Thread Rating:
  • 7 Vote(s) - 1.86 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
Small but hot sex stories. ( Collected from Net )
 پڑھائی اور چدائی قسط نمبر 2 آخری


میں اس کی سرد مہری سے سخت نالاں تھی کافی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا میں اس کے پیچھے ہی اس کے کمرے میں چلی گئی اور اسکے ساتھ ہی اس کے بستر پر لیٹ گئی اس نے مجھے ایک بار روکا اور کچھ کہنے لگا لیکن میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کا منہ بند کردیا میں نے لیٹے لیٹے اس کو جپھی ڈال لی اور اپنی آنکھیں بند کرلیں اب اس نے بھی اپنے بازو میرے گرد کرلئے مجھے کافی سکون ملا تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو دیکھا وہ اپنی آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا میں نے سر کو اوپر اٹھایا اور اس کو ہونٹوں پر کس کردی اس نے اب اپنی آنکھیں کھول لیں اور مجھے اندھا دھند کسنگ کرنے لگا میں اس کی کسنگ سے مست ہوگئی اور خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا اس کا منہ میرے منہ پر اور اس کا ایک ہاتھ میرے مموں پر تھا اور وہ ہاتھ سے ہلکا ہلکا میرے مموں کو دبا رہا تھا جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا میں جیسے ساتویں آسمان پر اڑ رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد اس نے اپنا ہاتھ میری ٹی شرٹ کے اندر ڈال لیا اور میرے ممے کو پکڑ لیا اور میں سمٹ کر رہ گئی اس نے اپنی دو انگلیوں سے میرے نپل کو پکڑا اور اس کو ہلکا سا مسلا جس سے میرے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آواز نکل گئی تھوڑی دیر کے بعد اس نے میری ٹی شرٹ ہاتھ سے اوپر کی اور اپنا سر اٹھا کر میرے ایک نپل کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگا اف ف ف ف ف ف ف کیا مزہ تھا میں مزے سے منمنا اٹھی میں آج ایک نئے مزے سے شناسا ہورہی تھی اور چاہتی تھی کہ جلدی سے جلدی اس کی انتہا کو پہنچوں مگر مزہ بڑھتا جارہا تھا اور جیسے جیسے مزے میں اضافہ ہورہا تھا میری خواہش مزید بڑھتی جارہی تھی تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھا اور مجھے بھی بازو سے پکڑ کر اٹھا یااور میری ٹی شرٹ اتار دی میں نے نیچے سے بریزیئر نہیں پہنا تھا جیسے ہی اس نے میرے مموں کو دیکھا اس کے منہ سے واﺅﺅﺅﺅﺅﺅ کا لفظ نکل گیا وہ پاگلوں کی طرح میرے مموں کو چوسنے لگا میں آہ آہ آہ کررہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے مجھے کھڑا کیا اور میری جینز بھی اتار دی اور پھر میرے انڈر ویئر کو بھی نیچے کردیا اب میں اس کے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھی مجھے بے حد شرم آرہی تھی میں نظریں نیچی کئے کھڑی رہی اب وہ اپنے کپڑے اتار رہا تھا پہلے اس نے اپنی ٹی شرٹ اور پھر نیکر اتار دی جب وہ بھی میری طرح ننگا ہوگیا تو اس نے میری ٹھوڑی پکڑ کر میرا منہ اوپر کیا اور میرے ہونٹوں پر ایک کس کردی میں ابھی بھی اپنی نظریں نیچی کئے کھڑی تھی اس نے ایک کے بعد دوسری کس لی اب وہ میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا یہ دوسری کس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی میں نے اپنے دونوں بازو اس کے جسم کے گرد ڈال کر اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا اب مجھے اپنی ٹانگوں پر کسی سخت چیز لگنے کا احساس ہوا خیر میں اس کے ساتھ چمٹی رہی وہ چیز آہستہ آہستہ مزید سخت ہورہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کئے تو میں نے اس کو پیچھے نہ ہونے دیا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگی اس کے ہونٹوں سے مجھے عجیب سے مٹھاس مل رہی تھی اب مجھے اپنی پھدی سے پانی نکلتا محسوس ہورہا تھا پھر کچھ منٹ کے بعد میں نے اپنا منہ پیچھے کیا اور اس کا جسم دیکھا تو اس کا سینہ بالوں سے بھرا ہوا اور چوڑا تھا اس کا جسم کسی اتھلیٹ کی طرح مسکیولر تھا اب میری نظریں مزید نیچے چلی گئیں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان اس کا لن جو کافی لمبا تھا مجھے اس کی حقیقی لمبائی تو معلوم نہیں لیکن کم از کم یہ سات انچ لمبا ہوگا اس سے پہلے میں نے کافی بار نیٹ پر سیکسی سائٹوں پر بلیو فلمیں اور تصویریں دیکھی تھیں لیکن کسی بھی ایشیائی باشندے کا اتنا لمبا لن نہیں دیکھا تھا چند لمحے میں اس کو غور سے دیکھتی رہی مجھے اس کو دیکھتے ہوئے دیکھ کر ماجد مسکرا کر پوچھنے لگا کیا دیکھ رہی ہو میں نے انکار میں سرہلایا اور ایک بار پھر اس کے ساتھ چمٹ گئی اس نے پھر مجھے کسنگ شروع کردی اور پھر مجھے اس نے بیڈ پر لٹا دیا اور میرے ہونٹوں کے بعد میرے کانوں کوچوسنے لگا اب میرے مزے میں مزید اضافہ ہوگیا کانوں کے بعد اس نے میری گردن پر اور پھر پیٹ سے ہوتا ہوا میری ناف کے گرد اپنی زبان چلانے لگا اب یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا اور مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میری پھدی سے پہلے سے زیادہ پانی نکل رہا ہے اب مجھے بیڈ بھی نیچے سے گیلا محسوس ہورہا تھا میں نے ماجد سے کہا اب بس کرو لیکن وہ باز نہ آیا اس نے میری ناف سے اپنی زبان ہٹائی اور پھر میری ٹانگوں کے درمیان میں آکر بیٹھ گیا اب اس نے میری دونوں ٹانگیں اپنے کولہوں کے گرد کرلیں اور اپنے لن کو ہاتھ سے پکڑ کر میری پھدی کے اوپر رگڑنے لگا میرے منہ سے ام م م م م م م کی آواز نکل گئی میرا دل کررہاتھا کہ اب ماجد جلدی سے اس کو اندر کردے لیکن وہ شاید ابھی مجھے مزید بے چین کرنا چاہتا تھا اس نے تقریباً دو منٹ تک اپنے لن کو میری پھدی کے اوپر رگڑا اب میں اپنی انتہا کو پہنچ رہی تھی میری ٹانگیں اچانک کپکپائیں اور میری پھدی سے ایک پچکاری نکل گئی اور ساتھ ہی میرا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا لیکن وہ رکا نہیں اب وہ تھوڑا سا جھکا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر پھر سے چوسنے لگا اس کا لن ابھی بھی میری پھدی کے ساتھ ٹچ ہورہا تھا لیکن اندر نہیں تھا مجھے اس کی چبھن محسوس ہورہی تھی لیکن یہ چبھن تکلیف دہ نہیں بلکہ مزہ دینے والی تھی تھوڑی دیر کی کسنگ کے بعد میں پھر سے تیار ہونے لگی اور اس کو رسپانس دینے لگی جس پر وہ سیدھا ہوا اور پھر سے اپنے ہاتھ سے لن کو پکڑ کر اس کو میری پھدی پر سیٹ کرکے اس کو تھوڑا سا رگڑا اور پھر اس پر تھوڑا سا دباﺅ دیا مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی میرے منہ سے ہائی امی جی ی ی ی ی ی کی آواز نکل گئی میں اس کے نیچے پڑی پڑی تھوڑا سا نیچے کو کھسک گئی اور اس کا لن میری پھدی سے باہر نکل گیا لیکن تکلیف نہیں رکی وہ پھر سے سیدھا ہوا اور اپنے لن کو پھر ٹارگٹ پر فٹ کر کے اس نے ایک ہلکا سا جھٹکا دیا میری تکلیف مزید بڑھ گئی مجھے ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے کوئی لوہے کا گرم راڈ میری پھدی کے اندر میرے جسم کو چیرتا ہوا اندر گھسے جارہا ہے میں نے پھر نیچے کو گھسکنے کی کوشش کی لیکن اب اس نے مجھے اس طرح سے قابو کررکھا تھا کہ میں اپنی کوشش میں ناکام رہی میں نے اپنے دونوں بازو اس کے سینے پر رکھے اور اس کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن وہ پھر بھی نہ پیچھے ہٹا وہ میری پھدی پر اپنے لن کا دباﺅ مزید بڑھاتا جارہا تھا اور میری تکلیف بڑھتی جارہی تھی اچانک اس نے ایک زور سے جھٹکا دیا اور مجھے محسوس ہوا کہ میری پھدی پھٹ گئی ہے میرے منہ سے ایک چیخ نکل گئی میں نے اس سے کہا ماجد میں مرجاﺅں گی اس کو باہر نکالو مگر اس نے میری بات ان سنی کرکے ایک اور جھٹکا دیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے میں مرے جارہی ہوں مجھے چھوڑ دو میں مر گئی پلیز ماجد پلیززززززززز میں مر گئی مجھے چھوڑ دو مگر جیسے اس کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی تھی اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور جھٹکا دے دیا اور پھر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا میرا سر ایک طرف ڈھلک گیا اور پھر ہوش رہا اور نہ تکلیف چند لمحے بعد مجھے اس وقت کسی چیز کا احساس ہوا جب وہ میرے اوپر لیٹا ہوا تھا اور اپنے ہاتھوں سے میرے گال تھپتھپا رہا تھا” عاصمہ میری جان کیا ہوا ہوش میں آﺅ“ میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو پھر سے تکلیف کا احساس ہوا اس کا لن ابھی بھی میری پھدی کے اندر تھا میں نے آنکھیں کھولتے ہی پھر چیخنا شروع کردیا ماجد میں مر گئی مجھے چھوڑ دو اس کو باہر نکالو میں مر جاﺅں گی اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور اس نے میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا عاصمہ جتنی تکلیف ہونا تھی ہوچکی پہلی بار ہر لڑکی کو ایسی ہی تکلیف ہوتی ہے لیکن اب مزے آئیں گے تھوڑی دیر وہ ایسے ہی میرے اوپر لیٹا رہا اس نے مجھے کسنگ بھی شروع کردی اور اپنے ہاتھ سے میرے مموں کے نپل بھی مسل رہا تھا کبھی میرے مموں کو دباتا کچھ دیر کے بعد میری تکلیف تھوڑ ی سی کم ہوئی تو وہ پھر سے سیدھا ہوگیا اور اپنے لن کو اس نے میری پھدی سے نکالنا شروع کردیا میں سمجھی کہ اب کام ختم ہوگیا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ ابھی تو کام شروع ہونے والا ہے ابھی اس کا لن پورا باہر نہیں نکلا تھا کہ اس نے ہلکے سے اپنے لن کو پھر میری پھدی کے اندر ڈال دیا مجھے پھر تکلیف کا احساس ہوا لیکن یہ تکلیف پہلے کی نسبت کافی حد تک کم تھی اب وہ رکا نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اپنے لن کو میری پھدی کے اندر باہر کرتا رہا چند لمحوں کے بعد مجھے تکلیف کے ساتھ مزہ بھی آنے لگا تقریباً دو منٹ کے بعد میں پھر سے چھوٹ گئی لیکن وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھا اب میرے منہ سے آہ آئی ئی آہ اف ف ف میں مر گئی آہ ہ ہ ام م م م م (مزے اور تکلیف دونوں کی آواز) آوازیں آرہی تھیں تقریباً دو منٹ مزید جھٹکے دینے کے بعد اس نے تیزی سے اپنے لن کو میری پھدی سے باہر نکالا اور اس کے لن سے ایک پچکاری نکل کر میرے پیٹ پر گر گئی اب وہ فارغ ہوگیا تھا میں کافی حد تک نڈھا ل ہوچکی تھی اور میرا جسم ٹھنڈا ہورہا تھا وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا اور اس نے بیڈ سے ایک چادر بھی اوپر لے لی وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا تھوڑی دیر کے بعد وہ میرے اوپر سے اٹھ کر پہلو میں آن لیٹا اس نے میرا سر اپنے کندھے پر رکھ لیا میری پھدی کے اندر اب بھی تکلیف ہورہی تھی ایک عجیب سی چبھن ہورہی تھی میں اس کے کندھے پر سر رکھ کر لیٹ گئی ہمارے اوپر چادر تھی میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اپنا ایک ہاتھ اس کے سینے پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں سے اس کے سینے کے بالوں کی کنگھی کرنے لگی تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد اس کے لن میں پھر سے حرکت محسوس ہوئی اس نے مجھے پھر سے کسنگ شروع کی لیکن میں نے اس کو پیچھے کردیا اور اسے بتایا کہ مجھے ابھی تک تکلیف ہورہی ہے تو وہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا اب تکلیف نہیں ہوگی لیکن میں مزید کوئی رسک نہیں لیناچاہتی تھی خیر تھوڑی دیر کے بعد مجھے نیند آگئی اگلے روز علی الصبح اس نے مجھے اٹھایا اور کہنے لگا تم اٹھو اور اپنے کپڑے پہن کر اپنے کمرے میں چلی جاﺅ تھوڑی دیر بعد عدنان آنے والا ہے میں اٹھ کر باتھ روم چلی گئی میں نے اپنی پھدی کو پانی سے صاف کیا جیسے ہی پانی میری پھدی کے ساتھ لگا مجھے پھر سے جلن شروع ہوگئی پھر واپس آکر کپڑے پہننے لگی اور ماجد اٹھ کر باتھ روم چلا گیا میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ پر خون کے دھبے لگے ہوئے تھے میں ان کو دیکھ کرخوف زدہ ہوگئی ماجد واپس آیا تو میں نے اس کو خون کے دھبے دکھائے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ تمہاری پھدی سے خون نکلا ہے تمہاری سیل ٹوٹ گئی ہے جس سے یہ خون نکلا ہے اس نے بیڈ شیٹ اٹھاکر الماری میں رکھی اور دوسری بیڈ شیٹ بچھا کر لیٹ گیا میں اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی اور لیٹتے ہی مجھے نیند آگئی صبح مجھے ماجد نے ہی اٹھایا

اگلے روز بھی مجھے اپنی پھدی میں ہلکی سی جلن محسوس ہوتی رہی اس رات بھی جب عدنان بھائی جاب پر چلے گئے تو ماجد مجھے اپنے کمرے میں لے گیا لیکن میں نے اس کو کسنگ کے علاوہ کچھ نہ کرنے دیا کیونکہ مجھے ابھی بھی تکلیف محسوس ہورہی تھی اس سے اگلے روز ماجد نے پھر میرے ساتھ سیکس کیا اس کے بعد ہم لوگ ہر روز اکٹھے سوتے ہیں اور دوسرے یا تیسرے دن سکیس بھی کرلیتے تھے ہم لوگوں نے جب بھی سیکس کیا پہلے سے کئی گنا زیادہ مزہ آیا تقریباً دو ماہ بعد عدنان بھائی کو شک ہوگیا کہ میرے اور ماجد کے درمیان کچھ چل رہا ہے اس نے اس بارے میں مجھ سے بات کی تو میں نے اس کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے پھر بھائی نے ماجد سے بات کی تو اس نے بھی انکار کردیا لیکن عدنان بھائی نے کچھ دنوں کے بعدماجد سے کہا کہ وہ اپنے لئے کسی اور جگہ رہائش کا بندوبست کرلے جس کے بعد ماجد یہاں سے کسی اور جگہ چلا گیا اور ماجد بھائی نے بھی رات کی جگہ دن کی ڈیوٹی والی جاب ڈھونڈ لی اب بھی میں ماجد کے ساتھ کبھی کبھی دن کے وقت مل لیتی ہوں لیکن اس کے بعد اس کے ساتھ صرف ایک بار سیکس کا موقع ملا ہے
Like Reply
Do not mention / post any under age /rape content. If found Please use REPORT button.
 ہم تین ماں بیٹیاں قسط نمبر 1


کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے بلکہ یہ میری زندگی کا سچا واقعہ ہے ہو سکتا ہے آپکو لگے صرف کہانی ہے لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. بات ہے جب میں 9 کلاس میں تھی. اور میرا بھائی 7 میں اور چھوٹی بہن 5 میں. میں سب سے بڑی تھی بہن بھائیوں میں. میرا نام سدرہ اور بھائی کا نام زین ہے اور چھوٹی بہن کا نام عمارہ ہے. تب 9 کلاس کے امتحان قریب تھے بلکل آجکل کا موسم تھا.. مارچ اپریل کا مہینہ تھا. تو میری( میتھ) ریاضی بہت کمزور تھی تو پاپا نے میرے لیے ہوم ٹیوٹر تلاش کیا کہ چلو تینوں پڑھ لیں گے. ٹیوٹر کا نام علی تھا.. اور حافظ قرآن کے ساتھ ساتھ انکی داڑھی بھی تھی اور شکل تو بلکل معصومانہ اور شرافت ایسی کہ کوئی بھی دھوکہ کھا سکتا تھا. تو اسکی شرافت کی وجی سے وہ سیدھا ہماری بیٹھک میں آجاتے اور ادر ہمیں پڑھاتے. کچھ دن ماما نے خیال رکھا.. اور اس نے ماما کا اعتبار بھی جیت لیا اب ماما اس پے دیھان نہ دیتی بلکہ اپنے کام میں مصروف رہتی. سب سے پہلے حافظ علی نے مجھے اپنی حوس کا نشانہ بنایا. وہ مجھے اپنے بلکل ساتھ بٹھا لیتے اور بہانے بہانے سے میری کمر اور ٹانگوں پر ہاتھ پھیرتے تھے. ایک دن میں بیٹھنے لگی تو وہ میرے نیچے ہو گئے اور میں سیدھا انکی گود میں بیٹھ گئی میں اٹھنے لگی تو پکڑ کے کہتے میں تمارا روحانی بابا ہوں بیٹی بیٹھ جاؤ تو کوئی بات نہیں. تو میں انکی بات میں آکے بیٹھ گی. تھوڑی دیر بعد مجھے اپنے نیچے کچھ سخت سی چیز حرکت کرتے ہوئے محسوس ہوئی میں اٹھ گی. تب سر نے فاطمہ کو بلا کے اسے گود میں بٹھا لیا. اب ماما کو تو سر پہ اتنا یقین ہو گیا تھا کہ ماما تو دوپٹہ بھی نہیں لیتی تھیں بس کام کرتی رہتیں تھیں. ایک دن میں نے دیکھا سر مجھے پڑھاتے پڑھاتے بار بار ماما کو دیکھ رہے تھے میں نے ماما کی طرف دیکھا تو وہ صفائی کر رہی تھیں اور انکی قمیض گانڈ میں پھنسی تھی. میرے پیپر ختم ہوئے ماما نے انہیں قرآن مجید پڑھانے کو کہا. ایک دن ماما اور بچے کہیں شادی پر گئے تھے اور پاپا تو میرے ویسے ہی آرمی میں ہیں. تو میں اکیلی تھی مجھے ڈر تھا میں نے ماما کو کہا آج سر کو منع کر دیں کہ وہ نہ آئیں لیکن ماما نہ مانیں. البتہ سر کو فون کرکے بتا دیا کہ آج سدرہ اکیلی ہے گھر پر تو اس کا خیال رکھنا سر تو بس اسی موقع کے انتظار میں تھے. سراس دن ایک گھنٹہ پہلے ہی آگے میں حیران سر کہتے آج جلدی فارغ ہو گیا تو جلدی آگیا. سر کہتے سدرہ تمہیں غسل کاپتاہے.. پاکی ناپاکی کا کیونکہ تم اب بالغ ہو گئی ہو میرا فرض بنتا ہے تمہیں اسلام کے بارے میں سب کچھ بتاؤں. میں نے کہا کہ سر مجھے تو کچھ نہیں پتا.. سر نے کہا چلو آج تمہیں پریکٹیکل کر کے بتاتا ہوں میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میرا کوئی طالب علم گمراہ ہو.. سر کہتے چلو واش روم میں بتاتا ہوں. ہم واش روم آگے سر نے کہا کپڑے اتار دو. میں پریشان ہوئی سر کہتے بیٹی مجھے باپ سمجھو اور تمہیں پتا ہے کہ میں حافظ قرآن بھی ہوں ڈرو نہیں میں کوئی غیر نہیں ہوں. اب اگر تم کپڑے نہیں اتارو گی تو تمہیں غسل کا طریقہ بتاتے ہوئے تمہارے کپڑے گیلے ہو جائیں گے ہیں نا.. تو میں نے فوراً کپڑے اتار دیے. اب سر لگتا میرے جسم کو ہوس کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے. سر کہتے سدرہ ابھی تم پاک ہو پہلے تمہیں بتاؤں کے ناپاک ہوتا کیسے ہے بندہ تومیں نے ہاں میں سر ہلایا. میں سر کے سامنے اپنی چوت پر ہاتھ رکھ کے کھڑی تھی. سر نے اپنے بھی کپڑے اتا دیئے اب ہم دونوں ننگے تھے سر کا لن کپڑے اتارنے سے پہلے ہی فل تنا ہوا تھا. سر نے کہا کہ منہ ادھر کرو سدرہ تمہیں بتاؤں. میں نے منہ دوسری طرف کیا اور سر نے مجھے پیچھے سےپکڑ لیا اور کہا دیکھو سدرہ تم ابھی بھی پاک ہو اور نماز پڑھ سکتی ہو.. پھر سر نے اپنے منہ سے تھوک نکال کے میری چوت پر لگایا اور اپنا لن میری چوت پر رکھا۔ میرے جسم میں عجیب سی حرکت ہوئی میں نے پوچھا سر ہوگئی ناپاک تو سر نے کہا اتنی جلدی بھی کیا ہے بتا رہا ہوں نہ. سر نے اپنے لن کی ٹوپی میری چوت میں ڈالی مجھے درد ہوا سر کہتے بس تھوڑا اور. سر نے زور لگایا اور جب آدھا لن اندر گیا تو ایک دم میری چیخ نکلی مجھے بہت درد ہوا میں نے چوت پر ہاتھ لگایا تو خون لگا تھا میں ڈر گئی سر کہتے کچھ نہیں ہوا تم آج اصلی معنوں میں جوان ہوگئی ہو. شرعی طور پر اب تم شادی کے قابل ہو. پھر سر نے ایک اور جھٹکا دیا اور سارا لن میرے اندر چلا گیا.. سر نے میرے منہ پے ہاتھ رکھ لیا کہ میں چلاؤں نہیں اور لگاتار جھٹکے لگائے اور تھوڑی دیر بعد لن باہر نکال کے کہا اسے مسلو سدرہ. میں مسلنے لگی نیچے بیٹھ کے. اور ایک دم لن سے پانی کی پچکاری نکل کے میری آنکھ میں لگی. اور پھر 2 3 اور پچکاریاں میرے منہ پے لگی. پھر سر نے کہا اب تم ناپاک ہو. چلو غسل کرو. پھر سر نے مجھے پکڑ کے نہلایا.. اور بعد میں قرآن پاک کی تلاوت کی. اورسر چلے گئے. اس کے علاوہ جو سر نے کیا بعد میں میری ماما بشرہ سے اور عمارہ سے وہ پھر کبھی بتاؤں گی.. کسی کےذہن میں کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھے اور جو گیلا ہو جائے وہ تو ضرور بتائے. اور ٹیوٹر رکھتےہوئے چہرے کی شرافت پر مت جائیں

اب روز میرا دل کرتا تھا.. پتا نہیں عجیب سا مزا لگ گیا تھا.. عجیب سی لگن ہو گئی تھی. سوچتی تھی کہ میرے ساتھ ہوا کیا تھا اس دن. کیا غسل سکھانے کے بہانے سر میرے مزے اٹھا گئے ہیں. جب یہ سوچتی تومیرے جسم گرمی سی محسوس ہوتی میرا ہاتھ نا جانے کیوں میری چوت پر چلا جاتا تھا.. کلاس میں بھی سر مجھے یاد آنے لگےاب روز میرا دل کرتا تھا کرتا تھا.. پتا نہیں عجیب سا مزا لگ گیا تھا.. عجیب سی لگن ہو گئی تھی. سوچتی تھی کہ میرے ساتھ ہوا کیا تھا اس دن. کیا غسل سکھانے کے بہانے سر میرے مزے اٹھا گئے ہیں. جب یہ سوچتی تومیرے جسم گرمی سی محسوس ہوتی میرا ہاتھ نا جانے کیوں میری چوت پے چلا جاتا تھا.. کلاس میں بھی سر مجھے یاد آنے لگے. اب میں خود سر کے ساتھ چپک کے پڑھنے کے کوشش کرتی تھی.. اور سر بھی مزے لیتے تھے. ایک دن سر کہتے کہ سدرہ میں تمہارا عاشق ہو گیا ہوں. مجھے مسجد میں نماز میں جمعہ میں تمہاری ہی یاد آتی رہتی ہے.. تمہیں غسل کرنا نہیں سکھانا چاہیے تھا مجھے.. اب مجھے شیطان ورغلاتا ہے کہ سدرہ کے ساتھ زنا کرو. نماز میں تمہارا وہ ننگا معصومانہ جسم میرے سامنے کر دیتا ہے اور میری نماز غفلت میں بدل جاتی ہے میں بہت پریشان ہوں.. میرا عضوِ تناسل جو عورت کی شرمگاہ میں جائے تو غسل فرض ہو جا تا ہے ہر وقت تمہاری یاد میں کھڑا رہتا ہے.. کیا تمہیں بھی میرے بارے میں کوئی خیال آتا ہے.. مجھے تو ہوش میں بھی تمہارا ننگا جسم نظر آتا رہتا ہے.. اب امامت کروانے کو دل نہیں کرتا کیونکہ میرا وضو تمہاری یادوں کی وجہ سے قائم نہیں رہتا۔۔۔

میں بولی سر سچ بتاؤں تو مجھے بھی یاد آتی ہے آپ کی تب سے میرے اندر ایک نیا جنون سا پیدا ہو گیا ہے.. نہاتے وقت چوت پر صابن لگا کے ملتی ہوں تو مزا آنے لگتا ہے. پڑھتے ہوئے کب میرا ہاتھ میری شلوار میں گھس جاتا ہے پتا نہیں چلتا.. کالج میں فرینڈز کے ساتھ کیا بات کرتی ہوں پتا نہیں چلتا بس ایک ہی خیال رہتا ہے اور وہ پل یاد آجاتے ہیں جب آپ نے مجھے پیچھے سے پکڑ کر اپنا وہ میرے اندر ڈالا تھا.. اور میری چوت گیلی ہو جاتی ہے.. سدرہ تم فکر نہ کرو یہ سب بچپنے سے جوانی میں داخل ہونے کی علامتیں ہیں. اور اس کا ایک ہی حل ہے اب کہ ہم دونوں دوبارہ وہ کام کریں. میں جلدی سے بولی جی سر کیوں نہیں. ابھی کریں سر کہتے پاگل نہ بنو اور آہستہ بولو تمہارا بھائی سامنے ہے کسی نے سن لیا تو.. تو کیا کریں سر ہم پھر.. مجھ سے رہا نہیں جاتا..سر کہتے بس کچھ دن رکو میں کوئی موقع دیکھتے ہیں۔ چار پانچ دن گزر گئے کوئی موقع نہ ملا.. پھر سر کہتے ایک دن اب ایک ہی حل رہ گیا ہے سدرہ اگر تم ساتھ دو تو ہم اپنی پریشانی ختم کر سکتے ہیں. میں نے سر کیا کروں میں. تو سر نے کہا کہ نیند والی گولیاں دینی ہوں گی چائے میں ملا کے بھائی بہن اور امی کو.. میں ڈر گئی میں نے کہا سر میں کیسے کر سکتی ہوں یہ.. سر نے کہا بس نیند کی گولیاں ہی تو ہیں وہ سو جائیں گے اور ہم مزا کر لیں گے. انہیں ذرا بھی شک نہیں ہوگا. .بس میں بھی مان گئی مزے لینے کے لئے. اور اگلے دن سر نے مجھے گولیاں لا کے دیں اور میں نے چائے میں ملا کے ماما بھائی اور بہن کو پلا دیں.. بس کچھ ہی دیر میں سب کو نیند آنے لگی ماما نے سرکو کہا آج آپ چلے جائیں. سر باہر چلے گے سب سو گئے اور میں نے سر کو واپس بلا لیا. اور سر نے کہا سدرہ جلدی کپڑے اتارو. میں نے فوراً کپڑے اتار کے پھینکے اور سر نے بھی اتار دیئے. سر نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور میری ٹانگیں کھول دیں. میں باربار ساتھ سوئے بہن بھائی کو دیکھ رہی تھی کہ وہ اٹھ نہ جائیں. سر نے آج مجھے چومنا چاٹنا شروع کر دیا. میرے بازو گردن کان سے لے کر میرے دودھ اور پیٹ چاٹا.. میں مزے سے پاگل ہو رہی تھی.. میرے منہ سے با اختیار سسکیاں نکل رہی تھیں لیکن میں منہ میں انگلی ڈال کے آواز کنٹرول کر رہی تھی.. سر نے میری شرمگاہ (چوت) کو چاٹنا شروع کر دیا. میں ایک ہاتھ سے اپنا دودھ دبا رہی تھی مستی میں. پھر سر نے کہا سدرہ میرا لن پکڑو.. میں نے ہاتھ میں پکڑا. افف بہت گرم اور سخت تھا.. پھر سر نے کہا اب ٹانگیں کھولو تمہیں مزا دو سر نے 2 3 بار لن میری چوت پے مارا اور پھر لن پے تھوک لگا کے میری چوت میں ڈالا. افف بہت مزا آرہا تھا. سر آہستہ آہستہ اندر ڈال رہے تھے.. اور آدھا ڈال کے نکال لیتے تھے. بار بار ایسا کر رہے تھے.. اس عمل سے میرے اندر آگ لگ رہی تھی. میری آدھی چوت پیاسی رہ جاتی تھی.. سر کہتے بولو سدرہ کوئی پریشانی ہے.. سر پورا اندر تک ڈالیں تو سر نے اوپر رکھ کے دھکا دیا افف ان کا موٹا لن میری چوت کے ماس کو چیرتے ہوئے فل اندر چلا گیا. افف درد ہوا. ابھی میں سنبھلی نہیں تھی کے سر نے دوبارا پیچھے کر کے زوردار جھٹکا دیا. اور ایسے ہی پانچ چھ جھٹکے دیئے. انکی آنکھوں میں پیار اور ہوس تھی. ان کے ہر جھٹکے سے میرے دودھ ہل رہے تھے. میں نے اپنے دونوں دودھ پکڑ لیے. سر ایک دم رک گئے اور لن باہر نکال لیا.. میں نے سر کیا ہوا. سر نے اپنی انگلی میری چوت میں ڈال دی اور انگلی سے تیز تیز چودنے لگے.. تیز تیز چودنے کی وجہ سے افف میرا برا حال ہو گیا ایک دم میں مزے کی انتہا کو پہنچ گئی. میرے منہ سے اونچا اونچا آہ آہ آہ نکلنے لگا.. تو سر نے ایک ہاتھ میرے منہ پر رکھ کے چپ کرا دیا.. ایک دم میری چوت سے پانی کی فوار نکلنے لگی.. آہ میری چوت فل گیلی ہو گئی. پانی نکلتے ہی سر نے لن رکھا چوت میں اور چودنا شروع کر دیا. آہ چوت کے پانی اورتیز تیز جھٹکوں سے گھپ تھپ گھپ کی آوازیں آرہی تھیں ایک دم عشاء کی اذان ہونے لگی. اذان کی آواز سنتے ہی سر رک گئے اور سر نے لن باہر نکال لیا میں نے لن دیکھا تو پانی سے لُتھڑا ہوا تھا اب ہم ننگے اذان ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے. سر کہتے سدرہ دوپٹہ لے لو سر پے. باقی ننگی ہو تو کوئی بات نہیں لیکن اذان کے وقت سر ڈھکا ہونا چاہیے .اذان ختم ہوتے ہی سر نے جانوروں کی طرح مجھے کس کے پکڑ لیا اور شدت کے جھٹکے لگانے شروع کر دیئے. سر کی سپیڈ بڑھنے لگی. اور سر نے لن باہر نکال لیا اور ہاتھ سے مسلا اور پانی نکل گیا ان کا. اور پہلا قطرہ میری چن پے ہونٹوں کے پاس گرا اور دوسرا دودھ پر اور پھر پیٹ پر اور ناف میں. افف بہت گرم سا مادہ تھا.. ایک دم سر پیچھے بیٹھ گئے اور کہتے سدرہ تو میری جان لے لے گی.. اب یہ صاف کر لو اور مجھے پانی. دو.. اور کپڑے پہنو پہلے.. پھر سر چلے گئے اور میں بھی سکون کی نیند سو گئی.. اور سب صبح لیٹ اٹھے گولیوں کی وجہ سے.. لیکن کسی کو شک تک نہ ہوا. 
Like Reply
ہم تین ماں بیٹیاں قسط نمبر 2


اب سر اور میں کافی فرینک ہو چکے تھے. عمارہ اور زین کو کسی بہانے اندر بھیجنا اور اتنے میں سر نے مجھے چوم لینا.. میرے دودھ چوس لینے جلدی جلدی. ایک بار پاپا نوکری سے 2 ہفتے نہ آئے اب میں سمجھنے لگ گئی تھی کہ سیکس یعنی زنا کےبغیر جینا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے چاہے انسان کتنا ہی نیک کیو نہ ہو. کیونکہ سر حافظ قرآن اور امام مسجد بھی تھے. تو ان سے زیادہ کون نیک ہوگا. پانچ وقت کے نمازی لیکن زنا کے بغیر نہیں رہ پاتے تھے.. 2 ہفتے سے پاپا نہ آئے اور بتایا کہ ابھی میرا کوئی پتا نہیں چھٹی نہیں مل رہی.. ماما کیسے دن نکال رہی تھیں میں اندازا لگا سکتی تھی.. ان حالات میں ماما کے پاس دو آپشن تھے یا تو کوئی مصنوعی چیز مثلاً کھیرا یا کوئی اور ایسی چیز اندر ڈال کے ٹائم گزارتی یا پھر کسی کے ساتھ زنا کرتیں.. اب ماما سر کے سامنے بالکل کھلے طریقے سے آتی جاتی تھیں. کوئی دوپٹہ نہیں بال کھلے کبھی کبھی کپڑے واش کرتی تو گیلے کپڑوں کے ساتھ سامنے آجاتیں جس میں ان کا جسم نمایاں ہوتا تھا. اور ماما کی بڑی چھاتی اور بڑی گانڈ اور دودھ کی طرح گورا جسم دیکھ کے سر کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا.. اب گرمیاں بھی آہستہ آہستہ عروج پر جا رہی تھیں تھوڑا سا کام کرنے سے پسینہ آجاتا تھا.. ایک دن ماما نے گرمی کی وجہ سے برا بھی نہ پہنی… اب جان بوجھ کے نہیں پہنی یا گرمی کی وجہ سے نہیں پہنی یہ میں نہیں بتا سکتی. خیر ماما نے کام کیا اور پسینہ آگیا اور چھاتی سے قمیض ساتھ چپک گئی جس سے ماما کے دودھ والے نپل ظاہر ہو رہے تھے وہ دیکھتے ہی سر پاگل ہو گئے اور ماما کے دودھ کو بس گھورتے جا رہے تھے کہ ہوش بھی نہیں تھی کہ ماما انہیں نوٹ کر رہی ہیں.. لیکن ماما نے کچھ نا کہا اور ظاہر کیا کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا. اور ماما نے فوراً جا کے دوپٹہ لیا. لیکن مرد کی ہوس بھری نگاہ عورت کے دل کو پھگلا دیتی ہے. ماما اندر ہی اندر بس سر کی اس نگاہ کو سوچ رہی تھیں جو ان کی چھاتی پے جمی تھی اوپر سے ماما ویسے بھی بہت ترسی ہوئی تھیں کیونکہ پاپا کو نہ آئے ہوئے تین ہفتے ہو گئے تھے. لیکن اب ماما کے ذہن میں سر علی کا آپشن جاگا.. اب ماما سرکے قریب ہونے لگیں کبھی چائے کبھی دودھ اور کبھی ایکسٹرا پیسے.. سر بھی سمجھنے لگ گئے ایک دن مجھے کہتے کہ سدرہ تمہاری ماں کے اردے غلط لگ رہے مجھے. اور میں بس ہنس پڑی.. ایک دن ماما نے سر کو کہا کہ آج رات آپ کی ہمارے گھر دعوت ہے آپ عشا کی نماز پڑھا کے آجانا.. تو سر بھی فوراً مان گئے مجھے دل ہی دل میں لگا آج کچھ غلط لگ رہا ہے. سر نماز پڑھ دوبارہ آگے. ماما نے اچھا سا کھانا بنایا. کھانا کھا کے ماما نے ہمیں کہا کہ آپ چلو اوپر اپنے کمرے میں میں سر کو باہر کر کے دروازہ بند کر کے آتی ہوں.. ہم اوپر آگئے۔ مجھے پتا تھاکہ ماما چکر چلا رہی ہیں دل میں عجیب سا احساس تھا کہ ماما اف میں تو سوچ کے ہی پاگل ہو رہی تھی.. میں عمارہ اور زین سے نظر چرا کے ٹیرس پر گئی فوراً اوپر سے دیکھنے کے لیے. ماما اور سر کچھ بات کر رہے تھے ماما سر ک بالکل پاس تھیں. تقریباً جڑی ہوئی.. کہ اچانک ماما نے ادھر ادھر دیکھ کے سر کو گلے لگایا اور ہونٹ چوس لے. سر نے ماما کی قمیض میں ہاتھ ڈال کے ان کے دودھ پکڑے اف میری دیکھ کے ہی بری حالت ہو رہی تھی.. پھر سر نے شلوار میں ہاتھ ڈال کے ماما کی موٹی گانڈ پکڑ کے ہلائی .. اففف کیا منظر تھا.. کہ اچانک سر کی نظر مجھ پے پڑی.. لیکن ماما کا منہ دوسری طرف تھا. سر مسکرائے.. میرا دل کانپ رہا تھا اور چوت بہہ رہی تھی اور ہاتھ شلوار میں گھس چکا تھا.. اب ماما سر کو بار بار اندر کھینچ رہی تھیں لیکن سر مجھے دکھانے کےلیے ماما کو وہیں چومے جا رہے تھے.. ماما مدہوش تھیں.. پھر ماما سر کو اندر لے آئیں اور احتیاط سے انہیں اپنے کمرے میں لے گئیں.. افف اب دیکھ نہیں سکتی تھی کہ کیا ہو رہا ہے.. لیکن میں سوچ سکتی تھی.. میں اپنی چوت رگڑ رگڑ کے مر رہی تھی ٹیرس پر ہی.. میرا پورا ہاتھ میرے پانی سے گیلا ہو گیا تھا یہ سوچتے سوچتے کہ اب ماما کی چوت میں سر کا لن ہوگا.. تقریباً ایک گھنٹہ سر اندر رہے اور پھر نکلے اور جاتے جاتے دوبارہ صحن میں میرے سامنے چومنے لگ گئے.. میرے سامنے ماما کی قمیض اوپر کر کے نپل چوسا اور باہر نکل گئے.. صبح اٹھی تو ماما بہت خوش اور معمولی ڈری ہوئی لگ رہی تھیں میں نے پوچھا ماما کیا ہوا ہے.. تو کہتی کہ تمہارے پاپا کی وجہ سے پریشان ہو.. کتنے دن ہو گئے ہیں.. میں نے دل میں سوچا ماما اب آپ کو کیا ٹینشن.. حافظ سر کا لن تو بہت موٹا لمبا ہے. اور کنوارا بھی.. پھر سوچا کنوارا تو بس نام کا ہے. تیسرے دن تو مجھے چودتے ہیں.. اور پتا نہیں کتنی بیوہ عورتوں کی ضرورت پوری کرتے ہونگے. بس یہی سوچتی میں ہنسنے لگی اور سکول چلی گئی۔

پہلے کلاس میں اپنے اور سر کی سوچ کی رہتی تھی لیکن اب اس رات کے بعد میری سوچ میں ماما بھی شامل ہوگئیں تھیں جو کہ ایک بہت بڑی بات تھی میرے لیے.. آج سر نے کہا سدرہ ہمارا کام اب اور بھی آسان ہو گیا ہے.. تمہیں بس ایک کام کرنا ہے وہ یہ کہ اب جب میں اور تمہاری ماما کریں نہ تم نے تصویر یا ویڈیو بنا لینی ہے.. میں کسی نہ کسی بہانے انہیں گیٹ کے پاس چوموں گا تم ٹیرس سے ویڈیو ریکارڈ کر لینا.. پھر دیکھنا تمہیں ماما کا ڈر نہیں لگے گا. اور کبھی اللہ نہ کرے ہم پکڑے بھی جائیں تو تمہاری ماما کسی کو بتانے لائق نہ رہے.. ماما نے چوری چوری سر سر آنکھ مٹکا کرنا. اور سمجھنا کے کسی نے نہیں دیکھا اور میں دل ہی دل میں ہنستی. اور پتا نہیں کیسی عجیب سی خوشی بھی ہوتی حالانکہ دیکھا جائے تو مجھے غصہ آنا چاہیے تھا کہ ماما کی اب یہ کوئی عمر بھی ہے.. خیر اس ہفتے کو پاپا آگئے۔۔ ایک بارماما کو خوب ٹھنڈا کیا.. اور سوموار کو واپس چلے گئے. پہلے تو ماما 10 15 دن نکال ہی لیتی تھیں کیونکہ اور چارا نہ تھا لیکن اب تیسرے دن ہی ماما سے نہ رہا گیا.. اور آج پھر سر کی دعوت تھی. میں تو پہلے ہی سمجھ گئی. اسی طرح ماما نے ہمیں اوپر بھیج کے سر سے گیٹ پرہی شروع ہو گئیں. اور میں بھی عمارہ اور زین کو بہانہ بنا کر اوپر آگئی اور فوراً ویڈیو بنانے لگ گئی.. میرے ویڈیو بناتے ہی سر ماما کو لے کر اندر چلے گئے..۔۔

رات جب میں سونے کو لیٹی تو میں نے امی کی ویڈیو دیکھی اور اس کے بعد میں نے ایک پورن ویڈیو لگا لی اور وہ ویڈیو انسسٹ والی تھی۔۔ میں ویڈیو دیکھنے میں ایسی مصروف تھی کہ میرا ہاتھ شلوار میں تھا اور چوت بھی گیلی ہو رہی تھی اور میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔۔ مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ کب میرا بھائی زین جاگا اور میرے ساتھ آ کر آرام سے لیٹ کر پورن مووی دیکھ نے لگا، مجھے تو تب معلوم ہوا جب اس نے لوڑا ننگا کر کے میری رانوں پر پھینا شروع کیا۔۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا اور حیرت سے کہا کہ زین کیا کر رہے ہو؟ وہ بڑی ڈھٹائی سے بولا کہ جو آپ دیکھ رہی ہیں وہی کر رہا ہوں۔ میں گرم تھی تو میں نے کچھ اور نہ سوچا اور کہا کہ تم وہ نہیں کر رہے جو میں دیکھ رہی ہوں اگر وہ کرنا ہے تو میرے اوپر آؤ وہ بغیر وقت ضائع کیے میرے اوپر آیا اور میں بھی اس کے آنے سے پہلے اپنی شلوار اتار چکی تھی۔ پھر کیا تھا۔۔ میں نے زین کا تنا ہوا لوڑا اپنی چوت پر سیٹ کیا جو قاری صاحب کے لوڑے سے قدرےچھوٹاتھا لیکن بہت اکڑا ہوا تھا اور اسے کہا کہ اندر زور لگا کر ڈال دو۔ زین نے میری بات مانی اور ایک ہی جھٹکے سے میرے اندر ڈال دیا۔۔۔ پھر میں نے اسے کہا کہ میرا کتا بن کر ایسے چودو جیسے کتیا کو کتا چودتا ہے۔۔ تو اس نے مجھے پیچھے سے کتیا بنا کر چودا۔۔ ابھی پانچ منٹ ہی چودا تھا کہ اس کا لوڑا پانی چھوڑ گیا۔۔ میںنے بے ساختہ اپنے بھائی ک چومنا شروع کیا اور اس نے بھی مجھے خوب چوما۔۔ اس رات ہم دونوں بہن بھائی نے تین چار بار زنا کیا اور بہت مزہ لیا اور پھر گھوڑے بیچ کر سو گئے۔۔

اب میرا دل بہت مطمئن تھا کیونکہ اب مجھے نہ تو امی سے کوئی ڈر تھا کیونکہ امی کی سر کے ساتھ کرنے کی ویڈیو میں نے بنا لی تھی. اور نہ ہی بھائی کا ڈر. کیونکہ اس نے بھی میری شرمگاہ کا ذائقہ چکھ لیا تھا.. ایک دو دن میں اور زین ایک دوسرے سے آنکھ نہ ملا پائے.. کیونکہ بہن بھائی کا رشتہ ہی ایسا ہے.. کہ شرم و حیا دل میں رہتی ہے.. کبھی گناہ کا احساس تو کبھی لذت کا نشہ ہونے لگتا. کبھی اپنے والدین کی عزت کا خیال آتا کہ ہم ہاشمی سید ہیں اگر کسی کو بھنک بھی لگ گی تو ہماری عزت کا کیا بنے گا. پھر خیال آتا کہ کون سا کسی کو پتا چلے گا گھر کی بات ہے گھر تک ہی رے گی. خیر کچھ دن بعد میں نے رات کو محسوس کیا کے زین جاگ رہا ہے.. اور وہ آہستہ آہستہ ہل رہا ہے. میں نے چپکے سے دیکھا تو وہ ہاتھ سے اپنا لن مسل رہا تھا.. یہ دیکھ کے میرے اندر کا شیطان بھی جاگ گیا.. لیکن میں اپنی آرزو کو دبانا چاہتی تھی.کیونکہ اس دن بھی کرنے کے بعد برا لگا تھا حالانکہ حافظ صاحب سے کرنے پر اتنی ملامت نہیں تھی. لیکن احساس لذت بھی یہاں جیت رہی تھی. میرا دل تھا وہ خود کہیے. میں نے جان بوجھ کے اسے محسوس کروایا کے میں جاگ رہی ہوں. تا کہ وہ میری طرف آئے. اور وہی ہوا جب اسے پتا چلا کہ میں جاگ رہی ہوں تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپی میں نے آپ کے ساتھ سونا ہے اور وہ ویڈیو دیکھنی ہے..میں نے کہا ٹھیک ہے آجاؤ اور وہ ساتھ لیٹ گیا میرے. اور میں نے پورن ویڈیو لگائی. اور خوش قسمتی سے وہ بھی انسیسٹ ویڈیو تھی لیکن وہ سوتیلی بہن بھائی کے درمیان تھی.. یہ دیکھ کر وہ بہت گرم ہو رہا تھا.. اس نے اپنی ٹانگیں میری ٹانگوں میں پھنسائی ہوئی تھی.. اور اس کا لن میری ران یعنی میری بٹس پے لگ رہاتھا اور فل اکڑا ہو تھا.. ویڈیو میں بھائی بہن کی شرمگاہ (چوت) چاٹ رہا تھا.. میں نے زین سے کہا ہم بھی ایسا کریں دیکھنا بہت مزا آئے گا.. اور وہ بھی فوراً تیار ہو گیا جیسے وہ بھی یہی چاہتا تھا.. میں نے اسے کہا ہم چپکے سے دوسرے کمرے میں چلتے ہیں.

ایک دن صبح میں واش روم میں تھی اور عمارہ بھی آ گئی کیونکہ اس نے سکول کے لیے تیار ہونا تھا ویسے بھی ہم دونوں بہنیں ایک وقت میں واش روم استعمال کر لیتی ہیں.. اس نے مجھےکہا کہ آپی میں آجکل جب صبح جاگتی ہوں میری پینٹیز یا شلوار میرے ساتھ چپکی ہوتی ہے جیسے کسی نے گوند لگا دی ہے کہیں زین تو شرارت نہیں کرتا آج میں بھی اس کی شلوار پے گوند ڈالوں گی.. میں نے پوچھا کیا آج بھی ہے تو کہتی ہے ہاں یہ دیکھ لیں.. یہ کہ کر اس نے قمیض اٹھائے اور شلوار دکھائی تو شلوار اس کی پینٹی کے ساتھ اور پینٹی اس کی شرمگاہ کے ساتھ چپکی ہوئ تھی. میں نے پینٹی کو تھوڑا کھینچا تو وہ ایسے علیحدہ ہوئی جیسے کسی نے گوند ڈال کر خشک کیا ہو… خیر دیکھتے ہی میں سمجھ گئی کہ زین نے میرے انکار کے بعد اب عمارہ کے ساتھ شہوت پوری کرنی شروع کر دی ہے.. میں نے عمارہ کی پینٹی اور شرمگاہ کو ہاتھ لگایا اور اس کو جھکا کر اس کی شرمگاہ کو دیکھا.. منی کے آثار اس کی شرمگاہ سے باہر ہی تھے اس کا مطلب تھا کہ زین نے ابھی اندر نہیں ڈالا بس باہر سے اس کی شلوار پر ہی منی نکال رہا تھا کبھی اسکی اگلی سائڈ تو کبھی پچھلی سائڈ… میرے حیض کے دن ختم ہو چکے تھے اور پتہ نہیں عمارہ کی شرمگاہ کا اثر تھا یا بھائی کی منی کا جب میں عمارہ کا معائنہ کر کے فارغ ہوی تو میری شرمگاہ سے پانی نکل کر میری رانوں تک جا چکا تھا… میں نے عمارہ کو کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں اور مما کو بھی بتانے کی بھی ضرورت نہیں یہ بس زین کی شرارت ہیے اب دیکھنا ہم اس سے کیسے بدلہ لیتی ہیں… خیر ہم تیار ہو کر چلی گئیں لیکن میرے دماغ پر پورا دن اس کی بغیر بالوں والی شرمگاہ پر بھائی زین کی سوکھی منی کے داغ ہلچل مچاتے رہے. اس رات میں نے اور عمارہ نے سونے کی ایکٹنگ کا پلان بنا رکھا تھاکے زین کو رنگے ہاتھوں پکڑنا ہے.. میرے حیض کے دن ختم ہو چکے تھے ۔میں نے عمارہ کو کہا کہ جب زین تمہیں ہاتھ یا کچھ بھی لگائے تو ہلنا جلنا نہیں اور نہ ہی آنکھیں کھولنا.. بلکے وہ جو بھی کرے کرنے دینا اور اگر وہ تمہاری ٹانگ وغیرہ اٹھا کے آگے پیچھے کرے تو کرنے دینا.. پلان کے مطابق ہم لیٹ گئیں زین بھی ساتھ لیٹ گیا.. تھوڑی دیر بعد جب زین کو لگا کہ دونوں سو گئی ہیں تو اس نے اپنا ٹراؤزر نیچے کیا اور لن مسلنے لگا.. وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی دونوں سگی بہنیں جاگ رہی ہیں اور شاید لن مسلتے وہ بھی یہی سوچ رہا ہو کہ چھوٹی سگی بہن کے ساتھ یہ کرنا کتنا بڑا گناہ ہے.. کچھ دیر کے بعد جب وہ فل شیطان کے قبضے میں چلا گیا تو اس نے عمارہ کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرا اور شلوار کے اوپر سے ہی اس کی گانڈ کے ساتھ آہستہ سے لن رگڑنے لگا.. عمارہ پلان کے مطابق چپ چاپ لیٹی تھی اور ادر میری چوت میں آگ لگ رہی تھی.. افف کیا احساس تھا کہ بھائی کیسے لگا ہے. پھر زین نے آہستہ سے عمارہ کی شلوار نیچے کرنے کی کوشش کی.. وہ ڈرتے ڈرتے لگا تھا. لیکن عمارہ کے نہ ہلنے کی وجہ سے وہ کامیاب ہو رہا تھا.. اور آخر اس نے عمارہ کی شلوار گانڈ سے نیچے کر دی.. اور اس کی گانڈ کے ساتھ لن لگانے لگا.. عمارہ بھی اس وقت 11 سال کی تھی.. ویسے تو اسے لن کا نہیں پتا تھا خاص لیکن پھدی اور گانڈ کے آس پاس گرم لن پھرنے سے وہ بھی آہستہ آہستہ گرم ہو رہی.. زین کا لن عمارہ کی شرمگاہ تک رسائی نہیں کر پا رہا تھا اس نے عمارہ کی ٹانگ اوپر کرنے کی کوشش کی تو عمارہ نے میرے پلان کے مطابق اپنی ٹانگ اوپر کرنے دی.. ٹانگ اوپر کر زین نے عمارہ کی شلوار ایک طرف سے اتار دی اور اس کی شرمگاہ پر اپنا لن رگڑنے لگا… شاید عمارہ کی شرمگاہ سے بھی شہوت کی وجہ سے پانی نکل رہا تھا کیونکہ کہ بھائی کا لن اپنی سگی بہن کی چوت کے ساتھ جب بھی لگتا تو چپڑ چپڑ کی آواز آتی… بہن بھائی کی بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ شیطانی زنا کرتے دیکھ کر میری پھدی سے لگ رہا تھا نہر بہ رہی ہے اور مجھے اپنے نیچے شلوار مکمل گیلی محسوس ہو رہی تھی… میں نے پلان کے مطابق ایک دم آٹھ کر کہا کہ زین کیا کر رہے ہو شرم نہیں آتی کہ اپنی سگی بہن کے ساتھ زنا کر رہے ہو.. میرا خیال تھا کہ وہ شرمندہ ہو گا لیکن اس نے آگے سے کہا کہ وہی کر رہا ہوں جو تم نے کچھ دن پہلے مجھے سکھایا تھا اور میرے ساتھ کیا تھا… عمارہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی اس کی شلوار ابھی تک اتری ہوئی تھی اور اس نے ایک ہاتھ سے اپنی چھوٹی سی بنا بالوں والی پھدیا کو دبایا ہوا تھا… میں نے کہا عمارہ چھوٹی ہے ابھی تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے اس کو تکلیف ہو گی.. یہ سن کر عمارہ بو لی کی نہیں آپی جب زین بھائی ایسا کر رہے تھے تو مجھے مزہ آ رہا تھا… میں نے زین کی طرف دیکھا اور ایک لمحے میں ہمارے اندر کے شیطان نے ہمیں ورغلا کر چھوٹی معصوم بہن کی کچی کلی جیسی شرمگاہ کے ساتھ زنا پر آمادہ کر لیا… میں نے عمارہ سے کہا کہ ہم تینوں جو بھی کر رہے ہیں وہ کبھی کسی کو نہ بتانا.. چاہے کوئی کتنی ہی پکی دوست کیوں نہ ہو… اس نے پوچھا کہ کیوں نہ بتاو.. کیا یہ کوئی غلط کام ہے.. ہم نے اس کو بتایا کہ بہن بھائی آپس میں زنا نہیں کرتے اس لیے لوگ اس کو غلط کہتے ہیں لیکن اس میں مزہ بہت آتا ہے… اس نے پوچھا کہ زنا کیسے کیا جاتا ہے. تو ہم نے اس کو کہا کہ ابھی ہم تم کو کر کے دکھائیں گے… ہم نے فوراً کپڑے اتار دیئے اور عمارہ کی بھی شلوار اور قمیض اتار دی… اس کے ممے ابھی نکلنے شروع ہوے تھے.. لگ رہا تھا دو لیموں ہیں… وہ انتہائی دلچسپی سے ہماری شہوانی و شیطانی کام کو دیکھ رہی تھی… زین کے تنے ہو لن کو دیکھ کر پوچھنے لگی کہ بھائی یہ ایسے کھڑا کیوں ہے تو زین نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ اس کی چوت پر انگلی رکھ کر کہا کہ یہ ادھر جانے کے لیے کھڑا ہے…. میں نیچے لیٹ کر زین کو اوپر آنے کا اشارہ کیا…. زین فوراً اپنے لن کو میری چوت پر رکھ کر دھکا دیا اور ایک ہی لمحے میں سگے بھائی کا لن اپنی سگی بہن کی چوت کی گہرائیوں میں جا چکا تھا…. شہوت اور ہوس کی وجہ سے ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ ایسے چپک کر زنا کر رہے تھے کہ جیسے کمرے میں ہم تنہا ہوں… زین زور زور سے جھٹکے مار رہا تھا اور میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں… عمارہ ہماری ٹانگوں کے درمیان سے ہماری شرمگاہوں کا ملن دیکھ رہی تھی… تھوڑی دیر میں زین کے لن نے میری چوت میں منی کا لاوا نکال دیا اور میرے برابر میں لیٹ گیا… اس کی منی میری شرمگاہ سے باہر نکل رہی تھی… عمارہ نے ہمیں دیکھتے ہوئے کہا کہ ایسے اس نے ایک دو بار مما پاپا کو زنا کرتے دیکھا ہے… جب وہ ان کے ساتھ سو رہی تھی اور اس کی آنکھ کھلی تو اس نے کہا کہ مما پاپا بھی ایسے ہی ننگے تھے اور پاپا مما کے اوپر چڑھ کر ایسے کر رہے تھے… اس نے بتایا کہ مما نے آخر میں پاپا کی نونو کو چوسا بھی تھا اور ایک دفعہ اس نے پاپا کو بھی مما کی سوسو والی جگہ چاٹتے دیکھا تھا…. ہم دونوں کے منہ سے ایک دم آہ کی آواز نکلی اور زین نے اس سے پوچھا کہ مما کی یہ چوت کیسی تھی.. عمارہ کو جو یاد تھا وہ بتا رہی تھی کہ مما کی چوت پر بال تھےاور پپا کہ نونو آپ کی نونو سے بڑی تھی.. مما کی چوت اور مموں کا سن کر زین کا لن دوبارہ اڑنا شروع ہو گیا… میں نے اس کو کہا کہ مما کی چوت کا سن کر کیا ہوا اسے تو اس نے لن پکڑ کر کہا کہ اس کا بھی دل کر رہا ہے کہ مما کو چدتے ہوے دیکھے…. اس کا لن اب فل کھڑا ہو چکا تھا.. میں نے زین کو کہا کہ تم عمارہ کی شرمگاہ کو چاٹو… اور میں نے خود عمارہ کو سکھایا کہ لن کیسے چاٹا جاتا ہے… پتہ نہیں مما پاپا کو اس نے کتنی دفعہ دیکھا تھا کہ ایک دفعہ بتانے پر ہی عمارہ اپنے سگے بھائی کا لن ایسے چوس رہی تھی جیسے اس کو برسوں کی مہارت ہو. نیچے سے زین نے عمارہ کہ بغیر بالوں والی چوت کو پورا منہ میں لیا ہوا تھا اور اس کے اندر زبان ڈال کر چاٹ رہا تھا… شہوت کی وجہ سے عمارہ کی شرمگاہ سے بھی لیس دار پانی نکل کر بھائی کے چہرے اور زبان کے ساتھ لگا ہوا تھا. میں نے زین کو اشارہ کیا کہ اٹھ جائے اور اس کو سیدھا لیٹنے کو کہا.. کیونکہ کہ اگر وہ اوپر ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ شہوت کی زیادتی کی وجہ سے عمارہ کو تکلیف ہوتی.. اس لیے جب وہ لیٹا تو میں نے عمارہ کو کہا کہ وہ اوپر آ کر زین ک لن پر بیٹھے… عمارہ فوراً اس پوزیشن میں آگئی اور میں نے ہنس کر کہا کہ مما بھی پاپا پر ایسے تو نہیں بیٹھیں تھی.. اس نے کہا کہ ہاں اسی طرح دیکھا تھا انہیں.. مما کی شہوت کا سن کر زین کے لن نے ایک اور جھٹکا لیا… عمارہ لن کے اوپر بیٹھی اور صرف ٹوپا اس کی شرمگاہ میں جا سکا… میں نے اس کو کہا کہ آہستہ آہستہ اندر لو جتنا لے سکتی ہو… وہ پوری کوشش سے اندر لینے کی ٹرائی کر رہی تھی اس کی شہوت ہم دونوں سے بھی زیادہ تھی… اس نے دانتوں سے اپنے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور پورا زور لگا رہی تھی.. میں نے اس کو کہا کہ درد ہو رہا ہے تو چھوڑ دو لیکن وہ بولی کہ نہیں مزہ آ رہا ہے اور یہ کہ آپ کی طرح پورا اندر لوں گی. اب لن اس کے پردۂ بکارت کے ساتھ لگ رہا تھا شاید اس لیے وہ بولی کہ اب آگے نہیں جا رہا.. میں نے کہا کہ اب زین کو اوپر آنے دو.. زین جب اوپر آ کر اندر ڈالنے لگا تو میں نے زین سے کہا کہ احتیاط سے ڈالنا اور عمارہ کو بتایا کہ تمہیں تھوڑا درد ہو گا پر برداشت کرنا… ساتھ ہی اس کے منہ میں اپنا پستان ڈال دیا کہ اس کو چوسو.. ادھر میں نے زین کو اشارہ کیا کہ اس کی کنواری شرمگاہ کو کھول دو.. زین نے ایک ہی جھٹکے میں اس کی دوشیزگی ختم کرتے ہوئے لن اندر گھسا دیا… عمارہ کو درد تو محسوس ہوا کیونکہ اس نے میرے پستان کو اپنے منہ میں زور سے پکڑ لیا… لیکن برداشت کر گئی… زین نے تھوڑی دیر اپنا لن اس کے اندر ہی رکھا جب اس کی کنواری شرمگاہ نے اس کے لن پر اپنی گرپ تھوڑی ڈھیلی کی تو اس نے نہایت احتیاط سے اپنا لن تھوڑا تھوڑا کر کے باہر نکالا.. اس کے لن پر اپنی کنواری بہن کی سیل کھلنے کا خون لگا ہوا تھا… عمارہ کی چوت سے تھوڑا سا خون نکلا.. میں نے ایک کپڑا لے کر دونوں کے لن چوت صاف کر دیئے… زین نے دوبارہ لن اندر ڈالا اور اب کے بار لن آرام سے اندر گیا… عمارہ کی چوت اتنی ٹائٹ تھی کہ تین چار بار اندر باہر کرنے سے ہی زین نے عمارہ کی چوت میں منی نکال دی… زین کا لن ڈھیلا ہو کر عمارہ کی چوت سے نکلا تو ساتھ ہی عمارہ کی چوت سے منی نکل پڑی…عمارہ کی چوت کسی تازہ کھلے پھول کی طرح لگ رہی تھی جس پر اپنے سگے بھائی کی منی ایسے لگی ہوئی تھی جیسے پھول پر شبنم گری ہو… کپڑے سے ان کی چوت اور لن کو صاف کر نے کے بعد میں نے ان کو کپڑے پہنا کر سونے کو کہ دیا… تھوڑی دیر میں وہ دونوں سو گئے اور میں بھی لیٹے لیٹے سوچ رہی تھی کہ میں نے کیا سوچا تھا اور کہا ہو گیا… اپنے ساتھ ساتھ بھائی کو چھوٹی بہن سے بھی زنا کروا دیا…. شاید بہن بھائی کا زنا ممنوع ہونے کی وجہ سے ہی اتنا شہوت انگیز ہے… کہ قابیل بھی اپنی بہن کے ساتھ زنا کرتا رہا…. شاید ازل سے ہی بہن بھائی کا زنا اولاد آدم کے مقدر میں لکھ دیا گیا…. شاید خدا کو یہی منظور تھا.. یہی کچھ ۔۔۔۔۔سوچتے سوچتے میں بھی سوگئی۔۔۔۔
Like Reply
ہم تین ماں بیٹیاں قسط نمبر 3 آخری


امتحان کی ٹینشن کی وجہ سے واپسی تک شہوت تقریباً ختم ہو چکی تھی.اس لیے اب دماغ ملامت کرنا شروع ہو گیا کہ کیوں سگے بھائی کے ساتھ زنا کیا میں نے . گھر آ کر میں نے غسل کیا اور عصر کی نماز میں استغفار کیا اس سب سے جو پچھلی رات میں نے اور بھائی نے کیا.. میں سجدے میں استغفار کر رہی تھی اور شیطان تب بھی مجھے ورغلانے کی کوشش کر رہا تھا.. مجھے بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ رات کو اسی حالت میں بھائی کے آگے جھکی ہوئی تھی اور وہ پیچھے سے اپنا لوڑا میری چوت میں ڈال کر جھٹکے لگا رہا تھا.. اور اب اسی حالت میں میں اس گناہ سے استغفار کر رہی ہوں .. جب میں نماز سے فارغ ہوئی تو میری آنکھیں بھی آنسوؤں سے گیلی تھیں..اور میں نے سوچ لیا تھا کہ اب شیطان کے بہکاوے میں نہیں آؤں گی.. عشا سے پہلے ہی مجھے حیض آ گیا اور میں نے شکر کیا کہ چلو کچھ دن میری شرمگاہ کے ذریعے شیطان مجھے نہیں ورغلا سکے گا.. رات کو جب سب سو گئے تو زین نے پھر میرے سائڈ پر آ کر لیٹنےےکی کوشش کی.. میں نے اسے منع کر دیا کہ ایسا کچھ نہیں کرنا.. وہ حیران تھا پر جا کر اپنی سائڈ پر سو گیا.. دوسرے دن پھر اس نے کوشش کی لیکن میں نے اس کو منع کر دیا… دو دن اور گزر گئے اور اب وہ خود ہی سو جاتا تھا اور میں بھی خوش تھی کہ وہ سمجھ گیا ہے..

کچھ دن کی رخصت کے بعد قاری صاحب نے دوبارہ آنا شروع کیا اور اسی روٹین میں امی اور مجھے الگ الگ چودتے رہے۔ ایک دن کہنے لگے کہ یرا دل کرتا ہے کہ تم ماں بیٹی کو اکٹھے چودوں۔ میں نے کہا کہ کیسے؟ تو کہنے لگے کہ جب میں تمہاری ماما کو چود رہا ہوں گا تو تم اوپر سے آ جانا اور ہمیں پکڑ لینا پھر میں تمہاری ماں سے کہوں گا کہ اسے بھی چود دیتا ہوں تا کہ یہ کسی کو بتا نہ سکےاور مصنوعی زبردستی کر کے میں تمہیں لوڑا ڈال دوں گا اور پھر اس کے بعد روزانہ تم دونو کو چودا کروں گا۔۔میں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ قاری صاحب ماں بیٹی کے ساتھ اکٹھے زنا کیا کریں گے کیونکہ ان کا لوڑا بہت تگڑا تھا۔۔ میرے ذہن میں فوراً آیاکہ اب لگتا ہے کہ عمارہ بھی قاری صاحب سے چدے گی اور پھر زین بھی اس پارٹی میں شامل ہو جائے گا اور یوں ایک زنا پارٹی ہوا کرے گی۔۔

دو تین دن ہی گزرے تھے کہ میں نے قاری صاحب اور امی جان کو پکڑ لیا اور پھر وہی کام سٹارٹ ہو گیا۔ کچھ دن قاری صاحب نے امی اور مجھے اکٹھے چودا اور پھر میں نے خود یہ بات عمارہ کو بتا دی کہ قاری صاحب رات ہمارے گھر میں گزارتے ہیں اور وہ مجھے اور امی جان کو مل کر چودتے ہیں تو عمارہ کے چہرے پر گرمی آ گئی اور میں نے اسے مزید گرم کرنے کے لیے کہا کہ قاری صاحب کا لوڑا بہت موٹا اور لمبا بھی ہے اور زین بھائی کے لن سے تو کافی تگڑا ہے اور وہ بہت دیر تک ہم دونوں کو چودتے ہیں۔۔ عمارہ کہنے لگی کہ آپی مجھے کب قاری صاحب کا لوڑا نصیب ہو گا؟ میں نے کہا کہ کل ہی تمہیں قاری صاحب کے لوڑے پر سواری کروا دیتی ہوں انہوں نے کون سا انکار کرنا ہے۔ بس پھر کیا تھا اگلے ہی دن جب قاری صاحب مجھے اور امی کو چود رہے تھے تو پلان کے مطابق عمارہ بھی کمرے میں آ گئی اور کہنے لگی کہ امی جان اور فریحہ باجی یہ کیا ہو رہا ہے اور کب سے یہ زناکاری جاری ہے؟

امی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور میں نے بھی ایسی ایکٹنگ کی جیسے ہم پکڑے گئے ہوں۔ لیکن قاری صاحب کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی انہوں نے امی سے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اس کے ساتھ بھی وہی حال کرتے ہیں جو فریحہ کے ساتھ کیا تھا چنانچہ قاری صاحب نے عمارہ کو پکڑا اور مجھے کہا کہ اس کو ننگا کر دو۔۔ عمارہ نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے خود کو چھڑوانے کی جھوٹی سی کوشش کی لیکن تھوڑی دیر میں ہی وہ ننگی تھی اور قاری صاحب اس کی بغیر بالوں والی پھدیا پر میرا تھوک لگوا کر لوڑا ڈال چکے تھے۔۔ لوڑا موٹا اور لمبا ہونے کی وجہ سے عمارہ کی پھدیا میں پھنس کر گیا اور میں سمجھ سکتی تھی کہ اسے کتنا مزہ آیا ہو گا۔ یوں ہم تینوں ماں بیٹیوں کو قاری صاحب نے اس رات چودا اور ساری رات چودتے رہے۔۔ امی تو جلد ہی وہیں ننگی سو گئیں لیکن میں اور عمارہ قاری صاحب سے چدواتی رہیں یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی اور پھر قاری صاحب ہمارے گھر سے ہی نہا کر نماز پڑھانے چلے گئے۔ ختم
Like Reply
 شوہر کے دوست سے چد گئی


ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی کہ ایک دن صبح کام پر جانے سے پہلے میاں کہنے لگے کے وہ شام کو جلدی آئیں گے ان کے دوست کے گھر دعوت ہے۔

شام کو میاں آئے تو میں تیار تھی۔ شادی کے بعد سیکس کا نیا نیا نشہ تھا اس لئے میں بھی میاں کو گرم کر دینے کے حساب سے تیار ہوئی۔ ہلکی پنک ساڑھی میں میرا جسم غضب ڈھا رہا تھا۔ بوبس جیسے باہر نکلنے کو بے چین تھے۔ میاں نے جیسے ہی دیکھا تو ٹھٹک گئے شاید ان کے لنڈ میں کرنٹ دوڑنے لگا تھا۔ وقت کم تھا اس لئے جلدی سے میرے میاں اپنے دوست عماد کے گھر دعوت لے گئے۔

گاڑی سے اترنے سے پہلے اپنے سیکسی بدن کو دوسروں کی نظر سے بچانے کے لئے میں نے عبایا پہن لیا۔ اب میری نرم جلد نظر نہیں آ رہی تھی مگر پھر بھی گانڈ کا ابھار واضح تھا اور میری نپل جو تنے ہوئے تھے وہ عبایا کہ اوپر نشان چھوڑ رہے تھے۔

دعوت کے دوران عماد نے میرے میاں کو خوب مبارک دی اور آنکھ بھی ماری۔ میاں سے کہہ رہا تھا کہ پورے کراچی کا خزانہ تم نے لے لیا ہے اب ہم بے چارے کہاں جائیں گے۔ میں شرم سے سرخ ہو گئی۔ میاں ادھر ادھر دیکھ رہے ہوتے تو عماد مجھے بھی گھور کر دیکھتا۔ جیسے نظروں میں ہی تول رہا ہو۔ عماد نے کوشش تو بہت کی مگر میرا نام بھی عشا ہے۔ اسے اپنے جسم کا نظارہ نہ کرنے دیا اور وہ بےچارہ تڑپتا رہ گیا۔

گاڑی میں بیٹھے تو میں نے عبایا اتار دیا۔ گھر کی پارکنگ میں گاڑی سے نکلنے لگی تو میاں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں مسکرا کر ہاتھ چھڑانے لگی مگر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ میں نے ان کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ جیسے ہی انہوں نے ہاتھ چھوڑا میں بھاگ کر اندر گئی۔ باگھنے کے چکر میں میری ساڑھی دروازے میں پھنسی اور میں چکرا گئی۔ اس ایکسیڈنٹ میں میری ساڑھی کھل کر نیچے گر گئی۔ اب صرف چولی نے میری چھاتیوں کو ڈھانپ رکھا تھا یا پینٹی نے میری چوت کا پردہ کیا تھا۔ میں ساڑھی سمیٹنے کو جھکی تو پیچھے سے میاں نے آکر مجھے دبوچ لیا۔

میں ایسے ہی ننگی حالت میں اٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال دیا۔ اپنا لنڈ باہر نکالا جو اکڑ کے لوہے کا بن چکا تھا اور میری دونوں ٹانگیں کھول کر رگڑنے لگے۔ میری چولی کو کھول کر نپل باہر نکالے اور میرے کاٹنے کے بدلے میں میری نپل کو انہوں نے کاٹا۔

اس رات گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا کر میاں نے خوب چودا۔ میری چوت سے پانی نکل کر ان کا لنڈ بھی گیلا کرنے لگا۔ چودائی کر کے جب وہ نڈھال ہو گئے تب جا کر جان چھوٹی۔ درد تو ہوا مگر مزہ بھی بہت آیا۔ جس مقصد کے لئے میں اتنا تیار ہوئی تھی وہ پورا ہو گیا۔

شادی کے بعد یونہی وقت گزرنے لگا۔ عماد بھی ہمارے گھر آنے جانے لگا تھا۔ کبھی کبھی تو آدھی رات کو اسے کوئی کام پڑ جاتا۔ اور پھر میاں جب تک میری چدائی نہ کر لیتے وہ مہمان خانے میں انتظار کرتا رہتا۔

عماد اکثر میاں کی غیرموجودگی میں بھی آتا رہتا تھا اور میں دروازے کی اوٹ سے ہی اسے واپس کر دیتی۔ میاں اس بات پر ناراض ہوتے کے میں ان کے دوست کو پانی تک نہیں پوچھتی۔ عماد بھی اکثر جاتے جاتے چوٹ کر جاتا۔ کبھی کہتا کہ بھابھی ابھی تو جا رہا ہوں مگر میرا حصہ کب ملے گا۔ کبھی کہتا کہ رات آپ کو خواب میں دیکھا۔

گھر کی بات اب گھر تک نہیں رہی تھی بلکہ مہمان خانے تک پہنچ رہی تھی۔ میرے میاں شرارت بھری باتیں عماد کو بھی بتانے لگے تھے۔ ایک دفعہ جب میں مہمان خانے میں چائے دینے گئی تو وہ عماد کو بتا رہے تھے کہ رات کی مستی میں ان کے لنڈ پر عشاء نے کاٹا ہے۔ میں شرم سے لال ہو گئی اور دروازے میں ہی رک گئی۔ عماد بھی الٹی باتیں پوچھنے لگا کہ میرے ممے کتنے بڑے ہیں اور میری چوت کس رنگ کی ہے۔

اففف توبہ، یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ایسے تو میں مہمان خانے نہیں جا سکتی۔ شرم سے ڈوب جائوں گی عماد کے سامنے۔ میں واپس کچن میں چلی گئی اور جان بوجھ کر ایک کانچ کا گلاس فرش پر پھینک کر توڑ دیا۔ میاں اندر پوچھنے آئے تو میں ایسے پیش آئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور پھر ان کے پیچھے پیچھے مہمان خانے چائے دینے پہنچ گئی۔

شرم سے میرا چہرہ لال ہو رہا تھا۔ ان دونوں کو نہیں پتہ تھا کہ میں ان کی باتیں سن چکی ہوں۔ عماد میرے بوبس کو ہی گھورے جا رہا تھا جیسے ابھی کاٹ کھائے گا۔ عماد کی نظروں کی تپش مجھے اندر تک جلا رہی تھی۔ جب میں اسے چائے دینے کو آگے جھکی تو اس کے ٹرائوزر کا ابھار مجھے بہت کچھ سمجھا گیا۔

دن یوںہی گزرتے گئے مگر اب میاں کام میں زیادہ مصروف ہو گئے تھے۔ کراچی میں ہوتے ہوئے بھی دیر سے گھر آتے اور جلدی سے چدائی کر کے سو جاتے۔ مجھے مزہ نہیں آرہا تھا۔

میں شاور لے رہی تھی اور میاں گھر پر نہیں تھے ۔ پھر سے عماد آ گیا۔ میں نے اندر سے ہی آواز لگائی کے مہمان خانے میں بیٹھے میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں۔ افف توبہ عماد کے ٹرائوزر کا ابھار یاد تھا مجھے۔ کچھ دنوں سے میری چوت پیاسی تھی اور عماد کا ابھار یاد آتے ہی میری چوت میں ہلچل ہوئی۔ میری چوت شاور میں بھی آگ لگانے لگی۔

میں نے جلدی سے شاور لیا، کپڑے پہنے اور مہمان خانے کا رخ کیا جہاں عماد میرا انتظار کر رہا تھا۔ عماد نے سلام کیا اور ساتھ ہی اس کے نظریں میری چھاتیوں پر مقناطیس کی طرح چپک گئیں۔ میں نے اپنی چھاتیوں کی طرف دیکھا تو میں چکرا گئی۔ کیونکہ میں نے جلدی میں برا نہیں پہنی تھی اور شاور لینے سے بدن گیلا تھا جس سے میری سفید قمیض بھی گیلی ہو کر بدن سے چپک گئی تھی۔ میرے بوبس کا نظارہ عماد کے سامنے تھا۔

میں ہمیشہ عبایا پہنتی تھی اور کسی غیر مرد کو اپنے قریب آنے نہیں دیا۔ میں نے ہمیشہ اپنا بدن عماد سے چھپایا تھا مگر آج مجھے لگا جیسے میں عماد کے سامنے ننگی ہو گئی ہوں۔ اور بات بھی کچھ ایسی تھی میری برائون نپل سفید قمیض سے واضح نظر آرہی تھی جیسے سفید چادر پر پیتل کر سکہ رکھا ہو۔

میں اتنی بوکھلا گئی کے میں کچھ پوچھنا ہی بھول گئی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کے میں کیا کروں۔ میں اپنی چھاتیوں کو بانہوں میں چھپایا اور آخر کار گھبرا کر میں اندر کی طرف دوڑ گئی۔

آج پھر عماد کے گھر دعوت تھی۔ شاور والے واقعے کے بعد میں عماد سے کترا رہی تھی مگر میاں کے اصرار پر جانا پڑا۔ میں نے عبایا پہنا ہوا تھا اس لئے تھوڑا سا سکون محسوس کر رہی تھی کہ وہ میرا بدن نہیں دیکھ سکتا۔

واپس آنے لگے تو میاں کے فون کی گھنٹی بج گئی اور ساتھ ہی میری قسمت کی بھی۔ میاں کو آفس کے کام سے جانا تھا اور عماد سے کہا کے مجھے گھر چھوڑ دے۔ میں ہچکجانے کے باوجود نہ نہیں کر سکی اور عماد کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سارے راستے میں اپنا جسم سمیٹنے میں لگی رہی اور عماد شیشے سے مجھے گھورتا رہا۔

گھر پہنچتے ہی میں گاڑی سے اتری اور عماد کو بائے بول دیا۔ ساتھ ہی عماد بھی گاڑی سے اتر آیا۔ کہنے لگا بھابھی آپ کے پاس دودھ ہے؟ میں نے غصے سے بولا کیا مطلب تو کہنے لگا کچھ نہیں میں تو کہہ رہا تھا کہ ایک کپ چائے پلا دیں۔

اوہ اچھا۔ مہمان خانے میں بیٹھو میں لاتی ہوں۔ اور وہ میرے پیچھے پیچھے اندر آنے لگا۔ اس کے آگے چلتے ہوئے مجھے لگا جیسے وہ میری گانڈ کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا ہے۔ عبایا تو پہنا تھا مگر جیسے جیسے میں چلتی جاتی میری گانڈ بھی جھوم رہی تھی۔ مجھے لگا جیسے وہ میری گانڈ کو چھونے لگا ہے۔

شکر ہے اندر آنے تک ایسا ویسا کچھ نہ ہوا جو میں سوچ رہی تھی۔ مگر جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئے تو عماد نے دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔ میرے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہو گئی جیسے ابھی حلق سے باہر نکل آئے گا۔ میرے ہونٹ تو جیسے سوکھ گئے۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر آج عماد نے کچھ ایسا ویسا کیا تو میں کیا کروں گی۔

میری چوت جو اتنے دنوں کی پیاسی تھی وہ کچھ اور کہہ رہی تھی مگر یہ جسم کسی اور کی امانت ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کے اگر عماد نے مجھے چودنے کا بولا تو میں اسے تھپڑ ماروں یا کہیں بھاگ کر چھپ جائوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کے اگر عماد کی نیت خراب ہے تو میاں کو بتائوں یا چپ رہوں۔

ایسے ہی کھڑے کھڑے نہ جانے کتنی دیر ہوئی کے عماد نے میری کمر پر ہاتھ رکھا۔ میں ایک دم سے ڈر گئی۔ میرے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا اور چوت پر چیونٹیاں سی رینگنے لگی۔ نپل ایک دم تن گئے۔ جیسے ہی پیچھے مڑی تو عماد نے کہا بھابھی چائے۔

میں نے کہا اچھا بیٹھو۔ اور پھر کچن میں چلی گئی۔ میں عبایا اتارتے ہوئے ڈر رہی تھی کے میں نے عبایا اتارا تو میرے مست بوبس عماد کو اپنی طرف متوجہ کر دیں گے۔ ایسے ہی میں نے چائے بنا کر عماد کو پیش کی اور سامنے بیٹھ گئی۔ عماد مجھے ہی گھورے جا رہا تھا اور مجھ میں نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔

میں نے دیکھا کے عماد کی پینٹ میں ٹینٹ سا بن گیا ہے۔ یقینا اس کا لنڈ کھڑا ہو گا مگر میں تو عبایا میں بیٹھی ہوں پھر کس چیز نے اس کا لنڈ کھڑا کر دیا۔ میں یہ سب سوچتے ہوئے لاشعوری طور پر اس کے لنڈ کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ عمام نے کھانس کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا تو میں جھینپ سی گئی۔ گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی اور خالی کپ اٹھانے کو آگے بڑھی۔ جیسے ہی میں نے کپ کو پکڑا عماد نے بھی کپ کو پکڑنے کے انداز میں میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

میرا جسم گرمی اور گھبراہٹ سے آگ بنا ہوا تھا۔ جیسے ہی عماد نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں کانپ سی گئی۔ عماد نے بولا کیا ہوا بھابھی۔ میں نے کہا کچھ نہیں۔

اور عماد نے میرے ہاتھ سے کپ لے کر میز پر رکھ دیا۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی پینٹ کے ابھار پر رکھ دیا۔

میں نے کہا یہ کیا کر رہے ہو عماد۔ عماد بولا کچھ نہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ میرے لنڈ کو ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔

میں نے انکار کر دیا اور اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔ عماد کی گرفت مضبوط ہو گئی اور میرا ہاتھ اسے کے لنڈ کو محسوس کرنے لگا۔ شاید 5 انچ لمبا اور 2 انچ موٹا لنڈ تھا اس کا۔ میں نے نظریں جھکا لی اور کہا کے ایسا کرنا ٹھیک نہیں۔ تو عماد نے کہا آپ جو ایک سال سے مجھے تڑپا رہی ہیں کیا وہ کرنا ٹھیک ہے۔

میں کچھ نہ بولی۔ میرے ہاتھ پر اس کے لنڈ کا ابھار محسوس ہو رہا تھا۔ میری نپل ٹائٹ ہو گئی اور مجھ پر حوس حاوی ہونے لگی۔ مجھے لنڈ چاہئے مگر صرف اپنے میاں کا۔ میں کسی غیر مرد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھ

سکتی۔

میں نے فیصلہ کیا اور اپنا ہاتھ عماد کے ہاتھ سے چھڑوا لیا۔ میں جانے کے لئے جیسے ہی مڑی تو عماد نے مجھے پیچھے سے دبوچ کر اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ میری کمر عماد کے سینے کو محسوس کر سکتی تھی اور عماد کی گرم سانس میری گردن میں آگ لگاتی ہوئی گزر گئی۔ عماد کی پینٹ کا ابھار جو کے اس کا لنڈ تھا وہ بھی میری گانڈ کے آس پاس ہی تھا۔ یوں سمجھ لو کے عماد نے مجھے کمر سے گلے لگایا تھا۔

عماد نے میرے کان کے پیچھے چوما اور پھر میرے کان کا نچلا حصہ اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوسنے لگا۔ میری ہمت جواب دینے لگی۔ اس نے میری کمزوری پکڑ لی تھی۔ کان کو چوسنے کے ساتھ ہی میری چوت سے پانی نکلنا شروع ہو گیا اور میں یکدم سب کچھ بھول گئی۔ اب میں صرف ایک عورت تھی جسے ایک تگڑے لنڈ کی ضرورت تھی اور عماد وہ دیوتا تھا جو کسی چوت کے لئے ہر مشکل سے گزر سکتا تھا۔

میں یہ سب عماد پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے میری مزاحمت جاری تھی۔ میں نے کہا عماد چھوڑو مجھے۔ مگر عماد تو جیسے میری بات سن ہی نہیں رہا تھا۔ اس نے عبایا کے اوپر سے ہی اپنا لنڈ میری گانڈ پر رگڑنا شروع کر دیا۔ اور اپنے دونوں ہاتھوں میں میرے بوبس کو پکڑ کر دبانے لگا۔

افففف یہ سب حیرت انگیز طور پر جادوئی تھا۔ اپنے میاں کے علاوہ کسی اور کا لمس مجھے اور ہی نشہ دے رہا تھا۔ جیسے جیسے عماد میرے کان چوس رہا تھا اور میرے نپل کو دبا رہا تھا میری چوت سے پانی رستا جا رہا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کے میری پینٹی مکمل گیلی ہو چکی ہے۔

میری ہمت جواب دینے لگی

میں نے اپنی شرم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عماد کے لنڈ کا مزہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اب میں نے عماد کی جینز کے اوپر سے ہی اس کے لنڈ کو پکڑ لیا۔ اس کا موٹا لنڈ اکڑا ہوا تھا۔ میرے ہاتھوں کو محسوس کرتے ہی اس کا لنڈ سرشار ہو گیا ہو گا۔ وہ گھوم کر میرے سامنے آیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کا بوسہ دیا۔

اس کی آنکھوں میں ایک وحشی چمک تھی جیسے ایک سپہ سالار کسی قلعہ کو فتح کرتا ہے اور پھر اس کی سب دیواروں کو روندتا ہوا تخت پر جا بیٹھتا ہے۔ آج عماد میرے ساتھ بھی وہی کچھ کرنے جا رہا تھا۔ اس نے میرے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا کر کاٹا اور درد سے میری آہ نکل گئی۔ شاید اسے اسی لمحے کا انتظار تھا۔

ہونٹ چوسنے اور کاٹنے کے ساتھ عبایا کے اوپر سے ہی اس نے میرے بوبس کو مسلنا شروع کر دیا ۔ میے نپل اکڑ کر سخت ہو گئے۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت مجھے سرنڈر کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس نے عبایا اور قمیض کے تہہ کے اندر ہاتھ ڈالا اور میرے جسم کو ٹٹولتے ہوئے میرے بوبس کو برا سے باہر نکال دیا۔ اس نے عبایا کو سامنے سے اٹھایا اور میری چھتیوں کو ننگا کر اپنے چومنے لگا۔ نپل کو چومنے کے ساتھ جب وہ دانتوں سے دباتا تو درد اور لذت کے ملے جلے جذبات سے میری آہ نکل جاتی اور یہ بات اسے سکون دے رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں میری دونوں نپل سرخ ہو چکی تھیں۔

لذت کا یہ دور شروع ہوا تو میری حوس بھی جاگ گئی۔ میں نے اس کی جینز کھول کر اس کا لنڈ باہر نکال دیا۔ جیسے جیسے وہ میرے نپل کو چوس رہا تھا میرے ہاتھ بھی اس کے لنڈ کو مسل رہے تھے۔ اس کا لنڈ لوہے کے راڈ کی طرح سخت تھا اور مجھے یقین ہونے لگا کے اب میری چوت پیاسی نہیں رہے گی۔

میرے دودھ کو چکھنے کے بعد اس کا دھیان میری گیلی ہوتی ہوئی چوت کی طرف گیا۔ یہ اس کا تخت تھا جہاں اس نے کسی بادشاہ کی طرح بیٹھنا تھا۔ اس نے ہاتھ میرے ٹرائوزر میں ڈال دیا اور میرے چوت کا گیلا پن محسوس کر کے مسکرانے لگا۔ نہ جانے اس کے مسکرانے کا مطلب کیا تھا مگر جیسے ہی اس کا ہاتھ میری چوت کے ساتھ لگا میرے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا۔ میری چوت نے ایک گرم پانی کا ایک تازہ سیلاب چھوڑ کر اس کا استقبال کیا۔ اس کی انگلیاں بہت مہارت سے میری چوت کو مسل رہی تھیں۔ اور میری برداشت ختم ہو گئی۔

میری چوت کو اسی وقت لنڈ چاہئے تھا۔ میری حوس پوری طرح حاوہ ہو چکی تھی۔ مجھ سے اب مزید صبر نہیں ہوتا۔ میں نے اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے قریب رگڑنا شروع کیا۔ شاید اسے اندازہ ہو گیا تھا کے اب میں کیا چاہتی ہوں۔

اب اس نے میرا رخ صوفے کی طرف کیا اور میں دونوں ہاتھ سوفے پر رکھ کر جھک گئی۔ اس نے میری کمر سے عبایا تھوڑا سا اٹھایا اور پھر میرا ٹرائوزر اتار کر میری گانڈ ننگی کر دی۔ اس سے پہلے کے وہ اسی پوزیشن میں میری چوت میں لنڈ ڈالتا اس نے پٹاخ کی آواز کے ساتھ میری گاںڈ پر تھپڑ مارا۔ آہ ہ ہ

میری چیخ نکل گئی۔ اور پھر میری گانڈ کو مسلتے ہوئے اس نے اپنا لنڈ میری ٹاگوں کے بیچ سے گزار کر چوت پر رگڑ دیا۔ میرا انتظار طویل ہو رہا تھا اور مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی جب اس نے ایک جھٹکے سے اپنا لنڈ میری چوت میں اتار دیا۔

اف ف ف ف ف

میری چوت رس سے بھر گئی تھی۔ گیلی چوت میں اس کا لنڈ سرکتا ہوا اندر چلا گیا۔ میرے جسم میں ایک سرور کی لہر دوڑ گئی۔ اپنے میاں کے بعد یہ پہلا لنڈ تھا جس نے میری چوت کو سیراب کیا تھا۔

پہلے پہل تو وہ آہستہ آہستہ چودتا رہا اور میری چوت کو ترساتا بھی رہا مگر اب اس کے دھکوں میں تیزی آگئی۔ اس کا لنڈ میری چوت کے آخری کونے تک سرکتا ہوا جاتا اور پھر واپس چوت کے داہنے تک آتا۔ اور ایک بار پھر وہ تیزی سے دھکا لگاتا۔

لگاتار پانچ منٹ چودنے کے دوران میری چوت جھڑ گئی۔ اس کا لنڈ بھی میری چوت سے گیلا ہو گیا اور تیزی سے پھسلنے لگا۔ اب وہ بھی فارغ ہونے لگا تھا۔ اس نے مجھے زور سے اپنے بازو میں جکڑ لیا اور میرے بوبس کو ہاتھوں میں دبا لیا۔ اس کا لنڈ میری چوت میں پانی چھوڑ رہا تھا۔

چود کر وہ فارغ ہوا اور اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا تو اچانک مجھے خیال آیا کے یہ میں نے کیا کر دیا۔ ایک غیر مرد سے چدوا لیا۔ شرم سے مجھے پسینہ آنے لگا۔ اور ٹرائوزر پہن کر عبایا ٹھیک کر کے میں مہمان خانے سے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
Like Reply
داماد نے مجھے چود ڈالا


شازیہ میرے سامنے بیٹھی تھی. اور میں پریشانی کے عالم میں اسکی شکل تک رہی تھی. میری بچی کی آنکھوں میں آنسو تھے. اور میں جانتی تھی کہ اسکا دل بہت چھوٹا سا ہے
زرا سی کوئی اونچ نیچ ہو اور اسکا دل ہول جاتا تھا.
اور آج وہ جس مصیبت سے دوچار ہوئی تھی. تو اس پر تو بڑے بڑے گھبرا جاتے ہیں. میری اکلوتی بیٹی تو میرے پاس بڑے ناز ونعم میں پلی تھی.
شازیہ کی شادی کو تین ہی مہینے ہوئے تھے. وسیم کا رشتہ شازیہ کیلیے آیا. اور میں نے جب وسیم کو دیکھا. تو وسیم مجھے پہلی ہی نظر میں بھاگیا. باقی دیکھ پرکھ میرے میاں اور دیوروں نے کرلی تھی. اور وہ بھی ہر طرح سے مطمئن تھے. اور یوں صرف تین ماہ کے عرصے میں ہی شازیہ کی شادی وسیم سے کردی گئی.
شادی کے دن شروع شروع کے تو بہت ہی پیار سے گزررہے تھے
بچی میکے آتی. تو اسکے چہرے پر جیسے قوس قزح بکھری ہوتی. خوشی اور مسرت اسکے انگ انگ سے پھوٹ پڑ رہی ہوتی تھی.
لیکن…….. آہستہ آہستہ وسیم کے روئیے میں تبدیلی آتی گئی.
اور اسکا رویہ شازیہ سے سرد ہوتا گیا. پہلے پہل تو میں نے اسکو کوئی اہمیت نہ دی. لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا تھا.
میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کرسکتی تھی.
سو میں نے وسیم سے بات کرنیکا فیصلہ کرلیا.
اور آج دوپہر کو میں نے وسیم کو گھر بلوایا تھا. کیونکہ بوقت دوپیر میرے میاں جوکہ بیمار رہتے ہیں. سورہے ہوتے ہیں. اور میرے دونوں بیٹے رضوان اور عمران اپنے اپنے آفسز میں ہوتے ہیں .
اور تقریبا تین بجے دروازے کی بیل بجی.
میں وسیم کو ڈرائینگ روم میں لے آئی. اسکو بٹھایا اور اسکے لیے کچھ ناشتے کا سامان میز پر سجادیا.
وسیم کیا بات ہے.؟ تمہارا رویہ شازیہ سے کچھ سرد ہے . کیا کوئی بات ہوئی ہے.؟
میں نے اسکے بلکل قریب ہوکر رازداری سے دریافت کیا.
اور اسکے جواب میں وسیم نے جو کچھ کہا. مجھے سن کر یقین نہیں آرہا تھا. میں حیرت اور تعجب کے مارے ہونقوں کی طرح اس کی شکل تک رہی تھی.
وسیم کہہ رہا تھا کہ بات یہ ہے میں نے یہ شادی صرف اور صرف آپکی وجہ سے کی ہے. کیونکہ مجھے تو آپ اچھی لگی تھیں.
ظاہر ہے کہ میں تو وسیم سے شادی کر نہیں سکتی تھی. میرے میاں موجود تھے . اور میرے تو بچے جوان تھے.
یعنی …….مجھ تک پہنچنے کیلیے میری بیٹی کو چارہ بنایا گیا تھا.
میں آپکو پانا چاہتا ہوں عشرت بیگم. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.
وسیم کے مسکراتے ہوئے کہے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے. اور میں گم سم بیٹھی تھی. کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ نکلے.
وسیم……یہ کیسے ممکن ہے.؟ میں تمہاری ساس ہوں. تمہاری بیوی کی ماں ہوں میں…….میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا.
جانتا ہوں آپ میری ساس ہیں. لیکن آپ ایک عورت بھی ہیں اور میری طلب ہر رشتے ناطے سے آزاد ہے. اور میں نے آپکو صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں نے یہ شادی ہی صرف آپکو حاصل کرنے کیلیے کی ہے.
وسیم نے میرا ہاتھ تھام کر کہا. اور اسکے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھرلیا. سرعت کے ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے پیوست کرلیے.
بری بات…….وسیم یہ کیا کررہے ہو……؟
میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے.
اگر آپ مجھے نہ ملیں. تو یاد رکھئے گا. کہ میرا اور شازیہ کا تعلق ایسا ہی نام کا رہیگا…..بس…..!
اور گویا اس نے دوٹوک الفاظ دھمکی دیدی.
وسیم…….بات کو سمجھنے کی کوشش کرو…….میری گھگھی بندھ گئی تھی. مجھے اندازہ ہورہا تھا. کہ اگر داماد کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو بیٹی کو طلاق بھی ہوسکتی ہے.
مجھ کو جو بتانا تھا میں نے آپکو بتادیا آگے آپکی مرضی.
اور اتنا کہکر وہ اٹھا. اور بےنیازی سے چلا گیا.
اور میں سوچوں کے سمندر میں گھری رہ گئی تھی. ایک طرف داماد کی خواہش تھی. اسمیں جتنی شدت میں دیکھ چکی تھی. اسکے بعد کچھ پوچھنا گچھنا بیکار ہی تھا. دوسری طرف بیٹی تھی. اگر وسیم کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو اسکا گھر برباد ہونا یقینی تھا.
میں ایک خوبصورت اور جاذب نظر عورت تھی. شوہر بیمار رہتے تھے. اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنسی زندگی میں ایک مرد کی کمی شدت سے محسوس کرتی تھی. میرا بھی دل تھا. جو چاہتا تھا. کہ مجھے کوئی خوب شدت سے چودے.
اور میری قسمت …..کہ یہ مرد میرے سامنے آچکا تھا.
لیکن……کس روپ میں سامنے آیا تھا……….داماد کے……..؟
میں شش و پنج میں تھی. بات ایسی تھی. کہ کسی سے مشورہ بھی نہیں کرسکتی تھی. کوئی سنتا تو کیا کہتا…..؟
لہذا….یہ فیصلہ مجھے ہی کرنا تھا. اور بالاآخر میں نے بیٹی کا گھر بچانے کا فیصلہ کرلیا.
وسیم……مجھے اپنی بچی کا گھر بچانے کیلیے تمہاری یہ شرط منظور ہے. لیکن مجھے اس بات کی ضمانت دو . کہ تمہارا رویہ شازیہ کیساتھ پہلے جیسا ہی ہوجائے گا………؟؟؟
جی بلکل….آپ اسکی فکر نہ کریں….جب وجہ ہی نہیں رہیگی سردمہری کی تو موڈ تو اپنے آپ ہی اپنے آپ صحیح ہونا ہی ہے نہ…..!
وہ اپنی فتح پر مسکرا رہا تھا…..اور میں گم سم تھی.
لیکن…….میری ایک شرط ہے وسیم……اس بار میں نے دل کڑا کر کہا.
جی کہیے…..اس کی آواز گونجی.
وسیم تمکو جو کرنا ہے کرلو….میں وہ سب کچھ کروائونگی جو تم چاہتے ہو…….لیکن صرف ایک بار……تمہاری خواہش پوری کرنے کی خاطر…..اپنی بیٹی کی خاطر……بس….دیکھو میں تمہاری بات رکھ رہی ہوں نہ…..اب تم بھی میری بات یہ بات مانو………!
اور اتنا ہی کہ کر رسیور فون پر رکھ کر میں صوفے کی پشت پر سر ٹکا آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئ. آنسو میری آنکھوں میں ڈبڈبانے لگے…….!
دو دن گزر چکے تھے…… مجھ کو وسیم سے حامی بھرے ہوئے.
اور میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ جو کام کرنا ہے..وہ تو کرنا ہی ہے……سو داماد سے دریافت کیا جائے. کہ وہ کب اپنی ساس کو نوش فرمانا پسند کرینگے,,,؟
وسیم کو فون لگا چکی تھی میں….تیسری بیل پر اس نے فون ریسیو کیا.
جی جناب…….کہئیے…..اس کی شوخ آواز ابھری.
وسیم میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد تمہاری خواہش پوری کردی جائے……میں چاہتی ہوں تم مجھکو بتادو . کب اور کہاں…..؟
میں نے صاف اور سپاٹ لب و لہجے میں کہا.
آپ دوپہر کو فارغ ہوتی ہیں نہ….. آپ یہ کریں گھر آجائیں میرے پاس….ٹھیک ہے…؟…..وہ خوش خوش بولے.
لیکن گھر میں شازیہ موجود ہوگی. اسکی موجودگی میں یہ سب کروگے میرے ساتھ…..میں نے جل کر کہا.
جی نہیں……بات یہ ہے. کہ شازیہ کل گیارہ بجے ہی پڑوس والوں کے ساتھ فارم ہاؤس جارہی ہیں. اور میں گھر پر بلکل اکیلا ہی ہونگا….!
اس نے پوری بات بتائی.
اوہ…….اچھا ٹھیک ہے. شازیہ کے نکلتے ہی مجھے کال کرکے بتادینا…..میں تمہارے پاس پہنچ جاؤنگی.
اور اتنا کہہ کر میں نے فون بند کردیا.
اور دوسرے دن دوپہر کے وقت میں تیار تھی. نہا کر کپڑے بدل کر میں ہلکا سا میک اپ کرکے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی. میں بلکل ٹھیک نظر آرہی تھی.ظاہر ہے کہ میں جو کام کرنے کیلیے جارہی تھی. وہ غلط تھا. مگر میں مجبور تھی. اگر اجاڑ ویران حالت میں جاتی تو شائد وسیم آپے سے باہر ہی نہ ہوجاتا.
اور آدھے گھنٹے بعد ہی میں وسیم کے سامنے تھی.
بیٹی پڑوس کے لوگوں کیساتھ پکنک پر جاچکی تھی. اور ساتھ ہی وسیم بھی نہا دھو کر تیار تھا. وہ مجھ کو اپنے ساتھ اپنے بیڈروم میں ہی لیکر آگیا. میں اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی تھی.
وسیم میرے لیے سوفٹ ڈرنک لے آیا. جو میں نے اس سے لیکر فورا ہی اپنے لبوں سے لگالیا اور گلاس خالی کردیا.
اب میں بہت بہتر محسوس کررہی تھی. میں نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھا. کہ وہ کیا چاہتے ہیں.؟
اور غالبا وہ میرا مطلب جان گیا تھا. یہی وجہ ہے کہ وہ میرے پاس ہی نیم دراز تھا. اور اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنے سے چپکالیا. اور اس کے لب میرے لبوں سے پیوست ہوگئے. اب وہ میری زبان کو اپنے لبوں سے چوس رہا تھا.
وسیم……تم کو میری بات یاد ہے نہ….میں نے ایک لمحے کیلیے اس کو روک کر کہا.
جی…..مجھے آپکی شرط اور اپنا وعدہ یاد ہے…انھوں نے فورا ہی جوابا کہا…..اور فورا ہی اس نے پھر میری زبان کو چوسنا لگا.
اور اسی دوران اس کے ہاتھ میرے جسم پر حرکت میں آگئے.
انھوں نے میری قمیض اوہر کرنی شروع کی. میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے اپنی قمیض اتروانے میں اس کی مدد کی……اور دوسرے ہی لمحے میری قمیض اتر کر فرش پر گر چکی تھی…….اب اس کا ہاتھ میری شلوار پر تھا.
انھوں نے ایک ہی جھٹکے میں میرا ازاربند کھینچا. اور میری شلوار بھی کھولدی.
اور یوں اب میں صرف ایک Bra میں رہ گئی تھی.
کالے رنگ کا نیٹ کا Braجس میں سے میرے ممے صاف نظر آرہے تھے……. وسیم مجھے ننگا دیکھکر بہت ہی جذباتی ہورہا تھا. یہی وجہ ہے کہ اس نے فورا ہی اپنے کپڑے بھی اتار پھینکے. اور مجھے بیڈ پر لٹا کر میرے بدن کو اپنے بازووں میں جکڑا. اور میرے ہونٹوں اور گالوں کو دیوانہ وار چوسنے اور چاٹنے لگا. اور مجھے ایسا لگنے لگا. کہ جیسے پیاسی زمین پر بارش کے قطرے ٹپ ٹپ کرکے گررہے ہوں.
اس کی زبان اور ہونٹ بہت ہی گرم ہورہے تھے. ہونٹوں سے سانس اگ کیطرح نکل رہی تھی. اور میں بستر پر بلکل چت لیٹی یہ سب کروارہی تھی.
اوووووہ………اوووووف……..اوووووووف.
میں اپنے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کررہی تھی.
یہ جتانا چاہ رہی تھی. کہ یہ سب میں مجبورا کررہی ہوں.
وسیم کے ہاتھ میرے بدن کو سہلارہا تھا. ہونٹ میرے ہونٹوں اور گالوں کو چوم رہا تھا. وہ مجھ سے لپٹے ہوئے تھے. اس طرح کہ جیسے وہ میرے اندر اتر چکے ہوں.
اور میری اپنی یہ کیفیت ہورہی تھی. کہ میرے اندر کی عورت اس پہلے ہی مرحلے پر مستی بھری انگڑائیاں لینے لگی تھی. دل پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ عشرت بیگم مزے کرلو. جو کام کرنا ہی کرنا ہے. تو پھر اس کو بھرپور مزے لیکر کیا جائے تو کیا حرج ہے.؟
میں گو مگوں کی کیفیت میں وسیم کے نیچے تھی.
اور اب وسیم نیچے ہوتے ہوتے میرے گلے کو چومنے لگا تھا.
اوووف……گلے کو چومنے اور چوسنے میں مزہ ہونٹوں کو چوسنے سے بھی زیادہ مل رہا تھا.
میں بے اختیار ہی سسک پڑی……..ہااااااااااااہ…………!
اور میں نے اپنے ہاتھ پھیلا لئے. اور مجھ کو محسوس ہونے لگا. کہ میں کسی بھی وقت یہ سب خوشی سے کرواسکتی ہوں.
وسیم چند ہی لمحوں میں گلے سے ہوتے ہوتے مزید نیچے آرہا تھا. اب وہ Bra اتار کر میرے مموں کو چوس رہا تھا. وہ کبھی ایک دودھ اپنے منھ میں لیکر اس کو چوستا اور دوسرے والے کو اپنی انگلیوں سے دباتا. تو کبھی دوسرے والے کو چوستا
اور پہلے والے کو دباتا………!
اور ادھر میری حالت غیر ہورہی تھی……!
جسم چوسے اور چاٹے جانے سے گرم ہوچکا تھا. دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی. انگ انگ میں میں بجلیاں سی دوڑتی محسوس ہورہی تھیں. مجھ کو لگ رہا تھا. کہ وسیم کا لورا میری چوت میں گھسنے سے پہلے ہی میں اپنی شرم کو بالائے طاق رکھکر وسیم کو اپنے سے لپٹا کر اس کا برابر کا ساتھ دینے لگوں گی.
میں ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت تھی. تین بچوں کی ماں تھی. لیکن میرے میاں نے مجھ کو بلکل واجبی انداز میں ہی چودا تھا. اور آج میں جس طرح چدوانے کے عمل سے گزر رہی تھی. اسطرح کا میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا……!
اور اب وہ میری چھاتیاں خوب چوس چوس کر میرے پیٹ پر گہرےگہرے بوسے لے رہا تھا. اور اس کے بوسے لینے سے مجھے اپنا پیٹ لرزتا ہوا محسوس ہورہا تھا.
میں “ہاں. اور. ناں ” کی اضطرابی کیفیت میں الجھی ہوئی تھی.
اور جب وہ پیٹ سے نیچے ہوتے ہوئے میری چؤت پر آیا اور میری ٹانگیں چیریں. اور اپنے ہونٹ چؤت پر گاڑ کر اس کو چوسنے لگا……وہ کبھی چؤت کو اوپر سے چوستا تو کبھی اس کے اندر زبان ڈال کر اسکا اندرونی حصہ چاٹنے لگتا.
اور مجھ کو اب احساس ہورہا تھا. کہ میرے ضبط کا بندھن اب ٹوٹا ……..اور جب ٹوٹا……….کیونکہ مجھے اچانک ہی احساس ہوا کہ میری چؤت نے لذت اور جوش میں آن کر اپنے اندر سے پانی چھوڑنا شروع کردیا ہے. جو اس بات کی دلیل تھی. کہ یہ بھرپور چؤدائی چاہتی ہے. ہر رشتہ ناطہ کو بالائے طاق رکھکر………..!
وسیم میری ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے میری چؤت پر جھکا ہوا اس کو اپنی زبان سے گرم دہکتا ہوا انگارہ بنارہا تھا. میرے بدن پر لرزہ طاری تھا.
اور پھر بالاآخر……….میں نے بھی اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ کر دوٹوک فیصلہ لیلیا.
میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے وسیم کے سر کو پکڑا. اور مزے کے مارے اس کے سر کو اپنی چؤت کے اور اندر کرنے کی کوشش کرنے لگی….اور ساتھ ہی میرے ہونٹوں سے پرکیف آہیں نکلنے لگیں. اور وہ بھی ایسی کہ کمرہ میری سسکیوں سے گونجنے لگا. اور میں نے وسیم سے اپنے رشتے ناطے کا لحاظ ایک طرف رکھ کر اپنا آپ اس کے حوالے کردیا.
وسیم……وسیم……..اوووہ جانوں …..یہ کیا کررہے ہو تم…
میری جان میں تو ساس ہوں تمہاری………یہ کیا کردیا تم نے مجھے…..میرا دم نکال دیا تم نے تو مزے کے مارے……….
اور دوسری طرف وسیم میری غیر متوقع رضامندی اور اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سمارہا تھا.
وہ دوزانو ہوکر بیٹھا. میرے بھاری چوتڑوں کو اوپر اٹھایا. اور اپنی گرفت میں میری کمر کو لے کر زبان پھر سے میری چؤت میں گھسائی اور اس کو چاٹنے لگا.
میرا دھڑ بستر پر لگا ہوا تھا. اور ٹانگیں فضاء میں معلق اور ٹانگوں کے درمیان میں اس نے اپنا سر پھنسایا ہوا. اور دیوانہ وار میری چؤت کو چوس چوس کر پاگل کررہا تھا.
میں جو کچھ دیر پہلے یہ سوچ کر وسیم کے نیچے لیٹی تھی.
کہ اپنے تاثرات سے یہی ظاہر کرونگی. کہ میں مجبور ہوکر یہ سب کروارہی ہوں. اب مزے میں ڈوب چکی تھی. بند آنکھوں میں لطف کے رنگ اتررہے تھے. اور لبوں سے آہیں اور سسکیاں نکل رہی تھیں . چہرے پر ماتمی تاثرات کی جگہ شرمیلی سی مسکراہٹ نے لے لی تھی. کہ اب داماد جی میری چوت میں اپنا تنا لؤڑا چڑھائیں گے تو کتنا مزہ آئیگا.
میں یہ سوچکر ہی شرمائے جارہی تھی.
میری چوت کو چوس چوس کر بھرپور طریقے سے وسیم نے اسکو گرم بھی کیا. گیلا بھی کیا. وہ اس قابل ہوگئی تھی. کہ باآسانی لؤڑا اپنے اندر سمو سکے.
وسیم نے میری چؤت چسائی روکی . اور میرے چہرے کے پاس آن کر اپنا لؤڑا میرے سامنے کردیا.
وسیم چودو نہ آپ مجھے…میں نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا.
پہلے آپ کو میرا لؤڑا چوسنا ہوگا…..اس نے خمار آلود لہجے میں کہا.
وسیم…..نہیں نہ…….میں نے تمہارے سسر کا بھی کبھی نہیں چوسا…….میں نے انھیں دھیرے سے سمجھایا.
تو داماد کا چوس لیں…..کیا آپ کو میرے ساتھ مزہ نہیں آرہا.
اس کے لہجے میں پتہ نہیں کیا تھا. کہ میں انکار نہ کرسکی. میں نے اپنے لبوں کو کھول لیا.اور اس نے اپنا لؤڑا میرے منھ میں داخل کردیا.
میں زندگی میں پہلی بار لؤڑا چوس رہی تھی. لیکن پہلی ہی بار میں مجھے لؤڑا چوسنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا. میں بلکل لولی پوپ کی طرح اس کو چوس رہی تھی.
دھیرے دھیرے میرے ہونٹ اس کو اپنے منھ میں اوپر نیچے کررہے تھے. اس کو چوس کر مجھے یہ بھی معلوم ہوا. کہ پورے بدن میں سب سے زیادہ چکنی جلد لؤڑے کی ہی ہوتی ہے. …….میری پوری کوشش تھی کہ صرف میرے ہونٹ ہی لؤڑے کو چھوتے رہیں. میرے دانت ہرگز اس پر نہ لگیں. ایسا نہ ہو کہ دانتوں کی رگڑ لگنے سے اس کو خراش وغیرہ نہ آجائے.
وسیم بہت ہی خوش لگ رہا تھا . وہ میرے لؤڑا چوسنے سے آہیں بھررہا تھا. جو بہت ہی پرکیف اور لذت بھری تھیں. اس کی ان آہوں اور پیار بھری سسکیوں سے مجھے حوصلہ مل رہا تھا. ہاں یہ ضرور تھا کہ لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے مجھ کو اپنا منھ بلکل پورا کھولنا پڑ رہا تھا. لیکن اب میں بھی ڈٹ چکی تھی.
کیونکہ وسیم جب اپنا لؤڑا میرے منھ سے نکالنے لگے. تو میں نے انکو روک دیا.
اور پھر میں اسکو پورا ہی اپنے منھ میں سمونے کی کوشش کرنے لگی. میں نے زور لگا کر لؤڑے کو اندر اور اندر لیا. اور آہستہ آہستہ لؤڑا میرے حلق کے اندر تک آگیا.
میں وہیں رک گئی. اور اپنے منھ سے باہر کیطرف سانس خارج کرنے لگی. اور نتیجہ ہی ہوا. کہ اس عمل سے وسیم کے لؤڑے کو گرمائی ملنے لگی. وہ مزے کے مارے بہکنے لگا.
اووووووہ… ممی…ممی…..یہ کیا کررہیں ہیں آپ… ممی میں تو یہیں پر ہی خالی ہوجاؤنگا.
وہ مزے کے مارے بول پڑا تھا.
اس کی یہ بات سنکر میں نے اس کے لؤڑے کو چھوڑ دیا.
وسیم …..چلو چؤدو مجھے…..میں نے اس کو گرین سگنل دیدیا
اور وسیم میرے اوپر لیٹا. اپنا لؤڑا میری چؤت پر رکھا. اور ساتھ ہی زور کا دھکا مارا.
حالانکہ میری چؤت چوسنے کی وجہ سے بلکل گیلی تھی.
لؤڑا اس میں ایک دم پھسلتا ہوا گیا تھا. مگر دھکا تو پھر دھکا ہی تھا. وہ پھر بھی اسقدر تگڑا محسوس ہوا تھا مجھکو. کہ لؤڑا اندر لینے کے نتیجے میں میری چوت لرز کر رہ گئی.
میں زور کی آہ بھر کر رہ گئی.
وسیم …….پلیز…..رسانی سے زرا….پلیز…..میں نے اس کو سمجھایا.
فکر نہ کریں…… چؤدائی مزے اور لذت کا نام ہے. آپ کو صرف مزہ ملے گا……اور اس کی بات سن کر میں بے فکر ہوگئی.
اب اس نے اپنا لؤڑا ہولے ہولے آگے پیچھے چلانا شروع کیا .
اور میں مزے میں ڈولنے لگی. لؤڑا اندر سے میری چؤت کو رگڑ رہا تھا. لگ رہا تھا جیسے چؤت اندر سے حرارت خارج کررہی ہے. دھواں چھوڑ رہی ہے. میرے چہرے پر مسکراہٹ آچکی تھی. جو اس بات کا کھلا اظہار تھی. کہ میں اپنے داماد کی ممنون و مشکور تھی.
میں داماد کے نیچے لیٹی چدوارہی تھی.وہ پورے پیار کیساتھ اپنا لؤڑا میری چؤت میں دھکم دھکا چلا رہا تھا.
میں اس کو اپنی بانہوں میں لیے ہوئے تھی.
وسیم…..ڈارلنگ کیا شازیہ کو بھی ایسے ہی چودتے ہو.
میں مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی.
جی نہیں…..آپکو دیکھ کر یہ سب کرنے کا دل چاہتا ہے. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئ کشش محسوس نہیں ہوتی.
اس نے صاف الفاظ میں کہا.
اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے دھکے لگانے کی رفتار تیز کردی.
مجھ کو لگا کہ کوئی لوہے کا گرم گرم ڈنڈا میری چؤت میں اوپر نیچے کسی پسٹن پمپ کی طرح آنا جانا کررہا ہو.
میں نے مضبوطی سے وسیم کی کمر میں بانہیں ڈال دیں تھیں. لؤڑا میری چوت کی آخری حد تک جاکر ٹکرا ریا تھا. جس سے مجھے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوتا. لیکن مجھے اسقدر لطف اور مزہ مل رہا تھا. کہ اس کے آگے اس درد کی کوئی اوقات نہیں تھی.
وسیم چؤد رہا تھا ….آہیں بھر رہا تھا مزے کے مارے.
میں چدوارہی تھی. اور مزے کے مارے سسک رہی تھی.
وسیم….. وسیم……اووووہ…..اووووووووہ…….
نڈھال کردیا تم نے تو مجھے……
میں مکمل طور پر اب اس کے قابو میں آچکی تھی.
مجھے معلوم تھا….آپ جیسی خوبصورت اور گرم عورت پہلی ہی چدائی میں میری ہوجائیگی.
وہ مجھے چؤدتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہا تھا.
تم نے چؤدا بھی تو اسطرح ہے. مجھے میرے میاں نے کبھی اس طرح نہیں چؤدا.
میں بھی پوری طرح مزے میں آچکی تھی.
اور میں نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ اچانک ہی مجھے اپنی چؤت میں شدید قسم کی مستی بھری گدگدی محسوس ہوئی. مجھ کو احساس ہوگیا کہ میں جانے والی ہوں. مارے جوش کے میرے منھ سے زور دار چیخ نکلی.
اووووووووووو………اوووووووووووووو…….!
میرا پورا جسم اکڑ گیا . میں نے وسیم کو اپنی بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا. میرا ہورا بدن بری طرح لرزا ….اور
ساتھ ہی میری چؤت نے اپنے اندر سے لیس دار پانی باہر نکال دیا.
اور فورا ہی میں بے دم ہوکر بستر پر ڈھیلی پڑگئ.
لیکن وسیم مجھے برابر کے دھکے مار رہا تھا.
میں اپنے خالی ہونے سے پہلے جس طرح اس کا جم کے ساتھ دے رہی تھی. اب مجھے اس کا چؤدنا بوجھ لگ رہا تھا.
لگ رہا تھا کہ میرے ہوش و حواس جواب دے جائینگے.
وسیم پلیز بس ……بس کرو……بس کرو …….میں منمنائی.
آپ فارغ ہوئیں ہیں میں تو نہیں ہوا نہ….وہ مسلسل مجھے چودے ہی جارہا تھا..
رحم کرو…….وسیم میرا دم نکل جائیگا…..اووووہ….
کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑدو…
اور ساتھ ہی میرا سانس ہانپنے لگا. اور میں بلکل ہی بے سدھ ہوگئی.
اور وسیم جو کسی طور نہیں مان رہا تھا. میری اس بات پر خوشی سے پاگل ہوگیا کہ کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑ دو.
اس نے اپنا لؤڑا میری چوت سے نکالا. اورمجھے سیدھا کرکے لٹایا. اور اپنا لوڑا میرے چہرے کے عین سامنے لاکر اس کی مٹھ مارنے لگا.
اور بمشکل….ڈیڑھ دو منٹ ہی اسے رگڑا تھا کہ اس کے لؤڑے نے زور کی گرم گرم دھار منی اگل دی. جو بلکل سیدھی میرے چہرے پر آئی. میں اس کو کچھ بھی نہ کہہ پائی. کیونکہ اس کو اس محبت بھرے کھیل کا انجام یادگار بھی تو کرنا تھا.
اس کے لؤڑے نے اپنی ساری آگ میرے چہرے پر اگل دی تھی. اور وہ بھی خالی ہوکر میرے ہونٹوں سے چوم رہا تھا. اور میں آنکھیں بند کرکے سکون سے لیٹی ہوئی تھی.مجھ کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی. کہ میرا چہرہ اس کی منی سے چپک رہا ہے.
وسیم مجھ پر جھکا اس نے میرے لبوں پر ایک گہرا بوسہ لیا. اور مجھ سے بولا.
آپ میری ساس ہیں. میں نے آپکو چؤدا ہے. مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے. میں آپ کو چود کر بے انتہا خوش ہوں. اور اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور باتھ روم کی طرف نہانے چلدیا. جبکہ میں نے بستر پر ہی لیٹے رہنے کو ترجیح دی. شام 6 بجے تک وسیم مجھے میرے گھر وآپس لا چکا تھا. آج تیسرا دن تھا. میں گھر کے کام نمٹا کر تیار ہورہی تھی.
میں نے وسیم کو فون لگایا. جی…..اس کی شوخ چنچل آواز آئی. آجاؤ وسیم تمہاری دعوت ہے….میں خوشی سے بے حال ہورہی تھی . جی میں آرہا ہوں….وہ بھی خوشی سے بولا.
میری قربانی کے نتیجے میں بیٹی خوش ہے ……! داماد بھی بہت خوش ہیں. لیکن میں سب سے زیادہ خوش ہوں. کیونکہ میری ویران زندگی میں بھی بہار آگئی ہے

Like Reply
میری شادی میری پسند سے ہوئی تھی۔ میری بیوی ایک خوبصورت ترین اور سیکی عورت ہے۔ اور میری سالی بھی کسی سیکس کی پڑیا سے کم نہیں تھی۔ میری شادی کو تین سال ہو چکے تھے میری بے تکلفی میری سالی کے ساتھ کافی زیادہ تھی۔ میرا سسرال پٹھان فیملی سے تعلق رکھتا ہے انکے خاندان کی ساری لڑکیاں ایکدم سرخ سفید ہیں۔ اور بہت ہی خوبصورت اور سیکسی۔
میری سالی کی عمر اس وقت بیس سال تھی جبکہ میری بیوی بائیس سال کی تھی اور میری اپنی عمر اٹھائیس سال تھی۔ میں اس وقت ایک کمپنی میں بہت اچھی جاب پر تھا میرا ٹرانسفر کمپنی نے ایک دوسرے شہر کردیا تھا جہاں نہ تو میرے گھر والے تھے اور نہ ہی میرے سسرال والے یہ دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔ میں اپنی بیوی کو لے کر اس گھر میں شفٹ ہو گیا تھا۔ میری بیوی کا نام حمیرا تھا جبکہ میری سالی کا نام سمیرا تھا۔ ایک دن میری بیوی نے مجھے بتایا کہ وہ سمیرا کو یہاں بلوا رہی ہے وہاں گھر میں کچھ پرابلم ہے اور سمیرا کافی ڈسٹرب ہے۔ میں نے اسکو بخوشی اجازت دے دی اس میں منع کرنے والی کوئی بات تھی بھی نہیں کیونکہ سمیرا کو نزدیک رکھنا تو میری دلی خواہش تھی میں اسکے ساتھ سیکس تو نہیں کر سکتا تھا مگر اسکو اپنے قریب تو رکھ سکتا تھا حالانکہ میرے دل میں اسکے ساتھ سیکس کرنے کی شدید خواہش تھی۔ وہ ایک ایسی لڑکی تھی جس میں سیکس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ کس پاگل کا دل نہیں چاہے گا اسکے ساتھ سیکس کرنے کا۔ میں بھی تو آخر مرد تھا ایک روٹی سے پیٹ کہاں بھرتا ہے۔
خیر کچھ دن بعد سمیرا ہمارے گھر آگئی اسکے چہرے کی اداسی سے مجھے کچھ اندازہ تو نہ ہوا مگر یہ سمجھ آگیا کہ واقعی کچھ گڑبڑ ہے۔ خیر سمیرا آگئی۔ اب اسے کچھ دن یہاں رہنا تھا۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ بات چیت نہیں کر رہی تھی۔
میں آپ کو یہ بتابا بھول گیا کہ میری بیوی اپنا وقت گذارنے کے لیے ایک اسکول میں پڑھا رہی تھی۔ سارا دن وہ اکیلی ہوتی تھی تو اس نے ایک اسکول میں جاب اسٹارٹ کردی وہ دن میں واپس گھر آجاتی تھی۔ خیر سمیرا کو رہتے ایک ہفتہ ہوگیا تھا میں اور میری بیوی اسکو تقریباً روزانہ ہی باہر لے جاتے تھے اور رات کو دیر سے واپس آتے تھے تاکہ سمیرا کا دل بہل جائے۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا تھا کہ وجہ کیا ہے جو سمیرا اتنی اداس اور اپ سیٹ ہے تو میری بیوی نے بتایا کہ ابو اسکی شادی اسکی مرضی کے خلاف کرنا چاہتے ہیں وہ کسی اور لڑکے میں دلچپسی رکھتی ہے جبکہ والد اسکے خلاف اپنے دوست کے بیٹے سے اسکی شادی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نہ ماننے پر اسکے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں۔ میں یہ سن کر سوچ میں پڑگیا کہ اب کیا کیا جائے سمیرا تو کسی اور میں دلچسپی رکھتی ہے وہ تو کبھی بھی ہاتھ نہیں رکھنے دے گی۔ اور اگر اس نے شور مچا دیا تو میری تو زندگی تباہ ہو جائے گی۔
مگر ایک رات اچانک میرے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ میری بیوی اس رات مزے سے میرے ساتھ بھرپور سیکس کرنے کے بعد سو رہی تھی۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی تو میں اٹھا اور فریج سے پانی نکالنے لگا تو معلوم ہوا کہ کمرے میں رکھے فریج میں ایک بھی بوتل ٹھنڈے پانی کی نہیں ہے تو میں نے کمرے سے باہر جا کر کچن کے فریج سے پانی پینا چاہا۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کچن کے سامنے ٹیلی فون کا اسٹینڈ تھا جہاں سمیرا کھڑی کسی سے فون پر باتیں کر رہی تھی اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا کسی نہ کسی چیز کی آڑ لیتا ہوا سمیرا کے نزدیک پہنچ گیا میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سمیرا نے اپنا ایک ہاتھ اپنی شلوار میں ڈالا ہوا تھااور یقیناً وہ اپنی چوت کو مسل رہی تھی بلکہ وہ ان ہدایات ہر عمل پیرا تھی جو اسے فون پر مل رہی تھیں شاید وہ اپنے بوائے فرینڈ سے باتیں کر رہی تھی اور انکے تعلقات کافی زیادہ تھے جو کہ شاید سیکس تک جا پہنچے تھے سمیرا اس سے باتوں میں بھی اپنی چاہت اور سیکس کی طلب کا اظہار کر رہی تھی۔ اور وہ لڑکا شاید اسکو گائیڈ کر رہا تھا کہ کس طرح وہ اس وقت اپنی پیاس بجھا سکتی ہے سو وہ ایسا ہی کر رہی تھی۔
یہ سب دیکھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا تو لگا مگر میری خوشی کی انتہا بھی نہ رہی کیونکہ میں اب سمیرا پر ہاتھ ڈال سکتا تھا اب تک میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ سیل پیک ہوگی اور اس لڑکے کے علاوہ کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دے گی۔ مگر انکے تعلقات کا اندازہ کر کے میں نے یہ اندازہ لگا لیا کہ اب سمیرا پر ہاتھ ڈالنا مشکل نہیں ہے۔اگر اس نے شور بھی مچایا تو میں اسکو اس فوں پر ہونے والی بات چیت اور اسکی حرکتوں کو بتا کر بلیک میل کرسکتا ہوں۔ اب میرے ہاتھ میں سمیرا کی کمزوری آگئی تھی۔خیر یہ سب دیکھ کر مین پانی پیئے بغیر واپس آگیا۔ اور اسکے بعد مجھے نیند نہیں آئی میں پوری رات سوچتا رہا اور منصوبہ بناتا رہا کہ کسی طرح سمیرا پرہاتھ رکھا جائے کہ وہ آرام سے میری بانہوں میں آجائے۔ خیراسی سوچ بچار میں صبح ہوگئی اور میرے آفس جانے کا وقت ہوگیا ۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ سمیرا ابھی تک سو رہی ہے ناشتہ نہیں کرے گی وہ ۔ اس نے جواب دیا ہاں پتہ نہیں ابھی تک سو رہی ہے شاید طبیعت ٹھیک نہ ہو میں دیکھ لونگی آپ ناشتہ کر کے آفس جائیں مجھے بھی دیر ہو رہی ہے اسکول سے ۔ میں اسکی بات سن کر ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد آفس کے لیے روانہ ہوگیا۔ آفس میں بھی سارا دن میں منصوبے ہی بناتا رہا پھر شام کو واپس آیا تو میری بیوی میرے لیے ایک خوشخبری لے کر بیٹھی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسکول میں ایک سیمینار ہو رہا ہے اسکو دو دن کے لیے ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا ہے جو کہ دوسرے شہر میں تھا، میں نے اس سے کہا ٹھیک ہے میں آفس میں چھٹیوں کے لیے اپلائی کر دیتا ہوں پھر ساتھ چلیں گے۔ اس نے جواب دیا نہیں مجھے اکیلے ہی جانا ہوگا کسی کے ساتھ نہیں جاسکتی کیونکہ اسکول کی اور بھی ٹیچرز ہیں جو جارہی ہیں سارا انتظام اسکول کررہا ہے ہماری رہائش اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا۔ یہ سن کر تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا پھر میں نے کہا میں کیا گھر میں اکیلا رہونگا اس نے جواب دیا سمیراہے نہ آپکے ساتھ اور پھر میں دو دن میں واپس آجاؤنگی۔ میں نے اداس ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس کو اجازت دے دی۔ پھر ہم لوگوں نے کھانا کھایا اور سونے کی تیاری کرنے لگے میں نے اپنی بیوی کو اپنے اعتماد میں رکھنے کے لیے اس سے پوری رات بھرپور پیار کیا اور اسکو سیکس کا ہر ممکن مزہ دیا۔ وہ صبح جب اٹھی تو بڑی خوش تھی کہ اسکو اتنا پیار کرنے والا شوہر ملا ہے جو اسکی دو دن کی جدائی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔
خیر میری بیوی فٹافٹ تیار ہو کر اپنے اسکول چلی گئ اب اسکو تیسرے دن واپس آنا تھا۔ اب گھر میں میں اورسمیرا تھے، مجھے بھی اب آفس جانا تھا سو میں بھی تیار ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی آفس چلا گیا۔ خیر میں پلان کر چکا تھا کہ آج کی رات کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ آفس میں اپنا پلان ترتیب دیا اور اس پر عمل کرنے کا سوچ لیا۔
میں آفس سے واپس شام میں گھر آیا تو سمیرا کے اندر کچھ بے چینی محسوس کی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو مگر کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی خیر میں اس کو نظر انداز کرتا رہا۔ پھر اسی طرح وقت گذرا اور رات کے کھانے کا وقت ہوگیا سمیرا نے بہت اچھا کھانا بنایا تھا میں کھانے کے دوران اسکے کھانے کی تعریف کرتا رہا اور وہ شکریہ ادا کرکے خاموشی سے کھانے میں مصروف رہی۔خیر کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر سمیرا تو برتن دھونے چلی گئی اور میں چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا جیسے مجھے سونا ہو مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا سمیرا سے کس طرح بات شروع کروں ابھی سوچتے کچھ دیر ہی گذری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی میں نے بولا آجاؤ سمیرا اندر آگئی میں نے کہا کیا ہوا ٹھیک تو ہو۔ وہ خاموشی سے میرے سامنے بیٹھ گئی اور کچھ نہ بولی میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا سمیرا بتاؤ کیا بات ہے۔ تم پریشان کیوں لگ رہی ہو مجھے۔ پھر وہ بلک بلک کر ایکدم سے رونا شروع ہوگئی میں اٹھا اور اسکے نزدیک گیا اور اسکو تسلی دینے لگا کچھ دیر رونے کے بعد وہ چپ ہوئی تو پھر اپنی کہانی سنانا شروع کردی۔اس نے بتایا کہ وہ کسی لڑکے سے محبت کرتی ہے اور اس سے ملی بھی کئی دفعہ ہے اور اسکے سوا کسی اور سے شادی نہیں کرنا چاہتی ہے۔ اور اسکو میری مدد کی ضرورت ہے میں نے ایکدم اس سے ایک ایسا سوال کردیا جسکو سن کر وہ اچھل پڑی میں نے اس سے پوچھا تم نے اس لڑکے کے ساتھ سیکس کیا ہے۔ وہ یہ سوال سن کر حیرت سے مجھے دیکھنے لگی پھر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا پھر سر جھکا کر آہستہ سے بولی نہیں ایسا کچھ نہیں کیا میں نے ۔ پھر میں نے کہا کچھ تو ایسا ضرور ہے جو تم کو اتنی طلب ہے اسکی۔ ورنہ ایسا نہیں ہوتا۔ اب سمیرا لاجواب تھی اسکی چوری پکڑی جارہی تھی۔ پھر وہ بولی ہم لوگ ملے ضرور ہیں مگر کوئی غلط کام نہیں کیا ہم نے۔ پھر میں اسکو باتوں میں لگاتا رہا اور آخر کار میں نے اگلوالیا کہ ان دونوں نے کسنگ بھی کی ہے اور ایک دوسرے کو ننگا تک دیکھا ہے مگر سیکس نہیں کیا۔ سو اب باری میری تھی اپنا پتہ چلنے کی۔
میں نے پوچھا تمہیں بہت طلب ہے اسکی؟
جی! سمیرا نے جواب دیا
اگر میں تمہاری یہ طلب پوری کردوں تو؟
وہ میری بات سن کر اچھلی ایسے جیسے کسی سانپ کو دیکھا ہو۔ اور حیران نظروں سے میری جانب دیکھنے لگی، پھر میں نے اسکو باتوں میں لگایااور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو تم بھی جوان ہو اور میں بھی مجھے بھی سیکس کی ضرورت ہے اور تمہیں بھی تم اسکے بغیر نہیں رہ سکتی میں اپنی بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج کی رات ہم دونوں اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں اگر تم چاہو اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی اور کچھ نہ بولی۔ پھر میں نے دوبارہ اس سے یہ ہی سوال کیا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا مگر سر جھکا کر بیٹھی رہی۔
میں اسکے پاس سے اٹھا اور کہا تم اپنے کمرے میں جاؤ اور سوچو پھر اگر تم راضی ہو تو آجانا واپس نہیں تو سمجھ لینا ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔۔ یہ کہہ کر میں اپنے بیڈ پر بیٹھ گیا وہ بھی خاموشی سے اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ جو پتہ چلا ہے وہ سر ہوگا کہ نہیں۔ ایسا تو نہیں کہ یہ رات خالی جائے گی۔لیکن تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہی میرے دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی میں خوشی سے اچھل پڑا اور جاکر دروازہ کھولا تو دروازے پر سمیرا سر جھکائے کھڑی تھی۔میں سمیرا کو دیکھ کر خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا۔ میں نے سمیرا کا ہاتھ پکڑا اور اسکو اپنی جانب کھینچ کر اپنے ساتھ لپٹا لیا اور مظبوطی سے جکڑ لیا سمیرا بھی مجھے اپنی انہوں میں جکڑ چکی تھی اسکا نرم اور گداز جسم محسوس کرتے ہی میرے لنڈ میں حرکت شروع ہوگئی۔ میں نے سمیرا کو اپنے ساتھ لپٹائے لپٹائے اندر کھینچ لیا اور روم کا دروازہ بند کردیا۔ پھر میں نے اسکو خود سے الگ کیااور اسکی جاب دیکھا تو ابھی تک نظریں نیچے کیئے ہوئے تھی میں نے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر ایک بھرپور کس کیا۔ وہ بھی میرے کس کا جواب دینے لگی پھر میں نے دونوں ہاتھ پیچھے لے جاکر اسکے کولہے اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر زور سے دبائے جس سے اس نے ایک لمبی سانس لی اور اچھل کر مزید میرے ساتھ چپک گئی پھر میں نے ذرا دیر اسکے کولہوں کا مساج کرنے کے بعد اسکی شرٹ میں پچھے سے ہی ہاتھ ڈالا اور اسکی ننگی کمر کو سہلانے لگا۔ وہ اب مست ہونے لگی تھی اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔میں اب واپس ہاتھ نیچے کی طرف لایا اور یہ جان کر میری خوشی کی انتہا نہ تھی کہ سمیرا نے شلوار میں الاسٹک ڈالی ہوئی تھی میں نے دونوں ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیئے اور اسکے کولہوں کو جکڑ کر ایک بار پھر سے بھرپور طریقے سے سہلانے لگا۔ وہ اب بری طرح مچل رہی تھی کہ میں کسی طرح اسکو چھوڑ دوں شاید اسکی بے تابی بڑھ رہی تھی۔ خیر میں اسکو کیا چھوڑتا میں نے ایک ہی جھٹکے سے اسکی شلوار کو گھٹنوں تک کھینچ کر اتار دیا۔ اب وہ نیچے نیچے تو ننگی ہو گئی تھی اسکی گوری رانیں دیکھ کر میرا دل مچل اٹھا تھا۔ اور اب میری برداشت سے بھی باہر ہو رہا تھا کہ اسکو چودے بغیر سکون نہیں ملنا تھا مجھے۔ اب میں اسکے ممے دیکھنا چاہتا تھا سو اب میں نے اسکی قمیض پر حملہ کیا اور چیک کیا تو پتہ چلا کہ اس نے ایک زپ والی قمیض پہنی تھی میں نے اس زپ کو ایکدم نیچے کیا تو کافی چست ہونے کی وجہ سے ایکدم ہی نیچے ڈھلک گئی۔ اور اسکے شانے ننگے ہو گئے جس پر پتلی سی بریزی کی اسٹرپ جو کہ بلیک کلر کی تھی اسکے گورے بدن پر قیامت ڈھا رہی تھی۔اب میں مزید انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا اسکی چوت کو اپنے موٹے لنڈ سے بھرنا تھا مجھے۔ اسکی چوت کی گرمی اور نرمی سے اپنے لنڈ کو فیضیاب کرنا تھا۔ سو میں نے اس سے کہا سمیرا اب مزید انتظار نہیں ہوتا اس نے پہلی بار میری بات کا جواب دیا مجھ سے بھی اب انتظار نہیں ہو رہا جلدی کریں۔ میں اسکی بات سن کر خوشی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ میں نے فٹافٹ اسکی قمیض کو اسکے خوبصورت بدن سے الگ کیا۔ اور پھر اسکے بریزر کے ہک کھول کر اسکے بڑے بڑے ممے کو آزاد کردیا وہ ایسے اچھل کر میرے منہ کے سامنے آئے جیسے پکا ہوا آم ہو ایکدم گورے اور چکنے ممے۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ میں تو خوشی سے دیوانہ ہورہا تھا میری رال ٹپکنے کو تھی۔ پھر میں نے اسکی شلوار جو ابھی تک گھٹنوں تک تھی اسے بھی اتار اب وہ میرے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھی۔ اسکا گورا اور سیکسی بدن مجھے بھرپور دعوت دے رہا تھا۔ اب میری باری تھی اپنے کپڑے اتارنے کی میں نے جلدی جلدی اپنا نائٹ سوٹ اتارا مگر انڈروئیر کو چھوڑ دیا سمیرا کے لیے۔اب میں نے سمیرا کی جانب دیکھا تو وہ سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھی میں اسکو دیکھ کر مسکرایا اور کہا تمہارے سارے کپڑے میں نے اتارے ہیں میرا ایک کپڑا تو کم سے کم تم بھی اتارو۔وہ میری بات سن کر شرمائی مگر پھر اگلے ہی لمحے وہ آگئے بڑھی اور میری انڈرویئر میں ہاتھ ڈال کر میرا لنڈ پکڑ لیا۔ میں ایسے اچھلا جیسے میرے لنڈ کو کرنٹ لگا ہو۔ مگر اسکے نرم ملائم ہاتھ سے میرے لنڈ کو بہت لذت ملی تھی۔ اب سمیرا نے ایک ہاتھ میں میرا لنڈ پکڑے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری انڈروئیر اتار دی اب جو اس نے میرا لنڈ دیکھا جو کہ تنا ہوا کسی ڈنڈے کی مانند اسکے ہاتھ میں تھا تو اسکی آنکھوں میں چمک آگئی جس سے اندازہ ہوا مجھے کہ اسکو کافی کچھ معلوم ہے سیکس کے بارے میں لہذا میں نے وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس ایک ممے کو اپنے منہ میں لے لیا اور کسی آم کی طرح چوسنے لگا اور دوسرا ہاتھ اسکے دوسرے ممے پر تھا جس کو میں زبردست مساج کر رہا تھا۔ اور وہ میرے لنڈ کو زور زور سے سہلا رہی تھی جس سے میرا لنڈ مزید سخت ہو گیا اور تن گیا۔ اب میں نے سمیرا کو اپنی گود میں اٹھایااور اس کو اپنے بیڈ پر پھینک دیا۔ اسکے بیڈ پر گرنے سے اسکے مموں نے ایک زبردست باؤنس لیا جس سے انکی نرمی اور لچک کا اندازہ ہو رہا تھا خیر اب تو یہ سوئٹ ڈش میرے کھانے کے لیے موجود تھی اور کوئی دعویدار بھی نہیں تھا جو روک سکتا۔ میں بھی جمپ کر کے سمیرا کے اوپر گرا مگر اس طرح کی سمیرا کو میرے بدن سے چوٹ نہ لگے۔ اب میں نے سمیرا کی چوت کی خبر لی اور ایک انگلی سے اسکو سہلانے لگا میں نے محسوس کیا کہ سمیرا کی چوت بالکل گیلی ہو رہی تھی ۔ میں نے ٹشو پیپر کا بکس اٹھا کر اسکی چوت کو صاف کیا اور اسکا گیلا پن بالکل ختم کردیا اسکے بعد میں نے دوبارہ سے اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیا پھر ذرا دیر بعد اسکی چوت گیلی ہوگئی۔ ایک بار پھر میں نے اسکو ٹشو پیپر سے صاف کر کے خشک کردیا اب میں نے سمیرا سے کہا میرا لنڈ چوسو جس سے اس نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا اگر نہیں چوسو گی تو مجھے مزہ نہیں ملے گا ۔ میری بات سن کر وہ تیار ہوگئی اور اٹھ کر بیٹھی اور مجھے دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا اور فوراً ہی میرا لنڈ اپنے منہ میں لے کر کسی لولی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔اف اب میں الفاظ میں کس طرح بیان کروں اسکا منہ کتنا گرم اور کتنا نرم تھا میں اگر شادی شدہ نہ ہوتا اور سیکس کا تھوڑا تجربہ نہ ہوتا تو لازمی میں اسکے منہ ہی فارغ ہو جاتا ۔ مگر میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا مجھے آخر اسکی چوت کے مزے لینے تھے۔ مگر وہ اتنا زبردست طریقے سے میرا لنڈ چوس رہی تھی کہ ہر لمحہ مجھے لگتا تھا کہ میں اسکے منہ ہی فارغ ہونے لگا ہوں پھر میں نے اسکو زبردستی ہٹا دیا اور اب میں نے اسکو دھکا دے کر بیڈ پر گرایااور اسکے اوپر چڑھ کر بیٹھا اور اسکی چوت کے منہ پر اپنا لنڈ رکھا اور اس سے کہا اپنی ٹانگیں کھولے اس نے فوراً ایسا ہی کیا اور اب اسکی چوت میرے لنڈ کو قبول کرنے کو تیار تھی کیونکہ میں نے اپنے لنڈ کا ہیڈ اسکی چوت پر رکھا تو اندازہ ہوگیا اندر کتنی گرمی ہے اور دوسری بات یہ کہ اسکی چوت ایک بار پھر سے گیلی ہوچکی تھی۔یہ سگنل تھا اس بات کا کہ اسکی چوت میرے لنڈ کو نگلنے کے لیے تیار ہے اب باقی کام میرا تھا ۔ اب میں نے اپنا لنڈ اسکی چوت کے منہ پر رکھا اور زور لگایا تو اسکی چوت کے گیلا ہونے کی وجہ سے میرا لنڈ ہیڈ تک تو چلا گیا اندر، مگر سمیرا درد سے بلبلا اٹھی اور کہنے لگی اسکو باہر نکال لیں بہت تکلیف ہو رہی ہے مگر میں اب رکنے والا نہیں تھا میں نے سمیرا سے کہہ دیا اب تم کچھ بھی کہو میں تم کو چودے بغیر نہیں رہوں گا۔ وہ میری بات سن کر مسکرا اٹھی جسکو میں نہیں سمجھ سکا پھر میں نے زور لگایا اور تھوڑا اور لنڈ اسکی چوت میں داخل کردیا۔ اب وہ درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رہی تھی مگر کچھ کہہ نہیں رہی تھی شاید وہ بھی چانس ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اب میں نے اور زور لگایا اور مزید کچھ اور جھٹکوں میں میرا پورا لنڈ اسکی چوت میں تھا مگر وہ مچل رہی تھی شاید اسکو تکلیف زیادہ تھی میں نے اسکے اوپر لیٹ کر اسکو اچھی طرح جکڑ لیا ایسے کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف ٹانگیں اور ہاتھ ہلا سکتی تھی۔ اب میں نے اسکے ہونٹوں پو کسنگ شروع کردی ذرا دیر بعد وہ اپنی تکلیف بھول چکی تھی کیونکہ اسکا دھیان کسنگ میں تھا پھر اور تھوڑی دیر بعد اسکی تکلیف ختم ہوچکی تھی ۔ اب اسکی چوت تیار تھی چدنے کے لیے بس اب مجھے اسٹارٹ ہونا تھا۔ میں نے بیٹھ کر اسکی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور پوری طاقت سے زور لگا کر اپنا لنڈ مزید اسکے اندر ڈال دیاوہ ایک دم سے چیخ اٹھی شاید میں کچھ زیادہ ہی اندر چلا گیا تھا۔ مگر میں نے لنڈ کو باہر نکالا اور پھر اندر ڈالا مگر اب کی بار وہ نہیں چیخی بس اسکا سانس رکا اور پھر چل پڑا میں سمجھ گیا اب مزید وقت ضائع کرنا ٹھیک نہیں ڈش تیار تھی کھانے کے لیے اب چمچے چلا نے سے وقت ضائع ہونا تھا میں نے بھرپور رفتار کے ساتھ چدائی شروع کی سمیرا کی سیکسی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اسکی آوازیں بڑی خوبصورت تھیں۔ میں بھی اب رکنے والا نہیں تھا تقریباً دس منٹ کی چدائی سے میں بھی تھکنے لگا تھا اور میری منی جو کافی دیر سے روکی ہوئی تھی اسکی چوت پینے کو تیار تھی۔ پھر میں نے اسکی چوت میں منی اگلنا شروع کی ۔ جیسے ہی اسے احساس ہوا کہ میری منی اسکی چوت میں جارہی ہے وہ چیخ اٹھی یہ کیا کیا تم نے میں تمہارے بچے کی ماں نہیں بننا چاہتی میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور لنڈ کو پورا اندر ڈال کر سمیرا کو جکڑ لیا میرا لنڈ اسکی چوت میں منی اگلتا رہا۔ پھر فارغ ہونے کے بعد میں نے بے تحاشہ اسکو پیار کیا مگر وہ مجھے سے ناراض لگ رہی تھی۔ میں اسکے پاس سے اٹھا اور الماری کھول کر ایک ٹیبلیٹ نکال کر اسکو دی اور کہا اسکو کھالو تم میرے بچے کی ماں نہیں بنو گی بے فکر رہو۔ یہ سن کر اسکا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ وہ ایکدم اٹھی اور وہ ٹیبلٹ مجھ سے لے کر منہ میں ڈال لی میں نے اسکو پانی کا گلاس دیا جس سے وہ ٹیبلٹ نگل گئی میں نے اس سے کہا چوبیس گھنٹے تک ہم کو سیکس کرنا ہے اس دوران تم ماں نہیں بنو گی پھر ایک اور ٹیبلیٹ کھالینا میری بات سن کر وہ مسکرائی اور اٹھ کر کھڑی ہوئی اور مجھے گلے سے لگا لیا۔ میں نے بھی اسکو بے تحاشا چومنا شروع کردیا۔ ذرا دیر بعد میں کمرے سے باہر نکلا اور کچن میں گیااور اسکے اور اپنے کھانے پینے کو جوس اور فروٹس لے آیا۔ ہم دونوں نے وہ کھائے اور پھر تھوڑی دیر لیٹ کر آرام کیااور اس دوران باتیں کرتے رہے۔ پھر میں نے دوسرا سیشن اسٹارٹ کیا اور سمیرا کو پھر ایک بار اسکے مموں پر اور پورے جسم پر کسنگ شروع کردی جس سے وہ پھر سے گرم ہونے لگی۔ اب کی بار میں اسکے ساتھ کچھ زیادہ کرنا چاہتا تھا۔ میں کسنگ کرتے کرتے اسکی چوت تک آیا تو وہاں انگلی ڈال کر اسکو چودنے لگا۔ اسکی چوت کافی گرم تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ پوری طرح گرم ہوچکی ہے۔ اب میں نے اسکو الٹا کیا اور ڈریسنگ ٹیبل سے جلدی سے لوشن کی بوتل اٹھائی اور اسکے کولہوں پر مساج کرنا شروع کردیا وہ ابھی تک نہیں سمجھی تھی کہ کیا ہونے جارہا ہے پھر میں نے اپنے لنڈ پر بھی مساج کیا اور اسکے کولہوں کو لوشن سے تر کرتے ہوئے اسکی گانڈ پر بھی اچھی طرح سے لوشن لگا دیا۔ اب میرا لنڈ لوشن کے مساج سے ایک بار پھر کسی ڈنڈے کی مانند تنا ہوا تھا میں نے وقت ضائع کیئے بغیر اسکے کولہوں کے درمیان اپنے لنڈ کو رکھا اور ایک جھٹکا مارا تو وہ پھسلتا ہوا اسکی گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوگیا۔ وہ ایک دم تکلیف سے چیخ پڑی اور کہنے لگی پلیز ادھر سے نہ کرو صرف آگے سے کرلو مگر میں کب سننے والا تھا۔ میں نے اس سے کہا جیسے ذرا دیر میں آگے سے تکلیف ختم ہوگئی تھی ایسے ہی یہاں سے بھی تکلیف ختم ہوجائے گی بس پھر انجوائے کرنا میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میں نے لنڈ کو مزید دھکے مار مار کر اسکی گانڈ میں پورا لنڈ گھسیڑ دیا۔ وہ تکلیف سے بلبلا رہی تھی مگر آنے والی لذت کے انتظار میں تھی کہ کب تکلیف ختم ہو اور کب وہ لذت سے آشنا ہو۔ذرا دیر میں نے لنڈ کو اسکی گانڈ میں ہی رکھا ۔ ذرا دیر بعد میں نے پوچھا اب تکلیف تو نہیں تو اسکا جواب نہ میں تھا۔ میں یہ سن کر خوش ہوا پھر اس سے کہا چلو اب اٹھو اور جیسا میں کہوں ویسا کرو، یہ کہہ کر میں نے اسکی گانڈ سے لنڈ کو باہر نکالااور پھر بیڈ سے اتر کر کھڑا ہوگیا۔ پھر میں نے اسکو بھی نیچے بلا لیا وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے نیچے اتر آئی پھر میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو کمرے سے باہر لے گیا اور دائننگ روم میں پہنچ کر میں نے اس سے کہا چلو اب ٹیبل پر لیٹو ایسے کہ تمہارے کولہے میری جانب ہوں اور ٹانگیں فرش پر اب وہ ٹیبل پر پیٹ سے سر تک لیٹی ہوئی تھی جبکہ ٹانگیں نیچے فرش پر تھیں میں نے لنڈ کو اسکی گانڈ پر سیٹ کیا اور دھکا مار کر لنڈ ایک بار پھر سے اسکی گانڈ میں گھسیڑ دیا۔ اسکو ایک زور کا دھکا لگا اور پوری ٹیبل ہل گئی مگر میرا لنڈ اسکی گانڈ میں راج کررہا تھا۔ اب میں نے اپنی رفتار بڑھائی اور دھکے تیز کردیئے ہر ہر جھٹکے پر اسکو لذت مل رہی تھی اور اسکے بڑے بڑے اور نرم نرم گرم گرم کولہے میرا جوش مزید بڑھا رہے تھی میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکے ممے پکڑ لیے اور انکو بری طرح مساج کرنے لگا۔ میں چونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی منی نکال کر فارغ ہوا تھا اس لیے میرے پاس کافی وقت تھا۔میں اسکو دھکے مارتا رہا اور پھر وہ ایکدم سے فارغ ہوئی اور اسکی چوت نے ڈھیر ساری منی اگلی اور اسکی ٹانگیں لڑکھڑا گئیں میں نے اسکو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ لازمی نیچے گر جاتی۔ اس نے کہا جی جا بس کرو میری ٹانگوں میں اب جان نہیں ہے میں کھڑی نہیں رہ سکتی میں نے کہا ہمت کرو تھوڑا اور میں بھی فارغ ہو جاؤں تو پھر واپس بیڈ پر چلتے ہیں۔میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میرالنڈ ابھی فارغ نہیں ہوا تھا سو وہ مستقل تنا ہوا اسکی گانڈ میں ہی تھا۔ میں نے دوبارہ سے جھٹکے مارنا شروع کردیا۔ اسکی گانڈ پوری طرح کھل چکی تھی اور مسلسل میرے لنڈ کا ساتھ دے رہی تھی اب میرا لنڈ بڑی روانی سے اسکی گانڈ میں آ جا رہا تھا۔ پھر وہ لمحہ آیا جب مجھے اسکی گانڈ میں فارغ ہونا تھا میں نے کھڑے کھڑے اسکی گانڈ میں ہی منی اگلنا شروع کردی مگر اسکے ساتھ ہی سمیرا بھی فارغ ہوئی اور اسکی چوت سے پھر ایک بار منی نکلنا شروع ہوئی۔ اور وہ ایک بار پھر سے لڑکھڑا گئی اور گرنے ہی لگی تھی کہ میں نے اسکو پھر سنبھالا۔ اب وہ کھڑی رہنے کے قابل نہیں تھی۔ میں نے اپنے لنڈ کو خالی کر کے اسکو گود میں اٹھایا اور لے کر واپس بیڈ روم میں آیا اور جو جوس اور فروٹس رکھے تھے وہ اسکو بھی دیئے اور خود بھی کھائے وہ بالکل مدہوش ہو رہی تھی اسکو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ ذرا دیر بعد اسکے حواس بحال ہوئے تو اس نے کچھ کھایا اور جوس پیا پھر میری جانب دیکھا اور کہا تم بہت ظالم ہو مار ڈالا تم نے مجھے میں نے اس سے کہا جو سیکس کا مزہ تم دے رہی ہو اور جس طرح سیکس تم کر رہی ہو تمہاری بہن حمیرا بھی ایسا نہیں کرتی۔تم بڑی سیکسی ہو سمیرا۔ میری بات سن کر وہ تھوڑا سا شرمائی اور کہنے لگی مگر تم بہت ظالم ہو تم نے برا حال کردیا میرا۔ میں نے کہا ابھی تو کچھ بھی نہیں کیا جان من کل کا دن بھی باقی ہے ۔ فروٹس کھا کر اسکے بدن میں جان آگئی تھی۔میں اسکو گود میں اٹھا کر باتھ روم میں لے گیا اور کہا چلو اب نہا کر سوتے ہیں باقی کا سیکس کل کرتے ہیں نہانے کے دوران ایک بار پھر میں نے اسکی چوت کو اپنی منی سے بھرا مگر اب مجھ میں بھی طاقت ختم ہو رہی تھی کہ آج کی رات اسکو اور سیکس دے سکوں۔ سو ہم دونوں نے ایک ساتھ نہا کر میرے ہی بیڈ ہر ایک ساتھ ننگے سو گئے۔ پھر میں نے اگلے دن آفس کی چھٹی کی اور پورے دن اسکا چود چود کر برا حال کردیا اسکو شام تک بخار چڑھ چکا تھا اب میں پریشان ہونے لگا کیونکہ میری بیوی نے اگلے دن واپس آنا تھا۔ سو اس سے پہلے سمیرا کا ٹھیک ہونا ضروری تھا خیر میں نے اسکو مکمل آرام دیا اور اگلی صبح تک وہ ٹھیک ہوچکی تھی اسکا بخار ضرورت سی زیادہ منی نکلنے اور میری بہت ساری منی اپنی چوت میں بھرنے سے چڑھا تھا۔ اگلے دن تک وہ کافی ٹھیک تھی۔ اپنی بیوی کے آنے سے ایک گھنٹے پہلے پھر میں نے ایک بار اسکی زبردست چدائی کر ڈالی ۔ اسکے بعد بھی جب بھی ہمیں موقع ملا ہم نے سیکس کا بھرپور مزہ لی
Like Reply
یہ میری نند حلیمہ کی سچی اب بیتی ھے۔ اس نے مجھے تفصیل سے بتای ھے۔ میں اور میری نند بیت اچھے دوست اور ھم راز ھے۔ عمر میں وہ مجھ سے دوسال چھوٹی ھے۔ بم دونوں ایک گاوں کے رھنے والے ھے۔ حلیمہ نے مجھے اپنے بھای کے لیے پسند کے تھا۔ میری شادی سے پہلے میری نند کی شادی ھوی تھی۔ اسلیے میری شادی میں وہ میری استاد بھی تھی۔ مجھے سھاگ رات کے بارے میں بھی اس نے سمجھایا۔ حلیمہ انتہای خوبصورت اور سکسی بدن کی مالک تھی۔ایک بات میں بتاتی چلوں کہ میری طبیعت میں بہت انتہاء درجہ کی عیاشی تھی جبکہ حلیمہ حد درجہ پردے اور صوم و صلاتہ کی پابند تھی۔ اکثر روزے سے رھتی تھی۔ ھر جمعہ کو روزہ رکھتی تھی۔ میں اکثر مزاق میں کہتی تھی کہ عالمہ پیرنی بنتی جارھی ھو۔ حلیمہ ایک بین الاقوامی ایر لاین میں اسلام اباد میں جاب کرتی ھے۔ شادی سے پہلے اسکی جاب ھوی اور وھی پر ایک لڑکا پسند کیا اور شادی ھوگی۔ لڑکا اندرونی پنجاب سے تھا۔ لڑکا اچھا تھا۔ حلیمہ نے دفتر میں بھی پردے کا خاص خیال کرتی اور برقعہ پہن کر جاتی تھی۔ جیسے میں نے کہا کہ میری نند حد درجہ کی خوبصورت ھے۔ شادی کے بعد اسکی شوھر نے کہا کہ برقعہ مت پہنو۔لیکن میری نند نہ مانی۔ اور دونوں میں اکثر اوقات لڑاییا ھونی لگی۔ ایک دو دفعہ ناراض ھوکر میکے بھی ای۔ میں نے سمجھای کہ خاوند کی بات مان لو۔ لیکن کہتی نہی۔ میں بے پردہ نہی ھونا چاھتی۔ میں یہ بھی بتاوں کہ میری سسرال بھی خاصی مذھبی طور طریقے ھے۔ بہرحال میری نند کی شوھر اکر منا لیتا۔ میں اکثر اوقات نند کے ھاں راتیں بھی گزارتی۔ ایک دن اسکے شوھر نے مجھے اکیلے میں کہا کہ پلیز حلیمہ کو سمجھاو کہ یہ کالا برقعہ نہ پہنو۔ میں نے کہا کہ بھای فکر نہ کرو سب ٹھیک ھو جاے گا۔۔وقت گزر رھا تھا۔ حلیمہ کے دو بچے بھی ھوگیے لیکن اسطرح پردے کہ سخت پابند۔۔۔۔
میری شادی کے بعد میں بھی اسلام اباد شفٹ ھوگی اسلیے کہ میرا خاوند بھی اسلام اباد میں اکی سرکاری دفتر میں ھوتا ھے۔ میرے خاوند نے مجھے خوب ماڈرن بنایا۔ جو کہ میرا شوق بھی تھا۔ ٹراوز اور کھلے گلے کی قمیص پہننا اور ھلکا سا دوپٹہ لینا۔ حلیمہ کی خاوند کی تبدیلی کویٹہ ھوی تو وہ اکیلا چلا گیا اور حلیمہ اور بچے ادھر اسلام اباد میں تھے۔ اسطرح حلیمہ اور میں ویک اینڈ پر ساتھ ساتھ رھتے تھے۔ ساتھ ساتھ حلیمہ کو سمجھاتی رھی۔ پھر ایک دن اس نے کالا برقعہ اتارا اور سفید چادر لی۔ اور کھلا چہرے کے ساتھ مارکیٹ جاتی تھی۔ شروع شروع میں ھچکچاتی تھی۔ چونکہ میں ساتھ ھوتی تھی۔ پھر اھستہ اھستہ اسکی یہ ھچکچاھٹ بھی ختم ھوی۔ اس دوران میں نے حلیمہ کے خاوند کو فون کیا میں نے کہا بھای جان مبارک ھو تمھاری بیوی نے کالا برقعہ پیھنک دیا۔ جب اوگے تو مآڈرن بیوی ملے گی۔ وہ بہت خوش بوا۔ جب وہ کویٹہ سے چھٹی پر ارھاتھا۔ تو میں اور حلیمہ اسکو ایرپورٹ سے لینے گیے۔ یہ میں نے حلیمہ کے خاوند کو بتای کی جب تم اوگے تو بم اپ کو پک کرنے اینگے۔ اس رات جب حلیمہ کا خاوند ارھا تھا حلیمہ نے بلکل ریڈ سوٹ پہن کر خوب میک اپ کی۔ اور چادر اڑلی میں نے کہا کیا کو چاند کو داغ لگا رھی ھو۔ صرف دوپٹہ اوڑھ لو۔ وہ فورا مان گی۔ اسلیےکہ میں نے جینز اور ٹی شرٹ پہنی تھی۔ میں نےھنس کر کہا کہ خاوند کو خوش کرو ورنہ میں تمھارے خاوند سے لین مارونگی۔ جب حلیمہ کی خاوند نے حلیمہ کو اسطرح حلیے میں دیکھا تو بالکل پاگل ھوگیا۔ اور شدت جذبات سے گلے لگا یا اور کس کیا۔ حلیمہ شرما گی۔ اسلیے کہ ایرپورٹ پر سب لوگ موجود تھے۔ لیکن اسکو اسکو احساس نہی ھوا۔ گاڑی حلیمہ نے ڈرایو کی تھی۔ ھم واپس گھر پہنچے اور انکے ساتھ انکے گھرپر کھانا کھایا اور پھر میں واپس اگ
دوسر دن صبح صبح حلیمہ کے خاوند کا فوں ایا اور بہت شکریہ ادا کیا۔ کہ تم نے میری خواھش پوری کی۔ بہت خوش تھا۔ میں نے بنس کہ کہا میرا گفٹ کدھر ھے۔۔۔۔اس نے کہا کہ جو کہوگی حاضر۔۔۔
پھر میں نے حلیمہ کو فون کیا۔ اور کہہ رھی تھی کہ خاوند میرا بے انتہاء کا خوش تھا اور 3 دفعہ سکس کیا۔ میں نے ھنس کہ کہا کہ مجھے بھی بلا لیتی میں بھی ساتھ شامل ھوتی۔ مزا اتا۔
تین دن بعد حلیمہ نے فون کیا ھم جیولرز کے دوگان پر جاتے ھے تیار ھو جاو تم بھی ساتھ چلو۔ میں نے کہا تم لوگو جاو اپنا کام کرلو۔ حلیمہ نے کہا کہ میرا شوھر کہہ رھا ھے کہ یاسمین بھی ھمارے ساتھ جاے گی۔ بہر حال میں تیار ھوی ۔کوی ایک گھنٹہ بعد وہ لوگ اگیے اور ھم جیولر شاپ پر گیے۔ حلیمہ کے خاوند کا جیولر کے ساتھ بہت پرانا تعلق تھا اور سرا زیور اس جیولر سے بناتے تھے۔ پہلی دفعہ میں بھی ساتھ گی تھی۔ جیولر نے پہلی دفعہ حلیمہ کو اسطرح بغیر پردے دیکھا توپوچھا یہ کون ھے۔ اسکے خاوند نے کہا یہ میری بیگم حلیمہ ھے اور یہ میری بھابی۔۔۔
جیولر کا ایک بیٹا کبھی مجھے اور کبھی حلیمیہ کو بہت غور سے دیکھ رھا تھا۔حلیمہ کا دوپٹہ بس بفاے نام تھا اور میرا بھی جبکہ میری قمیص کا گلہ کافی کھلا تھا جس سے مموں کا درمیان واضح نظر ارھا تھا۔ حلیمہ کا خاوند دوست کیساتھ گپ شپ میں مصروف تھا اور میں اور حلیمہ جیولری دیکھنے میں مصروف تھے اور جیولر کا بیٹا ھمیں جیولری دیکھا رھا تھا۔ لڑکا اچھا تھا ھینڈ سم اور بھرا بھرا بدن تھا۔ میں محسوس کیا کہ وہ حلیمہ میں زیادہ دلچسپی لے رھا تھا ۔ ھم نے کوی 3 گھنٹے بیھٹے رھے اور خوب خاطر مدارت کی۔ حلیمہ نے ایک نکلس، دو گنھنگن خرید لیے۔ اورا سکے خاوند نے مجھے ایک بریسٹلیسٹ کفٹ لے کر دیا۔ اور حلیمہ نے 6 عدد چوڑیوں کا ارڈر دے دیا۔ جیولر کے بیٹے نے جسکا نام علی تھا اپنا نمبر دے دیا اور کہا کہ باجی میرے اس نمبر پر رابطہ کرو میں بتاونگا کہ چوڑیاں تیار ھوگی یا نہی۔۔۔اسکے خاوند نے بھی کہا کہ ٹھیک یہ اپ کے ساتھ رابطہ میں رھے گی۔ ھم گھر واپس اگیے۔۔۔
حلیمہ کا خاوند دو ھفتے بعد پھر واپس چلا گیا۔ حلیمہ بہت خوش تھی۔ کہنی لگی مجھے کیا پتہ کہ میرا خاوند اتنا خوش ھوگا میں بہت 5 سال پہلے برقعہ پھنک لیتی۔۔ میں نے کہا پگلی میری طرح ھوجاو۔ خوب عیاشی کرو خوب ماڈرن رھا کرو۔مرد یہی چاھتے ھے۔ میرے دوست کا حلیمہ کو پتا تھا۔ میں نے کہا بس ایک اچھا دوست بھی بنا لو۔ وہ ھنسی اور کہا یہ بھی ھوجاےگا۔۔ وقت گزرتا رھا اور ھم دونوں اکثر اسی جیولر کر پاس جاتے تھے۔ جیولری دیکھتے اور کبھی کبھی چوٹا موٹا زیور بھی خرید لیتے۔ ایک دن خوب بارش ھوری تھی۔ ھم دونوں مارکیٹ گیے تھے پھر بارش کیوجہ سے جیولر کے دوکان میں گیے۔ اس وقت صرف علی موجود تھا اور ساتھ دو نوکر بھی تھے۔ علی کا والد اور اسکا بڑا بھای کام کے سلسلے میں سیلکوٹ گیے تھے۔ یوں علی ھم دونوں کو فارغ تھا۔ علی نے دو نتھ ایک مجھے اور ایک حلیمہ کو دی۔ میں نے اپنے اپکو جیولری دیکھنے میں مصروف کیا ان دونوں کو چھوڑا کہ حلیمہ علی کیساتھ گپ لگاے۔ مجھے کھچہ اندازہ ھوگیا کہ ایک دوسرے میں دلچسپی لے رھے ھے۔ ھم کافی دیر بعد واپس گھر اگیے۔ گھر اکر میں پوچھا اور قسم دی کہ بتاو لڑکا کیسا ھے اور کتنے نزدیک ھوے تم دونوں۔۔۔حلیمہ چونکہ میری دوست اور ھمراز تھی سب کھچہ بتادی۔ ۔۔۔۔۔۔اسکی زبانی۔۔۔۔۔
وہ کہہ رھی تھی۔۔۔۔۔کہ علی نے جب دوکان کا کاررڈ دیا تو اس پر اسکا نمبر بھی تھا۔ میں 3 دن بعد فون کیا کہ چوڑیاں بن گی تو کہنا لگا کہ اس پر کام شروع ھے اور ھلکی پلکی گپ شپ لگی۔پھر دو دفعہ میں اکیلی بھی گیی تھی۔ پھر کبھی کبھی مسیچ بھی کرتا۔ اور ایک دفعہ مسیچ میں کہا کہ تم بیت یاد اتی ھو۔ پھر ایک دن فون کیا کہ باجی چوڑایاں تیار ھے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک کل لے لونگی۔ علی نے کہا کہ اپ کہتی تو گھر پر لے اوں۔ میں نے کہا اج نہی کل 11 بجے تک لاو۔ میں نے اسکو 11 بجے اس لیے کہا کہ گھر پر کوی بھی نہی ھوتا ھے میں اکیلی ھوتی ھوں۔ اسلیے میری ڈیوٹی بھی 2 بجے تھی۔ بچے سکول گیے تھے۔ علی اپنے ابو کیساتھ اس سے پہلے ھمارے گھر کہی دفعہ اچکا ھے اسلیے گھر معلوم تھا اسکو۔ دوسرے دن 10بجے کے قریب گھر اگیا۔ میں پہکے سے تیار ھوی تھی۔ گرین شلوار۔قمیص میں تھی بال کھلے تھے اور میرون لیپ اسٹک لگایا تھا۔ بیل ھوی میں نے گیٹ کھولا۔۔علی اندر اکر ڈراینگ روم میں بیھٹ گیا۔ میں ام کا جوس لا کر دیا۔ اور سامنے صوفے پر بیھٹہ گیی۔ حال احوال پوچھا۔ علی چوڑیاں دیکھادی۔ میں نے ڈبہ لے کر دیکھنی لگی۔ بہت خوبصورت بنے تھے۔ میں جب چوڑیاں ھاتھ میں ڈالنے لگی علی نے ایسا نہی میں ڈالتا ھوں اور وہ اٹھکر میرے ساتھ صوفے پر بیھٹ گیا اور چوڑیوں کا ڈبہ میرے ھاتھ سے لیکر خود میرا ھاتھ پکڑ کر پہننے لگا۔ مجھے بہت اچھا لگا۔
پھر علی نے میرے کو بوسہ دیا جس سے میرے بدن میں کرنٹ لگا پھر علی نے میرے ھاتھ کی انگلی اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا تو میں اپنی حواس کھونے لگی اتنی طاقت مجھ میں نہی رھی کہ علی کہ منہ اپنی انگلی نکالوں یا علی کو اپنے اپ سے الگ کر سکوں۔ عجیب نشہ طاری ھوگیا۔ یہ پہلا غیر مرد تھا جس نے میرا ھاتھ چوما۔ شرم سے میں اپنی انکھیں بند کی بوی تھی۔ سوچ ختم ھوچکی تھی۔ میں بےخود تھی علی نے ایک ھاتھ میرے سینے پر رکھااور میرے مموں کو مسلتا رھا جس سے میرے پورے بدن میں جیسے اگ لگ گی۔ میں کھچہ نہ بول سکی۔ پھر علی نھ مجھے سینے سےلگایا اور میرے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھے اور چوسنے لگا۔ میں مکمل طور پر اپنا حواس کھو چکی تھی۔ جب ھونٹوں پر کسنک کرنے لگا تو میں مزاحمت کیا تھوڑی کوشش کی لیکن بے سود رھا۔ علی نے میرا سر اپنی جولی میں رکھا اور کسنک کیساتھ ساتھ پورے بدن پر ھاتھ پھیر رھا تھا۔ اسکو وقت تک ھم صوفے میں تھے۔ جب میں نے اسکی جولی میں سر رکھا تو مجھے کسے سخت چیز کا احساس ھوا۔ پھر علی نے مجھے گود میں لیکر بیڈ پر لے ایا۔ اور میرے ساتھ لیٹ کر میری قمیص تھوڑا اوپر کرنا چاھا لیکن میں نے منع کیا اور ھاتھ سے اپنی قمیص نیچے کیا۔ لیکن علی نے کھچہ بھی نہ کہا نہ زور کیا نہ زبردستی کی۔ لیکن بدستور کسنک کرتارھا۔ اب اس نے اپنے زبان میرے منہ میں ڈالی دی تو میں بھی ساتھ دینے لگی۔ پھر میں نے بھی اپنی زبان اسکے منہ میں دیا اور وہ بھی برابر چوسنے لگا۔ پھر مجھے بلکل احساس نہی ھوا کہ اور کیا کھچہ ھو رھا ھے۔ علی نے میرے قمیص کے اندر اپنا ھاتھ ڈالا تھا اور میرے مموں کو مسل رھا تھا۔ اب میں بلکل پاگل بوگی تھی۔ افففففف اھھھھھا اییییی وایییییا ھھھھھ کی اوازیں منہ سے خود بخود نکل رھی تھی۔ اب میرا دل بھی شدت سے مچل رھا تھا۔علی نے میری قمیص اوپر کی مموں کو چوسنے لگا۔۔۔اففففففف اھھھھھھھا کیا مزا ارھا تھا۔ ایک ھاتھ میرے شلوار کے اندر ڈال دی اور میرے چوت کو مسل رھا تھا۔ پھر فورآ علی کا پکڑا کہ نہی پلیز ایسے نہ کرو۔ علی نے ھاتھ ھٹایا اور برابر مموں کو جوش کیساتھ چوس رھا تھا۔ میرے ممے 38 سایز کے ھے اور بہت سخت تھے۔ علی میرے شلوار کے اوپر کبھی چوت کبھی گانڈپر ھاتھ پھرا رھا تھا۔ اب میرادل چاھ رھاتھا۔ علی کا سخت لن میرے ران کے ساتھ مسلسل رگڑ کھارھاتھا۔ جس سے ایک اور سرور ارھا تھا
علی نے حد درجہ تک مجھے گرم کیا اور میں اپنی کنڑول میں نہی رھی۔ اب میرا دل چاھ رھا تھا بس یہ سخت لن میرے چوت کے اندر جاے۔ علی نے محسوس کیا اور ایک بار پھر اس نے میرے شلوار کے اندر ھاتھ ڈالا۔ اور میرے چوت کو مسلنے لگا۔ اب میں کھچہ نہ بولی نہ روکا۔ علی نے میرا شلوار نیچے کیا اور اور خود بھی اپنے پینٹ سے سخت لن باہر نکالا ابھی بھی میرے انکھیں بند تھی۔ لیکن مزے اور سرور سے ھوا میں اڑا رھی تھی۔ پھر علی میرے چوت کی طرف ایا منہ چوت پر رکھا اورچوت کو چاٹنے لگا وہ اپنا زبان چوت کے اندر تک ڈال رھا تھا اففففففف اھھھھھھھھ
وششششششھھھھطط چوت سے پانی جاری تھا۔ علی ایک ھاتھ میرے ممے مسل رھا تھا اور زبان سے چوت چاٹ رھا تھا اور میں دونوں ھاتوں سے علی کے سر کے بال مسل رھا تھا پھر علی نے میرا پورا شلوار اتارا اور پھر قمیص اتاری اور پھر برا۔۔۔اب میں مکمل ننگی تھی اور پھر علی نے بھی کپڑے اتارے میں انکھوں کے نیچے سے دیکھا تو اففففف اتنا موٹا اور بڑا لن۔۔۔۔میں سوچ بھی سکتی تھی۔ اور ڈر گی۔ علی نے میرا ھاتھ پکڑ کر اپنے سخت لن پر رکھا اور کہا یار لن کو پکڑو۔۔جب میں نے ھاتھ میں لیا تو پریشان ھوگی۔۔۔۔خاوند کے لن کے علاوہ میں نے کسی لن نہ دیکھا تھا نہ ھاتھ میں لیا تھا۔ میں علی کا لن مسلتی رھی اور لن سے پانی ارھا تھا۔ پھر علی میرے ٹانگوں کیطرف ایا اور اور لن کا ٹوپہ اور میرے چوت پر رکھا تو خوف کی وجہ سے میرے فورآ کہا پلیز اھستہ ڈالنا۔ وہ ھنسا اور کہا فکر نہ کرو اپکو پتہ بھی نہی چلے گا۔۔۔علی نے بہت اھستہ سے اندر ڈالنا شروع کیا اور جیسے جیسے اندر جا رھا تھا مزے کیساتھ ڈر بھی اور درد بھی ھورھا تھا۔ ادھا لن جب کی تو میں پلیز اور اندر نہی کرنا۔ درد ھورھا ھا۔ وسشششش وھھھھھھاففففففف علی رک گیا اور کہا بس اور نہ ڈالوں؟ میں نے کہا بیت موٹا ھے اور ٹوپہ بھی حد سے موٹا ھے اور سخت بھی۔ پھر علی اھستہ اھستہ جھٹکے دینے لگا۔۔افففففففف مزا ارھا تھا لیکن ایک تیزے جھٹکے نے جب لن بچی دانی کو لگا تو میرا مزہ جاتا رھا اور رونے لگی۔ علی روک گیا اور کہا اب جھٹکا نہی لگاونگا۔ پھر اھستہ اھستہ اندر باہر کر رھا تھا اور ساتھ میرے مموں کو بھی چوس رھا تھا کبھی ھونٹوں پر اور کبھی رخساروں پر پر کسنک کر رھا تھا مجھے پھر مزا انے لگا اور اتنا مزا کہ بیان کرنے سے باہر تھا۔ تقریبآ 10 منٹ تک ارام ارام سے جھٹکے لگا رھا تھا اور پھر علی نے پانی اندر چھوڑوں ۔۔۔میں نے کہا ھاں ھان۔۔۔۔پھر ھم دوںوں ایک ساتھ فارع ھوے۔۔۔لیکن جو پانی علی نے میرے اندر چھوڑا وہ بھی بیان کرنے باہر ھے۔ اتنا گرم پانی کہ اب دل چاھتا ھے کہ بس لن چوت سے نہ نکالے۔ میں دونوں ھاتھ علی سے پھیر لیے اور ٹانگیں بھی علی کے کمر سے اور اپنے چوت پر سخت رکھا۔ پھر میں نے انکھیں کھولی۔ میں نے علی کیطرف دیکھا اور مسکرای کہ کس طریقے سے مجھے چودا۔ علی نے ھونٹوں پر کس لیا اور کہا کہ بار بار چودونگا۔۔۔فکر نہ کرو خوشیاں دونگا۔ پھر علی نے چوت سے لن نکلا میں اسکا ٹشو سے صاف کیا اور اپنے چوت پر بھی ٹشو رکھا۔ علی نے واش روم جا کر لن دھویا اور کمرہ میں اکر کپڑے پہنے اور اور میرے مموں کو کس کیا اور پیار بھرا ھونٹ کس کیا۔ اور اجازات لے کر جانے لگا۔ تو میں بیڈ سے ٹشو کے اوپر نیکر پہنی تاکہ علی کا پانی چوت سے باہر نہ اے۔ علی کو ایک پھر میں خوب کس کیا اور ہیار سے رخصت کیا اور تقریبآ 2 گھنٹے تک میں بستر پر ننگی لیٹی رھی اوروہ حسین لمحات یاد کر رھی تھی۔۔۔
Like Reply
میرا نام کومل ہے. میری عمر 27 سال ہے اور میں شادی شدہ ہوں. میرے شوہر آرمی میں ہیں. میں اپنے ساس – سسر کے ساتھ اپنے سسرال میں رہتی ہوں. شوہر آرمی میں ہیں تو اس وجہ سے میں کئی کئی ماہ لنڈ کو ترستي رہتی ہوں. ویسے تو میرے ارد گرد گلی محلے میں بہت سارے لنڈ رہتے ہیں پر ساس – سسر کے ہوتے یہ میرے کسی کام کے نہیں.
میری گلی کے سارے لڑکے مجھے پٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. میرے ممے لڑکوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں. میری بڑی سی گانڈ دیکھ کر لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کھڑے کھڑے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں. میرے ریشمی لمبے بالوں میں پتہ نہیں کتنے لڈو کے دل اٹكے پڑے ہیں. میری پتلی کمر، میرے گلابی گلابی ہونٹ، لڑکوں کو میرے گھر کے سامنے کھڑے رہنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں. سب مجھے پٹانے کے ہتھکنڈے اجماتے رہتے تھے پر میں کسی سے نہیں پٹ رہی تھی. کمپیوٹر پر ضرور چیٹنگ کرکے اپنی پیاس ہاتھ سے بجھا لیتی. چیٹنگ پر مجھے لڑکے اکثر اپنا موبائل نمبر دینے اور ملنے کو کہتے مگر میں سب کو منع کر دیتی. پھر بھی ایک – دو نے اپنا نمبر دے دیا تھا.
ان سب دوستوں میں ایک اےنار آئی بڈھا بھی تھا. وہ کچھ دن بعد پاکستان آنے والا تھا. اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے، مگر میں نے انکار کر دیا.
کچھ دن کے بعد اس نے پاکستان آنے کے بعد مجھے اپنا فون نمبر دیا اور اپنی تصویر بھی بھیجی اور کہا – میں اکیلا ہی آیا ہوں، باقی ساری فیملی امریکہ میں ہیں.
اس نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف مجھے دیکھنا چاہتا ہے بے شک دور سے ہی سہی.
اب تو مجھے بھی اس پر ترس سا آنے لگا تھا. وہ جہلم کا رہنے والا تھا اور میرا گاؤں بھی جہلم کے پاس ہی ہے.
اگلے مہینے میری ساس کی بہن کے لڑکے کی شادی آ رہی تھی جس کے لئے مجھے اور میری ساس نے شاپنگ کے لئے جہلم جانا تھا. مگر کچھ دنوں سے میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو اس نے مجھے اکیلے ہی جہلم چلی جانے کو کہا.
جب میں نے اکیلے جہلم جانے کی بات سنی تو ایک دم سے مجھے اس بوڑھے کا خیال آ گیا. میں نے سوچا کہ اسی بہانے اپنے بوڑھے عاشق کو بھی مل آتی ہوں.
میں نے نہاتے وقت اپنی جھاٹے صاف کر لی اور پوری سج – سںور کر بس میں بیٹھ گئی اور راستے میں ہی اس بوڑھے کو فون کر دیا. اسے میں نے ایک جوس – بار میں بیٹھنے کے لئے کہا اور کہا – میں ہی وہاں آ کر فون کروں گی.
میں آپ کو بوڑھے کے بارے میں بتا دوں. وہ 55-60 سال کا لگتا تھا. اس کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے پر اس کی جو تصویر اس نے مجھے بھیجی تھی اسمے اس کی باڈی اور اس کا چہرہ مجھے اس سے ملنے کو مجبور کر رہا تھا.
بس سے اترتے ہی میں رکشہ لے کر وہاں پہنچ گئی جہاں پر وہ میرا انتظار کر رہا تھا. اس نے میری تصویر نہیں دیکھی تھی اس لئے میں تو اسے پہچان گئی پر وہ مجھے نہیں پہچان پایا. میں اس سے تھوڑی دور بیٹھ گئی.وہ ہر عورت کو آتے ہوئے غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کا دھیان بار بار میرے بڑے بڑے مممو اور اٹھی ہوئی گانڈ کی طرف آ رہا تھا. وہی کیا وہاں پر بیٹھے تمام مرد میری گانڈ اور مممو کو ہی دیکھ رہے تھے. میں آئی بھی تو سج – دھج کر تھی اپنے بوڑھے یار سے ملنے.
تھوڑی دیر کے بعد میں باہر آ گئی اور اسے فون کیا کہ باہر آ جائے. میں تھوڑی چھپ کر کھڑی ہو گئی اور وہ باہر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا.
میں نے اسے کہا – تم اپنی گاڑی میں بیٹھ جاؤ، میں آتی ہوں.
وہ اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا، میں نے بھی ادھر ادھر دیکھا اور اس کی طرف چل پڑی اور جھٹ سے جا کر اس کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی.
مجھے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور کہا – تم ہی تو اندر گئی تھی، پھر مجھے بلایا کیوں نہیں؟
میں نے کہا – اندر بہت سارے لوگ تھے، اس لیے!
اس نے دھیرے دھیرے گاڑی چلانی شروع کر دی، اس نے مجھے پوچھا – اب تم کہاں جانا چاهوگي؟
میں نے کہا – کہیں نہیں، بس تم نے مجھے دیکھ لیا، اتنا ہی کافی ہے، اب مجھے شاپنگ کرکے واپس جانا ہے.
اس نے کہا – اگر تم برا نا مانو تو میں تمہیں کچھ تحفہ دینا چاہتا ہوں. کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چل سکتا ہو؟
اس کا جہلم میں ہی ایک شاندار بنگلہ تھا.
پہلے تو میں نے انکار کر دیا پر اس کے مزید زور ڈالنے پر میں مان گئی. پھر ہم اس کے گھر پہنچے. مجھے احساس ہو چکا تھا کہ اگر میں اس کے گھر پہنچ گئی ہوں تو آج میں ضرور چدنے والی ہوں.
میں گاڑی سے اتر کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی.
اندر جا کر اس نے مجھے پوچھا – کیا پیوگی تم کومل؟
“کچھ نہیں! بس مجھے تھوڑا جلدی جانا ہے!”
وہ بولا – نہیں ایسے نہیں! اتنی جلدی نہیں .. ابھی تو ہم نے اچھے سے باتیں بھی نہیں کی!
“اب تو میں نے تمہیں اپنا فون نمبر دے دیا ہے، رات کو جب جی چاہے فون کر لینا .. میں اکیلی ہی سوتی ہوں.”
“پلیز! تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی!”
میں نے کچھ نہیں کہا اؤر صوفے پر بیٹھ گئی.
وہ جلدی سے کولڈنگ لے آیا اور مجھے دیتے ہوئے بولا – یہ کولڈرنگ ہی پی لو پھر چلی جانا.
میں نے وہ مشروب لے لیا. وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے.
باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا.
وہ بولا – کومل .. جب جوس بار میں تمہیں دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کاش کومل ایسی ہو، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ نرم یہی ہے.
رہنے دو! جھوٹی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے جی! میں نے کہا.
اس نے بھی موقع کے حساب سے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا – سچ میں نرم، تم بہت خوبصورت ہو.
میرا ہاتھ میری ران پر تھا اور اس پر اس کا ہاتھ!
وہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا. کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی.۔
Like Reply
اب میں مدہوش ہو رہی تھی. مگر پھر بھی اپنے اوپر قابو رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھا.
پھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے بالوں میں گھس گیا، میں چپ چاپ بیٹھی مدہوش ہو رہی تھی اور میری سانسیں گرم ہو رہی تھی.
اس کا ایک ہاتھ میری پیٹھ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف کئے جا رہا تھا. پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا.
میں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا.
اس نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور میرے ہونٹوں کا رس چوسنا شروع کر دیا.
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی. پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا. اب میرے دونوں چوچے اس کی چھاتی سے دب رہے تھے. اس کا ہاتھ اب کبھی میری گانڈ پر، کبھی بالوں میں، کبھی گالوں میں، اور کبھی میرے مممو پر چل رہا تھا.
میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی.
15-20 منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے – چاٹتے رہے.
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا. اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا. وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا. پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا. اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے.
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا، اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی.
پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا. میری برا میں سے میرے ستن جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے. وہ برا کے اوپر سے ہی میرے ستن مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا.
پھر اس کا ہاتھ میری پجامي تک پہنچ گیا. جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا. میری پجامي بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی. مگر پجامي اتارتے ہی وہ میرے گول گول چوتٹ دیکھ کر خوش ہو گیا.
اب میں اس کے سامنے برا اور پینٹی میں تھی. اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیا.میں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے چوتڑوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا.
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب غیر مرد کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا.
میں پیچھے مڑی اور گھوڑی بن کر اس کی پینٹ، جہاں پر لنڈ تھا، پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی. میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی. جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی.
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی. دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی. وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا. مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا. میں مست ہوتی جا رہی تھی.
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے. میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی. اس کا لنڈ انڈروئیر میں کسا ہوا تھا. ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا.
میں نے اس کی پینٹ اتار دی.
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کھیںچا. اس سے اس کی جھانٹوں والی جگہ، جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی. میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھیںچا. اس کا 7 انچ کا لنڈ میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا.
اتنا بڑا لنڈ اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی. اس کا بڑا سا اور لمبا سا لنڈ مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھا.
میرے ہونٹ اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا. میرے ہوںٹھو پر گرم – گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی.
تبھی اس بوڑھے نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا اور میرا سر اپنے لنڈ کی طرف دبانے لگا.
میں نے منہ کھولا اور اس کا لنڈ میرے منہ میں سمانے لگا. اس کا لنڈ میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی.
بڈھا بھی میرے سر کو اپنے لنڈ پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لنڈ گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا.
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لنڈ میرے گلے تک اترنے لگا. میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو. میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا، تب مجھے سمجھ میں آیا کہ بڈھا جھڑ گیا ہے.
تبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لنڈ بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیا.
اس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا. کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا. میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی. اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا. اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہے.
تھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا. پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری برا کی ہک کھول دی. میرے دونوں کبوتر آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے. اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں کبوتر اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا.
وہ میرے مممو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا. میری تو جان نکلی جا رہی تھی. میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا. اس نے میری پیںٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹاںگے فیلا کر کھول دی.
وہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی. میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی. میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا. اس کا لنڈ میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا. مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا لنڈ پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے.
میں نے بوڑھے کی بانہہ پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا – میرے اوپر آ جاؤ راجہ ..
وہ بھی سمجھ گیا کہ اب میری پھددي لنڈ لینا چاہتی ہے.
وہ میرے اوپر آ گیا اور اپنا لنڈ میری چوت پر رکھ دیا. میں نے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا لنڈ اپنی چوت کے منہ پر ٹكايا اور اندر کو کھیںچا. اس نے بھی ایک دھکا مارا اور اس کا لنڈ میری چوت میں گھس گیا.
میرے منہ سے آہ نکل گئی. میری چوت میں میٹھا سا درد ہونے لگا. اپنے شوہر کے انتظار میں اس درد کے لئے میں بہت تڑپي تھی.
اس نے میرے ہوںٹھ اپنے ہوںٹھو میں لئے اور ایک اور دھکا مارا. اس کا سارا لنڈ میری چوت میں اتر چکا تھا.میرا درد بڑھ گیا تھا. میں نے اس کی گانڈ کو زور سے دبا لیا تھا کہ وہ ابھی اور دھکے نہ مارے.
جب میرا درد کم ہو گیا تو میں اپنی گانڈ ہلانے لگی.
وہ بھی لنڈ کو دھیرے دھیرے سے اندر – باہر کرنے لگا.
کمرے میں میری اور اس کی سيتكارے اور اهو کی آواز گونج رہی تھی. وہ مجھے بےدردي سے پیل رہا تھا اور میں بھی اس کے دھکوں کا جواب اپنی گانڈ اٹھا – اٹھا کر دے رہی تھی.
پھر اس نے مجھے گھوڑی بننے کے لئے کہا.
میں نے گھوڑی بن کر اپنا سر نیچے جھکا لیا. اس نے میری چوت میں اپنا لنڈ ڈالا. مجھے درد ہو رہا تھا مگر میں سہ گئی. درد کم ہوتے ہی پھر سے دھکے زور زور سے چالو ہو گئے. میں تو پہلے ہی جھڑ چکی تھی، اب وہ بھی جھڑنے والا تھا. اس نے دھکے تیز کر دئے.
اب تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ بڈھا آج میری چوت پھاڑ دے گا. پھر ایک سیلاب آیا اور اسکا سارا مال میری چوت میں بہہ گیا.
وہ ویسے ہی میرے اوپر گر گیا. میں بھی نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور وہ میرے اوپر لیٹ گیا.
میری چوت میں سے اس کا مال نکل رہا تھا. پھر اس نے مجھے سیدھا کیا اور میری چوت چاٹ چاٹ کر صاف کر دی.
ہم دونوں تھک چکے تھے اور بھوک بھی لگ چکی تھی. اس نے کسی ہوٹل میں فون کیا اور کھانا گھر پر ہی مگوا لیا.
میں نے اپنے چھاتی اور چوت کو کپڑے سے صاف کئے اور اپنی برا اور پینٹی پہننے لگی. اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور ایک گفٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا.
میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں بہت ہی پیارا، دلکش برا اور پینٹی تھی جو وہ میرے لئے امریکہ سے لایا تھا.پھر میں نے وہی برا اور پیںٹی پہنی اور اپنے کپڑے پہن لیے.
تبھی بیل بجی، وہ باہر گیا اور کھانا لے کر اندر آ گیا.
ہم نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.
اس نے مجھے کہا – چلو اب تمہیں شاپنگ کرواتا ہوں.
وہ مجھے مارکیٹ لے گیا. پہلے تو میں نے شادی کے لئے شاپنگ کی، جس کا بل بھی اسی بوڑھے نے دیا. اس نے مجھے بھی ایک بے حد خوبصورت اور قیمتی ساڑھی لے کر دی اور بولا – جب اگلی بار ملنے آؤگی تو یہی ساڑھی پہن کر آنا کیونکہ اس کو تیری تنگ پجامي اتارنے میں بہت مشکل ہوئی آج.
پھر وہ مجھے بس اسٹینڈ تک چھوڑ گیا اور میں بس میں بیٹھ کر واپس اپنے گاؤں اپنے گھر آ گئ
Like Reply
میرا نام کامران ہے ۔ لوگ پیار سے کامی کہتے ہیں ۔ کچھ پیارا ہوں اور کچھ آج کل کے فیشن نے بھی پیارا بنا دیا ہے ۔ کوئی پرنس تو نہیں ہوں لیکن پھر بھی لوگ ہینڈ سم کہتے ہیں ۔
میرے علاوہ میری امی رخسانہ بیگم ہیں جو 45 سال کی ہیں ، خوبصورت ہیں کشمیری نسل ہے رنگ گورا چٹا ، ڈرامے فلموں کا اثر سب پر ہوتا ہے امی پر بھی ہے اور فیشن کے مطابق اپنا خیال رکھتی ہیں جسم کا بھی اور خوبصورتی کا بھی ۔
پھر مجھ سے بڑی بہن ہے عروسہ نام ہے ۔ پیار سے روچی بلاتے ہیں ۔عمر 22 سال ایم بی کر رہی ہیں ۔ بہت ہی پیاری جسم نا پتلا نا ہی موٹا ۔ کمر البتہ پتلی ہی ہے ۔ خاص حصے جو موٹے ہونے چاہیں وہ بھرے بھرے تھے ۔ جیسے کہ چھاتی اور ہپس Hips ۔ کئی لڑکوں بزرگوں کے دل پر اپنے حسن کی چھری چلا چکی ہے ۔ میری بہن کی شکل اور جسامت بڑی حد تک سیدہ طوبی عامر جیسی ہے ۔عامر لیاقت کی بیوی ۔ ماتھا بال ناک آنکھیں سب اس سے ملتی جلتی ہیں ۔ قد 5۔5 ہے ۔
پھر میں کامی یا کام چور جو 21 سال کا ہوں بی ایس سی پاس کر چکا ہوں ۔ جیم جانا اور باڈی بنانا میرا شوق ہے ۔ چوڑا سینا 6 پیک تو نہیں بنے البتہ جسم دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ جیم جاتا ہوں ۔ مسلز بھی اچھے خاصے ہیں ۔ سلمان خان جیسے تو بالکل نہیں البتہ رندیپ ہدا جیسا جسم ہے ۔، قدر 5 فٹ 9 انچ ۔ میں بس اتفاقیہ پیدا ہو گیا ۔ میری بہن روچی پیدا ہوئی تھی تو والد محترم اس کو دیکھنے پاکستان تشریف لائے ۔ اور جاتے جاتے امی کو نیا تحفہ بھی دے گئے ۔ کافی سمجھ بوجھ کے بعد حمل ضائع نا کرنا ہی بہتر سمجھا ۔ اور بہن کے پیچھے پیچھے ایک سال بعد ہی میں بھی آگیا ۔
پھر مجھ سے 15 سال چھوٹی کیوٹ سی ایک بہن مریم ہے جسکو پیارسے مریو کہتے ہیں ۔ ناجانے ماں باپ کو کیا سوجھی کہ جوان اولاد کی موجودگی میں ایک اور بچہ پیدا کر دیا ۔ ( تب میں اور عروسہ سمجھدار ہی تھے جب مریو پیدا ہوئی )
پھر ابو جی وحید علی ، جو یوکے UK میں ہوتے ہیں وہا ں کسی کمپنی میں اکاونٹس کی نوکری کرتے ہیں ۔ ان کی عمر 50 سال ہے ۔ دادا کی تھوڑی سے زمین تھی وہ بیچ باچ کر یو کے نکل گئے تھے ۔ وہی سیٹل ہو گئے ۔ اور 15 ایکڑ کے قریب زمین بھی خریدی ۔ دو پلاٹ ہیں مظفر آباد میں ۔ اور دو گھر ہیں ایک میں ہم رہتے ہیں ایک کرائے پہ دے رکھا ہے ۔ جو کہ ہمارے گھر سے 8 یا 10 کلومیٹر دور ہے ۔ یعنی بے شمار دولت تو نہیں تھی ۔ لیکن پھر بھی اللہ کا شکر ہے کافی کچھ تھا ۔
میں بچپن سے ہی ہر لڑکے کی طرح پڑھائی سے دل چرانےو الا تھا ۔ اب لڑکوں کے قبیلے کا نام تو نہیں ڈبو سکتا تھا نا ۔ اس لیے گزارے کی پڑھائی کر کے لڑکا برادری کی ناک اونچی ہی رکھی ۔ بس اتنا پڑھ لیتا تھا کہ پاس ہو جاتا ۔ مجھے کونسا ایٹم بم کے پرزے بنانے ہیں ۔ یا کشش ثقل پر ریسرچ کرنی ہے ۔
مجھے نہیں پتا اپنی آپ بیتی کیسے شروع کروں ۔ مجھے لکھنے کا اتنا شوق بھی نہیں ۔ چنانچہ چھوٹی موٹی غلطیوں کو اگنور کر دیجیے گا ۔ اگر نہیں کرنا تو میرا کیا جاتا ہے ۔
خیر ہمارا گھر پاکستان کے ماڈرن گھرانوں کی طرح ایک گھر ہے ۔ کچھ کچھ فیشن کچھ کچھ مزہب ۔
اس لیے ہم ایک دو بار یوکے گئے ، کچھ ماہ رہے انجوائے کیا اور واپس پاکستان آگئے ۔ حلانکہ ہم سب کے کاغذات بھی بن چکے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں اچھی زندگی گزر رہی ہے چنانچہ یو کے میں رہنا ضروری نہیں تھا ۔
میرا خیال اب کہانی کے طرف آتے ہیں کافی تعارف ہو چکا ہے ۔ مجھے بھی دوسروں کی طرح اپنی فیملی سے محبت تھی ۔ ہم ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے تھے ۔ تنگ کرنا چھیڑ چھاڑ کرنا بھی چلتا ہے ۔ اور لان میں کھیل تماشا بھی ۔
میں تب بی ایس سی کے پیپرز دے رہا تھا ۔ میرا خاندان جدی پشتی حساب یا ریاضی میں ماہر تھا ۔ سالے سب 100/100 نمبر لینے والے ٹاپر ۔ اور میں جس کوریاضی سے چڑ تھی ۔ میٹرک سے لیکر اب تک ریاضی میری بڑی بہن ہی مجھے پڑھاتی تھی ۔ پڑھائی کے دوران میرا سر اکثر اسکے سر کے ساتھ ٹکرا جاتا ۔ یا میں جان بوجھ کر مار دیتا ۔
گرمی کے دن تھے اور پہاڑی علاقے میں حبس بنی ہوئی تھی جو کہ معمول کی بات ہے ۔ روچی میرے سامنے میرے ہی بیڈ پر بیٹھی تھی کدو کلر کا کاٹن کا سوٹ پہنے ہوئے تھی ۔ اس کی کہنی بیڈ کے گدے میں پیوست تھی اور اسکا ہاتھ اسکی ٹھوڈی کے نیچے اس کو سہارہ دے رہا یعنی بائیں ہاتھ پر اسکے چہرے وزن تھا اور دائیں ہاتھ سے وہ ریاضی کا ایک سوال حل کر رہی تھی ۔
میری اچانک نظر اس کے سینے پر پڑی ، کھلے گلے میں اس کے ممے آدھے آدھے نظر آرہے تھے ۔ دوپٹہ تو وہ لیتی نہیں تھی نا ہی امی ۔ بے پردگی کی بھی حد ہے ۔
میں نے پھر باجی روچی کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ اس کا دھیان کاپی اور سوال کی طرف ہی تھا ۔ میں نے پھر اس کے مموں کی طرف لیکن اس بار گہری نظر سے دیکھا ۔
چٹے سفید بغیر داغ کے بھرے بھرے ممے ۔ لیکن لٹکے ہوئے نہیں تھے ۔
جسم میں عجیب سا سرور دوڑا گیا ۔ اگلے ہی لمحے دل نے مجھے عزت کے ساتھ مخاطب کیا ۔ جیسے عمران خان نواز شریف و زرداری کو مخاطب کرتا ہے ۔ اوئے بے غیرتا ۔ اوئے کمینے بہن ہے تیری ۔
خیر میں نے زبردستی دھیان کاپی پر رکھا ۔ نگاہ تھوڑی سرکی اور اس کے ہاتھوں پر غور کرنے لگا ۔
سفید اور ملائم ہاتھ ۔ نا جھری نا داغ نا میل ۔ اپنے ہاتھوں پر غور کیا تو لگا جیسے مزدور کے ہاتھ ہوتے ہیں ۔
دل نے کہا۔۔۔۔ کامی اپنا کام کر ۔ بہن یکی نا کر ۔ میں بھی کیا ہاتھوں کو لیکر بیٹھ گیا ۔
روچی : کامی !!!! تھوڑا پانی تو لانا۔۔۔۔۔۔۔۔ پیاس لگ گئی ہے ۔
میں کچن میں گیا تو امی چولہے کی طرف منہ کر کے کھانا پکا رہی تھی ۔ اور ان کی پشت میری طرف تھی ۔ میں نے نظر بھر کر دیکھا تو وہ ایک اچھی خاصی موٹی ہپ کی مالک تھیں ۔ غالبا 42 ہوگی ۔
منہ بسورتے ہوئے فریج سے پانی نکالا پانی کا گلاس لیا اور اپنے کمرے میں آگیا ۔
پانی بیڈ پر ہی رکھا تو روچی سیدھی ہو کر بیٹھ چکی تھی ۔ پانے کے گلاس کو منہ لگایا اور پینے لگی ۔ میری نظر اس کے گلاس سے ہوتی ہوئی اس کی گردن پر آئی ۔ عام لڑکیوں سے ہٹ کر تھوڑی لمبی گردن تھی وہ بھی پورے جسم کی طرح سفید ۔ اور واقعی جو کہتے ہیں اتنی گوری کہ پانی بھی گلے سے نظر آئے ۔
پانی کی چند بوندیں اس کے ہونٹوں سے بہتی ہوئی گردن سے ہوتی ہوئی مموں کے درمیان کہیں گم ہو گئیں ۔
مجلد ہی نظر ہٹا کر پانی والی بوتل کو دیکھنے لگا ۔ مجھے اب اپنے آپ پہ غصہ آرہا تھا ۔۔۔ کہ کیا ہوگیا آج ۔ ماں بہن ایک ہی کرتا جا رہا ہوں ۔
خیر میں نے سر جھٹک دیا اور ریاضی کے سوال کی طرف دھیان دینے لگا ۔ کچھ دیر سمجھانے اور پڑھانے کے بعد روچی اٹھ کر چلی گئی ۔
میں کچھ دیر کتابیں سمیٹیں کہ چلو آج کے لیے بہت ہوگئی پڑھائی ۔ لگاتار 1 گھنٹہ پڑھانا بھی عذاب تھا ۔
وہ بھی بغیر کسی ریسٹ کے ۔
اپنی گردن کو الٹا سیدھا گھماتا گھر سے باہر نکلا ۔ جیسے بہت پڑھ لیا ۔ باہر اتنی رونق نہیں تھی ۔ گرمی تھی لوگ گھروں میں ہی تھے ۔ گلی میں اسد چلتا آرہا تھا ۔ اسد مجھ سے چھوٹا ہے لیکن دوست ہے ۔ اس کے ابا حکیم ہیں ۔ اور دادا بھی حکیم تھے ۔ اسد کے زریعے میں جسم بڑھانے مسلز وغیرہ کے لیے دیسی دوائی لیتا تھا ۔
اس ضمن میں ایک واقع بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ( جب میں نویں کلاس میں تھا تو ابو یو کے سے آئے ہوئے تھے ۔ حکیم صاحب ان کے کلاس فیلو تھے ۔ اس ان سے بے شرمی ، بے شرمی دوائیاں لیتے تھے ۔ جیسے کہ ٹائمنگ کی اور لن کا سائز بڑا کرنے والی ۔
مجھے نہیں پتا تھا اس سے فرق پڑا یا نہیں ۔ انہوں نے اپنی ممنوعہ دیسی دوائیاں الماری میں رکھی ہوتی تھیں ۔ وہاں اور بھی بہت سی دوائیاں تھیں جو اکثر گھروں میں ہوتی ہیں ۔ انہوں نے جیسی بھی اور جتنی بھی استعمال کی وہ تو واپس یو کے چلے گئے ۔
مجھے ایک بار سر درد ہوا تو امی نے کہا میرے کمرے کی الماری سے ڈسپرین کی گولی لے آو ۔ یہ کہہ کر امی اپنے کاموں میں لگ گئیں اور میں نے ڈسپرین کا ڈبہ کھولا اس میں کچھ پُڑیاں تھیں ۔ میں نے پہلے کبھی ڈسپرین استعمال نہیں کی تھی ۔ ایک پڑی اٹھائی اس میں براون رنگ کی گول مٹول گولی تھی ۔ وہ میں نے پانی کے ساتھ لے لی ۔ مجھے گولی کھانے کا شوق تھا ، مجھے شک تھا کہ یہ جسم کو بڑا کرتی ہیں اور انسان جلدی بڑا ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ڈسپرین جو ٹی وی میں دکھاتے ہیں وہ سفید رنگ کی ہوتی ہے ۔
اسی طرح لگاتار میں نے تین دن دوائی کھائی ۔ وہ لن لمبا کرنےو الی دوائی تھی ۔ میرا معدہ اس کو پچا نہیں سکا ۔ اور درد رہنے لگی ۔
جب امی کو بتایا تو انہوں نے ایک ڈاکٹر کو دکھایا ۔ ڈاکٹر نے امی سے میری خوراک پوچھی ۔
امی نے واجبی سے کھانے کا بتایا ۔ ڈاکٹر نے میرے پیٹ پر ہاتھ لگا کر دبایا اور پوچھا درد ہوئی ؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ڈکٹر نے امی سے کہا اس نے کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہے ۔ معدہ درد ہے اسکا ۔
ڈاکٹر نے دوا دی ۔ ہم نے ہسپتال کے میڈیکل سٹور سے وہ خریدی ۔
رستے میں امی نے پوچھا ۔۔۔۔۔ کامی بیٹا کیا کھایا تھا ؟
میں نے کہا امی سچی باہر سے کوئی چیز لیکر نہیں کھائی ۔ بس آپ نے جو دوائی کہی تھی وہی کھائی براون کلر کی ۔
امی نے گھور کر مجھے دیکھا ۔ ہیں ؟ کون سی براون گولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈسپرین تو سفید ہوتی ہے ۔ میں کہا نہیں امی ڈسپرین کے ڈبے میں تھی ۔
امی اور میں فورا گھر آئے ۔ امی مجھے اپنے کمرے میں لے گئی ۔ اور مجھے کہا دکھاو کونسی دوائی لی تھی ؟
میں نے ڈسپرین کا ڈبہ اٹھایا اس کے اندر ایک پُڑی تھی ۔ پُڑی کے اندر گولیاں تھیں ۔ غالبا دو تین باقی بچی تھیں ۔
امی اس وقت سر پکڑ کر بیڈ پر گِر گئی اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا ۔
افففففف کامی تم نے یہ کیا کھا لیا ۔
کیوں امی یہ کس چیز کی گولی ہے ۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا ۔
اب امی کیا بتاتیں ۔ مجھے کہنے لگیں ایک کھائی تھی ؟
میں نے جواب دیا نہیں ہاں ایک کھائی تھی ۔ لیکن تین دن تک ایک ایک
امی کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ غصہ بھی تھا لیکن اتار نہیں سکتیں تھیں ۔ کیونکہ اپنی بھی غلطی تھی ۔
پھر امی نے مجھے دونوں بازووں سے پکڑا اور اپنے قریب کیا اور چوما ۔
کہنے لگیں بیٹا کامی تم نے غلط گولی کھا لی ہے ۔ اب کسی کو بتانا مت ، لیکن تمھارے جسم میں کچھ بھی گڑ بڑ ہو ۔ درد ہو تو مجھے فورا بتانا ۔ میں تمھیں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گی ۔
اور پھر مجھے گلے لگا لیا ۔ میں اس وقت نویں کلاس میں تھا سمجھدار تو نہیں تھا لیکن بالغ تھا ۔
امی کے بڑے بڑے ممے جب میرے سینے پر لگے تو عجیب سی کیفیت آئی ۔ یہ پہلے نہیں تھی ۔
میرا بھی دل چاہا میں بھی امی کو بھینچ لوں ۔ لیکن ڈر رہا تھا ۔
شاید امی کو میں پریشان لگا ۔ یا انکو لگا مجھے پیٹ میں درد ہے ۔ اس لیے بس بُت بنا کھڑا ہے ۔
امی نے مجھے بیڈ لٹایا ۔ لیکن جونہی خود جھکیں تو 38 سائز کے مموں کی لکیر میر نظروں کے سامنے تھی ، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی وہ قمیض پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے ۔
یہ جذبات میرے لیے نئے تھے ۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔ امی نے میرے پیٹ سے قمیض ہٹائی تاکہ پیٹ کی مالش کر سکیں ۔ لیکن شلوار اٹھی ہوئی تھی ۔ اگر تھوڑی سے اٹھی ہوتی تو شاید وہ یہی سمجھتیں کہ میرا لن کھڑا ہے ۔ لیکن وہ بہت زیادہ اٹھی ہوتی تھی ۔ امی نے سمجھا کہ شلوار کا کپڑا کھڑا ہے ۔ انہوں نے پیٹ پر ہاتھ لے جاتے ہوئے اس اٹھی ہوئی شلوار کو بٹھانے کے لیے چھوا تو انکو بھی 440 واٹ کا جھٹکا لگا ۔ میں فورا دہرا ہو گیا ۔
کیونکہ یہ کل رات سے کھڑا ہے ۔ اور تھکنے کی وجہ سے درد ہونے لگ گیا تھا ۔
میں کہانی بنانے یا جھوٹ بولنے کے لیے نہیں کہہ رہا ۔ اس وقت میرا ہم عمر لڑکوں سے ویسے بھی بڑا تھا اور باقی ادویات کا اثر تو جو میں لے رہا تھا ۔ 6 انچ تو ہو چکا تھا اور موٹا بھی ۔
امی پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ۔ انہوں نے فورا ابو کو کال ملائی ۔
اور ان سے بات کرنے لگیں ۔
رسمی سلام دعا کے بعد انہوں نے ابو سے کہا کہ گڑ بڑ ہو گئی ہے ۔ کامی نے آپ کی میڈیسن کھا لی ہے ۔ آگے سے ابو نے پوچھا ہوگا کونسی میڈیسن
تو امی نے جواب دیا وہی جو آپ حکیم سے لائے تھے ۔ اور ان کا اثر بھی ہو رہا ہے اس کے ہارمونز تبدیل ہو رہے ہیں ۔
تو ظاہر ہے ابو بھی پریشان ہو گئے ہوں گے ۔ لیکن کیا جواب دیا مجھے نہیں معلوم ۔
بس امی ہممم ہممم کرتی رہیں ۔ پھر فون بند کر دیا ۔
فون بند کرنے کے بعد امی نے دروازے کی طرف دیکھا ۔ پھر امی کچن میں گئیں اور پانی کا گلاس لیکر آگئیں ۔ آتے ہوئے کمرے کا دروازہ آدھا بند اور باقی کھلے دروازے کے سامنے پردہ ڈال دیا ۔
میں بیڈ پر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا ۔ امی نے پیار سے میرے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ کامی جو میں پوچھوں گی وہ سچ سچ بتاو گے ؟
میں نے تابع داری سے کہا جی امی آپ حکم کریں ۔
بیٹا جو میں پوچھوں وہ کسی کو بتانا بھی مت ۔ نا روچی کو اور نا ہی احسان کو ۔ بلکہ کسی کو بھی نہیں ۔
میں بھی حیران ہو رہا تھا یہ کیسا روز پوچھنے والی ہیں ۔
مانیں نے مانیں میرے زہن میں فورا اس وقت ریاضی کا ٹیسٹ آگیا ۔ کہیں پتا تو نہیں چل گیا کہ ٹیسٹ میں فیل ہو گیا ہوں ؟
امی نے بغیر کسی تمہد کے پوچھا ۔ کامی کبھی مٹھ ماری ہے ؟
میں تو پہلے سمجھا نہیں کہ مٹھ کسے کہتے ہیں ۔ سچ کہوں تو مٹھی کو ہی مٹھ سمجھ بیٹھا تھا ۔ اس کشمکش میں تھا غالبا امی سمجھ چکی تھیں مجھے نہیں پتا ۔
فورا ہی کہا کبھی اپنے اس شیر کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلایا ہے ؟
اب مجھے شرم آنے لگی ۔ آنکھیں نیچے کر لیں ۔ اور کہا نہیں امی مجھے شرم آتی ہے ۔
امی نے پانی کا گلاس پیا اور کچھ سوچنے لگیں ۔ پھر مجھے کہا کہ کامی جو باتیں ہوئی ہیں وہ کسی سے زکر نا کرنا ۔
میں نے جی اچھا کہا ۔
امی اٹھ کر اپنے کام کرنے لگ گئیں اور میں باہر نکلا ۔ گھر سے باہر جاتے ہوئے امی نے دیکھا اور میں نے بھی محسوس کیا کہ میری قمیض پر اچھا خاصہ تمبو بنا ہوا ہے ۔
بہن چود یہ کیا مصیبت ہے اب ۔ خیر قمیض کو پکڑ کر تھوڑا کھلا کر کے چل رہا تھا ۔ تاکہ پتا نا چلے شیر اٹھا ہوا ہے ۔ امی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہیں تھیں ۔
کچھ دیر باہر مٹر گشت کیے شام ہو گئی اور اپنے اپنے کمروں میں گھس گئے ۔ تب میرا کمرہ نیچے ہی ہوتا تھا ۔ روچی آپی کے پاس والا کمرہ ۔ سامنے ہال تھا جس میں ایل سی ڈی لگی ہوئی ہے اور سامنے صوفے وغیرہ رکھے ہیں اس کو کامن روم بنا رکھا ہے ۔ یا سٹنگ روم سمجھ لیں ۔ اسی ہال کے سامنے امی ابو کا کمرہ ہے اور ساتھ کچن و واش روم اور گھر کے پچھلے لان کی طرف جانےو الا دروازہ ۔
رات کا کھانا کھا کے سب اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے میرے ذمہ داری تھی گھر کے دروزوں مین گیٹ کو تالا وغیرہ لگانا ۔ سب کام نپٹا کر میں اپنے کمرے میں آیا تو سردی لگنے کے بجائے مجھے گرمی لگ رہی تھی ۔ اس لیے قمیض اتار کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔ میرا لن فل اکڑا ہوا تھا ۔ اس کی جڑوں میں درد ہو رہی تھی ۔ اور میں تنگ آکر اپنے لن سے ہی باتیں کرنے لگا ۔
بیٹھ جا میرے بھائی ۔ بس کردے سالے تھک گیا ہوں میں ۔
جونہی لن پر ہاتھ لگا تو سکون بھی آیا اور مزہ بھی ۔ ایسی ہی بے ہودگی سوچتے سوچتے گھنٹہ گزر گیا ۔
اچانک میرے کمرے کا درزاہ آہستہ سے کھلا ۔ باہر ہال میں زیرو کا بلب جل رہا تھا ۔ تو جسامت سے امی ہی لگیں ۔
امی نے دروازہ بند کیا اور آہستہ سے لاک بھی لگا دیا ۔ اور دبے پاوں میرے بیڈ کے پاس آکر مجھے دیکھنے لگیں ۔
اب حالت یہ تھی کہ میرا ایک بازو میرے سر کے نیچے تھا اور دوسرا ہاتھ میرا لن پہ تھے ۔ امی کی اچانک آمد پر میں ہاتھ ہٹا نہیں سکا ۔
امی نے بھی نوٹ کر لیا ۔ اور آکر میرے بیڈ پر ہی بیٹھ گئیں ۔ امی کچھ دیر بیٹھی رہیں ۔ وہ کچھ سوچ رہیں تھیں یا کچھ فیصلہ کرنا چاہ رہی تھیں ۔ لیکن معاشرہ مزہب سب کچھ حائل تھا ۔ کیونکہ ماں اپنے بیٹے سے ایسی باتیں نہیں کرتی ۔ جو امی نے مجھ سے کی ۔ اچھے بھلے لن کو شیر بنا دیا ۔ یہ سوچتے ہی میں نے فوراً لن کو چھوڑ دیا ۔
امی کی ٹانگیں ابھی بھی بیڈ کے نیچے لٹک رہی تھیں ۔ پھر اسی طرح مجھ پر جھک گئیں ۔ اور پوچھا ۔
کامی بیٹا کچھ آرام آیا ؟
میں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا درد ہو رہی ہے ۔ امی نے کہا – بیٹا میں جانتی ہوں ۔
پھر مجھے کہا کہ وعدہ کرو کسی کو کچھ نہیں بتاو گے ؟
میں نے پوچھا کیا امی ؟
تو انہوں نے کہا جو میں کرنے والی ہوں ۔ کسی سے ذکر مت کرنا ۔ ورنہ تمھاری ماں مر جائے گی ۔
میں بھی جذباتی ہو گیا اور کچھ درد کا اثر تھا ۔ نم آنکھوں سے کہا امی ایسا نہ کہیں پلیز ۔ آپ کے لیے جان بھی حاضر ہے ۔
امی اب اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔ اور میری شلوار تھوڑی سے نیچے کی ۔ میرا لن اس وقت 90 ڈگری اینگل پر بالکل سیدھا کھڑا تھا ۔ امی نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کو پکڑا ۔ انہوں نے جب لن پکڑ کر مٹھی بند کی تو میں دیکھ رہا تھا کہ آدھا لن ابھی بھی مٹھی سے اونچا ہے ۔
میں سوچ میں پڑ گیا یہ پہلے تو اتنا بڑ ا نہیں تھا ۔ خیر امی کے ہاتھ سے عجیب سا سرور آنے لگا ۔ اور مجھے اچھا لگنے لگا ۔ امی میرے پیٹ کے پاس بیٹھی تھیں اور بائیں ہاتھ سے لن کو آہستہ آہستہ ہلا رہی تھیں ۔ اتنا بڑا تو تیرے باپ کا نہیں ہوا ۔ اور ساتھ ہی مجھے مسکرا کر دیکھا ۔
پھر ایک کس میرے ماتھے اور گالوں پر کی ۔
جونہی وہ میرے اوپر جھکی ان کے بڑے بڑے ممے میرے سینے کو لگے ۔ سینے سے لگنے کی وجہ سے انکے سفید ممے انکی قمیض کے گلے سے باہر آنے کے لیے جتن کرنے لگے ۔
عجیب سا ہی سین تھا وہ ۔ آدھے سے زیادہ ننگے ممے ننگے ہو چکے تھے ۔ اور یہ میرے لیے بہت ہی حسیں نظارہ تھا ۔ میرے لن میں بھی کرنٹ دوڑا جو امی نے بھی محسوس کیا ۔
اسی دوران امی نے ایک اور عجیب حرکت کی ۔ ایک ٹانگ میرے اوپر سے ہوتی ہوئی دوسری طرف رکھی ۔، جیسے کوئی انسان کسی لیٹے ہوئے بندے کے اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتا ہے ۔
امی کی انکھوں میں دیکھا تو ان کی آنکھوں میں عجیب سا خمار تھا ۔ اور ساتھ خوف بھی ۔
امی آہستہ آہستہ میرے اوپر لیٹ کر مجھ پر گرفت مضبوط کرنے لگیں جیسے قبضہ مافیا کسی پلاٹ پر قبضہ جما لیتا ہے ۔
اب حالت یہ تھی کہ میں بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا اور امی میری طرف منہ کر کے میرے اوپر ہی سیدھا لیٹ گئیں ۔
ان کی ٹانگوں کے درمیان میرا لن تھا ۔ انہوں نے دونوں بازو میرے چہرے اور سر کے گرد
لاک کیے ہوئے تھے ۔
امی تھوڑا سا نیچے ہوئی تو انہوں نے اپنے رانوں کوآخری حصے یعنی پھدی کے بالکل قریب سے میرے لن کو جکڑ لیا ۔ میں کچھ دیر حیران و پریشان لیکن جلد ہی اس صورت حال کو انجوائے کرنے لگا ۔
امی میرے رخساروں آنکھوں و ماتھے پر کس کر رہی تھیں ۔ اور ساتھ ہی رانوں کی گرفت میرے لن کے گرد سخت کرتی جا رہی تھیں ۔
میرا لن ننگا تھا لیکن انہوں نے شلوار پہن رکھی تھی ۔ اس کے باوجود مجھے ان کی رانوں کی گرمی ساتویں آسمان پر اڑا رہی تھی ۔
امی کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا اور ان کے پورے جسم کے نیچے میرا جسم
تھا ۔ میری جسمات اس وقت ان سے کم تھی ۔ اس لیے ان کی گرفت مجھ پر سخت تھی ۔
اس حالت میں مجھ سے بھی نہیں رہا گیا اور خود ہی میں نے اپنی گانڈ کو اٹھانا شروع کر دیا پھر بٹھا لیتا ۔اپنے دونوں ہاتھ امی کی بڑی گانڈ پر تھے اور ان کو مسل رہا تھا ۔ ان کی گانڈ پورن ایکٹریس الیکسز ٹیکساس کی طرح بڑی تھی ۔ جس کی میں نے تصاویر بھی دیکھ رکھی تھیں ۔ امی کی گانٹھ میرے ہاتھوں بلکہ بازوں میں بھی نہیں آرہی تھی ۔ اتنی بڑی گول اور ملائم گانڈ کا سوچ کر مجھے اور جوش چڑھ گیا ۔ اور جھٹکے دینے لگا ایسے کرنے سے صاف دکھ رہا تھا جیسے میں انکی رانوں کو چود رہا ہوں ۔
اوپر سے امی بھی میری حرکت کو سمجھ گئی ۔ اور انہوں نے اپنے گانڈ کو بھی ہوا میں اٹھا لیتیں پھر واپس لن پر اپنی رانوں کی گرفت مضبوط کر لیتیں ۔
ایسا کم سے کم 5 منٹ چلا ۔ میں ایک عجیب سے نشے اور دنیا میں اتر چکا تھا ۔ مجھے اپنا لن گیلا محسوس ہوا ۔ شاید امی گیلی ہو چکی تھیں ۔ اور میں نے کچھ جھٹکے مار کر فارغ ہوتا گیا ۔
میرا جسم اکٹر گیا ۔ اور سر سے پاوں تک ایک عجیب سا مزہ تھا جو بیان سے باہر تھا ۔
کچھ دیر تک امی ایسے ہی پڑی رہیں ۔ جب دیکھا کہ میں کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا میرے اوپر سے اٹھ گئیں ۔ اپنی شلوار دیکھی تو لگتا تھا کسی نے پوری بالٹی پانی بھر کر پھینکی ہے ۔ میرے جسم سے نکلے والی مادہ الگ ہی نظر آرہا تھا ۔ سرمئی رنگ گا اور گاڑہ ۔ (جاری ہے)
امی نے نے مجھے کہا اپنا وعدہ یار رکھنا ۔ کپڑے پہنو اور سو جاو ۔ اور ایسے ہی کمرے سے نکل گئی ۔
نیند لوڑا آتی ۔ میں ابھی شاک میں تھا ۔ یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ کیسے ہو گیا ۔ لیکن ایک بات جس پر نہ میرے دل کو اعتراض تھا نا دماغ کو ۔ کہ مزاہ کی بلندیوں پر تھا ۔
یہی سوچ رہا تھا لن کی طرف دھیان گیا ۔ تو وہ آدھا بیٹھ چکا تھا ۔ میں نے شکر ادا کیا
اٹھ کر باتھ روم گیا شلوار وہیں رکھی ۔ ٹراوزر پہنا اور دوبارہ بیڈ پر لیٹ کر سو گیا ۔
اتنی ٹوٹ کر نیند آئی کہ بتا نہیں سکتا ۔ صبح اٹھا تو ترو تازہ اور ہشاش بشاش تھا ۔
شاید جسم کا پریشر نکل چلا تھا ۔ اور لن بھی بیٹھ چکا تھا ۔ لیکن بیٹھ کر بھی وہ عجیب سا ہو گیا پھولا پھولا جیسے سوجا ہوا ہے.۔۔۔ 
Like Reply
جهگڑا اور ہوس”

وہ دن گیا اور آج کا دن نا امی نے کبھی ایسا کیا نا ہی یہ دوبارہ ایسے کھڑا ہوا ۔ کھڑا ہوتا ہے اور پرپھر بیٹھ جاتا ہے ۔ نارمل انسانوں کی طرح ۔ لیکن اس واقعے نے میرے زہن میں گہرے نقوش چھوڑے ۔ میری بھی فرمانبرداری تھی کہ دوبارہ امی کو تنگ نہیں کیا ۔ البتہ تاڑ ضرور لیتا تھا ۔ اور مزے لے لیتا ہوں ۔ لیکن ایک حد تک ۔
احسان سے پوچھا کدھر تھا بے تو ؟ اور کدھر سے آرہا ہے ؟
کہنے لگا باجی آشی کو ٹویشن سینٹر چھوڑ کر آرہا ہوں ۔
مجھے تپ چڑھ گئی ۔ سالے تو اور تیری بہن ایک دن پٹو گے مجھ سے ۔ کتنی بار کہا ہے کہ میری بائک لے جایا کر ۔ بہن چود پوری دنیا کو دکھانا لازمی ہے کہ ہم ٹویشن جا رہے ہیں ۔
آشی اور احسان دونوں مجھ سے چھوٹے ہیں ۔ اور مجھے چھوٹے بہن بھائیوں کی طرح ہی عزیز ہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فیملی جو حیثیت میں ہم سے کم تھی اور ہماری فیملی کے آپس میں اچھے تعلقات تھے ۔ احسان کا ایک بھائی اس سے چھوٹا ہے ۔ اور ایک بڑی بہن آشی ہے ۔ جس کو وہ ٹویشن چھوڑ کر آیا ہے ۔
خیر ہم دونوں باتیں کرتے کرتے بازار کی طرف جانے لگے ۔ جم میں گھس گیا اور احسان ٹریڈ مل پر چڑھ کر والک کرنے لگا اور میں مسل بنانے لگا اور ساتھ ہلکی پھلکی ورزش بھی ۔
دوران ورزش میرا خیال اچانک روچی آپی کی طرف چلا گیا ۔ اور میرے لیے حیران کن تھا کہ میں اس کے مموں کے بارے نہیں بلکہ اس کے پورے وجود کے بارے میں سوچنے لگا ۔
کیا کوئی لڑکی اتنی بھی پیاری ہو سکتی ہے ؟ سارے فگرز بالکل پرفیکٹ ۔ پتلی سی کمر ۔ اور سب سے بڑھ کر اسکا مجھ سے پیار ۔ مجھ سے غصہ ۔ میرے چھوٹے موٹے کام کرنا میرا خیال رکھنا ۔
ہمارے معاشرے میں بڑی بہن آدھی ماں ہوتی ہے ۔ بلکہ سچ کہوں تو دوسری ماں ہوتی ہے ۔
ایسا سوچتے سوچتے میں تیزی سے ورزش کرنے لگا میں اس وقت pek deck مشین پر تھا اور تیزی سے وزن اٹھا رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد میں پسینے میں شرابور ہو چکا تھا ۔ اور اپنا آپ صاف کیا احسان اس وقت تک جا چکا تھا ۔
میں گھر گیا تو گیٹ میں انٹر ہوتے ہی فرنٹ لان میں دیکھا سب سے پہلے جس پر نظر پڑی وہ روچی آپی ہی تھیں ۔ کرسی پہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھی تھیں اور موبائل استعمال کر رہی تھیں ۔ مجھ پر نظر پڑی تو مسکرا کر کہا ۔
آگئے تم باڈی بلڈر ۔ ؟ شاید میری بھیگی شرٹ کو دیکھ کر انکو اندازہ ہو گیا تھا میں جیم سے ہی آرہا ہوں ۔
جی آپی آپ سنائیں کیسی ہیں ۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا اور ساتھ سوال بھی کر دیا ۔
میں ٹھیک ہوں زرا دکھاو تو اپنے ڈولے ۔
لان میں اس وقت دور ایک بلب جل رہا تھا اسکی روشنی میں ہم ایک دوسرے کو صاف صاف دیکھ سکتے تھے ۔
روچی آپی اٹھ کر میری کرسی کے پاس کھڑی ہوگئی ۔ اور اپنا ملائم سا ہاتھ میرے دائیں ڈولے پر رکھ دیا ۔
اور بہت پیار سے دیکھ رہی تھیں اور ہلکا سا ہاتھ بھی پھیر رہی تھیں ۔
واہ کیا بات ہے کامی ۔ تم تو بہت سخت اور جاندار ہو ۔ روچی آپی کافی متاثر نظر آئیں ۔
اور میرا بازو پکڑ کر مجھے اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔ چلو اندر آجاو میں اپنی جان کو دودھ پلاتی ہوں ۔ بیچارہ تھکا ہوا ہوگا ۔
میں بھی اس کے ساتھ چلنے لگا ۔ یہ ایک مزے کا احساس تھا ۔
گھر کے اندر آکر مجھے دودھ کا گلاس لا دیا ۔ جو میں فورا پی گیا ۔ پھر کہنے لگی شرٹ اتار دو میں تولیے سے جسم صاف کر دیتی ہوں ۔ پھر نہا لینا ۔
یہ اب نیا تجربہ تھا ۔ اس سے پہلے کے مریو آجاتی میں نے شرٹ اتار دی ۔
روچی آپی سے نظر بھر کر میرے جسم کو دیکھا اور پھر تولیے سے پہلے بال صاف کیے پھر میررے کندھے اور سینے پر تولیہ سے نمی کو صاف کرنے لگی ۔ ۔
سینے پر صاف کرتے ہوئے روچی آپی میرے بہت ہی قریب آچکی تھی ۔
مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا محبوب میرے جسم کو صاف کر رہا ہے ایک عجیب سا احساس تھا ۔
لیکن اس احساس میں بہت سکون تھا ۔
اس لیے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ فورا روچی آپی کی آواز آئی ۔
اوئے کھڑے کھڑے سو مت جانا ۔ چلو شاباش اب جاکر نہا لو ۔
اسی لمحے امی کی آواز آئی ۔ کامی بیٹا زیادہ ایکسرسائز جسم کے لیے اچھی نہیں ہوتی بیٹا ۔ کیوں اس کو مشقت میں ڈالتے ہو ۔
میں نے امی کو جواب دیا کہ نہیں امی جو پرفیشنل ہوتے ہیں میں ان کی طرح نہیں کرتا ۔ بلکہ ہاتھ ہولا ہی رکھتا ہوں ۔
اپنے کمرے میں گیا وہاں سے نئی شرٹ اور ٹراوزر لیا اور وش روم میں گھس گیا ۔
نہا دھو کر اپنی لاڈو رانی مریو کو اٹھایا اور اس سے کھیلنے لگا ۔
اتنی دیر میں کھانا لگ گیا اور سب کھانا کھانے لگے ۔ مریو ابھی بھی میری گود میں بیٹھی تھی ۔
اور میں خود بھی کھانا کھا رہا تھا ساتھ اس کو بھی کھلا رہا تھا ۔
کھانا کھانے کے دوران میری نظر روچی آپی کی طرف جا رہی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے نوالے توڑ کر کھا رہی تھی ۔
کیا ہو گیا مجھے کیوں اس کی ہر ادا پسند آنے لگی ۔ کیوں دل کو اچھی لگنے لگی ۔
خود کو سمجھایا جوتے ہی کھا کر باز آوں گا ۔
آپی روچی دن کا بیشتر حصہ سیریس ہی رہتی ہے ۔ بہت کم سہیلیاں ہیں ۔ کسی سے فالتو بات نہیں کرتی ۔ ہے مجھ سے ایک سال بڑی لیکن مجھے اسکے غصے سے بہت ڈر لگتا ہے ۔
ایسے ہی کچھ دن گزر گئے میرے پیپرز ختم ہو چکے تھے ۔ اس دوران بس میرا دل اپنی آپی کی طرف مائل ہوتا جا رہا تھا ۔ اور میں کچھ نہیں کر پا رہا تھا ۔
دل چاہتا تھا وہ نظروں کے آس پاس رہے ۔ وہ میرا خیال رکھے ۔ اور میں ؟
میں اس کو زمین پر پاوں نہ اتارنے دوں ۔ اسکا چہرہ اپنے دونوں میں لیکر اس کو چومتا رہوں ۔ اس کے ہاتھوں کو ۔ سیکس کو چھوڑ کر ایک محبوب کی طرح اس کو پوجوں ۔ اس کو پیار کروں ۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ جزبہ مزید پختہ ہوتا گیا یا پروان چڑھ گیا ۔ میرا دن ہی نہیں گزرتا تھا اگر روچی آپی سے بات نہ کروں یا ان کے بارے میں نا سوچوں ۔
کئی بار مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود رہا ۔
کئی سوچوں میں گھرا رہا ۔ کہ وہ میری بہن ہے ۔ مقدس رشتہ ہے ۔ فورا ہی دل پکار اٹھتا ہے کہ میں کونسا غلط نظر سے دیکھتا ہوں ۔ پیار سے ہی دیکھتا ہوں ۔ البتہ کبھی کبھی اس کے جسمانی حصوں پر غور کرتا تو خود پر کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
آہستہ آہستہ ھوا میں خنکی آنے لگی ۔ شامیں اور صبحیں سرد ہونے لگیں ۔ لیکن میرے جزبات مسلسل سلگ رہے تھے ۔
ایک صبح روچی آپی کو گرلز کیمپس اتارا اور گھر واپس آگیا ۔ دوپہر کو پھر لینے جانا تھا ۔
امی نے بھی سامان کی لسٹ پکڑا دی ۔ کہ جب عروسہ کو لینے جاو تو واپسی پر سامان لیتے آنا ۔
دوپہر کے وقت سوچا روچی کو کہاں ساتھ لیے پھرتا رہوں گا ۔ پہلے گھر کا سودا لے لیتا ہوں ۔ پھر اس کو بھی پک کر لوں گا ۔
سامان خریدتے مجھے کچھ تاخیر ہو گئی ۔ میں بائیک پر ہی روچی کے کیمپس گیا تو کچھ ہنگامہ نظر آیا ۔ جو کہ عموما ایسا ہوتا نہیں ہے ۔
وہاں دو لڑکے تھے جو لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے ۔ جب غور سے دیکھا تو روچی بھی تھی ان لڑکیوں میں۔
بس کامی صاحب کا پارہ ساتویں آسمان پر ۔ گردن کی رگیں پھولنے لگیں ۔ سارا خون میرےچہرے پر سمٹ آیا ۔ کان بند ہو چکے تھے ۔ بس نظریں اس منظر پر ٹکی تھیں ۔
میں نے بائک کو سٹینڈ پر لگانے کے بجائے ویسے ہی پھینک دیا ۔ اور بھاگ کر ایک لڑکے کے بال پیچھے سے پکڑ لیے ۔ اسکا ہاتھ روچی کی طرف اٹھا ہوا تھا لیکن اب ٹچ نہیں ہوا تھا۔
میرے زہن میں کوئی فلمی سین نہیں تھا ۔ نا ہی وہ موقع تھا ایسا ۔ بس فلمی سین پیدا ضرور ہو گیا ۔ میں آہستہ سے اس لڑکے کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ۔ اسکے سر و گردن بلکہ کمر تک دھری ہوتی گئی ۔ اگر مزید دہرا کرتا تو اسکی ریڑھ کی ہڈی یا گردن کا منکا ٹوٹ جاتا ۔ کیونکہ وہ بین چود مزاحمت کر رہا تھا سیدھا ہونے کی ۔
اسکے بال میرے شکنجے میں تھے جونہی چہرہ میرے چہرے کے سامنے آیا تو اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصے لیکن ٹھہراو کے ساتھ کہا ۔
تیری سانس جڑ سے پی جاوں گا ۔ میری روچی کو ہاتھ لگانے کی جرعت کیسے کی ؟
میری آنکھوں میں غضب کے شعلے دیکھ کر وہ لڑکا ڈر گیا اور جوڑ کر معافی مانگنے لگا ۔ میں نے کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا جس سے اس کے ناک سے خون بہنے لگا ۔ یہ سب کچھ 15 سیکنڈ کے اندر اندر ہوا ۔
اس کے ساتھ دوسرے لڑکے نے مجھ سے الجھنے کی جرعت نہیں کی بلکہ بھاگ گیا ۔
یکایک روچی آپی بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے چمٹ گئی ۔ ۔
وہ رو رہی تھی ۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے اس کو میں نے کبھی روتا ہوا نہیں دیکھا ۔
میں نے دونوں بازووں کو اس کے گرد لپٹا لیا ۔ کچھ لوگ یقین سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ عاشق ہیں ۔ کیونکہ نا تو میرے منہ سے بہن کا لفظ نکلا ۔
نا ہی روچی آپی کے منہ سے بھائی ۔
روچی کے آنسو گرم تیزاب کی طرح میرے سینے پر محسوس ہو رہے تھے ۔ اور میں اس کی کمر کو سہلا رہا تھا ۔
میں نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا ۔ میری جان ٹھیک ہے ؟ اتنا کہنا تھا کہ وہ مزید مجھ میں پیوست ہو گئی ۔ میں نے موقعے کی مناسبت سے کہا گھر جا کر کسر پوری کر لینا ۔ لوگ دیکھ رہے ہیں ۔
وہ فورا پیچھے ہٹی اور ہلکی سے مسکرائی ۔
اتنے میں پولیس جو کہ موٹر سائکلوں پر تھے گشت کرتے ہوئے آئے ۔ پہلے تو یونیورسٹی کی میڈموں اور لڑکیوں نے پولیس والوں کی کلاس لی ۔ اور زمین پر گرے ہوئے اس لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگیں یہ چھیڑ رہا تھا ۔
پولیس نے اس کو اٹھایا ۔ اور اپنے ساتھ بٹھا کر لے گئے ۔
میں نے اپنی بائک سیدھی کی اور روچی کو پیچھے بٹھایا ۔ اور گرھر کی طرف چل پڑا ۔
آج روچی آپی مجھ سے چپک کے بیٹھی ہوئی تھیں، شاید انکو تحفظ کا احساس تھا ۔
گھر آکر اس نے امی کو ساری رام لیلہ سنائی ۔ امی کبھی روچی کو گلے لگاتیں کبھی میرا سر چومتیں ۔ کہ شکر ہے کامی وقت پر پہنچ گیا ۔
روچی میری طرف ہی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ میں بھی بس شرمیلا سا بن کر وہیں بیٹھا رہا ۔
اچانک میرے زہن میں یہ واقعہ کسی فلم کی طرح چلا ۔ ۔۔۔۔۔۔ دماغ میں ہی ڈائیلاگ پر غور کیا تو پتا چلا میں نے میری جان کہا تھا ۔ نا روچی نا آپی ۔ سیدھا ہی میری جان ۔
فورا دل نے کہا تو وہ میری جان ہی ہے ۔
اسی لمحے روچی کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ابھی بھی دیکھ رہی تھی لیکن ساتھ ہی ہلکی سے مسکرا رہی تھی ۔
مجھے اب ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں روچی نے نوٹ تو نہیں کیا ۔؟
لیکن یہ تو دیکھ رکر ہنس رہی ہے ۔ شاید اس نے غور نہیں کیا ۔ ایسے ہی دل کو تسلیاں دیکر اٹھ کر اپنے روم میں آگیا ۔
نہا دھو کر فریش ہوا تو دوپہر کا کھانا کھایا ۔
اس واقعے کے بعد روچی آپی میرے آگے پیچھے میری خدمت پہلے سے بڑھ کر کرنے لگی ۔
شاید وہ اس طرح سے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی ۔
اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں ؟
اور روچی آپی بہت قریب آچکے تھے ۔ میرے دل میں بہن سے بڑھ کر بھی محبت تھی ۔ جائز یا ناجائز اس پر نا سوچا نا ہی سوچنا چاہتا تھا ۔
کچھ دنوں بعد میں رات کو میں اپنے روم میں بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ استعمال کر رہا تھا ۔
یوٹیوب پر گانا چلا کر خود فیس بک کھول لی ۔
فیس بک پر کچھ خاص نہیں تھا لیکن روچی کی آئی ڈی کھول کر دیکھ رہا تھا ۔
جب واپس گیا اپنی وال پر پھر نیوز فیڈ میں تو ایک پوسٹ جس کا عنوان تھا ” بہن کے ساتھ سیکس “
میرا ماتھا ٹھنکا ۔ میں نے جب دیکھا تو اس کے نیچے روچی کے کمنٹس تھے اور کچھ ریپلائی ۔
اوئے یہ کیا ہو گیا روچی کو ؟ یہی سوچ رہا تھا کہ اسکا پہلا کمنٹ پڑھنے لگا ۔
بس یہی لکھا تھا ” شیم آن یو ۔ اتنے پیارے رشتے کو تباہ کر رہے ہو “
کمنٹ پڑھ کر میرا دل ناجانے کیوں ٹوٹ سا گیا ۔
خیر اس کے ریپلائی میں ایک میڈم صاحبہ نے روچی کو مخاطب کر کے کہا ۔
میں آپ سے اتفاق نہیں کرتی ۔ دنیا کا سب سے حسین ترین تعلق رشتہ احساس اپنے بھائی کے ساتھ ہی ہے ۔
اس کے جواب میں روچی نے کہا ۔ آپ کو شرم نہیں آتی ۔ اتنے مقدس رشتے کو بدنام کر رہی ہیں ۔
اسی میڈم نے پھر ریپلائی کیا ۔ ۔۔۔ واہ واہ ۔ پوری زندگی بھائی بہن کا محافظ بن کر رہے ۔ اس کے لوڈ ناز نخرے اٹھائے ۔ اور بہن شادی کے بعد کسی اور مرد کے نیچے لیٹ جائے ۔اس کو منافقت کہتے ہیں روچی صاحبہ
میرا دل اسکا کمنٹ پڑھ کر باغ باغ ہو گیا ۔ ہر طرف گھنٹیاں بجنے لگیں ۔
میری بہن نے اگلا کمنٹ داغ دیا کہ یہ غیر اخلاقی ہے اور سوسائیٹی بھی اسکی اجازت نہیں دیتی ۔
اسی میڈم پرنس حورین جس کی آئی ڈی کا نام پرنسز حورین تھا ۔ ریپلائی کیا
سوسائیٹی جائے بھاڑ میں ۔ سوسائیٹی تو طلاق یافتہ کو بھی نہیں جینے دیتی ۔ بیوہ کو بھی نہیں جینے دیتے ۔ پہلے بھائی کی گڑیا بن کر رہو ۔ پھر اگر سسرال میں کوئی گڑ بڑ ہو جائے پھر بھائی کے دروازے پر ۔ پیسا خیالات سب بھائی کا شئیر کیا جائے ۔ اور جب سیکس کرنا ہو تو باہر کے مرد ۔ چھوڑ دیں مس روچی آپ نہیں سمجھیں گی ۔ بھائی کی بانہوں میں آنا اور دنیا کر عظیم ترین سیکس کرنا ۔ اس کی احساس ہی انسان کو پاگل کر دے ۔
ناظرین خواتین حضرات ۔ اب میری دلچسپی کی کوئی انتہا نہیں تھی ۔ مجھے تو وہ لڑکی واقعی میں حور لگ رہی تھی ۔ زیر لب مسکرا رہا تھا اور سوچ رہا تھا خواتین کا دماغ تو پورا جتنا ہوتا ہے ۔ پھر بھی اچھے نقطے اٹھائے تھے ۔
یہ اسکا آخری کمنٹ تھا ۔ جو دو گھنٹے پہلے اس نے لکھا تھا ۔ لیکن روچی آپی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
ہائے ظالم ۔۔۔۔۔ اتنی صحیح تو باتیں کر رہی ہے ۔
کچھ ہی دیر بعد روچی اوپر آئی ۔ اور دروازے سے داخل ہوتے ہی کہا ۔
کیا کر رہے ہو باڈی گارڈ ؟
میرے کان کھڑے ہوگئے ۔ ہیں یہ تو باڈی بلڈر کہتی تھی ۔
باڈی گارڈ کہا سے آگیا ؟
اور اس تبدیلی کا اظہار میں نے روچی سے بھی کیا ۔
کہنے لگی بھائی محافظ ہی تو ہوتے ہیں ۔
میرا دل بلیوں اچھل آیا ۔ یہ وہی الفاظ تھے جو کمنٹس مین پرنسز حورین نے کیے ۔
کیا روچی بھی ایسا سوچنے لگی ہے ؟
اسی اثنا میں روچی کی آواز آئی ۔ کہاں کھو گئے ہیرو ؟
میں نے ایک چول ماری ۔ جو اکثر مجھ سے وج جاتی ہے ۔
میں ہاتھ آگے بڑھایا ۔ روچی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔
میں نے اس کے ملائم سے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچا ۔
روچی نا سمجھتے ہوئے میرے قریب ہوتی گئی ۔
روچی ایسے ہی دھڑم سے بیڈ پر آبیٹھی ۔میری بانہوں میں ۔ لیکن اس کی ٹانگیں بیڈ زمین پر ہی تھیں ۔
آج خیر ہے کامی ؟
میں نے کہا ۔ روچی آئی لو یو ۔۔۔
روچی نے یہ سنا تو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی ۔ کونسا آئی لو یو ہے ؟ اسکی کشمکش میں نے بھانپ لی ۔
اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ میری انگلیوں کے نیچے اس کی برا کی سٹریپ تھی ۔ جو میں نے محسوس کر لی ۔
کندھے سے پکڑ کر گھماتے ہوئے اس کے چہرے کو بالکل اپنے سامنے کر لیا ۔
اور پھر اپنے نزدیک ۔۔۔۔۔
روچی آپی کچھ کچھ سمجھ چکی تھئ کہ میرا بھائی حوس مٹانا چاہتا ہے ۔ حلانکہ ایسا میرے زہن میں بھی نہیں تھا ۔
شاید وہ میری انتہا دیکھنا چاہتی تھی اس لیے اس نے جسم کو بالکل ڈھیل چھوڑ دیا ۔
میں نے روچی کو گلے لگایا اس کے کندھے پر عین برا کی سٹریپ پر کس کیا ۔
اب اس کے لیے کسی شک کی گنجائش نہیں تھی ۔
میں نے بھی سوچا اتنا لمس کافی ہے ۔ اور اس کو دور ہٹانے لگا ۔
روچی بنا کچھ کہے اٹھ کر چلی گئی ۔
اور میرے زہن میں کئی سوال چھوڑ گئی ۔
اس نے کیا سوچا میرے بارے ؟ کیا محسوس کیا ؟
میری قربت کو انجوائے کیا یا نہیں ۔ اب آگے وہ کیا کہے گی ؟
انہی سوچوں میں گم میں سو گیا ۔
صبح روچی ہی اٹھانے آئی ۔
اٹھو کامی بیڈ شیٹ چینچ کرنی ہے ۔ میں نے انکھیں کھولتے ہوئے حسین چہرے کو اپنے سامنے پایا ۔
اتنی حسین ہے یار ۔ میں تو ڈوب رہا ہوں دن بدن اس کے حسن میں ۔
خیر بیڈ سے اتر کر اپنی چادر کھینچی ۔
اتنی دیر میں روچی بیڈ کے دوسری طرف گئی اور چادر پھیلا دی ۔ اب ظاہر ہے وہ چادر پھیلانے کے لیے جھکی اور جھکنے کی وجہ سے ممے کسی ہیرے کی مانند جگمانے لگے ۔
وقت رک گیا زمین ٹھہر گئی ۔ میں ٹک ٹکی باندھے قدرت کے حسین شہکار کو دیکھ رہا تھا ۔
میرے لن نے انگڑائی اور میرے پورے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی ۔
میرا دیکھنا کچھ زیادہ ہی لمبا ہو گیا ۔ اور پہلی بار روچی آپی نے مجھے اپنے ممے تاڑتے دیکھ لیا ۔
میری چوری پکڑی گئی ۔
کیونکہ مجھے اسی کی آواز نے چونکایا ۔
کامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
بیڈ شیڈ پکڑو اپنی طرف سے اور سیدھا کرو ۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات تھے ۔
بیڈ شیٹ ٹھیک ہوتے ہی وہ تیزی سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔
اور مجھے پھر سوچوں میں چھوڑ گئی ۔ روچی غصہ کر گئی ؟
کیا کروں میں مجھ سے کیوں کنٹرول نہیں ہو رہا ؟
Like Reply
اداکاری”

ابھی میں وہی کھڑا یہ سوچ رہا تھا روچی پھر آئی ۔
اس کے ہاتھ میں 5000 کا نوٹ تھا ۔
میرا بائیاں بازو پکڑا اور میری ہتھیلی کھول کر 5000 ہزار کا نوٹ رکھا
غصے لیکن دھیمی آواز میں کہا ۔
کامی یہ 5000 ہزار پکڑو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور باہر حوس اور پیاس بجھا لو
اور ساتھ ہی میرے ہاتھ میں 5000 تھما دیے ۔
بات اتنی پچیدہ نہیں تھی ۔ اب باقی کچھ نہیں بچا تھا ۔
یکایک میں نے دائیاں ہاتھ بلند کیا ۔ اور ایک چپیڑ روچی آپی کے منہ پہ دے ماری ۔
میری زندگی ، میری چاہت ، میری بچپن سے دوست ، میری ہمدم ، میری روچی آپی
جس کو کوئی ہلکی سے تکلیف نہیں پہنچائی آج اس کے چہرے پر زوردار تھپڑ دے مارا ۔
اب میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ ۔ میری تو پہلی ہی پھٹی پڑی تھی 5000 روپے کو لیکر اور روچی کے رویے کی وجہ سے
تھپڑ کھاتے ہی روچی کے قدم اکھڑ گئے اور گرتے گرتے بچی ۔
فورا سے پہلے اپنے چہرے پر اپنا دائیاں ہاتھ اپنے سلگتے رخسار پر رکھ دیا ۔
اور چہرہ میری طرف موڑتے ہی مجھے حقارت اور نم آنکھوں سے دیکھا ۔
اس سے پہلے کے وہ بھاگتی یا کچھ کہتی ۔
میں اس کے بالکل نزدیک آگیا ۔ اسکا ہاتھ چہرے سے اٹھا کر اس کو اپنے بہت قریب کر لیا ۔
میں نے دانت پیستے ہوئے غصے سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
حوس ؟
تمھاری جرعت کیسے ہوئی ایسا سوچنے کی بھی ؟ پیار کرتا ہوں تم سے ۔
سر سے پاوں تک ۔ جسم نہیں تمھاری روح سے ح سے ۔ میں تو بنا تمھیں بتائے تمھاری پرستش کرتا ہوں ۔ دیوی مانتا ہوں اپنی ۔
اس سے زیادہ پیسے ہیں میرے پاس ۔ کسی کے ساتھ بھی سیکس کر کے آگ بجھا سکتا ہوں ۔
لیکن آج تک کسی کو نہیں چھوا ۔ یہ میری محبت کی توہین ہوتی ۔
میں نے آج تک تمھارے ساتھ سیکس یا حوس بجھانے کا سوچا تک نہیں ۔ مجھے تمھاری قسم ہے ۔ اور تم میری زندگی کی سب سے قیمتی ہستی ہو ۔ جس کو میں دل و جان و روح سے محبت کرتا ہوں ۔ میں تو پل پل تمھارے ساتھ رہنے کو ترجیع دیتا ہوں ۔
بہن چود اتنی لمبی چھوڑ دی پتا نہیں کس فلم کا ڈائیلاگ تھا ۔ لیکن میرے آنسووں کو کیا ہوا ۔ وہ واقعی بہنے لگے ۔
روچی منہ کھولے کرب اور حیرت سے مجھے سن رہی تھی ۔ اسکا ایک ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا اور دوسرا ہاتھ اس نے منہ پر رکھ لیا ۔ شاید میری گپ سن کر توبہ توبہ کر رہی تھی یا پھر حیران تھی ۔
روچی کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے میں نے آخری ڈائیلاگ دے مارا ۔
آئندہ کے بعد پلیز مجھے اپنی شکل نا دکھانا ۔ اور میں تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا ۔
اب مجھے نہیں پتا روچی کتنی دیر میرے کمرے میں رہی یا کیا سوچتی رہی ۔
میں گیراج میں گیا اپنا 125 نکالا اور تیزی سے گھر سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
میری ہوائیاں اڑ رہیں تھیں ۔ میرے کان بند ہو چکے تھے ۔ یہ 5 منٹ کے اندر اندر کیا ہو گیا ۔
میں غیر ارادی طور پر اپنے کھیتوں کی طرف بائک بھگا رہا تھا ۔
یہ سب سوچتے سوچتے میری آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے ۔ میں نے آج اپنی دیوی کو تھپڑ دے مارا ۔
اور وہی دائیاں ہاتھ زور سے بائک کے ہینڈل پہ دے مارا ۔
کچھ دیر بعد میں کھیتوں میں پہنچ گیا ۔ ہم نے یہ کھیت ٹھیکے پر دے رکھے ہیں ۔ ایک تو کیش میں پیسے مل جاتے ہیں دوسرا تازہ اناج اور تیسرا جس نے ٹھیکے پر لے رکھے ہیں اس نے بھینسیں اور گائے وغیرہ بھی رکھی ہیں ۔ چنانچہ تازہ دودھ بھی مل جاتا ہے ۔
میں جھونپڑے نما ڈیرے کی طرف چل پڑا ۔ صبح کا وقت تھا اور ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔
اور کامی صاحب بغیر کسی جیکٹ کے ہواوں سے باتیں کرتے ہوئے آئے تھے ۔
میں نے بائک ایک طرف کھڑی کی ۔ اور نیچے زمین پر ہی بیٹھ گیا ۔ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور سوچنے لگا کہ یار یہ کیا ہو گیا ۔ میں نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا سر چکرا رہا تھا ۔ اور میں سمجھ رہا تھا شاید صدمے کی وجہ سے ہے ۔
لیکن میرے سر کو ٹھنڈی ہوا لگ گئی تھی شاید ۔ جو مجھے بعد میں پتا چلا ۔
خیر اٹھ کر ڈیرے پر آیا تو ٹھیکے دار کی بیوی زبیدہ دور سے مجھے دیکھتے ہوئے چلی آرہی تھی ۔
میرے پاس آکر سلام کیا اور ایک چارپائی بچھا دی ۔ اور اندر سے پانی لینے چلی گئی ۔
جب پانی لیکر آئی تو میں نے گلاس پکڑتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضل کہا ں ہے ؟
کہنے لگی شہر گئے ہیں ڈیزل لینے ۔
میں نے یہ سوچتے ہوئے جیب میں ہاتھ مارا کہ امی کو فون کر کے پوچھتا ہوں کوئی سبزی چاہیے تو بتائیں ۔
لیکن جیب خالی تھی ۔ میں موبائل اپنے روم پر ہی بھول آیا ۔
لوڑے لگ گئے کیا منحوس دن ہے آج کا ۔
پھر ٹھیکے دار کی بیوی زبیدہ نے پوچھا خیریت ہے ؟
میں نے جواب دیا ہاں خیریت ہے ۔ ویسے ہی ملنے چلا آیا ۔۔۔۔
دل میں سوچ رہا تھا کہ بہن کی لیتے لیتے اپنی دینی پڑ گئی ۔ کیا چتیاپا ہے یار ۔
اور ناگواری سے دوسری طرف دیکھنے لگا ۔
اس عورت کو ٹالنے کے لیے میں نے کہا میں یہاں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں دھوپ میں ۔
آپ اپنا کام کریں بے شک ۔
تو اس نے نا سمجھتے ہوئے کہا ۔ آپ چارپائی کو دھوپ میں لے جائیں میں اندر سے تکیہ لے آتی ہوں ۔ اور ساتھ ہی چائے بناتی ہیں ۔
میں نے کہا اگر تیز پتی والی چائے مل جائے تو بڑا احسان ہوگا ۔ کام میرا باڈی بلڈنگ ہے لیکن شوق میرے ڈرائیوروں والے ہیں ۔
زبیدہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔ صاحب احسان کی کیا بات ہے ۔آپ کا اپنا ہی گھر ہے ۔
لیکن یہ بتائیں خیریت تو ہے ؟ کیونکہ آپ ایسے کبھی بغیر کام کے آئے نہیں ۔
یار یہ دنیا کی تمام خواتین میں ایک تھانیدار ضرور چھپا ہوتا ہے ۔ انویسٹیگیشن کرنا کوئی ان سے سیکھے ۔ بال کی کھال اتارنے میں دیر نہیں لگاتیں ۔
میں نے کہا میری ماں سب ٹھیک ہے ۔ بس طبیعت ٹھیک نہیں یہاں سے گزر رہا تھا سوچا کچھ دیر فضل سے گپ شپ لگاتا ہوں اور دھوپ میں بیٹھتا ہوں ۔
بس یا اور کچھ ؟
میرا جواب سن کر زبیدہ اندر چلی گئی ۔ 40 کے قریب عمر رہی ہوگی ۔ لیکن کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے چست بھی ہے اور فٹ بھی ۔
خیر مجھے کیا میں کونسا گندی نگاہ سے دیکھ رہا تھا ۔
کچھ دیر بعد زبیدہ چائے کا کپ اور تکیہ لے آئی ۔ میں چائے پیتے ہوئے پھر سے وہی سوچنے لگا ۔ کہ روچی نے امی کا بتایا ہوگا ۔ کہ بھائی میرے مموں کو تاڑتا ہے ۔
اور ایک بار کوشش کی مجھے قریب کرنے کی ۔
آگے سے امی کیا کہیں گے ۔ ہے ہی کمینہ کھلا ہوا سانڈھ
جو کچھ بھی تھا مجھے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا ۔ کیا محبت ایسی ہوتی ہے ؟
کیا محبوب کو تھپڑ مارا جاتا ہے ؟
بچپن سے اب تک روچی میرے ساتھ رہی ۔ مجھے کبھی تکلیف نہیں اٹھانے دی ۔
مجھ سے بے شک 1 سال ہی ۔ لیکن تھی تو بڑی نا ۔
میں ایموشنل ہوتا گیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔
مزے کی دھوپ اور زہنی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے نیند آگئی ۔
اچانک میرے سر میں شدید درد ہوا اور میں جاگ گیا ۔ آس پاس دیکھا تو یاد آیا میں تو ڈیرے پر ہوں ۔
روشنی سے لگ رہا تھا غالبا دن ڈھل رہا ہے ۔ 3 کا ٹائم ہوگا ۔ اَدھر اُدھر نظر گھمائی تو فضل پانی کے پیٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا ۔
میں اپنی چارپائی سے اٹھا اس سے تھوڑی دیر بات کی ۔ وہ بھی میری آمد اور یہیں سونے کی وجہ سے حیران تھا ۔
وہاں سے بائک لیکر گھر کے لیے نکل کھڑا ہوا ۔ میرا گھر جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔ لیکن جانا بھی ضروری تھا خامخواہ پریشان ہوتے رہیں گے ۔ یا پھر سوچتے ہوں اچھا ہے کامی سے جان چھوٹی ہوئی ہے ۔ شہر میں یہاں وہاں گھومتے ٹائم گزار رہا تھا ۔ مغرب کے وقت گھر جانے لگا ۔ آتے ہوئے پھر ٹھنڈی ہوا سے میرا سر دکھنے لگا تھا ۔
گھر آیا تو بائک گیراج میں کھڑی اور ڈرے ڈرتے گھر کے اندر داخل ہوا ۔
سب سے پہلی نظر مریو پر پڑی جو ادھر اُدھر بھاگ رہی تھی ۔ امی کہیں نظر نہیں آرہی تھیں ۔ شاید کچن یا باتھ روم میں تھیں ۔ اور یہ میرے لیے بہترین موقع تھا۔
میں بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں آیا ۔ سب سے پہلے تو اپنا موبائل دیکھا ۔ امی کے نمبر سے 5کالز تھیں ۔
اور ایک کال روچی کے فون سے کی گئی ۔
میٰن موبائل کو سائیڈ ٹیبل پر چھوڑ کر گیا تھا جبکہ ابھی وہ میرے بیڈ پر تھا ۔ اسکا مطلب ہے کچھ کالز کرنے کے بعد گھر والوں کو پتا چل گیا ہوگا کہ میں موبائل روم پہ ہی چھوڑ گیا ہوں ۔
میں باتھ روم میں گھس گیا اور شاور لینے لگا ۔ یہیں مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ مجھے نہانا نہیں چاہیے تھا ۔ وہ میں آگے چل کر بتاوں گا ۔
کپڑے تبدیل کر کے میں بیڈ پرلیٹ گیا ۔ مجھے ٹھنڈ کا شدید احساس ہوا ۔ میں نے اپنے اوپر کمبل لے لیا ۔
میرا پورا جسم ٹوٹ رہا تھا ۔ کمر اور کندھے درد کرنے لگے تھے ۔
اور میں پھر نیند کی وادیوں میں پہنچ گیا ۔
کچھ ہی دیر گزری تھی شاید آدھا گھنٹا میرے کمرے کا دروازہ کھلا ۔ اور امی کی گرج دار آواز آئی ۔
کامی بے شرم انسان ۔۔۔۔
اس وقت میری حالت یہ تھی کہ کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی ۔ پسینے سے شرابور تھا ۔ اور تھر تھر کانپ رہا تھا سردی سے ۔ ۔۔ زبردستی آنکھیں کھولتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا ۔۔۔۔
وڑ گئے وائی ۔ اب ماں بہن ایک ہونے والی ہے ۔
منہ سے کمبل ہٹانے ہی والا تھا کہ والدہ محترمہ سے زبردستی میرے منہ سے کمبل ہٹا دیا ۔
مجھ پر نظر پڑتے ہی انکی انکھیں پھیل گئیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
لال سرخ آنکھیں اور ان میں نمی ۔
پورا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا ۔ ہونٹ سکڑے ہوئے ۔
فورا جھک کر میرے ماتھے پر ایک ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا کامی بیٹے ؟ تمھیں تو بہت تیز بخار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی نے تشویش میں ڈوب گئیں ۔ میں کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن گلا خشک تھا بول نہیں پایا ۔
ویسے بھی بولتا کیا ؟ کہ آپ کی بیٹی پر دل آیا ہے ۔ اس نے انکار کیا تو تھپڑ دے مارا ۔
بولو بیٹا کیا ہوا ؟
میں نے نحیف سی آواز میں کہا پتا نہیں امی آج کیا ہو گیا ۔۔۔۔
امی غالبا سمجھیں کہ بہن کو مارنے کی وجہ سے دکھی ہے ۔ اسی لیے پورا دن گھر نہیں آیا اور اتنی ٹینشن لی کہ بخار ہو گیا ۔
چوپڑیاں وہ بھی دو دو ۔۔۔۔۔۔
امی فورا میرے اوپر جھکیں اور میرے ماتھے کو چوما ۔ میں کسی ولی کی طرح آنکھیں بند کر چکا تھا ۔ اب میں نے ممے نہیں دیکھنے
بری بات ہے یہ ۔
امی اسی وقت کمرے سے باہر نکلیں ۔ اور 5 منٹ بعد واپس آئیں ۔ ساتھ میرے کانوں کو رس کھولتی ہوئی آواز آئی ۔
کامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
سر سے پاوں تک اس آواز کو سنتے ہی سرشار ہو گیا ۔
دل ہی دل میں کہا ۔ میری روچی ۔۔۔۔۔۔ اب کمبل کو نا اٹھانا میری محبت کی توہین ہوگی ۔ میرے سامنے امی اور ساتھ روچی کھڑی تھی ۔
دونوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں تھیں ۔ کمبل اٹھاتے ہوئے روچی آگے بڑھی اور میرے بیڈ کے سرہانے کے پاس نیچے فرش پر پنجوں کے بل بیٹھ گئی ۔ اور بے قراری سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔
درجہ حرارت محسوس کرتے ہی اس کے دل کا درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا اور دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے ۔
بی سی یہ کیا ہو رہا ہے ۔ مجرم تو میں ہوں ۔ رو یہ رہی ہے ؟
کہیں مجھے ٹھنڈی مار مارنے کا ارادہ تو نہیں ۔ جسکی میٹھی بے عزتی کہتے ہیں ۔
امی نے فورا روچی کو اٹھایا اور میری سرہانے بیٹھ کر مجھے سہارہ دے کر اٹھانے لگیں ۔
میں نے اٹھتے ہوئے روچی کو دیکھا ۔ ننگے پاوں ، تنگ ٹراوزر اور سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ دوپٹے سے بے نیاز ممے میرا ہی منہ چڑا رہے تھے ۔
مرد کی ٹانگیں قبر میں بھی ہوں وہ ٹھرک سے باز نہیں اتا ۔ یہی حال میری بھی تھی ۔
بارحال دونوں ماں بیٹی میری خدمت تواضع میں لگ گئی ۔ سب سے پہلے تو امی نے پوچھا دن کو کچھ کھایا ؟
میں نے کہا نہیں امی ۔
امی مزید پریشان سی ہو گئیں اور روچی کو سوپ بنانے کا کہا ۔ روچی کمرے سے باہر نکلی تو امی نے کہا بیٹا تمھیں روچی کو مارنا نہیں چاہیے تھا ۔
اتنی بڑی تو بات ہی نہیں تھی ۔ اس کا موڈ بھی خراب اور تم بھی بیمار ہوگئے ۔
ہیں ؟ مجھے اپنے ممے تاڑتے ہوئے دیکھا اس نے ۔ اس کی برا کی سٹریپ پر بوسہ لیا میں نے ۔ یہ بہت بڑی بات نہیں ہے ؟
میں یہی سوچ رہا تھا تو امی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگیں اپنا جسم دیکھو کوئی بھی بندہ یہی کہے گا کہ تم گوریلے ہو ۔ہٹے کٹے ہو ۔ اس نے تمھارے چہرے کی وجہ سے وجہ سے نہیں بلکہ جسامت کی وجہ سے کہا تھا بیٹے ۔ اور تم نے آگے سے تھپڑ مار دیا ۔ پورا دن بیچاری روتی رہی اور جونہی اس کو بتایا کہ کامی گھر آگیا ہے اور تیز بخار ہے تو بیچاری ننگے پاوں دوڑتی ہوئی چلی آئی ۔
او تیری ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روچی نے یہ کیا فلم ڈال دی ۔ میں غیر یقینی صورت حال میں تھا ۔
اور دل کی گہرائیوں سے آئی لو یو روچی نکل گیا ۔
لو جی یہاں معاملہ بالکل الٹ بلکہ سمجھ لیں میرے حق میں آگیا تھا ۔ میں پورا دن کتوں کی طرح خوار ہوتا رہا لیکن شام کو مجرم محرم ٹھہرے ۔
میں نے بھی سر جھکا لیا اور بیمار ہونے کے باوجود تیزی سے اپنا جواب سوچ رہا تھا ۔
کچھ سیکنڈ بعد کہا امی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روچی مجھے اپنی جان سے عزیز ہے ۔ مجھے پتا ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ لیکن پتا نہیں کیا ہوا مجھے اس کی بات پر بھی غصہ نہیں تھا ۔
مجھ سے اب مزید بحانہ بن نہیں پا رہا تھا ۔ میں نے شرمندگی سے کہا کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوئی میری حرکت ۔ اور گھر سے باہر چلا گیا ۔
مجھے اتنی ٹینشن تھی کہ اسکا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔
بہت بڑی فلم ہے تو کامی بہن چود ۔ بائک پر ہوا للگی اس کو بھی روچی کی محبت میں ڈال لیا ۔
امی نے مجھے گلے لگا لیا ۔ ان کے بڑے بڑے مموں پر سر رکھ کر سکون لے رہا تھا دل کر رہا تھا کہ ان کو پکڑ کر ان کے بیچ میں اپنی آنکھیں ناک منہ پھیروں ۔
کوئی بات نہیں بیٹا ۔ گھروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہو جاتی ہیں ۔ تم ریسٹ کرو ۔
ڈاکٹر کو گھر بلا لیتی ہوں ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں امی میں ٹھیک ہو جاوں گا ۔ تڑپنے دیں مجھے کچھ دن روچی کے ساتھ جو کیا اس کی سزا بھگتنے دیں ۔
ڈائیلاگ کی بھی حد ہوتی ہے ۔ میرا خیال ہے آج کے لیے اتنے ڈائیلاگ کافی ہیں ۔
امی پر مسکرانے لگیں اور اٹھ کر باہر چلیں گئی ۔ اس اثنا میں مریو بھی دوڑتی ہوئی آئی ۔ بھائی خبار ہوا ہے ؟ بخار کو وہ خبار کہہ رہی تھی ۔
میں نے ہنستے ہوئے اس کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا ۔
کچھ دیر میں روچی آپی باول میں چمچ ہلاتے ہوئے آئیں ۔ میری سائیڈ ٹیبل پر سوپ کا باول رکھا اور مریو سے کہا جاو تم ماما کے پاس ۔
اب روچی میرے دائیں طرف سرہانے بیٹھ گئی ۔ میں بھی اس کی طرف مڑ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر آدھا لیٹا آدھا بیٹھا ہوا تھا ۔
روچی نے ایک نظر مجھے دیکھا اوراٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے سوپ اٹھانے لگی ۔ ۔۔۔
تنگ کالے ٹراوزر کی وجہ سے اسکی مکمل ہپ یا گانڈ میرے سامنے تھی ۔ شرٹ اٹھی ہوئی تھی ۔ ایک ایک حصہ الگ الگ ۔ گول اور باہر نکلی ہوئی گانڈ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ سین زیادہ سے زیادہ تین سیکنڈ رہا ۔ اور میں اپنی جگی ساکت ہو گیا ۔
دل چاہا اٹھا کر اس کے ہپس کے درمیان کس کروں ۔
اتنی دیر میں وہ اپنی جگہ پر واپس بیٹھی اور اپنے ہاتھوں سے مجھے سوپ پلانے لگی ۔
میں نے بغیر کسی ڈرامے کے منہ کھولا اور سوپ پینے لگا ۔
روچی نے میرے چہرے سے اپنے گورے چٹے ہاتھوں سے پسینہ صاف کیا ۔
سوپ کا باول واپس ٹیبل پر رکھا اور پھر مجھے اپنی کنواری گانڈ کے درشن کروائے ۔
بہن ہو تو ایسی ۔
اور ساتھ ہی کہنے لگی ۔ ۔۔۔۔ مجھ سے معافی مانگو میں معاف کر دوں گی ۔۔۔
میں نے بغیر کسی توقف کے کہا روچی میری جان آئی ایم سوری ۔ اور ساتھ ہاتھ بھی جوڑ دیے ۔
روچی مسکراتے ہوئے مجھے اپنی گلے لگا لیا ۔
بہن کی محبت سب کچھ بھلا دیتی ہے ۔ روچی کو یہ خبر نہیں تھی کہ میرے ہاتھ جڑے ہوئے ہوئے ہیں اور مجھے گلے لگانے سے ہاتھ کی انگلیاں اس کے مموں کو چھونے لگیں ۔ نرم نرم میری جنت ۔
یہ تو طے ہے کہ میں نہیں سدھر سکتا ۔ اس حالت اور ان حالات میں بھی بہن یکی سے باز نہیں آرہا تھا ۔
اسی دوران اسکی آواز مجھے اپنے کانوں کے بالکل قریب سے آئی ۔
اسکے ہونٹ میرے کان کے بالکل قریب تھے ۔ میرے جسم میں چوینٹیاں دوڑنے لگی اور لن صاحب نے اپنی موجودگی کا حساس دلوایا ۔
پگلے ایسے چھوڑ کر تھوڑی جاتے اپنی جان کو ؟
پھر روچی نے مجھے اپنے آپ سے جدا کیا
اور بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ مارا بھی تم نے مجھے ۔ اور اب مجھ سے محبتیں بھی لے رہے ہو ؟
میں نے کہا ۔۔۔۔ آپ کو کس نے منع کیا ہے ۔ بلکہ آپ کو محبت دیتا تو ہوں ۔
یہ بات سن کر روچی نے اپنا دائیاں گال مجھے دکھاتے ہوئے کہا ۔
یہ محبت ؟
مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور اس کے گال کے قریب منہ لے گیا جیسے غور سے دیکھ رہا ہوں ۔
لیکن
میں نے ایک ہلکا سا بوسہ لے لیا ۔ اور ساتھ ہی کہہ دیا حضرت بابا کامی شاہ نے دم کر دیا ہے ۔ اب ٹھیک ہو جائے گا ۔
روچی کے گال مزید سرخ ہو گئے ۔ میری ناک پکڑ کر ہنستے ہوئے کہنے لگی تم انسان نا بننا ۔
اسی لمحے امی کمرے بھی کمرے میں آگئیں ۔ اتے ہی روچی کو خبر دی کہ مریو کو سلا آئی ہوں ۔
بیٹا کامی !!!!!! آلو مٹر پکے ہیں ۔ لیکن تم بتاو کیا کھاو گے ؟
میں نے کہا امی بالکل بھوک نہیں ہے ۔ آپ دونوں جائیں ریسٹ کریں ۔
امی نے کہا نہیں بیٹا بیمار ہو اور کچھ کھاو گے نہیں تو کمزور ہو جاو گے ۔
اسی لمحے روچی نے کہا ۔ امی نا فکر کریں اس گوریلے کو کو کچھ نہیں ہوتا ۔ اور دونوں ہنسنے لگیں ۔
اور روچی نے ساتھ ہی مجھے آنکھ مار دی ۔
میں سمجھ تو چکا تھا اب کیا بولتا ۔
خیر روچی روم سے باہر گئی تو ماں کی مامتا پھر جاگ گئی ۔ اور مجھے پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں میں تمھارے لیے بخار کی گولی لیکر آتی ہوں ۔
میں نے فورا کہہ دیا میں لے آوں الماری سے ؟
میں نے جان بوجھ کر سمائل نہیں دی ۔ اگر امی غصہ کرتیں تو میں کہہ سکتا تھا کہ امی آپ تھک ہوں گی میں لے آتا ہوں ۔
امی کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ۔ کامی پہلے ہی تم نے غلط میڈیسن لی تھی ۔ میں خود لے آتی ہوں تم سکون کرو ۔ وہ کچھ حیران بھی تھیں کہ اتنی پرانی بات اس کمینے کو یاد ہے ۔
یادیں کب پرانی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
امی مڑگئیں اور اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔
کچھ دیر بعد گولی دیکر وہ اپنے کمرے چلی گئیں اور مجھے بھی غنودگی چھانے لگی ۔
مجھے گرمی اور سردی دونوں کا احساس ہو رہا تھا شرٹ تنگ تھی وہ میں نے اتار دی اور سو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح روچی کی آواز نے اٹھا دیا ۔۔۔۔۔۔۔
کامی اٹھنا نہیں میری جان ؟
یار کیا ہی پیارے لمحے تھے ۔ ایک خوبصورت بیوی جس کی نئی نئی شادی ہو اپنے مجازی خدا کو ایسے ہی اٹھاتی ہے ۔ ویسے روچی پہلے تو کبھی جان نہیں کہتی تھی ۔ یہ کل سے اس کو کیا ہو گیا ۔
اسی دوران اس نے پیار سے میرے منہ پر سے کمبل ہٹایا ۔
اس کے ہاتھ میں شاہی ٹکڑے تھے ۔آف وائٹ کلر کی تنگ سی شرٹ پہنی تھی ۔ ممے جیسے ابھی شرٹ پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے ۔
کوئی شرم و حیا ہی نہیں جوان بھائی کے جزبات سے کھیل رہی ۔
مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا تو روچی ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔ پہلےمنہ ہاتھ دھو لو پھر جتنا مرضی دیکھ لینا ۔۔۔
میں اٹھ کر واش روم گیا ۔ منہ ہاتھ دھویا اور واپس اپنے بیڈ پر ۔
جونہی بیڈ پر بیٹھا روچی مجھ سے لگ کر ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔
میرا دل زور زور سے اچھلنے لگا ۔ اس کی مہک مجھے دیوانہ بنا رہی تھی ۔ اونچے چاکوں والی شرٹ کی وجہ سے اس کی تھائی بہت واضع نظر آرہی تھی ۔ ہپس کے بمپ اٹھے ٹھے اور تھائی ہپس سے کم موٹی ۔
اس نے مجھے شاہی ٹکڑے کھلانے شروع کر دیے ۔ میں نے کہا بھی میں خود کھا لیتا ہوں ۔ لیکن وہ بضد تھی وہ خود کھلائے گی ۔
چنانچہ میں چپ چاپ کھانے لگ گیا ۔ اور دوران اس نے میرے ماتھے پر پھر ہاتھ رکھا اور کہا کامی ابھی بھی بخار ہے تمھیں ۔
میں بس محبتیں وصول کرتا جا رہا تھا ۔
تم لیٹ جاو میں تمھارے لیے چائے لاتی ہوں ۔
دس منٹ بعد روچی چائے لیکر آگئی ۔ میں بیڈ پر لیٹ چکا تھا اور سوچ رہا تھا کاش پوری عمر ایسے ہی بیمار رہو
Like Reply
اسلام علیکم دوستو میرا نام عاصمہ ہے میں ہری پور کی رہنے والی ہوں میری عمر 32 سال ہے میرا رنگ سانولہ ہے جس کی وجہ سے میری شادی بھی نہیں ہو رہی ہے میرے گھر میں میرے ابو امی اور دو بڑے بھائی ہیں ایک بھا سعودیہ کام کرتا ہے اور ایک بھائی کراچی کپڑے والی فیکٹری میں کام کرتا ہے. ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور ہے اور جنگلی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہم مال مویشی اور بکریاں پال کر گزارا کرتے ہیں میرے ابو بکریاں چراتے ہیں اور قربانی کی عید پر بکریاں اور بیل منڈی میں فروخت کرتے ہیں اس طرح ہمارا گزر بسر ہوتا ہے بکریوں کی رکھوالی کے لیے ہم نے کتے پال رکھے ہیں جو کہ بڑی نسل کے ہیں جن کے قد کسی بڑے بچھڑے کی طرح ہیں اور لمبے لمبے بال ہیں جو کہ گھر اور باڑے کی رکھوالی کرتے ہیں کیوں کہ ہم لوگوں کے گھر دور دور ہیں اور رات کے وقت جنگلی جانوروں کے حملے کا خطرہ ہوتا ہے اس کی وجہ سے رات کو اور دن کو کتے کھلے ہی رہتے ہیں اس سال 2021 میں جون کے وسط میں ابو نے امی سے مشورہ کیا کہ اس سال جانور بیچنے جلدی جانا ہوگا کیوں کہ برسات کے شروع ہوتے ہی پہاڑی راستے بند ہو جاتے ہیں تو ابو دو دن بعد جانور لے کر اسلاماباد فروخت کرنے کے لیے چلے گے ابو جب بھی گھر سے دور ہوتے تو میں اور امی جان گھر اور جانوروں کی رکھوالی کرتے اور چرانے کے لیے لے کر جاتے تے. اب روز میں صبع گھر کا کام کرتی اور امی جانور لے کر پہاڑوں میں چلی جاتی اور گھر کا کام ختم کرنے کے بعد میں امی کے ہاس جاتی اور اں کو گھر ارام کرنے بھیج دیتی
ایک دن کی بات ہے میں نے امی کو گھر بھیجا اور خود جانوروں کی دیکھ بھال میں لگ گئی کتے چھاوں میں بیٹے تھے ان میں سے ایک کا رنگ کالا اور ایک کا بھورا تھا کالے رنگ والا کتے بھورے رنگ والے کتے سے بڑا اور تگڑا تھا میں نے دیکھا کہ بھورے رنگ والا کتا بیٹھا ہے اور اس کا گلابی لن اس کے چمڑے والی تھیلی سے جھلک رہا ہے میں نے اس چیز کو خاص نہیں لیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی مگر میرے دماغ میں لن بابار دیکھنے کا خیال ارہا تھا اتنی زیادہ عمر کے باوجود میں بالکل کنواری تھی جس کی وجہ میرا سانولہ رنگ تھا
مگر اج ہتا نہیں کیوں میرے اندر کی عورت نے انگڑائی لی اور میرا دل بار بال کتے کے لن کو دیکھنے کی ضد کر رہا تھا. اب جو میں لگاتار لن دیکھنے لگی تو کتے کبھی کبھی اپنے لن کو اپنی زبان سے چاٹ لیتا اور پھر لیٹ جاتا
میری پھدی نے مچلنا شروع کر دیا اور میں کتے کے قریب ہو کر بیٹھ گی اور کتے کو سہلانے لگی اور ہاتھ کتے کے لن کے قریب کرنے لگی اہستہ اہستہ جیسے ہی کتے کے لن کو پکڑا کتے بدک کر کھڑا ہو گیا میں ڈر گئی اور اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئی وہ دن ویسے ہی گزر گیا مگر ساری رات میری انکھ اس لال سرخ لن کو بھول نہیں پائی. صبح جب میں گھر کا کام ختم کر کے امی جان کی ممد کرنے گئی تو تھوڑی سی روٹی کتے کو کھلانے کے لیے ساتھ لے گی
وہاں جاکر میں نے امی جان کو گھر بھیج دیا اور کتے کے لن کو پکڑنے کے لیے موقع کا انتظار کرنے لگی میں نے کتے کو روٹی کھلائی اور اس کے جسم کو سہلانے لگی کتا میرے پاس اکر بیٹھ گیا اب میں پیار سے کتے کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی اور اس کے لن کی طرف ہاتھ لے کر گئی پہلے تو کتے نے غرا کر مجھے خبر دار کیا مگر جب میرے ہاتھ کا لمس کتے کو اچھا لگنے لگا پھر کتے. میرے جسم کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور اس کا لن اہستہ اہستہ سخت ہونے لگا اور لال سرخ گاجر اس کے چمڑے کے تھیلے سے باہر نکلنے لگ گئی اور میں اس کے لن کو سہلا رہی تھی اور ارد گرد دیکھ رہی تھی تاکہ کوئی مجھے گندا کام کرتے نہ پکڑ لے کافی دیر تک کتے کے لن کو ملنے کے بعد میں نے رات کو موقع تلاش کرنے کا سوچا کیوں کے ابو جی کے آنے میں دس ہندرہ دن لگ سکتے تھے. شام کو کام ختم کرنے کے بعد میں نے امی کو سلایا اور باڑے کی طرف چل پڑی اور باڑے میں جاکر جانوروں کا جائزہ لیا اور مناسب جگہ کی تلاش کی مگر مایوسی ہوئی کیوں کہ بارش کے موسم کی وکہ سے سب جانوروں کو باڑے کے کمرے میں باندھا تھا اور مجھے کوئی مناسب جگہ نظر نہیں ائی پھر میرے ذہن میں بھوسے والے گودام کا خیال آیا جو کہ ہمارے گھر کی ہچھلی طرف تھا اوت اس طرف سے مشکل سے آواز آتی تھی میں نے بھورے رنگ والے کتے کو پچکارا اور گھر کی پچھلی طرف چل پڑی جاتے جاتے امی کو دیکھا تو وہ بے خبر سو رہی تھیں.
میں نے بھوسے والے گودام میں توڑوں کو ہٹا کر مناسب جگہ بنائی اور کتے کے ساتھ مستی کرنے لگ گئی اور کتے کے لن کو پکڑ کر سہلانے لگی. کتے کا لن اب سخت ہونا شروع ہو گیا تھا کافی دیر مسلنے کے بعد میں نے شلوار کا ناڑہ کھولا اور کتے کو اپنے اوپر چڑھانے کی کوشش کی مگر کتے کو لڑکی سے چدائی کا تجربہ نہیں تھا اور میں بھی اس کام میں نئی تھی پھر میرے ذہن میں ایا کہ اج کچھ نہ کچھ کر کے چوت کی اگ کو ٹھنڈا کرنا یی پڑے گا کافی دیر کی تگ و دو کے بعد کتا جمپ مار کے میرے اوپر چڑھ گیا اور لن کو جھٹکے مارنے لگا مگر اس کو جگہ نہیں مل رہی تھی میں نے ہاتھ بڑھا کر کتے کے لن کو اپنی پھدی کے منہ پر سیٹ کیا اور اپنے جسم کو پیچھے کی طرف کیا تاکہ لن اندر گھس جائے میری یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی اور کتے کو میری چوت کا راستہ مل گیا اور اس نے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے اور مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے اپنی چوت کے ساتھ کیا ظلم کر دیا ہے کیوں کہ کتے کے لگاتار جھٹکوں نے میرے پورے جسم کو جھنجوڑ دیا تھا اور لن چوت میں گھستا ہی جا رہا تھا پھر میں نے دل کو مضبوت کیا اور اپنے شوہر نما کتے کے لن کی لزت کو محسوس کرنے لگی مجھے کتے کا لن دل کے ساتھ لگتا محسوس ہو رہا تھا مجھے کیا معلوم تھا یہ تو شروعات ہے پانچ منٹ تک لگاتا جھٹکوں کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے کتے کے لن کے اندر ہوا بھر رہی ہو اور وہ پھول رہا ہو جیسے جیسے کتا جھٹکے کی رفتار تیز کر رہا تھا لن کی موٹائی بڑھتی جا رہی تھی اور اب میری برداشت سے بائر تھا میں نے کتے کو اپنے اوپر سے ہٹانا چاہا مگر میں اس ظالم جانور کی گرفت سے نہ نکل سکی مسلسل کوشش کے باوجود میں کتے کی گرفت میں قید رہی اور کتے کے جھٹکے برداشت کرنے ہر مجبور رہے ب مجھے ایسے لگا میری چوت میں کسی نے کوئی موٹا سا فٹبال گھسا دیا ہو میری انکھ سے انسو نکلنے لگے اور میں کراہنے لگی اوئی ماں
مر گئی مجھے اپنی چوت پھٹتی محسوس ہو رہی تھی اف میری ماں میں نے اپنے ساتھ کیا ظلم کر دیا ادھر کتا جھٹکے لگا رہا تھا مگر اس کی رفتا کم ہو گی تھی مگر ابھی قیامت باقی تھی کتا اب رک گیا اور میری کمر سے ایک طرف اتر گیا ہائے میری ماں مجھے تو اپنی موت نظر انے لگی تھی کتے نے لن لو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا میں نے فورا کتے کی دم کو پکڑر کر اپنی گانڈ کتے کی گانڈ کے ساتھ جوڑ لی اور میری چوت کو قدرے ارام لگا اور میں نے کتے کے لن کو اپنے اندر لیے.کتی بنی ہوئی تھی اور کتے کا لن کسی پمپ کی طرح میرے اندر حرکت کر رہا تھا کچھ دیر بعد مجھے چوت کی جلن کم ہوتی محسوس ہوئی اور میری کالی گانڈ کتے کی گانڈ کے ساتھ لگی تھی اب میں نے کتے کی دم کو چھوڑ دیا کتا ارام سے میری گانڈ سے اپنی گانڈ ملا کر کھڑا رہا میں سر جھکائے اپنے کتے شوہر کے لن کو اپنی بچہ دانی میں محسوس کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا میں اس قدر گر سکتی ہوں کہ میرے لیے کتا ہی بچا تھا
یہ سوچتے سوچتے نہ جانے تھکن کی وجہ سے کب میری انکھ لگی ہتا نہیں چلا اچانک میری چوت میں تیز درد کی لہر اٹھی میں ہڑ بڑا کر اٹھی تو کتا اپنا دس انچ اور کافی موٹا لن میری چوت سے نکال چکا تھا اور میری چوت سے کتے کی منی نکل رہی تھی میں نے اپنی چوت کو کپڑے سے صاف کیا اور کھڑی ہوئی مگر میری ٹانگوں میں جان نہیں تھی کافی دیر کے بعد میری جان میں جاں ائی اور میں اپنے بستر تک کیسے پہنچی مجھے علم نہیں ہوا اور بے سدھ ہو کر سو گئی……

Like Reply
میرا_نام_مناہل_چوہدری ھے میری شکل و صورت پاکستانی سنگر فادیہ شبروز جیسی ھے میں سمارٹ جسم کی مالک ھوں اور میرا فگر بتیس ھے
میں جوانی میں کسی تیسری آنکھ کا شکار نہیں ھوئی تھی مگر آپ کو معلوم ھوگا وقت سب کچھ بدل بھی دیتاھے..
میں نے اپنے آپ کو بہت فٹ رکھا ھوا تھا کیونکہ شرو ع سے ھی میری توجہ فٹنس پر مرکوز رہی تھی میری فٹنس کا راز رات کو بہت کم کھاتی تھی اور واک لازمی کیا کرتی سونے سے پہلے اکثر شباب کے قدر دان مجھ پر لائن مارتے تھے میرا نام بھی مناہل تھاکسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو بھلا کب گھاس ڈالتی میں
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺳﮯ ﻧﺎﻃﮧ ﺗﻮﮌ ﻟﮯ، ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺷﺤﺎﻝ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ۔ ﻧﻮ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﭼﻠﻮ ﮐﻢ ﻋﻘﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺳﻤﺠﮭﯽ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﻟﯿﮑﻦ ﺷﺎﺩﯼ ﺷُﺪﮦ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺟﻮ ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮨﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﯾﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﮯ ﯾﺎ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺷﻨﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﺮﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﻋﺠﯿﺐ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻨﮕﯿﻦ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺘﯽ۔ ﺍﯾﺴﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﺟُﻠﺘﯽ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﺁﺋﮯ ﺩﻥ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺯﯾﻨﺖ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﻌﻦ ﻃﻌﻦ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺑُﺮﮮ ﺑُﺮﮮ ﺍﻟﻘﺎﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺗﯽ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﻗﺎﺑﻞِ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ 22 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 3 ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻮ ﭼُﮑﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮈﯾﮍﮪ ﺳﺎﻝ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮐُﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﺟﺎﺏ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﯿﻨﮉﺳﻢ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺳﺎﺱ ﺳُﺴﺮ ﻧﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻮﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐُﻞ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮨﯿﮟ ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﮩﻞ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮔُﺬﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮨﺮ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﮑﻤﻞ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﻠﺐ ﮐﮯ ﻣُﻄﺎﺑﻖ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻣِﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺐ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺮﺕ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔُﺬﺍﺭﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺟﻮ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯽ ﻭﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮯ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺘﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﻧﮧ ﻃﻠﺐ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ۔ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺖ ﺗﺮﯾﻦ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﻮﺍ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺩﮬﺎﺭﺍ ﮨﯽ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ۔
ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﺑﺪﻻ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﮨﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺱ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺧُﻔﯿﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺭﺍﺯ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﮞ۔ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺍُﺱ ﺭﻭﺯ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺗﮭﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻨﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺎﺱ ﺳُﺴﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﯾﻮﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﮈﯾﮍﮪ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﺯﻭ ﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﭨﮭﺎ ﺩﯾﺎ۔
ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﻓﺘﺎﺩ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ۔
ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﺟﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﯽ ﺗﻮ , ﯾﮩﯿﮟ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ , ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺠﺎﻧﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺑﻨﺪﻭﻕ ﮐﯽ ﻧﺎﻝ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﺮﺩﻥ ﺳﮯ ﺁ ﻟﮕﯽ۔
ﺍﯾﮑﺪﻡ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺳﺎﻥ ﺧﻄﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﻟﺮﺯ ﺍُﭨﮭﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﭨﮏ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﻮﻝ ﻧﮧ ﭘﺎﺗﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﭻ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻧﭗ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﭼﻠﻮ ﺍُﭨﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﻮ۔ ﻭﮨﯽ ﻏﺼﯿﻠﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﮭﺮ ﺳُﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ۔ ﻣﯿﮟ ﮐُﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻠﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﭨﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺳُﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻭﮨﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻧﺠﯽ ” ﺍُﭨﮭﺘﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﻮﮌﺍ ( ﭨﺮﯾﮕﺮ ) ﮐﮭﯿﻨﭽﻮﮞ،؟ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺎﻟﺘﻮ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ۔ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻏﺼﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻑ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺑﮩﺖ ﺑُﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻧﭗ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮈﺭﺍﺋﻨﮓ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﺱ ﺳُﺴﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻮﺭ ﮐﻮ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﻻ ﭼُﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﮐُﻞ ﭼﺎﺭ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻨﺪﻭﻗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯾﺎ۔ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﺮﻏﻤﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﺮﺍ ﮈﯾﮍﮪ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﯿﮉ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﺳﻮﯾﺎ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐُﭽﮫ ﻣﺪﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻥ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻘﺎﺏ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺳﮩﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺗﮭﮯ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﮨﯽ ﻣﺎﺅﻑ ﮨﻮ ﭼُﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﭼُﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﮨﻢ ﻟُﭩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻟُﭩﺘﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﻮ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﻟﯿﮉﺭ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺳُﺴﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺯﯾﻮﺭ ﭘﯿﺴﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﮍﯼ ﮨﯿﮟ۔
ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺩﮬﻤﮑﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭﯼ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺩﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﺟﻮ ﮐﮯ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﮯ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﺗﮭﭙﮏ ﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺳﮯ ﺳُﻼ ﺩﯾﺘﯽ، ﺟﺐ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻭﮨﯽ ﻟﯿﮉﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮔﮭﻮﻣﺎ , ﺗﯿﺮﺍ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ؟ ﭼﻞ .. ﭼﻞ ﺍُﭨﮫ ﺍﺳﮯ ﭼُﭗ ﮐﺮﺍ ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﭼُﭗ ﮐﺮﺍ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﺍُﺳﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺟﮭﺮﺟﮭﺮﯼ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﯾﻮﺭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﺱ ﺳُﺴﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻮﺭ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﻻ ﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔ ” ﺍﺳﮯ ﭼُﭗ ﮐﺮﺍ ﻭﺭﻧﮧ ” ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﮭﺮ ﻏُﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ۔ ” ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ ” ﻣﯿﮟ ﺳﮩﻤﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ” ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳُﻼ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺳُﻼ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ ” ﻭﮦ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮬﻤﮑﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﻤﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ” ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻭﺩﮪ ﻧﯿﭽﮯ ﻓﺮﯾﺞ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ ” ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ” ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ” ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮈﺍﮐﻮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻏُﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼﺅ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﮈﺍﮐﻮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﻧﻨﮕﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺻﺎﻑ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﮮ ﮔﺎ۔ ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼﺅﮞ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﭼُﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﻮﺭ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺍﮐﻮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﮈﻭﺏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺰﯾﺰ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼﺗﯽ ﺭﮨﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻤﯿﺾ ﮨﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻮﺭﮮ ﭘﯿﭧ ﮐﯽ ﺟﮭﻠﮏ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻤّﺎ ﺍﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮈﺍﮐﻮ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻭﮨﯿﮟ ﭨﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ اچانک مجھے لگا جیسے وہ میرے قریب کھڑا ہے میں نے سر اٹھایا تو وہ واقعی میرے ساتھ کھڑا تھا۔اگرچہ وہ نقاب پہنے تھا لیکن اس کی ننگی آنکھوں سے مجھے واضح ہوس ٹپکتی نظر آئی۔ اس سے پہلے کے میری چیخ نکلتی اس کا ہاتھ میرے منہ پر تھا۔ ” اگر اپنے بیٹے کی زندگی چاہتی ہو تو جیسے میں کہوں کرتی رہو اور ذرا بھی آواز نکلی تو سمجھ لو تمہارے بیٹے کی آواز ہمیشہ کیلئے بند کر دوں گا۔ ” اس کا منہ میرے کان کے قریب تھا۔ لفظوں کی ادائیگی کے ساتھ مجھے اس کی گرم سانسیں بھی اپنی گردن پر محسوس ہوئیں۔ ایک لمحے میں ہزاروں خیالات میرے دماغ میں ابھرے لیکن ہر سوچ دم توڑ گئی کیونکہ میرے بیٹے کی زندگی میرے عمل سے وابستہ تھی اور اس کی زندگی میرے لیئے ہر چیز سے اہم تھی۔ میں نے خود کو حالات کے حوالے کر دیا۔ اس نے میرے بیٹے کو میرے ہاتھوں سے لے کر بیڈ کے قریب پڑے جھولے میں ڈال دیا۔ میں بُت بنی بیٹھی تھی کہ مجھے اس کا ہاتھ اپنے پیٹ پر محسوس ہوا، میں ایکدم سے سمٹ گئی۔ خوف سے میرا بدن لرز رہا تھا۔ اور آنکھوں سے آنسووں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ میں چیخنا چاہتی تھی۔ اپنی مدد کیلئے زور زور سے پُکارنا چاہتی تھی لیکن میرے بیٹے کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ جو مجھے کوئی بھی ایسا قدم اُٹھانے سے باز رکھ رہا تھا۔ میں نے دونوں گھُٹنے سکیڑ کر اپنی چھاتی سے لگا لیئے۔
مجھے اس ڈاکو کا یوں میرے پیٹ پر ہاتھ لگانا بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ بلکہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اُس کو اس حرکت پر اتنے تھپڑ مارتی کے وہ دوبارہ سے کبھی یوں کسی کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہ کرتا۔ لیکن اس نے میرے بیٹے کی زندگی کی دھمکی دے کر مجھے بےبس کر دیا تھا۔ ” مجھے تُمہارا تعاون درکار ہے، کیونکہ میں ارادہ کر چکا ہوں اور اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، چاہے مجھے زبردستی کیوں نہ کرنی پڑے، اور زبردستی کے دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے کوئی بھی جان سے جا سکتا ہے تُم یا تُمہارا بیٹا۔ ” وہ تنبیہہ کرنے کے انداز سے بات کر رہا تھا۔ میں نے کانپتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے اور اُسے اس کے ارادوں سے باز رکھنے کی آخری کوشش کی لیکن اُس کی حالت جنون کی سی ہو گئی تھی وہ مجھے مسلنے لگا اس کا ہاتھ میرے جسم پر پھسل رہا تھا اور میں سمٹ رہی تھی۔ وہ میرے پیٹ اور میرے مموں کو اپنے ہاتھ سے مسل رہا تھا۔ میں بچاؤ کے لیئے ہاتھ پاؤں تو مار رہی تھی لیکن منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ شائید اس ڈر سے کے اگر میری آواز نکل گئی تو وہ کہیں بھڑک کر میرے بیٹے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ وہ مسلسل میرے جسم کو نوچ رہا تھا۔ آخر میری مزاحمت دم توڑ گئی۔ مجھے ڈھیلا پڑتا دیکھ کر اس نے بندوق ایک طرف رکھی اور دونوں ہاتھ میرے مموں پر رکھ دیئے۔ وہ کسی وحشی درندے کی طرح میرے اوپر چڑھ آیا۔ میں مکمل اس کے رحم و کرم پر تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ میری قمیض کے اندر ڈال دیئے اور اپنی انگلیوں سے میری نپلز کو چھیڑنے لگا۔ کسی بھی لڑکی اور عورت کو اگر سب سے زیادہ کسی چیز کا خوف ہوتا ہے تو وہ اس کی عزت جانے کا۔ اس کے بچاؤ کیلئے کوئی بھی لڑکی یا عورت اپنی جان تک گنوا سکتی ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ لیکن اگر یقین ہو جائے کے وہ کسی صورت اپنی عزت نہیں بچا پائے گی تو اس کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر لڑکی یا عورت ماں ہو تو اس کیلئے اولاد ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ اور ایسے بہت سے قصے آپ نے بھی سُنے ہونگے
جب کسی لڑکی یا عورت نے اولاد کیلئے اپنی عزت تک گنوا دی ہو۔ میں بھی اگر عام لڑکی ہوتی تو شائید مر جاتی لیکن کسی ڈاکو کے ہاتھوں یوں عزت نہ گنواتی لیکن میں ایک ماں تھی اور اس ڈاکو نے مجھے میرے بیٹے کی زندگی کی مجھے دھمکی دی تھی۔ یہی وجہ تھی کے وہ میرے جسم کو بھنبھوڑ لینا چاہتا تھا اور میں اسے روک نہیں پا رہی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب بچاؤ ناممکن ہے اور یہی وجہ تھی کے مجھے خوف بھی نہیں رہا تھا۔خوف تب تک ہی رہتا ہے جب تک بچاؤ کی کوئی صورت نظر آتی رہے لیکن مجھے کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ ان لمحوں میں جب میں خوف کی حدود سے نکل رہی تھی ایک مرد میرے بدن سے لذت لے رہا تھا۔ یعنی خوف کا اختتام لذت کی شروعات پر تھا۔ اور میں بھی اس ڈکیت کے ساتھ لذت کے اس گہرے سمندر میں غرق ہونے لگی۔ اس کا میری نپلز کو مسلنا مجھے میٹھے درد کے ساتھ لذت بھی دے رہا تھا۔ میرے گول مٹول خوبصورت ممّے تن گئے۔نپلز اکڑ کر سخت ہو گئے۔بدن میں جیسے سرور چھانے لگا۔ مجھ پر مستی چھانے لگی تھی جس کا اظہار میں نے اس ڈاکو کی کمر پر ہاتھ پھیر کر کیا۔ میرے ہاتھ بھی اب اس کی کمر پر گردش کر رہے تھے۔وہ مجھے پر جھکا ہوا تھا
اس طرح کا ردِعمل دیکھ کر وہ پورا میرے اوپر لیٹ گیا جس سے اس کا لن میری رانوں کے درمیان رگڑ کھانے لگا۔ میری عجیب حالت ہو رہی تھی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ساتھ دینے لگی۔ میں اس کے لن کو محسوس کرنے کیلئے اپنی گانڈ ہلا رہی تھی۔ جس سے اس کا لن میری رانوں کے درمیان رگڑ کھا رہا تھا۔ میں نے ہاتھ اس کے نقاب پر ڈال کر اس کا نقاب اتارنا چاہا تو اس نے فوراً میرے ہاتھ کو پکڑ لیا اور میرا بازو موڑ کر میرے ہاتھ کو میرے سر تک لے گیا پھر اس نے دوسرے ہاتھ کو بھی ویسے ہی موڑ کر میرے سر کے پیچھے کر دیا۔ اور میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیئے۔ وہ نقاب پہنے ہوئے ہی میرے مموں پر کاٹ رہا تھا۔ اس کے یوں کاٹنے سے مجھے درد تو ہو رہی تھی لیکن جو لذت مل رہی تھی اس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اس کا جنون میرے لیئے نیا تھا۔ میرے شوہر سیکس کے دوران کبھی ایسی جنونی کیفیت میں نہیں گئے تھے۔ ان کی میرے بدن سے چھیڑ چھاڑ بڑی شائستہ ہوتی تھی۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر اور بڑے سنبھل سنبھل کر ہاتھ لگاتے تھے۔اُن کا کسنگ کرنے کا انداز بھی بڑا سوفٹ تھا۔ وہ سیکس کے دوران مجھ سے ایسے برتاؤ کرتے جیسے میں کانچ کی بنی ہوں اور اُن کی بے احتیاطی سے کہیں ٹوٹ نہ جاؤں۔ لیکن اس ڈاکو کا انداز بالکل بے رحمانہ تھا۔
اس کے ہاتھ بےدردی سے مجھے مسل رہی تھے۔ وہ اب میرے گالوں اور ہونٹوں پر کاٹ رہا تھا۔لیکن یہ کاٹنا کسی حد تک پیٹ اور ممّوں پر کاٹنے کی نسبت تھوڑا سوفٹ تھا۔ میں اس کے ہونٹوں کا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کرنا چاہتی تھی لیکن اس کا نقاب ایسا نہیں ہونے دے رہا تھا۔ مجھے نقاب سے اُلجھن ہونے لگی تو میں نے اسے کہہ دیا کہ مجھے اس کے نقاب سے الجھن ہو رہی ہے۔ اسے لگا شائید میں اس کا نقاب اُتروا کر صرف اس کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں تو اُس نے نقاب اُتارنے سے انکار کر دیا۔ لیکن میرے چہرے پر بیچینی اور الجھن کے تاثرات دیکھ کر اس نے نقاب اُتار پھینکا۔وہ ایک مضبوط جسم کا مالک تھا اور چہرے مہرے سے بھی ایک خوبرو جوان تھا ۔
نقاب اُتارتے ہی وہ مجھے بڑی بے رحمی سے چومنے چاٹنے لگا۔ اُسے بھی شائید نقاب میں مزہ نہیں آ رہا تھا۔ اسی لیئے اُس نے نقاب اُتار پھینکا تھا۔اسکے نین نقش چوڑیاں فلم کے ہیرو معمررانا جیسے تھے اور سینہ چوڑا جیسے میرے وجود کا لمس پا کر دراز ھوا تھا میرا دل کیا کہ میں اسکا نام پوچھ لو مگر شرم آڑے آ گئ‎ ‎
اُس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سے لگتے ہی جیسے دھماکہ ہوا اور آگ جیسے بھڑک اُٹھی۔اس کے دونوں ہاتھ میرے ممّوں کا مساج کر رہے تھ





لیکن اس ڈاکو کا انداز بالکل بے رحمانہ تھا۔ اس کے ہاتھ بےدردی سے مجھے مسل رہی تھے۔ وہ اب میرے گالوں اور ہونٹوں پر کاٹ رہا تھا۔لیکن یہ کاٹنا کسی حد تک پیٹ اور ممّوں پر کاٹنے کی نسبت تھوڑا سوفٹ تھا۔ میں اس کے ہونٹوں کا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کرنا چاہتی تھی لیکن اس کا نقاب ایسا نہیں ہونے دے رہا تھا۔
مجھے نقاب سے اُلجھن ہونے لگی تو میں نے اسے کہہ دیا کہ مجھے اس کے نقاب سے الجھن ہو رہی ہے۔ اسے لگا شائید میں اس کا نقاب اُتروا کر صرف اس کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں تو اُس نے نقاب اُتارنے سے انکار کر دیا۔ لیکن میرے چہرے پر بیچینی اور الجھن کے تاثرات دیکھ کر اس نے نقاب اُتار پھینکا۔وہ ایک مضبوط جسم کا مالک تھا اور چہرے مہرے سے بھی ایک خوبرو جوان تھا ۔نقاب اُتارتے ہی وہ مجھے بڑی بے رحمی سے چومنے چاٹنے لگا۔ اُسے بھی شائید نقاب میں مزہ نہیں آ رہا تھا۔
اسی لیئے اُس نے نقاب اُتار پھینکا تھا۔ اُس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سے لگتے ہی جیسے دھماکہ ہوا اور آگ جیسے بھڑک اُٹھی۔اس کے دونوں ہاتھ میرے ممّوں کا مساج کر رہے تھے جبکہ میرے ہونٹوں کو چُوس رہا تھا۔
آپ کے یہ ہونٹ کتنے نرم و نازک ہیں
طبیب نے بھی کہا ہے ایسی غذا کھانے کو!
اس کا بے رحم انداز اور جارحیت مجھ پر نشہ طاری کر رہے تھے۔ وہ جب بھی دانتوں سے میرے ہونٹوں پر کاٹتا یا پھر میری نپلز کو مسلتا مجھے ایک میٹھا سا درد محسوس ہوتا جس پر میں سسک جاتی۔ اور میرا سسکنا شائید اسے بھی لذت دے رہا تھا کیونکہ میری ہر سسکی اسکا جوش بڑھا دیتی اور وہ مزید جارحانہ انداز سے مجھے مسلنے لگتا اس کے بوسوں کی رفتار اور تیز ہو جاتی۔ اس کا آہستگی سے میرے ہونٹوں کو کاٹنا مجھے بھی بہت اچھا لگ رہا تھا۔
وہ اب ایسے ہی میرے ممّوں اور پیٹ پر بھی کاٹ رہا تھا۔ پھر اس نے میری شلوار کھول دی اور اس کے ہاتھ نے جیسے ہی میری چوت کو ٹچ کیا تو جیسے میرے پورے بدن کو آگ لگ گئی میں جو پہلے سے ہی اس کا ساتھ دے رہی تھی اور گرمجوشی کیساتھ اس سے لپٹنے لگی۔ میں بھی اس کو چوم رہی تھی۔ میں نے زور سے اسے بازؤوں میں اسطرح بھر لیا جیسے مجھے ڈر ہو کے وہ مجھے اس حالت میں چھوڑ کر بھاگنے والا ہے۔ اس نے میری شلوار کھینچ کر مکمل اُتار دی اور خود کی بھی اس کا سخت اکڑا ہوا لن میری آنکھوں کے سامنے تھا وہ لمبائی میں میرے شوہر کے لن سے کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن موٹائی میں وہ یقیناً زیادہ موٹا تھا۔ میرے خیال میں تھا کے وہ ابھی اسے میری چوت کے اندر ڈالے گا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ابھی کچھ اور کھیلنا چاہتا تھا۔ وہ میری ٹانگوں کے بالکل بیچ میں آیا اور اپنے سر کو میری رانوں کے درمیان رکھ دیا
اس کے ہونٹوں نے میری چوت کو چھُوا تو بے اختیار میری سسکیاں نکل گئیں۔ میرے شوہر نے کبھی ہونٹوں سے میری چوت کو نہیں چوما تھا وہ بس ہاتھ سے ہی میری چوت کا مساج کیا کرتے تھے۔ میں اس لذت سے نا آشنا تھی جو اس ڈکیت کے میری چوت کو چومنے سے حاصل ہوئی تھی۔ اس نے یہیں پر بس نہیں کیا تھا بلکہ وہ باقاعدہ زبان کو میری چوت کے اندر باہر کرنے لگا اس نے دونوں انگوٹھوں سے میری چوت کے ہونٹوں کو قدرے کھول رکھا تھا تاکہ اس کی زبان زیادہ سے زیادہ میری چوت کے اندر جا سکےمزید کہانیاں پڑھنے کیلئیے وزٹ .کریں بولڈ ناول کی دنیا گروپ کا۔
وہ میری چوت چاٹنے کے درمیان کبھی کبھی چوت کے قریب میری رانوں پر کاٹ بھی رہا تھا جو مجھے اور دیوانگی کی حد تک پاگل کر گیا۔ میں گانڈ ہلا ہلا کر اس کے منہ پر اپنی چوت رگڑ رہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کے وہ اسی طرح میری چوت کو چاٹتا رہے۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کے میرے شوہر کے علاوہ کوئی غیر مرد اس طرح سے مجھے چودے گا اور میں اس سے لذت حاصل کروں گی۔ مجھے ایسے خیال سے بھی گھِن آتی تھی لیکن آج میں نہ صرف ایک غیر مرد سے لذت پا رہی تھی بلکہ پورے طریقے سے اس کھیل میں شریک ہو گئی تھی۔میں اب چاہ رہی تھی کے وہ مجھے اسی بے رحمی سے چودے۔ اور ایسا میں
اس شخص سے چاہ رہی تھی جو اس گھر کے مال واسباب کے ساتھ عزت کو بھی لُوٹ رہا تھا۔



میں اُس کے اِس مکروہ کھیل میں پوری طرح سے شریک ہو چُکی تھی۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اُس کے سر کو پکڑ لیا اور اپنی گانڈ کو اوپر اُٹھا کر چوت اس کے منہ سے رگڑنے لگی۔ میں لذت کے سمندر میں ڈوبی جا رہی تھی۔ وہ کبھی میری رانوں پر اور کبھی میری چوت پر اپنے دانتوں سے دھیرے دھیرے کاٹ بھی رہا تھا۔ جس سے لذت بھری ایک لہر سی میرے بدن میں دوڑ جاتی میرا جنون آسمانوں کو چھونے لگا۔ میرے اندر آگ بھڑک رہی تھی۔ اور آگ کی جلن اس وقت کچھ کم ہوئی
جب میرے چوت سے پانی کا سیلاب اُمڈ آیا۔ میں بستر پر گر سی گئی میرا بدن ڈھیلا پڑ گیا تھا لیکن ابھی بھی بیقراری باقی تھی۔ وہ بیڈ کے قریب فرش پر کھڑا ہو گیا اور اس نے مجھے دونوں بازؤوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھا دیا۔ وہ میرے اتنے قریب کھڑا تھا کے اُس کا اکڑا ہوا لن میری گردن سے ٹکرا گیا۔ اُس نے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے بالوں کو اپنی مُٹھی میں لیا اور بائیں ہاتھ سے لن کو پکڑ کر میرے منہ کی طرف سیدھا کیا اور لن کا سرا میرے ہونٹوں سے لگا دیا۔ میں کچھ نہیں سمجھ رہی تھی کے وہ کیا کرنے جارہا ہے۔ میں نے سر اُٹھا کر خُمار آلود نظروں سے اُس کی طرف دیکھا لیکن اس سے پہلے کے میں کُچھ کہتی وہ خود بول پڑا
” ڈارلنگ.. اسے پیار نہیں کرو گی ” وہ لن کی طرف آنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ” یہی ہے جس سے تمہاری بیقراری کو قرار آئے گا۔ “
” اسے تھوڑا چوم کر خوش کرو گی تو یہ تمہیں وہ خوشی دے گا کے تُم ساری زندگی اسے بھول نہیں پاؤ گی۔ ” اتنا کہہ کر اُس نے لن کو میرے ہونٹوں پر رگڑنا شروع کر دیا۔مجھے عجیب لگ رہا تھا۔ پچھلے پانچ سالوں میں میں نے بارہا اپنے شوہر کیساتھ سیکس کیا تھا لیکن انہوں نے کبھی بھی ایسی کوئی فرمائش نہیں کی تھی کے میں اُن کے لن کو چوموں۔
میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا میں کوئی طوائف نہیں جو آپکا لن چوسوں تو اس نے کہا جان من کس نے کہا آپ کو طوائف میں نے تو تمہارے خوبصورت جسم کا رس پینا ھے آپ جیسی حور کو پانا میری خوش قسمتی ھے اس کے منہ سے اپنی تعریف سن کر میں نے پھر سب کچھا ہار دینا ہی مناسب سمجھا
میں نے کہا آپکا کیا نام ھے تو وہ بولا کہ ماں مجھے پیار سے نواب زادہ کہتی ھے اور میرا نام شاہد راجپوت ھے اس نے کہا آپکا نام کیا ھے میں نے کہا میرا نام مناہل ملک ھے اور میں نے کبھی کسی غیر مرد کو نہیں دی تو آپ ضد کر رھے ھیں تو میری…….. ایک شرط ھے…… اس نے میرے بوب سہلاتے ھوۓ کہا کونسی شرط ھے تو میں نے کہا بس آپ ھی لو گے……. میری چوت باقی کوئی….. مجھے نہیں چودے گا شاہد میری طرف دیکھ کر بولا مجھے شرط منظور ھے تو میں نے کہا بس آجاؤ پھر اور بجھا لو اپنی پیاس
میں اکثر اپنے شوہر کا لن ہاتھوں میں لے کر کھیلا کرتی تھی لیکن منہ میں کبھی بھی نہیں لیا تھا۔ اسی وجہ سے مجھے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی لیکن وہ بھی پورا ارادہ کیئے ہوئے تھا۔ اس نے لن کو پکڑ کر ذرا زور سے دباؤ ڈالتے ہوئے میرے ہونٹوں پر لن کو اوپر نیچے کیا تو لن کا سرا میرے ہونٹوں کے اندر ہو گیا ……..ساتھ ہی اُس نے میرے بالوں کو زور سے نیچے کی جانب جھٹکا دیا تو میرا چہرا اوپر کو اُٹھا جس سے میرا منہ قدرے کُھل گیا۔ اور اس کا گرم لن میرے منہ کے اندر گھُنستا چلا گیا۔
میں لن کو واپس اُگل دینا چاہتی تھی لیکن ایسا نہ کر پائی اس کی مضبوط گرفت کے آگے میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اب وہ لن کو میرے منہ کے اندر گُھمانے لگا۔ اس کا لن میرے منہ میں تھا اور ایسا میرے ساتھ پہلی بار ہو رہا تھا کے کوئی لن میرے منہ کی اندرونی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔ میرے تھوک نے اُس کے لن کو پورا بھگو دیا تھا۔ جس سے مجھے لن کا بہت عجیب سا ذائقہ محسوس ہوا اور یہ ذائقہ ایسا تھا جو میں نے زندگی میں کبھی بھی کسی چیز میں نہیں پایا تھا۔ سچ میں مجھے اس کا ذائقہ بہت اچھا لگا تو میں نے زبان لن سے رگڑنا شروع کر دی اور پھر جیسے جیسے میں زبان رگڑ رہی تھی ٹیسٹ بڑھنے لگا اور میں نے لن کو اپنے ہونٹوں میں کس لیا اور اب باقاعدہ میں اسے چُوس رہی تھی۔ میرے منہ میں پیدا ہونے والا تھوک اس کے لن سے مل کر وہ ذائقہ مہیا کر رہے تھے کے لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔ ایسے لگ رہا تھا
جیسے اس کا لن میرے تھوک میں گھُل کر مجھے نئی زندگی دے رہا ہو۔ میری دیوانگی اور جنون اتنے بڑھ گئے تھے کے وہ مجھے دیکھ کر مُسکرا رہا تھا اور میں جوش سے اُس کے لن کو چُوس رہی تھی۔ میرے منہ میں پیدا ہونے والا تھوک میرے لیئے امرت بن گیا تھا
میں اسے ایسے نگل رہی تھی جیسے اگر ضائع کر دیا تو میں زندہ نہیں رہونگی۔ اس کا لن سخت لوہے کی مانند ہو گیا تھا۔ اس نے لن کو کھینچ کر منہ سے نکالا تو میں دیوانوں کی طرح جھپٹی اور اسے پکڑ کر بھوکوں کی طرح پھر منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ .نواب شاہد نے سچ کہا تھا کے میں اسے خوش کروں گی تو وہ بھی مجھے وہ خوشی دے گا جو ساری زندگی مجھے یاد رہے گی۔ اس نے لن کو پھر میرے منہ سے نکالا اور میرے ہونٹوں پر کس کرتے ہوئے کہا, ” ڈارلنگ اس کا کام اور بھی باقی ہے۔ اسے وہ بھی نبٹانا ہے۔ ” پھر اُس نے مجھے بیڈ پر ہی اوندھے منہ لٹایا اب وہ مجھے ایک خاص پوزیشن میں لے آیا تھا۔
میری کہنیاں سینہ اور گُٹنے بیڈ پر تھے جبکہ میری گول سفید گانڈ اوپر کی طرف اُٹھی تھی میں اُس کے سامنے کُتیا بنی ہوئی تھی اور وہ اب تیار تھا میری چوت کو چودنے کیلئے۔ اس نے میری ٹانگوں کو اس حد تک کھول دیا تھا کے میری چوت اس کے لن کی اونچائی پر آ گئی ۔ اس نے گانڈ کے دونوں طرف کس کیا دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرے اور اپنے منہ کو ایک بار پھر میری چوت پر رکھ دیا۔ وہ زبان سے چاٹ چاٹ کر میری چوت کی پرتوں کو جُدا کر رہا تھا۔ میری سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میرے پورے بدن میں بجلیاں رینگ رہی تھیں۔ میں چاہ رہی تھی کے وہ ایسے ہی میرے ساتھ کھیلتا رہے اور یہ وقت کبھی بھی ختم نہ ہو۔ آخر اس کا لن میری چوت کے دھانے تک آ ہی گیا
اس نے اپنے لن کا سر میری چوت کے سوراخ پر رکھ کر دھکا دیا تو مجھے لگا کے وہ مجھے لے کر اُڑنے لگا ہے۔ اس کا لن دوسرے ہی دھکے میں اندر تک پہنچ چکا تھا۔ مجھے لگا کوئی لوہے کا راڈ میری ٹانگوں کے بیچ میری چوت میں ٹھونک دیا گیا ہو۔ میں کراہ کر رہ گئی۔ لیکن اسے میرے سسکنے یا کراہنے کی پرواہ کب تھی اور میں چاہتی بھی نہیں تھی کے وہ میری کوئی پرواہ کرے۔ اس کا جنونی پن ہی تو تھا
جس نے مجھے ذہنی طور پر اس کے ساتھ سیکس پر آمادہ کر لیا تھا۔ سیکس میں یہ جنون میرے لیئے نیا تھا۔ اور میں پوری طرح اس جنون سے لُطف اندوز ہو رہی تھی۔ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ سیکس میں بھی بہت مزہ آتا تھا لیکن اس ڈکیت نے لذت کی جو نئی وادیاں مجھے گھُمائیں تھیں میں نے ان کی سیر پہلے کبھی نہیں کی تھی۔اور اب جب اس کا لن میری چوت میں غرق ہوا تو اس نے ایسے دھکے دینے شروع کیئے کے جیسے وہ اپنے لن کی قوت سے میرے جسم کو دو حصوں میں چیر دینا چاہتا ہو۔ میری چوت لوہار کی بھٹی کی طرح گرم ہو گئی تھی۔ اور اس کا لن ہتھوڑے کی طرح چوٹ پہ چوٹ لگا رہا تھا۔
میری سسکیاں آہوں میں تبدیل ہو کر چیخوں میں ڈھلنے لگیں تو میں نے تکیے کا کونا منہ میں لے کر دانت سختی سے بھینچ لیئے تاکہ آواز نہ نکلے۔ میری چوت نے پانی چھوڑا تو مجھے کچھ راحت ہوئی لیکن وہ مسلسل مشین بنا ہوا تھا۔ اس کی نہ سختی کم ہوئی نہ ہی رفتار میں کوئی کمی آئی۔ لن کی مسلسل رگڑ سے جو پانی چوت نے چھوڑا تھا وہ سوکھ گیا۔میری چوت اس کے لن سے جیسے چپک گئی تھی وہ لن باہر کو کھینچتا تو مجھے لگتا کہ جیسے میری انتڑیاں بھی وہ کھینچ کر چوت کے رستے باہر نکال لے جائے گا۔ اور جب وہ لن کو اندر لے جاتا تو مجھے لگتا
جیسے اس کا لن میرا پیٹ پھاڑ کر باہر نکل جائے گا۔ تکلیف ہو رہی تھی لیکن جو لذت حاصل ہو رہی تھی اس کے سامنے اس سے ہزار گنا زیادہ تکلیف ہوتی تو میں تب بھی برداشت کر لیتی۔ جو لذت میں نے آج پائی وہ میں نے کبھی پہلے نہیں پائی تھی۔ حالانکہ میرے شوہر سیکس میں کمزور نہیں تھے لیکن ان کا انداز ان سٹائل الگ تھا اور اس ڈاکو کا اپنا ہی انداز تھا۔ میں اپنے شوہر سے بھی لذت پاتی تھی ۔لیکن آج کچھ جُدا تھا۔ مجھے آج احساس ہو رہا تھا کے عورتیں کیوں اپنے گھر بار اپنے خاوند اور بچے چھوڑ دیتی ہیں۔ اپنی پُر آسائش زندگی چھوڑ کر کسی کنگال اور مُفلس کو کیوں اپنا لیتی ہیں۔
میں حیران ہوا کرتی تھی کے عورتیں شادی شُدہ ہونے کے باوجود باہر یارانے کیوں گانٹھ لیتی ہیں۔ وہ کیوں اپنی عزت و ناموس کو یوں داؤ پر لگا دیتی ہیں۔ لیکن آج میرے لیئے یہ راز راز نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنے سوال کا جواب پا لیا تھا۔ مجھے اپنے شوہر سے لذت اور راحت مل رہی تھی اور میں اس پر خوش بھی تھی کیونکہ میرے لیئے وہی لذت کی انتہا تھی۔
میرا جسم جھٹکے لے رہا تھا۔ اور وہ چوٹ پر چوٹ لگائے جا رہا تھا۔ لگتا تھا وہ نہ تھکے گا اور نہ بس کرے گا لیکن میری ہمت جواب دے رہی تھی۔ میری آنکھوں سے برسات جاری تھی اس کا لن میری چوت کی اندرونی دیواروں کو چیر رہا تھا۔ میں پانچ سال سے اپنے شوہر کے ساتھ سیکس کر رہی تھی اور میں ایک بچے کو جنم بھی دے چُکی تھی لیکن پھر بھی میرے لیئے اب برداشت مشکل ہو رہی تھی۔ میں یقین سے کہتی ہوں کے اگر ایسا شخص ایک کنواری یا نوجوان لڑکی کے ساتھ سیکس کر لے تو وہ لڑکی زندگی بھر کسی دوسرے مرد سے ایسی خوشی نہیں پائے گی۔ اور اپنی ساری زندگی ایسے شخص کی غلامی میں ہی بسر کر دے گی۔ میں مشکل سے اپنی چیخوں کو کنٹرول کر پا رہی تھی۔ اگر حالات مختلف ہوتے تو میں شائید زور زور سے چیخ رہی ہوتی۔ میں ایک بار پھر ہیجانی انزال ( orgasm) کے قریب تھی اُس کا مجھے پتہ نہیں تھا کے وہ مزید کتنا وقت لے گا۔ میرا پورا بدن تناؤ میں تھا مُٹھیاں سختی سے بند تھیں جسم پر کپکپاہٹ اور لرزہ طاری ہو گیا۔ اور پھر چوت سے پانی کا فوارہ چھوٹ پڑا میرا پورا جسم جھٹکے لے رہا تھا اور ہر جھٹکے پر چوت سے پانی اُبل کر نکل آتا اُس ڈاکو نے جلدی سے لن چوت میں سے نکال کر خود کو بچایا اور وہ اب اپنے ہاتھ سے ہی لن کو تیزی سے رگڑ رہا تھا اور اس کے لن سے بھی گاڑھا زرد پانی نکل آیا۔
میں ابھی بھی جھٹکے لے رہی تھی۔ میری ٹانگیں اور بستر چوت سے نکلنے والے پانی نے بُری طرح گیلے کر دیئے۔ میں زخمی فاختہ کی طرح بیڈ پر گری پڑی تھی۔ میں نے پہلے کبھی اتنا انزال نہیں پایا تھا۔.نواب شاہد نے اپنے لن کو پہلے میرے پیٹ پر صاف کیا پھر بیڈ شیٹ کو کھینچ کر میرا پیٹ ٹانگیں اور چوت کو اچھی طرح سے صاف کرنے کے بعد لن کو بھی صاف کیا۔ مجھے چوت میں میٹھا میٹھا درد محسوس ہو رہا تھا
ڈکیٹ تحریر نواب شاہد
لیکن میں خود کو بڑا ہلکا پھُلکا اور ریلیکس محسوس کر رہی تھی۔ چوت سے نکلنے والے سیلاب نے چوت میں لگی آگ کو بجھا دیا تھا۔ میں ویسے ہی بستر پر پڑی اس ڈاکو کو دیکھے جا رہی تھی ۔ میں اس کے چہرے کو زندگی بھر کے لیئے اپنے دماغ میں محفوظ کر لینا چاہتی تھی۔ کیونکہ میں جانتی تھی کے آج کے بعد ہماری مُلاقات نہیں ہونے والی۔ جس لذت سے میں نا آشنا تھی
اس سے مجھے روشناس کرانے والے کا اتنا تو حق بنتا تھا کے اُسے یاد رکھا جائے۔ اُس نے خود شلوار پہنی اور میری شلوار مجھے دی۔ میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے کہا ” کاش وقت کم نہ ہوتا تو تجھے اتنا خوش کرتا کے تُو خود مجھے اپنی ساری دولت تھما دیتی۔ ” وہ مجھے تجسس میں ڈال گیا۔ مجھے اس سے زیادہ اور کیا خوش کرتا؟ یہ سوال میرے دماغ میں ڈال کر وہ جانے والا تھا۔
اس کے ساتھیوں نے اسے آواز دے دی تھی کے کام مکمل ہو گیا ہے۔ یہاں اس کا کام بھی مکمل ہو گیا تھا۔ وہ دروازے کی طرف لپکا دروازے کے قریب پہنچ کر واپس آیا۔ میرے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اوپر اُٹھایا اور ہونٹ چوم لیئے۔ نقاب پہنا اور اس سے پہلے کے وہ دروازے سے باہر نکلتا پلٹ کر پھر مجھے دیکھا اور کہا
 کہا " جہانگیر نام ہے میرا, یاد رکھنا
Like Reply
ڈکیت (قسط 4)

وہ جا چُکا تھا اور میں یونہی بُت بنی بیٹھی تھی۔ اچانک جیسے میں خواب سے بیدار ہوئی۔ سب سے پہلے میں نے اپنے کپڑے تبدیل کیئے بیڈ شیٹ بھی تبدیل کی فرش پر گری گندگی کو صاف کیا اور بھاگ کر نیچے گئی جہاں میری ساس سُسر اور دیور ابھی تک بندھے تھے۔ میں نے اُن سب کو کھولا بعد میں میرے سُسر نے پولیس سٹیشن فون کیا اور تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹوں کے بعد ایک پولیس وین آئی جنہوں نے موقع چیک کیا۔ ہم پولیس کے آنے سے پہلے تمام کمرے دیکھ چُکے تھے۔ ہر چیز بکھری ہوئی تھی لگتا تھا انہوں نے گھر کے ہر کونے کی تلاشی لی تھی۔ پولیس نے ہم سب کے الگ الگ بیان قلمبند کیئے۔ میں نے بھی اپنا بیان دیا لیکن میں نے سیکس والا حصہ چھُپا لیا۔ میرے بیٹے کے رونے تک جو ہوا وہ میں نے ویسے کا ویسا ہے بتایا اور میں نے اپنے بیان میں کہا کہ جب میں بیٹے کو دودھ پلا چُکی تو اس ڈاکو نے مجھے یہیں بیڈ پر میرے دوپٹّے سے باندھ دیا تھا اور خود اپنے ساتھیوں سے مل گیا تھا۔ اور میں نے یہ بھی اپنے بیان میں لکھوایا کے مجھے جب گھر میں خاموشی لگی تو تب میں نے بڑی مُشکل سے خود کو کھولا تھا اور بعد میں میں نے باقی گھر والوں کو کھولا تھا۔ پولیس اپنی ضروری کاروائی کے بعد ہمیں تسلی دلاسہ دے کر چلی گئی اور ہمیں یہ یقین دہانی کرائی کے وہ جلد ان ڈاکؤوں کو پکڑ لیں گے ۔ میں نے اپنے شوہر کو فون کرکے واقعے کی اطلاع کر دی تھی۔ اگلے دن بہت سے لوگ ہمارے ساتھ ہوئے اس واقعے کا غم بانٹنے آئے۔ ہر کوئی تسلی دلاسے دے رہا تھا۔ میری ساس اس غم سے مری جا رہی تھی کے عمر بھر کی پونجی لُٹ گئی اور مجھے یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ میں اس ڈاکو سے دوبارہ کبھی نہیں مل پاؤں گی۔ پولیس اپنی تفتیش میں مجھے بھی مُلزم کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی۔ انہیں اس بات پر شق تھا کے مجھے الگ کمرے میں کیوں لے جایا گیا اور میں آزاد کیسے ہوئی انہیں اس بات پر بھی شق تھا کے مجھے باندھا بھی گیا تھا کے نہیں۔ لیکن میرے شوہر اور میری ساس اور سُسر کے بیانات میرے حق میں تھے۔ اور سچ بھی یہی تھا۔ میں ہر گز اس ڈکیتی کی واردات میں گھر بھیدی کا کردار ادا نہیں کر رہی تھی۔ پولیس اپنے طریقے سے تفتیش کر رہی تھی اور مجھے اُن کے طریقہ کار پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔رفتہ رفتہ ہمارے گھر میں ہوئی واردات پر شہر میں ہونے والی اور بیسیوں وارداتوں کی دھول نے گرد ڈال دی۔ سب گھر والے بھی اس واقعے کو بُرے خواب کی طرح بھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں بھی اسے بھول جانا چاہتی تھی لیکن وہ ڈکیت ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہتا۔ اس کے ساتھ گُذرے چند پل میرے دماغ سے نکل ہی نہیں رہے تھے۔ سب کا خیال تھا کے اس واقعے نے مجھ پر بُرا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے میں اکثر کھوئی رہتی ہوں ۔لیکن میں جانتی تھی کے میں اس لذت اور سرور کے نہ ملنے کی وجہ سے کھوئی رہتی ہوں۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ اب بھی سیکس کرتی تھی۔ پہلے ہی کی طرح اُن کا پورا ساتھ دیتی تھی اور اُن کو ہر ممکن طریقے سے خوش کرنے کی کوشش کرتی تھی لیکن میری خود کی خوشی کہیں کھو گئی تھی۔ میرے شوہر میرے بدن سے جتنی بھی چھیڑ چھاڑ کرتے وہ مجھے عجیب بچگانہ سی حرکات لگتیں۔ جب تک اس ڈاکو نے میرے جسم کو مسلا نہیں تھا تب تک میرے شوہر میرے ساتھ جو کچھ کرتے تھے وہی میرے لیئے سیکس کی انتہا تھی لیکن اس ڈاکو نے مجھے سیکس کے نئے انداز اور نئے ذائقے متعارف کرائے تھے۔ میں وہی لذت وہی ذائقہ وہی جنون چاہتی تھی لیکن میرے شوہر سے تو ایسا سب ملنا مشکل تھا۔ ان کی شخصیت ہی جُدا تھی اور میں جانتی تھی کے انہیں ان کی شخصیت کے اس خول سے نکالنا آسان نہیں۔
ہمارے گھر ہوئی ڈکیتی کی واردات کو ہوئے تقریباً آٹھ ماہ ہو چُکے تھے۔ پولیس واردات کا سُراغ لگانے میں بالکل ناکام ہو چُکی تھی اور ہم سب بھی قُدرت کا لکھا سمجھ کے بھول چکے تھے۔ زندگی واپس اپنے نارمل شب و روز کی طرف لوٹ آئی تھی۔ میں نے لذت کے حصول کیلئے گندگی کی طرف گرنے کے بجائے پاک صاف زندگی کو ترجیح دی۔ میں کوشش کرتی کے سیکس کے دوران میرے شوہر مجھ سے جارحانہ برتاؤ کریں۔ وہ مجھے نوچیں مجھے مَسلیں اور مجھے کاٹیں وہ میری گانڈ کو سہلانے کے بجائے تھپڑوں سے لال کر دیں اس کیلئے میں مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں اُکسانے کی کوشش بھی کرتی لیکن وہ بھی اپنی ڈگر کے پکّے تھے۔ وہ کہتے اتنی ملائم گانڈ کو میں تھپڑ کیسے مار سکتا ہوں۔ ان گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کو میں کیسے کاٹ سکتا ہوں، ان خوبصورت کشمیری سیب جیسے پستانوں کو مسل کر مجھے کیا انہیں خراب کرنا ہے۔ وہ بہت پیار سے میرے ہونٹوں کو چومتے۔ اتنی نرمی سے میرے ممّوں پر ہاتھ پھیرتے کے جیسے اُن کی ذرا سی بے احتیاطی سے یہ کہیں خراب نہ ہو جائیں۔ وہ میری چوت کو اپنے ہاتھ سے بڑے آرام سے سہلاتے تھے۔ اور کبھی کبھی ہی وہ اپنی اُنگلی میری چوت میں داخل کرتے تھے۔ ان کا سیکس بس اتنا ہی ہوا کرتا تھا کے ٹانگیں اُٹھائیں لن کو سیدھا کر کے چوت میں ڈالا اور دس پندرہ منٹ کی چُدائی اور پھر باقی رات خراٹے۔ پہلے میں اتنے کو ہی بہت سمجھا کرتی تھی لیکن اب میں جان گئی تھی کے اصل لذت اس سے آگے کی منزل ہے۔
اس دن میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسی لیئے میں انہیں ڈاکٹر کو دکھانے ہسپتال لے گئی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کچھ ادویات لکھ کر دیں۔ جنہیں خریدنے کیلئے میں ایک میڈیکل سٹور میں داخل ہوئی تو کاؤنٹر پر جو شخص کھڑا تھا اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ یہ وہی شخص تھا جس نے مجھے اپنا نام جہانگیر بتایا تھا اور چند ماہ پہلے میرے گھر سے نہ صرف مال و اسباب لوٹ لایا تھا بلکہ میرا سُکھ چین بھی لوٹ لایا تھا۔ وہ بھی ایکدم سے گھبرا گیا۔ اس کا رنگ زرد پڑ گیا لیکن پھر اُس نے خود کو سنبھالا اور بولا " جی میم کیا خدمت کروں آپ کی؟ میں یک ٹُک اس پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔ اس نے پھر پوچھا تو میں نے بنا بولے دوائیوں کی پرچی اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ میرے لیئے دوائیاں نکال رہا تھا جبکہ میں اسی کی طرف نظریں جمائے کھڑی رہی۔ وہ بھی چوری چوری نظریں بچا کر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے دوائیاں بیگ میں ڈالیں اور حساب کر کے مجھے پیسوں کا بتایا، وہ سر جھکائے تھا اور مجھ سے نظر نہیں ملا رہا تھا۔ میں نے اسے پیسے ادا کیئے تو اس نے دوائیوں کا بیگ مجھے تھماتے ہوئے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر وہ بھی میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس کا ڈرا سہما اور شرمسار چہرہ مجھے کچھ کہنے یا کرنے سے روک رہا تھا یا پھر میرے اندر کی قوت تھی جو مجھے کوئی بھی قدم اٹھانے سے روک رہی تھی۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا میں خاموش رہی اور ادویات کا بیگ اُٹھا کر سٹور سے باہر نکل آئی۔ راستے میں میں نے اُس کی دی ہوئی پرچی کو کھول کے پڑھا جس پر بس اتنا لکھا تھا۔ " آپ کا مُجرم ہوں جو سزا تجویز کریں گی قبول ہے لیکن ایک دفعہ مجھ سے بات کر لیں، نیچے اُس کا فون نمبر تھا۔ میں کشمکش میں تھی کے کیا کروں اس کی اطلاع پولیس کو دوں یا خود اس سے پہلے بات کروں۔ میری اس کے لیئے جو خواہش تھی وہ بھی اسے دیکھتے ہی بیدار ہو گئی تھی۔ میں عجب الجھن میں تھی ایک طرف گھر سے لُوٹی دولت اور دوسری طرف میرا کھویا ہوا سکون۔ میں سوچ رہی تھی کہ کس چیز کو ترجیح دوں میرے لیئے زیادہ اہم کیا ہے دولت یا پھر میرے وجود کی تسکین؟ پھر اس خیال نے مجھے آخری فیصلہ کرنے میں مدد کی کے مال و دولت کیلئے تو سب نے قسمت کا لکھا سمجھ کر خود کو مطمئن کر لیا ہے پر میں اس دن کے بعد آج تک جنسی تسکین نہیں پا سکی اور میرا وجود آج تک مطمئن نہیں ہو پایا۔ یہی سوچ کر میں نے اسے فون کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی طرف کی کہانی بھی جان سکوں کے وہ کیا سوچ رہا ہے اور مجھ سے کس برتاؤ کی امید رکھتا ہے
Like Reply

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﺎﻡ ﻧﺒﭩﺎﺋﮯ ﻏﺴﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻓﺎﺭﻍ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺸﻤﮑﺶ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ۔ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐُﻦ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﺮﻭﺱ ﺗﮭﯽ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﯿﻞ ﺑﺠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﻓﻮﻥ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ " ﮨﯿﻠﻮ ... ﺟﯽ ﮐﻮﻥ؟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﻼ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﭨﮏ ﮔﺌﮯ، ﺍُﺱ ﺭﻭﺯ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮈﯾﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﺖ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﺰﺍ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺭ ﮨﯿﻠﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺗﺬﺑﺬﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﻋﺠﯿﺐ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻣُﺠﺮﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮐﯿﺌﮯ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻠﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﭩﮑﺎﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺑﮯﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ۔ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻟُﻄﻒ ﺗﺐ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﺭﻧﮕﯿﻨﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻟُﻄﻒ ﺍﻧﺪﻭﺯ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻢ ﻋﻘﻞ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﭘُﺮﻟُﻄﻒ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺳﯿﮑﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﺬﺕ ﻭ ﺳﺮﻭﺭ ﮨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﭘُﺮﻣﺴﺮﺕ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺩﻏﺮﺿﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﻢ ﻟﮯ ﭼُﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍُﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﮧ ﻧﮑﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﻟﺬﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻭﺭ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻓﻮﻥ ﺍُﭨﮭﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮨﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﭘﺮﮨﯿﻠﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﻮﻥ ﺭﯾﺴﯿﻮ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ " ﮐﻮﻥ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ " ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﯿﻠﻮ ﮨﺎﺋﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ " ﺟﯽ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ... ﺁﭖ ﮐﻮﻥ " ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺎ۔ " ﻣﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺟﺎﻥ ﭼُﮑﮯ ﮨﻮ ﮔﮯ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﮐﮯ ﺍُﺱ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﺗُﻢ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ " " ﺟﯽ .... ﻣﯿﮟ ... ﻭﮦ ،، ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﭨﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﻼ ﮐﯽ ﺍﯾﮑﭩﻨﮓ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ " ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﺎ ... ؟ " ﻣﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﯾﺎ ﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﯽ '' ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣُﺠﺮﻡ ﮨﻮﮞ، ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﺁﭖ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺣﻖ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﮟ ﮐﮯ ﺟﻮ ﮐُﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﯽ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﮓ ﻭ ﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ " ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﺩﯼ ﻣُﺠﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮈﺍﮐﮧ ﺯﻧﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﯿﺸﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﯾﮑﺴﯿﮉﻧﭧ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﻝ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﮨﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎ ﭼُﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﺗﮭﺎ ﺭﮔﮍ ﭼُﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﮨﻢ ﺩﻭ ﮨﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﭖ ﺩُﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﮍﭖ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﮍﭘﻨﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﺱ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﮯ ﺟﺮﻡ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻻ۔ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﻃﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮐﮩﮧ ﻟﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺟﺲ ﮔﮭﺮ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﮈﺍﮐﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ﺑﻨﺪﻭﻗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺻﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﺎﻡ ﺳﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﮭﻠﻮﻧﺎ ﺑﻨﺪﻭﻗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ..... ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﻮﻝ ﭘﮍﯼ " ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺟُﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﺗُﻢ ﺻﺮﻑ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺟُﺮﻡ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ۔ ﺩﻭﻟﺖ ﻟُﻮﭨﻨﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺟُﺮﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﺰﺕ ﺗﺎﺭ ﺗﺎﺭ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺟُﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ؟ " ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﺑﺮﺱ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ " ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺟُﺮﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮩﮧ ﭼُﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣُﺠﺮﻡ ﮨﻮﮞ۔ ﮨﻢ ﮈﺍﮐﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﻤﯿﭩﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺑﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺐ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﻣﭽﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﺳﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﮏ ﺟﺎﺗﺎ۔ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﺟﺒﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺣُﺴﻦ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﺶ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺴﺘﺮ ﺳﮯ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺿﺒﻂ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺁﭘﮑﯽ ﺧﻮﺍﺑﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭼُﭗ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﺮﻡ ﮔُﺪﺍﺯ ﭘﯿﭧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﺴﺘﺎﻥ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺿﺒﻂ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮧ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﺎ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﻗﻮﺕ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﮐﻮ ﭼﮭُﻮ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ۔ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮨﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺸﺶ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺎﺋﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮈﮐﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﺎﺱ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﭙﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺱ ﮈﮐﯿﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﺍُﺳﮯ ﮨﯽ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﯽ، ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻘﻞ ﮐﮩﺘﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳُﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻝ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﻦ ﻭ ﻋﻦ ﺳﭻ ﻣﺎﻥ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﺧﻮﺩﻏﺮﺽ ﺗﮭﺎ۔ ﺻُﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﭘﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﮐﯽ ﺑﯿﻞ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﻧﮏ ﮔﺌﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍُﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﻝ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﻥ ﺭﯾﺴﯿﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺑﻮﻝ ﭘﮍﺍ , " ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺟﯽ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣُﺠﺮﻡ " ﮐﻞ ﺑﺎﺕ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺯﺣﻤﺖ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ , ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺳﺰﺍ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ " ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﻟﺘﺠﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺟُﺮﻡ ﺳﺮﺯﺩ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺣُﺴﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮫ ﺟﯿﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﮩﮏ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻭﮦ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮔُﻨﺎﮦ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ۔ ﺍﺳﮯ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺍُﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﭘﮑﮍﻭﺍ ﻧﺎ ﺩﯾﺘﯽ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍُﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭼﻮﺭ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﻮﺱ ﺍُﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺣﯿﻠﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﮨﻮﺱ ﻧﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﭘﭩﯽ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺱ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻊ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ " ﺟﺎﺅ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗُﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﯿﺎ " ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﮔﻮﯾﺎ ﺍُﭼﮭﻞ ﭘﮍﺍ ، ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻨﮓ ﺟﯿﺖ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ۔ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﮩﮑﺘﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺗﻨﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺗﮏ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ، ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺨﺖ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮯ ﮔﺌﮯ ﭼﻨﺪ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍُﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮈﮐﯿﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﺍﺳﺘﻮﺍﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﻮﺱ ﮨﺮ ﺑُﺮﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﺮﺩﮮ ﮈﺍﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮯ ﺍُﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﺟﺴﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﻣﻼﺋﻢ ﮨﮯ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﻝ ﺳﺨﺖ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺍُﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ۔

Like Reply
وہ میری تعریفیں کر رہا تھا اور میں دل سے چاہ رہی تھی کے وہ ان تعریفوں کا سلسلہ طویل سے طویل تر کر دے۔ اور وہ ایسے ہی کر رہا تھا۔ میں اس کے کہے لفظوں کے سحر میں ڈوبتی ہی گئی۔ وہ بار بار میری رحمدلی کے ترانے گا رہا تھا ساتھ ہی ساتھ وہ میری خوبصورتی کا ذکر بھی کر رہا تھا۔ میری طرف سے کوئی خاص ردّعمل نہیں تھا میں خود سے اُسے کوئی ایسا اشارہ نہیں دینا چاہتی تھی جس سے وہ سمجھے کہ میں بھی اُس کے ساتھ دوبارہ سیکس کیلئے مری جا رہی ہوں۔ بلکہ میں سوچ رہی تھی کے اُس نے اگر دوبارہ سیکس کی آفر کی تو میں اُسے قبول کرنے سے پہلے ظاہر کروں گی کی میری ایسی کوئی خواہش نہیں۔ لیکن مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے اُس نے کب میری خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ہوئے مجھ سے پوچھ لیا کے اُس کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے مجھے مزہ آیا تھا تو میں نے بھی جواب میں غیر ارادی طور پر کہہ دیا کے بہت مزہ آیا تھا۔ میری خواہش میرے منہ سے نکل چُکی تھی۔ وہ میری کیفیت جان چُکا تھا۔ اسی لیئے اب وہ میرے ممّوں اور چوت کا نام لے لے کر ان کی تعریفیں کر رہا تھا وہ میرے بدن کی نرمی اور گانڈ کی گولائیوں کا ذکر کر رہا تھا۔ اور میرا بدن سنسنانے لگا۔ میرے دماغ میں ایک بار پھر وہ سارا واقعہ گھومنے لگا۔ اُس دن مجھے حاصل ہونے والی لذت میرے جسم میں بس گئی تھی۔ اور اُسی لذت کا احساس وہ مجھے اپنی باتوں سے دلا رہا تھا۔ میں اس کی باتوں کے جال میں اُلجھ گئی اور وہ اس کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا اور اب تک وہ اس میں کامیاب بھی تھا۔ وہ میری چوت میری گانڈ اور میرے ممّوں کا نام مزے لے کر لے رہا تھا۔ اور میرا جسم سُلگ رہا تھا۔ میں بھی اُسے روک نہیں رہی تھی یہی وجہ تھی کے اُس نے ہمت کر کے مجھ سے پوچھ لیا کے میں دوبارہ اُس سے ملنا چاہوں گی کے نہیں۔ یہ میرے لیئے خلافِ توقع نہیں تھا مجھے اندازہ تھا کے وہ ایسا سوال کرنے ہی والا ہے۔ میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، تو اُس نے دوبارہ اسے دُہرایا اور پوچھا کے میں کب اُس سے مل سکتی ہوں۔ میں اُسے کہنا چاہتی تھی کے یہ مُناسب نہیں پر الفاظ نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اور میرے منہ سے نکل گیا دیکھتے ہیں کب موقع ملتا ہے۔ میں خُود حیران تھی کے اُس کیلئے جس نے میرے گھر کی دولت اور عزت کو لُوٹا میرا رویہ انتہائی محبت بھرا اور رحمدلانہ کیوں تھا۔ حالانکہ اُس نے مجھ پر کوئی رحم نہیں کیا تھا جب میں اُس سے رحم کی التجائیں کر رہی تھی۔ اُس نے میرے گڑگڑانے میرے بندھے ہاتھوں اور میرے رونے کی بھی پرواہ نہیں کی تھی ۔ لیکن اُس کیلئے میری بھوک اور میری ہوس نے مجھے ایک بار پھر تھپکی دی کہ اچھا ہی کیا کہ اُس نے میری بات نہیں مانی ورنہ میں ساری زندگی اس حاصل ہونے والی لذت سے محروم رہتی۔ میں آج سوچتی ہوں کے ایسی کتنی خواتین یا مرد ہوں گے جو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک ہی لن سے یا چوت سے گُذارا کرتے ہیں۔ شائید بہت ہی کم ہوں گے یا شائید کوئی ہو ہی نہ، اگر کوئی ہونگے بھی تو میری طرح وہ بھی یہی سوچتے ہونگے کے جو سیکس وہ کر رہے ہیں اور جو لذت وہ پاتے ہیں وہی سیکس کی انتہا ہے لیکن چونکہ انہوں نے کسی دوسری جگہ سے لذت نہیں پائی تو اسی لیئے وہ اپنے ہی خیال میں پکّے ہونگے۔ ہمارے ہاں عام خیال یہ ہے کے سب ہی لوڑے یا چوتیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں تو ظاہر ہے مزہ اور لذت بھی ایک سی ہی ہو گی۔ لیکن میرے تجربہ میں آیا تھا کہ تقریباً ایک ہی سائز کے دو مختلف مردوں کے لوڑوں سے مجھے حاصل ہونے والی لذت مختلف تھی۔ کیونکہ دونوں کا انداز اپنا تھا۔ ایک طرف آرام اور سکون جبکہ دوسری طرف سنگدلانہ جنون تھا۔ اور دونوں کا مزہ اپنا تھا۔ انسانی فطرت ہے کے جو چیز دسترس میں ہوتی ہے اُس کی نسبت اُس چیز کیلئے انسان زیادہ پاگل ہوتا ہے جو دسترس سے ذرا باہر ہو۔ اور اُسے پا لینے کی خواہش انسان کو ہمیشہ بیقرار رکھتی ہے۔ سکون تب ہی آتا ہے جب انسان اُسے پا لیتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کے انسان کو اُس چیز کی قدر اور ویلیو کا پتہ ہو۔ میری بیقراری بھی فطری تھی اسی لیئے میرے الفاظ میری عام سوچ سے متصادم تھے۔ مجھے جو کرنا چاہیئے تھا میں اُس کے بالکل برعکس کہہ اور کر رہی تھی۔ میرے خیالات اور سوچ کا سلسلہ اُس وقت ٹوٹا جب اُسے کہتے سُنا کے کب تک ہم مل سکتے ہیں۔ وہ بار بار پوچھ رہا تھا۔ اور میں کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔ اس کا بڑھتا اصرار دیکھ کر میں نے کہا کہ میں ایک شادی شُدہ عورت ہوں اور میرا ایک بچہ بھی ہے میرے لیئے آسان نہیں کے میں ابھی تمہارے پاس آجاؤں۔ میں کہہ چُکی ہوں کے جب بھی موقع ملے گا مل لیں گے۔ وہ مجھ سے زیادہ بیقرار تھا۔ لیکن بات اس کی سمجھ میں آگئی تو اس نے ادھر اُدھر کی باتیں کرنی چاہیں تو میں نے معذرت کر لی کے ہماری بات پہلے ہی کافی لمبی ہو گئی ہے اس لیئے بعد میں بات کرنے کا کہہ کر فون کاٹ دیا۔ وہ سمجھا شائید میں نے ناراض ہو کر فون کاٹا ہے اسی لیئے اُس نے فوراً دوبارہ کال ملا دی۔ میں نے اُسے بتایا کے ناراض نہیں ہوں پر مجھے گھر کے کام بھی کرنے ہیں اس لیئے بات ختم کی ہے۔ اس نے کل دوبارہ بات کرنے کا وعدہ لیا اور فون کاٹ دیا۔

اس سے باتیں کرتے کرتے میرا جسم بہت گرم ہو چُکا تھا۔ حقیقت میں تو میں چاہ رہی تھی کے وہ اسی وقت آجائے۔ لیکن ایسا فی الوقت ممکن نہیں تھا۔ کچن میں کام کرتے ہوئے بھی میرا دھیان اس کی باتوں میں اٹکا رہا۔ میں یہی سوچتی رہی کے کیسے موقع ملے کے میں اُس کے ساتھ کچھ پل گُذار سکوں۔ میرے شوہر دفتر چلے جاتے تھے، دیور اور نند بھی سکول اور کالج چلے جاتے تھے جبکہ سُسر بھی گھر میں کم ٹکتے تھے۔ ایک ساس تھیں جو میرے ساتھ گھر میں ہی رہتیں تھیں لیکن ان کا بھی اڑوس پڑوس جا کر دوسری عورتوں کے ساتھ اکثر بیٹھنا ہوتا تھا۔ میں کام کے دوران منصوبے بناتی رہی کے وقت کیسے نکال سکتی ہوں۔ رات بیڈ پر سوئی تب بھی یہی سوچ رہی تھی کے میری شوہر نے شائید محسوس کر لیا تھا اسی لیئے بولے کن سوچوں میں گُم ہو، تو میں نے بھی بہانہ بنایا اور کہا کہ ہمارے گھر ڈکیتی ہوئے کتنا ٹائم ہو گیا ہے پر ابھی تک کوئی سُراغ نہیں ملا۔ پتہ نہیں ڈاکو کبھی پکڑے بھی جائیں گے کے نہیں۔ میرے شوہر مجھے سمجھانے لگے کے سب کچھ کسی نہ کسی بہتری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شُکر ہے کے سب کی زندگیاں محفوظ رہیں۔ دولت کا کیا ہے۔ وہ اور آجائے گی۔ لیکن اگر کسی کی زندگی چلی جاتی تو وہ نقصان یقیناً بڑا ہوتا۔ جو ہوا اس کے بارے میں زیادہ مت سوچو جو ہونے والا ہے اس پر دھیان رکھو، یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ دیا۔ وہ ہاتھوں کو میرے مموں پر پھیرنے لگے اور میرے جلتے بدن میں آگ کے الاؤ دہکنے لگے۔ میں چاہ رہی تھی کے وہ میرے مموں کو مَسلیں اور دانتوں سے کاٹیں وہ میرے پیٹ پر میرے گانڈ پر زور سے چُٹکیاں لیں لیکن وہ ہمیشہ کی طرح بس سہلا رہے تھے۔ میں چاہتی تھی وہ میری چوت کو چاٹ چاٹ کر مجھے ہلکان کر دیں اور اپنے لن کو میرے منہ میں ڈالیں لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح بس میرے ہونٹوں اور میرے گالوں کو چوم رہے تھے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ میری چوت پر رکھا تو میں اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے زور زور سے چوت پر رگڑنے لگی۔ میں نے اپنے دانتوں سے اُن کے ہونٹوں کو اس وقت کاٹ لیا جب وہ میرے ہونٹ چومنے کیلئے میرے منہ پر جھُکے تھے۔ میں اپنے روّیے سے اُن میں تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ میں نے اُنہیں اُکسانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کچھ فرق نہ پڑا ، ایک بار تو میں نے خواہش کا اظہار کر بھی دیا تھا کہ میں جارحانہ سیکس چاہتی ہوں لیکن وہ شائید سمجھے نہیں کے سیکس میں جارحیت کیا ہے۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ سیکس کر رہی تھی لیکن لذت کیلئے اس ڈاکو کو ہی سوچ رہی تھی۔ مجھے خیالوں میں ہی اُس کے دانت اپنے پیٹ پر گڑتے محسوس ہوتے۔ میں اس کا کاٹنا اور نوچنا محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے اس کے لن کا رس منہ میں گھُلتا محسوس ہو رہا تھا۔ میرا شوہر میری چوت مار رہا تھا لیکن میرے دماغ پر اُس ڈکیت کا قبضہ تھا۔ جو لذت مجھے اپنے شوہر سے ملتی تھی آج وہ بھی نہیں مل رہی تھی۔ 
اگلے دن بھی میں ابھی کام کاج سے فارغ ہوئی ہی تھی کے اُس کی کال آگئی۔ میں اپنے کمرے میں ہی تھی اسی لیئے پہلی ہی بیل پر فون ریسیو کر لیا۔ میرے بولنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا " بڑی بیچینی ہے۔ " کیا مطلب " میں نے بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔ "کچھ نہیں جی، میرا مطلب ہے آپ کو میری کال کا انتظار تھا شائید،" وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔ "ایسی بات نہیں، فون میرے ہاتھ میں تھا اسی لیئے میں نے جلدی ریسیو کر لیا۔" میں نے بھی جذبات سے عاری لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
" میرے روکھے پن کو اُس نے بھی شائید بھانپ لیا تھا، اسی لیئے وہ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا وہ باتوں کے درمیان چُٹکلوں کا سہارا بھی لے رہا تھا۔ جن پر پہلے تو میں صرف مُسکرا رہی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ میری ہنسی بلند ہونے لگی ۔ کچھ دیر بعد جب اُس نے میرے بدلے ہوئے انداز کو محسوس کیا تو وہ ایکدم سے سیدھی بات پر آگیا،" کب تک ملو گی؟ " اس اچانک سوال کی توقع نہیں تھی اسی لیئے میں نے الٹا سوال کر دیا، مطلب...؟ مطلب یہ کے ہم کب مل رہے ہیں ؟ اس نے بھی بلا توقف اپنے سوال کا انداز بدلا.. کل بتاؤں گی, میں شائید کسی سحر کے زیرِ اثر تھی، بنا سوچے اُسے کہہ دیا تھا۔اچھا ہے، تو فون تُم کرو گی یا میں..؟ وہ کسی آقا کی مانند بات کر رہا تھا اور میں زر خرید غلام.. "تُم فون نہیں کرنا میں خود مناسب وقت دیکھ کر رابطہ کر لوں گی" کہنے کو تو میں نے کہہ دیا تھا لیکن آنے والے وقت کیلئے میری کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ فون بند کر کے میں سوچنے لگی کے کیا کروں۔ اندر سے تو میں بھی اُس کی خواہش کر رہی تھی لیکن مجبوری یہ تھی کے وقت کیسے نکلے۔ رات کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تو میری ساس نے بتایا کے وہ دو دن بعد لاہور اپنی بہن کو ملنے جا رہی ہیں میری نند اور سُسر بھی ساتھ جائیں گے۔ اور ہفتہ بھر اُدھر ہی رہیں گے۔ میرے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ مجھے لگا کے وہ ڈکیت میرے جسم کو گُدگدا رہا ہے۔ میں اُس کے تصور میں کھو گئی وہ تصور ہی تصور میں میرے مموں کو مسل رہا تھا اور میری چوت کو سہلا رہا تھا۔ میں تصور میں اُس کے ہاتھ کا لمس اپنے بدن پر محسوس کر رہی تھی۔ وہ کسی جادوگر کی طرح میرے اعصاب پر سوار تھا۔ اصل میں اُس کیلئے یہ میری اپنی خواہش تھی جو میں اُس کے متعلق یوں سوچ رہی تھی۔ اور مجھے اپنی ان سوچوں پر کوئی پشیمانی نہیں ہو رہی تھی بلکہ میں دل ہی دل میں مسرور ہو رہی تھی۔
اگلی صُبح تمام کام سے فارغ ہو کر میں نے اُسے فون کرکے بتایا کے جلد اُس سے ملنے کیلئے رابطہ کروں گی۔ وہ بات کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے مصروفیت کا بہانہ کر کے جلدی فون کاٹ دیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کے اُسے ابھی سب کچھ بتا دوں۔ میں سوچ رہی تھی کے جب ساس سُسر اور نند لاہور کیلئے روانہ ہو جائیں گے تو تب اُس سے ملاقات کیلئے رابطہ کروں گی۔ میں نہیں چاہتی تھی کے ساس اپنے لاہور جانے کا پروگرام ملتوی کر دے اور ہمیں کوئی بدمزگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اگلے دن جب میرے شوہر کام کیلئے چلے گئے اور ساس سُسر نے بھی لاہور کی راہ لی تو میں نے بھی جلدی جلدی کام ختم کیا اور اور ڈکیت کو فون لگا دیا۔ میں اب زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جو خواہش دل میں کسک بن چُکی تھی اُس کے پورا ہونے کا وقت اب دور نہیں تھا۔ میں جانتی تھی کے شام پانچ بجے تک گھر میں میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے
Like Reply
فون کی تیسری گھنٹی پر اُس نے فون اٹھایا تو میرے دل کی دھڑکنوں میں جیسے بھونچال آگیا۔ میری سانسیں بہت بے ترتیب ہو چُکی تھیں۔ میرے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے۔ یہ شائید اس بات کا اشارہ تھے کہ میں جو کرنے جا رہی ہوں وہ سب بہت غلط ہے لیکن دل میں جو خواہش پیدا ہو چُکی تھی اس کے سامنے دماغ کی ہر دلیل بے سود اور بیکار تھی۔ اس کی ہیلو کی آواز میں سن ہی نہی پائی۔ دوسری بار اس نے ہیلو کہہ کے مخاطب کیا تو جیسے میرا خواب ٹوٹا میں نے اس کا جواب ہیلو سے دیا لیکن شائید میرا گلا خشک تھا اس لیئے میری آواز میرے گلے میں ہی کہیں دفن ہو گئی۔ " بات نہیں کرو گی ؟" وہ سوالیہ انداز میں بولا تو میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے تھوڑا سا کھنکارتے ہوئے گلا صاف کیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی اس کی آواز دوبارہ میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ " بات بھی کرو گی یا آج یونہی کھنکارتی رہو گی "۔ وہ بے صبری دکھا رہا تھا۔ کیونکہ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ میں نے اسے یونہی فون نہیں کیا۔ یقیناً اسے ملنے کا کوئی پروگرام ترتیب دینا ہو گا۔ اسی لیئے اسے کال کی ہے۔ " ہاں ....نہیں " الفاظ میرے منہ میں اٹک رہے تھے۔ اگرچہ میں اس سے کافی دفعہ پہلے بھی فون پر بات کر چُکی تھی لیکن آج میں پھر کافی تذبذب کا شکار تھی اور بہت نروس محسوس کر رہی تھی۔ اور یہ شائید اس لیئے تھا کہ آج میں اسے اپنی مرضی سے اپنے بستر پر بھلانے والی تھی یہی وجہ تھی کہ اندر کا خوف مجھے ڈرا رہا تھا۔ اور بات کرنے میں دقّت پیش آرہی تھی۔ " کیا ہاں نہیں.. کچھ سمجھاؤ گی بھی کے نہیں۔" وہ بولا تو میں اس کے جواب میں اتنا ہی کہہ پائی کہ " گھر میں آج کوئی نہیں ہے۔" کہنے کو تو میں نے کہہ دیا تھا لیکن میری حالت دیدنی ہو رہی تھی ۔ میری ٹانگیں لرز رہی تھیں اور کوئی انجانہ خوف مجھے ڈرا رہا تھا ۔ لیکن دل کی خواہش اور امنگ میرے تمام ڈر اور خوف کے سامنے دیوار بن کے کھڑی ہو جاتیں۔ وہ شائید میرے انہیں الفاظ کے انتظار میں تھا۔ اس کی خوشی کا میں اندازہ نہیں کرسکتی کیونکہ وہ مجھ سے اوجھل تھا لیکن اس کا اچھلنا اور چہک کر بولنا اس کی خوشی کا پتہ دے رہا تھا۔ " اچھا......تم واقعی گھر میں اکیلی ہو؟ تو کیا میں آجاؤں تمہارے گھر؟" میں زیادہ تو کچھ نہ بولی بس اتنا کہہ پائی کہ " میں تُمہارا انتظار کر رہی ہوں " شائید وہ جمپ لے کر کھڑا ہوا تھا ۔ " میں ابھی پہنچتا ہوں آدھے پونے گھنٹے میں

.." وہ شائید کچھ اور بھی بات کرتا لیکن اس کی اتنی بات سُن کر میں نے فون کاٹ دیا۔ میں ابھی تک خوف اور مسرت کے ملے جلے جذبات کا شکار تھی۔ دماغ کی سُنتی تو وہ بے وفا گُناہگار خودغرض کی صدائیں لگا رہا تھا اور دل تھا کہ مجھے لذت اور سرور کی وادیوں میں لے جانے کو بیتاب تھا۔ انہیں تانوں بانوں میں الجھی میں نے تولیہ اٹھایا اور فریش ہونے کے لیئے غسل خانے میں آگئی۔ میں کپڑے اُتار کے ننگی کھڑی تھی اور اس ڈکیت کے لمس کو اپنے بدن پر محسوس کرنے لگی۔ میں اپنے سراپے کا بغور جائزہ لے رہی تھی اگرچہ میری شادی کو کئی برس بیت گئے تھے اور میں ایک بچے کی ماں بھی تھی لیکن پھر بھی میرے حُسن اور خوبصورتی میں کمی نہیں آئی تھی۔ میں آج بھی ہزاروں کنواری دوشیزاؤں سے بہتر وجود کی مالک تھی۔ میں خود کو دیکھتی جا رہی تھی اور خود ہی اپنے حُسن کو سراہا رہی تھی۔ وقت گُذرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ اچانک گیٹ کی گھنٹی نے مجھے تصورات کے دنیا سے کھینچ کر باہر نکالا تو مجھے خیال آیا اور میں جلدی جلدی کپڑے پہن کر غسل خانے سے باہر نکلی تولیے کو میں نے جوڑے کی شکل میں بالوں سے لپیٹ لیا۔ بالوں سے ٹپکنے والے پانی نے میری قمیض کو بھگو دیا تھا۔ جس سے میری گوری رنگت کی جھلک قمیض سے باہر بھی دادِ نظارہ دے رہی تھی۔
میں نے گیٹ کے قریب پہنچ کر اندر سے ہی آہستہ سے پوچھا کون ہے؟
 
" حضور اور کون ہوگا ۔ آپ کا خادم ہوں جسے آپ نے ابھی فون کر کے بھلایا ہے۔" وہ حقیقت میں چہک رہا تھا۔ میں نے لرزتے ہاتھ سے دروازہ کھولا تو وہ ایکدم سے اندر گھس آیا۔ میں نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے آگے آگے چلتے اسے گھر کے اندر لے آئی۔ میں تھوڑی جھجھک رہی تھی۔ اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھا نہیں میرے قریب ہو کر بولا محترمہ گھبرائیں نہیں  آج تو ہم آپ کی دعوت پر آئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میرے گرد ایک چکر لگایا اور چکر مکمل کر چُکنے کے بعد میرے بالوں سے تولیہ کھولتے ہوئے بولا " قسم سے آج تو آپ اور بھی قیامت ڈھا رہی ہیں۔" میرے اندر تو پہلے سے ہی خوف موجود تھا اس کے یوں آتے ہی بے تکلفانہ ہونے کے انداز نے مجھے اور مرعوب کر دیا۔ میں جھجھک تو رہی تھی اب تھوڑی سہمی ہوئی بھی لگ رہی تھی۔ میری ٹانگیں ہلکی سی کپکپاہٹ لیئے ہوئے تھیں ۔ جبکہ میری سانسوں کی رفتار تیز ہو رہی تھی ۔ جس سے میری چھاتیاں عجیب انداز میں اوپر نیچے ہو رہی تھیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ وہ آئے گا تو پہلے بیٹھیں گے چائے وغیرہ کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اور پھر اگلے مرحلے تک پہنچیں گے لیکن وہ شائید تحمل کا قائل ہی نہیں تھا۔ جارحیت اس کی فطرت میں تھی۔ اور اس کا یہی جارحانہ پن ہی تو تھا جس نے مجھے اس کی لونڈی بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ تولیہ ایک طرف صوفے پر اچھال کر اس نے دوبارہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہا " کیا بات ہے حضور آپ ڈر رہی ہو ؟" نن نہیں تو " میرے گھٹے ہوئے الفاظ میرے خوف کا پتہ دے رہے تھے۔ "اچھی بات ہے ڈر کس بات کا ہم کون سا ایک دوسرے کو جانتے نہیں" یہ کہتے ہوئے اُس نے میری کلائی پکڑ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے مجھے بھی اپنی گود میں کھینچ لیا۔ کتنا عجیب تھا وہ میرے گھر میں مجھے یوں پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا رہا تھا جیسے یہ گھر اسکا ہے اور میں اس کی داسی ہوں ۔ ایک لحاظ سے تو ایسا ہی تھا کیونکہ میں نے اسے سب کچھ سونپ جو دیا تھا۔ "میرا خیال تھا کہ اگر پہلے چائے وغیرہ پی لیتے تو....." آخر میں نے ہمت کرکے بات کرنے کا حوصلہ جمع کر ہی لیا تھا۔ "چھوڑیئے جناب چائے کیا پینی ہے، ہم تو ان ہونٹوں سے شہد پیئیں گے شہد " یہ کہتے ہوئے اُس نے میری چوٹی کے بالوں کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا جس سے میری گردن مُڑ کر میرا منہ اس کے منہ کے بالکل قریب ہو گیا۔ پھر اس نے اپنی گردن تھوڑی سی نیچے جھکائی تو اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملتے چلے گئے۔ وہ میرے ہونٹوں کو چوم رہا تھا اور میرے جسم میں جیسے لہریں رینگنے لگیں۔ واہ کتنے میٹھے ہیں ۔ وہ اب مزے لے لے کر چوسنے لگا تھا۔ میں بُت بنی تھی مجھے اس کی دیدہ دلیری پر حیرت ہو رہی تھی۔ کہ اس نے کوئی رسمی سی بھی گفتگو نہیں کی تھی۔ اور آتے ہی یوں سٹارٹ لیا تھا۔ میں اس انداز کی توقع بھی نہیں کر رہی تھی۔ میں کیا میری جگہ کوئی بھی ہوتا ایسا انداز اسے بھی یقیناً حیرت میں ڈال دیتا۔ محترمہ اگر لُطف و سرور کی وادی میں اترنا ہے تو میرا ساتھ دیجیئے۔ ایسے اکیلے سب کچھ کرتے کیا خاک مزہ آئے گا۔ اُس نے میری جھجھک اور ڈر کو شائید محسوس کیا تھا۔ جو کہ یقیناً اب تک مجھے روکے ہوئے تھا۔ اس کا بائیاں بازو میری گردن کے نیچے جبکہ دائیاں ہاتھ میرے پیٹ پر قمیض کے اوپر سے ہی میری ناف کو ٹٹول رہا تھا۔ اس کا ہاتھ میرے جسم کے جس جس حصے کو چھُو رہا تھا اُس اس حصے میں بجلی کے کرنٹ سے محسوس ہو رہے تھے۔ اس نے گردن کو پھر جھکایا اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا لیکن اس بار اس کا دائیاں ہاتھ میری چھاتی تک آیا اور میرے مموں پر دباؤ ڈالنے لگا۔ میرے مموں کو ہاتھ لگتے ہی مجھے جیسے جھٹکا لگا ہو۔ اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال کر گھمانا شروع کی تو بے اختیار میری زبان نے اس کی زبان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح کا رسپانس دیکھ کر اس نے اپنا ہاتھ میری قمیض کے اندر ڈال کر میرے مموں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ ننگے مموں پر اس کے ہاتھ کے لمس نے وہ لذت اور تحریک دی کہ میں نے اپنے دونوں بازو اس کی گردن کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے اپنی چھاتی کے ساتھ شدت سے بھینچ لیا۔ وہ شائید میرے کسی ایسے ہی ردعمل کی توقع کر رہا تھا۔ اسی لیئے اس نے مجھے اُٹھا کر اس طرح گود میں بٹھایا کہ ہم دونوں کے منہ ایک دوسرے کی جانب تھا جبکہ میں اس کی گود میں ایسے بیٹھی تھی کہ میری دونوں ٹانگوں نے اس کی کمر کے گرد گھیرا بنا لیا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے بدستور اپنی زبانیں لڑا رہے تھے۔ اور اپنی بانہیں ایک دوسرے کے گرد کس کے ڈالے ہوئے تھے۔مجھے پتہ ہی نہ چلا کب اور کیسے میرا خوف اور جھجھک محو ہوگئے۔میں اس کے ہونٹ اور زبان کی شیرینی چُوس رہی تھی اور اس کا سینہ بار بار اپنی چھاتی سے بھینچ رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ میں اپنی گانڈ بھی اُس کی رانوں پر رگڑ رہی تھی۔ وہ بھی میری کمر کو دباتا کبھی میرے مموں پے ہاتھ رکھتا اور کبھی میری گانڈ کو دونوں ہاتھوں میں بھر لیتا۔ عجیب ہیجانی سی کیفیت تھی۔ اسی ہیجان میں ہم دونوں ایک دوسرے کی گردن پر اور کندھوں پر کاٹ بھی رہے تھے۔ وہ عجب جادوگر تھا۔ جب بھی اور جہاں بھی مجھے اپنے دانتوں سے کاٹتا ایک عجیب سے سحر میں لے لیتا۔ کافی دیر ایسے ہی چونچ لڑانے کے بعد اس نے مجھے کھڑا کر کے میرے کپڑے اُتارنے چاہے تو میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیئے۔ اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیوں ؟ اب روک کیوں رہی ہو؟ " میں روک نہیں رہی ہوں۔ اس سے پہلے کے میری بات مکمل ہوتی وہ بیچ میں ہی سوالیہ انداز میں بولا، تو......؟ میرے خیال میں یہاں مناسب نہیں، بیڈ روم میں چلتے ہیں" میری بات سمجھتے ہوئے بولا، " بیڈ روم میں تو روز ہی کرتی ہو آج یہاں ڈرائنگ روم میں مزہ لے لو۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میری قمیض کو کھینچ لیا۔ میں نے بھی کوئی مزاحمت نہ کرتے ہوئے قمیض اُتارنے میں اس کی مدد کی۔ وہ میرے فلیٹ پیٹ کے تھوڑی اوپر میری چھاتی کے گول گول ابھاروں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے منہ سے نکلتی رال مجھے صاف نظر آ رہی تھی ۔ اس نے جلدی جلدی میری برا کی ہُک اتاری اور پھر اتنی ہی تیزی سے اپنی قمیض اُتار کر میرے مموں پر کسی بھوکے بھیڑیئے کی طرح جھپٹ پڑا، وہ میرے پستانوں اور پیٹ پر کاٹ دانتوں سے کاٹ رہا تھا اور میں درد اور لذت کے احساس سے سسک پڑی۔ اس کا کاٹنا دھیرے دھیرے شدید ہو رہا تھا اور میری سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ درد کی شدت لذت پر ہاوی ہوئی تو میں نے اسے روک دیا اور اسے بتایا کہ مجھے درد ہو رہی ہے۔ وہ بھی میری بات کو سمجھ گیا اور اس نے دانتوں سے کاٹنا آہستہ کر دیا۔ پھر مجھے کھڑا کر کے شلوار اُتارنے کو کہا تو میں نے بلا تامل شلوار اُتار کر سائیڈ میں اچھال دی۔ وہ بھی شلوار اُتار چُکا تھا اب ہم ایک دوسرے کے سامنے بالکل ننگ دھڑنگ کپڑوں کی فکر سے آزاد کھڑے تھے۔ اس کا جارحانہ پن مجھ پر حاوی تھا اور یہی جارحیت ہی تھی جس نے مجھے اس سے دوبارہ سیکس پر آمادہ کیا تھا۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی سیکس میں جارحیت میرے اعصاب پر سوار تھی۔ آج میرے سامنے بلکل ننگ دھڑنگ کھڑا تھا اور میں ایک بار پھر اس جارحانہ سیکس کا مزہ لینے کیلئے اس کے سامنے کپڑوں سے آزاد پوری طرح تیار تھی۔ وہ تھوڑا سا میری جانب سرکا تو اس کے تنے ہوئے لن کا سر میری ران سے ٹکرا گیا۔ جس سے میرے پورے وجود میں ایک لہر سی سرایت کر گئی۔ اُس نے مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑتے ہوئے ایسے اپنے سینے سے لگایا جیسے ماں اپنے نومولود کو سینے سے لگاتی ہے۔ میرے ممے اُس کے سینے میں پیوست ہو رہے تھے۔ جبکہ اُس کا لن میری رانوں کے درمیان رگڑ کھا رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے ایسے چپک گئے تھے جیسے ہم اپنے جسموں کے درمیان میں سے ہوا کو بھی گُذرنے سے روک لینا چاہتے ہوں۔ ہم دونوں ہی ایکدوسرے کی پُشت پر ہاتھ پھیر رہے تھے جبکہ ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں پیوست تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں کو میری پُشت پر پھیرتے ہوئے نیچے لے جاتا اور میری گانڈ کو زور سے دباتا اور پھر گانڈ پر ایسے تھپڑ لگاتا کہ میرا دل چاہتا وہ ایسے ہی مجھے اُلٹا لٹا کر گانڈ پر تھپڑ لگاتا رہے۔ میرے جسم میں اُٹھنے والی لہریں تیزی پکڑ چُکی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ میں بھی اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اُس کے جسم کے مقابل اپنے جسم کو اس سے رگڑ رہی تھی۔ اس کے ہلنے سے جب اس کا لن میری دائیں بائیں ران سے ٹکراتا تو میں بھی جسم کو اپنے پنجوں پر اُٹھا کر چوت کو اس کے لن سے رگڑنے کی کوشش کرتی، کچھ ہی دیر بعد اُس نے میرے جسم کو ہر طرف سے چومنا اور چاٹنا شروع کر دیا۔ میں مکمل اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ وہ جب بھی میرے جسم کے کسی حصے کو چومتے ہوئے آہستہ سے اپنے دانتوں سے کاٹتا تو درد کی میٹھی ٹیسیں میرے ہیجان کو بڑھا دیتیں۔ میں دیوانگی کی سی کیفیت میں تھی اور اپنے چہرے کو اُس کے کشادہ سینے پر رگڑ رہی تھی۔ اس نے مموں کو چوستے ہوئے نپلز کو دانتوں میں دبایا تو میں سسک کر رہ گئی۔ اور اس کا بار بار ایسا کرنا میری سسکیوں کو بڑھا رہا تھا۔ وہ مجھ پر حاوی تھا اور میرا وجود مکمل طور پر اس کے کنٹرول میں تھا۔ میں نے خود کو اس کے سپرد کر دیا۔ وہ جیسے بھی میرے جسم سے کھیلنا چاہتا تھا اسے میری طرف سے بھرپور تعاون مل رہا تھا۔ اب اس کا ایک ہاتھ میری چوت کو ٹٹول رہا تھا اور دوسرے سے وہ میرے ممے کی نپل کو مسل رہا تھا جبکہ میرے دوسرے ممے کو اس نے منہ میں لے رکھا تھا۔ درد اور لذت میری سانسوں کو بےترتیب کر رہے تھے۔ وہ اپنی انگلیوں سے چوت کی پرتوں کو چھیڑ رہا تھا۔ اور ہر بار جب وہ چُٹکی لیتا تو درد کی لہر پورے وجود کو ہلا دیتی، لیکن اس درد میں جو مزہ ہوتا وہ ایسے کئی گُناہ درد کو برداشت کرنے کیلئے کافی ہوتا۔ میں گانڈ اُٹھا اُٹھا کر چوت کو اس کے ہاتھ سے دیوانوں کی طرح رگڑنے کی کوشش کرتی۔ ابھی تک وہ میری چوت کے اوپر ہی ہاتھ سے مساج کر رہا تھا۔ وہ ہاتھ کو چوت کے نیچے سے اوپر لاتا تو اس کی درمیانی اُنگلی میری چوت کے دونوں لبوں کے درمیان سفر کرتی۔ اچانک ایسا کرتے ہوئے اُس نے اپنی اُنگلی کو چوت کے سوراخ کے اندر داخل کر دیا۔ میں ایک جھرجھری لے کر رہ گئی۔ اور پھر وہ تیزی سے اُنگلی کو اندر باہر کرنے لگا۔ جوش سے میرا سارا وجود کانپ رہا تھا۔ میری بیتابی بہت بڑھ چُکی تھی۔ لیکن شائید وہ میرے وجود سے مزید کھیلنا چاہتا تھا۔ اس نے رُک کر مجھے ایک معمولی دھکے سے صوفے پر گرا دیا۔ اور خود میرے بالکل مقابل تن کر کھڑا ہو گیا۔ میری حالت کسی زخمی فاختہ کی سی تھی۔ سانسیں اکھڑی ہوئی میں اسے ہی دیکھ رہی تھی کہ اس نے اپنا ایک پاؤں صوفے پر رکھا اور اپنے لن کو میرے منہ کے قریب لاتے ہوئے مجھے بالوں سے پکڑ کر اس نے میرے سر کو لن کی طرف جھٹکا دیا تو میرے ہونٹ اس کے لن پر جا ٹکے۔ میں اس کے لن کا مزہ پہلے بھی چکھ چُکی تھی۔ اور آج دوبارہ اسی ذائقے کو پانے والی تھی۔ میں نے اس کے ارادوں کو جانتے ہوئے منہ کھول دیا اور اس نے بھی بلاتوقف لن منہ کے اندر ڈال دیا۔ لن منہ میں آتے ہی میں نے اسے بھرپور طریقے سے چُوسنا شروع کر دیا۔ وہ میری اس بےصبری پر مُسکرا دیا اور میں لن چوستے ہوئے نظریں اُٹھائے اس کی مسکراہٹ بخوبی دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک فاتح کی طرح کھڑا تھا اور میں اس کی مفتوح داسی بنی ہوئی تھی۔ لن کے سر پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے میں نے ہونٹوں کو گولائی میں سکیڑا اور اُس کے لن کو اپنے ہونٹوں کے حصار میں لے لیا۔ اُس کا لن میرے ہونٹوں کی گرفت میں تھا جبکہ میری زبان اُس کے لن کے سر پر تیزی سے گھوم رہی تھی۔ میں نے زبان کی نوک سے اس کے لن کے سوراخ کو چھیڑا تو وہ مزے سے کراہے بنا نہ رہ سکا۔ اُس کے مُنہ سے گرم سانسوں کے ساتھ نکلنے والی ایک لمبی آآآآآہہہہہہہ مجھے مسحور کر گئی۔ میں دیوانگی کے عالم میں تھی اور پورے جوش سے اس کے لن کو چوسے جا رہی تھی۔ پہلے تو وہ کھڑا تھا لیکن پھر جیسے اُس نے میرے مُنہ میں چودنا شروع کر دیا وہ اب میرے مُنہ میں اپنے لن کو اندر باہر دھکیل رہا تھا۔ میں نے بھی اپنے ہونٹوں کی گرفت کو اس کے لن پر کمزور نہیں پڑنے دیا۔ وہ لن کو مُنہ کے اندر دھکیلتا تو اس کے لن کا سر مجھے اپنے حلق سے نیچے اترتے ہوئے محسوس ہوتا۔ جس سے میری سانس رک جاتی۔ غررر غرررر کی آوازیں میرے حلق سے خارج ہوتیں۔ میرے گال ٹھوڑی اور گردن میرے مُنہ سے نکلنے والے تھوک سے لتھڑے ہوئے تھے۔ اُس کا لن مجھے اتنا مزا دے رہا تھا کہ مجھے ذرہ بھر بھی کراہت نہیں ہو رہی تھی۔ بلکہ مجھے افسوس ہوتا کہ لن کے چوسنے کے اس مزے سے میں نا آشنا رہتی اگر اس ڈکیت سے واسطہ نہ پڑتا تو، اس کا لن میرے مُنہ میں تیزی سے اندر باہر ہو رہا تھا اور میں پوری طرح اس سے لُطف اندوز ہو رہی تھی۔ وہ کسی مشین کی طرح تیزی سے اپنے لن کو میرے مُنہ کے اندر باہر کر رہا تھا۔ اگرچہ میں چُوت میں چدوانے کیلئے بیقرار ہوئی جا رہی تھی لیکن یہ لن چوسنے کا مزا بھی کچھ کم نہیں تھا۔ میرے ہونٹوں اور زبان پر اس کے لن کا رگڑ کھاتے ہوئے میرے حلق تک جانا اور پھر ویسے ہی واپس آنا میرے ہیجان اور دیوانگی کو آسمان کی بلندیوں تک لے آیا تھا۔ میں ان احساسات کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی، شائید ان احساسات کو بیان کرنے کیلئے ایسے لفظ ہماری لغت میں موجود ہی نہیں۔ میں مزے اور سرور سے سرشار ہوئی جا رہی تھی
 
Like Reply


میرا نام نبیلہ ہے۔ 27 سال کی ہوں، قد کاٹھ اور شکل صورت سے اچھی بھلی ہوں۔ لکھنا میرا شوق نہیں ہے پر دوسروں کی کہانیاں پڑھ پڑھ کے خیال آیا کے کیوں نا اپنی کہانی بھی آپ لوگوں سے شیئر کروں۔ ہمارے معاشرے میں ایسا کرنا کوئی اچھی نظر سے تو نہیں دیکھا جاتا لیکن پھر بھی میرے خیال میں اگر میں اپنا تجربہ اور مشاہدہ آپ لوگوں سے شیئر کر لوں گی تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ ویسے بھی ہر انسان ایسی ہی کسی نا کسی کہانی کا کردار ضرور ہوتا ہے۔ لیکن سب ہی معاشرے کی پابندیوں اور قیود کی وجہ سے اپنے کردار کو بیان نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کے میں بھی اپنی کہانی کے کرداروں اور مقامات کو چھپاتے ہوئے اپنی کہانی بیان کروں گی جو کے سو فیصد سچی اور حقیقی کہانی ہے۔ لمبی تمہید سے بہتر ہے کے کہانی بیان کروں۔ تو ہوا کُچھ یوں تھا کہ میں اُس وقت تقریباً سولہ سال کی تھی جب ہمارے میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے۔ میں کوئی بہت کمزور سٹوڈینٹ تو نہ تھی پر کوئی بہت ذہین اسٹوڈینٹ بھی نہ تھی۔ جس وجہ سے امتحانات کی تیاری کیلئے مجھے کسی نہ کسی سے راہنمائی کی ضرورت تھی۔ میری خالہ کا بیٹا شہزاد بی اے کر چُکا تھا اور وہ ہمارے گھر سے زیادہ دور بھی نہیں رہتا تھا۔ میں نے امی جان سے کہا کے وہ شہزاد بھائی سے بات کریں کے وہ  فارغ وقت میں مجھے پڑھا دیا کریں۔ اس طرح مجھے ٹیوشن کیلئے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ آنے جانے کی پریشانی بھی نہیں ہو گی اور وقت بھی ضائع نہیں ہو گا۔ امی اسی دن شہزاد بھائی سے بات کر آئیں اور انہوں نے مجھے بتایا کے انہوں نے شہزاد سے بات کر لی ہے اور وہ ہر شام سات بجے سے نو بجے تک آیا کرے گا مجھے پڑھانے۔ اُس دن میں نے جلدی جلدی تمام کام نبٹائے اور اپنی کتابیں لے کر ڈرائنگ روم میں پڑھنے بیٹھ گئ۔ تقریباً ساڑھے سات بجے ہوں گے جب شہزاد بھائی ہمارے گھر آئے۔شہزاد بھائی کی عمر اُس وقت پچیس سال کے قریب تھی۔ اور کافی وجیہہ اور ہینڈسم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا قد چھ فٹ کے قریب جبکہ جسم مضبوط اور توانا۔ کلین شیو کے ساتھ سانولا رنگ قیامت خیز تھا۔ رسمی سلام دُعا کے بعد مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے " اچھا تو میری شاگرد پڑھائی کیلئے تیار ہے؟" میں نے بھی سر ہلاتے ہوئے کہا " جی بھائی جان "۔   " ویری گُڈ، یہ بتاؤ کس سبجیکٹ میں خود کو زیادہ کمزور سمجھتی ہو؟ " شہزاد بھائی نے میری کتاب اُٹھا کر اُس کے ورق اُلٹتے ہوئے کتاب پر ہی نظریں جمائے مجھ سے دوسرا سوال پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا کے میتھ اور انگلش میں کمزور ہوں۔ میں تھوڑا سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی اور بات کرتے ہوئے بھی تھوڑی جھجھک رہی تھی۔ شہزاد بھائی نے کتاب میز پر رکھتے ہوئے میری جانب دیکھا اور بولے " اگر اسی طرح تم گھبرائی اور جھجھکتی رہو گی تو میرا نہیں خیال کے میں تم کو جو کچھ پڑھاؤں گا وہ تم کو ذہن نشین بھی کرا سکوں گا۔ لہذا ڈرنے جھجھکنے کی ضرورت نہیں، ہم بڑے دوستانہ ماحول میں سٹڈی کریں گے اور جو کچھ بھی پڑھیں گے اسے یاد بھی رکھیں گے۔ جی بہتر، میں خود کو تھوڑا رلیکس ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔ اُس دن پڑھائی تو کوئی خاص نہ ہوئی البتہ شہزاد بھائی نے اپنوں باتوں اور چُٹکلوں کی مدد سے میری جھجھک دور کر دی۔
میں اب کافی رلیکس بھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں شہزاد بھائی کے چُٹکلوں کا جواب بھی چُٹکلوں کی صورت ہی دے رہی تھی۔ میرا چنچل پن بیدار ہو چُکا تھا۔ شہزاد بھائی نے تھوڑی سی میتھ کی مشق کرائی اور انگلش کل سے شروع کرنے کا کہہ کر گھر کیلئے اُٹھے۔ امی نے انہیں روک لیا کے چائے تو پیتے جائیں۔ شہزاد بھائی بھی چائے کیلئے بیٹھ گئے۔ چائے اور تھوڑی گپ شپ کے بعد شہزاد بھائی کل شام سات بجے آنے کا کہہ کر گھر چلے گئے۔ تقریباً دو ہفتوں تک معاملات ایسے ہی چلتے رہے۔ وہ وقت کے خاصے پابند تھے۔ وقت پر آتے اور اپنا کام وقت پر ختم کر کے چلے جاتے۔ ان کی شخصیت جاذب نظر تو تھی ہی ان کے پڑھانے اور سمجھانے کا انداز بھی خوب تھا۔ یہی وجہ تھی کے میں شہزاد بھائی کی گرویدہ ہو چکی تھی اور اُن سے کافی بے تکلفی بھی ہو چُکی تھی۔ اُس دن شہزاد بھائی مجھے میتھ کی مشق کرا رہے تھے جب امی چائے لے آئیں۔  انہوں نے چائے میز پر رکھی اور بولیں کے چائے ٹھنڈی ہونے سے پہلے پی لینا۔ یہ کہہ کر وہ واپس کچن میں چلی گئیں۔ مشق ختم ہوئی تو میں نے چائے کی پیالی اُٹھا کر شہزاد بھائی کو دینا چاہی تو پتہ نہیں کیا ہوا کہ میرا ہاتھ کانپ گیا اور ساری کی ساری چائے بھائی شہزاد کے اوپر گر گئی۔ جس سے اُن کی پتلون اور شرٹ بھیگ گئی۔ میرے تو اوسان خطا ہو گئے۔ دوڑتی ہوئی گئی اور تولیہ اُٹھا لائی۔ میں بار بار شہزاد بھائی کو سوری بول رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ ان کی پتلون اور شرٹ کو تولیے سے خُشک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "آپ جلے تو نہیں بھائی جان" میں نے مسلسل تولیہ رگڑتے ہوئے پوچھا۔ "چائے سے تو نہیں جلا لیکن اب تم ضرور جلا ڈالو گی" میں ان کے اس جُملے کو بالکل بھی نہ سمجھی اور اسی طرح تولیہ سے اُن کی پتلون کو خشک کرنے میں لگی رہی۔ میں اُن کی پتلون کے اندر ہونے والی تبدیلی بھی نہ دیکھ پائی۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کے شہزاد بھائی کی پتلون تن سی گئی ہے۔ میں شائید کچھ دیر اور اسی طرح تولیے سے اُنہیں خشک کرنے میں لگی رہتی پر شہزاد بھائی نے مجھے روک دیا اور مجھے دونوں کندھوں سے اُٹھا کر کھڑا کرتے ہوئے بولے ' بس کرو ببلی (گھر میں مجھے سب اسی نام سے پُکارتے تھے) ایوری تھنگ از فائن تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ لیکن میں خود میں بہت شرمندہ تھی۔ اسی لیئے جب میں نے انہیں اس شفقت سے پیش آتے دیکھا تو میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ انہوں نے جب مجھے یوں روتے دیکھا تو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے مجھے سینے سے لگا لیا۔ اور ماتھے پر کس کرتے ہوئے بولے " ارے پگلی روتی کیوں ہو تم نے جان بوجھ کر چائے تھوڑی گرائی ہے۔ یہ تو حادثاتی ایسے ہوا۔ ان کے ڈھارس بندھانے پر مجھے حوصلہ ہوا اور میں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا " جانتی ہوں کے حادثہ ہوا ہے لیکن حادثات بھی تو کسی نا کسی غلطی کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں اور اس حادثے کی غلطی کی میں ہی ذمہ دار ہوں۔" شہزاد بھائی بھی شائید ماحول کو خوشگوار بنانا چاہتے تھے اس لیئے بولے " ببلی میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کے تم ایسے حادثات روز کیا کرو۔" وہ ہنس رہے تھے اور ان کی یہ معنوی ہنسی میری سمجھ سے باہر تھی۔ میں بھی انہیں ہنستے دیکھ کر مسکرا دی۔ میں ابھی تک شہزاد بھائی کی بانہوں کے گھیرے میں تھی۔ انہوں نے میرے کولہے پر ہلکی سی چپت لگائی اور گال پر کس کرتے ہوئے بولے " چلو واپس وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پر حادثہ ہوا تھا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی بانہوں کے گھیرے سے آزاد کر دیا۔ میں نے واپس اپنی کرسی پر بیٹھ کر کتاب کھولنا چاہی تو شہزاد بھائی نے کہا آج کا کام ختم کل دیکھیں گے۔ میں چلتا ہوں کیونکہ اس حالت میں میں تمہیں کُچھ نہیں پڑھا پاؤں گا۔ شہزاد بھائی اپنی کس حالت کے بارے میں کہہ رہے تھے مجھے کچھ پتہ نہ چلا ۔ میں تو یہی سمجھی کے وہ اپنے کپڑوں کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ شہزاد بھائی کے اندر کیا تغیّر رونما ہو چُکا تھا میں بالکل انجان تھی۔
اس دن جب میں بیڈ پر تھی تو یہ واقعہ بار بار میرے دماغ میں گھوم رہا تھا۔ شہزاد بھائی کا مجھے چھونا، ماتھے اور گال پر کِس کرنا مجھے اپنی بانہوں میں بھرنا اور میرے کولہے پر چپت لگانا۔ یہ سب اس وقت تو میرے لیئے بے معنی تھے لیکن اب ان واقعات کو سوچنا اچھا لگ رہا تھا۔ ان سب احساسات کو میں اب دوبارہ سے محسوس کر رہی تھی۔ میں جتنا سوچتی رہی میرا لذّت کا احساس بڑھتا رہا۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کے کب نیند نے آ لیا۔ اور میں نیند کی گہری وادی میں غوطے کھانے لگی۔
  اُس رات میں نے بار ہا خواب میں شہزاد بھائی کو دیکھا۔ کبھی ہم کسی ندی کے کنارے بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے کبھی کسی پارک کے کونے میں کسی بینچ پر بیٹھے کچھ راز و نیاز کی باتیں کر رہے ہوتے۔ کبھی پہاڑوں جنگلوں اور صحراؤں میں تو کبھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی لہروں سے کھیل رہے ہوتے۔ غرض اُس رات میں نے اور شہزاد بھائی نے مل کر دنیا جہان کی سیر کی اور ہر بار شہزاد بھائی اسی طرح میرے کولہے پر چپت لگاتے اور میرے گال پر کِس کرتے۔ مجھے ہر منظر میں اُن کا مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں لینا نظر آتا۔ میں اُس دن بہت گہری نیند سوئی صُبح اٹھی تو میرے خواب کا ہر ہر منظر میرے ذہن میں نقش تھا۔ میں بستر سے اٹھنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ میں ان خوابوں کی دُنیا سے نکلنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ مجھے علم نہیں کے ایسا کیوں تھا پر جو بھی تھا بہت پُرلُطف تھا۔
       دوسری شام جب شہزاد بھائی ہمارے گھر پہنچے تو میں اُسی وقت نہا کر نکلی تھی۔ میرے بال گیلے تھے اور ان سے ابھی تک پانی ٹپک رہا تھا۔ جس سے میری قمیض بھی گیلی ہو گئی تھی۔ یقیناً میری برا کی جھلک قمیض سے عیاں ہو رہی ہو گی۔ میرے بُوبز اگرچہ بہت بڑے نہ تھے مگر چھوٹے بھی نہ تھے۔ ان کا عکس بھی قمیض سے ظاہر تھا۔ یہی وجہ تھی کے شہزاد بھائی کی بار بار اُٹھتی ہوئی نظر کو میں بخوبی نوٹس کر سکتی تھی۔ میں تو شہزاد بھائی کو خوابوں میں بسا چُکی تھی لیکن یہاں لگتا تھا کے شہزاد بھائی کے من میں بھی کوئی اُتھل پتھل چل رہی ہے۔دوران سٹڈی مجھے ایک بار لگا کہ شہزاد بھائی کا ہاتھ میرے گُٹنے سے اوپر میری ران پر ہے۔ اور ان کی انگلیاں شائید لرز رہی تھیں یا پھر سلپ ہو رہی تھیں۔ پھر ایک بار جب وہ میرے پیچھے کھڑے تھے تب بھی مجھے اپنے کندھے پر کسی سخت چیز کی چُبن کا احساس ہوا تھا۔ یہ میرا واہمہ تھا یا پھر حقیقت میں کچھ ہو رہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی کے پسِ پردہ کیا ہے لیکن اتنا ضرور تھا کے شہزاد بھائی کے ہاتھو کا لمس مجھے مسحور کر رہا تھا۔زندگی میں مجھے ایسی مسحور کُن فیلنگز پہلے کبھی نہیں ہوئیں تھیں۔ یونہی جب شہزاد بھائی مجھے میتھ کے ایک سوال کی مشق کرا رہے تھے تو میں ان کے ساتھ بہت قریب ہوگئی یہاں تک کے میرا سر اُن کے سر سے جُڑا ہوا تھا اور میرا ایک کندھا ان کے کندھے سے لگ گیا تھا جبکہ میرا دوسرا کندھا تھوڑا آگے کو جھک گیا تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کے اگر شہزاد بھائی نے میری قمیض کے گلے سے اندر جھانکا ہو گا تو انہیں میری ناف تک سب صاف صاف نظر آیا ہوگا۔ میں نے ایسا کوئی ارادتاً نہیں کیا تھا بلکہ ایسا ہونا اتفاقاً تھا۔
آخر نو بجے اور بھائی شہزاد گھر جانے کیلئے اُٹھے تو میں بھی کتابیں سمیٹ کر اُٹھی تو انہوں نے قریب سے گُزرتے ہوئے بڑی آہستگی سے کہا "ببلی تم آج بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔  میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تو اس دوران وہ مجھ سے دور ہٹ چکے تھے۔ ان کے الفاظ ساری رات میرے کانوں میں بجتے رہے۔ شائید خواتین کے متعلق سچ کہا جاتا ہے کے وہ بہت خود پسند ہوتیں ہیں اسی لیئے ان کی تعریف کیجائے تو پھُولے نہیں سماتیں۔ اگلے دن  بھی شہزاد بھائی وقت پر ہی آ گئے۔ ابھی ہم نے سٹڈی سٹارٹ ہی کی تھی کے بجلی چلی گئی ۔ میں اٹھی کے موم بتی جلا کر لے آؤں تو شہزاد بھائی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے، ہم نے کونسا موتیوں سے مالا پروہنی ہے ایسے ہی بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں تھوڑی ہی دیر میں بجلی تو آ ہی جائے گی۔ تو میں بھی ادھر ہی بیٹھ گئ ۔ شہزاد بھائی بدستور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ جو کے اب میری گود میں تھا۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ پہلے تو شہزاد بھائی نے میرا ہاتھ ایسے ہی پکڑے رکھا پھر آہستہ آہستہ وہ میرے ہاتھ کی انگلیوں سے کھیلنے لگے۔ ان کا ایسے میری انگلیوں سے کھیلنا مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ اگرچہ وہ میرے ہاتھ کی انگلیوں سے کھیل رہے تھے لیکن ان کے ہاتھ کی پُشت میری رانوں سے رگڑ کھا رہی تھی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد ان کا ہاتھ سیدھا میری ران پر تھا۔ میں کچھ بھی نہ بولی تو انہوں نے مساج کی طرز پر اپنے ہاتھ کو میری ران پر پھیرنا شروع کر دیا۔ وہ ساتھ میں باتیں بھی کر رہے تھے اور اپنے ہاتھوں کو بھی حرکت دیئے ہوئے تھے۔ مجھے جھٹکا اس وقت لگا جب ان کے ہاتھ کی درمیانی اُنگلی نے شلوار کے اوپر سی ہی میری چوت کو ٹچ کیا۔
     ایک سرد لہر میرے پوری وجود میں محسوس ہوئی۔میرے وجود کی عمارت کانپ کے رہ گئی۔ اگرچہ شہزاد بھائی کی محبت مجھ پر ہاوی ہو چُکی تھی اور ان کی پر اثر شخصیت نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا لیکن میں اس فوری عمل کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ میں نے دھیرے سے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا اور بڑی آہستگی سے ان کے ہاتھ کو اپنے گُٹنے کی جانب سرکا دیا۔ کُچھ دیر تک تو شہزاد بھائی کا ہاتھ اُدھر ہی رکا رہا لیکن وہ اب پھر سے سرکنے لگا تھا۔ کمرے میں اس وقت چونکہ اندھیرا تھا اور ہم ایک دوسرے کے چہروں کے تاثرات نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ لیکن میں شہزاد بھائی کی بےترتیب سانسوں اور اپنی ہوئی حالت سے اندازہ کر سکتی تھی کے اس وقت شہزاد بھائی کے محسوسات کیا ہونگے۔ شہزاد بھائی کا ہاتھ جیسے جیسے میری ران پر سرکتا میرے جسم کی ہر رگ میں جیسے کرنٹ دوڑ جاتی۔ حقیقت کہوں تو مجھے ان کے ہاتھ کا یوں میری ران پر سرکنا بہت مزہ دے رہا تھا لیکن کوئی اندرونی خوف تھا جو روک رہا تھا۔شہزاد بھائی آج کافی ایگریسو لگ رہے تھے۔ ان کا ہاتھ دوبارہ میری ٹانگوں کے درمیان پہنچ چکا تھا۔ میں سسک سی گئی۔ اگر شہزاد بھائی کی جگہ کوئی بھی اور ہوتا تو میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کے میں اُس کا منہ نوچ لیتی۔ لیکن شہزاد بھائی کیلئے تو میں پہلے سے ہی سب کچھ ہاری ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی میں یہ سب کچھ نہیں چاہ رہی تھی جو ہو رہا تھا۔ میرا بدن تپنے لگا تھا اسی لیئے میں نے شہزاد بھائی کے ہاتھ کو اُٹھا کر میز پر رکھا اور ٹوائلٹ جانے کے بہانے وہاں سے اُٹھ گئی۔ لیکن میں جیسے ہی اُٹھ کر قدم بڑھانے والی تھی پتہ نہیں مجھے کیا ہوا میں ڈگمگا گئی ۔ اسی لمحے شہزاد بھائی نے ہاتھ بڑا کر مجھے سہارا دیا تو میں گرنے سے بچ گئی۔ میں بہت نروس ہو گئی تھی شائید۔ میں جلدی سے ٹوائلٹ کی طرف بھاگی۔ مجھے کچھ حاجت تو نہ تھی۔ البتہ ٹھنڈے پانی سے منہ پر چھینٹے مارے تو گرمی کا احساس کُچھ کم ہوا۔ میں ابھی ٹوائلٹ میں ہی تھی کے بجلی آ گئی۔ میں واپس ڈرائنگ روم میں آئی تو شہزاد بھائی وہاں موجود نہیں تھے۔ مجھے پریشانی ہوئی کے ایسا کیا کے وہ بتائے بغیر ہی چلے گئے۔ اسی وقت امی ڈرائنگ روم میں آئیں تو انہوں نے بتایا کے شہزاد کہہ رہا تھا کے اُس کے سر میں درد ہو رہا ہے اور بجلی بھی نہیں ہے اس لیئے وہ گھر جا رہا ہے۔ میں نے بھی کتابیں سمیٹیں اور اپنے بیڈ روم میں چلی آئی۔ میری سوچ کا محور بس شہزاد بھائی ہی تھے۔ میں اپنے وجود میں اُن کے لمس کی لذت لیئے بیڈ پر دراز تھی۔ مجھے لگا کے جیسے شہزاد بھائی کی اُنگلی ابھی تک میری چوت پر ٹکی ہوئی ہے۔ میں اپنا ہاتھ اپنی ٹانگوں کے بالکل بیچ لے گئی۔ میں نے اپنی انگلیوں سے چوت کے لِپس کو چھیڑا تو مجھے وہ فیلنگز نہ ہوئیں جو شہزاد بھائی کی اُنگلی ٹچ ہونے سے ہوئیں تھیں۔ اس تھوڑے سے وقت کے ایک ٹچ نے میرے پورے بدن کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس رات بھی میں انہی سوچوں میں غرق سو گئی۔ صُبح اٹھی تو شہزاد بھائی کے ہی سحر میں سارا دن مسحور ہوتی رہی۔ شام ہونے سے پہلے ہی میں شام کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کے شہزاد بھائی آج کیسے برتاؤ کرتے ہیں۔ لیکن وقت ہونے کے باوجود وہ نہیں آئے۔میں انتظار کرتی رہی لیکن میرا انتظار بس انتظار ہی رہا۔ وہ آٹھ بجے تک نہیں آئے تو میں نے امی سے کہا کے " خیر ہو، شہزاد بھائی پتہ نہیں آج کیوں نہیں آئے" امی نے کہا ' کوئی اور کام پڑ گیا ہو گا اس لیئے نہیں آ سکا ہو گا۔ میں نے کہا نہیں امی کل جب وہ گئے تھے تو اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی کیا پتہ وہ ابھی تک ٹھیک نہ ہوئے ہوں آپ خالہ کو فون کر کے ان کا پتہ تو کرائیں۔ امی کو بھی جیسے کچھ یاد آیا تو انہوں نے خالہ کو فون لگایا تب خالہ نے بتایا کے شہزاد تو کل سے سخت بخار میں تپ رہا ہے۔ مجھے علم ہوا تو سخت بیچینی ہوئی دل چاہا کے ابھی جاؤں اور اس کا بخار خود پہ لے لوں ۔ لیکن میں اس وقت کیا کر سکتی تھی۔ صبح میں امی کو ساتھ لے کر اُن کا پتا لینے خالہ کے گھر گئے تو دیکھا شہزاد بھائی واقعی بخار کی وجہ سے بستر میں پڑے تھے۔تھوڑی سی رسمی بات چیت کے بعد میں ادھر ہی بیٹھ گئی۔ خالہ اور امی بھی ساتھ بیٹھی اپنی باتوں میں مصروف ہو گئیں ۔ شہزاد بھائی  نے ایکبارگی ہماری طرف دیکھا پھر انہوں نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ ہم خالہ اور امی کی موجودگی میں کوئی بات نہیں کر سکتے تھے اسے لیئے ہم خاموش بیٹھے تھے جبکہ خالہ اور امی باتیں کر رہے تھے۔ باتوں باتوں میں خالہ نے بتایا کے اُن کی سہیلی کی بیٹی کی شادی تھی جہاں ان کا جانا بہت ضروری تھا لیکن نہیں جا سکتیں۔ امی پوچھ رہی تھیں کیوں نہیں جا سکتی ہو؟ تو خالہ بولیں , جس کے ساتھ جانا تھا وہ تو بستر پر پڑا ہے اور آپ کے بھائی صاحب (خالو ) بھی آفس سے چھٹی نہیں لے سکے کہ ان کے ساتھ چلی جاتی۔ امی چونکہ خالہ کی سہیلی کو جانتی تھیں اور انہیں پتہ تھا کے وہ کدھر رہتی ہیں اس لیئے خالہ سے بولیں '' تمہاری سہیلی کون سا دوسرے شہر میں  رہتی ہے ٹیکسی پکڑو اور دو تین گھنٹے میں واپس آ جاؤ گی۔ میں نے یہ سُنا تو میرے دماغ میں آئیڈیا آیا کہ اگر امی اور خالہ شادی پر چلی جائیں تو مجھے شہزاد بھائی سے اکیلے میں بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔ یہی سوچ کر میں نے بھی امی کی تائید میں کہا " خالہ اگر آپ کی سہیلی اسی شہر میں رہتی ہیں تو تب آپ ضرور ہو آئیں، شہزاد بھائی کی فکر نہ کریں دو تین گھنٹوں تک ہم ان کی تیمارداری کرلیں گے۔ خالہ اور امی دونوں کو میں نے شادی میں جانے پر آمادہ کر لیا۔اگرچہ امی جانا نہیں چاہتیں تھیں ۔
     ان دونوں کے جانے کے بعد میں اور شہزاد بھائی اب گھر میں اکیلے تھے۔ کوئی پندرہ منٹ تک ہم میں کوئی بات نہ ہوئی۔ شہزاد بھائی ویسے ہی آنکھیں موندے لیٹے رہے۔ شائید وہ میرا انتظار کر رہے تھے کے میں کوئی بات شروع کروں گی۔ لیکن میں تذبذب میں رہی کے بات شروع کیسے کروں اور کونسی بات کروں ۔
   تنہائی اور خاموشی, ماحول پر عجب پرسراریت تھی، شہزاد بھائی نے میری طرف کروٹ لے کر آنکھیں کھول دیں۔ " نبیلہ تُم نے مجھے جلا ڈالا " ان کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی ۔ ان کی نظریں میرے چہرے پر گڑھی تھیں اور ہونٹ لرز رہے تھے۔ " تم شائید سمجھ رہی ہو گی کے میں بخار سے تپ رہا ہوں، لیکن ایسا نہیں ہے یہ آگ جس میں میں جل رہا ہوں تمہاری ہی دہکائی ہوئی ہے" یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو میں ان پر گر سی گئی۔ میرے کھلے بال ان کے چہرے پر بکھر گئے اور میرا منہ ان کے اتنا قریب تھا کے ان کی آگ برساتی سانسیں میرے ہونٹ اور گال جلانے لگیں۔ " نبیلہ میں نے ضبط کی بہت کوشش کی ،لیکن تمہیں دیکھ کر ضبط مشکل ہو جاتا ہے" شہزاد بھائی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی لیکن میں تو جیسے گونگی ہو گئی تھی۔ مجھے ان کی سانسوں کی تپش اور مہک نے ہی مدہوش کر دیا تھا۔ "دیکھو جل رہا ہوں نا میں.." یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ماتھے پر لگا دیا۔ ان کا ماتھا سچ میں انگارے کے طرح تھا۔ " جی....جی بھائی" میرے منہ سے بس اتنا ہی نکل پایا۔ شہزاد بھائی دیوانوں کی طرح میرے ہاتھ کو اپنے چہرے پر پھیرے جا رہے تھے۔ جیسے وہ اس طرح سکون پا رہے ہوں۔ سکون تو مجھے بھی حاصل ہو رہا تھا. بیقرار تو میں بھی تھی۔ محبت تو مجھے بھی ہو گئی تھی۔ میری انگلیوں نے شہزاد بھائی کے ہونٹوں کو چھوا تو مجھے لگا انہوں نے اپنی جسم کی حرارت میرے جسم میں منتقل کر دی ہو۔ شہزاد بھائی نے مجھے بازو سے تھوڑا اور کھینچا تو میرے ہونٹ ان کے ہونٹوں سے جا لگے۔ شائید کوئی دھماکہ ہوا تھا۔ کیونکہ جیسے ہی میرے ہونٹوں نے شہزاد بھائی کے ہونٹوں کو چھوا مجھے لگا کے میرے سارے بدن کو آگ لگ گئی ہو۔ میں شہزاد بھائی کے اوپر ہی گر گئی۔ میرے ہونٹ سوکھ چکے تھے گلا خشک تھا سانسیں جیسے اٹک گئی تھیں۔ "کیا یہ ہم صحیح کر رہے ہیں؟" میرے منہ سی انتہائی نحیف آواز میں سرگوشی سی نکلی ، لیکن پھر ساری سرگوشیاں ، سارے وہم، سارے سوالات، سارا ڈر دم توڑ گئے۔ شہزاد بھائی نے بجائے جواب دینے کے میرے ہونٹوں کو چوم لیا۔ اور ان کا چومنا پھر چوسنے میں بدلنے لگا۔ اور میں ان کے ہر کھیل میں ان کے ساتھ برابر شریک ہوتی گئی۔ شہزاد بھائی نے یونہی میرے ہونٹوں کو چوستے ہوئے اپنا ایک بازو میری کمر کے گرد ڈال دیا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کا ہاتھ میری کمر پر گھوم رہا تھا۔ میں جن ہونٹوں کا لمس پا کر ساری رات سپنے دیکھتی رہی تھی وہ ہونٹ اب نہ صرف میری دسترس میں تھے بلکہ میں ان کا رس پی رہی تھے۔ جن ہاتھوں کی ایک ہلکی چپت نے مجھے ساری رات مزے میں مدہوش رکھا تھا وہی ہاتھ میرے جسم کی پیمائش کر رہے تھے۔ جو مدہوشی اور سرور مجھ پر چھا رہا تھا میں اس نشے سے نا آشنا تھی۔ شہزاد بھائی بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے بالکل اپنے اوپر لے لیا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑوں کو سہلاتے کبھی میری کمر پر پھیرتے۔ لگتا ایسے تھا جیسے وہ میرے جسم کو اپنے جسم کے اندر سمو لینا چاہتے ہوں۔ مجھ پر بھی دیوانگی کی سی حالت طاری تھی۔ ہم ناگ ناگن کی طرح بیڈ پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ کبھی شہزاد بھائی میرے اوپر ہوتے کبھی میں ان کے اوپر۔ ہمارے جسم انگاروں کی طرح دہک رہے تھے۔ ایسے میں شہزاد بھائی کا لوڑا اکڑ کے سخت ہو چکا تھا۔اوپر نیچے ہوتے جب وہ میرے چوتڑوں کے درمیان لگتا یا پھر چوت کے سات ٹکراتا تو میں مزے سے سرشار ہو جاتی۔ ایسے میں جب شہزاد بھائی میرے اوپر آئے تو وہ دوزانوں میرے پیٹ کے اوپر بیٹھ گئے۔ میں بیڈ کے اوپر چِت لیٹی ہوئی تھی۔ میرے کھلے ہوئے بال میرے چہرے پر بکھر گئے تھے۔ اب تک ہم صرف ایک دوسرے کو بانہوں میں بھر کے ہونٹوں سے ہی کھیل رہے تھے یا پھر دونوں کمر اور چوتڑوں پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ شہزاد بھائی نے میرے دونوں ہاتھوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لیا اور انہیں سرکل کی صورت میرے سر کے اوپر تکیے پر ٹکا دیئے۔ دائیں ہاتھ کو انہوں نے میری کمر کے قریب سے میری قمیض کے اندر ڈال دیا ان کا ہاتھ جیسے جیسے میرے پیٹ سے رینگتے ہوئے میرے بُوبز کی طرف بڑھ رہا تھا میرے جسم میں بھی انجانی سی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ شہزاد بھائی اپنی گردن کو جھکاتے ہوئے اپنے منہ کو بالکل میرے چہرے کے قریب لے آئے۔ انہوں نے ہلکی پھونک سے میرے بکھرے ہوئے بالوں کو میرے چہرے سے ہٹایا۔ اور اپنے ہونٹوں کے انگارے میرے ہونٹوں کے اوپر رکھ دیئے۔ایسے میں ان کی رینگتی ہوئی انگلیاں بھی میرے بُوبز تک پہنچ چکی تھیں۔ انہوں نے جیسے ہی میرے بُوبز کی نپلز کو چھوا میرے جسم میں پیدا ہونے والی لہریں بہت بُری طرح مرتعش ہو گئیں۔ اور اس ارتعاش نے میرے بدن میں ایک بھونچال برپا کر دیا۔احساسات کو لفظوں کا پہناوا دینا بہت مشکل ہے۔ بلکہ میں یہ کہوں کے ناممکن ہے تو بھی غلط نہ ہو گا۔ احساسات  کو میرے خیال میں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں بھی بیان نہیں کر سکتی کے اصل میں میرے احساسات اور فیلنگز اس وقت کیا تھیں۔ بس یہ کہوں گی جو لُطف و سرور کی کیفیت اس وقت تھی وہ میری سابقہ پوری زندگی میں نہ تھی۔
      میں نشے میں سرشار تھی اور شہزاد بھائی پر جیسے دیوانگی۔ انہوں نے میری قمیض کھینچ کر اوپر اُٹھا دی۔ میرے ملائم سفید پیٹ پر اٹھکھیلیاں کرتی شہزاد بھائی کی انگلیاں اور پھر ان کی زبان۔ میں نیچے بے آب مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ انہوں نے مجھے بھی بٹھا لیا تو ان کا اکڑا ہوا لوڑا میرے نرم پیٹ میں چُب سا گیا۔ شہزاد بھائی مجھ سے کسی کھلونے کی طرح کھیل رہے تھے۔ اور میں بھی کسی بےمول لونڈی کی طرح اُن کا ہر حکم بجا لا رہی تھی۔ انہوں نے میری قمیض اُتار دی مجھے یوں ان کے سامنے ننگی ہونے میں نہ تو کوئی شرم تھی نہ پشیمانی، شہزاد بھائی میرے سارے جسم کو چاٹ رہے تھے۔ انہوں نے جب میری برا کی ہُک کھولی تو میرے خوبصورت ٹائٹ بُوبز دیکھ کر اُن کی جو حالت ہوئی وہ دیدنی تھی۔ وہ پاگلوں کی طرح کبھی ایک بُوب کو اور کبھی دوسرے بُوب کو چوسنے لگے۔ ان کا اس طرح چُوسنا مجھے بھی بےخود کر رہا تھا۔ وہ میرے بُوبز کو چوستے ہوئے جب نِپلز کو ہونٹوں اور دانتوں سے دباتے تو میری سسکی نکل جاتی۔ اُففففففف ہہہممممم آں ہُُممم کی آوازیں جو اب مسلسل میرے منہ سے نکل رہی تھیں شہزاد بھائی کے پاگل پن کو مزید بڑھا رہی تھیں۔ اور ان کا پاگل پن مجھے ہوا میں اُڑا رہا تھا۔ میں لُطف و سرور کی وادی میں غرق ہو چکی تھی۔ شہزاد بھائی مجھے مسلسل چاٹ رہے تھے۔ اور میں بھی دیوانگی میں ان کے ساتھ تھے۔ وہ چاٹتے چاٹتے نیچے کی طرف جا رہے تھے۔ اور ساتھ ہی میری شلوار کو بھی نیچے سرکا رہے تھے۔ میرا گورا ملائم جسم اب ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔میں لذّت کے سمندر میں غرق ان کے سامنے برہنہ جسم لیٹی تھی۔ میرے جسم پر اب اگر کوئی کپڑا تھا تو وہ میری پینٹی تھی جسے اب اُترنے میں زیادہ دیر نہ تھی۔ شہزاد بھائی نے اپنے کپڑے اُتار کر دور اچھال دیئے۔ ان کے بدن کے تمام مسلز پھڑپھڑا رہے تھے۔ ان کا مضبوط جسم دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے اپنے دونوں بازو ان کے بازؤوں کے نیچے سے گُذار کر اُن کی پشت پر اپنے دونوں ہاتھوں سے کنگھا بنا لیا، اور اپنی چھاتی کو ان کی چھاتی سے جوڑ کر سختی سے بھینچ لیا۔ میرے نپلز ان کے نپلز سے ٹکرائے ہوئے تھے  جبکہ ان کے ہاتھ میری ننگی کمر پر مساج کر رہے تھے۔ ان کا لوڑا جو اب کپڑوں سے آزاد تھا میری ناف میں گھسنے کو بیتاب تھا۔میں اپنے نازک پیٹ پر اس لوڑے کی بیقراری محسوس کر رہی تھی۔ اس کی گرمی میں وہ لذت تھی کے بیان نہیں کر سکتی۔ شہزاد بھائی اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھے تھے۔ انہوں نے میری دونوں ٹانگیں اپنے سر کے برابر اٹھائیں تو میرا سر بیڈ پر تکیے پے جا لگا۔ میرا جسم انگریزی حرف L کی صورت ہو گیا۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے میری دونوں ٹانگیں پکڑے رکھیں جب کے دوسرے ہاتھ سے مجھے پینٹی کے جھنجھٹ سے بھی آزاد کر دیا۔ میری چکنی گانڈ اور چھوٹی سی صاف شفاف چوت اُن کی آنکھوں کے سامنے تھیں۔ انہوں نے میری ٹانگوں کو میرے سر کی طرف پُش کر کے مجھے بالکل کمان کی صورت کر دیا۔ اس سے میری گانڈ تھوڑی اور اوپر اُٹھ گئی۔ انہوں نے میرے چوتڑوں پر کِس کی اور پھر زبان نکال کر چاٹنے لگے۔ وہ ایسے چاٹ رہے تھے جیسے میری سکِن پر شہد لگا ہو۔ وہ چاٹتے چاٹتے میری ٹانگوں کے درمیان آ گئے۔ ان کی زبان نے جیسے ہی میری چوت کے لِپس کو ٹچ کیا میری سسکی نکل گئی۔ اُن کی زبان اب تیزی سے میری چوت کے لِپس کو گیلا کر رہی تھی اور میری سسکیاں بھی آہہہہہہ اُووووں ہہہہمممم آآآآں  ہہہہممم اُاُااافففففف کی آواز کیساتھ تیز ہو رہی تھیں۔ اُن کی زبان کی ہر حرکت پر میرے بدن میں لہریں سی دوڑ جاتیں جو کے میرے بدن کو لذت کا وہ سامان مہیا کرتیں کے میں سرشار ہو جاتی۔ مجھے اتنا مزہ آ رہا تھا کے میں نے شہزاد بھائی کا سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور اپنی چوت اُٹھا اُٹھا کر اُن کے ہونٹوں سے رگڑنے لگی۔ انہوں نے بھی میری بیقراری دیکھی تو اپنی زبان کو تیزی سے حرکت دینے لگے ان کی زبان اب میری چوت کے لِپس کے اندر جا چکی تھی۔ میری سسکیاں چھوٹی چھوٹی چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ اور پھر اچانک مجھے سکون سا مل گیا میرا تنا ہوا بدن ڈھیلا پڑنے لگا میرا جسم نم ہو چُکا تھا۔ میری چوت سے نکلنے والا پانی میری گانڈ کی طرف بہہ نکلا۔ شہزاد بھائی نے مجھے پھر مکمل بیڈ پر لٹایا اور وہ میرے سر کی طرف آ گئے۔ میرے ہونٹوں اور بُوبز کو چوم کر وہ دوزانوں میرے سر کے قریب بیٹھ گئے۔ دائیں ہاتھ سے میرے سر کو پکڑ کر تھوڑا اوپر اُٹھایا اور بائیں ہاتھ سے اپنے لوڑے کو پکڑ کر میرے ہونٹوں پر رگڑنے لگے۔ کبھی وہ اسے ہتھوڑے کی طرح میرے گالوں اور ہونٹوں پر مارتے اور پھر رگڑنے لگتے۔انہوں نے لوڑے کو میرے ہونٹوں کے اوپر دو تین بار رگڑا تو میں نے منہ کھول دیا۔ لوڑے کے سر سے میری زبان ٹکرائی تو مجھے ایک نئے ذائقے سے آگہی حاصل ہوئی ۔ میں نے لوڑے کے سر پر اپنی زبان راؤنڈ گھمائی اور پھر گھماتی چلی گئی۔ لوڑے کی مستی بھی عروج پر آنے لگی۔ میں نے لوڑے کو جو چُوسنا شروع کیا تو یہ مجھے دنیا کا سب سے مزیدار لالی پاپ لگا۔ میں نے لوڑے کے گرد ہونٹوں کو سختی سے بند کیا اور زبان کو اس کے اوپر گھمانے لگی لوڑا سخت ہو کر تن تنانے لگا۔ شہزاد بھائی بھی اب لوڑے کو میرے منہ میں دھکے دے رہے تھے۔ جیسے وہ میرے منہ کی چُدائی کر رہے ہوں ۔ ان کا لوڑا میرے حلق کے نیچے تک جا رہا تھا۔ وہ جب اسے دھکا دیتے تو میری سانس بند ہو جاتی۔ گلے سے غُوں غر غُوں  کی آوازیں نکلتی میری آنکھیں باہر اُبلنے کو آتیں اور میرے منہ سے نکلنے والی تھوک میرے گالوں پر پھیل جاتی۔ کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد شہزاد بھائی نے اچانک لوڑا کھینچ کر میرے منہ سے باہر نکالا اور اپنا گرم لاوا میری چھاتی پر گرا دیا۔ مجھے چکناہٹ کا احساس اپنے بُوبز اور سینے پر ہوا تو بے اختیار میرا ہاتھ اپنے سینے پر گیا۔ میں نے سینے پے ہاتھ پھیر کر اوپر اُٹھایا تو گاڑھا لیس دار مادہ میری انگلیوں سی لتھڑا ہوا تھا۔  شہزاد بھائی کے لوڑے سے ابھی بھی یہ لیس دار مادہ نکل رہا تھا۔
شہزاد بھائی پھر میرے اوپر آ گئے۔ انہوں نے اپنے لوڑے کو میرے دونوں  بُوبز کے درمیان رکھا اور میرے دونوں بُوبز کو اپنے ہاتھوں سے لوڑے کے گرد دبا دیا۔ میرے بُوبز اب غار نُما تھے۔ شہزاد بھائی اپنے ڈھیلے پڑتے لوڑے کو اس میں رگڑنے لگے۔ میری چھاتی چکنی تھی جس پر ان کا لوڑا سلپ ہونے لگا اور جیسے ان کے لوڑے میں دوبارہ سے جان پڑنے لگی۔ وہ پھر سے سخت ہو رہا تھا اور میرے بُوبز میں مزے لے رہا تھا شہزاد بھائی جب اسے پیچھے کھینچ کر آگے کو دھکا لگاتے تو وہ میری ٹھوڑی سے ٹکرا جاتا۔ میں نے سر کو پیچھے سے تھوڑا اٹھایا اور منہ کھول دیا۔ اب لوڑے کا سر میرے ہونٹوں سے ٹکرانے لگا۔ میرا ایسا کرنے پر شہزاد بھائی اور جوش میں آئے اور انہوں نے تیزی سے لوڑے کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ میں بھی لوڑا میرے ہونٹوں کے قریب آتا اسے اپنی زبان نکال کر چاٹ لیتی۔ اس سے کچھ ہی دیر میں لوڑا تن تنانے لگا۔ ہمارے جسم جیسے آگ میں سُلگ رہے تھے۔ میری چوت سے پھر پانی نکلنے لگا تھا جبکہ شہزاد بھائی کا لوڑا پھر سے لوہے جیسا سخت ہو چُکا تھا۔ میری چوت میں جیسے آگ بھڑک اُٹھی۔ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے اسےبُری طرح مسل رہی تھی۔ شہزاد بھائی نے میری دیوانگی دیکھی تو وہ اُٹھے اور میری ٹانگوں کی جانب ہو گئے۔ انہوں نے میری دونوں ٹانگیں اُٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں۔ میری چوت پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرا اور پھر اُنگلی میری چوت کے اندر ڈال دی۔ میری منہ سے ایک سرد سی سسکی خارج ہوئی۔ اور پھر اُنگلی کی ہر حرکت میری سسکیوں کو بڑھا رہی تھی ۔ میری سسکیاں لذت اور درد کے ملے جلے تاثرات لیئے ہوئے تھیں۔ شہزاد بھائی نے لوڑے کو دائیں ہاتھ میں پکڑا اور بائیں ہاتھ پر تھوک کر لوڑے کے سر پر ملنے لگے۔ جب اچھی طرح تھوک لگ گیا تو انہوں نے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے میری چوت کے دونوں ہونٹوں کو الگ کیا اور لوڑے کا سر چوت کے چھوٹے سے سوراخ کے عین اوپر رکھا۔ اور آہستہ آہستہ اسے اندر کی طرف دبانے لگے۔ لیکن وہ اندر جانے کے بجائے سائیڈ پر سلپ ہو رہا تھا۔ جس سے مجھے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ میں درد کے مارے اپنی سانسیں کھینچ رہی تھی۔ شہزاد بھائی  لوڑے کو سیدھا کرتے اور پھر دبانا شروع کرتے تو نتیجہ پھر وہی ہوتا۔ وہ اُٹھے تو ویزلین آئل کے بوتل ڈھونڈھ کے لے آئے بڑی اچھی طرح سے میری چوت کو آئل سے تر کیا اور اُنگلی کی مدد سے سوراخ کے اندر بھی لگایا۔ پھر اپنے لوڑے کو بھی آئل سے خوب نہلایا۔ اب انہوں نے بائیں ہاتھ سے لوڑے کو پکڑ کر اس کے سر کو میری چوت پر رگڑنے لگے جس سے میں بیقرار ہو گئی پھر انہوں نے لوڑے کا سر چوت کے سوراخ پر رکھا اور لوڑے کو اپنے انگوٹھے سے دبائے ہوئے کمر کے زور سے ایک دھکا لگایا تو لوڑے کا سر چوت کے سوراخ کے اندر چلا گیا جبکہ میری چیخ سے کمرا گونج گیا۔ شُکر کے گھر میں کوئی موجود نہیں تھا ورنہ میری چیخ سُن کر دوڑا آتا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ شہزاد بھائی کی رانوں پر رکھ دیئے اور ان پر دباؤ ڈالا تاکہ شہزاد بھائی کا لوڑا میری چوت سے نکل جائے۔ میرے تو پسینے چھوٹ گئے ابھی تو لوڑے کا صرف سر بھی پوری طرح چوت کے اندر نہیں گیا تھا تو درد کا یہ عالم تھا جیسے کسی نے آگ ڈال دی ہو۔ یا پھر کسی نے خنجر سے چوت کاٹ دی ہو۔ پورے لوڑے کا تو تصور ہی دل دہلانے کیلئے کافی تھا۔ شہزاد بھائی کچھ دیر کو ٹھہر گئے پھر جب انہوں نے دیکھا کے میرے ہاتھوں کا دباؤ ان کی رانوں پر کم ہوا ہے تو انہوں نے دوسرا دھکا دیا تو میری پھر سے چیخ نکل گئی۔ میں تڑپ کر رہ گئی پر اس دفع شہزاد بھائی رکے نہیں انہوں نے ایک اور دھکا دیا تو میں بلک پڑی۔ ان کا آدھا لوڑا میری چوت کو چیرتے ہوئے اندر چلا گیا تھا۔ میں بچوں کی طرح روتے ہوئے اوئی ماں، ہائے ماں کی آوازیں نکال رہی تھی مجھے لگا کے میری سانسیں رک جائیں گی۔ میرا حلق میرے ہونٹ ایکدم خشک ہوگئے تھے۔ میں تڑپ رہی تھی لیکن شہزاد بھائی کی گرفت زیادہ مضبوط تھی۔انہوں نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے لگا دیئے وہ یونہی چُوس چُوس کر میرے ہونٹوں کو تر کرتے رہے۔ ان کے ہاتھ میرے بُوبز کے نپلز کو مسل رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے پھر ریلیکس ہوتے دیکھا تو ایک بار پھر ایکشن میں آئے۔ اب کی بار انہوں نے لوڑے کو پہلے آرام سے پیچھے کھینچا لیکن مجھے لگا کے ان کے لوڑے کے ساتھ ہی میری انتڑیاں بھی چوت کے رستےباہر آ جائیں گی۔ میں نے اپنے نچلے ہونٹ کو زور سے دانتوں کے نیچے دبا رکھا تھا اور درد کی شدت کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شہزاد بھائی نے لوڑے کو سر تک چوت سے باہر کھینچا اور پھر زور سے لوڑے کو اندر کی طرف دھکا دے دیا۔ میں لوڑے پر لگے اپنے دوشیزگی کے خون کو دیکھ چُکی تھی اور شہزاد بھائی نے مجھے اشارہ کر کے اہتمام سے دکھایا تھا میں اب کنواری نہیں رہی۔ اور لڑکی سے عورت ہو گئی ہوں ۔اب وہ رکے نہیں بلکہ وہ لوڑے کو آہستہ آہستہ باہر کھینچتے اور پھر اندر کو دھکا لگا دیتے۔ میں بلک بلک کر رو رہی تھی۔ ان کو واسطے اور منتیں کر رہی تھی لیکن وہ جیسے سُن ہی نہیں رہے تھے۔ جیسے میری چیخیں اور میرا رونا اُن کو مزہ دے رہا تھا۔ میرا تڑپنا انہیں لذت دے رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسووں جاری تھے اور میں بچوں کی طرح بلک رہی تھی۔ ان کے ہر دھکے سے یوں لگتا جیسے میری چوت کٹ رہی ہے۔ مجھے لگتا جیسے میرے پیٹ کے اندر ہر شے میری چوت کے رستے باہر آ جائے گی۔ میری چوت جس میں تھوڑی دیر پہلے تک اُنگلی ڈالنا محال تھی اُس میں شہزاد بھائی نے اپنا اتنا موٹا لوڑا ٹھونس دیا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے شہزاد بھائی مجھے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیں گے۔ سیکس کا کھیل بھی عجیب ہوتا ہے۔جب آپ اسے شروع کرتے ہو تو آپ کی سانسیں بےترتیب ہو جاتی ہیں اور جیسے جیسے آپ لذت کی منازل طے کرتے ہو آپ کی بےترتیب سانسیں سسکیوں میں اور پھر سسکیاں چیخوں میں بدلتی ہیں اور جب آپ لذت کی بُلندی کو پاتے ہو تو چیخیں جنون کی صورت آپ کو دیوانہ کر دیتی ہیں۔ اور دیوانگی میں آپ لذت کی انتہا کو پاتے ہو۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب نہ کچھ سنائی دیتا ہے نہ کچھ دکھائی دیتا ہے۔ نہ کوئی خوف آپ کو ڈرا سکتا ہے اور نہ کوئی روک سکتا ہے۔ میری چیخوں میں بھی آہستہ آہستہ کمی آنے لگی۔ اب بے معنی آوازیں میرے منہ سے خارج ہو رہیں تھیں۔ میری چوت کی دیواریں شہزاد بھائی کے لوڑے کو قبول کر چکی تھیں۔ انہوں نے لوڑے کو اس کے سائز کے مطابق اسے جگہ دے دی تھی۔ اب جب اوپر سے دھکا لگتا تو میں گانڈ اُٹھا کر نیچے سے دھکا دیتی۔ میرا یہ عمل شہزاد بھائی کے جنون کو بڑھا گیا۔ وہ جیسے کسی مشین کی طرح چل پڑے۔ اب درد کی جگہ لذت حاصل ہو رہی تھی۔ جس طرح شہزاد بھائی کوشش کر رہے تھے کے وہ کسی نا کسی طرح لوڑے کو زیادہ سے زیادہ چوت کے اندر تک لے جائیں اسی طرح میری خواہش بھی ہوتی کے میں ان کے لوڑے کی جڑ تک کو اپنی چوت میں سمیٹ لوں۔ اسی لیئے میں نے اپنے دونوں ہاتھ اُن کے چوتڑوں پر سختی سے جمائے ہوئے تھے۔ اور وہ جب بھی لوڑے کو چوت میں دھکا لگاتے میں  دونوں ہاتھوں سے ان کی گانڈ پر نیچے کی جانب دباؤ بڑھاتی اور نیچے سے اپنی گانڈ اوپر اٹھاتی تا کہ لوڑا زیادہ سے زیادہ چوت کے اندر جا سکے۔ شہزاد بھائی کے دھکے تیز ہوئے تو ہمارے منہ سے نکلنے والی اووں آآآآں کی آوازیں بھی بلند ہو گئیں۔ چوت سے پچ پچ کی نکلنے والی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ دھکے دیتے دیتے شہزاد بھائی جب تھک جاتے تو تھوڑا ٹھہر کر پھر شروع ہو جاتے۔ مجھے لگا کے میری چوت جو بھٹی کی طرح جل رہی ہے اس کی آگ شائید بجھنے والی ہے۔ میرا جسم اکڑ گیا تھا اور پھر جیسے ہی چوت نے پانی چھوڑا میں ایکدم ریلیکس ہونے لگی شہزاد بھائی ابھی تک زور زور سے دھکے دے رہے تھے پھر ان کا نچلا ہونٹ ان کے دانتوں کے نیچے آیا اور آنکھیں بند ہوئیں ۔زوردار آآآآآآآآآ کی آواز ان کے منہ سے خارج ہوئی اور لوڑے سے پچکاری۔ وہ بھی آسمان کی بلندیوں سے واپس زمین پر آ رہے تھے۔ ہم دونوں چھوٹ چُکے تھے میری چوت جھیل بن گئی تھی شہزاد بھائی اور میں نے خود جو پانی چھوڑا تھا وہ رانوں سے بہہ کر نیچے میری گانڈ تک چلا گیا۔ ہم دونوں کے جسم پسینے سے شرابور تھے۔ شہزاد بھائی میرے اوپر ہی گر گئے۔ چند لمحوں تک تو ہم ایسے ہی پڑے رہے پھر سر اُٹھا کر ایکدوسرے کی طرف دیکھا۔ مُسکراہٹ دونوں کے لبوں پر تھی۔ مسکراتے ہوئے ہم دونوں نے ایکدوسرے کے ہونٹ چومے اور پھر زُبانیں لڑانے لگے۔


Like Reply




Users browsing this thread: 3 Guest(s)