے ہی نوکر صائمہ کی قیمتی بریزئر دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ صائمہ نے ایک انتہائی سیکسی بریزئر پہنی ہوئی تھی جو صرف چند رسی نما پٹیوں پر مشتمل تھی اور صائمہ نے دونوں مموں کے گرد صرف رسیوں کے ایک فریم کی صورت میں پہنی ہوئی تھی جبکہ صائمہ کے دونوں ممے رسیوں کے اس بریزئر نما فریم میں سے بالکل ننگی حالت میں باہر جھانک رہے تھے۔
نوکر کو اپنے ننگے ممے دکھاتے ہوئے صائمہ نے مسکرا کر نوکر کا چہرہ کھینچ کر اپنی نہ ہونے کے برابر سیکسی بریزئر میں سے جھانکتے ہوئے ننگے مموں میں گھسا لیا ۔ نوکر بھی صائمہ کے دونوں ممے رسیوں نما بریزئر میں سے پکڑ کر چومنے لگا ۔اس دوران صائمہ نے کن اکھیوں سے ہمسایوں کے نوکر کو دیکھا تو وہ اپنا موبائل فون نکال کر صائمہ کی ننگی تصویریں کھینچ رہا تھا ۔ صائمہ کو سرعام سڑک پر نوکر کے ساتھ ننگی ہونے میں ایک نئی خوشی محسوس ہو رہی تھی تو صائمہ نے ایک قدم اور بڑھ کر مسکراتے ہوئے اپنی رسی نما بریزئر کا ہک کھولا اور اسے اتار کر گھما کر ہمسایوں کے نوکر کی طرف پھینک دیا۔
اب صائمہ اپنی سہیلی کے گھر کے باہر سڑک پر اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ سرعام بالکل ننگی حالت میں نوکر کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالے اسے چومنے میں مصروف تھی جبکہ ہمسایوں کا نوکر اپنے موبائل فون سے صائمہ کی ننگی ویڈیو بنا رہا تھا ۔
اسی دوران ایک قریبی گھر سے ایک ڈرائیور باہر نکل کر سگریٹ پینے لگا تو اس کی نظر صائمہ اور نوکر کے درمیان سڑک پر جاری ننگے پیار کے سلسلے پر پڑی، تو وہ بھی حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا اور اس نے اپنے موبائل سے آس پاس کے گھروں کے نوکروں اور ڈرائیوروں کو کال کرکے باہر بلا لیا ۔ ویسے بھی شہر کے اس اپر کلاس پوش رہائشی علاقے میں دن کے اس حصے میں اکثر لوگ اپنے دفتروں اور کاروبار کے لیے جا چکے تھے جبکہ بیگمات ابھی تک نیند کے مزے لوٹ رہیں تھیں لہذا اکثر ڈرائیور اور نوکر صبح کے کام کاج سے فارغ ہو چکے تھے۔
جلد ہی آس پاس کے گھروں کے نوکروں اور ڈرائیور کا ایک مجمع سڑک پر صائمہ اور نوکر کے درمیان جاری ننگے پیار کا نظارہ کر رہا تھا جس میں اگرچہ نوکر نے ابھی تک اپنے تمام کپڑے پہنے ہوئے تھے لیکن صائمہ لباس کی قید سے مکمل طور پر آزاد تھی اور بالکل ننگی ہو کر سڑک پر ہی اپنی سہیلی کے نوکر سے والہانہ پیار کررہی تھی۔
جلد ہی صائمہ نے بھی محسوس کرلیا کہ نوکروں اور ڈرائیوروں کا ایک مجمع سڑک پر اسکے ننگے پیار کا نظارہ کر رہا ہے تو صائمہ مسکرا کر نوکر کے کان میں بولی ” جانو! آج تو تمہارے دوستوں کو براہ راست ہمارے پیار کا نظارہ دیکھنے کو مل گیا ہے ۔ کیوں نہ اندر چل کر انہیں اپنے پیار کے کچھ اور سین دکھائیں؟ ” ۔ یہ سن کر نوکر نے صائمہ کو بالکل ننگی حالت میں اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اور گیٹ کے اندر لے جاکر گھر کے ڈرائنگ روم میں لے گیا اور بولا ” رانی! ہمارے پیار کی ابتدا اس جگہ سے ہوئی تھی اور آج بھی ہم یہاں ہی اپنے ننگے پیار کو آگے بڑھائیں گے ” ۔
یہ سن کر صائمہ مسکرا کر بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کے گلے لگ گئی اور جلدی جلدی نوکر کے کپڑے اتارنے لگی۔ جلد ہی اس نے نوکر کے سارے کپڑے اتار کر نوکر کو بھی بالکل ننگا کرلیا۔
اسی دوران آس پاس کے نوکر اور ڈرائیور سڑک سے صائمہ کے کپڑے اور بریزئر اٹھا کر گھر کے اندر آگئے اور پھر ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئے تو نوکر مسکرا کر بولا ” یارو! آج میری ننگی رانی، تم لوگوں کو اپنا ننگا ڈانس دکھائے گی ” ۔ یہ سن کر سب لوگوں نے نعرہ لگایا ننگی رانی! اور ایک ڈرائیور نے اپنے موبائل پر نصیبو لال کا پنجابی گانا ” دودھ چو کے پیاواں گی ” لگا دیا تو صائمہ مسکراتے ہوئے نوکروں اور ڈرائیوروں کے درمیان میں بالکل ننگی ہو کر ننگا ڈانس کرنے لگی اور وہ لوگ صائمہ کے ننگے ڈانس کی ویڈیوز بنانے لگے۔
اسی دوران کئی نوکر اور ڈرائیور اپنے کپڑے اتار کر بالکل ننگے ہو گئے اور صائمہ کو اپنے ننگے لن دکھانے لگے۔ صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے کئی ڈرائیوروں اور نوکروں کے ننگے لن پکڑ پکڑ کر چومنے شروع کردیئے ۔ کچھ دیر یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر دو تین نوکروں نے صائمہ کو کمرے کے درمیان میں گھوڑی بنا کر صائمہ کی پھدی اور منہ میں اپنے ننگے لن گھسا دیئے۔
اب صائمہ بیک وقت کئی نوکروں اور ڈرائیوروں کے ساتھ سیکس کے مزے لوٹ رہی تھی اور اس کے منہ سے سیکسی آوازیں نکل رہی تھیں ” آہ میرے جانو! اور زور سے کرو! آج مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ آہ! جانو کب سے غیر مردوں کے سامنے ننگی ہونے کا سوچ سوچ کر تنہائی میں گیلی ہو جاتی تھی! آج موقع ملا ہے۔ آج تم لوگوں کے سامنے ننگی ہوکر میرا خواب پورا ہو گیا ہے۔ آہ! جانو آج مجھے اپنی ننگی رانی بنا لو! ” ۔ اس دوران کئی نوکروں نے اپنی منی صائمہ کے منہ میں نکال دی جو صائمہ نے مسکراتے ہوئے پی لی جبکہ کئی نوکروں نے اپنی منی صائمہ کی گلابی پھدی میں بھر دی۔
ڈرائیوروں کے ایک گروپ نے نوکر سے تیل لیکر صائمہ کی ass میں لگایا اور صائمہ کے ہپس میں اپنے ننگے لن ڈال کر صائمہ کے ساتھ بھرپور anal sex کے مزے لئے ۔ صائمہ نے بھی بالکل بے شرم ہو کر انکے ساتھ جوش و خروش سے سیکس کے مزے لئے ۔
جب وہ سب دو دو تین تین بار صائمہ کے اوپر اپنی منی نکال چکے اور تھک کر قالین پر لیٹ گئے تو صائمہ بھی بالکل ننگی حالت میں ہی انکی بانہوں میں لیٹ کر اپنی سانسیں بحال کرنے لگی۔ دوپہر ہو چکی تھی اور ابھی سب آرام ہی کررہے تھے کہ ایک ڈرائیور بولا رانی! آج تو کمال ہی کردیا تو نے! اور صائمہ اس کی بات سن کر اس سے لپٹ کر اپنا منہ اسکے منہ سے لگا کر اس ڈرائیور کو کسنگ کرنے لگی تو ایک دوسرا نوکر بولا رانی! اگر تو روزانہ یہاں آ جائے تو ہم روز تجھے اپنی ننگی رانی بنا کر پیار کریں گے۔ یہ سن کر صائمہ نے اٹھ کر اپنی ننگی پھدی اس نوکر کے منہ سے لگا دی اور مسکرا کر بولی جانو! ابھی تو تم آج کے مزے لوٹ لو بعد کی پھر دیکھیں گے۔
اسی طرح صائمہ بالکل ننگی ہو کر شام تک اپنی سہیلی کے خالی گھر میں اس کے نوکر کے دوستوں کے ساتھ بھرپور سیکس کرتی رہی۔ ان لوگوں نے صائمہ کو اپنی منی پلائی اور صائمہ کی پھدی اور ہپس کو خوب چودا یہاں تک کہ صائمہ کی پھدی اور ہپس سوج کر لال ہو گئے۔ شام کو صائمہ بالکل ننگی حالت میں ان نوکروں کے درمیان لیٹی ہوئی تھی کہ صائمہ کا موبائل بجنے لگا۔ صائمہ نے لیٹے لیٹے ہی کال ریسیو کی تو اس کا شوہر بول رہا تھا ” کیا ارادہ ہے بھئی؟ گھر واپس آنا ہے یا آج صرف دوستوں کو ہی وقت دینا ہے سوئیٹ ہارٹ؟ ” ۔ تو صائمہ مسکرا کر ایک قریبی نوکر کا ننگا لن پکڑ کر بولی ” دوست کے ساتھ وقت تو بہت اچھا گزرا ہے لیکن فکر نہ کریں! ایک گھنٹے تک آجاؤں گی ” ۔
تو صائمہ کا شوہر بولا ” کبھی کبھی سہیلیوں کو بھی وقت دینا اچھا لگتا ہے۔ اگر موڈ ہے تو آج رات وہاں ہی ٹھہر جاؤ ، آخر تمہیں بھی تو اپنی سہیلی کے ساتھ زندگی انجوائے کرنے کا حق ہے ” ۔ یہ سن کر صائمہ نے مسکرا کر اپنے موبائل کا سپیکر آن کردیا تاکہ سارے نوکر بھی سن سکیں۔ تو صائمہ مسکراتے ہوئے بولی ” پکی بات ہے آج رات یہاں ہی رک جاؤں؟ آپ مائنڈ تو نہیں کریں گے؟ ” ۔ تو صائمہ کا شوہر بولا ” سوئیٹ ہارٹ، اس میں مائنڈ کرنے والی کیا بات ہے؟ اگر تم اپنی دوست کے گھر ایک رات گزارنا چاہتی ہو اور اس سے تمہیں خوشی ہوگی تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ” ۔
شوہر کا جواب سن کر صائمہ خوشی سے کھل اٹھی اور اسے فون پر kiss دے کر بولی ” آپ بہت اچھے شوہر ہیں، تھینک یو ۔اچھا تو پھر کل آتی ہوں، اگر کوئی چیز پوچھنی ہو تو کال کر لیجئے گا ، میں رات کو جاگ ہی رہی ہوں گی ” ۔ شوہر نے آئی لو یو کہہ کر کال بند کردی ۔ کال کٹتے ہی سارے نوکروں نے مل کر صائمہ کو بالکل ننگی حالت میں ہی اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اور خوشی میں صائمہ کو مل کر اپنے بازؤں سے اچھالنے لگے۔ صائمہ بھی خوشی سے بالکل ننگی ہو کر نوکروں کے ہاتھوں اچھالنے کو انجوائے کرنے لگی
Like Reply
صائمہ اپنی سہیلی کے گھر میں سہیلی کے نوکر اور آس پاس کے گھروں کے نوکروں اور ڈرائیورز کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں تھی۔ شام کے دھندلکے چھا چکے تھے اور سارا دن نوکروں کے ساتھ بالکل ننگی ہوکر ننگا پیار کرنے کے باوجود صائمہ کی سیکس کی پیاس برقرار تھی اور صائمہ ان نوکروں کے ساتھ پوری رات بالکل ننگی ہو کر بھرپور ننگا سیکس کرنے کا سوچ کر ایک نئی خوشی محسوس کررہی تھی۔
کچھ ہی دیر پہلے صائمہ کے شوہر نے فون پر صائمہ سے بات کرکے خیریت معلوم کی تھی کیونکہ شام تک گھر سے باہر رہنا صائمہ کا معمول نہیں تھا۔ اسی دوران صائمہ کے شوہر نے صائمہ کو اپنی سہیلی کے پاس خوش محسوس کرتے ہوئے اسے رات اپنی سہیلی کے گھر گزارنے کی اجازت دی تھی جبکہ وہ اس بات سے بالکل بےخبر تھا کہ جب وہ اپنی خوبصورت بیوی سے فون پر بات کررہا تھا تو اسکی پیاری بیوی اپنی سہیلی کی بجائے آٹھ دس انجان نوکروں کے درمیان بالکل ننگی حالت میں موجود تھی اور وہ اس گھر میں اپنی سہیلی اور اسکے گھروالوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکے نوکر اور آس پاس کے نوکروں کے ساتھ دن بھر بالکل ننگی ہوکر ننگا سیکس کرتی رہی تھی۔
جونہی صائمہ کے شوہر نے اسے رات اپنی سہیلی کے گھر گزارنے کی اجازت دی تو صائمہ پوری رات نوکروں کے ساتھ ننگی رہنے کا سوچ کر کھل اٹھی اور نوکر بھی صائمہ کو بالکل ننگی حالت میں اٹھا کر مل کر زور زور سے اوپر اچھالنے لگے۔ اسی دوران ایک ڈرائیور بولا یارو ! آج یہ عورت پوری رات کیلئے ہماری ننگی رانی ہے، تو کیوں نہ اسے کہیں باہر لے جاکر اسکے ساتھ ننگا پیار کریں ؟
یہ آئیڈیا صائمہ سمیت سب کو بہت پسند آیا اور سب لوگ صائمہ کو باہر لے جانے کو تیار ہوگئے۔ کیونکہ ابھی رات شروع ہوئی تھی اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ ابھی رات کا کھانا کھایا جائے اور رات گہری ہونے پر دو عدد ڈرائیورز خاموشی سے اپنی گاڑیاں لے آئیں تاکہ سب لوگ صائمہ کے ساتھ باہر جاسکیں۔ یہ فیصلہ سن کر صائمہ مسکراتی ہوئی اٹھی اور اسی طرح بالکل ننگی حالت میں کچن میں کھانا بنانے چلی گئی۔
صائمہ کی مدد کیلئے دو نوکر بھی کچن میں چلے گئے تاکہ کھانا جلدی تیار ہوجائے۔ کھانا بنانے کے دوران دونوں نوکر صائمہ کے ننگے مموں اور ننگے ہپس سے کھیلتے رہے۔ ویسے بھی ان کے لئے یہ سب ایک خوبصورت خواب سے کم نہیں تھا کہ صائمہ جیسی پڑھی لکھی ، کھاتے پیتے خاندان کی خوبصورت شادی شدہ عورت انکے ساتھ بالکل ننگی ہو کر کچن میں کھانا پکا رہی تھی۔ اس دوران کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب دونوں نوکروں میں سے کسی ایک نے صائمہ کے پیچھے کھڑے ہو کر صائمہ کے ننگے ممے نہ پکڑے ہوں۔ بلکہ دونوں نوکروں نے صائمہ کے ننگے ممے دبا دبا کر لال کر دئیے اور صائمہ بھی مسکرا کر کھانا پکاتے ہوئے درمیان میں اپنے ننگے نپلز نوکروں کے منہ سے لگا لگا کر انہیں ترساتی رہی۔
آخر ان دونوں نوکروں میں سے ایک صائمہ کے ہپس کھول کر چاٹنے لگا اور دوسرا صائمہ کی ننگی پھدی کھول کر اپنی زبان اندر ڈال کر زور زور سے چاٹنے لگا تو صائمہ کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ اپنی آنکھیں بند کر کے آہیں بھرنے لگی۔ ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ صائمہ کا موبائل بجنے لگا۔ صائمہ نے دیکھا تو اس کے شوہر کی کال تھی، مجبوراً صائمہ نے کال ریسیو کرلی البتہ دونوں نوکر صائمہ کی پھدی اور ہپس چاٹتے رہے۔ ہیلو سوئٹ ہارٹ ! مجھے میری نیند کی میڈیسن نہیں مل رہی ، صائمہ کا شوہر اپنی بیوی کی حالت سے بےخبر، چہک کر بولا۔ صائمہ اپنے کلائمکس کے قریب تھی اس لئے بڑی مشکل سے اپنی آواز ضبط کرکے بولی الماری کی چھوٹی والی دراز میں رکھی ہے ڈارلنگ !
اسی دوران ایک نوکر نے اپنی زبان صائمہ کے ہپس میں گھسانے کی کوشش کی تو صائمہ کے منہ سے بےساختہ نکلا “آہ ! جانو آرام سے پلیز ! “۔ یہ سن کر صائمہ کا شوہر حیران ہوکر بولا “کیا ہوا سوئٹ ہارٹ ؟”۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی “ کچھ نہیں ڈارلنگ ! میں تو تمہیں کہہ رہی تھی کہ ذرا آرام سے دیکھو گے تو میڈیسن مل جائے گی”۔ تو اس کا شوہر بولا “وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ابھی تم نے مجھے *جانو* کہا حالانکہ تم مجھے کبھی بھی جانو نہیں کہتی؟ کیا ایک رات اپنی سہیلی کے پاس رہ کر اتنی بدل گئی ہو؟” تو صائمہ سنبھل کر بولی “نہیں نہیں ڈارلنگ ! ایسی کوئی بات نہیں ! تم اب بھی میرے ڈارلنگ ہو”۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے دل میں اپنے شوہر کے بارے میں سوچنے لگی “ انہیں کیا پتہ ! ڈارلنگ اور جانو میں کتنا فرق ہے ! جو پیار جانو میں ہے وہ ڈارلنگ میں کہاں؟ اور جو مزہ ان نوکروں کے ساتھ ننگی ہونے میں ہے، وہ شوہر کے ساتھ معمول کے سیکس میں کہاں؟”۔
دوسری طرف سے صائمہ کے شوہر کی آواز سنائی دی “ اوکے سوئٹ ہارٹ ! میڈیسن مل گئی ہے تھینک یو ! “۔ صائمہ نے اطمینان کا سانس لیا اور اوکے بائے کہتے ہوئے کال بند کردی۔ دونوں نوکر جو صائمہ کو گبھراتے دیکھ کر رک گئے تھے، پریشان ہو کر بولے کیا ہوا رانی ؟ تیرے شوہر کو شک تو نہیں ہوگیا؟ تو صائمہ مسکرا کر بولی “تم لوگوں کی شرارتوں نے تو مروا ہی دیا تھا، وہ تو میرے شوہر کو مجھ پر بہت بھروسہ ہے اس لئے بچت ہو گئی ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی”۔
یہ سنکر دونوں نوکروں نے سکون کا سانس لیا اور مزید وقت ضائع کیے بغیر صائمہ کو کچن کے ریک کے سہارے جھکا دیا۔ ایک نوکر نے صائمہ کے ننگے ہپس میں ہلکا سا تیل لگا کر اپنا تنا ہوا لن صائمہ کے ہپس میں ڈال دیا جبکہ دوسرے نوکر نے اپنا لن صائمہ کے منہ میں ڈال دیا۔ صائمہ بھی مسکرا کر کچن میں ان دونوں نوکروں کے ساتھ بیک وقت Anal sex اور Oral sex کے مزے لینے لگی۔
کچن سے صائمہ کی آہوں کی آوازیں سنکر باقی نوکر بھی وہاں آگئے اور صائمہ کو دونوں نوکروں کے ساتھ سیکس کرتے دیکھ کر ظاہری ناراضگی دکھانے لگے۔ صائمہ کی سہیلی کا نوکر بولا “رانی ! ہم نے تجھے کھانا بنانے بھیجا تھا اور تو ان دونوں کمینوں کو مزے دے رہی ہے؟ “۔ یہ سنکر باقی نوکر بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور بولے “بس رانی ! بہت ہو گیا ! اب تو ہمارے لئے ڈرائنگ روم میں ننگا ڈانس کرے گی اور یہ دونوں کمینے یہاں کھانا بنائیں گے”۔
صائمہ مسکرا کر بالکل ننگی حالت میں نوکروں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئی اور کمرے کے درمیان میں ننگا ڈانس کرنے لگی۔ نوکر صائمہ کے ننگے ٹھمکے دیکھ دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔ صائمہ بھی مسکرا مسکرا کر اپنے ننگے ہپس نوکروں کے سامنے ہلا ہلا کر ننگے ٹھمکے لگاتی رہی اور جھک جھک کر اپنے ننگے ممے نوکروں کے چہروں سے ٹکراتی رہی ! ۔
ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ کچن سے دونوں نوکر کھانا لے آئے۔ لہذا صائمہ کا ننگا ڈانس روک کر سب نے کھانا کھایا البتہ صائمہ کی سہیلی کے نوکر کی فرمائش پر صائمہ نے اپنی پلیٹ میں تمام نوکروں کے سپرمز نکال کر نوکر کے لئے اپنا پیار ثابت کرنے کے لئے اپنی روٹی نوکروں کے سپرمز کے ساتھ لگا کر کھائی اور مسکرا کر بولی “ جانو ! آج میں تمہاری وجہ سے یہ سب انجوائے کررہی ہوں اس لئے تم کہو تو میں تمہارا ننگا لن اپنے گلاس میں دھو کر اس پانی کو بھی پی سکتی ہوں”۔
یہ سنکر صائمہ کی سہیلی کے نوکر نے اٹھ کر مسکراتے ہوئے اپنا ننگا لن صائمہ کے پانی کے گلاس میں ڈبو دیا تو صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا لن اپنی نازک انگلیوں سے گلاس کے اندر ہی رگڑ رگڑ کر صاف کیا اور پھر سب کے سامنے وہی گلاس اٹھا کر سارا پانی پی لیا اور مسکرا کر بولی “جانو ! تمہارے پیار میں یہ سب کچھ معمولی باتیں ہیں ، اگر تم کہو تو میں تمہارے پیار میں آج رات پورے شہر میں بالکل ننگی گھوم سکتی ہوں”۔ تو صائمہ کی سہیلی کا نوکر بولا “ٹھیک ہے رانی ! آج رات تو ہمارے لئے شہر کی سڑکوں پر ننگا ڈانس کرے گی”۔
نوکر کی بات سنکر صائمہ نے اٹھ کر اپنا منہ نوکر کے منہ سے لگا دیا اور اسے kiss کر کے مسکراتے ہوئے اپنا بایاں ممہ نوکر کی طرف کر کے بولی “ جانو ! تم میرے دل میں رہتے ہو ، تمہارے لئے میں اپنا سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں”۔ نوکر نے آگے بڑھ کر صائمہ کا ننگا ممہ منہ میں لے لیا اور زور زور سے چوسنے لگا تو صائمہ بھی اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی سہیلی کے نوکر سے اپنے ننگے ممے چوسوانے لگی اور آہیں بھرنے لگی۔
یہ دیکھ کر ایک ڈرائیور نے صائمہ کے پیچھے سے اپنا آٹھ انچ لمبا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا اور صائمہ کو چودنے لگا۔ اب صائمہ اپنی سہیلی کے نوکر کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے خوبصورت ننگے ممے نوکر سے چوسوا رہی تھی اور دوسری طرف ڈرائیور صائمہ کے پیچھے سے اس کی پھدی میں لن ڈال کر صائمہ کو چود رہا تھا۔ جلد ہی ڈرائیور اور صائمہ کا کلائمکس ہوگیا اور صائمہ اپنے محبوب نوکر کی بانہوں میں سما گئی۔
اب رات گہری ہو چلی تھی اور آس پاس کے اکثر گھروں کی روشنیاں گل ہو چکی تھیں۔ نوکروں کا پورا گروپ اب کھانے سے فارغ ہو چکا تھا اور چند ایک نوکر جو اپنا کام مکمل کرنے کے لئے آس پاس اپنے مالکوں کے گھروں میں گئے تھے، کام ختم کر کے واپس آ چکے تھے۔ تو سب نے فیصلہ کیا کہ اب صحیح وقت ہے صائمہ کو ننگی حالت میں باہر لے جاکر شہر میں گھمانے کا۔اگرچہ تمام نوکروں اور ڈرائیوروں نے اپنے کپڑے پہن لئے تھے تاہم اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ صائمہ کو کپڑے پہنا کر لے جایا جائے یا پھر اسی طرح بالکل ننگا ہی رہنے دیں !
یہ مشکل صائمہ کے محبوب نوکر نے حل کردی جب اس نے کہا “کیوں نہ ہم صائمہ کو صرف بریزئر اور پینٹی پہنا کر لے جائیں ؟ یہ سنُکر سب خوش ہوگئے اور صائمہ سے اس کی رائے پوچھی ؟ تو صائمہ شرما کر اپنی سہیلی کے نوکر کے گلے میں بانہیں ڈال کر مسکراتے ہوئے بولی “ جیسے جانو چاہے ، مجھے کوئی اعتراض نہیں”۔ یہ سنتے ہی نوکروں نے نعرہ لگایا ننگی رانی ! ۔
تبھی صائمہ کی سہیلی کے نوکر نے اپنی مالکن کی الماری سے ایک پینٹی نکال کر صائمہ کو دی (کیونکہ صائمہ صبح نوکر کو سرپرائز دینے کے لئے بغیر پینٹی پہنے صرف شلوار پہن کر آئی تھی) ساتھ ہی صائمہ کی باریک ڈوریوں پرمشتمل فریم نما بریزئر بھی دی جس کا پہننا یا نہ پہننا برابر تھا کیونکہ وہ بریزئر کم اور فریم زیادہ تھی ۔ اس میں کوئی کپڑا استعمال نہیں ہوا تھا بلکہ دونوں مموں کو ایڈجیسٹ کرنے کیلئے باریک پٹیوں کے بنے ہوئے دو عدد دائرے تھے جن میں سے صائمہ کے دونوں ممے مکمل طور پر باہر جھانکتے رہتے تھے۔ اس کا فائدہ صرف اتنا تھا کہ صائمہ کے بھاری مموں کو کھینچ کر ذرا ٹائٹ کر دیتی تھی اور صائمہ اسے پہن کر زیادہ سیکسی لگتی تھی۔
سب تیاری کرنے کے بعد تمام نوکر اور ڈرائیور پہلے سے لائی گئی دو کاروں میں بیٹھ گئے۔ صائمہ صرف بریزئر اور پینٹی پہنے اپنی سہیلی کے نوکر کی گود میں بیٹھ گئی اور دونوں گاڑیاں شہر کی طرف روانہ ہو گئیں۔ سب سے پہلے انہوں نے صائمہ کو اسی حالت میں شہر کی مین سڑک پر اتارا اور کہا کہ جو بھی ایک دو گاڑیاں سڑک پر آئیں ، ان سے قریبی مارکیٹ کا راستہ پوچھنے کے بہانے انہیں اپنے بریزئر میں سے جھانکتے مموں سے کھیلنے کا موقع دے۔
اگرچہ شروع میں صائمہ کو گزرتی ہوئی کاروں کو روکنے میں کچھ شرم محسوس ہوئی لیکن جب پہلے کار سوار آدمی نے بڑے آرام سے اسے راستہ بتایا اور اس کے بریزئر میں سے لٹکتے ہوئے ننگے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر پیار سے دبایا اور جاتے جاتے اپنے موبائل فون سے صائمہ کے ننگے مموں کی ایک تصویر بھی بنائی تو صائمہ کو بھی یہ انوکھا تجربہ بہت اچھا لگا۔
اگلی گاڑی ایک سوزوکی وین تھی جسے ایک لمبی داڑھی والا مولوی ٹائپ شخص چلا رہا تھا۔ اس نے بھی بغیر شور کئے آرام سے صائمہ کو پورا راستہ سمجھایا اور اس دوران صائمہ کے دونوں مموں کو پکڑ کر صائمہ کے ننگے نپلز چوسنے لگا۔ صائمہ بھی اسکی گاڑی کے پاس جھکی رہی اور اسے آرام سے اپنے ننگے ممے چوسنے دئیے لیکن جب اس شخص نے صائمہ کو اپنی وین میں بیٹھنے کی پیشکش کی تو صائمہ نہیں تھینک یو کہہ کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس پر اس مولوی نما آدمی نے جاتے جاتے صائمہ کی پینٹی نیچے کروا کر صائمہ کی ننگی پھدی کی تصویر کھینچ لی۔
اس دوران نوکروں کا گروپ کچھ فاصلے سے سب کاروائی دیکھتا رہا اور اکثر نوکروں نے تو مٹھ مار کر اپنی منی بھی نکال دی۔ یہاں سے نکل کر وہ لوگ صائمہ کو ایک مارکیٹ میں لے گئے جہاں صرف ایک پان سگریٹ کی دکان کھلی تھی اور چند نوجوان لڑکے وہاں کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ نوکروں کی ہدایت کے مطابق یہاں بھی صائمہ نے دکان سے کوک کی ایک بوتل خریدی اور اسی طرح ان لڑکوں سے قریبی پیٹرول پمپ کا راستہ پوچھا۔ لڑکوں نے راستہ بتانے کے دوران صائمہ کی پینٹی نیچے کرکے صائمہ کی ننگی پھدی دیکھی اور اندر انگلیاں ڈال کر صائمہ سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی کی۔
صائمہ یہ سب مسکرا کر کرواتی رہی اور ایک لڑکے کو تو اپنے ننگے ممے چومنے کا بھی موقع دیا۔ جب لڑکوں نے اسے رنڈی سمجھ کر ساتھ چلنے کو کہا تو صائمہ نے مسکرا کر انگریزی میں انہیں بتایا کہ I am married and I am doing it just to enjoy myself. لڑکے بھی کاروں میں موجود ڈرائیوروں اور نوکروں کا گروپ دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔
وہاں سے روانہ ہو کر صائمہ نے نوکروں سے ان کی اگلی فرمائش پوچھی تو ان کا جواب سن کر ایک لمحے کے لئے تو صائمہ خود بھی گھبرا گئی کیونکہ فرمائش صائمہ کے محبوب نوکر نے کی تھی اور تھی بھی انتہائی خطرناک۔ دراصل نوکر نے فرمائش کی تھی کہ صائمہ اپنی بریزئر اور پینٹی اتار کر بالکل ننگی ہو کر ان سب کو اپنے گھر لے کر جائے اور اپنے گھر کے لان میں ان کے ساتھ بالکل ننگی ہو کر سیکس کرے !
پلان انتہائی خطرناک تھا اور اگر یہ فرمائش صائمہ کے فیورٹ نوکر نے نہ کی ہوتی تو صائمہ صاف انکار کر دیتی مگر نوکر نے اپنی فرمائش کو صائمہ کے پیار کا امتحان قرار دیا تو صائمہ اس پر بھی راضی ہو گئی۔ لہذا دونوں کاریں صائمہ کی گائیڈنس میں اس کے گھر کی سٹریٹ میں پہنچ گئیں۔ آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد صائمہ اور اس کا محبوب نوکر کار سے اتر کر صائمہ کے گھر کا گیٹ کھول کر گھر کے لان میں پہنچ گئے۔ صائمہ لباس کی قید سے آزاد تھی جبکہ نوکر نے پورے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ لان کے درمیان میں پہنچ کر صائمہ مسکراتے ہوئے لان میں موجود ایک کرسی پر جھک گئی اور اپنی ننگی پھدی اور ننگے ہپس نوکر کی طرف کرکے مسکرانے لگی۔
نوکر صائمہ کا سیکسی انداز دیکھ کر جوش میں آگیا اور جھک کر پیچھے سے صائمہ کی گلابی پھدی چاٹنے لگا۔ صائمہ بھی اپنی آنکھیں بند کر کے آہیں بھرنے لگی۔ جلد ہی صائمہ کا کلائمکس ہوگیا تو نوکر نے اپنا لن نکال کر صائمہ کی گیلی پھدی میں ڈال دیا۔ صائمہ بھی جوش وخروش سے نوکر کا لن اپنی پھدی میں لیکر اپنے ہی گھر کے لان میں زوروں سے چووانے لگی جبکہ باقی تمام نوکر اور ڈرائیور صائمہ کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے اور اپنے لن نکال کر اپنی اپنی مٹھ مارنے لگے۔
ایک ڈرائیور نے آگے بڑھ کر اپنا لن صائمہ کے خوبصورت ہونٹوں سے لگا دیا تو صائمہ اس کا پورا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اسی دوران نوکر نے صائمہ کی پھدی میں اپنے سپرمز نکال دئیے تو پاس کھڑے دوسرے نوکر نے اپنا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا۔ اس طرح باری باری سارے نوکروں اور ڈرائیورز نے صائمہ کے ساتھ اس کے اپنے گھر کے لان میں ننگا سیکس کیا اور صائمہ کے ساتھ ننگی تصویریں بنوائیں۔
آخر جب صبح کے آثار نظر آنے لگے تو صائمہ گھبرا کر بولی جانو ! اب بہت ہو گیا ! اب اگر کوئی جاگ گیا تو بہت مشکل ہو جائے گی، ویسے بھی میں ابھی تمہارے پیار کو کھونا نہیں چاہتی ! اس لئے بہتر ہے کہ اب ہم واپس چلیں ! ۔ صائمہ کی بات سن کر اس کے محبوب نوکر نے ایک آخری فرمائش کردی ۔ وہ بولا ٹھیک ہے رانی لیکن پہلے تو اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے میرے ساتھ بالکل ننگی ہوکر ایک تصویر کھینچوائے گی پھر ہم سب واپس چلیں گے۔
یہ سن کر صائمہ بہت گھبرائی اور بولی جانو بہت مشکل فرمائش ہے تمہاری ! ہو سکتا ہے کھڑکی کا پردہ کھلا ہو ؟ اور ہو سکتا ہے اندر سے میرا شوہر مجھے تمہارے ساتھ بالکل ننگا دیکھ لے ؟ مگر نوکر نہ مانا۔ آخر صائمہ کو ہی ہار ماننی پڑی اور وہ نوکر کو لیکر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس پہنچ گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ کھڑکی کا پردہ ہٹا ہوا تھا اور کمرے میں لیمپ کی مدھم روشنی میں بیڈ پر صائمہ کا شوہر سو رہا تھا۔ وہ اس حقیقت سے بےخبر تھا کہ اس کی بیوی اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ کھڑکی کے باہر بالکل ننگی کھڑی اسے دیکھ رہی ہے ۔
نوکر نے مسکرا کر صائمہ کا ایک ننگا ممہ پکڑ کر دبایا اور پوچھا رانی ! کیسا لگ رہا ہے ؟ نوکر کا ہاتھ اپنے ننگے ممے پر محسوس کرتے ہی صائمہ کے ننگے جسم میں نوکر کے پیار کا کرنٹ دوڑنے لگا اور وہ نوکر کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر اسے ایک بھرپور kiss کرکے بولی جانو ! اب بھی کیا کوئی کسر رہ گئی ہے کہ میں تمہارے لئے اپنا پیار ثابت کروں ؟ تو نوکر صائمہ کو اپنا موبائل پکڑا کر بولا رانی میں پیچھے سے تیرے ممے پکڑوں گا اور تو ہم دونوں کے پیار کی سیلفی لے گی ! تو صائمہ نے مسکرا کر نوکر کا موبائل لیا اور سیلفی لینے لگی تو نوکر نے صائمہ کے پیچھے سے ہاتھ ڈال کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے ۔ اسی پوز میں صائمہ نے نوکر کے ساتھ اپنی ننگی سیلفیاں بنائیں اور موبائل نوکر کو دے کر بولی جانو پلیز اب واپس چلو !
صائمہ کی گھبراہٹ دیکھ کر نوکر مسکرایا اور اس نے صائمہ کے ننگے بریسٹز پکڑ کر کھڑکی کی طرف کر کے زور سے دبائے تو صائمہ کے ننگے نپلز سے دودھ کی دھاریں نکل کر کھڑکی کے شیشے پر قطروں کی صورت میں بہنے لگیں تو نوکر مسکرا کر صائمہ کی طرف دیکھ کر بولا رانی ! کل دن میں تیرے دودھ کی دھاروں کے یہ نشان تجھے ہمارے پیار کی یاد دلائیں گے۔ صائمہ نے نوکر کا ہاتھ پکڑا اور اسے زبردستی کھینچ کر گیٹ کی طرف چل پڑی ! اب دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا اور اخبار والے کوٹھیوں میں اخبار پھینک رہے تھے۔
صائمہ اسی طرح بالکل ننگی ہی جلدی سے نوکروں کے ساتھ کار میں بیٹھی اور دونوں کاریں تیزی سے صائمہ کی سہیلی کے گھر کی طرف روانہ ہو گئیں !

صبح کی روشنی آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ دونوں کاریں تیزی سے صائمہ کی سہیلی کے گھر کی طرف واپس جارہیں تھیں۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے صائمہ کے محبوب نوکر سمیت کئی نوکر اور ڈرائیورز اونگھ رہے تھے۔ البتہ ساری رات نوکروں اور ڈرائیورز کے ساتھ ننگا سیکس کرنے کے باوجود صائمہ کو تھکن محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہ اپنے اندر ایک نئی تازگی اور سیکس کی چاہت محسوس کررہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ایک نئی نویلی دلہن ہے اور اپنے ہنی مون کو انجوائے کررہی ہے۔

نوکر کے پیار نے صائمہ کو ایک بہت ہی خوبصورت اور جوانی سے بھرپور احساس دیا تھا اور وہ یہ حقیقت بالکل بھول چکی تھی کہ وہ تین بچوں کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف اور وفادار بیوی بھی ہے جسے اپنے شوہر سے محبت تھی اور جسے پچھلے دو دنوں کے واقعات سے پہلے کسی غیر مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ البتہ اس وقت وہ بالکل ننگی حالت میں انجان نوکروں اور ڈرائیوروں کے درمیان کار میں اپنی سہیلی کے نوکر کی گود میں بیٹھی اسی سہیلی کے گھر واپس جارہی تھی اور صائمہ کو اپنے گھر اور شوہر کی بجائے ان نوکروں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزرے ہوئے پیار کے لمحات یاد آرہے تھے۔

جونہی کاریں صائمہ کی سہیلی کے گھر پہنچیں ! تمام نوکر اور ڈرائیورز باری باری صائمہ کے ننگے مموں کو دبا کر اپنے اپنے مالکوں کے گھروں کی طرف چلے گئے اور دونوں کاروں والے ڈرائیورز بھی صائمہ اور اسکی سہیلی کے نوکر کو اتار کر اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔ نوکر اور صائمہ بھی گیٹ کا تالا کھول کر صائمہ کی سہیلی کے گھر میں آگئے ۔ صائمہ ابھی تک لباس کی قید سے بالکل آزاد تھی اور اسے اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ بالکل ننگی رہنا ہی اچھا لگ رہا تھا۔

نوکر کچن میں جاکر چائے بنانے لگا تو صائمہ نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور باتھ روم میں گھس گئی۔ نیم گرم پانی کے شاور نے رات بھر جاری رہنے والے سیکس کے اثرات زائل کرکے صائمہ کو تازہ دم کردیا اور وہ اپنا بدن خشک کرکے اسی طرح ننگی ہی باہر آگئی۔

ناشتہ تیار تھا اور نوکر اپنی ننگی محبوبہ کا انتظار کررہا تھا۔ صائمہ مسکراتی ہوئی آئی اور نوکر کی گود میں بیٹھ کر اس کی گردن میں اپنی نازک بانہیں ڈال کر نوکر کی آنکھوں میں جھانک کر مسکراتے ہوئے بولی جانو ! تمہیں چھوڑ کے اپنے گھر واپس جانے کا خیال بھی بہت برا لگتا ہے۔ نوکر نے شرارت سے صائمہ کے ایک نپل پر چٹکی لی اور مسکرا کر بولا” تو یہاں ہی رک جا رانی ! تیرا شوہر تو تیرے بغیر بھی آرام سے سو رہا تھا لیکن میرا لن تیرے بغیر کیسے رہے گا ؟”۔

نوکر کی بات سن کر صائمہ کی آنکھوں میں پیار کا نشہ چھا گیا اور صائمہ اپنا منہ نوکر کے منہ لگا کر اسے بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی۔ یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا اور صائمہ اور نوکر ایک دوسرے کے منہ سے منہ لگا کر آپس میں زوردار کسنگ کرتے رہے۔ اسی دوران صائمہ نے ناشتے کا ایک لقمہ اٹھا کر اپنے منہ میں لے کر نوکر کے منہ میں دے دیا تو نوکر صائمہ کے منہ سے لقمہ لے کر کھانے لگا۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا جو صائمہ کے ننگے بدن میں نوکر کے لئے پیار کا ایک نیا جذبہ۔ پیدا کررہا تھا۔

صائمہ نے مسکرا کر آنکھوں سے نوکر کو ناشتے کی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا تو نوکر صائمہ کا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے پلیٹ سے ایک لقمہ اٹھایا اور اپنے منہ میں ڈال کر اپنا منہ صائمہ کے منہ سے لگا دیا۔ صائمہ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ نوکر کے منہ سے لقمہ اپنے منہ میں لیا اور مسکرا کر نگل گئی ۔ اسی طرح نوکر اور صائمہ محبت سے ایک دوسرے کو ناشتہ کروا کر فارغ ہوئے جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے مموں سے کھیلتا رہا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر صائمہ نے بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کی گود میں بیٹھے بیٹھے اپنے شوہر کو فون کر کے یوں ظاہر کیا جیسے وہ ابھی ابھی نیند سے جاگی ہو جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا۔ شوہر نے بتایا کہ بچے تیار ہو کر سکول جا چکے ہیں اور وہ خود بھی ناشتہ کرکے دفتر کیلئے نکلنے ہی والا ہے۔ صائمہ نے ذرا سست سی آواز میں شوہر کو آئی لو یو کہا تو وہ بولا “لگتا ہے رات بھر گپ شپ چلتی رہی ہے اور نیند پوری نہیں ہوئی ہے”؟ تو صائمہ بھی اپنا ایک ننگا ممہ نوکر کے منہ سے لگا کر بولی “ ٹھیک کہا آپ نے ! رات بھر جاگتی رہی ہوں اور اب نیند آرہی ہے”۔

یہ سن کر صائمہ کا شوہر بولا ٹھیک ہے تم آرام کرلو پھر گھر آؤ گی تو شام کو ملتے ہیں۔ صائمہ نے شوہر کو فون پر kiss کیا اور کال بند کردی۔ اس دوران نوکر مسلسل صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا، کبھی صائمہ کے ممے چوسنے لگتا تو کبھی صائمہ کو کھڑا کرکے اس کی پھدی چومنے لگتا اور کبھی صائمہ کو موڑ کر اس کے ننگے ہپس کھول کر ان میں پیار کرنے لگتا۔ صائمہ بھی مسکرا کر چپ چاپ نوکر کی شرارتیں برداشت کرتی رہی اور فون بند کرتے ہی بھوکی شیرنی کی طرح نوکر پر جھپٹ پڑی ! ۔ اس نے نوکر کی شلوار کھول کر نوکر کا کھڑا ہوا لن باہر نکال لیا اور مسکراتے ہوئے اپنی زبان نوکر کے ننگے لن پر پھیرنے لگی۔

نوکر نے اپنا لن صائمہ کے خوبصورت ہونٹوں سے لگا دیا تو صائمہ اسے منہ میں لیکر جوش و خروش سے چوسنے لگی۔ نوکر بھی صائمہ کے گرم گرم پیار کا مزہ لینے لگا اور بے ساختہ بولنے لگا “ آہ ! میری رانی ! اور زور سے چوس ! اور زور سے ! آج میری ساری منی چوس لے رانی ! کب سے تیرے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مارتا تھا ! میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی تو سچ مچ میرے سامنے ننگی ہوگی اور میری ننگی رانی بنے گی۔ چند ہی لمحوں میں نوکر نے صائمہ کے منہ میں اپنے سپرمز نکال دئیے اور صائمہ نے مسکراتے ہوئے نوکر کے سارے سپرمز پی لئے۔

اس بھرپور سیکس کے بعد صائمہ بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کے گلے لگ گئی اور اٹھلا کر بولی جانو ! اب میں تم سے دور نہیں رہ سکتی ! ۔ پلیز مجھ سے شادی کرلو ! ۔ نوکر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر بولا رانی ! اب تو میری رانی ہے اور ہم دونوں کھل کر ایک دوسرے سے پیار تو کررہے ہیں ! ۔ تو صائمہ منہ پھلا کر بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھے اپنی بیوی نہیں بناؤ گے مجھے سکون نہیں ملے گا۔ نوکر صائمہ کا مطالبہ سن کر بولا رانی ! تو پہلے ہی شادی شدہ ہے اور تین بچوں کی ماں ہے ! جبکہ میں تو ایک معمولی نوکر ہوں ، تو بھلا میری بیوی کیسے بن سکتی ہے؟

نوکر کی بات سن کر صائمہ ناراضگی سے بولی جانو ! تمہارے پیار میں کل رات بھر تمہارے دوستوں کے ساتھ پورے شہر میں ننگی ہوکر گھومتی رہی ہوں ، یہاں تک کہ اپنے گھر کے لان میں تمہارے ساتھ اور تمہارے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی ہوکر سیکس کرتی رہی ہوں ! اب اور اپنے پیار کا کیا ثبوت دوں ؟ تو نوکر صائمہ کے ننگے نپلز چوم کر بولا رانی ! میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ تو میرے ساتھ اور میرے دوستوں کے ساتھ اسی طرح ننگی ہو کر پیار کرتی رہنا اور بس !

نوکر کی بات سن کر صائمہ بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھ اے شادی نہیں کرو گے میں یہاں سے نہیں جاؤں گی ! اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے ! ۔ اب نوکر کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ! وہ صائمہ کے ننگے بدن کو ہاتھ لگا کر صائمہ کو۔ پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا تو صائمہ اس کا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیتی کہ پہلے شادی کرو ! پھر ہاتھ لگانے دوں گی۔ نوکر بھی اس اچانک تبدیلی پر حیران تھا کہ صائمہ نے کیا شادی کی ضد لگا رکھی ہے !

آخر اس نے تھک ہار کر ہمسائے والے نوکر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی۔ دوست بولا تو فکر نہ کر میں نواز اور شیرو کو لے کر آتا ہوں ، تو جاکر مولوی کو بلا لے ! بس ہم گواہ بن جائیں گے اور شادی کا ڈرامہ کرکے اسے کہہ دیں گے کہ اب وہ تیری بیوی ہے ! نوکر یہ سن کر بہت خوش ہوا اور صائمہ سے بولا رانی ! تو دلہن بن کر تیار ہو جا میں گواہوں اور مولوی کو لے کر آتا ہوں ۔

صائمہ نوکر کی بات سن کر کھل اٹھی اور اپنی سہیلی کے کمرے میں جاکر تیار ہونے لگی۔ اسی دوران ہمسایوں کا نوکر اپنے دو عدد دوستوں کو لے کر وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے کال کرکے علاقے کے مولوی کو بھی بلا لیا تو صائمہ بھی ایک خوبصورت جوڑا پہن کر ڈرائنگ روم میں آکر گھونگٹ نکال کر دلہن کے روپ میں بیٹھ گئی۔ جب مولوی ایجاب و قبول کروانے لگا تو صائمہ اپنی قمیض کھینچ کر اوپر کرکے اپنے جوان ممے باہر نکال کر ننگے کر کے نوکر سے بولی جانو ! ایسے نہیں ! بلکہ میرے یہ پکڑ کر مجھے قبول کرو ! تو نوکر نے صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر ایجاب و قبول کیا اور صائمہ نے بھی اپنے ننگے ممے نوکر کو پکڑوا کر نوکر سے ایجاب و قبول کیا۔

دلہن کے خوبصورت ننگے ممے دیکھ کر مولوی بھی برداشت نہ کرسکا اور اس نے اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے اور زور زور سے دبانے لگا۔ یہ دیکھ کر صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے مولوی کو اپنی گود میں لٹا لیا اور اپنے ننگے ممے مولوی کے منہ میں دے دئیے۔ ساتھ ہی مولوی کی شلوار کھول کر اس کا کھڑا ہوا لن باہر نکال کر مولوی کی مٹھ مارنے لگی اور اسے اپنے ننگے مموں سے اپنا دودھ پلانے لگی۔

مولوی یہ منظر برداشت نہ کر سکا کہ صائمہ جیسی خوبصورت عورت دلہن کے روپ میں بیٹھی اپنے ننگے مموں سے اسے اپنا دودھ پلا رہی ہے اور اپنے نازک ہاتھوں سے اس کی مٹھ مار رہی ہے۔ تو مولوی نے صائمہ کے ہاتھوں میں ہی اپنی منی نکال دی جو صائمہ نے مسکرا کر چاٹ چاٹ کر صاف کردی۔ مولوی بھی شرمندہ شرمندہ صائمہ کی گود سے اٹھا اور وہاں سے روانہ ہوگیا تو نوکر کے دوست اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر کھینچنے لگے اور اس کے ننگے ممے کھینچ کھینچ کر لال کر کے اسے شادی کی مبارکباد دینے لگے۔ تو صائمہ نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور بولی اپنے جانو کو خوش رکھنے کے لئے میں جانو کے سب دوستوں کے سامنے بالکل ننگی رہوں گی۔

یہ سن کر نوکر اور اس کے دوستوں نے صائمہ کے سارے کپڑے اتار کر اسے ایک بار پھر بالکل ننگا کرلیا اور صائمہ انکے ساتھ بالکل ننگی ہو کر پھر سے سیکس کے مزے لینے لگی۔ نوکر نے قالین پر لیٹ کر صائمہ کو اپنے کھڑے ہوئے لن پر بٹھا لیا اور اپنا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا جبکہ اسکے ایک دوست نے اپنا لن آہستہ آہستہ صائمہ کے ہپس میں ڈال دیا باقی دونوں دوست صائمہ کے دائیں اور بائیں طرف کھڑے ہوگئے اور صائمہ انکے کھڑے ہوئے لن پکڑ کر باری باری منہ میں لیکر بیک وقت چار مردوں کے ساتھ سیکس کرنے لگی۔ یہ سلسلہ شام تک وقفے وقفے سے چلتا رہا یہاں تک کہ صائمہ کے شوہر کی کال آگئی۔

صائمہ اس وقت بھی نوکر کے ایک دوست کے لن پر سواری کررہی تھی اور وہ صائمہ کے دونوں مموں کو پکڑ کر زور زور سے دبا کر صائمہ کے نپلز سے نکلتی ہوئی دودھ کی دھاریں اپنے منہ میں لیکر صائمہ کا دودھ نکال رہا تھا جبکہ صائمہ کے ممے لال ہو رہے تھے۔ موبائل بجتے ہی صائمہ نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف اس کا شوہر پوچھ رہا تھا “ سوئٹ ہارٹ ! یہ تمہاری سہیلی نے کیا جادو کردیا ہے کہ تم ابھی تک وہاں ہی ہو؟ لگتا ہے تم اپنا گھر بھول گئی ہو ! ۔ شوہر کی بات سنکر صائمہ گھبرا کر شرماتے ہوئے بولی نہیں نہیں ڈارلنگ ! میں بس آنے ہی والی تھی۔ یہ کہتے ہوئے بھی صائمہ مسکرا کر اپنا ایک ننگا ممہ پاس کھڑے نوکر کی طرف بڑھا کر اسے اپنا نپل چوسنے کی دعوت دے رہی تھی۔

جونہی ! نوکر نے آگے بڑھ کر صائمہ کا نپل منہ میں لیا تو صائمہ مسکرا کر بولی آہ ! جانو ! ذرا آہستہ سے ! ۔ یہ سن کر صائمہ کا شوہر ذرا سخت لہجے میں بولا تم نے پھر مجھے جانو کہا ؟ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ ! دراصل میں تو یہاں سعدیہ کو کہہ رہی تھی کیونکہ میرے پیر میں موچ آگئی ہے اور یہ پیر کو پکڑ کر سیدھا کررہی تھی ۔

صائمہ کے جھوٹ سے شوہر کا لہجہ دوبارہ نرم ہو گیا اور وہ پریشان ہوکر بولا اچھا تم فکر نہ کرو ! میں تمہیں آکر پک کرلیتا ہوں ، تم کہاں اس حال میں ٹیکسیوں میں دھکے کھاتی آؤ گی ! ۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ اتنی زیادہ تکلیف نہیں ہے اور ویسے بھی ٹیکسی گیٹ پر آ چکی ہے، آپ فکر نہ کریں میں پہنچ جاؤں گی۔ تب کہیں صائمہ کے شوہر کی تسلی ہوئی اور اس نے کال بند کی۔ کال بند ہوتے ہی صائمہ نے بے چینی سے نوکر اور اسکے دوستوں کی طرف دیکھا اور بولی پلیز جلدی سے ایک ایک راؤنڈ اور لگا لو ! پلیز ! ! ! ! صائمہ کی دعوت سنتے ہی چاروں صائمہ پر ٹوٹ پڑے اور دھڑادھڑ صائمہ کے منہ ، ہپس اور پھدی میں اپنے لن ڈال کر اسے چودنے لگے۔ صائمہ اب بھی گھر واپس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن جونہی نوکروں کا کلائمکس ہوا انہوں نے صائمہ کو باتھ روم میں لے جاکر اپنے ہاتھوں سے نہلایا۔
باتھ روم سے نکل کر نوکر اور اسکے دوستوں نے جلدی جلدی صائمہ کو اسکی واجبی سی بریزئر پہنائی اور باقی کپڑے پہنا کر جلدی جلدی Uber سے کار منگوا کر صائمہ کو وہاں سے روانہ کیا۔ صائمہ بھی پورے دو دن اپنی سہیلی کے نوکر اور اسکے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزارنے کے بعد ان سے اگلے ہی دن دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے آنکھوں میں پیار بھرے آنسو لئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔
Like Reply
شادی کے دو ماہ بعد میرے میاں تو فارن اپنی جاب پرچلے گئے ۔ اور میں ساس اور سُسرکے
ساتھ رہ گئی  ۔ ہم ایک گراں، گاؤں  یعنی پنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اک دوجے
کو جانتا ہے ۔ بڑے شہروں میں تو ہمسائے کو بھی کوئی نہیں جانتا مگر پنڈ میں ایسا نہیں ہوتا
میرے میکے اور سسرالی سارے رشتہ دار تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے ہیں کئی کی تو
دیواریں بھی ایک ہیں ۔ دائیں طرف میری پھوپھی کا گھر تھا  بائیں طرف  میرے دیور کا
اسی طرح دائیں طرف  تین گھر چھوڑ کر ایک بند گلی تھی جس میں میری نند رہتی تھی
أس گلی میں صرف تین گھر تھے ایک میری نند کا ایک اس کے جٹیھ کا  اور ان کے سامنے
میری نند کے ساس سسر رہتے تھے وہ گلی میری نند کی سسرال کی ہی سمجھ لیں ۔ تفصیل
اس لئے دی ہے کہ جو واقعہ میں آپ لوگوں سے شئیر کرنے جا رہی ہوں وہ میری نند کے
جیٹھ کے متعلق ہے جو رنڈوا تھا  چالیس سال سے زیادہ کا تھا ۔سب أسے چاچو کہتے تھے ۔  بلا کا نظرباز تھا اور کافی بدنام تھا ۔ رنڈوا تھا بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی اس نے نہیں کی تھی اور گھرمیں اکیلا رہتا تھا ۔ لوگوں میں اسکے بارے مشہور تھا کہ وہ عورتوں کی جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور ان سے کماتا ہے مگر یقین سے کوئی ایسا نہیں کہ سکتا تھا افواہیں سمجھی جاتی تھیں ۔ میں اکثر اپنی نند کے گھر جاتی تھی کیونکہ ایک تو وہ  صرف  چند سال بڑی تھی اور ہماری ایک دوجے سے خوب بنتی تھی دوسرا میری ساس ار سُسر بھی خوش رہتے کہ ان کی بیٹی سے اچھی بنارکھی ہے نند کے گھر سے پہلے اس کے جیٹھ کا گھر تھا اور وہ ہمیشہ دروازہ کھول کے اپنی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا۔ میں جب بھی نند کے ہاں جاتی اس کے گھر کے آگے سے گذرنا ہوتا اور وہ فورا أٹھ کر دروازے پر آجاتا تو حال احوال پوچھنے لگتا
کے حال نیں ، ول تے آہو ناں
میں ۔ جی چاچو تُسی دسو
وہ ۔ کوئی خط سط وی آوندا نیں کہ اوتھے دل لا گدا نیں
نہ بھی خط آیا ہوتا تو یہی کہتی کہ ایہ  کل پرسوں آیا تے چاچو  تساں کی سلام لکھیا نیں
وہ۔ ہلا ، تُو جواب دتا تے مینڈا وی لکھیناس ‘ جی چاچو  کہہ کے آگے نند  کے دروازے کی
طرف بڑھتی  ۔ مجھے جن نظروں سے وہ دیکھتا اس میں ہوس صاف ظاھر ہوتی  ۔ مرد کی نظر عورت پہچان جاتی ہے کہ وہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ میں آگے نند کے گھر کی جانب بڑھتی تو اس کی میلی نظروں کی حدت کولہوں اور کمر پر محسوس کرتی ۔ وہ تب تک دروازے سے جھانکتا رہتا جب تک  میں نند کے گھر میں داخل نہ ہوجاتی ۔ خیر ۔ میں اس کو روزمرہ کی روٹین سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ۔
میرے میاں کو جب چھ ماہ سے زیادہ  ہوگئے تو دن بدن میری فطری خواہش بڑھنا شروع ہوگئی اورعورت ہی جانتی ہے  کہ مرد پاس نہ ہو تو کیسا عذاب جھیلتی ہےعورت ۔ چاچو عورت کے بارے کافی کُچھ معلومات رکھتا تھا اور اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب ایک دن نند کےگھر جاتے ہوئے أسے درازے پر کھڑا دیکھا تو میں نے اسے سلام بولا تو چاچو نے کہا
سیمو تھکی تھکی وی دسدی ایں خیر کوئی گل نہیں چار پنج دناں بعد تھکاوٹ  وی أتر جانی
۔ اس دن مجھے پیریڈ شروع ہوئے دوسرا دن تھا اور اس کو میرا چہرہ دیکھ کے اندازہ ہو گیا ۔
جب کبھی میں ہارنی ہوتی تو نظروں میں نظریں ڈال کے کہہ دیتا کہ سیمو تے بڑی اوکھی اوکھی پئی دسنی اے تے سجن ماہی وی ُدور ۔ میں بات کو ٹال کے آگے بڑھ جاتی ۔ اسی طرح
چلتا رہتا ۔ وہ چونکہ اکیلا رہتا تھا خود تو گھریر کبھی کبھارہی  پکاتا اور کھاتا سامنے کے گھر میں چونکہ اس کے والدین رہتےتھے تو ان کے پاس اورکبھی کبھار میری نند کے ہاں بھی
کھالیتا جس طرح عام طور پر ہوتا ہے کوئی اچھی ڈش بنائی جائے تو قریبی اور آس پاس
کے گھروں میں بھی شئیر کرتے ہیں اسی طرح ہم کوئی سپیشل ڈش وغیرہ بناتے تو چاچو
کو ضرور دیتے ۔ یعنی ہم سب گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ اچھی بنا کر رکھتے۔ اور عزیز
واقارب بھی قریب ہی رہتے مگر میرے ساس ُسسر اپنی بیٹی میری نند کی وجہ سے اس کی
سسرال کاخاص خیال رکھتے ۔ اور مجھے اپنی سُسرال کی خوشنودگی عزیز تھی ۔ ایک روز
مجھے خیال آیا کہ میں نے ٹانگوں کے بال کافی عرصہ سے صاف نہیں کئے جن کے خاوند
پاس ہوں تو باقاعدگی سے کرتی ہیں مگر پردیس گئے پیا کی پیاری سُستی کرجاتی ہے ۔
خیرمیں نے اچھی صفائی کی اور نہا دھو کر اک نواں جوڑا لا کے اپنی نند کے ہاں گئی۔ ہمارے گاؤں میں ان دنوں پردہ وغیرہ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ ایک ہی برادری کے تھے ہم عورتیں اگر شہر جاتیں تو بُرقعہ لے لیتی تھیں خیر حسب معمول چاچو دروازے پر آگئے اور حال احوال پوچھا اور باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ سیمو  کوئی عجیب جیہی مشک  پی آوندی اے
میں نے کہا پتہ نہیں مجھے تو نہیں آرہی  پھر مجھے خیال آیا سیمو مرجانی ایہ تے بال صفا
پوڈر کی بات کر رہا ہے میں تو ہکا بکا رہ گئی اور اس نے بات کو بدل دیا اور میرے نئے جوڑے کی آڑ میں میری تعریف کرنے لگے میں جلدی سے آگے نند کے گھر چلی گئی ۔  مگر میں کافی نروس بھی تھی اور چاچو کی بات سے کافی شرمندہ شرمندہ بھی اور خجالت محسوس کرنے لگی ، کچھ دیر بیٹھ کے اپنے گھر کو لوٹی تو چاچو دروازے پر ہی اٹکا ہوا تھا
جیسے میرا ہی انتظار کر رہا ہو کہنے  لگا نظر بد دُور اج اپنی نظر ضرور اتارنا
میں نے کہا چاچو تسُی وی جو منہ اؤندہ کہہ دیندے او اور جلدی جلدی قدم بڑھا کر گھر آگئی
شام کو میری ساس نے کہا کہ اج تے گُڑ آلے چاولاں تے دل کردا پیا  ، میں نے شام کو
گُڑ کے چاول یعنی میٹھے چاول پکائے اور اپنی نند کو دینے گئی تو چاچو جو کہ میری
نند کا جیٹھ لگتا تھا بھی ان کے گھر ہی کھانا کھا رہا تھا وہ کہنے لگا سیمو گُڑا الے چاول
تے مینو وی بڑے چنگے لگدے آ میں کہیا چنگا چاچو تساں وی دے ویساں ۔ گھر آکر کھانا
کھایا اورسریوں کے دن تھے بہت چھوٹے  اور لمبی راتیں میرے ساس اور سُسر کھانے  سے پہلے ہی عشاء کی نماز سےفارغ  ہوگئے تھے اور اپے کمرےمیں چلے گئے تھے ۔ برتن رکھتے ہوئے مجھے یاد آیا چاچو کو تو چاول بھی دینے تھے  ۔ اگرچہ اتنی زیادہ دیر نہیں ہوئی تٓھی  مگر پنڈ میں تو مغرب کے بعد ہی سُناٹا ہوجاتا ہے میں نےسوچا چاچو کونسا سو گیا
ہوگا اسے چاول دے ہی آؤں ۔ میں نے سردی سے بجنے کےلئے شال لی اور مٹھےچاول چاچو کو دینے گئی ۔ گھر سے نکل کر مجھے خیال آیا ایک تو  چاچو چھڑا چھانڈ اور پھر بدنام بھی
اور اگر اس وقت کسی نے اس کے دروازے پر کسی نے دیکھ لیا تو سیمو تیرے پلے کجھ وی
نہیں رہنا ۔ سوچا واپس جاؤں اور کل دن میں اسے چاول دے دونگی مگر پھر خیال آیا
کہ میں نے کونسا وہاں رکنا ہے اور گلی میں تین ہی گھر ہیں وہ بھی اپنے ہی کسی نے
پوچھا تو بول دونگی چاول دینے آئی ہوں اور چاچو کو اپنی نند کے سامنے میں نے بولا تھا
کہ دے جاؤں گی چول ۔  ہم چاول نہیں کہتے چول کہتے ہیں یہی سوچ کر چاچو کے دروازے پر پہنچ گئی




چاچو کا  دروازہ ناک کرنے ہپلے سے میں نے چیک کیا ، دروزاہ کھلا ہوا تھا ۔ آگے
ڈیوڑھی میں اندھیرا گُھپ ، میں نے چاچو کو دو تین بار آستہ آہستہ  چاچو کہہ کر بلایا
مگر چاچو شاید اندرکمرے میں اور وہاں تک جانے کے صحن سے گذرنا پڑتا تھا ۔ اک
کمرے میں لالٹین کی روشنی کھڑکی کی درزوں سے جھانک رہی تھی میں نے آہستہ
آہستہ دروازہ  ناک کیا  تو چاچو کی آواز آئی ’ دروازہ کھلا سیمو اندر لنگ آ‘ میں حیران
ہوئی کہ چاچو کو کیسے پتہ چلا کہ میں دروازے پر ہوں اتنے تک چاچو دروازے پر تھا
بولا ’’کہ میں تمہارے چاولوں کی انتظار میں تھا ‘‘ میں نے پلیٹ چاچو کے ہاتھ میں دی
اور جانے کے لئے مُڑی کہ چاچو نے کہا ٹہر سیمو میں رسوئی میں چاول رکھ کر پلیٹ
تمہیں دیتا ہوں پہلے والے برتن بھی کافی اکٹھے ہوئے پڑے ہیں ، میں بھی ساتھ چلنے لگی
تو چاچو نے کہا تم رکو میں آتا ہوں اتنے میں چاچو جلدی سے کمرے سے جلا گیا اور
تھوڑی دیر میں واپس تو برتن اس کے ہاتھ میں نہیں تھے ۔
چاچو نے کہا ہاں سنا سیمو  کوئی خط سط ، میں کہیا دیر ہوگئی  میں صبح ہی برتن
لے لاں گی ۔  اور دروازے کی طرف بڑھی اس سے پہلے کہ میں دروازے سے نکلتی
چاچو نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور گلے لگانے کی کوشش کی ، مجھے بڑا  غصہ
آیا اور میں نے جھٹکے سے بازو چھڑایا اور بولی چاچو تینو اینی جراءات کس طرح ہوئی
مجھےچاچو کی خراب نیت کا تو اندازہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ چاچو ایسی بے غیرتی نہیں
کرسکتا ۔ اب میں بے یقینی اور اور صدمہ کی کیفیت میں تھی کہ میں کس مصیبت میں
پھنس گئی ۔ اور باہر کی طرف دوڑی مگر چاچو تو کنڈی لگا چکا تھا ۔ میں نے چاچو کو بولا
دیکھ مجھے جانے دے نہیں تو تمہارے باپ کو بتاؤں گی اس کا باپ سامنے والے گھر میں
رہتا تھا اور پنڈ کا نمبردار تھا ، اس نے مجھے پیچھے سے کمر سے پکڑا اور اپنے طرف کھینچ کے اپنے سینہ سے لگا لیا ، میں کو شش کرنے لگی کہ کسی طرح اپنے آپ کو چُھڑاؤں
ایک خیال آیا زور زور سے شور مچاؤں مگر اس خیال سے رک گئی کہ اس طرح بدنامی تو میری ہی ہوگی اور میں کس طرح کسی کویقین دلاسکونگی کہ اتنی رات میں چاول دینے آئی تھی وہ بھی
ایک بدنام رنڈوے کو ۔ میں چاہتی تھی کوئی ایسی چیزمیرے ہاتھ لگ  جائے جو چاچو کے سر
پر مار کر اسے بیہوش کرکے بھاگ جاؤں ۔ مگر کچھ آس پاس نہ تھا میں نے چھڑالیا یا
چاچو نے مجھے آذاد  کیا کہ میں دوڑی دروازے کی طرف مگر یہ اندروٹھے کا دوازہ تھا
جو پٹ سے کھل گیا اور اندھیرا ہونے کی وجہ سےدہلیز کے ساتھ ٹھوکر کھا کر میں اندروٹھے
کمرے میں جا گری ( ہماری طرف ایک کمرے  کے آگے بھی کمرا بنا دیتے تھے پہلے وقتوں
میں یعنی ایک کمرے میں دو کمرے جن کا مین دروازہ ایک ہی ہوتا تھا ۔ اب شاید یہ رواج
نہیں رہا ۔ اب میں اٹھنے کی کو شش کر رہی تھی کہ چاچو نے پیچھے سے دبوچ لیا میں گھوڑی کی حالت  میں تھی یعنی چاروں پاؤں پر اور چاچو مجھے لپٹنے کی ٹرائی کرنے لگا  ، مجھے اپنے کولہو  پر اس کا اوزارمحسوس ہو رہا تھا میں نے کوشش کی اور کھڑی ہوگئی مگر چاچو میرے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور اس کا ہتھیار میری ٹانگوں کے بیچ تھا میں نے چاچو کو بولا چاچو مجھے جانے دو ۔ دیر بہت ہوگئی ہے ۔ چاچو کچھ بولا نہیں  مگر مجھے أٹھا کر پلنگ پر لٹا کر پھر مجھے دبوچ لیا ۔ چاچو کی کوشش تھی کہ کسی طرح میرا بوسہ لے مگر میں اپنے ہونٹ اس سے بچا رہی تھی گالوں پر تو اکا دکا چومیاں لے رہا تھا اور مجھے گلے سے لگا کربھینچ رہا تھا میں نے اسے گالیاں دینی شروع کردیں اور اپنے سے دور دھکیلنے لگی مگر زور ور تھا میں ایک کبوتری کی طرح پھنس چکی تھی وہ میرے مموں کو دبانے لگا اور جسم پر ہاتھ بھی پھیر لیتا ۔
اس کا نیولا سر أٹھا کر کسی سوراخ میں جانے کے لئے میری ٹانگوں کے بیچ ٹکڑیں مار
رہا تھا چاچو نےحرامزدگی کی کہ اپنی چادر دھوتی کھول کے نیچے پھینک دی اب وہ صرف
قمیض پہنے ہوئے تھا اور نیچے ننگا  ۔ میں نے اچٹتی نظروں سے اسے دیکھا تو اتنا بُرا نہیں لگا ۔ اب اس نے میری شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے سختی سے منع کیا مگر اس نے ایک نہ سُنی اور میرا ازار بند کھولنے میں کامیاب ہوگیا ۔ میں نے پھر باندھنے کی کوشش کی
کی اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈال دیا اورمیری ٹانگوں کے سنگم پر رکھدیا
میری منہ سے بے ساختہ سسکاری سی نکلی تو اسنے انگلی وہاں لپس پر پھیرنا اور مساج کرنا
شروع  کردیا اب میں اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی کوش کر رہی تھی اس کا دوسرا بازو میری کمر کو جکڑے ہوئے تھا  اور اس کے ہونٹ برابر کوشش کررہے کہ کسی طرح میرے ہونٹوں تک رسائی حاصل کرلیں مگر میں برابر سر کو ہلا رہی تھی ۔ ادھر اس نے اب انگلی اندر ڈال کر
ہلانا شروع کی اورمیں اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو کھینچنے لگی ۔مگر اسے ہٹانے کی بجائے دبا بیٹتھی دراصل   اب میں شدت سے  ٹرائی نہیں کر رہی تھی اور أس کا ٹچ اچھا لگنے لگا مگر میں نےأس پر ظاھر نہ ہونے دیا کہ ہارنا چاہتی ہوں ۔ اس نے یوں ہی مجھے جکڑے رکھا اور خود میری ٹانگوں میں آکر بیٹھ گیا میں نے پاؤں سے اسے دھکیلنےکی کوشش کی تو  اس نے میری ٹانگوں کو قابو کرلیا
اب وہ میری ٹانگوں کے بیچ  بیٹھا تھا ۔ اور اس کا باز بڑےناز سے سر أٹھائے اپنے
شکار کی تلاس میں ادھر ادھر اوپر نیچے اپنی ایک آنکھ سے ڈھونڈھ رہا تھا ۔ میری شلوار کا آزار بند تو کھلا تھا مگر شلوار ابھی پہنی ہوئی تھی ۔ اب چاچو مجھ پر لیٹ گیا اور لپٹ گیا
اس کے باز نے کُھلے ازار بند کا فائدہ أٹھایا اورسیدھا   اپنےشکار سے جا ٹکرایا  ۔ چاچو اسے
اوپراوپر سے رگڑنے لگا ۔ وہ مجھے خوار کرنے کی کوشش میں تھا اور میں نے بھی سوچ لیا
تھا کہ اس کو یہ باور نہیں کرنے دونگی کہ میں کمزور پڑ گئی ہوں  ۔ مجھے اس کی رگڑ
اچھی لگ رہی تھی چھ ماہ سے زیاد بنا مرد کے ٹچ رہ رہی تھی اور ترس رہی تھی کسی کے مضبوط بازو۔ پیار بوسے شرگوشیوں اور زور دار جھٹکوں کے لئے ۔ چاچو نے میرے نیچے
سے اچانک شلوار کھینچ کر نیچے پھنک دی اب میں اس کے سامنے صرف قمیض میں تھی
نیچا دھڑ ننگا تھا ۔ چاچو کچھ دیر تو میری رانی کو دیکھتا رہا پھر اچانک أس پر جُھک کر
رانی کو چوم لیا ۔ أفف میری سسکاری سی نکل گئی  میں نے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اوپر
کیا اور غصہ سے دیکھا ۔ أ س نے جواب میں کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ میری نظریں جھک گیئں یہ ایک قسم کا میرا سرنڈر تھا اس نے اسی جگہ کےدو چار بوسے اور لئے اور اچانک اس نے میری ٹانگیں اپنے شانوں پر رکھ لیں اور اپنے سالار کو میری راجدھانی پر اچانک حملہ کرکے ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ اندر کردیا میری راجدھانی اس حملے کے لئے تیار نہ اس کی دیواریں تک چھل گئیں۔ میں بمشکل اپنی چیخ روک پائی ۔ اب توچاچو اپنے سالار کو کبھی دائیں کبھی بائیں دوڑاتا میں اپنی لذت بھری سسکیوں کو روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ۔ اور سر کو ادھر أدھرپھینک رہی تھی میری آنکھیں بند تھیں اور میں سُرور کی حدیں چُھو رہی تھی اس کا سالار کافی تجربہ کار تھا اور ہر اس کونے میں چوٹ لگاتا جہاں جہاں لگانے کی ضروت تھی آخ کار اس نے راجدھانی پر فتح کاجھنڈا گاڑ دیا اور اس خوشی میں سوغات کی بوچھاڑ کردی ۔ مجھے اس وقت جاجو بہت اچھا لگا میں نے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف جھکایا اور اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے جنہیں اس نے خوب چوسا وہ میرے ساتھ ہی لیٹ گیا اور کہنےلگا سوری ۔ میں کچھ نہ بولی اب  کچھ بولنےکو  شاید  کچھ بچا ہی نہ تھا ۔ ہم دونو یوں ہی لیٹےرہے چاچو کچھ کہنے کی کوشش میں رہا مگر میں کسی اور ہی دنیا میں تھی  چاچو میرے مموں سےکھیل رہا میں یوں لیٹی رہی  کہ چاچو کے نفس نے  میری ران کو ٹچ کیا وہ دوبارہ نیم ا یستادہ  ہوچکا تھا میں نے اسے چھونا چاہا مگر ایک جھجھک تھی سوچا چاچو کیا سوچے گا  ۔ چاچو نے میرے ہاتھ کو بڑھتے او رکتے ہوئےمحسوس کر لیاتھا اس نے میرا ہاتھ  اپنےہاتھ میں لے کر دو چار بوسے دیئے اور پھر میرا ہاتھ اپنے شہزادے پر رکھ دیا میں نے شرماتے ہوئے اسے ہاتھ لگایا تو شہزاد ے نے سر اٹھالیا میں نے اس کو ہاتھ میں لے لیا اور ہولے ہولے دبانے لگی ۔ وہ مست ہونے لگا  اور جھومنے لگا ۔ وہ اپنی شہزادی سے ملنے کےلئے بے چین نظر آرہا تھا ۔ چاچو میرے نپل چوسنے لگا مجھے بہت مز آرہا تھا  میں نے چاچو کو پیچھے دھکیلا اور  خود أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ چاچو بھی سیدھا ہو کر لیٹ گیا میں اس کے اوپر بیٹھ گئی ۔ شہزادےکو اپنےہاتھ میں لے کر اس پر شہزادی کو ٹکایا اور شہزادے کا سر اس پر پھیرنے لگی پھر شہزادی کو شزادے کے اوپر آستہ آہستہ دبانے لگی اور شہزادی کے اندر پھسلتے ہوئے جانے لگا  جب مجھے محسوس ہوا
کہ شہزادہ گھر پہنچ چکا ہے میں چاچو کے اوپر جُھکی اور اسے چومنے لگی   اس کے گال
گردن ہونٹ اس کے بالوں بھری چھاتی کے نپل اور ساتھ ساتھ  شہزادے کے اوپر شہزادی کو
ہلاتی چاچو نے میرے ہونٹ چوسنےشرو ع کردیئے اور ہاتھوں سے میرے ممے دبانا
مجھے بہت سواد آرہا تھا اب کسی قسم کاڈرنہیں رہا تھا  تھوڑی دیر میں میں فارغ ہوگئی
چاچو کو  اشارہ کیا اور خود نیچے لیٹ گئی مگر چاچو نے مجھے گھوڑی بنادیا
اور ایک بار پھر اس نے زبردست انٹری دی ۔ چاچو نے خوب ارمان نکالے اور میری
چولیں تک ہلا ڈالیں آخرکار شہزادے نےشہزادی کا اندر بھرکر  خراج ادا کیا ۔
میں نے شلوار  پہن لی اور چاچو کو بولا اب جانے دو ۔ چاچو بولا سیمو اینا مزہ
فر کدوں میں کہیا جدوں فر صفائی  کیتی اودوں ۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے شکرہے میرے ساس سُسر  سوگئے تھے میں باتھ روم میں گئی
تو رانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا بیچاری سُوج گئی تھی چاچوکا پہلا وار ہی اس کا کام کر گیا تھا
آج صبح جب اسے صفا کر رہی تھی خیال و خواب میں بھی نہ تھا کہ آج شام کواس کی مانگ
بھری جائیگی اورمن کی مراد پوری ہوگی ۔
چاچو سے پرامس کیا تھا جب بھی صفائی کی تومزہ دونگی اور لوں گی ۔ اور جب تک وہاں ریی ہفتہ میں صفائی ضرور کرتی رہی اور جب صفائی کرکے چاچوکے پاس سے گذرتی تو اس کو مشک آجاتی کہ رات کو دروزہ کُھلا رکھنا ہے

Like Reply
یہ کہانی ہے میری اور میری سالی کی۔اس کہانی میں سارے نام فرضی ہیں۔ کیونکہ یہ کہانی بالکل حقیقت ہے۔میری شادی کو دو سال ہوئے تھے اور میرا ایک خوبصورت سا بیٹا تھا، ایک بار میری بیوی نے فرمائش کی کہ پکنک پر چلتے ہیں سمندر کے کنارے میں نے حامی بھر لی کافی دن سے باہر کا کوئی پروگرام نہیں بنا تھا اس لیے اور میری دو دن کی چھٹی آرہی تھی۔ میری بیوی نے کہا ہم لوگ جیا کو بھی ساتھ لے کر چلینگے جیا میری اکلوتی سالی ہے میرے سسر کے دو ہی بچے تھے ایک میری بیوی اور ایک میری سالی۔ میری سالی کی عمر بیس سال ہے اور وہ خوبصورت تو ہے ہی مگر سیکسی بھی بہت ہے اچھے اچھوں کا ایمان خراب کرسکتی ہے۔خیر پروگرام طے ہو گیا سالی کو بھی مطلع کردیا گیا۔ وہ ایکدن پہلے ہی ہمارے گھر آگئی۔صبح ہم کو نکلنا تھا۔ جلدی جلدی ہم نے ناشتہ وغیرہ کر کے سامان گاڑی میں رکھا اور نکل پڑے 2 گھنٹے کی ڈرایونگ کے بعد ہم لوگ اپنے ہٹ پر پہنچ گئے ہٹ مجھے آفس کی جانب سے ملتا تھا سال ، یہ ہٹ کیا تھا اچھا خاصہ بنگلہ تھا۔ یہ صرف آفیسرز کی عیاشی کے لیے مخصوص تھا مگر میں چکر چلا کر لے لیا کرتا تھا۔ میری بیوی میری سالی سے بہت پیار کرتی ہے اور اسکی ہر بات مانتی ہے اسی وجہ سے مجھے بھی اپنی بیوی کا دل رکھنے کو جیا کی باتیں ماننا پڑتی ہیں۔ خیر ہم لوگ اپنے ہٹ تک پہنچ گئے وہاں کچھ ایسا ہے کہ ہر ہٹ کا کافی بڑا ایریا مخصوص ہے جہاں کسی دوسرے فرد کی آمد نہیں ہوسکتی۔ اسکا راستہ ایک ہی ہے جس سے ہم لوگ آئے تھے اب وہاں دروازے پر گارڈ بیٹھا تھا جو کسی کو بھی بغیر اجازت نامے کے اندر نہیں جانے دے گا۔ اس لئے کافی محفوظ قسم کا ہٹ تھا۔ خیر ہم لوگ وہاں پہنچے اور پہنچتے ہی سمندر میں اتر گئے سمندر بڑا پرسکون تھا۔ موسم بھی بڑا رومانٹیک تھا۔ ہم لوگوں نے کافی دیر تک انجوائے کیا میرا بیٹا اس دوران مزے سے سوتا رہا۔خیر اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا اور میں تو کافی تھک چکا تھا مگر جیا کو ابھی مستی چڑھی تھی اسنے جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ پہنی تھی اور وہ پانی سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔میری بیوی نے اس کو آواز دے کر بلایا اور کھانا کھانے کو کہا۔ خیر ہم پھر ہم سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو میری بیوی اور جیا نے دوبارہ سے پلان کیا کہ سمندر میں جایا جائے مگر میں نے انکار کردیا۔ پھر یہ لوگ چلے گئے اور میں لیٹ کر آرام کرتارہا۔ میرا بیٹا اسی دوران اٹھ گیا میں نے اپنی بیوی کو آواز دی وہ جلدی جلدی سمندر سے باہر آئی اور میرے بیٹے کو دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد جیا بھی واپس آگئی۔ پھر ہم لوگ باتیں کرتے رہے۔ جیا کافی تھک چکی تھی سو وہ لیٹی اور لیٹتے ہی سو گئی۔ میں اور میری بیوی باتیں کرتے رہے۔ کافی دیر اسی طرح گذر گئی تو پھر شام ہوئی اور پھر رات بھی ہوگئی اسی دوران جیا جاگ گئی اور اس نے غصے سے میری بیوی سے کہا آپی تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں مجھے سورج غروب ہونے کا منظر دیکھنا تھا۔ میری بیوی نے کہا تم اتنا تھک گئی تھی اس لیے نہیں جگایا۔ خیر تھوڑی دیر میں جیا نارمل ہوگئی ۔ پھر رات کے کھانے کا انتظام کیا گیا اور ہم لوگوں نے خوب مست ہو کر کھایا۔ اب مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہونے لگا تھا اور میری بیوی تو کھانا کھانے کے بعد اور بیٹے کو فیڈ کروانے کے بعد مزے سے سو گئی تھی میں نے جیا سے کہا تم بھی سو جاؤ اس نے کہا جی جو اب کہاں نیند آئے گی اتنی دیر تو سو چکی ہوں۔ میں نے کہا اکیلی کیا کروگی مجھے بھی نیند آرہی ہے۔ تمہاری آپی بھی سو چکی ہے۔ اس نے کہا جی جو ابھی نہ سوئیں نا میرے ساتھ سمندر تک چلیں میں نے کہا پاگل ہوگئ ہو کیا میں بہت تھک گیا ہوں تو یہ سن کر اسکا منہ بن گیا۔ خیر میں نے فیصلہ کیا کے اسکی بات مان لیتا ہوں۔میں نے کہا چلو چلتے ہیں باہر، یہ سن کو وہ خوش ہوگئی۔ میں نے اپنی بیوی سے کو جگایا اور اسکو بتایا کہ ہم دونوں ذرا باہر چہل قدمی کرنے جارہے ہیں تم چلنا چاہو گی ہمارے ساتھ تو اس نے کہا نہیں مجھے بہت سخت نیند آرہی ہے آپ لوگ چلے جائیں۔ یہ کہہ کر وہ تو واپس سو گئی میں یہ بتاتا چلو میری بیوی نیند کی بہت پکی ہے۔ اسکو نیند بھی جلدی آتی ہے اور سو جائے تو اسکو جگانا بہت مشکل کام ہے۔ خیر جیا اور میں ہٹ سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے جا کر بیٹھ گئے ۔ جیا نے کہا جی جو سمندر میں جانے کا دل کر رہا ہے میں نے کہا یہ موسم ٹھیک نہیں سمندر میں جانے کے لیے مگر پھر وہ بچوں کی طرح ضدکرنے لگی میں نے ہار مانتے ہوئے کہا اچھا جو کپڑے تم نے پہنے ہوئے ہیں ان میں سمندر میں نہ اترو یہ سوکھنے میں بہت وقت لینگے اور رات بھر میں ٹھنڈ لگنے سے تم بیمار ہوسکتی ہو۔ تم کپڑے دوسرے پہن کر آجاؤ۔اس نے ذرا دیر سوچا اور پھر ٹھیک ہے کہتی ہوئی ہٹ میں چلی گئی جبکہ میں سمندر کے کنارے ہی بیٹھا رہا چاند نکلا ہوا تھا اسکی چاندنی کافی دور تک سمندر کو روشن کیے ہوئے تھی اتنا کہ ہر منظر کافی صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں جیا واپس آگئی میں نے اسکو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہ ایک پتلی سی ٹی شرٹ اور نیچے ٹائڈ پہنے ہوئے تھی جو کہ اسکی پنڈلیوں سے تھوڑا نیچے تک تھا۔ جبکہ ٹی شرٹ اسکی کمر تک ہی تھی اسکی بڑے بڑے کولہے صاف ابل رہے تھے اس ٹائڈ میں سے۔ میں تو اسکو دیکھ کر پاگل سا ہوگیا۔ میں نے کہا اب تم میرا انتظار کرو میں بھی کپڑے تبدیل کر کے آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر میں بھی ہٹ میں چلا گیا اور جاکر میں نے ایک بھی ایک ٹائڈ نکالا اور ایک سینڈوز نکالا اور پہن کر جیا کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا چلو اب چلتے ہیں اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور ایک تعریفی نظر مجھ پر ڈالی۔ سینڈوز بنیان کی طرح تھا کالے رنگ کا جبکہ ٹائڈ میرے گھٹنوں سے اوپر تک تھا میں نے اسکے نیچے کوئی انڈروئیر نہیں پہنا تھا جس سے میرے لنڈ کی پوزیشن کسی حد تک پتہ چل رہی تھی کہ کس پوزیشن میں ہے۔ خیر ہم دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سمند رمیں چلے گئے پانی ہم دونوں کی کمر تک آرہا تھا تھوڑی دیر ہم پانی سے کھیلتے رہے پھر میں نے جیا سے کہا چلو اور آگے چلتے ہیں اس نے کہا نہیں جی جو دل تو بہت کرتا ہے مگر ڈر بھی لگتا ہے میں نے کہا میں بھی تو چل رہا ہوں تمہارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا یہ کہہ کر میں آگے بڑھا تو جیا کو بھی مجبوراً میرا ساتھ دینا پڑا۔پھر ہم آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گہرے پانی میں پہنچ گئے سمندر بہت پرسکون تھا اس لیے گھبرانے والی کوئی بات نہیں تھی۔ وہاں پہنچ کر پانی کے دباؤ سے جیا کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اس نے کہا جی جو میرا ہاتھ پکڑ لیں مجھے ڈر لگ رہا ہے میں تو موقعے کی تلاش میں تھا فوراً اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور کافی نزدیک ہو کر کھڑا ہوگیا۔ اب وہ کافی پرسکون لگ رہی تھی۔ کہ اچانک اسکا پاؤں پھسلا اور وہ گرنے لگی کہ میں نے اسکو پکڑااور گرنے سے بچا لیا اسکو پکڑنے کے چکر میں میرا ایک ہاتھ تو اسکے ہاتھ میں تھ دوسرا میں نے اسکی کمر میں ڈالا اوپر پھر اسکو اوپر اٹھاتے اٹھاتے میں نے وہ ہاتھ جو اسکے ہاتھ میں تھا اسکو چھوڑ کر اسکے ایک ممے کو پکڑ لیا اور اسکو دباتا ہوا جیا کو ایک ہی ہاتھ کے بل پر پورا اوپر اٹھایااور اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ تھوڑی دیر تو کچھ نہ سمجھ پائی پھر کہنے لگی جی جو واپس چلیں میں نے کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا چلو واپس چلتے ہیں یہ کہہ کر میں نے ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالا اور ایک ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر ہم چلتے ہوئے واپس آرہے تھے کہ اچانک میں نے سلپ ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اسکا وہ ہاتھ جو میرے ہاتھ میں تھا زور سے کھینچتے ہوئے اپنے لنڈ پر لگایا اور تقریباً زور سے اپنا لنڈ اسکے ہاتھ سے دبا دیا۔ میرا لنڈ جیا کی قربت کی وجہ سے تھوڑا کروٹیں تو لے ہی رہا تھا۔ اسکا ہاتھ لگا تو اسے بھی کرنٹ لگا اور جیا کو بھی مگر اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا جی جو کیا ہو ا سنبھل کے چلیں۔ میں نے کہا ہاں ایسا ہو جاتا ہے جب بغل میں ایک خوبصورت لڑکی ہو یہ کہتے ہوئے میں اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا ۔ تو اس نے شرما کر نظریں نیچے کر لیں۔ میرا اس سے کافی مذاق چلتا رہتا تھا۔ اس لیے اس نے شاید اس بات کو بھی ویسے ہی لیا ہوگا۔ مگر اسکی آنکھوں کی ایک دم پیدا ہو جانے والی سرخی کچھ اور کہہ رہی تھی۔ خیر ہم لوگ ساحل پر واپس آگئے میں نے جیا سے کہا کپڑے گیلے ہیں چلو تھوڑی دور تک چلتے ہیں کپڑے سوکھ جائیں تو واپس ہٹ میں چلیں گے۔ یہ کہہ کر ہم دونوں چلتے ہو ئے ہٹ سے دور جانے لگے اسی دوران میں نے جیا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے چونک کر میری جانب دیکھا اور پھر مسکرا کر سامنے دیکھنے لگی۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑاہوا تو تھا ہی ذرا دیر بعد اسکو ہلکے سے دبایا تو وہ منہ نیچے کر کے مسکرانے لگی ، مجھے لگ رہا تھا کہ اگر میں مزید آگے بڑھا تو وہ روکے گی نہیں مگر میں محتاط رہنا چاہتا تھا ہم دونوں خاموشی سے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہم لوگ ہٹ سے کافی دور آچکے تھے۔ یہاں ساحل تھا دور تک اور کوئی بندہ نہ بندے کی ذات دوسرے ہٹ بھی کافی دور تھے جہاں سے کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا کچھ کچھ فاصے پر بیٹھنے کے لیے سیمنٹ کی بنچز بنی ہوئی تھیں۔ جن پر ٹائلز لگے ہوئے تھے میں نے جیا سے کہا چلو ادھر بیٹھتے ہیں تھوڑی دیر یہ کہہ کر میں اسکے جواب کا انتظار کیئے بغیر اسکو کھینچتا ہوابنچ تک لے گیا۔ پھر ہم دونوں بنچ پربیٹھ گئے میں اسکے بلکل نزدیک چپک کر بیٹھا تھا اور اسکا ہاتھ ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا۔میں نے جیا سے کہا ایک بات کہوں ؟ اس نے میری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا اور کہا جی کہیں جی جو۔ میں نے کہا پہلے وعدہ کرو تم برا نہیں مناؤ گی۔ اس نے کہا آپ کی کسی بات کا برا نہیں مناتی میں آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں نے جیا سے کہا تم بہت خوبصورت ہو جیا۔ میرا دل چاہتا ہے تمکو پیار کرنے کو۔ یہ سن کر اسکا چہرہ سرخ ہوگیا۔پھر میں نے ایک ہاتھ اس کے گال پر رکھ کر اسکا چہرہ اپنی جانب کیا تو اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں شاید وہ آنے والے لمحات کا اندازہ کر رہی تھی اسی وجہ سے انکی شدت سے اسکی یہ حالت تھی۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے پہلے تو وہ ذرا کسمسائی مگر پھر خود کو تقریباً میرے حوالے کردیا۔ میں نے ایک لمبی کس کی اسکے ہونٹوں پر اور پھر اسکی جانب دیکھتا ہوا اسکا ہاتھ جو میرے ہاتھ میں تھا وہ اپنے لنڈ پر رکھ دیا اور ذرا سا دبایا۔ جیا کو ایکدم کرنٹ سا لگا مگر شاید اسے اچھا بھی لگا ہوگا اسی وجہ سے اس نے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ جیا میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے اوہ اب تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا میں نے جیا کے ہاتھ سے ہاتھ ہٹا لیا کیونکہ اب وہ ہاتھ خود کام کر رہا تھا میں نے وہ ہاتھ جیا کے ایک ممے پر رکھ کر اسکو زور سے دبایا اور اسکا پورا بدن ایک دم کپکپا اٹھا۔ وہ میری جانب ہراساں نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پھر میں نے مزید انتظار نہ کیا جہاں اتنا کچھ ہو گیا وہاں مزید ہونا بھی مشکل نہ تھا، میں نے اسکی ٹی شرٹ میں ہاتھ ڈال دیا اور بریزر پر سے ہی اسکے ممے کو دبانے لگا۔ اب جیا کا سانس تیز چلنے لگا تھا۔ جی جو یہ کیا کر رہے ہیں آپ کوئی آجائے گا میں بدنام ہو جاؤں گی ۔ میں نے کہا یہاں اس وقت کوئی نہیں آئے گا۔ اور تمہاری آپ مست ہو کر سو رہی ہے۔ تم بس انجوئے کرو، میری بات سن کر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو ہمارا ہٹ اور باقی دوسرے ہٹ کافی دور دور تھے اور پورے ساحل پر ہم دونوں کے سوا کوئی تھا بھی نہیں۔ اسکے چہرے پر اب سکون کے آثار آگئے تھے میں سمجھ گیا کہ اب اسکو کوئی فکر نہیں ہے لہٰذا میں جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکی ٹی شرٹ کو اوپر اٹھایا تو اس نے مزاحمت کی مگر میں نے اسکی جانب دیکھا تو اسکی آنکھوں میں عجیب طرح کی مستی سی تھی۔ میں نے دوبارہ کوشش کی اور اسکی ٹی شرٹ کو اتار دیا اس بار اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ کالے رنگ کے بریزر میں جکڑے ہوئے اسکے گورے گورے بڑے بڑے ممے میرا دماغ ابال رہے تھے۔ میں نے اسکو اپنے سینے سے لگایا اور پیچھے ہاتھ لے جا کر اسکے بریزر کے ہک کھول کر اسکے خوبصورت مموں کو بریزر کی قید سے آزاد کر دیا اس نے شرما کر دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے چھپا لیے میں نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھااور کھڑا ہو کر اپنا سینڈوز اور ٹائڈ ایک ہی لمحے میں اتار دیا۔ وہ مجھے پور ننگا دیکھ کر عجیب سے ہوگئی میرا لنڈ اسکے ممے دیکھ کر پورا تن کر اپنے فل سائز میں آچکا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔ اور پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اب میں اسکے نزدیک بیٹھا اور اس سے کہا کھڑی ہو جاؤ وہ سوچتے سوچتے کھڑی ہوئی تو میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکا ٹائڈ اسکے گھٹنوں تک کھینچ کر اتار دیااب اسکی کنواری چوت میری نظروں کے سامنے تھی۔ میں نے اسکی چوت پر ایک کس کیا تو وہ ایک بار پھر سے کپکپا اٹھی۔ اور میں نے دیکھا کہ اس نے باقی ٹائڈ خود ہی میرے کہے بغیر اتار دیا تھا شاید وہ بھی اب یہ چانس ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ پھر میں نے اسکو بینچ پرلٹا دیا اور اسکے ممے چوسنے لگا وہ پاگل سی ہور ہی تھی اور اس کے منہ سے آہیں نکل رہی تھیں اسکا بدن گرم ہونے لگا تھا۔ خود میرا بھی حال کچھ اس سے مختلف نہیں تھا بس فرق اتنا تھا کہ اسکا پہلا موقع تھا اور میں کئی بار اپنی بیوی سے یہ سب کر چکا تھا۔ پھر میں نے مزید آگے بڑھنے کا سوچا اور اسکی چوت پر انگلی رکھی تو پہلے سے گیلی ہو چکی تھی بس اب کیا تھا میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت کے منہ پر رکھا۔ اور اسکو دبایا تو میرے لنڈ کا ہیڈ اسکی چوت میں چلا گیا وہ تکلیف سے اچھلنے لگی ۔ جی جو بہت تکلیف ہو رہی ہے پلیز یہ سب نہ کریں میں نے کہا ابھی تکلیف ختم ہو جائے گی بس پھر مزے کرنا۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنا لنڈ واپس باہر نکالا صرف اتنا کے وہ اسکی چوت سے الگ نہ ہو اسکے بعد دوباہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ میں نے اسے اندر ڈالا اوروہ اسکی چوت کو پھاڑتا ہو کافی اندر تک چلا گیا اب وہ درد سے کراہ رہی تھی چیخ اس لیے نہیں رہی تھی کہ اسکو ابھی بھی ڈر تھا کہ کوئی اسکی آواز سن کر آ نہ جائے۔ پھر میں نے ایک بار پھر وہ ہی عمل کیا اور لنڈ کو تھوڑا باہر نکال کر پھر پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ اندر گھسیڑا میرا پورا لنڈ اس کی چوت میں داخل ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بتاؤں اسکی چوت کتنی ٹائٹ اور کتنی گرم تھی۔ مزے کے ساتوں آسمان پر پہنچ گیا تھا میں میرا دل کر رہا تھا اسی طرح زندگی ختم ہو جائے میرالنڈ اسکی چوت میں ہی رہے۔ پھر میں نے تھوڑا لنڈ باہر نکالا اور پھر اندر کیا اور یہ عمل بار بار کرتا رہا اسکی تکلیف کافی حد تک کم ہو چکی تھی اور وہ تیز سانسوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔میں نے پورا لنڈ اسکی چوت میں ڈال کر اسکے اوپر لیٹ گیا اب وہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا تھا میں سمجھ گیا اب وہ بالکل تیار ہے چدنے کے لیے میں نے اپنا کام شروع کردیا اور تیز تیز لنڈ کو اندر باہر کرنے لگا ۔ ایک تو سمندر، دوسرے چاندنی رات اور پھر جیا جیسے خوبصورت لڑکی میرا تو دماغ جنت کی سیر کر رہا تھا۔ میں نے بھی زیادہ سے زیادہ وقت کھینچنے کے لیے کوشش کی اور تقریباً دس منٹ تک اسکی زبردست چدائی کی اس دوران وہ دو بار فارغ ہوچکی تھی اور ہر بار زور دار آہیں بھرنے کے بعد کہتی تھی جی جو بس کرو اب میں تھک گئی مگر میرا لنڈ تو جیسے دیوانہ ہوگیا تھا وہ کہاں رکنے والا تھا جب تک اسکا لاوا نہ نکل جاتا۔ خیر پھر میں نے بھی فارغ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور لنڈ کو تیز تیز اندر باہر کرتا رہا۔ اور آخر کار زبردست جھٹکوں کے ساتھ میرا لنڈ اسکی چوت کو اپنے لاوے سے بھرنے لگا۔ اب کی بار اسکا پورا بدن ایسے کپکپا رہا تھا جیسے کسی مشین پر لیٹی ہو۔ خیر میں تھوڑی دیر اسکے اوپر ہی لیٹا رہا اور اسکے بدن کو چومتا رہا۔ پھر ہم دونوں اٹھے اور کپڑے پہن کر واپس سمندر میں چلے گئے تاکہ خود کو صاف کرسکیں وہاں بھی میں نے اسکو خوب مساج کیا اور اسکی چوت میں انگلی ڈالی۔ پھر ہم واپس ہٹ میں آگئے اور سو گئے اسکے بعد بھی کئی بار میں نے اسکو چودا جب جب موقع ملا وہ بھی میرے لنڈ کی دیوانی ہو چکی تھی۔
Like Reply




Users browsing this thread: 2 Guest(s)