Thread Rating:
  • 0 Vote(s) - 0 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
تنہائیوں کا ساتھی ۔ مالکن اور کتے کی چدائی
#1
پہلی قسط
جمال خان ایک بہت بڑا اور کامیاب بزنس مین تھا۔ اسکی عمر40 سال تھی۔  اسکی   بیوی سیما اس سے قریب 17 سال چھوٹی تھی۔ 23 سالہ سیما بے حد جوان اور خوبصورت تھی۔ مکھن کی طرح نرم، دودھ کی طرح سفید  گوری چٹی اور چھوئی موئی کی طرح نازک جسم کی مالک تھی۔ وہ اپنی جوانی اور حُسن کا خُوب خیال رکھتی تھی۔ اپنے جسم پر ایک بھی غیر ضروری بال نہ رہنے دیتی۔ روزانہ امپورٹڈ بےبی لوشن کے ساتھ اپنے جسم کا مساج کرتی۔ باقاعدگی کے ساتھ بیوٹی پارلر جاتی اور اپنے حسن کو چار چاند لگواتی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اپنی جوانی اور خوبصورتی کا خیال نہ رکھے گی تو جمال خان جیسا مالدار آدمی اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس بھی جا سکتا ہے۔ اپنی اداؤں کے جلوے جمال خان کو دکھاتی رہتی اور وہ بھی  ایک بھرپور اور وجیہہ مرد تھا ہر طرح سے سیما کا خیال رکھتا اسکی مالی اور جسمانی ضرورتوں کو نہائیت ہی اچھے انداز میں پورا کرتا سیما کی مکمل تسلی تک۔   پارٹیز میں ہمیشہ ہی انکی جوڑی کی تعریف ہوتی تھی۔  دونوں ہی ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے اور ایکدوسرے سے بہت پیارک کرتے تھے۔ سیما جمال خان کے ساتھ باہر کے ملکوں کے بزنس ٹور پہ بھی جاتی۔ اور تمام قسم کی بزنس پارٹیز میں بھی شامل رہتی۔ مگر انکے علاوہ اسے گھر پے ہی رہنا پڑتا۔ گھر ۔۔۔۔۔۔  گھر کیا تھا ایک بہت بڑا بنگلہ تھا۔ نوکر چاکر، کاریں، ڈرائیور، سب کچھ تھا۔گھر پہ کام کاج کوئی کرنے کو تھا نہیں۔ نوکر ہی سارا کام کرتے تھے۔ کھاناپکانے کے لیے بھی خانساماں تھا جو کھانا بنانے کے بعد اپنے کوارٹر میں چلا جاتا تھا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس طرح وہ گھر کے اندر زیادہ تر اکیلی ہی ہوتی تھی۔  سیما کا   جہاں دل کرتا وہ ڈرائیور کے ساتھ جا سکتی تھی اور جاتی بھی تھی۔ مگر زیادہ تر گھر پہ ہی رہتی تھی۔ جمال خان بھی زیادہ تر شہر میں ہی رہتا تھا۔
ایک بار جب جمال خان  اور سیما امریکہ کے ٹور پر گئے           تو  وہاں انکا میزبان رابرٹ تھا ۔ اسنے انکو ہوٹل مین ٹہرانے کی بجائے اپنے گھر میں ٹھرایا۔ رابرٹ اور اسکی خوبصورت بیوی جولیا بہت ہی اچھے اور ملنسار لوگ تھے۔ انھوں نے انکی خوب آو بھگت کی۔ انکے گھر میں دو کتے بھی تھے۔  جو کہ انکے  گھر میں ہی پل کے جوان  ہوے تھے۔ سفید رنگ کے جسم پر کالے رنگ کے بہت خوبصورت دھبے دھبے بنے ہوے تھے۔ قریب 4 فٹ لمبا اور ڈھائی  فٹ اونچا قد تھا۔ بھاری مگر بہت مضبوط ۔ بےحد  چست اور پھرتیلا جسم تھا انکا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ  دونوں کتے بلکل ایک جیسے تھے۔ یعنی وہ دو جڑواں کتے تھے۔ جمی اور ٹامی ۔ سیما کو بھی وہ کتے بہت اچھے لگے تھے۔  دونوں ہی بہت  اچھے سُدھائے ہوئے تھے۔ اپنے مالکوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ سیما نے دیکھ کے دونوں کتے رابرٹ اور جولیا کے آگے پیچھے پھرتے ۔ اپنی دُم ہلاتے  انکے حکم کا انتظار کرتے ہوے۔ دونوں کتے گھر کے اندر پھرتے تھے مگر سیما کو کہیں بھی کوئی اُنکی پھیلائی ہوئی گندگی نظر نہیں آئی۔   رابرٹ نے جب اپنے مہمانوں کی پسندیدگی اور دلچسپی  اپنے کتوں میں دیکھی تو اُسے اور بھی اچھا لگااور  اُس نے اُنکو اپنا ایک کتا تحفے میں دینے کی آفر کر دی۔جمال خان اور  سیما اس آفر پہ بہت حیران اور  خوش ہوئےاورسیما  نے جمال خان سے وہ کتا اپنے ساتھ لے جانے کی فرمائش کی۔ کتا تو جمال کو بھی پسند آیا تھا چنانچہ انھوں نے رابرٹ کی آفر کو شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا۔  سیما کو خوش ہوتے ہوئے دیکھ کر رابرٹ نے معنی خیز نظروں سے اپنی بیوی جولیا کی طرف دیکھا اور دونوں مسکرا دیئے۔
سیما: جولیا آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ یہ تو سارا سارا دن گھر سے باہر رہتے ہیں اور میں گھر میں بور ہوتی رہتی ہوں اب آپ نے ایک ڈوگی ہمیں دیا ہے تو چلو اسکے ساتھ میری کچھ مصروفیت بنی رہے گی اور وقت بھی پاس ہو جائے گا۔
جولیا مسکرا کے بولی۔۔۔ یس۔ ٹامی کے ساتھ آپ کا وقت سچ میں بہت اچھا گزرے گا اور آپ ہمیشہ ہمیں یاد کرو گی۔  ٹامی میرا پسندیدہ کتا ہے۔ اسکی بہت اچھی تربیت کی ہوئی ہے ہم نے۔ آپ لوگوں کو کبھی بھی اس سے کسی قسم کی کو شکائیت نہیں ہو گی۔
سیما خوش اور پُرجوش ہوتی ہوئی بولی۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگے گا جب یہ میرے اشاروں پہ چلے گا۔
رابرٹ ہنستے ہوئے۔۔۔ یہ اشاروں پہ چلتا بھی ہے اور اپنے اشاروں پہ چلاتا بھی ہے۔
اسکی بات پہ جولیا ہنسنے لگی اور سیما بھی بنا کچھ سمجھے اُنکے ساتھ ہنسنے لگی۔  جب امریکہ سے دونوں واپس آئے تو ٹامی بھی انکے ساتھ تھا اور دونوں بہت خوش تھے۔
ٹامی نے جمال خان کے گھر میں رہنا شروع کر دیا وہ سچ میں ہی بہت شاندار جانور تھا بہت ہی مہذب اور تربیت یافتہ۔۔۔ بلکل امریکی عوام کی طرح۔ شروع شروع میں وہ نئے ماحول میں آ کے گھبرایا ہوا تھا۔ تھوڑا تنگ کیا۔ وہ بھی ڈرا ہوا تھا اور جمال خان اور سیما بھی اس سے تھوڑا دور دور رہتے۔ مگر آہستہ آہستہ اُنکا خوف جاتا رہا اور وہ اُسکے قریب آنے لگے اور وہ بھی بہت جلد جمال خان اور سیما کے ساتھ مانوس ہوگیا۔ گھر کے اندر ہی رہتا اور سیما کے آگے پیچھے پھرتا رہتا۔  سیما خود اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی۔ اسے واک کرواتی۔ شروع میں تو اسکے گلے میں پٹہ ڈالاگیا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ سیما نے اُتار پھینکا اور اب ٹامی گھر کے اندر بنا روک ٹوک اور بنا کسی رکاوٹ کے پھرتا تھا۔ اُسکی دیکھ بھال کے لیے ایک خاص نوکر رکھا تھا مگر ٹامی تو زیادہ وقت سیما کے ساتھ ہی گزارتا اور سیما کے ساتھ ہی خوش رہتا۔ سیماکو بھی اپنا فارغ وقت گزارنے کا ایک شغل مل گیا تھا۔ ٹامی سیماکے ساتھ کھیلتا اسکے پیروں کو چاٹتا اپنا منہ اور سر اسکے پیروں سے رگڑتا اور سیمابھی اسکے سر پہ اور جسم پہ ہاتھ پھیر کے اسکے جسم کہ سہلاتی اور اسکی محبت کا جواب محبت سے دیتی۔ شروع میں جب ٹامی نے سیما کے پیروں کو چاٹنے کے لیے اپنا منہ اسکے پیروں پر رکھنا چاہا تو وہ ڈر کے مارے اٗچھل ہی پڑی تھی اور اسکے قریب بیٹھا ہوا جمال خان بھی ہنسنے لگا تھا۔۔ مگر دھیرے دھیرے وہ اسکی عادی ہو گئی تھی اور اب اسے اچھا لگتا تھا جب ٹامی کی زبان اسکے پیروں پر سرکتی تھی ۔۔ اسے چاٹتی تھی ۔۔۔۔ اب تو اسکا اپنا بھی دل چاہتا تھا کہ وہ اسکے پیروں پہ اپنی زبان پھیرتا رہے۔ ۔۔۔ شام میں ٹامی سیما کے ساتھ لان میں کھیلتا ۔۔۔۔ سیما آگے آگے بھاگتی اور وہ اسکے پیچھے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑنے کوشش کرتا ۔۔۔۔ کبھی کبھی سیما نیچے گھاس پر بیٹھ جاتی تو وہ اس پر چڑھ جاتا ۔۔۔ اسے نیچے گرانے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔ اور سیما بھی ہنستی ہوئی نیچے اسکے سامنے لیٹ جاتی ۔۔۔۔ اور وہ پھر اسکے پیروں کو چاٹنے لگتا ۔۔۔۔ اور کبھی اپنا سر اسکے منہ کے ساتھ رگڑنے لگتا ۔۔۔۔۔  اس سب سے سیما خوب انجوائے کرتی ۔۔۔۔۔
سیماایک ماڈرن اور آزاد خیال لڑکی تھی۔ وہ ہر طرح کے ماڈرن لباس پہننا پسند کرتی تھی ۔ مگر گھر کے اندر وہ اور بھی آزادی کے ساتھ رہتی تھی۔ اکژ گھر کےاندر اسکا لباس بہت بولڈہوتا۔ ٹی شرٹ اور شارٹس پہننا تو اسکا معمول تھا نا۔ ایسے ہی ایک روز وہ ٹی وی لاؤنج میں صوفے پہ لیٹی ہوئی ایک انڈین مووی دیکھ رہی تھی اور ٹامی بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا۔  سیمانے شارٹس اور ٹی شرٹ ہی پہنی ہوئی تھی۔ شارٹس اسکے گھٹنوں سے اوپر تک تھی اور اسکی گوری گوری اور چکنی ٹانگیں ننگی ہو رہی تھیں۔ ٹی شرٹ بھی اسکے جسم کے ساتھ چپکی ہوئی تھی جس میں اسکے سیینے کے ابھار قیامت لگ رہے تھے۔ ٹامی نے  سیماکے قریب آکر اسکے پیروں میں اپنا سر رگڑنا شروع کر دیا۔ اپنے سر کے ساتھ وہ  سیماکے پیر کہ سہلانے لگا۔  سیمانے بھی اپنے دوسرے پیر کے ساتھ کُتے کے سر کو سہلانا شروع کردیا۔ بڑے ہی پیار سے اسکے سر پہ اپنا پیر پھیرنے لگی۔ ٹامی نے اسکے پیار بھرے انداز کو دیکھا تو خوش ہو کر وہ  سیماکے پیر  کو اپنی لمبی گلابی زبان نکال کر چاٹنے لگا۔  سیما کے پیر کے تلوے کو جب ٹامی نے اپنی زبان سے چاٹنا شروع کیا تو  سیماکو ہلکی ہلکی گُدگُدی ہونے لگی اور اُسکے ساتھ ہی مزہ بھی آنے لگا۔ ٹامی کی نرم نرم  زبان کبھی  سیما کے تلوے کو چاٹتی تو کبھی پیر کے اوپر کے حصے کو چاٹنے لگتی۔ بڑے ہی پیار اور جوش کے ساتھ ٹامی  سیماکے پیر کہ چاٹ رہا تھا جیسے کے اسکے پیر پہ کوئی شہد لگا ہو جسے چاٹنے میں اسے مزہ آرہا ہو۔ لذت کے مارے  سیماکی توجہ بھی اب ٹی وی پر سے ہٹ چکی تھی اور وہ بھی ٹامی کہ ہی دیکھ رہی تھی اور اسکے سر کہ سہلارہی تھی اپنے پیر کے ساتھ۔ ٹامی بھی کبھی  سیماکے ایک پیر کو  چاٹتا اور کبھی دوسرے پیر کہ چاٹنے لگتا۔ دھیرے دھیرے اسکی زبان  سیماکے پیر سے اوپر کوجاتی ہوئی اسکی گوری گوری ٹانگ کے نچلے حصے کو چاٹنے لگی۔ وہاں اس نے اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی۔
ٹامی کی لمبی کھردری گلابی زبان جیسے جیسے سیما کے پیروں اور ٹانگ کے نچلے حصے کو چاٹتی جاتی تو ویسے ویسے ہی اٗسے مزہ آنے لگا۔ پہلے پہل تو وہ اسے ٹامی کا روز کا کام ہی سمجھ رہی تھی اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی تھی مگر دھیرے دھیرے سیما کو بھی مزہ آنے لگا  ۔۔۔۔۔ اچھا لگنے لگا۔ ۔۔۔ اسکی توجہ ٹی وی کی طرف سے ہٹ کہ اب صرف اپنے کُتے کی زبان سے ملنے والی لذت کی طرف ہی تھی۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ ٹامی کی زبان اور اوپر کو آتی جائے اسکے جسم کو چاٹتی ہوئی۔ ۔۔ ٹامی بھی آہستہ آہستہ سیما کے جسم کے ننگے حصوں کو چاٹتے ہوے آگے بڑھ رہا تھا۔ ۔۔ اسکی لمبی گیلی زبان اپنے تھوکے کے ساتھ سیما کی ٹانگوں کو گیلا کر رہی تھی۔۔۔ جہاں جہاں سے وہ چاٹتا جاتا تھا وہاں وہ اسکے جسم کو گیلا کرتا جا رہا تھا۔۔۔۔ سیما کو بھی برا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔ بلکہ اس طرف تو اُسکا دھیان ہی نہیں تھا کہ کُتے کے منہ کا تھوک اسکے جسم کو گیلا یا گندہ کر رہا ہے۔۔۔ اسے تو بس اپنے مزے کا ہی احساس تھا بس۔۔۔۔۔۔ جو اس کتے کی زبان سے مل رہا تھا۔۔۔۔۔
ٹامی کا منہ اب سیما کی ننگی رانوں تک پہنچ رہا تھا۔۔ اس نے اپنی لمبی زبان کے ساتھ سیما کی گوری گوری چکنی ننگی ران کو چاٹنا شروع کردیا۔۔۔۔ سیما نے خود ہی اپنی شارٹس کو اپنی ران پہ تھورا اوپر کو سرکا لیا ۔۔۔۔۔  اپنی گوری گوری رانوں کو اور بھی ننگا کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔  اپنے اس کُتے کے لیے ۔۔۔۔۔ جیسے جیسے ٹامی نے سیما کی ننگی رانوں کو چاٹنا شروع کیا ویسے ویسے سیما لذت کے مارے تڑپنے لگی ۔۔۔۔ لذت کے مارے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔۔۔۔ کتے کا جسم اب سیما کے قریب تھا۔۔۔۔ اسکے ہاتھ کے قریب۔۔۔۔ سیما نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسکے جسم پہ رکھا اور اسکے جسم کہ سہلانے لگی۔۔۔۔۔ اسکا ہاتھ تیزی کے ساتھ ٹامی کے جسم پہ حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اسے سہلاتی ہوئی اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔۔۔ جمال خان نے بھی کئی بار اسکے جسم کو چوما اور اپنی زبان سے چاٹا تھا ۔۔۔ مگر جو مزہ سیما کو ٹامی کی زبان سے مل رہا تھا  وہ لذت اسے آج پہلی بار مل رہی تھی ۔۔۔۔  سیما کا ایک ہاتھ اب ٹامی کے سر کو سہلا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ اپنی ران پہ تھا ۔۔۔۔۔۔  ٹامی کی زبان سیما کی رانوں کو چاٹتی ہوئی کبھی اسکے ہاتھ کو بھی چاٹنے لگتی۔۔۔ سیما کو عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ اسے اپنی چوت کے اندر سرسراہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔  ہلکا ہلکا گیلا پن اپنی چوت کے اندر بھی محسوس کر رہی تھی وہ ۔۔۔۔۔  اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایک کتے کی زبان اس قدر لذت دے سکتی ہے ۔۔۔۔ اسے تھورا خوف اور ڈر بھی لگ رہا تھا اس کتے سے کہ کہیں وہ اسے کاٹ نہ لے ۔۔۔۔۔۔۔  مگر اسکے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اسکی زبان سے ملنے والی لذت اسے سب کچھ بھول بھال کہ اسی مزے میں کھو جانے کو کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔  آج سے پہلے بھی ٹامی نے کئی بار سیما کے پیروں کو چاٹا تھا مگر وہ کبھی بھی اسکے پیروں سے آگے نہیں بڑھا تھا پر آج اسکی زبان اسکے پیروں سے آگے اسکی ننگی ٹانگوں سے ہوتی ہوئی اسکی ننگی گوری چکنی رانوں تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔  اور اسکے ساتھ ہی سیما لذت کی بلندیوں  کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔
کُتے کی زبان سیما کی رانوں کے اوپری حصے کو چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔ اسکی چوت کے اردگرد ۔۔۔۔ جیسےابھی کے ابھی اسکی چوت تک پہنچ جائے گی ۔۔۔ مگر اسکی چوت کو تو اسکی پینٹی اور شارٹس نے کوور کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔  اور ان دونوں چیزوں کو اُتارے بنا وہ اپنی چوت کو ٹامی کے سامنے ننگی نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔   سیما کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔ ٹانگیں پوری کُھلی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔۔ پورے کا پورا جسم جھٹکے کھا رہا تھا ۔۔۔۔ کُتے ٹامی کی زبان اسکے پورے جسم میں آگ لگا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔   اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے جسم پر موجود سارے کے سارے کپڑے اُتار پھینکے ۔۔۔  اور ٹامی کی زبان کے لمس کو اپنے پورے جسم پر محسوس کرے ۔۔۔۔۔۔ پورے جسم پر اسکی زبان کو پھروا کرمزے لے ۔۔۔۔۔ ابھی وہ اپنے دماغ میں پیدا ہونے والی اس خواہش کو پورا کرنے یا نہ کنٹرول کرنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ گھر کے اندر کے دروازے کی بیل بج اُٹھی ۔۔۔۔۔ سیما جیسے ہوش میں آگئی ۔۔۔ اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔  ٹامی کو اپنے جسم پر سے پیچھے ہٹایا ۔۔۔۔ وہ بھی بیل کی آواز سے چونک کر چوکنّا ہو چُکا ہوا تھا۔۔۔ سیما نے شرمندہ نظروں سے ٹامی کی طرف دیکھا اور پھر صوفے پر سے اُٹھ کر دروازہ کھولنے کے لیے بڑھ گئی۔۔۔ اسکا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔۔ منہ خشک ہو رہا تھا ۔۔۔۔ دروازہ کھولا تو سامنے خانساماں تھا  ۔۔۔۔ جو کہ کھانا پکانے کے لیے آیا تھا ۔۔۔۔ سیما نے واپس آتے ہوے اسے ٹھنڈا پانی لا کے پلانے کو کہا ۔۔۔۔ اور واپس جا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ اور اپنے سے کچھ دور بیٹھے ہوے ٹامی کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔ خانساماں پانی دے گیا تو وہ آہستہ آہستہ پانی پیتی ہوئی  ٹامی کے بارے میں ہی سوچتی رہی ۔۔۔۔ کہ کسقدر عجیب بات ہے ۔۔۔ کسقدر عجیب لذت اور مزہ تھا اسکی زبان میں ۔۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی  کہ اگر ۔۔۔۔ اگر ۔۔۔ اگر  ٹامی کی زبان اسکی ننگی چوت کو چاٹتی تو اسے کتنا مزہ آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی  اسکے پورے جسم میں ایک جھرجھری سی پھیل گئی ۔۔۔۔ اور چہرہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سُرخ ہو گیا ۔۔۔ ٹامی بھی اپنی جگہ پہ نیچے قالین پر بیٹھا اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ اپنی مالکن کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے اپنے کام کی تعریف چاہتا ہو ۔۔۔۔۔  جیسے کچھ انعام چاہتا ہو۔ ۔۔ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے کتے اور اپنے بارے میں ایسا سوچتے ہوے سیما کو تھوری شرم سی آرہی تھی ۔۔۔ مگر کوئی غلطی ہونے کی شرمندگی نہیں تھی۔۔۔۔ وہ مسکرائی اور ٹامی کی طرف دیکھتی ہوئی اپنے بیڈروم کی طرف بڑھ گئی۔۔
Like Reply
Do not mention / post any under age /rape content. If found Please use REPORT button.


Messages In This Thread
تنہائیوں کا ساتھی ۔ مالکن اور کتے کی چدائی - by hirarandi - 18-05-2020, 03:26 AM



Users browsing this thread: 1 Guest(s)